۱۹۷۰ کے بعد مغربی بنگال کی افسانہ نگاری کو جن افسانہ نگاروں نے آبر و بخشی اور تب و تاب عطا کی ان میں ایک نمایاں نام فیروز عابد کا بھی ہے۔ فیروز عابد بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ کے علاوہ انہوں نے بے شمار تبصرے اور رپورتاژ بھی لکھے ہیں۔ پریم چند کی طرح فیروز عابد نے بھی اپنے افسانے کی بنیاد حقیقت نگاری پر رکھی ہے۔ چالیس برس سے زائد عرصہ پر محیط ان کی افسانہ نگاری کا دور ہے۔ فیروز عابد کی سب سے پہلی کہانی ’جئیو تو ایسے جئیو ‘ ۱۹۶۳ میں صبح نو پٹنہ میں شائع ہوئی تھی۔ فیروز عابد مغربی بنگال کے وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جن کی کہانی سب سے پہلے رسالہ ’شب خون‘ کی زینت بنی تھی۔ شب خون کے شمارہ نبمر ۸ میں ’’دہلیز کا ماحول‘‘ نام سے ان کی کہانی ۱۹۶۷ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے ان کے افسانے مسلسل شب خون ودیگر رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ فیروز عابد کا شمار شب خون الہ آباد کے مستقل لکھنے والوں میں ہوتا ہے ان کے افسانے ،تراجم ، رپورتاژ، تبصرے اور مضامین شاعر ممبئی، عصری ادب دہلی، افکار کراچی ، روشنائی کراچی، ادب لطیف لاہور، نیا سفر الہ آباد ، الفاظ علی گڑھ، نیادور لکھنؤ، آج کل دہلی ، صبح نو پٹنہ ، تخلیق دہلی، پیش رفت گلبرگہ، پیکر حیدرآباد ، بلٹز ممبئی اور مقامی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مشہور ناقد محمد حسن نے مغربی بنگال کے صرف دو افسانہ نگار فیروز عابد اور انیس رفیع کو تیسری آواز کا افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ ظفر اوگانوی ، فیرور عابد اور انیس رفیع مغربی بنگال کے افسانوی ادب کے تثلیث ہوا کرتے تھے جنہوں نے مغربی بنگال کی افسانہ نگاری کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ ظفر اوگانوی کے انتقال کے بعد یہ تثلیث ٹوٹ گئی ۔ فیروز عابد کی کہانیوں کا پس منظر ہمارا موجودہ دور ، عصری زندگی اور ہمارے گردو پیش کا ماحول ہے۔ کہانی کار سماج سیوک یا سماج سدھارک نہیں ہوتا۔ وہ زندگی سماج اور ماحول پر تنقید کرتا ہے۔ انہیں بہتر بنانے کا خواہش مند ہو تا ہے اور یہ کام وہ خطیب یا ڈکٹیٹر کی حیثیت سے نہیں کرتا بلکہ ہمارے دل کی دھڑکنوں کا ہمنوا ہو کر ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر ،ہماری فکر میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ فیروز عابد کے اب تک تین افسانوی مجموعے اندھی گلی میں صبح (۱۹۸۱)، نقش بر آب (۱۹۸۴)اور کھلے آسمان کے نیچے(۱۹۹۵) منظر عام پر آ چکے ہیں۔
