سوانح و تعارف
شہریار کا حقیقی نام کنور اخلاق محمّد خاں تھا۔ سرٹی فکیٹ کی روٗ سے وہ ۱۶؍ جون ۱۹۳۶ء کو اُتّر پردیش کے بریلی ضلع، آنولا تحصیل میں پیدا ہوئے۔ بعض ذرایع سے اس بات کی اطّلاع بھی ملتی ہے کہ شہریار کی حقیقی عمر اِس سے ڈیڑھ سال کم تھی۔ ان کے والد پولس سروس میں تھے اور سب انسپکٹر سے ترقی کرکے انسپکٹر آف پولس ہوئے تھے۔ اُن کا نام کنور ابو محمّد خاں تھا۔ ان کی والدہ کا نام بسم اللہ بیگم تھا۔ شہریار نے اپنے خاندانی کوائف بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے اسلاف میں کسی نے لال محمّد فقیر کے سامنے اسلام قبول کیا تھا۔ اسی نسبت سے اس قبیلے کے لوگوں کو لال خانی راج پوٗت کہا جاتا ہے۔ان کے نام میں ’کُنور‘ لفظ کی شمولیت بھی راج پوٗت بالخصوص پرتھوی راج چوہان سے تعلّق کا اشارہ ہے۔ شہر یار کے خاندان میں فوج اور پولس کی ملازمت کا ایک لمبا سلسلہ رہا۔ ان کے پردادا اور دادا، والد اور بڑے بھائی سب کے سب پولس کی ملازمت میں ہی رہے۔ ایک گفتگو کے دوران شہریار نے خود مجھے بتایا تھا کہ ان کے والد کی یہی دِلی خواہش تھی کہ وہ داروغہ بن جائیں اور جب شہریار کے تعلیمی سفر کے راستے مختلف معلوم ہونے لگے تو وہ اس سے خوش نہیں تھے۔
ابتدائی دور میں شہریار اپنے والد کے ساتھ مختلف شہروں میں ان کے تبادلے کے مطابق گھومتے رہے۔ ان کے والد نے محض پینتالیس برس کی عمر میں رضاکارانہ طور پرملازمت سے سُبک دوشی اختیار کر لی۔اس وقت تک شہریار کے بڑے بھائی سب انسپکٹر آف پولس ہو چکے تھے۔ شہریار کچھ دنوں تک اپنے بھائی کے ساتھ بھی رہے۔ پھر۱۹۴۸ء میں والد کے ساتھ یہ خاندان علی گڑھ منتقل ہو گیا۔ سِٹی ہائی اسکول علی گڑھ میں ۱۹۴۸ء میں اُن کا داخلہ ہوا اور ۱۹۵۴ء میں انھوں نے ہائی اسکول امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ۱۹۵۸ء میں بی۔ اے۔ کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں انھوں نے ایم۔ اے۔میں کامیابی حاصل کی۔ ایم۔اے۔ کے رزلٹ سے پہلے وہ انجمن ترقی اردو کے لٹریری سکریٹری ہو گئے تھے جس کے تحت ’ہماری زبان‘ اور ’اردو ادب‘ کی ترتیب میں معاون کے فرائض ان کے ذمّے مقرّر ہوئے۔ ایم۔اے۔ کے دوران وہ انجمن اردوے معلّا کے سکریٹری رہ چکے تھے اور اس طورپر ’ علی گڑھ میگزین‘ کے ایڈیٹر بھی ہوگئے تھے۔ (یہ بھی پڑھیں شہریار کی شاعری (مختصر مطالعہ) – عاتکہ ماہین )
ابتدائی دور میں شہریار کا کچھ کلام ان کے حقیقی نام کنور اخلاق محمّد خاں کے نام سے شایع ہوا۔ بعد میں خلیل الرّحمان اعظمی کے مشورے سے ان کا قلمی نام شہریار مقرّر ہوا جس سے انھیں اردو آبادی اور دنیا کے ہر گوشے میں پہچانا جاتا ہے۔ ۱۹۶۶ء میں شہریار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لکچرر کے طور پر منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۳ء میں ریڈر اور ۱۹۸۷ء میں پروفیسر مقرّر ہوئے۔ ۱۹۹۶ء میں جب وہ ملازمت سے سُبک دوش ہوئے، اس وقت وہ صدر شعبۂ اردو بھی تھے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’اسمِ اعظم‘ کے نام سے ۱۹۶۵ء میں شایع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’ساتواں دَر‘ ۱۹۶۹ء میں ، تیسرا مجموعہ’ہجر کے موسم‘ ۱۹۷۸ء میں، چوتھا مجموعہ ’خواب کا دَر بند ہے‘۱۹۸۵ء میں، پانچواں مجموعہ’نیند کی کرچیں‘ ۱۹۹۵ء میں، چھٹااور آخری مجموعہ’شام ہونے والی ہے‘ ۲۰۰۴ء میں شایع ہوا۔ ۲۰۰۱ء میں ’حاصلِ سیرِ جہاں‘ عنوان سے ابتدائی پانچ شعری مجموعوں پر مشتمل کلّیات کی اشاعت ہوئی۔ سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے ۲۰۰۸ء میں شہر یار کا کلّیات شایع کیا جس میں ان کے چھے مجموعے شامل ہیں۔ ’میرے حصّے کی زمیں‘ عنوان سے شہریار کا ہندی میں منتخب کلام ۱۹۹۹ء میں شایع ہوا۔ شہریار کی وفات کے بعد ان کے باقی ماندہ کلام کو شامل کرکے ۲۰۱۳ء میں ایجوکیشنل بُک ہائوس،علی گڑھ سے ’سوٗرج کو نکلتا دیکھوں‘ عنوان سے اُن کا مکمّل کلام شایع کیاگیا۔ اس کلّیات میں ’شام ہونے والی ہے‘ کے بعد کا کلام ’باقیات‘ کے طَور پر شامل ہے۔
۱۳؍ فروری ۲۰۱۲ء کو علی گڑھ میں شہریار کا انتقال ہوا۔ شہریارکی تین اولادیں ہمایوں شہریار، فریدون شہریار اور ایک صاحب زادی سائمہ شہریار ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں لایعنی ہیں مرگ و زیست : ’زوال کی حد‘:شہریار – ڈاکٹر صفدر امام قادری)
شہریار نے علمی و ادبی حوالے سے ایشیا، یوروپ ، امریکہ اور خلیج کے مختلف ممالک کے اسفار کیے۔ انھیں شاعری کے عالمی اجتماعات میں اردو کی نمایندگی کرنے کے بار بار مواقع حاصل ہوئے۔ رفتہ رفتہ مشاعروں میں بھی ان کے کلام کو اہمیت سے سُنا جانے لگا تھا۔ شہریار نے چار فلموں کے نغمے لکھے۔گَمن، امراو جان، فاصلے اور انجمن- ان فلموں میں شامل شہریار کا کلام عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور انھیں بے پایاںشہرت حاصل ہوئی۔یہ فلمی نغمے حقیقت میں شہریار کی چُنی ہوئی غزلیںہی ہیں کیوں کہ انھوں نے موقعے کے اعتبار سے اپنے کلام کو نغمے کی شکل میں پیش کر دیا تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شہریار کا ادبی اور فلمی کلام کم و بیش ایک ہی معیار کا ہے۔
شہریار :ایک شخصی تاثّر
اسے محض اتّفاق یا خوش قسمتی کہنا چاہیے کہ شہریار کی زندگی کی آخری تین دہائیاں جب وہ قومی و بین الاقوامی بلندیوں تک پہنچے، اس زمانے میں راقم الحروف سے ان کے ذاتی تعلّقات بھی قایم ہوئے۔ پٹنہ ، علی گڑھ، دہلی، لکھنؤ اور پٹیالا میں ان سے پچاسوں ملاقاتیں رہی ہوں گی۔ کبھی ان کے گھر پر ، کبھی ہوٹل اور گیسٹ ہائوس میں یا کبھی مشاعرے یا سے می نار اور ذاتی دعوتوں میں بھی ان کا ساتھ رہا۔ انھیں تنہائی اور بھیڑ دونوں ماحول میں دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ہمارے حلقۂ احباب میں ایسے بہت سارے افراد ہیں جنھیں شہریار کی شاگردی کا شَرف حاصل ہے۔ ان کے حوالے سے بھی شہریار کی شخصیت کے بہت سارے جانے انجانے پہلوٗ ہمارے سامنے آئے۔ شہریار کی شخصیت اور خدمات کے سلسلے سے درجنوں بنیادی نوعیت کے مضامین لکھے گئے جن کے مطالعے سے ان کی شخصیت کے کچھ مزید پہلوٗہم پر واضح ہوتے گئے۔
شہریار کی کم گُفتاری اور داخل پسندی(Introvertness) کے بارے میں اکثر لوگ باتیں کرتے ہیں۔ نئے اور عمومی ملاقاتیوں سے وہ تکلّفانہ رویّہ رکھتے تھے۔ اپنے خوردوں سے وہ کم بے تکلّف ہوتے۔ بہت قریبی شاگردوں سے بھی مکمّل بے تکلّفی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اپنی عمر کے دوستوں کی محفل میں شہریار کی کم گوئی یااُن کا محتاط رویّہ ختم ہو جاتا تھا۔ مخصوص ذاتی محفلوں میں وہ ظاہری دائرے توڑ کر ایک دوسرے شخص کے طور پر سامنے آتے تھے۔ وہاں ان کی خوش گوئی اور گرم گفتاری نصف النّہار پر ہوتی مگر عام محفلوں میں وہ بالکل دوسرے انداز کے آدمی ہوتے تھے۔
شہریار کے سلسلے سے ابتدائی زمانے سے ہی یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ شعر خوانی کے رمز سے آشنا نہیں تھے۔ علی گڑھ اور اس کا شعبۂ اردو جہاں شاعر کی حیثیت سے شہریار رفتہ رفتہ آگے بڑھتے رہے، اس سے بہتر ادبی ماحول کسی شخص کو کہاں مل سکتا تھا؟ رشید احمد صدّیقی، آلِ احمد سروٗر ، معین احسن جذبی، خلیل الرّحمان اعظمی، خورشید الاسلام جیسے لوگ تو خود شعبۂ اردو میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ بزرگوں ، ہم عصروں اور شاگردوں کی ایک کہکشاں وہاں موجود تھی۔ شہریار نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ خلیل الرّحمان اعظمی کی صحبتوں سے پہلے وہ ادب کا یکسر ذوق نہیں رکھتے تھے مگر اس ماحول نے انھیں عالمی شہرت یافتہ شاعر بنایا۔ شعری نشست اور مشاعروں میں شعر کی ادائیگی کا ہنر مندانہ سلیقہ شہریار وہاں نہ سیکھ سکے۔ ایک اُکھڑے ہوئے انداز میں فرض کی ادائیگی کی طرح وہ محفلوں میں شعر پڑھتے تھے۔ ایک زمانے تک فیض احمد فیض کی شعر خوانی پر بھی ایسے تاثّرات پیش ہوتے رہے۔ (یہ بھی پڑھیں غزل- شہریار)
یہ درست ہے کہ شہریار کے شعر پڑھنے کا انداز پُر اَثر نہیں تھا اور شعر کے بنیادی آہنگ سے تال میل بٹھانے پر بھی شہریار کی توجہ نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھی مصرعوں کو اس انداز سے ادا کرتے جیسے معلوم ہو کہ وہ بے وزن کلام ہے۔ شہریار ایسی جگہ وقفہ ادا کرتے کہ سُننے والے کو دھوکا ہو جاتا تھا۔’ امراو جان‘ فلم سے شہریار کی عوامی مقبولیت میں جو اچانک اضافہ ہوا، اس سے ان کے ادب کے سنجیدہ مطالعے کا کچھ الگ سے رجحان پیدا ہوا۔ ہندستان کے بڑے مشاعروں میں انھیں بلایا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ بزرگ ترقی پسند شعرا اپنی طبعی عمر پوری کرکے مشاعروں سے رخصت ہوتے گئے اور شہریار ملک کے چند بزرگ اور معتبر شعرا میں گِنے جانے لگے۔آخری دس پندرہ برسوں کے دوران ہندستان بھر کے جو بڑے مشاعرے ہوئے، ان میں اکثر وبیش تر محفلوں کی صدارت شہریار نے کی۔ اس دوران مختلف سے می ناروں اور طرح طرح کی ادبی تقریبات کا بھی وہ حصّہ بنتے رہے۔ ان کی مقبولیت اور ادبی مقام کا یہ تقاضا تھا کہ پورا ملک اور پوری ادبی دنیا انھیں اپنے پروگراموں میں بہ سَر و چشم استقبال کرتی تھی۔ ملازمت سے سبک دوشی زے بعد شہریار نے اپنی اس تقریباتی زندگی کو بہ اہتمام سنبھالا۔
روز روز کی محفلوں میں شرکت اور مشاعروں میںکلام پیش کرنے کے سبب شہریار کے اندازِ پیش کش میں بھی کچھ فرق پیدا ہوا۔ اس دوران شہریار کی بعض غزلیں اتنی مشہور ہو چکی تھیں کہ ہر محفل میں اِنھی غزلوں کی فرمایش ہوتی اور وہ اپنی یاد سے اس آزمائے ہوئے کلام کو پیش کردیتے۔ رفتہ رفتہ وہ وقفے بھی ختم ہوئے یا کم ہوتے گئے جو غیر ضروری طور پر شہریار کی شعرخوانی کو خراب کرتے تھے۔ شاید یہ بھی ہوا ہو کہ رو ز روز انھیں سنتے ہوئے لوگوں نے بھی اس اُکھڑے ہوئے اور کھُردرے انداز میں بھی کوئی شاعرانہ گُر یا روانی تلاش لی تھی۔ اسی طرح وہ شہریار جو ہمیشہ کسی موضوع پر اظہارِ خیال سے بچتے رہے، اپنی شاعری یا اپنے ہم عصروں کے بارے میں بھی کم سے کم گفتگو کرنا چاہتے تھے مگر اب اُن کی ایک عمومی اور عوامی قبولیت کا جبر تھا کہ انھیں مختلف موضوعات پر الگ الگ طرح کی محفلوں میں کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا تھا۔ اب شہریار کام کی باتیں نپے تُلے انداز میں پیش کرنے لگے تھے۔ مرتَّب طریقے سے گفتار کا شیوہ بہتوں کے یہاں نظر نہیں آتا، وہ شہریار کے یہاں بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے خطبۂ صدارت یا خصوصی خطاب میں کام کی باتوں پر گفتگو کا مدار کھتے تھے۔ سننے والوں پر اس کا اچھّا خاصا اثر بھی ہوتا تھا۔ آخری دَور تک آتے آتے ان کی محفل گزیدگی کم ہوتی گئی اور وہ ضرورت کے مطابق نَپی تُلی گفتگو کرکے سامعین کو مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔
شہریار ایک وضع دار شہری اور بزرگ دانش ور کی طرح آخری وقت تک اپنی سماجی زندگی میں موجود رہے۔ انھیں بڑے بڑے انعامات حاصل ہوئے۔ وہ یوروپ، امریکا اور دنیا کے درجنوں ممالک کی بڑی تقریبات میں اردو داں طبقے کی نمایندگی کرتے رہے۔ اس ادبی اور سماجی اہمیت کو انھوں نے اپنی ذاتی زندگی پر جبر کی طرح قایم نہیں رکھا۔ درس و تدریس کی زندگی نے ان میں ایک میانہ روی اور فقر و اعتدال کی صفت شامل کر دی تھی۔ اس سے ان کی زندگی میں ایک سادگی اور بے پروائی بھی آئی۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کے لیے ہمیشہ جان چھڑکتے رہے۔ شدید علالت کے دوران بھی وہ ایک جمِّ غفیر اورعقیدت مندوں کا حصّہ رہے اور اسی عالم میں ہم سے رخصت ہوئے۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ]
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |