تحقیقی عمل چشم کشا عمل ہے او ر اس کی بدولت انسان ہر لمحے ہر لحظہ اپنے مقام اور مراتب کو بلند سے بلند تر کیے جا رہا ہے۔اگر یاد ماضی عذاب نہ ہو تو کبھی تحقیق عمل مشرق کی پہچان تھا اور علم و عرفان کا سامان پیدا کیا۔یورپ والوں نے اس علم سے فائدہ اٹھایا۔ان کے ہاں علمی لہر وسیع و عمیق سمند ر بن گئی اورہم نے اس روایت کو ترک کیا تو ہم کنارے پر بیٹھے ان کہ منہ دیکھ رہے ہیں۔تحقیق عمل کے آغاز سے ہی اس بات کا احساس ہو جاتا ہے کہ مقالہ نگاری کے لیے مواد کی تلاش کا انداز دیگر نگارشات سے مختلف ہے۔مقالہ نگاری کے لیے درکار مواد کی فراہمی لائبریریوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔دیگر نگارشات درحقیقت ہمارے اپنے ذاتی تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔تحقیقی عمل انتہائی ذمہ دارانہ فعل ہے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تمام معلومات اور خیالات کا سر چشمہ کتاب،رسالہ،جریدہ حتی کہ غیر مطبوعہ مصادر ہوتےہیں۔محقق نے اسے مرتب کرنا ہوتا ہے اور ربط کا رشتہ بنانا ہوتا ہے۔ایک معیاری تحقیقی مقالہ لکھنا کوئی آسا ن کام نہیں ہے۔ایک خاص موضوع پر موجود مواد کی جانچ کرنا،اسے منظم کرنا،مرتب کرنا اور ایک با معنی مواد تشکیل دینا ہوتا ہے۔اگرچہ یہ عمل کافی محنت طلب ہے اور اس کے راستے میں حائل مشکلات بہت زیادہ ہیں،مگر یہ عمل پرلطف بھی ہے۔اور اگر کام کو اچھے انداز میں سر انجام دے لیا جائے تو تسکین حاصل ہوتی ہے۔اور انسان مہارت حاصل کر لیتا ہے اور اپنے موضوع پر گرفت ہونے کی وجہ سے لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔
تحقیقی عمل کے تین لوازمات ہیں
تلاش
مطالعہ
تسوید
موضوع کی تلاش ایک دقیق عمل ہے۔آسان نہیں ہے۔بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔فراہم شدہ معلومات کی مدد سے موضوع کا انتخاب کرنا ،دیکھنے میں آسان لگے گا،لیکن جب کرنے بیٹھیں گے تو مشکل پیش آئے گی۔حصول مواد کی غرض سے موثر طریق کا انتخاب بھی ایک معنی خیز عمل ہے۔مطالعہ کا مقصد صرف سرسری معلومات کا حصول ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایسے مواد کو الگ کرنا اور تفہیم کرنا جو ہمارے لیے ہمارے منتخب موضوع کے مطابق ہو۔اور مفید ہو۔مختلف مصادر اور وسائل کو استعمال کر کے جو مواد جمع کیا گیا ہے اسے منظم کرنا،ترتیب دینا،بڑی ذہانت والا کام ہوتا ہے۔یہ اسلوب کی سی اہمیت کا حامل ہے۔ (یہ بھی پڑھیں انسانی شعور کی منزل – نثار علی بھٹی )
موضوع کا انتخاب:۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ موضوع اور عنوان میں کوئی فرق ہے یا ایک ہی معنی کے حامل ہیں۔موضوع کےلیے انگلش میں جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ "ٹاپک ” ہےجبکہ عنوان کے لیے لفظ "ٹائٹل” استعمال کیا جاتا ہے۔ان میں بہت باریک فرق ہے
ایک طالب علم اپنے مقالہ کے عنوان کا انتخاب کرتا ہے "حضرت حسان بن ثابت بطور شاعر۔ایک تحقیقی جائزہ”یہ تحریر مقالہ کا عنوان ہے۔جبکہ یہ عنوان شاعری سے متعلق ہے اس لیے شاعری اس کا موضوع ہے۔عنوان ایک جز و ہوتا ہے جبکہ موضوع کل کی حیثیت رکھتا ہےاسی طرح عنوان کسی علم یا میدان یا فن ایک جز و یا نکتہ ہو سکتا ہے جبکہ وہ علم /میدان یا فن موضوع ہو سکتا ہے۔
اب سوال ہےکہ موضوع کا انتخاب کیسے کیا جاتاہےموضوع کےانتخاب کے تین طریقے ہیں
محقق بذات خود موضوع کا انتخاب کرے
نگران استاد کی طرف سے موضوع کا انتخاب
شعبہ،ادارہ،جامعہ کی طرف سے منتخب کردہ عناوین پر مقالات لکھوائے جائیں اور انھیں عناوین کو موضوع تحقیق بنایا جائے
موضوع کے انتخاب کے لیے کچھ دیگر ذرائع کا استعمال بھی لایا جا رہاہے
1۔محقق کا ذاتی تجربہ اور معلومات انتخاب موضوع
2۔مشاورت سے موضوع کا انتخاب
3۔تحقیقی مقالات کا مطالعہ بھی عنوان اور موضوع کی تلاش میں معاون ہوتا ہے
4۔میڈیا سے وابستگی اور مسئلہ کا انتخاب موضوع کو جنم دیتا ہے
5۔اخبارات ،رسائل اور جرائد کا مطالعہ بھی موضوع کے انتخاب میں معاون ہوتا ہے
6۔تحقیقی مقالات کی فہارس سے بھی موضوع کے انتخاب میں آسانی ہوتی ہے
7۔اساتذہ و محققین کے محاضرات کو اگر توجہ سے سن لیا جائے تب بھی موضوع کے انتخاب میں آسانی ہو گی۔
موضوع کے انتخاب کے لیے ضروری امور اور شرائط کون سے ہیں۔
عنوان تحقیق جدید اور اچھوتا ہونا چاہیے
جس موضوع پر تحقیق کی جانی ہے اس سے میلان اور رغبت کا ہونا
ایسے موضوع کا انتخاب جس کا مواد وافر مقدار میں فراہم ہو
پہلے سے موجود تحقیقی کام کو مزید جاندا ر بنانے اور معیاری شکل میں پیش کرنے کے اور جدت ادا کےساتھ نتائج کے مرتب کرنے کے لیے ،ایسے مواد کو بھی موضوع بنایا جا سکتا ہے
اگر مواد غیر مطبوعہ صورت میں ہےتو اگر ایسے مواد تک رسائی ممکن ہو تو اسے بطور موضوع منتخب کیجے
اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق موضوع کا انتخاب کیجے
ایسے موضوع کا انتخاب ہر گز نہ کیا جائے،جس سے معاشرتی تصادم اور بگاڑ کا خدشہ ہو
عنوان بہت طویل اور پھیلا ہوا نہ ہونا چاہیے
عنوان صاف اور واضح ہونا چاہیے
ایسے عنوان کا انتخاب مت کیجے جس سے محقق کی ذاتی وابستگی ہو یا جذباتی وابستگی ہے۔
موضوع کے انتخاب کے لیے وقت اور مالی وسائل کو بھی محقق اپنے پیش نطر رکھے
عنوان تحقیق مختصر مگر جامع ہو
مفروضہ کی تشکیل
مفروضہ کا مفہوم کیا ہے
فرضیہ کے لیے مختلف کلما ت کا استعمال کیا جاتا ہے۔مفروضہ،تخمینہ،تعمیم اور نظریہ ۔ی تما م مصطلحات ایک ہی چیز ہیں مگر ان میں باریک فرق بھی قائم ہے۔انگریزی لفظ ہائپو تھیسس ہے۔دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ہائپو اور تھیسز
ہائپو کا مطلب ہے قلیل ،تھوڑا جبکہ تھیسز کامطلب ہے مقالہ
فرضیہ سے مراد وہ معقول تخمینہ و اندازہ ہے جو ایسی دلیل پر مبنی ہوتا ہے جس کا حصول اس فرضیہ کے وضع کے وقت ممکن ہےفرضیہ تحقیق سے مراد کسی مسئلے کے بارے میں محقق کی ابتدائی رائے،اندازہ،اور دانشورانہ قیاس ہے جسے وہ موضوع تحقیق کے انتخاب کے بعد اختیار کرتا ہے۔
مفروضہ کیو ں اہم ہے
فرضیہ نظریہ کی اساس و بنیاد ہوتا ہے۔سائنسی ترقی کا انحصار بھی مفروضات پر ہوتا ہے۔مسائل کی نشاندہی کا بہتریں اور موئژ ذریعہ ہے ۔محقق کے لیے نا معلوم کی دریافت اور وضاحت کے لیے نہایت عمدہ ذریعہ ہے۔فرضیہ محقق کی کوششوں کو زرخیز ذرائع کی جانب موڑتا ہے۔اخذ نتائج میں فریم ورک فراہم کرتا ہے۔فرضیہ تحقیق کے لیے تحریک پیدا کرتا ہے۔مفروضات طریق تحقیق کی نشاندہی کرتےہیں۔حقائق کی تلاش میں معاون ہوتا ہے۔مفروضہ تحقیق عمل میں ہدایت کار اور مرشد کا کردار ادا کرتا ہے۔جدید علوم میں رائج تمام نظریات اپنی ابتدائی شکل میں مفروضے کی حیثیت ہی رکھتےہیں۔فرضیہ معلوم حقائق یا نظریات کے ساتھ مطابقت کا بہترین ذریعہ و آلہ ہے۔مختلف مصادر سے حقائق و خیالات کے چناؤ میں معاون ہوتا ہے۔فرضیہ میں امکانی جوابات کی پیش گوئی ہوتی ہے۔
مفروضہ کی شرائط و ضوابط کیا ہیں
فرضیہ بہت واضح ہو اور اس میں ایجاز بھی ہو
جامع ہونا چاہیے
امتحان کے لائق مطلب جانچا جا سکے
تناقض سے مبر ا و خالی ہو
محدود ہونا چاہیے
معقول ہونا چاہیے
معلوم حقائق و نظریات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو
ایسا ہو کہ اسے غلط یا درست ثابت کیا جا سکے
انداز بیانیہ ہو نہ کہ سوالیہ
علت کو بیان کرنے والا ہو یعنی وہ ایسا تعلق بنائے جس میں وجہ یا علت بیان کی گئی ہو
تحقیقی عمل کو درج ذیل مراحل میں بیان کیا جا سکتا ہے
ابتدائی تحقیق
مصادر کی تلاش
مطالعہ مصادر
اکتساب نتائج
بیان نتائج
مقالہ لکھنے کی تیاری کرنا
مقالہ نگاری
خاکہ سازی
خاکہ سازی کیا ہے۔
جب موضوع کا انتخاب کر لیا جائے اور اس کی تشکیل مکمل ہو جائےتو محقق عملی تحقیق کے میدان میں داخل ہو جاتا ہے۔اسے اب طریقہ کار کا تعین کرنا ہے کہ وہ اپنے تحقیق موضوع سے انصاف کر سکے۔اور اسے مکمل کر سکے۔خاکہ سازی دراصل اسی راستے کےتعین کی ہی صورت ہے۔
خاکہ سازی کےلیے لفظ
Synopsis
کا استعمال کیا جاتا ہے۔یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے۔یہ دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔سن اور اوپسس۔سن کا معنی ہے ایک ساتھ اور اوپسس کا معنی ہے نظر ڈالنالہذا سائنپسز کا معنی ہے ایک ساتھ نظر ڈالنا۔اردو ادب میں تحقیق مقالہ جات کے ابتدائی خدوخال کو خاکہ کہا جاتا ہے۔یہ تسوید سے پہلے کا مرحلہ ہے۔خاکہ سازی مطالعہ سے پہلے کی جاتی ہے۔بعض اوقات پس منظری مطالعہ کے بعد بھی کیا جاتا ہے۔
مقالے کی تسوید کےلیے خاکہ لازم ہے۔اس کے کے بغیر تسوید کے کام کا ہونا نا ممکن سا لگتا ہے۔انتخاب موضوع کے بعد تحقیق کار اپنے مقالے کے بنیادی اور نمایاں حصوں کو الگ الگ کر کے ایک ترتیب دے لیتا ہے ۔اس سے کم سے کم اسے یہ معلوم پڑتا ہے کہ وہ قاری کو کیا کہنا چاہ رہا ہے۔مواد کی فراہمی کے بعد مواد کا الگ الگ کرنے میں بھی خاکہ معاون ہوتا ہے
خاکہ سازی کے دو مراحل ہیں
موضوع کی تلاش اور انتخاب کے بعد اور مواد کی تلاش و جمع و فراہمی سے پہلے
مواد کی تلاش اور جمع و فراہمی و جانچ کے بعد اور تسوید سےپہلے
مطالعہ سے قبل خاکہ سازی کا عمل زیادہ مفید رہے گا۔مطالعے کے تقاضوں کے پیش نظر بعد میں ادل بدل ہوتا رہتا ہے۔اکثر اوقات تسوید کے دوران بھی نقش آخر میں تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔خاکہ سازی کے ابتدائی مرحلے میں ابتدائی کتابیات بھی مرتب کر لی جاتی ہے
پروفیسر محمد عارف خاکہ سازی کی ضرورت سے متعلق لکھتے ہیں
"تعارفی پیرا گراف کے بعد آپ کا اگلا کام مقالے کا ڈھانچہ کھڑا کرنا ہے۔آپ کے سامنے میز پر بکھرے ہوئے مواد کو کنٹرول کرنےکےپیش کرنے نظر ،خاکہ وضع کر لینا ضروری ہے۔خاکہ سازی کئی مراحل میں ہوتی ہے۔آخری مرحلے میں یہ مقالے کے مکمل منصوبے کے حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔جہاں پر ایک نوٹ کارڈ کو اس کا موزوں ترین موقع محل میسر آجات ہے”
ڈاکٹر ش اختر خاکہ سازی میں نگران کی شمولیت کے حوالے سے لکھتے ہیں
"موضوع کےانتخاب کے بعد نگران کا فرض ہے کہ وہ موضوع کا جائزہ لے اور ایک سائنپسز بنائے ۔قاعدہ کے مطابق یہ کام خود اسکالر کو کرنا چاہیے۔نگران اس میں ترمیم بے شک کر سکتا ہے۔لیکن ان دونوں دانشگاہوں اور سکالروں کی جو حالت ہے اس کے پیش نظر ی ذمی داری بھی نگراں کو قبول کر لینی چاہیے۔”
ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش خاکہ کی تشکیل کے سلسلہ میں لکھتی ہیں۔
"موضوع کے انتخاب کے بعد محقق کع تحقیقی کام شروع کرنے سےپہلے کئی اقدامات کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔جس کےتحت وہ اپنے کام کی تکمیل کر سکے۔اس مقصد کے لیے ایک خاکہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔جس میں مندرجہ ذیل اقدامات کی وضاحت کی جائے۔تا کہ منصوبہ بندی کے تحت کام کا آغاز ہو۔”
1۔موضوع جس پر تحقیقی کام کیا جائے
2۔موضوع کی اہمیت اور اس کے دوسرے اہم پہلو
3۔مفروضات زیر تحقیق موضوع کی ابتدا،چند معروضات کی بنیاد بنا کر کی جاتی ہے چنانچہ خاکہ میں موضوع سے متعلق سوالات کے عارضی حلوں یا ممکنہ نتائج کو مفروضہ کی صورت پیش کیا جاتا ہے
4۔نمونہ اور نمونہ بندی کا طریقہ کار
5۔مفروضوں کی تردید یا تصدیق کےلیے شماریاتی تجزیے کا طریقہ
6۔آزمائشی تحقیق کے تمام منضبط اقدامات کا ذکر کرنا
7۔مواد اکٹھا کرنے کے ذرائع و آلات
8۔زیر تحقیق موضوع پر تحقیق مکمل کرنے کی مدت کا تعین
9۔اس کام پر صرف آنے والے اخراجات کی تفصیل وغیرہ”
خاکہ اپنی ابتدائی شکل سے نقش آخر کی صورت اختیار کرتےکرتےکئی مراحل سے گزرتا ہے۔ان میں کئی بار ترامیم و اضافے کی صورت بنتی ہے۔کبھی کبھی تو مقالہ کے اختتا م تک خاکہ کی شکل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
اچھے خاکےکے مندرجہ ذیل حصے ہوتے ہیں
دیباچہ
یہ مقالےکاپہلا حصہ ہوتا ہے ۔لیکن اسے مقالے کی تکمیل کے بعد تحریر کرناہوتاہے۔اس میں موضوع کا تعارف،موضوع کی حدود،پس منظر اور تحقیقی کام کے اغراض و مقاصد کا بیان ہوتا ہے۔تحقیقی عمل جب تک مکمل ہوتا ہے اور جو مسائل و مشکلات پیش آئیں اور جو تجربات ہوں ،ان کو بھی بیان کیاجاتا ہے۔دیباچے کی جگہ بعض اوقات تعارف،پیش لفظ،سخن ہائے گفتنی،چند گزارشات،احوال واقعی لکھا جاتا ہے۔دیباچے کا اسلوب جذباتی اور بے ربط ہونے کی بجائے منطقی ہوتاہے۔محقق اپنے طریقہ کار اور ابواب کا تعارف بھی کرواتا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں انسانی شعور کی منزل – نثار علی بھٹی )
پس منظر
مقالے کے حجم کو بڑھانےکے ایک ذریعہ کے طور پر اسے استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن آج کل اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے کیوں کہ مقالےکی اب کیفیت پر زیادہ توجہ دی جار ہی ہے بجائے کمیت کے۔
ابواب بندی
ابواب بندی کےلیے اعلی درجے کےتحقیقی مقالوں اور معیاری تحقیقی کتب سے مدد لی جاتی ہے،ابواب میں منطقی ربط اور تسلسل کا ہونا ازبس ضروری ہے۔
اختتامیہ
مقالے کا آخری باب اختتامیہ کہلاتاہے۔اس حصہ میں وضع کردہ مفروضات کی تائید یا تردید کی جاتی ہے
کتابیات
کتابیات سے مراد تحقیق کار کے زیر مطالعہ کتب وہ کتب ہیں جو اسے مقالہ کو لکھتے ہوئے پڑھنا پڑھتی ہیں۔انکی فہرست تحقیق عمل سے قبل اور مکمل ہونے کےبعد بھی مرتب کی جاتی ہے۔کتابیات سے ہی ممتحن اندازہ لگاتا ہے کہ مقالہ نگاری کی کیا حیثیت اور قدر ہو گی۔
ڈاکٹر عبدالزاق قریشی لکھتے ہیں
"کتاب یا مقالہ کے خاتمہ پر ماخذ کی فہرست دینا آج کل کا عام دستور ہے۔اس فہرست سے اصل کتاب کے ماخذ معلوم ہونے کے علاوہ موادکےاستناد ،اہمیت،افادیت وغیرہ کا اندازہ ایک جھلک میں ہو جاتا ہے۔کتابیات محض کتابوں کے زیادہ سے زیادہ نام گنوانے کے لیے نہ ہوں۔جو کتاب براہ راست موضوع سے تعلق رکھتی ہو اور اس سے مصنف یا مقالہ نگار نے اپنی تصنیف یا مقالہ میں استفادہ کیا ہو۔”
ضمیمہ
تحقیق کے دوران اگر ایسی معلومات حاصل ہوں جو تحقیق او ر قاری دونوں کےلیے سود مند ہوں مگر متن میں ان کا ذکر،متن کی روانی کو متاثر کرے تو ایسی معلومات کا ذکر ضمیمہ میں کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ہر تحقیق کا ضروری جزو نہیں ہے۔اسے بوقت ضرورت ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
پروفیسر عبدالستار رودولوی لکھتےہیں
"ضمیمہ کے تحت عام طور پر اس مواد کا ذکر کیا جاتا ہے جو پیش کردہ مقالے سے متعلق اور اس کے لیے مفید تو ہوتاہے ،لیکن اگر مقالے کے متن میں اس کو شامل کر دیا جاتا تو مقالے کے انداز پیشکش کےلیے نامناسب ثابت ہوتا۔فرض کیجے کہ کوئی مقالہ ہم عصر شاعر یا مصنف کے بارے میں پیش کیا جا رہا ہے۔محقق نےاس مصنف یا شاعر سے انٹرویو کر کے اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر لیے تھے ان سوالات اور جوابات کو ضمیمے میں دیا جا سکتا ہے۔اسی طرح کا زائد اور موضوع سے متعلقہ مواد بھی ضمیمے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔اختصارات،نقشہ جات اورضروری تقابلی جدولیں بھی ضمیمے میں دی جا سکتی ہیں”
اشاریہ
اشاریہ کو انگریزی میں انڈیکس کہتےہیں۔مقالے یا کتاب میں جو اسماء مقامات اور اہم کتب ہیں اشاریہ میں ان سب کا تذکرہ کیا جاتا ہےتا کہ قاری محقق یا تبصرہ نگار کسی جگہ،نام،کتاب کو تلاش کرنا چاہے تو اشاریہ اس کی نشاندہی کرے۔
سفارشات
اگر محقق موضوع کی مناسبت سےکوئی تجویز دینا چاہے یا عملی تحقیق میں پیش آمدہ مسائل یا نئے محقق کے موضوعات کی فہرست پیش کرنا چاہے تو اس حصے میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی اختیاری حصہ ہے۔
سندی تحقیق میں عموما خاکہ ہاتھ سے لکھا ہوتا ہے ۔یا بعض اوقات ٹائپ بھی ہوتا ہے یا کمپوذڈ فارم میں بھی ہوتا ہے۔عمومی طور پر خا کہ کےلیے گیارہ،ساڑھے آٹھ یا اے فور سائز کا سفید کاغذ کا استعمال کیا جاتا ہے۔خاکہ کو چاروں طرف حاشیہ چھوڑ کر لکھا جاتا ہے۔
نمونے کا ایک خاکہ
موضوع: اردو افسانے کے نمائندہ ناقدین
دیباچہ:
باب اول: افسانہ بحیثیت صنف ادب
باب دوم: اردو افسانےکے نمائندہ ناقدین:عمومی مطالعہ (1947 تا 2007)
باب سوم: اردو افسانے کے نمائندہ ناقدیں:خصوصی مطالعہ
(الف) وقار عظیم
(ب) ممتاز شیریں
(ج) شہزاد منطر
(د) وغیرہ وغیرہ
باب چہارم: اردو افسانے کی تنقید:مجموعی جائزہ
کتابیات
کتابیات:۔
پروفیسر محمد عارف،تحقیقی مقالہ نگاری (طریق کار)،لاہور:ادارہ تالیف و ترجمہ،پنجاب یونیورسٹی1996.1
ڈاکٹر گیان چند جین،تحقیق کا فن،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،1994ء.2
رشید حسن خان،ادبی۔تحقیق مسائل اور تجزیہ،لکھنو:اتر پردیش اکادمی،1990.3
ڈاکٹر عبدالرزاق قریشی،مبادیات تحقیق،لاہور:خان بک کمپنی،1968.4
5پروفیسر عبدالستار رودولوی،مقالہ،مقالہ کی پیشکس،مشمولہ،اردو میں اصول تحقیق،جلد اول،مرتبہ:ایم سلطانہ بخش،اسلام آباد:ورڈ ویژن پیلشرز،جلد چہارم،2001
ڈاکٹر ش اختر،تحقیق کے طریقہ کار،گیا،تاج پریس باری روڈ،س ن.6
ڈاکٹر افتخار احمد خان،اصول تحقئق،فیصل آباد:شمع بکس،س ن.7
پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون قادر،ابجد تحقیق،لاہور:الوقار پبلی کیشنز،2019.8
رفاقت علی شاہد،،تحقیق شناسی،لاہور:مکتبہ تعمیر انسانیت، 2010.9
نثار علی بھٹی
ایس ایس اای اردو
گورنمنٹ ہائی سکول کوہلیاں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
3 comments
[…] تحقیق و تنقید […]
[…] تحقیق و تنقید […]
nice