لسانیاتی تحقیق میں معاشرتی رویے:
زبان کسی بھی انسان کی بنیادی ضروریات میں سےایک ہے اوریہی اشرف المخلوقات کی انفرادیت بھی۔ایک انسان کو اپنےجذبات واحساسات کا اظہار کرنے کے لیے زبان کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔دو مختلف زبانوں کے حامل انسان اکٹھے سفر کررہے ہوں تو پھر بھی وہ نہ اپنی بات کسی کوسمجھا سکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کی بات کا ادراک بذاتِ خود کرسکتے ہیں۔زبان کی ترقی کسی ملک کی تاریخ،ثقافت کی ترقی وترویج میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کو صفحۂ ہستیسےمٹاناہوتواس سے جنگ مول لینے ،یا قتل وغارت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی زبان کو ختم کردیں۔تو بڑی بڑی تہذیبیں اس اقدام سے ختم ہوجاتی ہیں۔جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ زبان اور اس حوالے سے تحقیق کتنی اہم ہے۔اسی تناظر میں اپنی زبان اردو کودیکھنے کے لیے تین مختلف جہات سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ موجودہ دور میں ایک طاقت ور ترین ذریعہ ہے۔اس کے دوروپ ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا،اور ادب کے حوالے سے بھی دیکھا سکتا ہے۔
دورِحاضر میں الیکٹرانک میڈیا اور اردو زبان:
اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق اردو ہندی بولنے والوں کو ملا کردیکھیں تو اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اردو نثر کاآغاز فورٹ ولیم کالج سے ہی ہوا اور ساتھ ہی قواعد وزبان کو سمجھنے کے لیے لغات لکھنے کاآغاز کیا گیااس دور میں کا فی گرامر لکھی گئی۔۔ دورِ جدید میں تمام علاقوں اور زبانوں میں جہاں ٹیکنالوجی اورالیکٹرانک میڈیا نے انقلاب برپا کردیا ہے تو ساری دنیا ایک عالمی گاؤں کی مانند سمٹ کر رہ گئی ہے۔اس کے ذریعے ایک ملک کے باشندے کسی دوسرے ملک،خطے یا علاقے کے مختلف زبانوں کے حامل افراد کےجذبات وخیالات تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرانک میڈیا ایجاد ہی سے روز بہ روز ترقی کی منازل طے کررہا ہے اور ہمارے عوام سب سے زیادہ اس ذریعے سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔لیکن اگر مختلف ٹی وی چینلز پر بولی جانے والی اردو زبان کے معیار کا مشاہدہ کریں تو کچھ زیادہ مسرت نہیں ہوتی بلکہ اس کی جگہ تشویش اور حیرانی لے لے گی۔کیوں کہ یہاں زبان کے قواعد وضوابط کا خیال رکھے بغیرہر کوئی اپنی ہی دھن میں مست دکھائی دیتا ہے۔اس سے زبان زوال کی طرف جارہی ہے گو کہ یہ زبان کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ابتداء کے اردو ڈراموں اور پروگراموں کی بات کریں جب ملک ابھی بنا ہی تھا تو تب زبان/لسان کی قدر بھی کسی حدتک تھی ایک نیٹ ورک (پی ٹی وی )پر اس وقت بہت خالص اور اچھی اردو بولی جاتی تھی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا نئے نئے چینل وجود میں آتے گئے تو زبان کی صحت کا معیاربھی گرتا چلا گیا۔ابغلط اردو اور تلفظ کا رواج ہمارے میڈیا ڈراموں،اشتہارات،خبروں،بحث ومباحثوں،چینلز کے ذریعے ہونے والے مختلف مارننگ شوز وغیرہ میں اس حد تک ہوچکا ہے کہ انتہائی غیر صحت مندوغیر مستند زبا ن دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔
مثلاً:نیوز چینلز کو ہی دیکھ لیں ان پر سیاسی،معاشی یا معاشرتی مسائل پر گفتگو کرنے والے خواتین وحضرات یا خبریں پڑھنے والوں کے تلفظ اور اپنی قومی زبان سے ناواقفیت کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔لیکن اس اعتبار کو سرکاری ٹی وی(پاکستان ٹیلیوژ ن)نے بہت حد تک بحال رکھا ہے۔وہاں کسی بھی کام کی ملازمت کے لیے اردو زبان وادب سے پوری طور پر شناسائی رکھنے والے افراد کو ہی رکھا جاتاتھاتاکہ عوام تک درست معلوماتدرست زبان میں پہنچ سکیں۔ان کے یہاں میزبانوں کے انتخاب میں بھی بڑی احتیاط سے کام لیا جاتا تھا،ماضی پر نظر ڈالیں توقریش پور،عبیداللہ بیگ، ضیاء محی الدین، ،طارق عزیز،مستنصر حسین تارڑ،انورمقصود،لئیق احمد،فراست رضوی،اشفاق حمد،افتحار عارف جیسے بڑے ادیب،شاعر،دانشور اور اردو زبان وادب پر گہری نظر وعمیق مطالعہ رکھنے والے افراد اس سے منسلک رہے۔
لیکن اس چیز کا موازنہ موجودہ دور کےنجی ٹی وی چینلزسےکریں تو صورتِ حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔یہاں اردوزبان انتہائی مظلوم اور گھر کی لونڈھی کے برابر بھی جگہ پاتی نظرنہیں آتی۔پھر تلفظ ہویا تذکیروتانیث،بنیادی قواعد ہر جگہ یہ غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔تلفظ تو چلیں ایک ثانوی چیزہے ماہرِ ِلسانیاتاس ضمن میں رعایت برتتے ہیں کیوںکہاپنی مادری زبان اردو کے علاوہ ہونے کے سبب تلفظ میں تھوڑے بہت فرق یا غلطی کو نظر انداز کردیاجاتا ہے۔مثلاً پنجابی، فارسی،سنسکرت اور گجراتی بولنے والوں کے ہاں ایک ہی لفظ کے تلفظ میں ردوبدل ہوسکتاہے۔لیکن افسوس !صد افسوس !پاکستانی قوم دنیا کی وہ واحد ملت ہے جو بذاتِ خوداپنی زبان کے قواعد و گرامر کو بگاڑنے کی طرف مائل ہےجیسے ‘آپ کیا کرتے ہو’،’آپ کب آؤ گے’،’آپ کیا پیوؤ گے’ یعنی ایک ہی جملے میں تضاد موجود ہے۔ایک لفظ تعظیم جبکہ دوسرا تذلیل بھی ہے۔
لڑکیوں کے لیے لفظ ‘بیٹی’کی جگہ‘بیٹا’بطور فیشن غلط الاعام ہوچکاہے۔اسی طرح بیٹیوں یا لڑکیوں کے لیے ان جملوں کا استعمال کہ ‘بیٹا کیسےہوآپ؟کہاں جارہے ہو؟کیا کررہےہو؟’قواعد کی رو سے غلط،اور تذکیرو تانیث سے بے بہرہ ہونے کا ثبوت بھی ہے۔
یہ اغلاط اس حد تک عام ہوچکی ہیں کہ بعض اوقات درست تلفظ اداکرنےوالے کو غلط قرار دے دیا جاتا ہے۔سب سے عام غلطی جو قریباً ہر چینل پر دہرائی جاتی ہے وہ لفظ”عوام“کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہےیعنی انتہائی آسان اور عام لفظ کومذکر سے مونث پڑھا جاتا ہے،وہ چاہے پھر سیاستدان ہوں یا ٹی وی چینلز کے اینکر پرسن یہ جملہ کہتے ہوئے سنائی دیں گےکہ”عوام بے چاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے،یا ہماری عوام بہت سخت وقت سے گزر رہی ہے۔لفظ منقطع کی ادائیگی اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے اس کی تحریری شکل منقطعاہو۔
اسی طرح کچھ الفاظ جوغیر معیاری انداز میں ہر جامستعمل ہیں”کہا کی بجائے بولا،مجھے کی بجائے مجھ کو “الیکٹرانک میڈیا کے صحافی کثرت سے اس کااستعمالکرتے نظر آتے ہیں۔زبان کو سیکھنا ان کی سماجی وپیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔اس لیے کہ زبان کا تلفظ ہر فرد ہی کے لیے ضروری ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد کے لیے اس لیے بھی کہ اس شعبہ کی طرف ہر فرد کا رحجان زیادہ ہےاور یہی کسی قوم وملک کی زبان کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔سو زبان کی ادائیگی اور تلفظ اغلاط سے پاک ہونا اشد ضروری ہے۔اس مسلئے کا حل کتب بینی اور زبان کے عمیق مطالعے ہی سے ممکن ہے جس کی روایت آج کل صحافیوں میں تنزلی کا شکار ہے۔موجودہ صحافیوں کا انتخاب قابلیت پر نہیں بلکہ خوبصورتی ،اثرورسوخ اور جوشیلا پن دیکھ کر کیا جاتا ہے پھراس کے منفی نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔
صحافی عام طور پر طویل سوالات کرتے نظرآتے ہیں جو پیشہ ورانہ صلاحیت اور فن کے خلاف ہے اس کی وجہ ذخیرۂ الفاظ میں کمی ہے،جو زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہی دور کرسکتا ہے۔دوسری بات پاکستانی چینلزمیں آدھی اردو اورآدھی انگریزی بولنے کا رواج بھی بہت زیادہ ہے۔ ٹی وی ڈراموں میں بولی جانے والی زبان بھی اردو کی بجائےانگریزی کی آمیزش لیے ہوئےہے۔ایک جملہ بھی کوئی کردار مکمل طور پر اردو میں ادا نہیں کرسکتا۔اس میں انگریزی کا ہونا لازمی امر ہے ۔
اردو الفاظ کی جگہ انگریزی مترادفات بھی بے دھڑک استعمال کیےجاتے ہیں ان کےاردو متراد فاتموجود بھی ہیں لیکندیکھنے کی زحمت نہیں کی جاتی
جیسے الفاظ کے مترادفات”جیسا کہ کہا جاچکا ہے،دوٹوک ،آلہ مکبرِصوت“ہے“Having said that ,categorically, loud speaker’’
لیکن کسی کواردو مترادفات استعمال کرنے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔
صرف یہی نہیں پہلے اگر ریڈیو یا ٹی ۔وی پر غیر ملکی زبانوں کی خبریں اردو میں پیش کرنی ہوتیں تو باقاعدہ زبان پر عبور رکھنے والے مترجم رکھے جاتے تھے جو صحیح طور پر الفاظ ومضامین کو ترجمہ کرتےتھے۔لیکن اب چوں کہ دور بدل چکا ہےہر چیز میں تبدیلی آچکی ہے تو مشینی ترجمے کارحجان ہر طرف ہےیہ ایک اچھی تبدیلی ہے جدید ایجادات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔لیکن جو الفاظ ہیں کی درست املاء کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔جو اکثر اوقات نہیں رکھا جاتا، مضمر اور مظمر کا فرق معلوم نہیں،ہاکی،خاکی، کےاورکہ کا علم نہیں،ہیں ،ہے کا ،برائے اور براہِ میں فرق ملخوظ نہیں رکھا جاتا۔
اور کچھ الفاظکا تلفظ تو اس حد تک بگڑچکا ہے کہ درست ادائیگی کرنے والے کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔یعنی کلیات کا لفظ مؤنث ہے لیکن ادب سے وابستہ افرادبھی اسے مذکر ادا کرتے ہیں مجھے بھی یہ شک ہوا کہ اس کی حقیقت کو دیکھنا چاہئے جب لغت سے استفادہ کیا تو معلوم ہوا کہ لفظ مؤنث ہے لیکن اس حد تک عام چکا ہے کہ صحیح تلفظ کی ادائیگی ہی غلط تصور ہو گی۔
پہلے یہ صرف نجی ٹی وی چینلز تک تھا لیکن اب اس اثر کو سرکاری ٹی وی بھی قبول کررہا ہے اس کی ایک وجہ وہ مجبوری ہےکہ ا یسا نہ کرنے کی صورت میں
لوگوں کا رحجان اب باقی تمام چینلز کی طرف ہے پی ٹی وی کی طرف نہیں اس لیے یہاں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔
ڈاکٹرناصر عباس نیّر اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ دن پہلے اردو کے ایک جاپانی پروفیسر نے لاہور میں ایک ادبی تقریب میں اردو سے اپنی محبت کی بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں نےہوٹل کے کمرے میںٹی وی چلایا کہ چلو پی ٹی وی دیکھیں تاکہ پر لطف اور معیاری زبان تو سننے کو ملے گی۔
مگر تھوڑی دیر بعد ہی ٹی وی بند کرنا پڑاکیوں کہ پی ٹی وی پر اردو نہیں،انگریزی نما زبان بولی جانے کا رحجان ہورہا ہے۔
کسی بھی معاشرےمیں نئی نسل کے لیےمعاشرے میں مستعمل زبان کو سیکھنے کے بڑے ذرائع درس گاہ،والدین اور ٹی وی چینلز ہیں۔مگر اس حوالے سے ہمارے ہاں یہ تینوں شعبہ جات کچھ زیادہ مؤثر کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔اور میڈیا جس کو بچے ہر وقتدیکھتے اور نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس نے بچوں کو قومی زبان سکھانے کی بجائے اس کے قواعد وتلفظ میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔آج کل ،میڈیا پر نشر ہونے والے پروگراموں کا احاطہ کیا جائے تو سوائے سیاسی گرما گرمی کے مباحثے یا کچھ مارننگ شوز کے کسی ایک چینل پر بھی کوئی سنجیدہ ادبی پروگرام دیکھنے کو نہیں ملتا،کوئی مشاعرہ ،سیمینار،ادبی گفتگوکی نشریات دیکھنے میں نہیں آئیں گی اسی تناسب سے قوم کے مزاق کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ اپنی زبان سے متعلق کتنی آگہی اور سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔
اس مسلئے کے حل کے لیے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے مالکان کا بھی یہ سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اور عوامی دلچسپی کو مدِنظررکھیں اور اس ضمن میں مہینے یا ہفتے میں ایک پروگرام ضرور پیش کرنے کا اہتمام کیا جائے تا کہ نئی نسل بھی اپنی زبان کے قواعد و معیار سے آگاہ ہوسکے۔
پرنٹ میڈیا:
اخبارات اور رسائل بھی علم کا ایک خاص شعبہ ہیں انہیں مجموعی طور پرپرنٹ میڈیا کانام دیا جاتا ہے۔کسی دور کے اخبارات،رسائل،میگزین اس عہد کے سماجی،سیاسی،معاشرتی،اقتصادی،تہذیبی ومعاشرتی رویوں کے عکاس ہوتے ہیں۔اس لحاظ ہم انہیں کسی بھی قوم کے علمی وادبی سرمایے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔عہدِحاضر کی صحافت میں بھی مختلف لسانی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔اور یہ تغیرات پرنٹ میڈیا(طباعتی ابلاغ عامہ)اور الیکٹرانک میڈیا (برقیاتی ابلاغِ عامہ)دونوں سطحوں پر ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ اردو زبان اور اس کی بقاوترقی میں اخبارات ورسائل کا بھی بہت بڑا حصہ رہا ہے وہ محمد علی جوہر ہوں یا ظفر علی خاں کے مضامین،سرسید کے رسائل میں لکھے جانے والے مضامین تمام نے اردو زبان کے خدوخال ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس لیے جب بھی اردو زبان وادب کا لسانی حوالے سے جائزہ لیا جائے گا اخبارات کی بات بھی یقیناً ہوگی۔
موجودہ صحافت کولسانی نقطۂ نظر سے دیکھیں تویہ زبان مسلسل تبدیلیوں سے ہمکنار رہی ہے۔ جو تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں ان میں انگریزی کا حملہ سب سے زیادہ ہے۔اخبارات میں استعمال کی جانے والی زبان بظاہر تو ہماری زبان اردو سے مماثل ہےلیکن اس میں انگریزی کا بے جا وبے محل استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔عمارہ رشیدنےاپنے ایک مضمون ”اردواخبارات میں انگریزی کی آمیزش:ایک تجزیاتی مطالعہ“میں اس حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے نشاندہی کی ہے اگر موجودہ دور میں چند بڑے اخبارات ہی کو دیکھا جائے تو دوسری زبانوں اور خصوصاً انگریزی کا استعمال بہت حد تک موجود ہے۔دیگر زبانوں سے الفاظ اخذ کرنا خوش آئند ہے لیکن ایک حد تک ۔۔۔اگر یہ عمل اس حد سےبڑھ جائے کہ اپنی قومی زبان اور تشخص ہی کو خطرہ ہو تو یہ تشویش ناک ہے۔
عصرِحاضر میں چوں کہ اردو میں انگریزی زبان کا استعمال بہت بڑھ گیا ہےتمام اصناف کی طرح الفاظ کی یہ تبدیلی صحافتی شعبے میں بھی جاری ہے۔پاکستان کے نمائندہ اخباروں”جنگ،نوائے وقت“وغیرہ کی اکثر عبارات کا مشاہدہ کریں توحیران کن صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ہر لفظ ہر جملے میں انگریزی الفاظ دیکھنے کو ملیں گے کیا ہماری اپنی زبان میں ان الفاظ کو ادا کرنے کی استعدادنہیں ؟یقیناً ہے ۔عام طور پر بھی اخبارات میں مختلف الفاظ کے اردو متبادل کی بجائے انگریزی کو ترجیح دی جاتی ہےمثال کے طور پر”کرپشن ،بدعنوانی(رشوت ستانی)،ریٹ(نرخ)، نیوز ایجنسیاں(خبررساں ادارے) ،ائیرپورٹ(ہوائی اڈا)،ٹیکس(محصول)،گراؤنڈ(میدان)،سپریم کورٹ(عدالتِ اعظمیٰ)“ وغیرہ سب کے اردو متبادلات موجود ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے کی بجائے انگریزی کے الفاظ ہی استعمال کیے جارہے ہیں۔
تمام اخبارات میں انگریزی آمیزش کا تناسب بہت زیادہ ہے۔یہ بات صرف اخبارات کی خبروں کے حوالے سے ہے اگر کالموں یا دیگر مضامین کا تجزیہ کریں تو اس تناسب میں مزید اضافہ نظر آئے گا۔ایک طرف انگریزی اخبار موجود ہیں پھر بھی اردو اخبارات میں جابجا انگریزی الفاظ کو لایا جارہا ہے ۔ اس طرح انگریزی زبان نے نا صرف اردو بولنے والے قاری کو متاثر کیا ہے بلکہ اردو زبان کوترقی دینےکی بجائے محدود کرنےکی کوشش کی ہے۔ مثلاًکھلاڑی کی جگہ پلیئر یا پلیئرزلکھنا نہ صرف قواعد وتلفظ کے خلاف ہے بلکہ زبان کی ساخت کو خراب کرنے کی بھی اک کوشش نظر آتا ہے۔ڈاکٹر ناصر عباس نیّرایسی انگریزی آمیز اردو کے متعلق لکھتے ہیں:
”اس طرح کے سینکڑوں جملے ہم دن رات سنتے ہیں،جن کی نحوی ساخت تو اردو کی ہوتی ہے مگر
جملے آدھے انگریزی کے الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں،ان جملوں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اردو
پر انگریزی کااثر پیچیدہ اورتہ دار ہے۔۔۔۔سیٹوں،ہوٹلوں،ڈگریوں،انسٹی ٹیوٹوں،بوریت،۔۔
وغیرہ ، یہ مارفیمیاتی آمیزش کی مثالیں ہیں۔اس طرح کی زبان زیادہ تر ریڈیو،ٹی وی چینلوں،سر
کاری دفتروں،تعلیمی اداروں،نجی اور سرکاری تقریبات میں سنائی دیتی ہے۔“
٭ناصرعباس نیرّ،ڈاکٹر،لسانیات اور تنقید،لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز،سن اشاعت،۲۰۱۸ء،ص۵۲۔
اس تجزیےسے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اخبارات میں زیادہ تر ان انگریزی الفاظ کا استعمال ملتا ہے جو ہماری زبان میں بھی کثرت سے بولے جاتے ہیں،چوں کہ ہماری زبان معاشرتی رویوں کی عکاس ہے اس لیے جب بول چا ل میں انگریزی الفاظ اس حد تک سرائیت کر گئے ہیں تو ان کا اثر تحریرمیں بھی لازمہے۔لیکنکسی بھی ملک میں بہت کم ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو علمی،ادبی اور لسانی سطح پر زبان سے واقف ہوں یا سیکھنے کی کوشش کریں زیادہ تر کا واسطہ تو اخبارات یا ٹی ویچینلز ہی کی اردو سے پڑتا ہے۔ اخبارات کی زبان روز بہ روز انگریزی کی زد میں آرہی ہے،اردو کاخالصپن اسپن اسسے متاثر ہو رہا ہے۔یہ صورتِ حال اردو کے لسانی وادبی تشخص پر قاتلانہ حملے سے کسی طور بھی کم نہیں۔اور یہ حملہ ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت کیا جارہا ہےاگر یہ عمل اسی طرح جاری رہا تواردو کی اصل شکل اور ڈھانچے کی پہچان ممکن نہیں رہے گی۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ فصاحت وبلاغت یا اردو کی درست اورخالص لفاظی کو صرف اس زبان سے منسلک علمی وادبی اشخاص ہی سمجھ سکیں۔
اشتہارات:
جس طرح اخبارات میں ہم نے دیکھا کہ انگریزی کی آمیزش بہت زیادہ ہے اسی طرح اشتہارات بھی ہیں۔ہمارے اردگرد ہی کئی ایسے بینرز دیکھنے کو ملتے ہیں اوّل تو کم ہی ایسے ہیں جو اردو میں لکھے گئے ہوں اور اگر لکھ بھی دئیے گئے تو اس قدر غلط املاء کہ جی کُڑھتا ہے۔میں اپنے مشاہدے کی بات کروں تو روز یونی ورسٹی آنے کے لیے جس راستے سے میرا گزر ہوتا ہے وہیں مختلف دکانوں پر لگے ان کے بینرز ہی اردو املاء کا جنازہ نکالتے نظر آئیں گے۔ مثلاً :فلیکس لکھنے والوں کو سموسہ اور صموصہ میں فرق نہیں پتا۔کہ درست املاء کیا ہے کئی جگہ” صموصہ“لکھا دیکھا تو دل خون کے آنسؤروتا ہے کیا یہ وہ ملک ہے اور یہ وہ زبان ہے جو اس قوم کی سرکاری اور قومی زبان ہے۔
ادب میں لسانیاتی تحقیق:
ڈاکٹروہاب اشرفی اپنی کتاب ”تاریخِ ادبِ اردو(جلد سوّم)میں ان دو شعراء کے متعلق جو نشاندہی کرتے ہیں اس کا مفہوم کچھ یوں ہےکہ:
ادب میں لسانی تحقیق کا جائزہ لیں تو جو بات سامنے آتی ہےکہ قیامِ پاکستان کے بعد ساٹھ کی دہائی میں لسانی تشکیلات کے حوالے ایسا جارحانہ رویہ دیکھنے کو
ملتا ہے کہ جس نے ماضی کے لسانی ڈھانچے پر سوال اٹھائے،اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔یہ رویہ پوری تحریک کےطورپرسامنےآتاہے۔افتخار
جالبؔ کا نام خصوصیت کاحامل ہے۔مارشل لاء کے دوران جب خیالات کی ترسیل مشکل ہوگئی تو فکری وفنی موضوعات کی بجائے لسانی پہلوؤں کو اہمیت دی گئی۔اس دور میں نئی لسانی تشکیل کی بحث نے پہلے نظم پھر اردو افسانے کو بھی متاثر کیا۔البتہ غزل نے اس کااثر کچھ زیادہ قبول نہ کیا۔ افتخار جالب ؔنے ادب میں یہ انداز متعارف کرایا کہ پرانی طرز پر تشبیہ واستعارہ اور خیالات باندھنے کی بجائے لسانیات کے حوالے سے صوتیات،معنیات،نحویات وغیرہ کے حوالے سے دیکھا جائے اور خیال کو بھی ان اصولوں کو مدِنظر رکھ کر پیش کیا جائے۔ان لسانی تشکیلات کااثر نثری نظم نے بھی قبول کیا۔
انیس ناگی عہدِجدید کے شاعرونقاد ہیں ۔پنجابی زبان کے علاوہ انگریزی سے بھرپورواقفیت رکھتے ہیں۔ان کا امتیاز یہ ہے کہ جب پاکستان میں لسانی تشکیلات کی بحث شروع ہوئی تو اس کے نمایاں رکن کے طور پر سامنے آئے۔انہوں نثر ی نظم کو تسلیم کروانےاور اس کی عملی صورت پیش کرنےمیں بھی اہم کردار ادا کیا۔ان کے ہاں نئے مضامین ،استعارے، ترکیبات دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس دوران ساتھ دینے والی خواتین میں:کشور ناہیدؔ،فہمیدہ ریاضؔ،سارہ شگفتہؔ، شائستہ حبیبؔ ،فاطمہ حسن ؔبھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ مرد حضرات جنہوں نے اس رویے یا تحریک کی حمایت کی ان میں سلیم اختر،جیلانی کامران،زاہددار،سلیم الرحمٰن،عباس اطہراور مبارک کے نام لیے جاسکتے ہیں۔اس تحریک سے بھی ادب میں لسانی حوالوں سے دیکھنے کارواج بڑھااورتحقیق کے لیے نئے در وا ہوئے۔
گلوبلائزیشن کے سبب ادب میں لسانیات کے حوالے سے ایک تبدیلی یہ بھی آئی ہے کہ اردو کے نامور ادباء انگریزی میں لکھنے لگے ہیں۔انگریزی میں لکھنابذاتِ خود برا نہیں لیکن کیا اردو میں تمام تصورات واحساسات کو ادا کرنے کی صلاحیت نہیں؟لیکن ازرہِ برتری انگریزی کو فوقیت دی جاتی ہے۔حالیہ برسوں میں اردو فکشن نگار انگریزی میں لکھے رہے ہیں۔
ان تمام نکات سے جو بات سامنے آتی ہے کہ اردوزبان نہ صرف اپنی شناخت سے محروم ہورہی ہےبلکہ اسے بولنے والوں میں لسانی شعور بھی مسخ ہورہا ہے۔زبان اور انسانی شعور میں گہرا تعلق ہے۔تازہ لسانی تحقیقات سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی سماج میں اگر بد نظمی پھیل جائے تو اس کا لازمی اثر اس سماج کے افراد کے شعور وادراک پر ہوتا ہے۔پاکستان میں لسانیات کا موضوع ہمیشہ متنازع رہا ہےجن افراد کے ہاتھ بھی اقتدار آیا انہوں کسی خاص علاقے کی زبان کو برتر وافضل اور باقیوں کو کمتر درجہ دیا جس سے باہمی ہم آہنگی پیدا ہونے کی بجائےنفرتوں نے جنم لیا اور مزید انتشار پھیلا اسی لیے لسانیات کا موضوع بھی نفرت کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔تقسیم کے بعد ایک جنگ تو ختم ہو گئی لیکن باہمی اختلافات کی جنگ اب بھی جاری ہے۔ہوناتو یہ تھا کہ لسانیاتی موضوعات پر تحقیق ہوتی اور اردو زبان کی ترقی کے نئے مواقع تلاش کیے جاتے مگر یہاں تو اس کے برعکس زبان کے معاملے اورخصوصاً اردو زبان کو غلط انداز میں پیش کیاجاتا ہے ،علاقائی زبانوں اور ثقافت کو بنیاد بنا کر تعصب کو فروغ دیا جارہا ہے جس سے یہ کام مزید غلط رخ احتیار کر جاتا ہے۔اگر کوئی ادرارہ یا محقق کام کرنے بھی لگتا ہے تو اسے درست حقائق سامنے لانے سے روک دیا جاتا ہے اوراپنی مرضی کے دانشوروں اور محققین کو معاوضہ دے کر من چاہے نتائج بھی تحریر کروائے جاتے رہے ہیں جو تاریخ سے بہت بڑی ناانصافی اور ایک غبن ہے۔
کچھ لوگ اس بات کو بھی پیش کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش ہم سے زبان کےسبب ہی الگ ہوا تھا کہ اردو کی بجائے بنگالی سرکاری زبان ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو معاشی مسائل خاص طور پر اس وقت تھے ان علاقوں تک فنڈ نہیں پہنچائے جاتے تھے ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔اگر تحقیق کاکام دیکھیں تو کچھ علاقوں میں مخصوص زبانوں کے حوالے سے کام کیا گیا ہےاور ہر زبان کے نمائندے نے دوسری زبان کے خلاف ہی لکھا ہےجس سے قوم میں لسانیات کے حوالے سے ایک ہیجان کی سی کیفیت پائی جاتی ہےاس ساری نوک جھوک میں اردو لسان اور اس کی تحقیق تو کہیں پیچھے رہ جاتی ہےہر صوبہ اور علاقہ اپنی علاقائی زبان یا بولی کے دائرے ہی سے باہر نہیں نکلتا۔ ناصرعباس نیّر کہتے ہیں کہ ہم تحقیق سے بے زار قوم ہیں ورنہ اس پہلو پر تحقیق کی جاسکتی ہےکہ ہماری سماجی بد نظمی اور ثقافتی انتشار کا تعلق کس حد تک لسانی بدنظمی سے ہے۔سماجی نظم اور ثقافتی استحکام، اقدار پر منحصر ہے اور اقدار،زبان میں ہی نہیں زبان کی وجہ سے اپنا وجود قائم رکھتی ہیں۔جب اقدار کا ذریعہ اور ہئیت بدنظمی کا شکار ہوگا تو نتیجہ ظاہر ہے جو ابھی ہماری زبان کا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ جو شعبہ نظرانداز کیا گیا ہے اور مسلسل کیا جارہا ہے تو وہ زبانوں کا شعبہ ہے۔اس سے زیادہ المیہ کی کوئی اور بات نہیں کہ ابھی تک پاکستان میں لسانی تحقیق کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہیں۔کئی جامعات میں ادب کے شعبہ جات موجود ہیں لیکن لسانیات کا شعبہ شاید ہی ڈھونڈنے سے ملے۔اگر پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کے اعدادو شمار کا علم ہے تو اس کی اطلاع بھی ایک غیر ملکی ادارہ ہمیں دیتا ہے۔پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے وفاقی لسانی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہکیا جارہا ہے۔لیکن عمل فی الوقت ندارد۔
ملک بنے ستر سال ہوئےان سالوں میں کامیابی وناکامی جائزہ بھی لیا گیا لیکن جس کا جائزہ لینے کی بھی زحمت نہیں کی گئی وہ پاکستانی زبانوں کی ترقی ہے ۔ اگر پاکستان میں لسانیات کو واقعی فروغ ہو،جامعاتی اور اداروں کی سطح پر پاکستانی زبانوں کے مطالعات کا اہتمام کیا جائے ،ماہرینِ لسانیات کی بڑی تعداد مسلسل اپنی تحقیقات پیش کرے تو کئی سماجی تعصبات اور ثقافتی مغالطے،نیز گروہی لسانی جھگڑے مٹ نہ بھی سکیں البتہ کم ضرور ہو سکتے ہیں۔
بہر حال مجموعی طور پر ان تینوں شعبہ جات کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ”عہدِ حاضر میں لسانیاتی تحقیق معاشرتی رویوں کی آئینہ دار ہے“یہ ہمارےمعاشرتی وسماجی رویے ہی ہیں جن کے سبب قومی زبان اور اس کی تحقیق میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔سچ تو یہ ہے کہ اس تحقیق کاآغاز ہی نہیں ہوا۔کیوں کہ ابھی تک ہماری زبان کو وہ مقام ہی نہیں ملا جس کی وہ مستحق ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید دور کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی پیدا کریں ،اپنی زبان کو کہیں بھی بولنے میں جھجک محسوس نہ کریں یہ زبان بھی انگریزی سے کم نہیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگااور میڈیا چاہے الیکٹرانک ہو یا پرنٹ،یا پھر ادب اس مضمون سے متعلق دلچسپی اور تحقیق کے مواقع پیدا کرنا ہوں گےتب ہی ہماری زبان اور ہماری پہچان قائم رہے گی ورنہ آہستہ آہستہ نہ صرف ہم اپنی زبان کھو دیں گے بلکہ بہ حیثیت قوم اپنی شناخت بھی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
زیبا گلزار(سیالکوٹ)
ایم۔ایس اسکالر(شعبہ اردو)
جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page