Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      جولائی 12, 2025

      کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      دبستانِ اردو زبان و ادب: فکری تناظری –…

      جولائی 10, 2025

      تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
ناول شناسی

محبت مردہ پھولوں کی سمفنی” کا جمالیاتی جائزہ – نثار علی بھٹی

by adbimiras جون 7, 2021
by adbimiras جون 7, 2021 0 comment

مظہرالاسلام :ایک تعارف

مظہرا لاسلام 4 اگست 1949 کو خانیوال کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں پیرووال میں پیدا ہوئے۔مظہرالاسلام کے والد کا نامحمد شفیع تھا۔محمد شفیع نے دو شادیاں رچائی تھیں۔محمد شفیع کی دوسری بیوی کا نام رشیدہ بیگم تھا۔مظہرالاسلام انھیں رشیدہ بیگم کے بطن سے تھے۔مظہرالاسلام نے مشن ہائی سکول وزیر آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔جب تک والد حیات رہے،اپ کی  زندگی بہت خوشگوار گزری۔زندگی کی خوب صورتی سے فائدہ لیا۔1967 ءمیں اپ کے والد اس جہان فانی سے دار آخرت کو چلے تو آپ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔آپ کے حالات مخدوش ہو گئے۔مالی حالات میں خرابی کی وجہ سے آپ باقاعدہ تعلیم کو جا ری نہ رکھ پائے۔آپ نے بقایا تعلیم ایک پرائیویٹ ایشیا کالج راولپنڈی سے مکمل کی۔کہتے ہیں والدین کے ہوتے زندگی بے فکری کی ہوتی ہے۔مظہرالاسلام بھی ایسے ہی تھے۔والد کے رخصت ہوتے ہی سب عیش و نشاط ختم ہو کے رہ گئے۔مزدوری کرنی پڑی۔آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز گرڈ اسٹیشن کے گودام سے کیا۔آپ اس گودام میں بوریوں پر شماربندی کرتے تھے۔ایک ماہ کے بعد ساٹھ روپے کا معاوضہ ملتا۔پھر کچھ عرصہ آپ پلمبر کے طور بھی کام کر کے اپنے جسم وجاں کے رشتے کو قائم کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہے۔کنفیورش تعمیراتی کمپنی میں سٹور کیپر کی ملازمت بھی کرتے تھے۔بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتے رہے۔جاپانی فلم کمپنی میں بھی کام کرتےرہے۔بس یہاں سے آپ کی ادبی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔آپ نے ٹیلی وژن کیلے ڈرامے لکھنے بھی شروع کر دیے۔اب زندگی کا حسن لوٹنا شروع ہوا۔ایک دفعہ پھر زندگی مہربان ہوگئی۔لوک ورثہ اشاعت گھر میں نوکری مل گئی۔پہلے پروگرام ایگزیکٹو رہے۔پھر دپٹی دائریکٹر ہوئے اور آخر میں دائریکٹر جنرل ہو گئے۔اکادمی ادبیات میں بطور ڈائریکٹر جنرل 1955 ء میں چلے گئے۔آپ روزنامہ جنگ میں ادبی صفحے کے انچارج بھی رہے۔اب زندگی وہ لمحہ آن پہنچا جو اک  خواب کی طرح ہر ایک کی زندگی میں پھول بکھیرتا رہتا ہے۔اور زندگی کی آشاؤں کو دامن میں سمیٹے حیات کو جادہ کشمکش پہ آگے ہی آگےبڑھائے لیے چلاجاتا ہے۔ممتاز شاہین ،جو کہ پاکستان ریڈیو اسٹیشن راولپنڈی سے وابستہ تھیں،سے آپ کی شادی ہوگئی۔شادی سے پہلے ممتاز شاہین نے مظہرالاسلام کی ایما پر ملازمت کو ترک کر دیا۔مظہرالاسلام کا پہلا افسانہ "تالاب” تھا جو کہ 1969 ء میں رسالہ "نیرنگ خیال ” میں شائع ہوا۔لوک ورثہ میں آپ جب پروگرام ڈائریکٹر تھے تو پاکستان کی لوک ثقافت پر اسی کے قریب آپ نے کتابوں کو مرتب کیا۔لوک پنجاب(تحقیقی سفرنامہ) کی اشاعت 1977 ء میں عمل میں آئی۔”ہیرٹیج ” ایک لو ک رسالہ تھا۔دو پرچے آپ کی زیر ادارت شائع ہوئے۔”آپ اور وہ” آپ کے ادبی کالموں کا مجموعہ  ہے جو کہ اشاعت ہو چکاہے۔یہ 1992 ء میں سامنے آیا۔1978 ء میں آپ کا ایک ناول "رات ،جنگل اور گھڑسوار”روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے میں شائع ہوتا رہا۔یہ ناول بیس اقساط میں شائع ہوا۔مظہرالاسلام بہت سی زبانیں جانتےتھے۔ہندی،گورمکھی،جرمن ،سندھی،انگریزی،چینی اور فارسی کہانیوں کے تراجم کر کے بھی شائع کیے۔(یہ بھی پڑھیں ہندوستان میں اردو فن ترجمہ کی روایت – نثار علی بھٹی )

مظہرالاسلام کا فکر وفن:۔

انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتا ہے۔ماحول اسکی ذات پر اثر انداز ہوتا ہے۔اور انسان بھی اپنی سوچ اور فکر کی بدولت اور اعمال کے توسط سے معاشرے پر اپنے اثرات ڈالتاہے۔یہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے۔ماحول کا جائزہ لے کے اور جانچ پڑتال کر کے انسان اپنے فیصلے کرتا ہے۔اگر انسان کے اندر تفکر کی یہ صلاحیتیں نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی صائب رائے نہ دے سکتا۔صحیح رائے قائم نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کی منازل طے کرنے میں مشکل پیش آتی۔زندگی جمود کا شکار ہو جاتی۔اس میں ٹھہراؤ آ جاتا۔ہمیں زندگی میں نت نئے زاویوں سے جو روشناسی ہوتی ہے وہ اسی طبیعت اور مزاج کی وجہ ہے۔انسان آج بھی اسی مقام پر گھوم رہا ہوتا ایک لٹو کی طرح۔ہمیں جو تبدیلی نظر آتی ہے یہ خوا ب میں بھی نہ آتی۔عبادت بریلوی لکھتے ہیں”یہ سب انسان کی نمو پذیر فطرت کا طفیل ہےکہ ہم زندگی کو انقلاب اور تبدیلیوں سے ہم آغوش و ہم کنا ر پاتے ہیں اور قدم قدم پر ہمیں اس بات کااحساس ہوتارہتاہےکہ انسان ہر لمحہ اور ہر آن کے "منت پذیر شانہ” گیسوؤں کو سنوارنے کی فکر میں ہے۔”

مظہر الاسلام کی زندگی کا یہ سفر بھی مسلسل ارتقا پذیر رہا ہے۔انھوں نے بھی اپنے تجربات سے سیکھا اور اپنی تحریروں میں اس کو استعمال کیا۔اپنی ذات کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیا۔اپنے فکر و عمل میں روزانہ تبدیلی کو ہم آغوش کیا۔انھوں نے اپنے گردوپیش کو دیکھتے ہوئے اپنے مشاہدات کو بیان کیا۔اپنی بستی کے دکھ درد کو اپنی تخلیقات میں سمو دیا۔انھوں نے اپنے لیے وہی راستہ لیا جو انسان کو امر بنائے۔اپنے سماج سے جڑے رہے۔لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ان کے جذبات و احساسات کی تپش کو محسوس کیا اور اسے اپنے تخلیقی تجربے میں بیان کیا۔اسی وجہ سے ان کی کہانیوں کو واضح سیاسی و سماجی،سیاق  و سباق ملا۔فتح محمد ملک لکھتے ہیں۔”ان کی کہانیو ں میں ہماری عذاب ناک صورت حال کی معنی خیز اور اثر انگیز مصوری ملتی ہے۔وہ  ہمارے معاشرے کے بیمار اور جاں بلب ہونے کا تشویش ناک احساس دلاتے ہیں” (یہ بھی پڑھیں انسانی شعور کی منزل – نثار علی بھٹی )

اب اگر ہم اس معاشرے پہ نظر ڈالیں، مظہر الاسلام ،جس کا حصہ ہیں تو ہمیں نظر آتا کہ ہر طرف ظلم و ستم کا بازار گرم ہے۔عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔لوگ پریشان حال ہیں ۔اپنے حقوق کے حصول کیلے کوئی ایسا فورم نظر نہیں آ رہا جہاں جا کے اپنی بات کہ سکے۔اپنے دکھوں اور غموں کو کھول کھول کے بیان کرسکیں۔عدل و انصاف کا مفہوم ایک لفظ گزشتہ کی حیثیت حاصل کر چکےہیں۔یہاں تک کہ دین حق کو بھی اپنے مفادات کی آڑ میں خوب صورت اور خوشنما انداز میں غیر حسی انداز کے ساتھ استعمال میں لایا جا رہا ہے۔خدا کے دین میں تبدیلی یا مکمل تصرف تو ان کے بس کی بات نہیں ہے،نہ ہی وہ اس کی جرات کر سکتے ہیں،لیکن خدا کے نام پر لوگوں کو اپنے مقاصد کیلے برتنے کا سلیقہ ان کو خوب آتا ہے۔ظالم کو عزت و توقیر سے نوازا جا رہاہےاور مظلوم کی داد رسی کی بجائےاسے مجرم بنا کے اور پیش کر کے عدل وانصاف اور رحم و محبت کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے۔جب محافظ ہی نگرانی کرتے کرتے بھیڑئے بن جائیں تو انسان کہاں امان پائے۔لوگوں کا کیا،حالات نے ان کو اس راہ پر لا ڈالا ہے کہ سوائے کج بحثی اور کج فکری کے وہ کیا کریں گے۔وہ اسے ہی صحیح سمجھے جا رہے ہیں ،جو ان کو بتایا جا رہاہے۔لوگ اپنی خواہشات کے حصول کے لیے ان کا استحصال کیے جا رہے ہیں۔کوئی بھی تخلیق اپنے معاشرے کا عکس ہوتی ہے۔فنکار وہی بیان کرے گا جو وہ دیکھے گا۔مظہرالاسلام کہتے ہیں

"ہم سب کج بحث ہو چکے ہیں،کسی نے ہمیں باتوں میں لگا دیا ہے”(متروک آدمی)

"چوکیدار واقعی بھیڑیا بن چکا تھا اور کرسی پر بیٹھا تھا-چوکیدار کےاندر پہلے ہی سے بھیڑیا داخل ہو گیا ہے۔”(کندھے پر کبوتر)

"کیا تم بھی ان لوگوں کے ساتھ سازش میں شریک تھے،جنھوں نے مسجدوں کے منبر چراکربیچ کھائے ہیں۔”(روئی کے بادبان)

"خدا کے لیے ان مولویوں سے ہماری جان چھڑاؤ”(روئی کے بادبان)

"میں کیا کرتا بندوق تو میرے کندھو ں پر تھی،لیکن ٹریگر کسی اور کے ہاتھ میں تھا۔”(روئی کے بادبان)

"میری موت کے بعد میری بندوق شہر کےان دانشوروں کو دے دی جائےجن کی آنکھوں میں سچی گواہیاں بال کھولے  بیٹھی ہیں تا کہ میری یہ بندوق شہر کے ان لوگوں کو دے دیں جن کے پلو سے بندھی ہوئی بات کوئی کھول کےلے گیا ہےاور اب ان کے انگ انگ سے بندوق کی طلب کی مہک آتی ہے۔”(پنجرے میں پالی ہوئی بات)

"جج صاحب !جس شخص کوآپ نے پھانسی کی سزا سنائی ہے-وہ بے قصور ہے”(کندھے پر کبوتر)

مظہرالاسلام کے ہاں حسن کی جو کیفیت ہے وہ المیہ کی سی ہے۔ارسطو  نے المیہ کو بھی جمالیات میں شامل کیا تھا۔حسن خیر ہے اس نظریہ سےآگے کی بات کی۔ضروری نہیں ایک عمل خیر ہے تو وہی حسین ہے۔ارسطو کا خیال تھا کہ المیہ سے انسان کے جذبات میں وسعت آتی ہے ۔المیہ بھی انسانی قدر ہے۔المیہ درحقیقت انسان اور اس کائنات سے متعلق رشتے کی بنا پر جنم لیتا ہے۔

مظہر الاسلام چونکہ لوک ورثہ سےوابستہ رہے اس لیے ان کی تحریروں میں ایک ثقافتی رنگ بھی ہے،ان کے تخلیق کردہ فن پاروں  میں چاؤ ہے محبت ہے اپنائیت ہے۔صوفیانہ تجربہ بھی ہے۔وہ ہر طرح کے نقش و نگار کو بہت خوب صورت بنا کےپیش کرتے ہیں۔

"باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی ” میں لکھتے ہیں”مس کے آنکھوں میں دیکھی ہوئی محبت،تنہائی کا پہلا ذائقہ اور کمہاروں سے حاصل کی ہوئی تیکنیک کو اپنے وجود میں اور ذہن کی مٹی میں گوندھتے ہوئے میں اس میں باپ کی خفگی اور تنہائی بھی ڈال دی-کسی راہ گیر نے ہماری چیخیں سنی تو ڈرتے ڈرتے صندوق کھولا ستائیس اٹھائیس سال گزر جانے کے بعد بھی مجھے یوں لگتا ہے جیسےانھوں نے  آف کو تو صندوق سے نکال لیا تھا مگر میں ابھی صندوق میں ہی ہوں۔ایک بار میری ایک کزن نےمجھےاس صندوق سے نکالنے کی کوشش کی اور انتہائی پیار بھرے لہجے میں  میری ہمت بھی بڑھائی لیکن پھر وہ اپنے شوہر کی قمیض پر بٹن ٹانکنے میں اس قدر محو ہو گئی کہ اسے یاد بھی نہ رہا کہ صندوق میں ہے۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری ماں نے اس سے کہ دیا تھا کہ وہ مجھے سکول سے نہ نکالے۔”

مظہر الاسلام کے فن پاروں میں جس فر د کے بارے بات کی جا رہی ہے ،اس کے باطن میں چھپی تلخی اور اذیت ،حالات اور تکلیف کی تنگی کی وجہ سے خودکشی کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے اور مظہر الاسلام اپنے تخیل کی بدولت اس کو نیا آہنگ اور نیا رنگ دیتے ہیں ،جو جمالیاتی رنگ ہے۔

محبت مردہ پھولوں کی سمفنی "کا جمالیاتی جائزہ”

مظہر الاسلام کا ناول "محبت مردہ پھولوں کی سمفنی”جمالیاتی حوالہ سے خوب صورت ناول ہے۔میری رسائی اس ناول تک کیسے ہوئی۔کلاس میں دوران تدریس میرے مدرس نے جمالیات کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے اس کا حوالہ دیا ۔مجھے اسے پڑھنے اور اسکی جمالیات کو جاننے کا اشتیاق ہوا۔یہ ناول امرتا پریتم        اور ظفر عظیم کے نام منسوب ہے۔اس ناول کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پھولوں کے سائے کی سمفنی

پتوں کے سائے کی سمفنی

محبت کے سائے کی سمفنی

اگر ا ن تینوں حصوں کو دیکھا جائے تو لگتا یہ ہے کہ سمفنی کا لفظ علامتی ہے۔

یہ واقعی ایک جمالیاتی ناول ہے۔اس کی تراکیب ،جملے،جذبات،احساسات،محاکات،سچائیاں،محبت کےجذبے کا بیان مجھے بہت ہی خوب لگا۔۔میں نے اس ناول کو جب لیا تو اس کے سرورق نے ہی مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔سرورق پر ایک جوڑے کی تصویر بنی ہے۔و ہ ایک دوسرے کے بہت قریب،باہم سانسوں کو محسوس کرتے ہوئے،ان کےلباس کے مختلف حصوں پر گلاب کے پھول ٹانکے ہوئےگویا پورا وجود محبت کی لہر میں بھیگا ہوا ہے۔لباس کی رنگت سرخ اور سبزا یسی جیسےململ،سرخ رنگ جیسے اظہار کر رہا ہو کہ محبت میں انا،نفرت،حسد،لالچ،بغض ،کینہ،بے وفائی ،ہرجائی پن،کمینگی کا قتل  ہی محبت کو اعلی مقام تک پہنچائے گا اور زندگی کے سرود و لطف کے حصول میں معاون ہے۔سبزرنگ صوفیانہ رنگ ہے۔محبت میں مزاج دھیما،نر م رو،برداشت کی حدادب،کوملتا لہجے کا اظہار ہے۔دونوں مرد و خاتون کے ہاتھ میں کبوتر،یہ پرندہ امن کی علامت ہے۔محبت میں امن و سکون سے جہان عالم سے گزر جائیے۔اسلام میں کبوتر علامت تقدس ہے ۔محبت ایک مقدس جذبہ ہے۔پاک صاف شفاف جیسے ندی۔ سرورق پہ لکھا ہے۔ (یہ بھی پڑھیں ثقافت اور تہذیب کےمفاہیم کا معنوی وصوری جائزہ – نثار علی بھٹی )

محبت : مردہ پھولوں کی سمفنی

دنیا سے ختم ہوتی ہوئی محبت کو بچانے کے لیے لکھا گیا ایک ناول

یہ سمفنی کیا ہے۔مغربی کلاسیقی موسیقی میں ایک توسیع شدہ موسیقائی ترکیب۔اسے اکثر آرکسٹراکے بنانے والے استعمال میں لاتے ہیں۔ایک آرکسٹر ا میں سو کی تعداد تک موسیقار ہو سکتےہیں۔سب کے پاس الگ آلات موسیقی۔لیکن ان میں کمال کا آہنگ ہوتاہے۔ جب مل کے ان آلات موسیقی کو بجایا جاتا ہے تو ایک دھن بن جاتی ہے۔ایک ایسی دھن جو سحر زدگی کی علامت ہو۔فرحت و انبساط کا استعارہ ہو۔مردہ پھول جن کی خوشبو ختم ہونے کو ہے۔مظہرالاسلام کے ناول کے اس سر ورق سے کیا تاثر بن پایا ہے۔میں سوچتا رہا یہ کیا پیغام دیا گیا۔

محبت کے مختلف رنگ روپ ہیں ۔محبت کا بڑا آہنگ مرد وعورت کی صورت ایک تکمیلی مرحلہ ہے۔۔محبت دنیا میں امن کی علامت ہے۔محبت اس دنیا کو امن دے گی۔مظہر الاسلام جس ماحول کا نمائندہ ہے اس میں امن نہیں انتشار زدگی ہے۔محبت مر رہی ہے۔مادیت عفریت بن کے اسے نگلے جا رہی ہے۔جذبوں کی باتیں اب دھیان سے نہیں سنی جا رہیں۔اب بات لفظوں سے کہنا کا زمانہ ہے۔محبت کو لفظوں کی ضرورت نہیں۔یہ محتاج بیان نہیں۔ان جذبوں کو بیان کرنے کی نہیں محسوسات کے ذریعہ اپنے دامن میں سمیٹنے کی ضرورت ہے۔اگرچہ محبت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن ان کی خوشبو ابھی ختم نہیں ہوئی۔مظہرالاسلام اسی محبت کی خوشبو کے دائرے کو وسیع کرنا چاہ رہے ہیں۔محبت کے توسط سے امن کے گیت ایک سر میں گانے کی فکر میں ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ اس جذبے کو سب محسوس کریں ۔وہ سب کی انا کو اس سیلاب محبت میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔وہ کہتے محبت ایک دوسرے کے اندر اگنے کا نام ہے۔جس طرح بیج زمین میں اگتا ہے اور اپنی جڑیں پیوست کرتا ہے۔اسی طرح وہ محبت کے نخل سر سبز کو اپنی مٹی سے وفا کی صورت بلند اور تناور دیکھنے کے متمنی ہیں۔مظہرالاسلام لوک ورثہ کے ساتھ بھی وابستہ رہے تھے۔اس لیے پنجاب اور اس سرزمین کے واسیوں کے لیے انھوں نے ثقافتی سطح پر کام بھی کیا تھا،شاید سرورق میں دو محبت کرنے والوں کو پنجاب کی دھرتی سے دکھانا اسی کاحصہ ہو۔

اس میں چودہ ضنی قصے ہیں۔”پھولوں کے سائے کی سمفنی” کا پہلا باب طویل ہے۔اس میں جو جملے بیان کیے گئے وہ مظہرا لاسلام کے فکر و فن کے آئینہ دار ہیں۔کہانی کا خارجی آہنگ اور جملوں کی ساخت دیسی ہے۔اگرچہ معنیاتی اکائیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔کہانی کا آغاز پھولوں کے طوفانی منظر سے ہوتی ہے۔اس طوفان نے شہر میں تباہی مچا رکھی ہے۔

حمید شاہد لکھتے ہیں

"بے محبت موسم میں،محبت سے منسوب پھولوں کے اس طوفان میں لازوال انسانی جذبوں کا سارا  ریکارڈ بھیگ گیا تھا۔سب کے دلوں پر جدائی طاری تھی۔باہر پھولوں کی ناقابل برداشت بوچھاڑ جارہی تھی اور موت کی خماری میں مسحور اس ناول کا مرکزی کردار سلطان آدم اپنے فلیٹ کے کمرے میں  خودکشی کے ذریعے محبت کو بچانےکا شغل فرما رہا تھا”

یہ قصہ سلطان آدم کی نعش کے گاؤں میں پہچنے پر ہوتا ہے۔نعش تابوت میں لپٹا ہوا ہے۔لگتا یوں ہے کہ مظہرالاسلام نے اس ناول  کا نام شروع میں "تابوت” رکھنےکا جو ارادہ کیا تھا،اس تابوت کے گاؤں میں پہچنے اور اس حصہ کی تکمیل کے وقت ہی سوچا ہو گا۔اس کہانی کا ایک کردار نفیسہ ہے۔نفیسہ خوب صورت ہے۔سچائی کا علمبردار ہے۔وفادا رہے۔بڑی خوش اسلوبی سے اپنے خانہ داری کے امور اورشب بسری  کی ضرورتوں کی تکمیل میں محو ہے۔لیکن سلطان آدم کی موت سے اس میں بدلاؤ دکھائی دیتا ہے۔و ہ ایک الگ سی،پہلے سے مختلف سی  عورت بن کے سامنےآتی ہے۔سلطان آدم کے بارے میں جاننےکی خواہش میں اسےمعلوم پڑتا ہے کہ سلطان آدم محبت کی علامتوں کا جمع کنندہ ہے۔دنیا سے مٹتی محبت کو بچانےکی کوشش کرتا ہے اور بے وفائی  کےپھیلاؤ کےسامنے ایک سد راہ ہے۔اسے یہ سب سن کر بڑا عجب سا لگا۔

"محبت کا جسمی کشش اور دولت سے کوئی تعلق نہیں ”

"کچھ مرد طوائف کے ساتھ رہتے ہیں اور عورت بنا دیتے ہیں اور کچھ عورت کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے طوائف بنا دیتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

"محبت کی کہانی دراصل سیلاب کی کہانی ہے جس میں آپ کی انا ڈوب جاتی ہے۔”

"کسی ایک بھی میلے لفظ،جملے،کج ادائی یا دل کی کسی غافل دھڑکن سے محبت کےسیب کو کیڑا لگ جاتا ہے۔”

"یک طرفہ محبت کوئی محبت نہیں ہوتی۔”حمید شاہد لکھتے ہیں

"نفیسہ اور سلطان آدم کہانی میں ایک مرتبہ پھر ملتے ہیں۔یہ دونوں کےدرمیان آخر ی  ملاقات ہے۔اس ملاقات میں نفیسہ اپنا ایک خواب سناتی ہے جس میں کتابوں میں پڑی نظر انداز شدہ تتلیاں زندہ ہو گئی تھیں۔سلطان آدم ان تتلیوں کو نیک لوگوں کی روحیں قرار دیتا ہے اور یہ پیغام اخذ کرتا ہے کہ یہ موت کا موسم ہے بہار کے سارے رنگ خودکشی کے ہوتے ہیں۔ یہ اقتباس پڑھیے کہ محبت کس رنگ میں لطف و سرود کی کیفیت وارد کیے دے رہی ہے۔”محبت کی کہانی دراصل سیلاب ہی کی کہانی ہے ۔ میں تو اسے سیلاب نہیں کہتا محبت کہتا ہوں جس میں آپ کی انا ڈوب جاتی ہے ،آپ ڈوب جاتے ہیں فن ہو جاتے ہیں”مگر محبت ہوتی کیسے ہے ؟ نفیسہ نے پرتجسس تعجب سے پوچھا”بالکل اچانک جب آپ کو محسوس ہوتا ہےکہ کوئی دوسرا آپ کے اندر اگناشروع ہو گیا ہے ۔محبت ایک دوسرے کے اندر اگنا ہے ۔پہلے تو کسی بیج کی طرح دوسرے کے اندر فنا ہونا ۔اپنا آپ مٹا دینا پھر اگنا ۔جوں جوں محبت بڑھتی ہے ،ایک دوسرے کے اندر جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ۔اس پودے کو ہر روز تازہ  محسوساور جذبوں کی کھاد ،آنسوؤں کا پانی ،دوسرے کے سانسوں کی ہوا اورمن کی پر حرارت دھوپ کی ضرورت رہتی ہے ،اگر کبھی آپ کو اپنا آپ مرجھاتا ہوا محسوس ہو تو سمجھ لیں کہ دوسرے کے من کی زمین پتھریلی ہو گئ ہے اوراس نے آپ کے اندر سے اپنی جڑیں بے دردی سے سمیٹ لی ہیں ، ۔جب آپ ایک دوسرے کے اندر اگتے ہیں تو محبت پھول بن کر کھل اٹھتی ہے اور اس کی خوشبو آپ کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ دوسرے کا وجود اور آپ کا وجود ایک ہو کر ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں ۔محبت بڑی شفاف چیز ہے کسی آئینے کی طرح ۔اس پر ہلکا سا ناگواری کا کوئی میلا چھینٹا بھی فوراً دکھائی پڑ جاتا ہے ،ہر سچی اورخالص چیز کے ساتھ یہی مسئلہ ہے ۔تھوڑا سا نا خالص احساس بھی یکدم بری طرح محسوس ہونے لگتا ہے ۔اس لیے کسی بھی ایک میلے لفظ ،جملے ،کج ادائی یا دل کی کسی غافل دھڑکن سے محبت کے سیب کو کیڑا لگ جاتاہے”

فی زمانہ محبت کا جذبہ بہت سر د پڑ چکا ہے۔اب محبت بھی کاروباری ہو گئی ہے۔مظہر الاسلام اسے محسوس کرتے ہیں۔اور  اسے جھوٹی محبت کی دکانیں کہا ہے۔جیسے بیو پاری فریب اور دھوکہ سے اپنا مال بیچتے ہیں ۔آج کل وہی دھوکے محبت کے کاروبار کا حصہ بن گئےہیں۔لوگوں نے ایک چہرے پر اب دو چہرے سجا لیے ہیں ۔ایک وہ جو اصل اور حقیقیت ہے ایک وہ جسے ملمع کاری کر کے دوسروں کو دکھایا جا رہا ہے۔محبت بھی مادیت کا شکار ہو کے رہ گئی ہے۔دولت اور پیسے کی ریل پیل اور ہوس نے محبت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔”جھوٹی محبت کی دکانوں” ،” اجلی روح”،”ایماندار دل”،”خالی چرچ”،”گھنگو رخاموشی”،شفاف سانسوں” جیسی تراکیب کا استعمال ہمیں جمالیاتی تجربے سے ہمکنار کر دیتا ہے۔لطف و انبساط کی ایک کیفیت کا احساس ہو تا ہے”جھوٹی محبت کی دکانوں پر اب بھی بڑی بھیڑ ہے ۔کچھ دیر پہلے آپ جس چیز کو محبت کا نام دے رہی تھیں یہ وہی دکانیں ہیں جن کے بیوپاریوں نے اپنی سہولت کے مطابق انہیں محبت کا نام دے رکھا ہے ۔اب لوگ فارغ وقت میں محبت کرتے ہیں جیسے کوئی اداکار سٹیج پر جانے سے پہلے ماسک پہن لیتا ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کے بعد ڈریسنگ روم میں آتے ہی ماسک اتار کر گھر کی راہ لیتا ہے ۔محبت کے لیے غیر معمولی صورتحال میں ایک ہونا پڑتا ہے ۔دوسرے کے اندر جگہ چاہیے ہوتی ہے مگر آج کل لوگ دنیا کی مصلحتوں اور دولت کےانبار سے اس قدر بھر گئے ہیں کہ ان کے اندر محبت کے لیے کوئی جگہ بچی ہی نہیں اور نہ ہی ان کے پاس وقت ہے ۔محبت تو اجلی روح میں بے دھڑک رہتی ہے ۔ایماندار دل کی دھڑکنوں میں ،اونچی چھتوں والے خالی چرچ کی دیوار پر،سولی پہ ٹنگی مسیحا کی شبیہ کے مقدس سناٹے میں مہکتی ہے ۔گھنگھور خاموشی میں پل پل بھیگتی ہے ۔بے ریا آنکھوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔شفاف سانسوں میں دریا کی طرح بہتی ہےمظہر الاسلام جانتے ہیں کہ محبت میں بہت کچھ اپنا نہیں رہتا،بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے،بہت کچھ سے دامن سمیٹ کے چلنا ہوتا ہے،محبت میں اپنے جذبوں کو محبوب  کی خواہش کی قربان گاہ پر قربا ن کرنا پڑتا ہے۔محبت کرنے والےلوگ الجھے ہوتے ہیں۔ان کی سوچوں میں کئی موڑ ہوتے ہیں۔خیالات اتنے گنجلک کہ کوئی سرا نہ  ملے۔ہر وقت خواب میں گم اور مست الست ۔اور جو محبت نہیں کرتے،جن کو محبت نہیں ہوتی،جو ان جذبوں سےآشنا نہیں  وہ کیسے ہوتے ہیں

"وہ خوابوں میں نہیں رہتی بلکہ خواب اس میں رہتے تھے ۔اس نے اپنی زندگی کےبارے میں کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا ۔اس کا ماضی بڑا سادہ اور آسان سا تھا جس میں کوئی غیر ضروری موڑ بھی نہیں تھا ۔اس کےخیالات میں بھی کسی قسم کی پیچیدگی نہیں تھی ۔وہ ایک محفوظ ترین عورت تھی اس لیے کہ جو لوگ محبت نہیں کرتے وہ ہمیشہ محفوظ ہوتے ہیں ” (یہ بھی پڑھیں ثقافت اور تہذیب کےمفاہیم کا معنوی وصوری جائزہ – نثار علی بھٹی)

مظہر الاسلام پرندوں ،ان کی عادات،خاندانی پس منظرسے خوب واقف ہیں۔پرندوں کی خاموشی اور چہچہاٹ کیا اثر انگیزی پیدا کرتی ہے،اسے محسوس کرتے ہیں۔پرندوں کے انداز محبت اور اصول محبت سے بھی شناسائی ہے۔سارس کرین کی محبت کا انداز بیان کرکے ساتھ ہی ساتھ اپنے ہم جنسوں کو غیر محسوس انداز میں آگاہی بھی دی جا رہی ہے۔

"پرندے کی پراسرار خاموشی میں سے سلطان آدم کی آواز ابھری۔ یہ سارس کرین ہے ۔یہ پرندہ کونج کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔میں نے اس سے زیادہ باوفا اورمحبت کرنے والے پرندے کا ذکر نہیں سنا ،یہ پرندہ زندگی میں صرف ایک بار جوڑا بناتا ہےاور اگر اس کے نر یا مادہ دونوں میں سے کوئی ایک پہلے مر جائےتو دوسرااس کے مردہ جسم کو بھی چھوڑنے سے انکار کردیتا ہے اور اپنی باقی ماندہ زندگی اس کے مردہ جسم کی رفاقت میں گزار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کی ہڈیوں سے بھی محبت کرتارہتا ہے اور ان کی جدائی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔”

کیا ہی خوب صورت انداز اسلو ب ہے،اپنے ہم جنسوں کو بتلانےکا،سارس کرین کے پردے میں محبت کا انداز اور معراج بتائی جا رہی ہے۔ایک شہنشاہ بھی جب سارس کرین کو اپنے ہم جنس کی محبت میں مبتلا دیکھتا ہے،اور اس کے ساتھ ہی دفن ہونا چاہتا ہے،یہ محسوس کرتا ہے تو حیرانی کا اظہار کرتا ہے۔انسان تو اپنے پیاروں کو مٹی کے نیچے ڈال آتے ہیں ۔یہ پرندہ ایسا کیوں نہیں کر رہا،کیا اسے محبت نہیں آتی۔کیا انسان کا انداز محبت درست ہےیا اس ننھی جا ن کا انداز و اسلوب محبت ۔سوچ میں گم ہے۔محبت کے ہزار رنگ انسان کے دامن میں سمٹ آتے ہیں

"ایک مغل شہنشاہ اس وقت ایک سارس کرین کو دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا جس نے اپنےمردہ ساتھی کی ہڈیوں کو چھوڑ کر جانےسے انکار کر دیا تھا اور ان کو اپنے پروں میں سمیٹ کر بیٹھ گیا تھا یہاں تک کہ کیڑوں نے اس کی چھاتی میں سوراخ کردیےتھے۔”

مظہر الاسلام وفا اور بے وفائی کے بدلے ضابطے اور اصولوں کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔محبت کیسے ہوتی تھی۔وفا کی طلب کس سے ہوتی تھی۔محبت کا بھرم کس کے دم سے قائم تھا،محبت کی علامت فاعل کون تھا۔محبت کا سچ اور وفاداری سے جو رشتہ ہے وہ اب کیساہےمظہر الاسلام اس کو گہرائی میں جا کے دیکھتے ہیں اور اسے محسوس کرتے ہیں”پہلے صرف مرد بے وفا ہوا کرتا تھا مگر اب مرد سے یہی بے وفائی                                                   عورت نے بھی سیکھ لی ہے ۔کبھی عورت مرد میں وفا ڈھونڈا کرتی تھی اب مردعورت میں وفا تلاش کرنے لگا ہے جبھی تو اب محبت ختم ہوتی جا رہی ہے یوں کہنازیادہ مناسب ہو گا کہ محبت ہے مگر محبت نہیں ہے ۔ پیار سے خالی محبت ۔ ۔ ۔چندایک لوگ ہیں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں باور مرد بھی جو اپنے اپنے دائرےمیں وفاداری اور سچائی کی سزا کاٹ رہے ہیں

اب اس نیچے دیے گئے اقتباس کو دیکھیے ۔منظر نگاری کا لطف لیجئے۔سارا سماں ہمارے خیالات میں یوں سما گیا ہے جیسا یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔اگرچہ طوفان ہے اور تباہی و بربادی پھیلا رہا ہے مگر ایک لمحے بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اس منظر کو دیکھنا ترک کر دیں۔پھولوں کی جو رنگا رنگ بہار ہے ،ان کی رنگت ایک لطف خیز کیفیت پیدا کر رہی ہے۔”موسم بہا رکے متوالے”،”سحر انگیز یادیں”،”دلکش تتلیاں”،”حیرت انگیز طوفان”،”نیلی ہوا”،”ترچھی بارش”،”سہمی ہوئی گلیوں”،”حیرت زدہ کھڑکیوں”،”بے بس دروازوں”،”خوفزدہ بازاروں” کیسی خوب صورت تراکیب ہیں۔مکمل منظر کی تفہیم ہو جاتی ہے۔

"موسم بہار کے متوالے پرندوں،سحر انگیز یادوں،اور دلکش تتلیوں سے بھری ہوئی وہ عجیب و غریب شہر کے لوگ کبھی بھی نہیں بھلا سکیں گے۔جب پھولوں کے ایک حیرت انگیز طوفان نے اچانک پورے شہر میں تباہی مچا دی تھی۔سر پھری نیلی ہوا اور ترچھی بارش مین پھول پتھروں کی طرح برستے تھےگلاب کے کانٹوں نے چہرے زخمی کر دیے تھے۔ہو ا سے لڑتے ہوئے ڈیلیا اور گیندے کے پھولوں کی مسلسل بوچھاڑ سے کئی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئےتھے۔سہمی ہوئی گلیوں،حیرت زدہ کھڑکیوں،بے بس دروازوں اور خوفزدہ بازاروں میں گونجتی ناراض ہوا سے الجھتے ہوئے پھولوں پر پاگل پن سوار تھا۔”

مظہر الاسلام کی جمالیات کے رنگ بہت گہرے ہیں۔اگرچہ نفیسہ کے لہجے میں اب تلخی ہے،لیکن اس کے بعد جو منظر اور خواہش کا بیان ہو رہا ہے ،یہ تلخی کہیں بہت ہی نیچے دب کے رہ گئی ہے،پھولوں سے بنی کشتی  کیسے دکھے گی،کتنی کومل ہو گی،یہ تصور ہی ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔تتلیوں کا سائبان کیا منظر نگاری ہے،موت کے سمندر کو چیرنا کتنا اچھا لگتا ہے

"وہ ہمیشہ ایسے ہی باتیں کرتا ہے”نفیسہ  کے لہجے میں ہمدردی کے ساتھ ساتھ تھوڑی سے تلخی بھی گئی گئی تھی”ابھی پچھلے دنوں مجھ سے کہ رہا تھا کہ اتنے سارے پھول دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ان پھولوں کی  ایک دیدہ زیب کشتی بناؤں جس کا سائبان تتلیوں کا ہو اور پھر اس کشتی میں بیٹھ ک موت  کے  سمندر کو چیرتا ہوا اس پار اتر جاؤں”خدا ایک سچائی ہےجو ہمیشہ سے ایک ہے۔اس کی ہستی مطلق ہے،اس میں کوئی بدلاؤ نہیں ہے۔محبت کا جذبہ بھی سچائی ہے اس کی بھی کوئی دوئی نہیں ہے۔حضرت مسیح کا خدا کو محبت کہنا۔مظہر الاسلام مذہب کی سچائیوں کو بھی اپنے جانتے ہیں۔صدیوں سے قائم روایت کو سائنس کی دھند میں گم نہیں ہونے دے رہے،پیغمبر ہمیشہ سچ کہتے ہیں،ان کی بات حتمی ہے کیونکہ وہ خد ا کی بات ہے،مظہر الاسلام اس کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔حسن کے کئی پہلو ہیں صداقت بھی حسن ہی ہے۔”میرے خیال میں خدا اور محبت کا کوئی نیا تصور پیش نہیں کیا جا سکتااور جو لوگ ایسا کرنےکی کوشش                                          کرتے ہیں وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حضرت یسوع مسیح نے کہا تھا ،لو از گاڈ!”

ذرا غور تو کیجے ہوا کا یہ عمل ،ایسا لگتا ہے جیسا کہ انسانی عمل ہے،ہوا کا چمک سے فائدہ اٹھا نا ،غوطہ مارنا،اچھل کر لے جانا ،یہ سارا عمل عجیب لطف و انبساط دے رہا ہے۔اگرچہ لفافہ کا یوں ہاتھ سے نکل جانا،ایسے صورت کہ جب وہ شدید جذباتی دباؤ کا شکار بھی ہو،نا گوا رہے۔مگر الفاظ کے چناؤ اور تراکیب کےاچھوتے استعمال نے مسرت سے "شدید جذباتی دباؤ میں جب وہ لفافہ کو پکڑنےہی والا تھاکہ اچانک آسمانی بجلی کی خوفناک گرج دار چمک                                   سے فائدہ اٹھا کر ہوا نے کسی چیل کی طرح بر آمدے میں غوطہ مارا اور لفافے کومرغی کے چوزے کی طرح اچک کر اڑتی ہوئی عدالت کے احاطے سے نکل گئی”

اس ناول کے چند جملے جو چونکا دینے والی کیفیت لیے ہوئے ہیں

یہ موت کو موسم ہے ۔بہار کے سارے رنگ خودکشی کے ہوتےہیں

محبت کسی طوفانی موسم میں ایک ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے

عورت سامنے کی چیزوں سے پیار کرتی ہے

عشق صرف مرد کرتا ہے

عورت صرف شادی کرتی ہے یا شادی کی غرض سے عشق اپنے اوپر طاری کر لیتی ہے

عورت ایک چھت اور اپنی بقا کےلیے افزائش نسل کرتی ہے

عورت ایک جیل ہے

پہلے صرف مرد بے وفا ہوا کرتے تھےاب یہی بے وفائی عورت نےسیکھ لی ہے

مرد عورت میں وفا تلاش کرنےلگا ہے تبھی تو محبت ختم ہوتی جا رہی ہے

اب عورت بھی دو مردوں سے محبت کاکھیل کھیلتی ہے

زندگی اس مکار عورت کی طرح ہے جو مالی اور جسمانی عیاشیوں کی خاطر کئی مردوں سے جز وقتی محبت کا کھیل رچاتی ہے

زندہ بلیاں مجھے اس لیے بھی اچھی نہں لگتی کہ وہ چوہے کھاتی ہیں ،سات گھر پھرتی ہیں،ایک بلے پر اکتفا نہیں کرتیں،مکاری اور چالاکی سے گھات لگا کر معصوم پرندوں کا شکار کر لیتی ہیں

محبت کی ایک نہیں کئی زندگیا ں ہوتی ہیں گی اس بے وفا عورت کی مانند ہے جس کی آنکھیں رات بھر میل تھکن سے چور اور منہ لیس دار سانسوں کی بو سے بھھکے چھوڑتا ہے

بنیادی طور پر یہ ناول جمالیاتی فکر وفن کے اصولوں کی بنیاد پر لکھا گیا ہے۔مظہر الاسلام کے ناولوں میں کہانی بھی ہوتی ہے اور موضوع بھی۔ناولوں میں مقصدیت بھی ہوتی ہے۔یہ ناول محبت کےجذبے کو از سر نو تازہ کرنے اور محبت کو محسوس کرنے کے لیے لکھا گیا۔مظہر الاسلام ایک بے چین کہانی کار ہے۔اس کی باتوں میں درد اور کسک ہے۔دلچسپ بھی ہیں۔کہانی بہت انوکھی اور اچھوتی ہوتی ہے۔ناولوں کا زیادہ تر موضوع محبت،موت،انتظار اور جدائی ہے۔وہ محبت کی تلاش میں بھٹکنے والوں،بچھڑے ہوئے لوگوں،آزادی ڈھونڈنے والوں اور روٹھنے والوں کی کہانی لکھتا ہے۔مظہر الاسلام کے ناولوں میں صداقت ،سچائی اور جذبوں کی بات کی گئی ہے۔ مظہر لکھتے ہیں

"شاید ایسے ہی آئندہ نسل کو بھی کسی وقت محبت کے اس میوزیم میں سے گزرتے ہوئےسچی ،خالص اور بے لوث محبت کی مہک ایک بار پھر اپنی طرف پلٹ آنے پر مجبو ر کر دے۔تبا ہ شدہ محبتوں کے یہ آثار قدیمہ دیکھ کر وہ لالچ،دغا،فریب،جھوٹ،بے وفائی اور مادیت پسندی کی گنجان روش میں سےاپنی روح کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔”

اس ناول میں محبت کی نشاۃ الثانیہ کی بات کی گئی ہے۔مرتی ہوئی محبت کو زندہ دیکھنا چاہ رہے ہیں۔اور اس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔وہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا جانتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں دوسرے کے غم میں مکمل شرکت،ابتدائیہ میں لکھتے ہیں

"کہنے لگی: ایک تو میں تمہارے ان جنازوں سے تنگ آ چکی ہوں۔کیا تم جنازوں کے سوگوار منظروں کے مالی ہو ۔میں اکثر سوچتی ہوں تم موت اور جنازوں کے بارے اس قدر تفصیل کیسے شامل کر لیتے ہو۔

میں نےکہا: جنازوں کےجاندار منظر بیان کرنے کے لیے اس شخص کی موت کا حصہ دار ہونا پڑتا ہےجس کا وہ جنازہ ہو تا ہے۔”
منشی پریم چند نےکہا تھا

"ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترتا ہے،جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو،جس کا جوہر تعمیر کی روح،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہوجو ہم میں حرکت ،ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلائے نہیں کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہو گی”

مظہر الاسلام کو اس بات کے فنی ادراک کا علم ہے۔وہ اپنے قاری کو ساتھ ساتھ رکھتا ہے۔منظر نگاری اور امیجز اس عمدہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ قاری اس کا ساتھ دینے پر مجبور نظر آتا ہے۔

 

 

 

نثار علی بھٹی

ایس ایس اای اردو

گورنمنٹ ہائی سکول کوہلیاں

nisarbhati786@gmail.com

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔
مظہر الاسلامنثار علی بھٹی
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
خیبر پختونخوا کی ایک توانا نسائی آواز: ڈاکٹر شاہدہ سردار – راج محمد آفریدی
اگلی پوسٹ
سیٹھانی – ذبیح اللہ ذبیح

یہ بھی پڑھیں

ناول ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ایک مبسوط جائزہ...

نومبر 17, 2024

ناول ”مراۃ العُروس “ایک مطالعہ – عمیرؔ یاسرشاہین

جولائی 25, 2024

ڈاکٹر عثمان غنی رعٓد کے ناول "چراغ ساز”...

جون 2, 2024

گرگِ شب : پیش منظر کی کہی سے...

اپریل 7, 2024

حنا جمشید کے ناول ’’ہری یوپیا‘‘  کا تاریخی...

مارچ 12, 2024

طاہرہ اقبال کے ناول ” ہڑپا “ کا...

جنوری 28, 2024

انواسی :انیسویں صدی کے آخری نصف کی کہانی...

جنوری 21, 2024

مرزا اطہر بیگ کے ناولوں کا تعارفی مطالعہ...

دسمبر 10, 2023

اردو ناول: فنی ابعاد و جزئیات – امتیاز...

دسمبر 4, 2023

نئی صدی کے ناولوں میں فکری جہتیں –...

اکتوبر 16, 2023

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (117)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (473)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,124)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں