مولانا امتیاز علی عرشی (8 دسمبر 1904 ۔ 25 فروری 1981) اردو ادب کے نامور اور کہنہ مشق مصنف ، محقق ، مدون ، ماہر غالبیات اور مہتمم کتب خانہ رامپور تھے۔ تحقیق و تدوین کی دنیا میں ان کو ممتاز مقام حاصل ہے۔
مولانا عرشی علم و ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت کے لئے وقف کر دی لیکن ان کی اصل پہچان اور شوق و رغبت اس بات میں تھی کہ نایاب علمی سرمائے کی تحقیق کی جائے اور اہل ذوق کی تشفی کے لئے اسے منظر عام پر لایا جائے۔
غالب سے عرشی صاحب کو خصوصی لگاؤ تھا ان کا شمار ا ُردو کے ان نامور محققین میں شامل ہیں جنہوں نے ”غالب اور غالبیات“ کو حرزجاں بنایا اور اس مشعلے کو اپنا خون جگر فراہم کرتے رہے۔ لہذا انہوں نے غالب سے متعلق بہت سے اہم تحقیق امور سر انجام دئے ـ "دیوان غالب: نسخہ عرشی” اس سلسلے کی اہم کڑی ہے جو کہ جناب امتیاز علی عرشی کی غالب سے محبت اور تدوین سے دلی لگاؤ کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ دیوان مولانا عرشی کی برسوں کی محنت شاقہ اورعرق ریزی کا نتیجہ ہے اور اردو ادب میں ادبی تحقیق کا ایک قابل فخر اور نا قابل فراموش کارنامہ ہے۔ جس کی بنا پر امتیاز علی عرشی کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا۔
"دیوان غالب: نسخہ عرشی” پہلی بار 1958 میں انجمن ترقی اردو (ہند) علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے یہ نسخہ بے مثال ہے۔ دراصل اس نسخے کی بنیاد 1857 کے اس نسخے پر رکھی گئی ہے جو غالب نے اپنے ہاتھوں سے ترتیب دے کر اپنے شاگرد نواب یوسف علی خان والی رامپور کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ یہ نسخہ کتب خانہ رامپور میں محفوظ رہا اور امتیاز علی عرشی نے اسے رضا لائبریری رامپور سے ہی حاصل کیا۔
ایک بار اس نسخے کے شائع ہونے کے بعد عرشی صاحب نے دوسری طباعت میں مزید چھان بین اور تلاش و جستجو سے نئے مآخذ کا استعمال کر کے اختلاف نسخ کو نہایت جامع انداز میں پیش کیا ہے اور یہ نسخہ مزید اضافہ کے ساتھ جون 1992 میں مجلس ترقی ادب لاہور سے پہلی بار پاکستان میں شائع ہوا۔ (یہ بھی پڑھیں تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین )
اس لحاظ سے نسخہ عرشی دوسرے تمام نسخوں کے مقابلے میں صحت متن اور اپنے مقدمہ کے اعتبار سے لائق تکریم ہے۔ اس کے بسیط مقدمے سے بہت سی نئ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پروفیسر محمد سعید، عرشی کے مرتب دیوان کی تدوین کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’عرشی کے مرتب کردہ دیوانِ غالب اردو نسخۂ عرشی کو کلامِ غالب ہی نہیں اردو تدوینِ متن کی بھی معراج قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (1)
یہ نسخہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں غالب کا تمام متداول و غیر متداول اردو کلام موجود ہے۔ وہ تمام رسائل و اخبارات ، مختلف بیاضیں ، خطوط اور تذکرے ۔۔ جو اہمیت کے حامل ہیں سب عرشی کی دسترس میں رہے جس کی تفصیل نسخہ عرشی کے اشاریہ میں ہے۔ عرشی صاحب نے ان تمام ماخذات سے کلام غالب اکٹھا کیا اور پھر تاریخی اعتبار سے اہل ذوق کے سامنے پیش کیا ہے۔
مقدمہ ایک ایسا خاکہ ہوتا ہے جس کی مدد سے متن کو آسانی سے سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ اس نسخے میں بھی دیوان سے پہلے مولانا عرشی کا طویل و جامع مقدمہ شامل ہے جو کہ 159 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں مرزا غالب کی پیدائش سے وفات تک کے تمام اہم حالات بھی قلم بند ہیں جس سے قاری کو وقت کے ساتھ ساتھ غالب کے ذہنی ارتقاءکو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ غالب سے متعلق تمام معلومات کو جو وہ اپنے کلام میں وقتا فوقتا کرتے رہے تھے ان سبھی معلومات کو عرشی نے دیباچے اور حواشی میں شامل کیا ـ
مقدمے میں غالب کے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت ، وسیع مطالعہ ، ریختہ گوئی ، فارسی نگاری ، شاعری کے ادوار اور شعری اوصاف کو غالب کے خطوط کے حوالے دے کر واضح کیا گیا ہے۔ کلکتہ میں ہونے والے مشاعروں کا احوال بھی درج ہے۔ جو قلمی و مطبوعہ نسخے عرشی کے زیر مطالعہ رہے ان تمام کا تعارف بھی تفصیل سے دیا گیا ہے۔ مخففات کا اندراج ہے اور تدوین کے طریق کار اور حواشی کی تفصیلات بھی درج ہیں۔
مولانا عرشی نے غالب کے کلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلے حصے کا عنوان ’’گنجینۂ معنی ‘‘ہے۔ اس میں وہ اشعار درج کیے گئے ہیں جو نسخہ بھوپال اور نسخہ شیرانی میں تھے لیکن 1833ء کے مرتبہ دیوان میں غالب نے شامل نہیں کیے تھے۔
اس عنوان کے انتخاب کے لئے عرشی مقدمے میں لکھتے ہیں:
” چونکہ اس حصے کے تقریبا سب شعر خیال آرائی اور معنی آفرینی کے طلسمی نمونے ہیں اس لیے مرزا صاحب کے شعر:
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ، غالب، مرے اشعار میں آوے
کے پیش نظر اس حصے کو گنجینہ معنی قرار دیا گیا ہے” (2)
دوسرے حصے کا نام ’’نوائے سروش‘‘ ہے۔ اس میں متداول کلام ہے جسے غالب نے اپنی زندگی میں لکھوا اور چھپوا کر تقسیم کیا تھا یعنی مروجہ دیوانِ غالب۔ اسی کلام کے بارے میں غالب نے یہ دعوا کیا تھا کہ:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب، صریر خامہ نوائے سروش ہے
اسی لئے عرشی نے اسے "نوائے سروش” کے نام سے موسوم کیا ہے۔
تیسرا حصہ ’’یادگارِ نالہ‘‘ کے عنوان سے موسوم ہے۔ اس میں وہ کلام ہے جو دیوانِ غالب کے کسی نسخے کے متن میں نہ تھا لیکن بعض نسخوں کے حاشیوں یا خاتمے میں یا غالب کے خطوط میں یا ان کے نام سے دوسروں کی بیاضوں میں پایا گیا تھا یا وقتاً فوقتاً اخبارات و رسائل میں چھپ کر اہلِ ذوق تک پہنچ چکا تھا۔ اس حصے کو یادگار نالہ کے نام سے ملقب کرنے کے حوالے سے عرشی غالب کے ایک شعر کا حوالہ دے کر رقمطراز ہیں:
” میرزا صاحب کا ایک شعر ہے:
نالہ دل نے دئیے اوراق لخت دل یاد
یادگار نالہ، یک دیوان بے شیرازہ تھا
چونکہ حصہ زیر بحث میں ان کے اوراق لختِ دل کی شیرازہ بندی ہے اس لیے اس حصے کو "یادگار نالہ” کہنے میں گویا مرزا صاحب کی تائید حاصل ہو جاتی ہے”(3)
چوتھے حصے ’’باد آورد‘‘ میں نسخہ عرشی زادہ کا کلام شامل ہے۔ اس حصے کے متعلق عرشی صاحب مقدمے میں لکھا ہے:
"اس نسخے کا پتہ ایسے وقت چلا کہ نسخہ عرشی کا متن طبع ہو چکا تھا صرف ایک آدھ جزو باقی رہ گیا تھا۔ اس لیے اسے آخر میں شامل کرنا ممکن ہو سکا۔ چونکہ یہ دریافت غیر متوقع طور پر ہوئی تھی اس لیے اس حصے کا نام "باد آورد” رکھا گیا ہے۔”(4)
غالب کے کلام کو چار حصوں میں تقسیم کرنے سے صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ زیادہ تر غزلیات ایک حصے میں نہیں ہیں بلکہ اس کے منتشر اجزا مختلف حصوں میں منقسم ہو گئے ہیں ۔ غزل کے چند اشعار پہلے حصے میں ہیں تو کچھ دوسرے حصے میں ۔ ایک غزل کی تلاش بآسانی نہیں کی جا سکتی اور اگر ایک حصے سے غزل کے چند اشعار مل بھی جائیں تو پھر دوسرے حصے اور پھر تیسرے یا چوتھے حصے کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً مشہور غزل ہے جو متداول دیوان میں غزل نمبر ایک ہے۔ اس کا پہلا شعر ہے
؎نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
اس غزل کے چار اشعار حصہ اول ’’گنجینۂ معنی‘‘ میں صفحہ11پر ہیں جبکہ دیگر پانچ اشعار حصہ دوم بعنوان ’’نوائے سروش‘‘ صفحہ نمبر159، 160 پر پائے جاتے ہیں ۔
عرشی صاحب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے پہلی بار غالب کے تمام اردو کلام کو تاریخی ترتیب اور صحت متن کے ساتھ اور دوسرے تمام تحقیقی اصولوں کو مد نظر رکھ کر ترتیب دیا ـ اوریہ اس نوعیت کاپہلا، منفرداور کامیاب تجربہ ہے ۔اگرچہ اس سے قبل بھی اس طرح کی کوششیں ہوئی تھیں لیکن وہ نامکمل رہی تھیں ۔ ڈاکٹر عبداللطیف نے غالب کے جملہ کلام کوتاریخی ترتیب کے ساتھ شائع کرنے کاارادہ کیا تھامگر ان کے تیار کیے ہوئے موادکا صرف نصف حصہ ہی منصہ شہود پر آسکا۔ اس کے علاوہ شیخ اکرام نے ”غالب نامہ”اور ”ارمغانِ غالب”میں یہ کوشش کی لیکن یہ بھی نامکمل رہی ۔
میرزا صاحب نے 1833 میں جب موجودہ انتخاب مرتب کیا تو اس میں اصناف کلام کی ترتیب یوں رکھی:
دیباچہ، غزلیات، قصائد، مثنوی، قطعات، رباعیات، تقریظ۔
دیوان کی پہلی طباعت(1841) میں بھی یہی ترتیب رہی۔ لیکن یہ ترتیب سنت شعرا ہی کے خلاف نہیں بلکہ مرزا کے کلیات فارسی کے مطابق بھی نہیں۔ لہذا نسخہ رامپور جدید میں اس ترتیب کو بدل کر یوں کر دیا گیا:
دیباچہ، قطعات، مثنوی، قصائد، غزلیات، رباعیات، تقریظ۔
اس نسخہ میں عرشی نے بھی دوسرے تمام نسخوں کے بر عکس مختلف اصناف شعر کی ترتیب ‘نسخہ رامپور جدید’ کے انداز پر رکھی۔ بعد ازاں ہر حصے کے اصناف کو جداگانہ تاریخ وار مرتب کیا ہے۔
اس ترتیب کی وضاحت عرشی نے مقدمے میں یوں کی ہے:
"متداول دیوان اردو کی ترتیب دوبار ہوئی۔ پہلے 1833 میں اور دوسری بار 1855 میں٫ 1855 کی ترکیب زمانے کے لحاظ سے متاخر ہونے کے ساتھ ان کے فارسی دیوان کی ترتیب ہی نہیں بلکہ رواج عام کے مطابق بھی ہے اس لیے وہی اس کی مستحق ہے کہ کسی تحقیقی و تنقیدی ایڈیشن میں اختیار کی جائے۔چنانچہ اسی واسطے میں نے نسخہ عرشی کی ترتیب میں ‘نسخہ رامپور جدید’ کی ترتیب کو برقرار رکھا۔”(5)
اس نسخے میں غالب کے کلام کو غالب کی منشا کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جوکہ تدوین کاپہلا اصول بھی ہے ۔مولانا نے خوداپنے مقدمے میں وضاحت کی ہے کہ املااوررسم الخط کے معاملے میں موجودہ اصول اور غالب کے اختیار کردہ اصول دونوں سے کام لیاگیاہے ۔ مثلاً غالب کایہ اصول مشہور ہے کہ وہ ‘خورشید ‘ کو بحذف ‘و’ یعنی ‘خُرشید’ لکھتے تھےـ چنانچہ مولانا نے بھی اس نسخے میں ‘خُرشید’ ہی لکھاہے۔مثلاً نسخۂ عرشی حصۂ قصائدمیں صفحہ نمبر٧ کے چوتھے شعرمیں لفظ ‘خورشید’ آیاہے اوراُس کومولانا نے ‘خُرشید’لکھاہے ۔ شعراس طرح ہے:
درست اس سلسلۂ ناز کے ،جوں سنبل وگل
ابرِ میخانہ کریں ساغر ِ خُرشید شکار (6)
اسی طرح غالب پاؤں کو پانو لکھتے تھے ـ ‘ذ’ لکھناغلط قرار دیتے تھے اوراس کی جگہ ‘ز’ لکھتے تھے مثلاً زرا، گزر، رہگزر، گزارش وغیرہ ۔ چنانچہ نسخۂ عرشی میں ان جیسے الفاظ غالب کی منشا کے مطابق لکھے گئے ہیں ۔
مگر کہیں کہیں اس اصول سے انحراف بھی نظر آتا ہےـ امتیاز علی عرشی نے غالب کی آخری اصلاح کی بجائے اپنی خوش ذوقی کی بنیاد پر بھی ترتیب دیا ہے۔ یہ بات تدوین متن کے اصولوں کے خلاف ہے۔ کلام غالب کے حوالے سے یہ بات اور بھی اہم ہے کیونکہ غالب آخری عمر تک اپنے کلام کی ترمیم و اصلاح کرتے رہے اس لئے غالب کے آخری نسخہ کی اصلاح کو مدِ نظر رکھنا چاہیے تھا مگر عرشی نے اس اصول سے انحراف کیا ہےـ اس سلسلہ میں نسخہ عرشی سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے
نسخہ رامپور میں اس کا پہلا مصرع اس طرح ہے:
ہے زلزلہ و صر صر و سیماب کا عالم
اب امتیاز علی عرشی نے اس شعر کو ترتیب دیتے وقت نسخہ ‘رامپور جدید’ کی اصلاح کو نظر انداز کر دیا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"میری دانست میں اس شعر پر یہ ان کی آخری اصلاح ہے مگر پہلی بات تو یہ کہ جدید مصرع شعر کے مصرعہ ثانی سے میل نہیں کھاتا۔۔ مزید برآں مجھے محبوب کے لئے تباہ کاری و بربادی کا نقشہ پسند نہ آیا۔ محبوب کی شوخ طبعی اورسیماب مزاجی کے ذکر میں جو لطف ہے وہ اس کے ظلم و جور کے بیان میں کہاں۔ بظاہر یہ اصول و ترتیب سے انحراف ہے مگر آخر اصول میں کسی قدر لچک بھی ہوا کرتی ہے۔”(7)
اگرغالب کے کسی شعریاغزل کی تشریح خود غالب کے الفاظ میں دستیاب ہوگئی ہے تواس کوبھی پیش کردیاگیاہے اوراس کے لیے باقاعدہ ایک عنوان ”شرحِ غالب”کے نام سے قائم کیاہے یعنی شرحِ کلامِ غالب بالفاظِ غالب ۔تشریح شعر کے علاوہ اگرکسی شعرکے سلسلے میں اس کا سببِ تحریر بھی معلوم ہوگیا ہے تو انھوں نے اس کو بھی پیش کردیا ہے
عرشی صاحب کا دعوی ہے کہ نسخہ عرشی کی ترتیب کے لئے کل (21) اکیس قلمی و مطبوعہ نسخے ان کے زیر مطالعہ رہے۔ ان تمام نسخوں کی کیفیت تفصیلاً مقدمے میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن ان نسخوں کے ناموں اور مخففات میں کوئی مطابقت نہیں۔ مخففات آسان فہم اور نسخے سے مطابقت لیے ہونے چاہئیں مگر یہ اتنے مبہم ہیں کہ متن کا مطالعہ کرتے وقت بار بار مقدمے کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ ان بےجوڑ مخففات کی وجہ مقدمے میں کہیں بھی بیان نہیں کی گئی۔
نسخہ عرشی میں حواشی کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں اختلاف نسخ کو جگہ دی گئی ہے اور اس کا خط خفی رکھا ہے۔ دوسرے حصے میں جس کا خط جلی ہے، اشعار کی وہ تمام تشریحیں جمع کی گئی ہیں، جو مرزا صاحب نے احباب کے استفسار پر تحریر کی تھیں۔
نسخہ عرشی کے آخر میں مولانا عرشی نے فہرست اشعار دی ہے۔ جس کے ذریعے سے غالب کی کوئی بھی غزل جو اس نسخے میں موجود ہو حروف تہجی کی ترتیب سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً اگر غزل یا شعر کی ردیف ‘الف’ پر ختم ہو رہی ہو تو ‘الف’ کی ردیف میں دیکھیں گے. اور اگر دو غزلوں کی ردیف مماثل ہو تو ردیف سے پہلے والے لفظ کو دیکھیں گے کہ کیا ہے اور اس طرح غزل کی تلاش کریں گے. اس میں صفحہ نمبر اور شعر نمبر کی نشاندہی کر دی گئی ہے کہ یہ غزل کس صفحے پر اور کتنے نمبر سے شروع ہو رہی ہے۔
فہرست اشعار’ کے بعد تین اعشاریے ہیں۔ پہلے اشاریے میں اشخاص، اقوام اور فرقوں کے متعلق وضاحتیں ہیں۔ دوسرے اشاریے میں مقامات کا ذکر ہے۔ اور تیسرے اشاریہ میں کتب و رسائل کا ذکر ہے۔
عرشی نے اس نسخے میں وقف کی کئی عام علامتیں استعمال کی ہیں مگر ان میں سے ‘کامے’ کو حد افراط تک برتا گیا ہے۔ اس کی وجہ عرشی صاحب بتاتے ہیں کہ غالب جیسے تعقید پسند استاد کے کلام کا مطلب سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔
خلاصہ یہ کہ تحقیق و تدوین کا کام جس دیدہ ریزی اور جگر کاوی کا مطالبہ کرتا ہے امتیاز علی خان عرشی اس پر پورے اترتے ہیں۔ اس تیز رفتاری اور سہل پسندی کے دور میں ان کے معیار کے بلند پایہ عالم اور محقق نایاب ہیں۔ اور نسخہ عرشی اپنی گوناگوں خصوصیات کی بنا پر دیوان غالب کی دیگر اشاعتوں کے بالمقابل امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ جو ادب کے قارئین کے لئے بالعموم اور غالبیات سے شغف رکھنے والوں کے لئے ایک قابل اعتماد ماخذ ہے۔ یہ نسخہ فن تدوین کا ایک مکمل نمونہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
حوالہ جات:ـ
1) دیوان غالب نسخہ عرشی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، سعید احمد مشمولہ تحقیق و تدوین :سمت رفتار، مرتب ڈاکٹر محمد موصوف احمد، ص:249
2) دیوان غالب نسخہ عرشی ،مرتبہ: امتیاز علی خاں عرشی،مجلس ترقی ادب ،لاہور ،طبع دوم، دسمبر ۲۰۱۱ء، ص:75
3) ایضاً
4) ایضاً، ص:76
5) ایضاً، ص:120
6) ایضاً، حصہ قصائد ص:7
7) ایضاً، ص:78
Saima parveen
SSE Urdu
M.phil Urdu Scholar
University of Sargodha
Email: rosebella798@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |