عہدِ حاضر میں نہایت منظم طریقہ سے اُردو زبان کو مسلمانوں سے منسوب کئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش بڑی حد تک کارگر بھی نظر آرہی ہے۔ہم اس کی تردید کریں یا نہ کریں مگر اُردو زبان کی سیکولر شناخت کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا جب تک ہندی بھاشا اور دیگر ہندوستانی زبانوں کا وجود رہے گا۔ در اصل اُردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ مشترکہ تہذیب اور ملے جُلے کلچر کی علامت ہے ۔
امیر خسروؔ، عبدالرحیم خانِ خاناں ، ملک محمد جائسی ، رسکھان ، انشا اللہ خاں انشاؔ جیسے مسلم ادبا و شعرا نے ہندی زبان و ادب کے فروغ کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کیا کوئی شخص روزِ روشن کی طرح عیاں اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے؟ پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ، دیا شنکر نسیمؔ، منشی پریم چندؔ، برج نرائن چکبستؔ، منشی نوَل کشور، دیا نرائن نگم، تلوک چندمحرومؔ ، جگت موہن لال رواںؔ، شیام موہن لال جگر ؔبریلوی، فراق ؔ گورکھپوری، درگاسہائے سرورؔ جہان آبادی ، گووند رشکؔ، دِ واکر راہی،لبھّورام مکند جوشؔ ؔملسیانی، بال مکند عرشؔ ملسیانی، سدا سکھ نثارؔدہلوی، کرشن بہاری نورؔ، کرشن مراری سہگل جیسے بے شمار ہندو ادبا ، شعرا ، صحافیوں ، دانشوروں نے اردو زبان و ادب کو بام عروج پر پہنچانے کے لئے جو کوششیں کی ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ غیر مسلم ادبا ، شعرا، اور دانشوروں کی بے شمار نگارشات دلالت کرتی ہیں کہ اردو زبان کا تعلّق جس قدر مسلمانوں سے ہے اس سے کہیں زیادہ عام ہندوستانیوں اور بالخصوص ہندوؤں سے ہے۔
مَیں اس بات کو بہ بانگ دہل اور علی الاعلان کہہ رہا ہوں کہ اردو زبان صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت ہی نہیں ہے بلکہ مذاہب کے باہمی اختلاط و ارتباط ، معاشرتی اتحاد، فراخ دلی، لسانی تہذیب، رواداری اور وسیع المشربی کی زندہ مثال بھی ہے۔ اس زبان کی تشکیل و تعمیر میں سیکولر ذہن کے ہندو ، مسلم اور دیگر مذاہب کے ادبائ و شعرائ نے جو کردار ادا کیا ہے اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس زبان کے شیدائی شعرا نے جہاں اپنے مذاہب سے متعلّق بزرگوں اور پیشواؤں کی مدح کی ہے اور گُن گائے ہیں وہیں دیگر مذاہب کے رہنماؤں اور بزرگوں کی شان میں قصائد بھی لکھے ہیں اور پُر خلوص نذرانۂ عقیدت بھی پیش کئے ہیں۔ انہوں نے شعری تخلیقات کے ذریعہ ایک دوسرے کے مذاہب کے پیشواؤں ، تقریبوں، تیوہاروں ، عقائد وغیرہ سے متعلق وسیع المشری کا ثبوت بھی دیا ہے۔
ہندو شعرا نے حمد ، نعت، منقبت، سلام، مراثی وغیرہ کے ذریعہ نہ صرف باہمی اتحاد ، ہم آہنگی اور یگانگت کو فروغ دینے کا قابل ستائش کارنامہ انجام دیا ہے بلکہ مندر ، مسجد، کلیسا، کعبہ، دیر، حرم، سلام، کفر، تسبیح ، زنّار، شیخ، برہمن، اسلام، کاشی، متھرا، زم زم، گنگا جل جیسے علامتی الفاظ کے استعمال سے ایسی ہم آہنگی عطا کی ہے جسے کبھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیوض صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے ۔ وہ رحمت اللعالمین ہیں ، وہ بلاتفریق مذہب و ملّت تمام انسانوں ، ذی روح، مخلوقات اور تمام عالمین کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار غیر مسلم اور بالخصوص ہندو شعرا نے بارگاہِ رحمت اللعالمین میں نعت کی شکل میں اپنی عقیدتوں کے نذرنے پیش کئے ہیں۔ بعض غیر مسلم نعت گو شعرا نے عشقِ رسول سے سرشار ہوکر ایسے اشعار کہے ہیں جنہیں سنتے یا پڑھتے وقت جسم تو جسم روح میں بھی لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ محترمی دھرمیندرناتھ نے ’’ہندو شعرا کی نعت گوئی‘‘کے نام سے ایک نعتیہ مجموعہ ترتیب دیا ہے جس میں 400 سے زائد ہندو شعرا کے تذکرے کے ساتھ ان کے کہے ہوئے نعتیہ کلام کی شمولیت ہے۔ بطورِ مثال چند غیر مسلم نعت گو شعرا کے چند ایسے اشعار پیش نذر ہیں جو حضور کے شمائل ، فضائل وخصائل کے عکاس بھی ہیں اور محبوبِ خدا سے والہانہ عشق و عقیدت کا اظہاریہ بھی ہیں ؎
ہم درودِ پاک پڑھتے جائیں تو اپنی صدا
نام لے لے کے رسولِ دوجہاں تک جائے گی
ہے کس قدر پارسؔ کو بخشا نعت گوئی کا شرف
یہ خبر ایک روز تو سارے جہاں تک جائے گی
قرآن سے حدیث کے پیکر نکال کر
ہم کو حضور دے گئے گوہر نکال کر
میں ہندو ہوں مجھے آقا نے الفت سے نوازاہے
مِرے جیسا کسی کا بھی مقدر ہو نہیں سکتا
(تِلک راج پارسؔ)
٭
محمد ایک فرقہ کے نہیں ہیں
محمد سب کے ہیں اور با لیقیں ہیں
جس حُسن پہ ہوجائے فداحسنِ حقیقت
معراج کی منزل میں ہے وہ حسنِ بشر بھی
جبین ِ ادب خود جھکی جارہی ہے
قریب آرہا ہے تِرا آستانہ
(کنور سورج نرائن سنہاادبؔ سیتاپوری)
٭
اپنے کوچہ کی فقط مجھ کو گدائی دے دے
کیا کروں گا مَیں بھلا تختِ سلیماں لے کر
سر بسر جب کہ محمد تھے خدا کا سایہ
غیر ممکن تھا کہ پھر سایے کا سایہ ہوتا
(بُدھ پرکاش جوہرؔ دیوبندی)
رکھتے ہیں نہاں دل میں جو ارمانِ محمد
پھر ان پر نہ ہو کس لئے فیضانِ محمد
ہے ذات ِنبی باعثِ تکوینِ دو عالم
کونین کی ہر شے پہ ہے احسانِ محمد
( چندر پرکاش جوہرؔ بجنوری)
٭
خلیق آیا کریم آیا رؤف آیا رحیم آیا
کہا قرآں نے جس کو صاحبِ خلقِ عظیم آیا
وہ آیا جس کو کہئے فخرِ آدم ہادیِ اکرم
وہ آیا جس کو کہئے زندگی کا محسنِ اعظم
(جگن ناتھ آزادؔ)
٭
بے یقینی کے اس اندھرے میں
سب کو ہے آسرا محمد کا
جل اٹھے پھر چراغ منزل کے
بادباں کھل گیا محمد کا
جس طرف سے بھی ہو چلے آئو
ہے ہر اک راستہ محمد کا
کفرکی رات ڈھل گئی پاشیؔ
دیکھ پھر دن ہُوا محمد کا
(کمار پاشیؔ)
٭
ہم کسی دین سے ہوں قائلِ کردار تو ہیں
ہم ثنا خوانِ شہِ حیدرِ کرّار تو ہیں
نام لیوا ہیں محمد کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبورِ پئے احمدِ مختار تو ہیں
عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
(کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ)
درج بالا نعتیہ اشعار کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ دورِ قدیم سے لے کر دورِ حاضر تک کے غیر مسلم اردو شعرا نے بارگاہِ رسالت مآب میں نعتیہ اشعار کے پیکر میں گلہائے عقیدت پیش کرکے وسیع المشربی کا ثبوت ہی نہیں دیاہے بلکہ یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ شیدائے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں۔
ڈاکٹر شریف احمد قریشی
سابق صدر، شعبۂ اُردو
گورنمنٹ رضا پوسٹ گریجویٹ کالج، رام پور(یوپی)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page