استعارہ دو طرح کی گردش سے عبارت ہے ۔ مماثلت اور فرق کے درمیان گردش اور معنی کی گردش۔پہلی گردش کے بارے میں وثوق سے کہنا ممکن ہے۔معنی کی گردش کے سلسلے میں نہیں۔ معنی ایک سیل ہے،اس کے بارے میں آخری اور قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔
استعارے کی بنیاد مماثلت پر ہے، مگر یہ مماثلت مختلف اشیا کے درمیان تلاش کی جاتی ہے۔وہ سب چیزیں جنھیں زبان مشخص کرتی ہے ، استعارہ سازی میں کام آسکتی ہیں۔ اشیا دیکھنے میں خواہ کتنی ہی مختلف دکھائی دیتی ہوں ، ان کے درمیان مماثلت تلاش کی جاسکتی ہے ۔مماثلت جتنی انوکھی اور حیرت میں ڈالنے والی ہوگی، استعارہ اتنا ہی عمدہ ہوگا۔ انوکھے پن اور حیرت کے بغیر فن کا وجود نہیں۔اس لیے استعارہ ،فن کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔
چیزوں میں فرق موجود ہے ، صورت کا بھی ، ماہیت کا بھی اور مقصد کا بھی۔اس فرق کے سبب ہی ہر شے کا ایک مخصوص ہالہ ہے۔ یہ فرق اگر مستقل رہے،یعنی ہر شے اپنا ہالہ فولادی بنا لے تو چیزیں خود اپنی جانب مسلسل سفر کرتی ہیں۔ اپنی جانب سفر جلد ہی دائرے میں بدل جاتا ہے۔اس لیے جلد ہی چیزوں میں اپنی مدح خود کرنے کا رویہ پروان چڑھتا ہے ؛ان میں” نرگسیت” اور بیگانگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں استعارہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ کوئی فرق حتمی نہیں اور کوئی ہالہ آہنی نہیں؛ سب چیزیں،اپنا اپنا ہالہ رکھنے کے باوجودایک رشتے میں بندھی ہیں۔ہر شے کی ایک حد یا Boundary ضرورہے مگر یہ آہنی نہیں۔جو سرحدیں قوموں ، نسلوں ، گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں اور جنھیں قائم رکھنے کے لیے آہنی تاریں نصب کی جاتی ہیں اور مسلسل گشت کرنی والی پولیس کا اہتما م کیا جاتا ہے،وہ سرحدیں چیزوں میں نہیں ہیں؛الفاظ میں بھی نہیں ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو چند مخصوص استعارے ہی موجود ہوتے اور ایک زبان کا لفظ ،دوسری زبان میں استعمال نہ ہوسکتا۔ ( یہ بھی پڑھیں شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’کیا نظریاتی تنقیدممکن ہے؟‘- پروفیسر کوثر مظہری)
یہ محض خیال آرائی نہیں، تاریخی صداقت ہے کہ جہاں کسی بھی نوع کی حدوں کو آہنی بنانے کی کوشش ہو ، وہاں مماثلت سے زیادہ (حتمی ) فر ق بلکہ ضد پر زور دیاجاتا ہے ، تعاون سے زیادہ مخاصمت کو اجاگر کیا جاتا ہے اور استعارے کے بجائے آئیڈیالوجی پر اصرار کیا جاتا ہے۔اکثرآئیڈیالوجی میں مردہ استعاروں کا ڈھیر ہوتا ہے۔اس لیے استعارہ محض شاعری کا نہیں، پورے سماج کی تخلیقی حسیت کا مسئلہ ہے۔ وہ مسلسل متفرق چیزوں میں مماثلتیں دریافت کرتا ہے۔ چیزوں میں فرق و فاصلہ کم کرتا ہے اور اس طور ان کی حدوں کی مسلسل توسیع کرتا ہے۔وہ ہم پر عیاں کرتا ہے کہ بہ ظاہر ایک دوسرے سے بعید چیزوں میں عجب، حیرت انگیز رشتے ہیں۔ مثلاً کسی طاق میں بجھتے چراغ ، ہوا کی لرزش سے گر جانے والے خشک،زرد پتے، کسی گلی کےموڑ پر طوفان کے زور سے گرجانےو الےپرانے شجر—-ان سب کاہر اس شے یا وجود سے رشتہ ہے جو آخری سانسیں لے رہاہے؛ کوئی انسانی تعلق، کوئی نظام ، کوئی قدر یا کوئی شخص۔جس بات کے بیان سے ہم خود کو عاجز محسوس کریں ،وہاں استعارہ ہماری مدد کوآتا ہے۔ استعارہ صرف ہمارے عجزبیان کی تلافی نہیں کرتا، وہ سچائیوں تک رسائی میں بھی مدد دیتا ہے۔ صاف لفظوں میںاستعارہ صرف ایک لسانی عمل نہیں، تخلیقی اور نیم فلسفیانہ عمل بھی ہے۔
استعارہ ہمیں باور کراتا ہے کہ عام سی معمولی چیزوں کی مدد سے ، بڑی اور گہری سچائیوںکوسمجھا جاسکتا ہے۔ گلی کے موڑ پر نالی کے پانی کے زد جاروب کھانے سے آدمی پر سماج اور تقدیر کے جبر کے سچ کو سمجھا جاسکتا ہے۔فیض صاحب نے نظم” شام ” کا آغاز ایک انوکھے استعارے سے کیا تھا : "اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے /کوئی اجڑا ہوا بے نور پرانا مندر”۔ پیڑ کے لیے مندر کا استعارہ ، استعارہ سازی کے امکان کی حدوں کو چھونے کے مترادف ہے۔ یہ کہ یکسر مختلف چیزوں میں بھی کوئی نہ کوئی رشتہ ء مماثلت ہوسکتا ہے۔ پیڑ اور مندر—بہ ظاہر ایک دوسرے سے بعید—- بھی کسی نقطہ ء اتصال پر موجود ہوسکتے ہیں ۔ شام کو جس پیڑ پر پرندے ،جگنو نہ آئیں، وہ اس مند ر کی مانند ہے ، جس سے یاتریوں نے منھ موڑ لیا ہو اور جہاں کوئی چراغ نہ جلتا ہو۔تاہم یہ معنی کی گردش کا بس آغاز ہے؛ یہ گردش آگے دور—بہت دور تک جاسکتی ہے۔ سماج کی حالتیں ہوں یاانسان کی نفسی حالتیں،انھیں سمجھنے میں اور ان کی تھاہ پانے میںاستعارے سب سے زیادہ مدد دیتے ہیں۔استعارے لفظی بازی گر ی نہیں ہیں،وہ ہماری تخلیقی زندگی کا اہم ترین عنصر ہیںاور تخلیقی زندگی کو حقیقی بنانے میں معاون ہیں۔افضال احمد سید نےلفظوں کے بارے میں جو کہا ہے کہ :”لفظ اپنی جگہ سے آگے نکل جاتے ہیں /اور زندگی کا نظام توڑدیتے ہیں” ، یہ دراصل استعارے کے بارے میں ہے!
استعارہ، ایک لفظ کامعنی ، دوسرے لفظ تک منتقل کرتا ہے اور معنی کی گردش کو ممکن بنائے رکھتا ہے۔ ہم مستعار لہ ‘اور مستعار منہ پر توجہ کرتے ہیں ،مگر ان دونوں کے بیچ کی اس خالی جگہ کو نظر انداز کرتے ہیں ،جہاں ایک لفظ کا معنی ،دوسرے لفظ کی طرف حرکت کرتا ہے۔ (خالی جگہ ہی میں حرکت ممکن ہوتی ہے)۔ اس خالی جگہ کی کوئی متعین حد نہیں ہوتی ۔صفحے پر مستعار لہ ‘اور مستعار منہ مذکور ہوتے ہیں ،یا صرف مستعار منہ مذکورہ ہوتا ہے ، مگر دونوں کے بیچ کی خالی جگہ صفحے پر نہیں، ہماری قرأت کے عمل میں موجود ہوتی ہے ۔جب ہم کسی استعارے کی تفہیم کرتے ہیں تو وہ خالی جگہ رونما ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ خالی جگہ ،خاموشی کا منطقہ ہے ۔یہ خاموشی ، کلام میں ایک وقفے کی مانند بھی ہے اور خود ہمارے اندر بھی۔
جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ استعارے میں ایک لفظ کا معنی ، دوسرے لفظ کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ہم یہ بھی تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ معنی ایک سیال شے ہے۔ اگرایک لفظ کے ساتھ اس کا مخصوص معنی اس طرح وابستہ ہوتا ، جس طرح آگ کے ساتھ حرارت ونور تو استعارہ ممکن ہی نہ ہوتا۔ استعارہ باور کراتا ہے کہ معنی کو لفظ سے(عبوری طور پر ہی سہی )جد اکیا جاسکتا ہے ،اور اسے (عبوری طور پر ہی سہی )کسی دوسرے لفظ کی طرف منتقل کیاجاسکتا ہے؛یہ تعاون کی صورت ہے اور فاصلوں کو آہنی ہونے سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ معنی ایک ایسا پرندہ ہے جو کسی لفظ کی شاخ پر ہی بیٹھتا ہے ،مگر ہم پرندوں کی شاخوں کو بد ل سکتے ہیں۔ معنی کا پرندہ ،کسی دوسرے لفظ کی شاخ کی طرف جاتے ہوئے ،جس منطقے میں اڑان بھرتا ہے ،وہ خاموشی کا منطقہ ہے۔اسے محسو س کرنا ، جمالیاتی نشاط کا موجب ہے۔
استعارے میں اس کے علاوہ بھی خاموشی کے منطقے ہیں۔جب ایک لفظ کا معنی ہم مستعار لیتے ہیں ،تو کیا وہ لفظ خالی ہوجاتاہے؟نیز جس لفظ کے لیے معنی مستعار لیا جاتا ہے ،اس کے معنی کے ساتھ کیا ہوتاہے؟ اسی طرح خاموشی کا اپنا معنی کہاں چلا گیا ہے؟یہاں ہمیں معنی کی دو خصوصیات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ تمام معانی ثقافتی اور رواجی ہیں؛دوم یہ کہ معانی سیال ہوتے ہیں۔ دونوں باتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ سیال ہونے کی بنا پر وہ ایک لفظ سے دوسرے لفظ کی طرف سفر کرسکتے ہیں، خود کو توسیع دے سکتے ہیں، نئے تناظرات سے وابستہ ہوسکتے ہیںاور نئی محسوساتی و معنوی دنیائوں کو روشن کرسکتے ہیں۔چوں کہ معانی ثقافتی ہیں، اس لیے سب لوگوں کی یکساں ملکیت ہیں۔ایک شخص کوئی نیا لفظ گھڑ سکتا ہے مگر وہ زبان میں اسی وقت شامل ہوگا ،جب اس کے معنی کو ایک غیر تحریری ثقافتی معاہدے کے تحت سماجی سطح پر قبول کرلیا جائے گا۔ گویا زبان شخصی ملکیت کے سرمایہ دارانہ تصور کی نفی کرتی ہے اور اشتراکی روح کی حامل ہے ۔اگرچہ معیار بندی یاکسی اور نام سے زبان پر اجارے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بولے جانے کے عمل میں زبان اس اجارے کو جابجا چیلنج کرتی ہے ۔ زبان میں نئے نئے استعارے اور سلینگ ، زبان پرکسی ایک شخص یا گروہ کی ملکیت کی مساعی کوناکام بناتے ہیں۔
زبان کے "اشتراکی نظام ” میں انفرادیت کی اگر کہیں گنجائش ہے— اور یہ گنجائش معمولی نہیں— تو وہ استعارہ سازی میں ہے۔ استعارے میں مماثلت کی تلاش اور پھر معنی کا ایک "مقام ” سے دوسرے "مقام ” کی طرف انتقال غیر معمولی انفرادی تخلیقی فعل ہے۔
استعارے میں معنی کی حرکت عبوری ہوتی ہے۔ استعارہ ،زبان کے نظام میں ایک عبوری بندوبست سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی بات کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب ایک لفظ کا معنی عبوری طور پر کسی دوسرے لفظ کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو پہلے لفظ کے معنی کا سایہ برقرار رہتا ہے۔اسی طرح معنی ،جس لفظ کی طرف منتقل ہوتا ہے ، اس لفظ کے لغوی ، حقیقی معنی کو عبوری طور پر پس منظر میں دھکیل دیتا ہے ،اور ایک نیا روشن ہالہ سا وجود میں آجاتاہے۔ لفظ کا پہلا معنی کسی مخصوص متن میںوقتی طور پر ’خاموش‘ ہوجاتاہے (مردہ نہیں)۔لفظوں ، چیزوں ، لوگوں میں تعاون کی مثالی صورت یہی ہے۔ اپنے اپنے وجود کے ہالوں کو ، تعاون کے لمحے میں پس منظر میں دھکیل دیا جائےاورا نھیں وقتی طور پر غیر فعال کردیا جائے۔تاہم قرآت کے دوران میں انھیں فعال بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ سایہ ، نور کے ہالے کو پرے دھکیل سکتا ہے۔
استعارے میں زبان کی "حقیقت سازی” کی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے۔ استعارہ ایک نئی تمثال(امیج) وجود میں لاتا ہے۔ یہ پوری تمثال کسی ٹھوس خارجی حقیقت کے سہارے نہیں،مماثلت کے آسرے پر کھڑی ہوتی ہے۔”استعاراتی تمثال ” کو حقیقت سمجھا جاسکتا ہے اور اس کی مدد سے معنی خیزی کا ایک سلسلہ شرو ع کیا جاسکتا ہے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں بت ،محبوب کے لیے استعارہ تھا ۔ بت کی تمثال کو ایک "حقیقت” سمجھ کر اس سے وہ سب صفات وابستہ کی گئیں ، جو بت میں "واقعی” ہیں یا عام طور پر تصور کی جاتی ہیں۔ وہ کسی کی سنتا نہیں، خاموش،بے نیاز رہتا ہے۔اس کی پوجا کی جاتی ہے مگر وہ پتھر بنارہتا ہے۔اس ایک استعارے کو "حقیقی ” تصور کرنے سے کتنے ہی معانی گردش میں آئے۔ کلاسیکی شاعری میں استعارے "مشترک ” تھے ،جدید شاعری میں انفرادی ہوگئے ۔ اس اعتبار سے جدید شاعر وں کو کڑی آزمائش سے گزرنا پڑاہے۔ انھیں نہ صرف نئے استعارے وضع کرنے پڑے بلکہ خود اپنے پرانے استعاروں سے بھی دستبردار ہوکر نئے استعاروں کی مسلسل تلاش کرنا پڑی ہے۔ لیکن اس آزمائش کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ مشترک استعارے ،کسی ” مشترک حقیقت ” کے ابعاد کی تلاش پر مائل کرتے تھے ، نئے اور کثیر استعارے ،حقیقت کو نئے سرے سے مسلسل خلق کیے جانے پر زور دیتے ہیں۔ آج بھی کئی لوگ،جدیدومابعد جدیدتصورات سے غیر مطمئن ہوکر ، کلاسیکی تصورکائنات میں سیر وقیام کی آرزو رکھتے ہیں تو اس کی ایک توجیہ ، دونوں کے استعارے کی طرف مختلف رویوں کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔
آخری بات!
استعارہ فکر سے زیادہ جذبے کی پیداوار ہے۔ یعنی استعارے،احساس کی شدت کے لمحے میں ، اس احساس کے لسانی مساوی کی تلاش کے غیر شعوری ارادے کے تحت، از خود پیدا ہوتے ہیں۔یوں بھی جذباتی حالت ہی میں چیزیں ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استعارہ صرف شاعری میں نہیں، عام روزمرہ زندگی میں بھی وجود رکھتا ہے۔ عام لوگ اپنی روزمرہ گفتگو میں کئی نادر استعارے لاتے ہیں ۔استعارہ سازی پر کسی کا اجارہ نہیں۔
بشکریہ: ڈاکٹر ناصر عباس نیّر
نوٹ: یہ مضمون جناب ناصر عباس نیّر صاحب کے فیس بک سے لیا گیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] تحقیق و تنقید […]