فیروز عابد کی کہانیاں سچ بولتی ہیں ۔ انہوں نے زندگی کو ہر روپ میں دیکھا ہے ۔ شہر میں کچھ نہ کچھ رونما ہوتا رہتا ہے اورفیروز عابد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اسی کچھ نہ کچھ میں سے بہتر کہانیاں تلاش کر لیتے ہیں اور قاری کے سامنے اپنی فنکارانہ صلاحیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں جن میں زندگی کی تلخ حقیقتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ ہمارے ارد گرد بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں ضرورت ہے ایک سچے کہانی کار کی جو ان بکھری ہوئی کہانیوں کو سمیٹ سکے۔کلکتہ کے فٹ پاتھ سے لے کر شاپنگ مال تک اور رکشے سے ٹرام تک جہاں نظر دوڑائیے کہانیاں ایک دوسرے سے تصادم کرتی نظر آئیں گی۔ فٹ پاتھ پر ایک لاوارث لاش اور ایک مقبول سیاسی لیڈر کی موت سے بھی کئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور فیروز عابد کی یہی خوبی ہے کہ وہ لوگوں کی بھیڑ سے کہانیاں نکال کر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بقول فیروز عابد’’کہانی کار کے پاس اس کا ضمیر ہے ۔ جس کہانی میں ضمیر نہ ہو وہ کہانی بیانیہ یا مہا بیانیہ کی پوری حدوں کو چھو بھی لے تو قاری کو متاثر نہیں کر سکتی ۔تجربات ہوتے ہی رہتے ہیں کہانی لکھنا میرا پیشہ نہیں لیکن جب سماجی فرض سامنے آجائے تو اظہار کا یہی وسیلہ ہے میرے پاس یعنی کہانی لکھنا اس کا یہ معنی نہیں کہ میں مبلغ بن کر درس دینے لگوں ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کو اس طرح پیش کروں کہ قاری پڑھے غور سے پڑھے ، کہانی کی دھمک اپنے سینے میں محسوس کرے ۔ یہ نہیں کہ کہانی پڑھی اور جمائیاں لیتے ہوئے کھاٹ پر اوندھے لیٹ گئے۔‘‘ ( یہ بھی پڑھیں نرم اور دھیمے لہجے کا شاعر… عالم خورشید (نہ یہ بستی ہماری نہ وہ صحرا ہمارا کی روشنی میں) – اصغر شمیم)
بقول ظفر اوگانوی ’’مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ آٹھویں دہائی میں اردو افسانہ نگاروں کی جو نئی نسل سامنے آئی ہے ان میں دوایک کے یہاں احساس واقعی بہت زیادہ اور تیکھا ہے۔ سلام بن رزّاق ، شوکت حیات ،انیس رفیع اور فیروز عابد کو بطور خاص اس زمرے میں رکھ کر بات کی جا سکتی ہے۔ فیروز عابد کے یہاں انیس رفیع ہی کی طرح سیاسی بصیرت کے ان تضادات کے بھی واضح اشارے ملتے ہین جو ہماری ہندوستانی تہذیب کا رزمیہ نہیں المیہ ثابت ہو رہے ہیں اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ
’’کل میں نے اپنے بیٹے سے کہا سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار ، یہ نظم سناؤ آج تمہاری آواز
میں یہ نظم سننے کو جی چاہتا ہے۔ ‘‘ جانتے ہو اس نے کیا کہا ’’پاپا شرم آتی ہے۔ ‘‘ (افسانہ۔ صلیب پر لٹکانے والا)
فیروز عابد مسائل کی نہ تو تلاش کرتے ہیں نہ جستجو صبح شام کی بھاگ دوڑ میں اتنے مسائل ہیں جو عام آدمی کی نظر سے کٹ کر نکل جاتے ہیں فیروز عابد ایسے ہی منظر ناموں کو وقیع بنا دیتے ہیں اس لیے کہ اس مہانگر کولکاتہ میں ہر سانس ایک مسئلہ ہے ۔ اسی لئے انہوں نے اپنے زیادہ تر افسانوں میں کلکتے کی زندگی کے اس پہلو کو پیش کیا ہے جو ہمارے سامنے ہوتے ہوئے بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ اقتباسات دیکھیے
’’میں نے دیکھا ایک میلا کچیلا لڑکا خون سے تر بتر تھا
اُسے پولس کی گولی لگی تھی ۔ اس کی عمر مشکل سے چودہ سال ہوگی
گولی اُسے کیسے لگی ……. ؟ ایک آواز نے آوازوں کو گھیر لیا۔
یہ لڑکا چائے دکان میں ملازم تھا۔ بچہ ہے بھیڑ میں چلا گیا تھا
بس لگ گئی گولی………………..،
آواز کی آنکھوں میں زندگی سے محبت کا کرب تھا
دوسری صبح اخبار کے کالم میں یہ خبر تھی
’’مہاتما گاندھی روڈ پر پولس کی گولی سے ایک نکسل وادی کی موت……………… (افسانہ۔ منظر پس منظر)
اور ……………
ایک دن…………
زیبرا کراسنگ ، سڑک کے اصول اور ٹرافک کے قوانین
دھرے کے دھرے رہ گئے اور وہ اترنے کے لئے بس کے فٹ بورڈپر آیا
اور پھر ٹرام کی جالیوں میں اس کے جسم کے گوشت
ریزہ ریزہ ہو کر چپک گئے…………
پوسٹ مارٹم ہو گیا۔
جلا دو ساری گاڑیوں کو…………
کب تک………… اس کا حاصل کیا ہے
(افسانہ۔ بددعا)
ہندوستان کے اقتصادی نظام میں ہر شخص زندگی کو اپنے طور سے نہیں جی سکتا۔ سیاسی جبر اور استحصا ل نے سماجی قدروں کو جس حد تک تباہ کیا ہے اور آگے چل کرکیا ہوگا فیروز عابد در اصل ان ہی باتوں سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں۔ فیروز عابد کے افسانوں میں جنگ کی ہولناکی،نئی آزادیوں کے افق ، بنگلہ دیش کا وجود اور اس کا پس منظر و پیش منظر ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور فسادات ، دانشوروں کی فکری خباثتیں ، ناجائز قدروں کا عروج، ہپی ازم اور نکسلی تحریک۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ فیرو زعابد ان موضوعات کو اپنے طور سے برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ صحیح بھی ہے کہ ہر بڑا فن کار کسی بھی موضوع کے ساتھ اس وقت تک انصاف نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اسے اپنے طور سے نہ پرکھے اور پھر سارے سارا اپنے طور سے بیان کرے۔ فیروز عابد ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنہیں بالغ نظر افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ تخلیقی بلوغت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانہ سناّٹا میں لوگوں کی بے حسی کو موضوغ بنایا۔ لوگ اپنے آپ میں گم ہیں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ اقتباس دیکھیے
’’یکایک میرے بغل میں ایک پتلا دبلا آدمی اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا۔لمبی لمبی سانسوں کے درمیان اسے ایک بھاری متلی ہوئی اور وہاں کی نالی خون اور بھات سے بھر گئی۔ اس نے اِدھر اُدھر کر جاتے ہوئے قدموں کو دیکھا۔ چہروں پر نظر پھسلائیں سناٹا پھر بھی نہ ٹوٹا۔ میری چیخ کچھ لمحوں کے لئے رک گئی کیونکہ متلی میں بھات کے ساتھ خون کا بھی حصہ تھا۔میرا درد اچھل کر دور جا گرا اور اس کا درد میرے سینے میں سلگنے لگا۔ کوئی ہاتھ اس کی پیٹھ کی طرف نہیں بڑھا۔ کوئی نظر ہم دردی کا لیبل اپنے اوپر چپکا نہ سکی۔ لوگ اسی طرح ادھرسے اُدھر گذرتے رہے جیسے ایک ساعت کے گذر جانے سے ایک صدی کے گذر جانے کا خدشہ ہو۔‘‘ (افسانہ۔ سناّٹا)
بقول ڈاکٹر شمیم انور’’ فیروز عابد کی کہانیوں میں سماجی،سیاسی اور ثقافتی مسائل کے علاوہ تہذیب و اقدار کی شکست وریخت کی آواز بھی ہے۔ ان کے افسانوں کی ساخت وہ چھوٹے چھوٹے سماجی مسائل ہیں جن میں دھیمی دھیمی انسانی کرب کی سر گوشیاں ایسی گونج بن گئی ہیں جو دور تک بازگشت کی طرح اپنے بازو پھیلائے ایک مسلسل احتجاجی چیخ بن جاتی ہے۔‘‘
فیروزعابد کی کہانیوں میں زندگی احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’وائلن کا دل ‘ ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں نورین ایک طالب علم صرف اس لیے شہید ہو گیا کہ اُسے رات میں پڑھنے کے لیے کراسن تیل کی ضرورت تھی اور اس مانگ کی وجہ سے اُسے گولی مار دی گئی۔ اقتباس دیکھیے
’’جلوس چلتا رہا، رکتا رہا اور لڑکے بڑھتے رہے
نورین بہت اداس تھا، کیونکہ وہ کئی راتوں سے پڑھ نہ سکا تھا
اس کی مانگ
چاول
آٹا نہ تھی بلکہ اس کی مانگ تھی
ایک بوتل کراسن تیل
وہ ایک بوتل کراسن تیل کا طالب تھا تاکہ وہ رات کو پڑھ سکے
کیونکہ دن میں جماعت میں پڑھائے گئے سبق کو یاد کرنا ہی اس کی مسرت تھی
نورین کی مسرت کھو گئی تھی اوروہ مسرت کی تلاش میں
بڑے لوگوں کے دروازے تک گیا۔
اور
پھر ایک دروازہ سے رائفل نے گولیاں اگلیں اور
بارہ سال کانورین زمین پر گر گیا۔ اس کے معصوم دل کے بالکل نیچے
سے خون بہہ نکلا…………
مسرت کی تلاش بہت مشکل ہے۔ لیکن نورین جیسے لڑکوں یا لوگوں کے لئے
بہت آسان کیونکہ ایسے لوگوں کی تلاش میں ایک سچاجذبہ ہوتا ہے۔
نورین شہید ہو گیا…………! (افسانہ۔ وائلن کا دل)
چونکہ فیروز عابد کا تعلق درس و تدریس سے رہا ہے اس لیے وہ بچوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہیں۔ ’وائلن کا دل‘ کے علاوہ بھی انہوں نے بچوں کی نفسیات پر دوسرے کئی افسانے لکھے ہیں۔ افسانہ ’روشن راہوں کا شہید‘ میں انہوں نے گرمی کے تعطیل کو موضوع بناکر ایک طالب علم کی نفسیات کی سچی عکاسی کی ہے۔ گرمی کی چھٹی ہونے والی ہے آج اسکول کا آخری دن ہے ۔ سبھی بچے بہت خوش ہیں لیکن ندیم اداس ہے ۔ ندیم کیوں اداس ہے؟ اقتباس دیکھیے
’’ہاں ندیم تم کہ رہے تھے آج سب اداس ہیں
کون اداس ہے؟ کون لوگ اداس ہیں پیارے بھیا؟
یہ
یہ
وہ
اور
وہ
کون یہ چٹ پٹی والا، یہ چورن والا، وہ برف والا اور وہ مگر…………
آپ نہیں سمجھیے گا…………؟
کیا کہتے ہو تم، میں نہیں سمجھوں گا، میں گیا رہویں جماعت م یں پڑھتا ہوں
اور تم ددرجہ پنجم میں پڑھتے ہو۔
ہاں آپ نہیں سمجھیے گا اس لیے کہ آپ کے اباّ آپ کو گرمی کے تعطیل میں کشمیر لے جارہے ہیں۔
(افسانہ۔ روشن راہوں کا شہید)
بقول پروفیسر مغنی تبسم ’’فیروز عابد کی کہانیوں میں حیات اور مسائل حیات کے بارے میں ایک فلسفیانہ سوچ ہوتی ہے۔ وہ جن تجربات ومشاہدات سے اپنی کہانیوں کا تانابانا بنتے ہیں وہ زندگی کی کسی مضمر اور پنہاں حقیقت کو منکشف کرتے ہیں۔ فیروز عابد کی کہانیاں بڑی مختصر ہوتی ہیں وہ بنیادی نکتے پراپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں ، تفصیل کے بجائے ایما اور اشارے سے کام لیتے ہیں ۔ ان کے فن کی خوبی پیکر تراشی میں جھلکتی ہے۔ لفظوں سے بنائی تصویریں وہ سب کچھ کہ دیتی ہیں جنہیں اور طرح سے بیان کیا بھی جائے تو شاید تفصیل ادھوری رہ جائے۔‘‘
فیروز عابد نے اپنی کہانیوں میں معاشی استحصال اور سیاسی و سماجی ظلم و جبر جیسے مسائل و موضوعات کو بھی پیش کیا ہے۔ جہیز جیسے سماجی مسائل پر بھی انہوں نے ایک افسانہ ’لفظ لفظ شکایت‘ لکھا ہے۔ سب سے کمال کی بات ہے کہ اس افسانے میں کہیں بھی جہیز کا ذکر نہیں آیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سماج پر ایک گہرا طنز کیا ہے۔ ایک حوصلہ مند اور مشرقی عورت سیمینہ کے کردار کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔ دن بھر سیمینہ کے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، اس کے بعد بھی جب شام کو اس کا شوہر آتا ہے تو مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے کبھی بھی اُس نے اپنے شوہر کو لفظ لفظ شکایت سے آشنا نہیں کیا۔ اقتباس دیکھیے
’’سیمینہ کاش تم نے مجھے لفظ لفظ شکایت سے آشنا کیا ہوتا۔ بتایا ہوتا کہ شام کو جو تم اس طرح مسکراکر
میرا استقبال کرتی ہو یہ مسکراہٹ دن بھر کتنے آنسو بہانے کے بعد تمہارے ہونٹوں پر آتی ہے اور تم
کتنی حوصلہ مند عورت ہو کہ مجھے سکوں کی چھاؤں دینے مسکراکر میرے پاس چلی آتی ہو حالانکہ تم،
تمہارا جذبہ اور تمہاری معصومیت سب کو لہولہان کر دیا گیاتھا۔ (افسانہ۔ لفظ لفظ شکایت)
فیروز عابد نے اس افسانے میں صرف ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی وہ ساعت بدرنگ جس نے سیمینہ کی زندگی کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا وہ ساعت بدرنگ کیا ہے ۔ اقتباس دیکھیے
’’ہاں ایک روز ماموں جان ہمارے گھر آئے تھے ۔ اس روز بارش تھی کہ تھمنے کانام نہیں لے رہی تھی۔
ماموں جان اس روز بہت خوش تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے راشد میاں کے رشتہ طے ہونے
کی خبر اماں کو دی تھی۔ اور انہیں یہ بتایا تھا کہ راشد میاں کے سسرال والے راشد کو سب کچھ دیں گے۔
شادی کے کئی ماہ بعد موٹر کار بھی دیں گے اور تمہاری بھابھی کو تیس تولہ سونا اور پچاس ہزار روپے نقد دیں گے۔
ماموں جان یہ خبر سناکر چلے گئے، لیکن بارش پھر کبھی نہیں تھمی۔۔اماں کے دل کا آنگن زہریلی بارش سے
بھر گیا…………
میری اماں کے دل کا زہر آگ بن کرسیمینہ پر برسا سیمینہ جو پگھل کر میرے بازؤں میں سیم بن جاتی تھی
کمرے کے ایک کونے میں راکھ بن گئی۔۔‘‘ (افسانہ۔ لفظ لفظ شکایت)
فیروز عابد نے اپنے افسانوں میں نئی نسل پر بھی گہری چوٹ کی ہے۔ نئی نسل ذہین اور ہوشیار ہے ۔ بوڑھے ماں باپ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی نظر میں بوڑھے ماں باپ کے لیے گھر کی جگہ ’ہوم ‘زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ وہاں آرام سے رہ سکیں کیونکہ اب بچوں کو آرام کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔اقتباسات دیکھیے
’’آپ رات بھر کھانستے رہتے ہیں اور سبھوں کی نیند خراب کرتے ہیںآپ کو جو دوا دی جاتی ہے
وہ کھاتے ہیں یا پھینک دیتے ہیں اپنا نہیں تو ہمارے آرام کا خیال کیجیے۔۔۔‘‘ میرا بیٹا اب آرام
کا مفہوم سمجھنے لگا ہے۔
(افسانہ۔ منزل بے منزلی)
’’پاپا کو بوڑھوں کے ہوم میں کیوں نہیں بھیجوا دیتے۔ ان کی تیمارداری پر کتنا خرچ کروگے………… ہمیں اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا ہے کہ نہیں۔…………‘‘
میری بیوی کی آواز میں صدیوں کا فاصلہ تھا۔ (افسانہ۔ منزل بے منزلی)
افسانہ ’جذبوں کا رنگ‘ کی رکمنی اپنے گہرے سانولے رنگ کے ساتھ ایک آئیڈیل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ مگر مسلسل انتظار اور تجسس کے باوجود اس کے خوابوں کا آئیڈیل نوجوان اسے نہیں مل پاتاہے اور وہ مایوس ہو کر خودکشی کر لیتی ہے۔ اقتباس دیکھیے
’’وہ کالی ہے،
کالی
کالی ہے…………!
اس نے روشنائی کی پوری دوات آئینہ پر الٹ دی ، روشنائی بہتی گئی
پوڈر بلو بلیک ہوتے چلے گئے………….
کس کو کس کو رنگین کروگی، سیاہی کی اتنی ساری بوتلیں کہاں سے لاؤ گی…………!‘‘
اسے ایسے لگا جیسے پاؤڈر ، آئینہ ، روشنائی سب ہنس رہے ہوں،
’’نہیں میں نہیں بھٹک سکتی…………؟ محبت بہت اونچی ہے، پہاڑ سے بھی بلند،
آسماں سے بھی وسیع ، میں اپنے نظریہ کو گھائل نہیں کر سکتی…………
میں اپنے جذبہ کو زخمی نہیں کر سکتی، میں محبت جانتی ہوں،
سچی محبت ، پاکیزہ محبت…………
میرا دل بھٹک رہا ہے، میرا گداز سینہ کچھ اور چیز کا طالب ہے،
میں رکمنی ہوں، میں رکمنی رہوں گی، میرا نام کوئی نہیں بدل سکتا،
میں اپنے جذبہ کو جلا دوں گی، میں اسی جذبہ کو جلا دوں گی جو میرے عظیم جذبہ
غالب آنے کی تاک میں ہے…………‘‘ (افسانہ۔جذبوں کا رنگ)
ان افسانوں کے علاوہ بھی فیروز عابد نے اردو ادب کو نہایت خوبصورت افسانے دیے ہیں جن میں ’دہلیز کا ماحول‘میگی، شجرہ نسب، ڈیڈ ہاؤس، اندھی گلی میں صبح، صلیب پر لٹکانے والے، نقش بر آب اور کھلے آسمان کے نیچے۔ اس ایک مضمون میں ان سب افسانوں پر تفصیلی بحث ممکن نہیں۔
بقول فیروز عابد’’اچھا افسانہ غور و فکر کی راہیں کھولتا ہے۔ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے بصیرت کی کھڑکیاں کھولتا ہے اور جمالیاتی تجربے میں اضافہ کرتا ہے۔ کوئی بھی افسانہ نگار یا فنکار بغیر کچھ جھیلے نہ تو اچھا افسانہ لکھ سکتا ہے اور نہ اچھی شاعری کر سکتا ہے۔‘‘
بقول جوگندر پال’’ آپ کے یہاں کہانیوں میں سب سے پہلے الفاظ کا تحرک اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ تحرک شاید آپ کی بے چینیوں کا غمازبھی ہے۔ کسی تخلیق کار کا بیش بہا سرمایہ اُس کی بے چینیوں کی ہی دین ہوتا ہے……..آپ کے بیشتر جملے بذات خود بڑے اہم لگے۔پرپل پیچز(purple peaches )کا سماں باندھے ہوئے۔ بعض تو اتنے تلازمے لیے ہوئے ہیں کہ قاری بیک وقت چہار سو نکل پڑتا ہے۔‘‘
ڈاکٹرمحمد حسن رقمطراز ہیں کہ’’فیروز عابد کی کہانیاں زندگی گذارنے کا راستہ اور طریقہ نہیں بتاتیں۔ زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہیں کہ جب تک مقاومت اورمزاحمت نہ ہو ، سماجی ناہمواریوں کے خلاف مقدس بے اطمینانی نہ ہو اس وقتت تک انسان کا قد جبر کی تلوار سے بلند نہیں ہو سکتا ۔ فیروز عابد بکھرے ہوئے تاثر پاروں سے اپنے افسانے بنتے ہیں اور بے جان علامتوں کو سماجی معنویت سے زندہ و تابندہ کر دیتے ہیں۔فیروز عابد واقعات اور کرداروں کے بیانیہ سلسلے کو بھی باقی رکھتے ہیں ۔ وہ منظر کے چوکھٹوں سے بے نیازنہیں ہوتے ۔ ان کی کہانیوں میں جذباتیت کی ایک تہہ اب بھی موجود ہے۔‘‘
ماہنامہ ’انشاء‘کے مدیر ف۔س۔ اعجاز نے انشاء کے ایک خصوصی نمبر میں فیروز عابد کے متعلق لکھا ہے کہ’’ فیروز عابد کے افسانے آغاز تا حال مغربی بنگال کی سیاسی تحریکات اور متنشرمزاج عوامی زندگی سے معکوس ہیں۔ فیروز عابد کے افسانوی رویے ان کی خارجیت پسندی کے زیر اثر واضح ہوتے ہیں۔ ’’شجرۂ نسب‘‘ ان حقیقتوں کا زائیدہ ایک افسانہ ہے جو ہندوستان کے مشرقی خطہ بہار وبنگال میں آزاد ہندوستان کے ترنگے جھنڈے پر فرقہ وارانہ منافرت کے نتیجے میں خون کے دھبے چھوڑ گیا۔ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کی ابتدا میں مشرقی پاکستان اور مغربی بنگال کے مابین ایسے نسل کش سانحات رونما ہوئے ہیں جو کسی طور آج بھی انسانی مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ فیروز عابد نے ان حقیقتوں کی کوکھ سے ایک کہانی ’’شجرۂ نسب‘‘ بر آمد کی جس کا تاثر شدید اور دیر پاہے۔‘‘
چودھری ابن النصیر فیروز عابد کی افسانہ نگاری پر لکھتے ہیں کہ ’’ فیروز عابد کے افسانے کسی ایک ڈگر کے زیر اثر تخلیق پانے والے افسانے نہیں ہوتے۔ ان کے افسانوں میں مختلف الجہات طور طریقے بڑے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
فیروز عابد ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو افسانہ کی زندہ روایت کا تسلسل نئی انسانی صورتحال میں نئے باطنی اور حسی تجربے کے ذریعہ کیا۔۔۔اور اپنے عہد کے پر آشوب حالات کو، انسانی حقیقتوں کو اپنے افسانے کے توسط سے معنوی تشکیل کرنے میں نمایاں حصہ لیا……‘‘
بہرکیف فیروز عابد کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ کبھی کبھی کسی ایک جملے یا ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی پوری بات کہہ دیتے ہیں۔ ایک قاری جو اپنے آپ کو ناقد بھی کہتے ہیں اور ادیب بھی نے ایک نشست میں یہ کہا کہ فیروز عابد نے دس پیسے کے ایک سکّے پر کہانی لکھ دی اب تو فقیر بھی ایک روپے سے کم نہیں لیتا۔ حیرت ہوتی ہے ایسے قاری پر جو ایما، اشارہ ، علامت اور استعارہ نہ سمجھتا ہو۔ انھوں نے اب تو فقیر بھی کہا۔ ’’زماں و مکاں سے بے خبر اس قاری نے یہ اندازہ لگا نے کی کوشش نہیں کی کہ یہ کہانی ستر کے بعد کی دہائی میں لکھی گئی اور یہ کہانی ہندوستان کے سب سے بڑے احتجاجی شہر کلکتہ کی ہے۔ انہوں نے دس پیسے کی ایما ، اشارہ یا پھر علامت پر غور نہیں کیا…….! یہ وہی شہر ہے اور تقریباًوہی زمانہ ہے جب ٹرام گاڑی کے ٹکٹ پر ایک پیسے کے اضافے کے خلاف عوام کا احتجاجی رویہ اتنا شدید ہو گیا تھاکہ انھوں نے ہریسن روڈ (موجودہ مہاتما گاندھی روڈ) پر سات ٹرام گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔
تہذیبی بحران، خود بینی اور جلد بازی میں مبتلا لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ فٹ پاتھ کے کنارے ایک خوش پوش شخص خون کی قے کر رہاہے اور ٹھیک اس سے قریب ایک فقیر نے زمین سے ایک دس پیسے کا سکّہ اٹھایا تو راہ چلتے چلتے لوگ ٹھٹھک گئے اور اپنی اپنی جیب ٹٹولنے لگے۔
دراصل کہانی سناّٹا اس تہذیبی بحران کا اشاریہ ہے جوآج پورے ہندوستان میں ستر کے بعد کی دہائی سے بھی شدید ہو گیا ہے ورنہ بقول مشرف عالم ذوقی ’’معروف افسانہ نگار شفق کی موت سے کچھ روز ہی کے بعد اردو کہانی کے سیمینار میں بریانی، مرغ مسلم اور لذیز کھانوں پر گفتگو نہ کرتے بلکہ کہانی کے حوالے سے ’’کانچ کے بازی گر‘‘ کو یاد کرتے یا پھر بقول معصوم مردآبادی ’’ڈاکٹر محمد حسن جیسے معروف نقاد کے جنازے میں گنے چنے لوگوں کی شمولیت اور قبرستان میں ایک یونیورسیٹی کے جشن زریں کا دعوت نامہ نہ تقسیم کرتے…….میں فیروز عابد کی ذات سے بہت قریب ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی گہرائی کا اندازہ کس طرح لگاتے ہیں حد سے زیادہ سوچنے لگتے ہیں اور بیمار پڑ جاتے ہیں ۔ مگر لوگوں اور ضرورت مندوں کے کام کے لیے جی جان لگا دیتے ہیں۔ ان کے خلوص کو ان کے عزیز دوست انیس رفیع اور سجّادنظر سے زیادہ کون جانتا ہے۔ میں بھی اس کا گواہ ہوں۔ میں نے جب بھی ان سے گفتگو کی انھوں نے اپنی کہانیوں پر کبھی کوئی بات نہیں کی بلکہ اپنے دوستوں کی کہانیوں ، ڈراموں اور شاعری کا ذکر کرتے رہے۔
میں اپنے موضوع سے بھٹکا ہوں اورنہ ٹریک سے پھسل گیا ہوں بلکہ ایک کہانی کار کی کہانیوں کو سمجھنے کے لیے کبھی کبھی اس کہانی کار کے اند ر بھی جھانکنا پڑتا ہے جو اس کی کہانیوں کے حوالے سے معلوم ہوگا………….اس کی ہمدردی، اس کی دردمندی اور اس کی ادب شناسی…….. !!
اصغر شمیم،
کولکاتہ، بھارت
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |