ترقی پسند تحریک کی داغ بیل لندن میں اس وقت ڈالی گئی جب مغرب میں جدیدیت Modernism بھی خواب گراں کی شکار ہوچکی تھی۔ مغرب کی ادبی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ Roger Fowler نے لکھا ہے کہ جدیدیت مغرب میں 1890 کے آس پاس شروع ہوتی ہے اور 1930 تک آتے آتے اس کی فعالیت مسدود ہوجاتی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ لندن میں رہتے ہوئے بھی کیا ان نوجوان شائقینِ ادب کو جدیدیت جیسی مستحکم اور بااثر رجحان کی ہوا تک نہیں لگی تھی کہ 1935 میں حددرجہ احساس تفاخر کے ساتھ چند دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر سجاد ظہیر کو Indian Progressive writers’ Association کی بنیاد ڈالنے کی ضرور محسوس ہوئی؟ میرے خیال سے فلسفۂ وجودیت جس پر جدیدیت کی عمارت اردو میں 60ء کی دہائی میں تعمیر کی گئی کوئی ایسا کمزور فلسفہ حیات نہیں تھا کہ جس کا ذکر لندن کی درس گاہوں میں ہوا نہ ہو۔ کرکے گور، ڈیکارٹ، سارتر جیسے مفکروں کی تحریریں، اپنا سکہ بٹھا رہی تھیں۔ یہاں تک کہ ملک راج آنند کو بھی شاید اس کا احساس نہیں ہوتا کہ جدیدیت پر بات کرنا اس زمانے میں زیادہ موزوں اور Relevant تھا۔ اس سے بھی پہلے 1932 میں جب سجاد ظہیر، احمد علی، محمود الظفر اور رشید جہاں کی کہانیوںکا مجموعہ ’انگارے‘ شائع ہوا تو یہ آہٹ اردو ادب اور معاشرے میں محسوس کی گئی تھی کہ کوئی نہ کوئی باغیانہ رجحان ہے جو آیا چاہتا ہے۔ اخلاق و عقائد کو مجروح کرنے والی یہ کہانیاں سرکشی اور جوش و ولولہ سے مملو تھیں جن میں توازن اور ٹھہراؤ نہیں تھا۔ بہرحال یہ بھی ایک طرح سے ترقی پسند تحریک کے آغاز کا پیشہ خیمہ تھا۔ ’انگارے‘ کے حوالے سے سجاد ظہیر ’روشنائی‘ میں لکھتے ہیں:
’’انگارے کی بیشتر کہانیوں میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ کم اور سماجی رجعت پرستی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زیادہ تھا۔‘‘(روشنائی، ص 33)
ترقی پسند تحریک کی تاریخ کو ضبط تحریر میں لانے والو ںمیں علی سردار جعفری، عزیز احمد، ہنس راج رہبر، ممتاز حسین، خلیل الرحمن اعظمی کے نام اہم ہیں۔ سبھوں نے اپنے تجربے اور اپنے اسلوب کی روشنی میں ترقی پسند تحریک کی تاریخ پیش کی ہے۔ اس تحریک کی فکری بنیاد پر گفتگو کرتے ہوئے ہر ایک کے ڈانڈے سماج، کسان، مزدور اور انقلاب سے جاکر مل جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہی وہ عوامل ہیں جن پر اس تحریک کی اساس ہے۔ سماج یا عوام سے رشتہ ہر شاعر یا ادیب کا ہوتا ہے کیوں کہ شاعر یا ادیب کوئی جوگی یا راہب تو ہوتا نہیں، وہ بھی اسی سماج کا ایک فرد ہوتا ہے۔ اس تحریک کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے سجاد ظہیر لکھتے ہیں :
’’پہلے تو یہ کہ ترقی پسند ادبی تحریک کا رخ ملک کے عوام کی جانب، مزدوروں، کسانوں اور درمیانہ طبقہ کی جانب ہونا چاہیے۔ اپنی ادبی کاوش سے عوام میں شعور ، حِس و حرکت ، جوش عمل اور اتحاد پیداکرنا… یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن تھا جب ہم شعوری طور پر اپنے وطن کی آزادی کی جدوجہد اور وطن کے عوام کی اپنی حالت سدھارنے کی تحریکوں میں حصہ لیں۔‘‘ (ص 89,90)
گویا جوش عمل اور ادبی کاوش کی مدد سے بے حس عوام میں روح پھونک دینا اور جان ڈال دینا ہی ترقی پسند تحریک کا کام تھا۔ سجاد ظہیر نہیں چاہتے تھے کہ انجمن کی شاخیں گوشہ نشیں علما کی ٹولیاں ہوکر رہ جائیں۔ ’روشنائی‘ کے صفحات پر جگہ جگہ اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ ادیب کے لیے عوامی زندگی سے زیادہ سے زیادہ قرب ضروری ہے، ادیب و شاعر عام لوگوں سے ملتے جلتے رہیں، اُن میں پیوست رہیں۔ یہ ایک ایسا متحرک اور جاندار ادبی ادارہ ہو جس کا عوام سے براہِ راست تعلق رہے۔ (ص 9)
یہ حقیقت تسلیم کرنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ ہر شاعر یا ادیب اسی سماج کا فرد ہوتا ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک، جوانی سے لے کر بڑھاپے اور موت تک وہ بھی اسی سماج میں زندگی گزارتا ہے۔ عوام سے رابطے کے بغیر شاید وہ زندگی گزار بھی نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ شعری مواد یا اس کے فکشن کے کردار بھی عوام سے ہی ماخوذ ہوتے ہیں۔ اس کے تجربات کا محور و مرکز سماج ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ ادبی کاوش کی رو سے عوام کی بے حسی دور کرنے کا کام ترقی پسند تحریک کا نصب العین ہے، کچھ پلّے نہیں پڑتا۔ اس تحریک کی پہلی کانفرنس بابت اپریل 1936 میں بھی ماضی پرستی اور رجعت پرستی اور سماج اور اس کے حقیقی تصورات پر روشنی ڈالی گئی تھی:
’’ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کی چنگل سے نجات دلانا ہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
(ترقی پسند ادب: سردار جعفری، ص 13)
ادب کو عوام کے قریب لانے کا بار بار ذکر پریشان کرتا ہے کہ آخر یہ کیسے سمجھ لیا گیا کہ ادب عوام کے قریب نہیں ہے۔ اسی طرح ادب کو زندگی کی عکاسی کا موثر ذریعہ بنانے کا مطلب کیا ہے؟ ادب بلاشبہ عوام کے قریب ہوتا ہے کیوں کہ ادب عوام کے درمیان ہی خلق ہوتا ہے۔ ادب میں زندگی اور سماج ہی کی عکاسی ہوتی ہے۔ ترقی پسند تحریک سے بہت پہلے 18 ویں صدی میں ہی De Bonald نے یہ کہا تھا کہ:
Literature is the expression of society.
ادب زندگی سے یا سماج سے الگ کوئی شے نہیں ہے۔ ترقی پسند تحریک کے پہلے اعلان نامے میں بھی بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کو زندگی کے بنیادی مسائل کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ سردار جعفری نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
’’ادب کے مسائل وہی ہیں جو زندگی کے مسائل ہیں۔ ادب کے موضوعات بھی زندگی کے موضوعات سے الگ نہیں ہوسکتے۔‘‘ (ص 45، ترقی پسند ادب)
منشی پریم چند نے بھی سماج کو ادیبو ںکے لیے عدالت قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ جب ادیب کو یہ احساس ہو کہ وہ عدالت میں کھڑا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسی احساس نے ’ادب برائے زندگی‘ کے تصور کو مستحکم کیا۔ لیکن اس نے فکری توازن کو بھی متاثر کیا۔ نظریۂ حیات کو زبردستی Impose کرنے سے بھی ادب اور فکر میں نراجیت پیدا ہوئی۔ تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ اس تحریک کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ اس کا فکری میلان یہ تھا کہ ترقی پسند ادب وہ ہے جو سماج کو آگے کی طرف بڑھاتا ہے اور انسانی ذہن و فکر کے ارتقا میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے بھی جو فکری میلان بطور اصلاح کے، ادب میں رائج ہوا وہ بھی سماج کو اور انسانی ذہن کو روشن کرنے والا تھا۔ جب جذبۂ انسانی میں ابال آتاہے تو علامہ اقبال جیسا رقیق القلب شاعر بھی کہہ اٹھتا ہے:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ علامہ اقبال کے اس قول یا حکم کی تعمیل میں اگر امت کھڑی ہوجاتی کہ خوشۂ گندم کو لا دینا ہی تحصیل روزی کی سبیل پیدا کرے گا تو پھر کیا ہوتا اس کرۂ ارض پر، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اقبال استحصال کے رویے سے متنفر ہوکر اپنے احساس اور سچے انسانی جذبے کا اظہار کررہے تھے۔ وہ کوئی ترقی پسند تحریک کے نہ تو رکن تھے اور نہ علم بردار تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ سچا ادیب یاشاعر اپنے سچے جذبات کی عکاسی کے لیے کسی بھی تحریک یا ازم کا قطعی پابند نہیں ہوتا۔ ترقی پسند تحریک کے زیراثر جو ذہنی میلان سامنے آیا اس کی مثالیں خطرناک حد تک منفی انقلاب کے تصور کو پیش کرتی ہیں۔ کیفی، مخدوم، جوش اور مجاز کے یہاں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
مجاز کی مشہور نظم ’آوارہ’ کا صرف ایک بند پیش کرتا ہوں:
بڑھ کے اُس اندرسبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونک دوں اس کا شبستاں پھونک دوں
تخت سلطاں کیا، میں سارا قصر سلطاں پھونک دوں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
اس جوش عمل اور ابال سے سماج کا کیا بھلا ہوا، مجھے نہیں معلوم۔ یہ صحیح ہے کہ سامراجی قوتوں اور جابر حکمرانوں کے خلاف آواز بلند ہورہی تھی جو اپنے زمانے کی ضرورت تھی۔ حساس ادیبوں کا متاثر ہونا فطری بات تھی۔ اقبال کے یہاں بھی اس کے نقوش مل جاتے ہیں:
گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا (ساقی نامہ)
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی (مسجد قرطبہ)
سجاد ظہیر نے پہلی کانفرنس کے بعد ایک شام کا ذکر کیا ہے۔ شام کو منشی پریم چند، سجاد ظہیر، فیض، رشید جہاں، محمودالظفر، ڈاکٹر علیم بیٹھے تھے۔ کانفرنس پر تبصرے ہورہے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’جب پریم چند کی باری آئی تو انھوں نے ہم نوجوان ترقی پسندوں کی حرکتوں پر مشفقانہ انداز میں نکتہ چینی شروع کی اور کہا— ’’بھئی یہ تم لوگوںکا جلدی سے انقلاب کرنے کے لیے تیز تیز چلنا تومجھے بہت پسند آتا ہے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ اگر کہیں تم بے تحاشا دوڑنے لگے تو ٹھوکر کھاکر گر نہ پڑو اور میں ٹھہرا بوڑھا آدمی۔ تمھارے ساتھ اگر میں بھی دوڑا اور گرا تو مجھے تو بہت ہی چوٹ آجائے گی۔‘‘ (ص 129)
مذکورہ بالا موقف سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پریم چند نے بھلے ہی اپنی بھلمساہٹ کے سبب سجاد ظہیر کی درخواست قبول کرلی تھی لیکن مثبت قدروں کے پرچار کے باوجود ان کے اندر کہیں نہ کہیں ترقی پسندوں کے نظریۂ انقلاب کے تئیں خدشات ضرور تھے۔ دوسری طرف پریم چند کے اس خط کا اقتباس بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا:
’’اگر ہمارے لیے کوئی لائق صدر نہیں مل رہا ہے تو مجھی کو رکھ لیجیے۔ مشکل یہی ہے کہ مجھے پوری تقریر لکھنی پڑے گی… میری تقریر میں آپ کن مسائل پر بحث چاہتے ہیں اس کا کچھ اشارہ کیجیے۔ میں تو ڈرتاہو ںمیری تقریر ضرورت سے زیادہ دل شکن نہ ہو۔‘‘ (19 مارچ 1936، روشنائی، ص 96)
اس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ پریم چند نے جو صدارتی خطبہ پیش کیا اس میں سجاد ظہیر کے تصورات و نظریات کی آمیزش زیادہ تھی۔ اس کے باوجود بھی سجاد ظہیر یہ سمجھتے رہے کہ پریم چند نے عوامی انقلاب کی حمایت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ پریم چند کااپنا نظریہ تھا جس طرح ہر ایک ادیب کا اپنا ذاتی نظریہ ہوتا ہے کیوں کہ بغیر کسی نظریے کے کوئی فن پارہ معرض وجود میں آتا ہی نہیں۔ نظریہ ہی مقصد واضح کرتا ہے اور کبھی کبھی ادیب کے ذہن میں صرف مقصد ہوتا ہے جسے دوسرے لوگ بعد میں نظریانے (Theorise) کا کام کرتے ہیں۔ روحانی اور ذہنی تسکین کی بات بھی پریم چند نے کی تھی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس روحانی اور ذہنی تسکین کے لیے بھی کوئی ایسا Parameter وضع نہیں کیا جاسکتا جو آفاقی بھی ہو۔ دراصل کچھ شاعرو ادیب ایسے تھے جن کا شعور یا ترقی پسند رجحان غیردانستہ طور پر اس باضابطہ تحریک سے پہلے واضح اور پختہ تھا۔ ان میں جو اہم نام آسکتے ہیں وہ ہیں: پریم چند، جوش، قاضی عبدالغفار، جمیل مظہری، حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، احسان دانش وغیرہ۔ اپنی بات کی توثیق کے لیے خلیل الرحمن اعظمی کے اس خیال کو پیش کرنا مناسب ہوگا :
’’….ان ادیبوں کے رجحانات او ران کے فنی شعور کی تشکیل میں ان قومی اور اصلاحی رجحانات کو بہت دخل ہے جو ہندوستان میں بیسویں صدی کی ابتدا سے لے کر ترقی پسند تحریک کے قبل تک پروان چڑھ رہے تھے۔ یہ لوگ دراصل ترقی پسند تحریک کے پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک، مقدمہ، ص 15,16)
اگر خلیل صاحب کے خیال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان شاعروں اور ادیبوں کی ذہنی تربیت میں ان قومی و اصلاحی رجحانات کا بھی اہم رول رہا ہے جن پر سجاد ظہیر ہمیشہ معترض رہے۔ روشنائی کے صفحات پر ان کے ردعمل کو دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ سماج میں بنیادی تبدیلی اقتصادی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ ترقی پسند تحریک مارکس کے نظریے کے تحت اسے اہم سمجھتی تھی۔ سجاد ظہیر اصلاح پسندی اور احیاپسندی کے راستے کو غلط تصور کرتے تھے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی تامل نہیں کہ اگر سرسید کی تحریک نہیں ہوتی تو معلوم نہیں ہندوستانی قوم بالخصوص مسلم فرقے میں روشن خیالی کی کرنیں کب پہنچ پاتیں۔ اصلاح کی ضرورت جن زعمائے قوم نے محسوس کی، وہ اس عہد کا اہم مسئلہ تھا۔ طبقاتی کشمکش اور آقا اور غلام کا تصور بیسویں صدی کے اوائل کا تصور نہیں ہے۔ اس کی تاریخ اس سے بھی بہت پہلے ماضی بعید کی طرف ہماری ذہنی و فکری مراجعت کی متقاضی ہے۔ دراصل دیکھنا یہ ہے ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں۔ جس طبقاتی کشمکش اور جدلیاتی مادیت (Dialectical Materialism)کی بات مارکس یا اس کے نظریات کے مبلغین مختلف طریقوں سے کرتے رہے ہیں، کیا ہم ان کا اطلاق آج کے سماجی حالات اور جدید ادبی صورتِ حال پر بھی کرسکتے ہیں؟ یہ محض میرا ایک معروضہ ہے جو میرے ذہن میں سوال کی شکل میں ابھرا ہے۔ ظاہر ہے کہ میں اس کا جواب دینے بالکل نہیں جارہا کہ ابھی میں خود مناسب جواب کی تلاش میں ہوں، کیوں کہ ہمارا عہد Media Explosion کا عہد ہے، پورا سماجی ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ آج کا ایک غریب آدمی ایک امیر آدمی کے روبرو کھڑا ہوکر آنکھیں ملا کر بات کرسکتا ہے۔ آج کا آقا آدمی نہیں، الکٹرانک میڈیا ہے۔ اگر کشمکش ہے تو مشین اور آدمی میں۔ دو طبقے آج بھی ہیں۔ ایک میڈیا طبقہ اور دوسرا انسانی طبقہ۔ اگر اس نہج پر سوچنے کی زحمت کی جائے تو شاید کوئی مناسب نظریۂ حیات اور نظریہ تمدن وجو دمیں آسکتا ہے۔ مشینوں کی حکومت کے حوالے سے اقبال کے جو خدشات تھے انھیں بھی پیش نظر رکھا جاسکتا ہے۔ عزیز احمد نے اپنی تصنیف ’ترقی پسند ادب‘ میں لکھا ہے کہ اقبال نے سائنس اور مشینی صنعت کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ مشینوں کی حکومت کے خلاف ان کی شکایت یہ ہے کہ انسان اگر مشین کا محکوم ہوجائے تو زندگی کے اعلا انسانی قدروں کو بھول جاتا ہے۔ (ص 47)
یوں تو اس تحریک کی تاریخ عزیز احمد، سردار جعفری، ممتاز حسین، مجنوں گورکھپوری، ہنس راج رہبر اور خلیل الرحمن اعظمی نے بھی تحریر کی لیکن بانی تحریک کی حیثیت سے سجاد ظہیر کی روشنائی کی حیثیت سب سے زیادہ Authentic ہونی چاہیے۔ یہ تاریخ جو یادنگاری کے زمرے میں آتی ہے اس میں رپورتاژ اور خاکے کے نقوش موجود ہیں۔ یہ تحریک ایک منظم و منضبط تحریک تھی لہٰذا اس کی کارگزاریاں اور ریکارڈز سب محفوظ ہونے چاہیے تھے لیکن ذراغور کریں تو روشنائی میں آپ دیکھیں گے کہ بیشتر کانفرنسوں اور جلسوں کی تاریخیں غائب ہیں۔ پہلی کل ہند کانفرنس جو لکھنؤمیں پریم چند کی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اس کی تاریخ سجاد ظہیر نے بھی اپریل 1936 بتائی ہے۔ سردار جعفری نے بھی اپریل 1936 کا ذکر کیا ہے۔ ہنس راج رہبر نے عزیز احمد نے ممتاز حسین نے سب نے اپریل 1936 لکھا ہے۔ پہلی کانفرنس تھی جس کی روداد بھی لکھی گئی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کانفرنس اپریل کے پورے مہینے کو محیط تھی؟ کیا کسی بھائی کو اس کی تاریخ قلم بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اسی تحریک پر Ph.Dکا مقالہ تحریر کیا لیکن انھوں نے بھی اپریل لکھا اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ غالباً اسے وہ فروگذاشت تسلیم نہیں کرتے ہوں گے۔ لیکن اعظمی صاحب کو جب ریکارڈز ہی ادھورے اور گمراہ کن ملے ہوں گے تو اپنی طرف سے وہ تاریخیں کہاں سے متعین کرلیتے؟ چلیے پہلی کانفرنس تھی، افراتفری کا عالم تھا۔ سجاد ظہیر اور ان کے رفقا کا یہ پہلا تجربہ تھا، لیکن دوسری کانفرنس کے لیے تو کسی مہینے کاذکر بھی نہیں ہے۔ دوسری کانفرنس 1937 میں الہ آباد میں ہوئی یعنی پورے سال کانفرنس ہوتی رہی۔ چلیے اسے بھی جانے دیجیے تیسری کل ہند کانفرنس الٰہ آباد ہی میں ہوتی ہے۔ اس کا بھی وہی حال ہے۔ سجاد ظہیر لکھتے ہیں کہ 1938 میں الٰہ آباد ہی میں ہوئی، غالباً مارچ یا اپریل کا مہینہ تھا۔ اس غالباً کا جواب نہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے بڑی محنت کرکے مارچ اور اپریل سے اپریل کو حذف کردیاہے اور صرف مارچ 1938 رہنے دیاہے۔ میرے اس سوال کا جواب ترقی پسندوں کی طرف سے یہ ہوسکتا ہے کہ چوں کہ ’روشنائی‘ جیل میں تحریر کی گئی تھی اس لیے تاریخوں کے حوالے حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ اگر اس کی تاریخیں ہوتیں تو بعد میں بھی درج کی جاسکتی تھیں۔ کتاب جیل میں لکھی گئی لیکن چھپی تو باہر۔ ان کے دوسرے دوستوں نے بھی دیکھی ہوگی۔ لیکن غالباً ان فروگذاشتوں کی طرف کسی کی نظر نہیں گئی یا یہ کہ ان کے سامنے مقصد اتنا بڑا تھاکہ یہ تاریخیں کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔ ایک بات او رہے کہ الہ آباد میں جو دو کانفرنسیں 1937 اور 1938 میں ہوئیں وہ کل ہند نہیں تھیں جب کہ مارچ 1938 والی کانفرنس میں یوپی بہار اور پنجاب کے بہت سے ادیبوں نے شرکت کی تھی۔دوسری کل ہند کانفرنس دسمبر 1938 کے آخری ہفتے میں ہوئی۔ آخری ہفتے کا تعین غور طلب ہے۔ گویا اب اس تنظیم میں کچھ نظم و ضبط آرہا تھا۔ قطعی تاریخ کا ذکر یہاں بھی نہیں لیکن یہی کیا کم ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے کی وضاحت کردی گئی۔ اسی طرح تیسری کل ہند کانفرنس مئی 1939 میں دہلی میں منعقد ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد دسمبر 1947 میں چوتھی کانفرنس ہوئی۔ پانچویں کانفرنس مئی 1949 کی آخری تاریخوں میں بھیمڑی (بمبئی) میں ہوئی جس میں 1936کے منشور کو ناکافی تصور کیا گیا اور نیا منشور تیار کیاگیا۔ چھٹی اور آخری کانفرنس مارچ 1953میں دہلی میں منعقد کی گئی اور منشور پر پھر سے نظرثانی کی گئی۔
مجھے معلوم ہے کہ میری اس تاریخ شماری سے آپ کو کوفت بھی ہوئی ہوگی لیکن یہ ایک ایسا اہم پہلو ہے جس کی طرف توجہ نہیں کی گئی ۔ آج بھی کسی نے غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ سجاد ظہیر، عزیز احمد، ممتاز حسین، ہنس راج رہبر، سردار جعفری، خلیل الرحمن اعظمی میں سے کسی نے اس طرف توجہ کیوں نہیں کی؟ ایک ایسی تحریک جس کی تیاری لندن میں ہوتی رہی اور جب ہندوستان میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیاتو تاریخی حوالہ ہی کہیں تاریخ کے اَن گنت صفحات میں گم ہوگیا۔ لال روشنائی کے سمندر میں اس اہم اور بامقصد تحریر کی اہم تاریخیں موجوں کا شکار ہوگئیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تمام خارجی نظم و ضبط کے باوجود اندرونی طور پر اس انجمن میںنراجیت تھی جس کا ذکر روشنائی میں سجاد ظہیر نے بھی جا بہ جا کیا ہے۔ سردار جعفری نے بھی حلقۂ ارباب ذوق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب کچھ کے باوجود حلقۂ ارباب ذوق ترقی پسند تنظیم سے زیادہ منظم تھی۔ یہ درست ہے کہ روشنائی جیل میں تحریر کی گئی لیکن ’ذکر حافظ‘ بھی تو جیل ہی میں تصنیف کی گئی۔ ’ذکر حافظ‘ جو حافظ کی شاعری کا خوبصورت تجزیہ مع حوالوں کے پیش کرتی ہے، ’روشنائی‘ کے تاریخی حوالے کہاں گم ہوگئے؟ کیا سجاد ظہیر کی جماعت جس میں احمد علی اور ڈاکٹر علیم جیسے عالم اور فاضل دانشور موجود تھے، کیا انھیں معلوم نہیں تھا کہ بغیر تاریخی حوالوں کے تحریکیں بے معنی سی ہوکر رہ جاتی ہیں بلکہ مشکوک بھی ہوسکتی ہیں۔ حالاں کہ یہ کوئی مقصد نہیں لیکن مقصد کے صفحے کا اہم حاشیہ ضرور ہے۔
’حلقہ ٔ ارباب ذوق‘ کی مکمل اور منضبط تاریخ پر پاکستان میں ڈاکٹر یونس جاوید نے تفصیلی کام کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ ترقی پسند تحریک کی آج تک کوئی ایسی معروضی اور مفصل تاریخ مرتب نہیں کی جاسکی، اس کا سبب جو مجھے سمجھ میں آیا ہے وہ ہےLack of documentationیا پھر Poor documentation۔ خیر اب ’روشنائی‘ کے ایک دوسرے پہلو پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ روشنائی میں جن لوگوں کا ذکر آیا ہے سجاد ظہیر نے ان پر کھل کر باتیں کی ہیں۔ ان کی شخصیت کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں شخصیت نگاری اور خاکہ نگاری کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ چوں کہ سجاد ظہیر کے مزاج میں ایک طرح کی جمالیاتی اور اسلوبیاتی حس تھی اس لیے وہ ہمیشہ اچھی اور شگفتہ نثر لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں چاہتاہوں کہ مولانا حسرت موہانی کو جس طرح سے انھوں نے روشنائی میں پیش کیا ہے وہ ملاحظہ کرلیجیے:
’’مولانا کا قد چھوٹا تھا اور وہ جی بھر کے بدصورت تھے۔ جسم گدبدا تھا جس پر وہ ایک کافی لمبی میلی سی مَلی دلی گہرے سلیٹی رنگ کی کھدر کی شیروانی پہنتے تھے۔ چیچک رو، ڈھلتا ہوا رنگ اور سارا چہرہ ایک بڑی گھنی گول سی داڑھی سے ڈھکا ہوا تھا جو شاید چھ انچ سے بھی کچھ لمبی ہی تھی اور جس کے بال کھچڑی تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس داڑھی کو نہ وہ کبھی کترتے تھے اور نہ اس میں کنگھی کرتے تھے۔ سر پر وہ ہمیشہ بڑے شوخ سرخ رنگ کی چھوٹی سی (فیلٹ کی) ترکی ٹوپی پہنتے تھے جس میں پھُندنا نہیں ہوتا تھا۔آنکھوں پر عینک لگاتے تھے جس کا فریم لوہے کا تھا اور جس کے شیشے پرانی وضع کے چھوٹے چھوٹے اور بیضاوی تھے۔ ان کے انداز گفتگو میں شوخی اور لطافت تھی۔ وہ تیزی سے مسکرا کر بات کرتے تھے۔ ان کی آواز پتلی تھی اور جب وہ جوش میں آکر بڑے انہماک سے بولتے تھے، جیسا کہ اکثر ہوتا تھا، تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی بچے کی ٹوٹی ہوئی سیٹی ہو جسے زور دے کر پھونکا جارہاہے لیکن جو پھر بھی مشکل سے بجتی ہے۔‘‘ (ص 111)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نثر میں کیسی شگفتگی اور ظرافت کے عناصر موجود ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر اچھی اور صاف ستھری شگفتہ نثر لکھنے کی پوری صلاحیت موجود تھی جو اس بڑی سی نام نہاد تحریک کی نذر ہوگئی۔ ’روشنائی‘ کے مطالعے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مصلحت کوشی کے بجائے صاف گوئی سے کام لیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق پر اظہارِ خیال کررہے ہوں یاٹیگور پر، اگر انھیں کوئی بات شخصیت کے حوالے سے یا ان کی تحریروں کے حوالے سے ناموزوں ہے تو اس کا اظہار وہ برملا کرتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کے حوالے سے انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ملّائیت اور مذہبی عصبیت اور تنگ نظری کے وہ سخت مخالف ہیں اور اس لحاظ سے ان کا مولوی کا لقب بالکل ناموزوں ہے۔ چنانچہ ان کے دیباچوں میں سے اس دیباچے کاایک حصہ اردو ادب میں ایک یادگار جگہ رکھتا ہے جہاں پر انھوں نے دہلی کے مولویوں کے بڑے پُرجوش الفاظ میں مذمت کی ہے جنھوں نے مولوی نذیر احمد کی کتاب ’امہات الامہ‘ کے نسخوں کو کافی ہنگامہ کرکے جلا دیا تھا۔‘‘ (ص 183)
آگے لکھتے ہیں:
’’ہمیں افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اردو زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے جن عظیم وسائل اور عوامی قوتوں کو بروئے کار لایا جاسکتا تھا اسے حرکت میں لانے اور منظم کرنے میں مولوی صاحب اور انجمن ترقی اردو ناکام رہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اردو کی تحریک کو کبھی جمہوری یا عوامی تحریک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘ (ص 185)
میں صرف آخری جملے پر اپنی حقیر رائے دیتے ہوئے اپنی بات ختم کرتاہوں کہ اگر مولوی صاحب بھی انجمن یا اپنے علمی سفر کو حددرجہ جمہوری یا عوامی تحریک کی شکل دینے کی دھن میں ہوتے تو انھو ںنے جو علمی اور تحقیقی کام کیے وہ ہمارے سامنے نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہ مولوی عبدالحق کی شناخت دہلی کے مولویوں کی پرجوش الفاظ میں مذمت کرنے کے سبب نہیں ہے۔ گفتگو چوں کہ ر’وشنائی‘ کے حوالے سے ہے اس لیے ’روشنائی‘ کی تاریخی اور ادبی قدر و قیمت پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
(یہ بھی پڑھیں تنقیدی اصطلاحات: تعیین قدر کا مسئلہ- پروفیسر کوثر مظہری)
’روشنائی‘ بے شک ایک بے حد فعال شخصیت کی تحریر ہے جو ترقی پسند تحریک کے مالہ وماعلیہ (pros & Cons) کو پیش کرتی ہے لیکن ترقی پسند تحریک کے جلسوں کی حتمی تاریخوں کا حوالہ نہ ہونا اس کتاب کی قدر و قیمت کم کردیتی ہے جس کے حوالے سے اوپر گفتگو کی گئی۔ اس کتاب کا جو نثری اسلوب ہے وہ دل کش ہے، اس لحاظ سے سجاد ظہیر کا اپنا اسلوب نثر ایسا ضرور ہے جس کے سبب یہ کتاب پڑھی جاتی ہے اور پڑھی جائے گی۔ اگر کسی کو ترقی پسند تحریک کے کسی جلسے کی حتمی تاریخ اس کتاب سے چاہیے تو مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اُسے مایوسی ہاتھ آئے گی۔
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں پروفیسر ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
استاد گرامی کا مقالہ پڑھا۔ بہت خوب ہے اور روشنائی کے حوالے سے ادب کو عوام سے قریب لانے کے ترقی پسند پہلو پر چند سوالات بھی قائم کئے گئے ہیں، وہ بھی غور طلب ہیں۔
اچھا مقالہ ہے۔ ترقی پسند تحریک کو باریکی سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور اہم سوالات قائم کیے گئے ہیں۔۔