کیف بھوپالی(1920۔1991) کی شاعری اور ان کی شخصیت شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کسی طلسم سے کم نہیں۔کم و بیش نصف صدی تک انھوں نے مشاعرے پڑھے اور جس مشاعرہ میں بھی گئے نہ صرف کام یاب و کامران رہے،بلکہ ان کے کلام نے دھوم مچادی۔جس طرح داغ کے سامنے امیر وجلال اور بعض دوسرے شعرا کی شاعری کا جادو نہیں چل سکا، وہی صورت حال کیف کے معاصر شعرا کی بھی رہی۔متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ اگر وہ منتظمین سے کسی بات پر ناراض ہوگئے تو مشاعرہ گاہ کے باہر آکر غزل سرا ہوگئے اور پھر مجمع اُدھر سے اِدھر آجاتا۔مشاعروں میں ان کا انداز شعر خوانی لاجواب تھا۔تحت اور ترنم کے حسین امتزاج سے مشاعروں کے وقار میں اضافہ کیا۔کیف صاحب کا جانا پہچانا انداز تھا اور اسی کے ساتھ وہ جس طرح شعرپڑھتے پڑھتے اچانک پیچھے کی طرف مڑتے اور گردن کو بل دیتے سننے والوں پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چھوٹی،مترنم اور رواں دواں بحروں کا انتخاب ان کا ایک الگ تخلیقی رویہ تھا۔
کیف بھوپالی کو اگرچہ شاعری ورثے میں ملی تھی، مگر اس میں بہت کچھ ایجاد بندہ کوبھی دخل تھا۔چونکہ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ سادگی اور سادہ بیانی کی روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، غالباً اسی وجہ سے بعض لوگوں نے ان کی شاعری کو براہ راست قسم کی شاعری سمجھا، جبکہ ان کے کلام کے مطالعہ سے یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ کیف بھوپالی فن اور فنی ابعاد پر بڑی گہری نگاہ رکھتے ہیں اور قدر ت نے انھیں فکر رسا کی دولت سے بھی مالامال کررکھا ہے۔اختر سعید خاں آہنگ کیف کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
کیف کے لفظوں کی صوتی اور غنائی خاصیت،موسیقی سے رچا ہوا اسلوب،مترنم بحریں،جذبے کی تابناکی اور فضا آفرینی ایک سیل کی صورت سننے والوں کو بہائے لیے جارہی تھی۔وہ جب تک جیے مشاعروں کی جان بنے رہے۔بھوپال میں یہ مقبولیت شاید ہی کسی شاعر کو حاصل ہوئی ہوکہ اس کی پوری پوری غزلیں لوگوں کو زبانی یاد ہوں۔ (1)
یہ سچ ہے کہ کیف کی شاعری کا خمیر عشق و محبت سے اٹھا تھا، مگر کیف نے جس سادہ اور سہل انداز میں اسے پیش کیا وہ انداز اور اسلوب ان کا اپنا تھا۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیاجائے کہ کیف بھوپالی کے یہاں دوسرے مضامین نہیں پائے جاتے۔وہ فکری اعتبار سے ترقی پسند تھے۔قیدو بندکی اذیتوں سے گزرچکے تھے۔وہ سماجی رسوم اور روایتی فکر کے خلاف تھے۔ اس کے واضح اور مبہم اشارے ان کی شاعری میں بھی ملتے ہیں۔کیف کے اس آہنگ کو ان کی نظموں میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔غزلوں میں بھی بلند آہنگی کے مثالیں موجود ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں فہد _اللہ کی امان میں – ڈاکٹر عمیر منظر )
سلام اس پر اگر ایسا کوئی فنکار ہوجائے
سیاہی خون بن جائے قلم تلوار ہوجائے
لیکن اسے کیف بھوپالی کا نمائندہ اسلوب یا شعری مزاج نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ ا س سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں ایک طرف انھوں نے جگر اسکول کو تقویت بخشی تو تحریک سے وابستگی کے نتیجے میں جوش ملیح آبادی کا بھی تتبع کیا۔
کیف بھوپالی کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ پامال اور بار بار کے باندھے ہوئے مضامین کو بھی نہایت خوبی سے نبھاتے ہیں اور اسے نہ صرف ایک نیا رخ دیتے ہیں بلکہ کیف و مستی کی آمیزش سے شعر کے آہنگ کو بہت بلند کردیتے ہیں،کیف کا مشہور شعر ہے ؎
تیرا چہرہ کتنا سہانا لگتا ہے
تیرے آگے چاند پرانا لگتا ہے
محبوب کے چہرے کے سامنے سارے حسن بیکار ہوجاتے ہیں۔ کلاسیکی شاعری کا یہ پامال ترین مضمون ہے۔البتہ کلاسیکی شاعری میں عام طور سے پرانے کی صفت دنیا کے ساتھ بیان کی جاتی ہے، چاند کے ساتھ نہیں۔ لیکن کیف کی سادہ بیانی کی وجہ سے اُس طرف نظر نہیں جاتی۔چہرہ کے سہانے پن اور چاند کے تصور سے ہم احساس کی اس وادی میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں چاند،چہرہ اور اس کے دیگر لوازم ہمارے جذبے کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔ میر کا ایک شعر ہے ؎
کیا چہرہ تجھ سے ہوگا اے آفتاب طلعت
منہ چاند کا جو ہم نے دیکھا تو چھائیاں ہیں
میر نے اس شعر میں محبوب کو آفتاب طلعت کے لفظ سے خطاب کیا ہے۔چونکہ چاند میں دھبے ہوتے ہیں،اس لیے وہی دھبے چاند کے چہرے پر جھائیوں کی دلیل بن گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے مصرعے میں چہرہ ہونے کا فقرہ مقابل ہونے کے معنی میں ہے۔کیف بھوپالی کا شعر ہے ؎
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
وطن سے تعلق اور اپنی مٹی سے محبت کا یہ خوب صورت اظہار ہے۔اردو کی قومی اور وطنی شاعری میں وطن سے محبت کے اظہار کی مختلف جہتیں ملتی ہیں۔ گزشتہ صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے بعد وطن سے محبت کے ایک نئے احساس نے جنم لیا اور وہ وطن میں رہ کر اپنی ہی سرزمین کو خیر باد کہنا۔حالیہ تین چار دہائیوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔اردو شاعری میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔کیف صاحب کا یہ شعر اسی تصور کی نشاندہی کرتا ہے۔کیف صاحب کے ایک اہم معاصر شاعر حفیظ جون پوری نے اسی مضمون کو اس طرح شعر ی پیکر عطا کیا ہے ؎
میں نے جب وادی غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
کیف بھوپالی کے یہاں روایت کا نہ صرف گہرا شعور ہے، بلکہ روایت سے گہرے استفادہ کی صورت بھی جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔شاعری میں اظہار بیان کی مختلف صورتیں ہیں۔ علم بیان میں استعارہ بالکنایہ کی صنعت ہے یعنی غیر مرئی چیزوں کو اعمال انسانی سے متصف کرنا۔فارسی اور اردو میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔بانگ درا میں اقبال کی نظم کا عنوان ہے ”ایک آرزو“اس کا ایک شعر ہے ؎
یہ دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
یعنی کہسار کے دلفریب نظارے کو پانی اٹھ اٹھ کر موج کی طرح دیکھ رہا ہے۔غیر مرئی میں مرئی کی صفت دیکھی جاسکتی ہے۔اسی سلسلے میں علی سردار جعفری کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
دامن جھٹک کے وادی غم سے گزر گیا
اٹھ اٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر مجھے
گزشتہ سطور میں یہ بات کہی جاچکی ہے کہ کیف کے یہاں روایت کا گہرا شعور اور اس سے استفادہ کی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔اسی تناظر میں پہلے مشہور فارسی شاعر صائب کا شعرملاحظہ فرمائیں ؎
دلم بپاکیِ دامان غنچہ می لرزد
کہ بلبلاں ہمہ مستند و با غباں تنہا
میرا دل غنچے کی پاک دامنی کے خیال سے لرزتا ہے،کیونکہ تمام بلبلیں مست ہیں اور باغباں اکیلا ہے۔(ایسا نہ ہو کہ بلبلیں غنچوں کے دامن عصمت کو تار تار کردیں)۔
فارسی شعر کے مضمون کو کیف بھوپالی نے صرف باندھا ہی نہیں ہے،بلکہ استعارہ بالکنایہ کی جو صورت پیدا کی ہے وہ کمال کی ہے۔کیف صاحب کہتے ہیں۔
جنگلی پنچھی دل کے دل
کانپ رہے ہیں باغ کے پھل
خوف اور ڈر انسان کو ہوتا ہے باغ کو نہیں۔بہت ہی خوب صورت انداز میں کیف صاحب نے شعر کہا ہے۔
