پروفیسر احمد محفوظ کا نام دنیاے ادب میں محتاج تعارف نہیں۔احمدمحفوظ کی شخصیت متنوع ہے۔ وہ ادبی حلقوں میں عہد حاضر کے سنجیدہ محقق، نقاد، ماہر عروض اور ایک اہم شاعر کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔احمد محفوظ کا تعلق صوبۂ اتر پردیش کے ضلع الہ آباد(موجودہ پریاگ راج) سے ہے۔ فی الحال تقریباً دو دہائیوں سے درس و تدریس کے سلسلے میں دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ ملک کی مایۂ ناز دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبٔہ اردو میں صدارت کے اہم منصب پر فائز ہیں۔پروفیسر احمد محفوظ نے زمانۂ طالب علمی ہی سے اپنا ر شتہ قلم سے استوار رکھا۔ شاعری کا شوق ان کی رگ و پے میں اوائل عمر ہی سے تھا۔ خوبیِ قسمت سے انھیںالہ آباد میں حصول تعلیم کے دوران لائق و فائق اساتذہ میسر ہوئے، جنھوں نے ان کے شعری ذوق کی مزیدآبیاری کی۔اس سلسلے میں بالخصوص کلاسکیت کے رمز شناس،جدیدیت کے راہ پرداز، مستند اور معتبر نقاد شمس الرحمن فاروقی سے احمد محفوظ نے براہ راست کسب فیض کیا۔ تاہم احمد محفوظ نے فاروقی صاحب کے نام کو اپنی بیساکھی نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنی خود اعتمادی اور مسلسل محنت سے کائنات شعر و ادب میں اپنی دنیا آپ سنواری۔
زیر مطالعہ شعری مجموعہ ’’غبار حیرانی‘‘ پروفیسر احمد محفوظ کی غزلوں کا حسین گلدستہ ہے۔ اس کا دل کش عنوان پہلی نظر میں قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہ عنوان ا نھی کے ایک مصرعے ’’حصول کچھ نہ ہوا جز غبار حیرانی ‘‘سے ماخوذ ہے۔ابتدا میں ایک حمد اور دو نعتیں شامل ہیں۔شعری مجموعے کے آخر میں احمد محفوظ نے ، فاروقی صاحب کے حسب آرزو اور علامہ اقبال کے فارسی شعری مجموعۂ کلام”پیام مشرق” کی اتباع میں "خردہ” کے عنوان سے چند متفرق اشعار قلم بند کیے ہیں۔اس طرح انھوں نے ادب کی دونوں یکتاے روزگار شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
بلا شبہ ’’غبار حیرانی‘‘احمد محفوظ کی برسوں کی ریاضت کا ثمرہ ہے۔ مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک لفظ پر خاصی محنت اور جگر سوزی کی گئی ہے۔ احمد محفوظ نے جو کچھ لکھا ہے وہ صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر لکھا ہے۔ انھوں نے شاعری کو ذریعۂ شہرت نہیں بنایا بلکہ تسکین خاطر اور ناموس شاعری کی پاسداری کے لیے تخلیقی اظہار کے اس مشکل وسیلے کو منتخب کیا ۔یہی سبب ہے کہ ان کی غزلوں میں جذبے کی صداقت، احساس کی شدت اور اظہار کی تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کی شہادت انھیں کے ایک شعر سے ملتی ہے :
اک دل کے تقاضے کی ہی تکمیل ہے ورنہ
کیا عرض ہنر کیا سخن آرائی ہماری
بنیادی طور پر ’’غبار حیرانی‘‘ روایتی اور جدید شاعری کا دل کش سنگم ہے۔ جو سرشاری اور دل سوزی کلاسیکی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے اسی رچاؤ اور فضاکااحساس ’’غبار حیرانی‘‘کی غزلوں سے بھی ہوتا ہے۔غزل کی شاعری بنیادی طور پر مضمون کی شاعری ہے اور یہاں یکسر نیا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غزل گوئی محض پامال راہوں سے گزرنے کا نام ہے بلکہ یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ مضمون آفرینی بمنزلۂ استعارہ ہے۔اور استعارہ تحسین کلام کا ذریعہ ہے۔یہ بھی قابل غورہے کہ کلام میں نیا لفظ شامل کرنا یا الفاظ کی نئی ترتیب بھی تازگی کا ضامن ہوتی ہے۔لہذا یکسر کچھ نیا نہ ہونے کے باوجودیہاں بہت کچھ نیا ہوتا ہے۔یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ کلام میں نیا لفظ شامل کرنا یا الفاظ کی نئی ترتیب وضع کرنا تخلیقی ذہن کی غیر معمولی کار کردگی ہے۔لہذا ’’غبار حیرانی‘‘ میں مضامین وہی ہیں جو ہمارے قدیم شعرا نے باندھے ہیں لیکن اظہار بیان کی جدت ،الفاظ کے تخلیقی استعمال کا جو شعور اور سلیقہ اس کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہی تازگی کا ضامن ہے۔ بطور نمونہ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری
مدت ہوئی کچھ بھی نہ خبر آئی ہماری
اس راہ سے ہم بچ کے نکل آئے وگرنہ
بیٹھی تھی کمیں گاہ میں رسوائی ہماری
دل بیٹھنے لگتا ہے یہی سوچ کے اب بھی
پھر رات طبیعت نہیں گھبرائی ہماری
’’غبار حیرانی‘‘ میں ڈکشن کا کمال بھی فنی اعتبار سے بدرجۂ اتم ہے۔ یہ شاعر کی زبان و بیان پر قدرت اور غور و فکر کا نتیجہ ہے ۔ڈکشن کے معنی لفظ نہیں بلکہ لفظوں کے استعمال میں آتا ہے اور الفاظ کا خلاقانہ استعمال وہی شخص کر سکتا ہے جو لفظ کے مزاج سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو۔خیال کے ساتھ الفاظ کے تخلیقی استعمال پر بھی شاعرکی کامیابی و ناکامی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں ہمارے عہد کے دیانت دار محقق اور معتدل نقاد پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے نہایت اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
اصل اصول یہ ہے کہ شاعرانہ انفرادیت کی بنیادیں شاعر کے تجربات و محسوسات اور الفاظ کے طریقۂ استعمال پر قائم ہوتی ہیں،اور شاعر بڑا ہو یا چھوٹا ،اس کے لب و لہجے کی شناخت اور قدرو قیمت کے تعین کے لیے یہی دو پیمانے معیاری اور مثالی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ (ظفر احمد صدیقی،انتخاب مومن،تیسرا ایڈیشن اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ،۲۰۱۵،ص ۷)
ہوتا یہ ہے کہ عام طور پر ہر شاعر کو انفرادیت کی سند سے نواز دیا جاتا ہے لیکن شاعرانہ اصول و معیار کی نشاندہی کی طرف توجہ کم کی جاتی ہے۔میں کوشش کروں گا کہ دیگر شعری خوبیوں کے ساتھ مذکورہ دونوں اصولوں کی روشنی میں سلسلۂ کلام جاری رہے۔لفظ کے تخلیقی استعمال کے ضمن میں دو شعر نقل کرنے پر اکتفاکرتا ہوں ؎
جب دیکھو اسی یاد کے نرغے میں پڑے ہو
یہ حال اگر ہے تو بھلانا ہی نہیں تھا
… … …
ہم کو آوارگی کس دشت میں لائی ہے کہ اب
کوئی امکاں ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا
شعری زبان ،عام زبان کے بالمقابل الفاظ میں ،جس توانائی اور قوت کا تقاضاکرتی ہے،درج بالا اشعار میں ہر لفظ اسی توانائی اور قوت کا حامل ہے۔سر دست میں صرف دوسرے شعر کے ایک لفظ "امکاں” پر توجہ کا طالب ہوں۔شاعر نے جس سلیقے سے لفظ ’’امکاں‘‘ کا استعمال کیا ہے اس کی داد الفاظ میں نہیں دی جاسکتی۔ مناسب لفظ کے بر محل استعمال سے یہ لفظ گویا گنجینۂ معنی کا طلسم بن گیا ہے۔اس سے پہلے لفظ ’’کوئی‘‘ کی نشست نے معنی میں مزید زور پیدا کردیا ہے۔ ’’امکاں‘‘کی جگہ کوئی اور لفظ لاکر دیکھیں، مصرع تو مکمل ہو جائے گا لیکن معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوگی۔ مثلاً
ع کوئی رستہ ہی نہیں لوٹ کے گھر جانے کا
وزن اور شعر کی تاثیر اب بھی برقرار ہے لیکن تنگیِ معنی کا احساس ہوتا ہے۔ حالانکہ’’ امکاں ‘‘ اس وقت تک رہتا ہے جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے لیکن یہ شاعر کی شدت احساس، وسعت مطالعہ اور خود اعتمادی کی دلیل ہے کہ جس نے امکاں کی نفی پر شاعر کو مجبور کردیا ۔اسی طرح لفظ آوارگی ،کس دشت اور لانا کا معاملہ ہے۔اگر ہم ’’ اس دشت ‘‘ کہیں تو معنی محدود اور خبریہ پیرایہ بیان ہوجائے گا۔جب کے خبر کے مقابل انشائیہ میں تازگی زیادہ ہوتی ہے۔پہلے شعر میں شاعر نے لفظ’’یاد‘‘ کے ساتھ جو ‘‘نرغے ‘‘ کا موزوں استعمال کیا ہے اس سے شعر کے مفہوم اور تاثیر دونوں میںاضافہ ہوگیا ہے اور شاعر کی زبان و بیان پر دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔کسی حد تک اسی مضمون کا عمدہ شعر ساقی فاروقی نے بھی کہا ہے ،جس میں بلا کی کیفیت اور حافظے کا حصہ بننے کی صلاحیت ہے ۔البتہ اس میں اتنے معانی کا امکان نہیں جتنا احمد محفوظ کے شعر میں ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ساقی فاروقی کے شعر کو نقل کردیا جائے:
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
بلا شبہ شعرو ادب کی لطیف و نازک وادی میں اپنی منفرد شناخت قائم کرنا غیرمعمولی بات ہے۔ یہ انفرادیت شاعر کو اس کے مخصوص لہجے سے حاصل ہوتی ہے ۔لہجے کو انداز بیان بھی کہتے ہیںاور انداز بیان کی جادوگری الفاظ کی نظم و ترتیب سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے شاعری میں انداز بیان کی بڑی اہمیت ہے۔خیالات تقریباً سب فرسودہ ہوتے ہیں لیکن شاعر کا لب و لہجہ ہے جو عام مضمون کو بھی اس رنگ سے باندھتا ہے کہ جس سے شاعری ساحری کی سرحدوں کو چھو لیتی ہے۔احمد محفوظؔ کا لہجہ غضب کا ہے۔ ان کے لہجے میں بلا کی نرمی ، سادگی، اور آہستگی کا احساس ہوتا ہے۔وہ خالق حقیقی سے کوئی سوال یا گلہ بھی کرتے ہیں تو ایسا پیرایہ ٔ بیان اپناتے ہیں کہ مطلب بھی ادا ہوجائے اور ادب بھی ملحو ظ رہے۔اس ضمن میں دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
کھلتی نہیں ہے یا رب کیوں نیند رفتگاں کی
کیا حشر تک یہ عالم سویا پڑا رہے گا
یکسر ہمارے بازو شل ہوگئے ہیں یا رب
آخر دراز کب تک دست دعا رہے گا
دونوں اشعار میں خالق حقیقی سے خطاب کرتے ہوئے اداے مطلب کس بے کسی اور عاجزانہ انداز میں کیا ہے۔اسی کو شاید پیرایۂ بیان کا اعجاز کہتے ہیں۔انداز بیان کی یہ خوبی برسوں کی ریاضت کے بعد شعرا کو حاصل ہوتی ہے۔ شاعر نے دعا کے عام مضمون کو اس منفرد انداز میں باندھا ہے کہ شعر صحیح معنوں میں جاذبیت کی جلوہ گاہ بن گیا ہے۔
ہر شاعر کے کچھ کلیدی الفاظ ہوتے ہیں اسی طرح احمد محفوظ نے کچھ مخصوص الفاظ مثلا شہر،گھر، موج،دریا ،ساحل اور خاموش دریا وغیرہ کا کثرت سے اس طرح خلاقانہ استعمال کیا ہے کہ اشعار کا حسن دوبالا ہوگیا او رمعانی میں بھی وسعت پیدا ہوگئی ۔اس قبیل کے اشعار ملاحظہ کیجیے:
مرا ہی شہر مجھ کو بھول بیٹھا
میں برسوں بعد کیا لوٹا سفر سے
… … …
ہم لوگ اسی امید میں گھر سے نکل آئے
صورت کوئی ممکن ہے سفر سے نکل آئے
… … …
سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظ
تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
کیا کہوں خاموش دریاسے میں پانی کے لیے
موج ہی راضی نہیں کوئی روانی کے لیے
… … …
جانتا ہوں ان دنوں کیسا ہے دریا کا مزاج
اس لیے ساحل سے تھوڑا فاصلہ رکھتا ہوں میں
اب ہم دوسرے اصول یعنی تجربات و محسوسات اور مضامین کے لحاظ سے ’’ غبار حیرانی ‘‘ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اس نوعیت سے جب ہم زیر بحث مجموعے کی ورق گردانی کرتے ہیں تو اس میں ہمیں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔بالخصوص عشق، معاملات عشق،حیات و کائنات کے مسائل اور عام انسانی صورت حال کے مضامین زیادہ ملتے ہیں۔ظاہر ہے یہ روایتی مضامین ہیں لیکن شاعر نے انھیں جدید رنگ میں پیش کیا ہے۔آئندہ سطور میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
’’غبار حیرانی‘‘ کے خالق نے عشق اور معاملات عشق کے تجربات کوبڑی خوش اسلوبی سے شعری قالب میں ڈھالا ہے۔جذبۂ عشق سے متعلق مختلف نظریات ہیں۔ تمام اہل نظر اس بات پر متفق ہیں کہ جذبۂ عشق کی بدولت انسان ایسے مراحل کو بآسانی عبور کر لیتا ہے جہاں عقل سوچ و فکر میں غوطہ زن ہوتی ہے ۔ جذبۂ عشق کے سبب ہی انسان زمانے کے تمام رنج و غم اٹھالیتا ہے ،اس خیال کو شاعر نے کس خوش اسلوبی سے شعری لباس پہنایا ہے ملاحظہ کیجیے:
سہارا عشق زور آور نے خود ہی دے دیا ورنہ
کہاں ہم اور کہاں طاقت یہ کوہ غم اٹھانے کی
معاملات عشق میں حسن و عشق کی تمام کیفیات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معشوق کے مسلسل ظلم و ستم اور بے اعتنائی سے عاشق پر کیا گزرتی ہے ؟ وہ عشق میں ناکام یا نقصان اٹھا کر کن حالات سے دو چار ہوتا ہے ؟ ان تمام کیفیات کی اشعارکی صورت میں دل کش تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مزید اشعار دیکھیے:
اب یہ دھن چھوڑ بھی دو اس کو کہاں پاؤگے
گھر چلو ورنہ کہیں اور نکل جاؤگے
ناخن عقل سے کب عقدۂ دل کھلتا ہے
چھوڑ دو ورنہ تمھیں اس میں الجھ جاؤگے
… … …
ہمیں بھی خاک ہونا ہے وہاں تک
جہاں تک آسماں پھیلا ہوا ہے
میں جس سے خود کنارہ کر چکا تھا
مقابل پھر وہی دریا ہوا ہے
ابھی کیا جان کی بازی لگائیں
ابھی نقصان ہی کتنا ہوا ہے
… … …
کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی
تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا
… … …
وہ شخص جسے سوچ کے آنکھوں میں کٹی رات
محفوظؔ اسے دھیان میں لانا ہی نہیں تھا
… … …
اقرار کی دکھا کوئی صورت کہ اے خدا
منھ پھیر کر وہ بیٹھے ہیں انکار کی طرف
… … …
اسے بھلایا تو اپنا وجود بھی نہ رہا
کہ میرا سارا اثاثہ اسی مکان میں تھا
’’غبار حیرانی‘‘ میں حیات و کائنات کے مسائل کوبھی شعری پیکر میں نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا گیا ہے۔ شاعر اپنے مشاہدے یا معاشرے کے جن تجربات سے دو چار ہوتا ہے، انھیں اپنے وہم کے زور پر تخیل کے امتزاج سے شعرکی ایسی صورت گری کرتا ہے کہ شعرجگ بیتی معلوم ہونے لگتاہے۔مثال کے طور پر معاصر صورت حال یانئی حسیت کی شعری صورت ملاحظہ کیجیے:
کسی کو وسعت دریا میسر
کوئی اک قطرۂ شبنم کو ترسے
… … …
رکو تو ہر قدم پر مرحلہ ہے
چلو تو مرحلہ کوئی نہیں ہے
… … …
کئی راہیں نظر کے سامنے تھیں
عجب مشکل میں تھے جاتے کدھر سے
……
دنیا سے گزرجاتے ہیں دنیا کی طلب میں
دنیا سے ہمیں کوئی شکایت نہیں رہتی
… … …
جس میں ہر ایک موڑ پہ کتنے ہی پیچ تھے
دانستہ ہم نے راہ وہی اختیار کی
’’غبار حیرانی‘‘کی غزلوں میں فکر اور فن دونوں کا دل کش امتزاج پایا جاتا ہے۔اشعار میں فکر کی گہرائی و گیرائی کے ساتھ فن کی باریکی اور چاشنی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ مجموعے کی ورق گردانی سے یہ حقیقت افشا ہوتی ہے کہ ’’غبار حیرانی‘‘میں عشق مجازی کی نیرنگیوں کے ساتھ عشق حقیقی کی شفافیت، حیات و کائنات کے حقائق اور عام انسانی صورت حال کو نہایت سادہ اور دل نشیں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس حوالے سے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں ؎
کل گریۂ پیہم نے مری جان بچائی
میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا
… … …
تیرے ہی نور ہدایت کی جھمک ہے ان میں
ماہ و انجم بھی سمجھتے ہیں اشارہ تیرا
کیا بیاں ہوسکے عالم تری محبوبی کا
جب خدا خود ہی ہوا چاہنے والا تیرا
پہلے شعر میں جو نفسیاتی نکتہ پیش کیا ہے اس سے شاعر کی وسعت مطالعہ اور انسانی نفسیات سے واقفیت ظاہر ہوتی ہے۔جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ رونے سے ذہنی دباؤ میں تخفیف ہوتی ہے اور انسان راحت محسوس کرتا ہے۔ بقیہ دونوں اشعار میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبوبیت اور ان کے کمال کا شاعر نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔
اس امر پر تمام ناقدین ادب کا اتفاق ہے کہ اعلا شاعری زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ایسے کئی اشعار زیر نظر مجموعے میں شامل ہیں جو آفاقیت کے درجے کو پہنچ گئے ہیں ۔بطور نمونہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
لگ گئے رنگ ہنر سب ایک ہی تصویر میں
پھر کوئی صورت نہ نکلی نقش ثانی کے لیے
… … …
سب کو اپنی اپنی پڑی تھی پوچھتے کیا
کون وہاں بچ نکلا اور کون ہلاک ہوا
زبان و بیان کے اعتبار سے ’’غبار حیرانی‘ـ‘کی زبان نہایت سادہ ،سلیس اور شگفتہ ہے۔روز مرہ اور محاوروں کا التزام کیا گیا ہے۔تشبیہات و استعارات کے موزوں استعمال سے کلام کا حسن بالیدہ ہوگیا۔ ایجازو اختصار کا پیرایۂ بیان حسن کلام کا باعث ہے۔ شاعر نے دقیق مضامین کو بھی چھوٹی چھوٹی بحروں میں اس طرح با ندھا ہے کہ دریا کوزے میں سمٹ آیا۔ زبان کی سادگی اور شگفتگی سے غزلوں میں سلاست و روانی پیدا ہوگئی ہے۔ اشعار ملاحظہ کیجیے :
دیکھے جو ایک بار رخ یار کی طرف
پھر عمر بھر نہ جائے وہ گلزار کی طرف
اپنی جگہ سے ہم نہیں اٹھے یہ سوچ کر
دل ہے تو خود ہی جائے گا دلدار کی طرف
رحمت تری سہارا بنی ورنہ حشر میں
کوئی نہیں تھا مجھ سے گنہگارکی طرف
… … …
یہ کیا کے سب کے ساتھ ملاتے ہو خاک میں
کچھ توکرو خیال مرے امتیاز کا
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شعرگوئی کا فن جن اصو ل و معیار کا متقاضی ہے ان پر یہ شعری مجموعہ مکمل اترتا ہے۔فن پارہ بصارت سے زیادہ بصیرت کا رہین منت ہوتا ہے۔بلا شبہ احمد محفوظ نے ایک ایک لفظ کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔شعر کے وجود میں آنے کے بعد بھی وہ اسے خوب سے خوب تر بنانے کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔راقم کے خیال میں "غبار حیرانی” کو جدید اردو شاعری کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس مجموعے میں ایسے بہت سے غیر معمولی اشعار شامل ہوگئے ہیں جو احمد محفوظ کے نام کو دنیاے شعر و ادب میں محفوظ رکھیں گے۔بقول شاعر
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق ؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
Mohammad Nazim
Research scholar
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi
Mob; 7037668786
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ مضمون۔احمد محفو ظ صاحب کی شاعری کا مکمل تعارف پیش کیا گیا ہے ۔