تاج محل کا حسن و جمال اردو شاعری کا محبوب مضمون رہا ہے۔بالعموم تاج محل کو محبت کا شاہ کار اور اس کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔اسے دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اور اسی لیے تاج کو عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے۔کیف بھوپالی نے محبت کی اس عظیم یادگار پر ایک ایسا شعر کہا جوہماری غزلیہ روایت کے اچھے شعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس شعر کے بہت سے فنی پہلو ہیں۔پہلے شعر سنیں ؎
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تری تصویر لگا دی
ایسی غیر معمولی عمارت میں جو کہ فن تعمیر کے لحاظ سے بھی شاہ کا ر کا درجہ رکھتی ہو، کیف بھوپالی نے بہت سادگی کے ساتھ اس میں ایک کمی نکال دی۔لیکن اس کمی کا جو جواز پیش کیا ہے وہ منطقی بھی ہے اور شعری رسوم کے عین مطابق بھی۔اور یہ ساری کارگزاری سادگی اور سادہ بیانی کا اعلی نمونہ ہے۔ایک بات اور دیکھتے جائیں کہ محبت کی اس عظیم یادگار میں محبت کی نشانی ہی نہیں تھی۔یعنی یہ کیسے مان لیں کہ یہ محبوب کی یادگار ہے اور یہی اس کی واضح کمی تھی،جس کو محبوب کی تصویر کو لگاکر ختم کردیا۔شعری رسوم کے تناظر میں جب اس شعر پر غور کرتے ہیں تو کیف بھوپالی کی معجز بیانی پر ایمان لانا ہی پڑتا ہے۔اور اس طرح کے اظہارات میں سہل ممتنع کے امکانات کو نہ صرف پیش نظر رکھنا،بلکہ بروئے کار لانا بھی الگ سے ایک کمال کا باعث ہے۔ (یہ بھی پڑھیں روایت اور انحراف کا توازن:سلطان اختر – ڈاکٹر عمیر منظر )
کیف بھوپالی کی شاعری میں تکرار، قریب المعنی الفاظ کا ایک ساتھ اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے۔اس طرح کے استعمال سے مصرع سازی اور مضمون طرازی کے بہت کام باب نمونے ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس نوع کے بعض اشعار تو زبان زد خاص و عام ہیں۔مثلاً ؎
زندگی شاید اسی کا نام ہے
دوریاں مجبوریاں تنہائیاں
یہ غزل بارہ شعر پر مشتمل ہے۔ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں مندرجہ بالا مثالوں کی طرح تین تین لفظ ہیں،اس نوع کی غزلیں روانی و برجستگی کی ساتھ ساتھ نفس مضمون کے اعتبار سے بھی بہت عمدہ ہیں۔البتہ کہیں کہیں کیف صاحب پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔لیکن اشعار کی برجستگی اور روانی اس قدر متاثر کرتی ہے کہ جب تک باریکی سے نظر نہ ڈالیں پتا نہیں چلتا۔مثلا اسی غزل کا مطلع ہے اور جونہ صرف بہت مشہور ہے، بلکہ زبان زد خاص و عام بھی ہے۔
ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں
تہمتیں، بدنامیاں، رسوائیاں
دوسرے مصرعے میں ایک زمرے کے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں، جن میں دو معنوی اعتبار سے ایک ہی ہیں۔یعنی بدنامیاں اور رسوائیاں میں سے کسی ایک لفظ سے شعر کا مفہوم پورا ہوجاتا ہے،دوسرا فقرہ صرف شعر کے وزن کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ چند اشعار اور بھی دیکھتے چلیں، یہ کیف صاحب کے کامیاب شعری تجربے ہیں ؎
تن تنہا مقابل ہورہا ہوں میں ہزاروں سے
حسینوں سے رقیبوں سے غمو ں سے غم گساروں سے
کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہیں
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداؤں سے اشاروں سے
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فُلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
اس طرح کی مزید مثالیں کیف صاحب کے یہاں مل جائیں گی۔واضح رہے کہ ان اشعار میں کوئی بہت اہم مضمون بیان نہیں کیا گیا ہے، لیکن اردو غزل کے عام مضامین کو جس برجستگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔غزل کی ایک صفت جو یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ دل سے نکلتی ہے اور دل پر ہی اثر کرتی ہے۔کیف بھوپالی کے اس نوع کے اشعار میں یہ خوبی بہت زیادہ ہے۔یہاں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں اس طرح گلے ملتے ہیں کہ ایک دوسرے کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔تیسرے شعر میں عاشق کی حرماں نصیبی کا ذکر ہے اور یہ غزل کا پامال مضمون ہے کہ محبوب نے عاشق کی طرف نظر التفات نہیں کی او رنہ جانے کن کن سے ملتا رہا،لیکن اس مضمون کوادا کرنے کے لیے ایسے عوامی لہجے کو اختیار کیا کہ اس سے زیادہ عام اور آسان لہجے میں اس بات کو نہیں کہا جاسکتا،البتہ بیان کے لطف کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔تکرار الفاظ کی عمدہ مثال کے طورپر بھی یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے۔دوسرے مصرعے میں ردیف وقافیے کے علاوہ صرف دو لفظ ہیں۔وہ اور فلانے جبکہ مصرع اولی میں ترستے ہی کی تکرار کو علیحدہ کردیں تو صرف ایک لفظ ’ہم‘ بچتا ہے۔کیف صاحب نے لفظوں کے استعمال میں جس کفایت شعاری سے کام لیا ہے، ان کی اس تخلیقی ہنر مندی کی داد ہم سب پر واجب ہے۔ آخر میں کیف بھوپالی کے ان دواشعار کا ذکر ضروری ہے ؎
جو معتبر ہوں تو اتنا ہی معتبر ہوں میں
کہ سطح آب پہ ٹھہرا ہوا شجر ہوں میں
ترا وجود حقیقت مگر کہاں ہے تو
مرا وجود فقط واہمہ مگر ہوں میں
یہ دونوں اشعار غور و فکر والے کیف بھوپالی کی نمائندگی کرتے ہیں۔یعنی ایک شخص عشق و محبت کی وادی کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتا، بلکہ کائنات کے اسرار و رموز پر بھی اس کی گہری نگاہ ہے اور اسے وہ ایک الگ زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اعتبار کی جو صورت گری کیف صاحب نے کی ہے،وہ صرف نادر ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ شاعر کے خلاق ذہن کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غور و فکر کے مضامین میں بھی وہ نادرتشبیہات کو کس طرح بروئے کار لاتا ہے۔پہلے مصرعے میں ”اتنا ہی معتبر“کا بلیغ جواز دوسرے مصرعے میں ”سطح آب پہ ٹھہرا ہوا شجر“کی صورت میں پیش کیا گیاہے۔
دوسرا شعر بھی بہت اہم ہے۔باور کیا جانا چاہیے کہ کیف صاحب زندگی کے اسرار و رموز پر ہی نگاہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ خدا اور بندے کے بعض نازک رشتوں پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے۔اور یہ شعر اسی فکر کا آئینہ دار ہے۔حالانکہ وجود اور عدم کا مسئلہ روز اول سے ہے۔ یہ کوئی نیا نہیں ہے۔البتہ اس تناظر میں کیف صاحب کا طنزبہت بھرپور ہے اور وہ وجود جو محض ایک واہمہ ہے، اس کے ہونے کا اقرار یا اعلان بہت خوب ہے۔
کیف بھوپالی کو اردو کے نامور شاعر کے طور جانا جاتا ہے۔ان کے کلام کو جو عوامی شہرت اور مقبولیت ملی وہ محض مشاعروں اور ان کے ترنم کی رہین منت نہیں تھی،بلکہ اس میں ان چیزوں کے ساتھ ساتھ اُن کی تخلیقی ہنر مندی بھی شامل تھی۔سطور بالا میں کیف صاحب کے جن اشعار کا مطالعہ کیا گیا ہے اور ان کے فکر و فن کے جن پہلو ؤں کو اجاگر کیا گیا ہے، اس سے کیف صاحب کی شعری شخصیت اور اس کی قدرو قیمت کا خاطر خواہ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ہ
حواشی:
1۔آہنگ کیف،کیف بھوپالی،ناشر،سلیم جعفری (امارات) 1993ص: 6
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی۔لکھنؤ کیمپس
oomairmanzar@manuu.edu.in
Dr. Omair Manzar
Assistant Professor
Dept. of Urdu
MANUU, Lucknow Campus.
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
بہت جامع مضمون اور کیف کی شاعری کے فن کو بخوبی سمیٹا گیا ہے