اردو نثر و نظم کی تاریخ میں غالب کئی اعتبار سے استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی مصنف نے اتنا کم لکھ کر ایسی مستحکم اور مستقل جگہ اپنے لیے نہیں بنائی جیسی کہ غالب نے۔ میر غلام حسنین قدر بلگرامی کے نام ایک خط میں غالب نے لکھا تھا، ’’بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں۔
باسٹھ برس کی عمر ہوئی۔ پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے۔ اب جسم میں تاب وتواں نہیں۔ نثر فارسی لکھنی یک قلم موقوف۔ اردو، سو اس میں عبارت آرائی یک قلم متروک۔
جو زبان پر آوے اور قلم سے نکلے۔ پاؤں رکاب میں ہے اور ہاتھ باگ پر۔ کیا لکھوں اور کیا کہوں۔‘‘
اور اردو نثر کا معاملہ بھی یہ ہے کہ خطوط کو الگ کر دیجیے توباقی کیا بچتا ہے! گنتی کی چند تقریظیں، کچھ دیباچے، ایک ناتمام قصہ اور کچھ رسالے۔ ان میں نثر کی خوبی کے لحاظ سے خطوں کے بعد، حالی نے بس مفتی میر لال کی کتاب سراج المعرفۃ پر مرزا کے دیباچے کو قابل ذکر سمجھا ہے۔ لطائف غیبی، تیغ تیز، نامہ غالب کی شہرت کا سبب غالب سے ان کی نسبت کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور لائق توجہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری غالب نے لڑکپن میں شروع کی۔ نثر بڑھاپے میں لکھی۔ ان کی ادبی زندگی کا آخری دور ان کی نثر کا دور ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ادبی معاشرے میں شاعری کی بہ نسبت غالب کے خطوط کو مقبولیت پہلے ملی۔ ہر چند کہ حالی کو زمانے سے یہ گلہ رہا کہ ’’مرزا کی اردو نثر کی قدر بھی جیسی کہ چاہیے تھی، ویسی نہیں ہوئی۔۔۔ لیکن پھر بھی، مرزا کی اردو نثر کے قدردان بہ نسبت ناقدر دانوں کے ملک میں بہت زیادہ نکلیں گے۔‘‘ (یادگار غالب، ص۱۷۵)
خط لکھنے کا جو طریقہ غالب کے زمانے میں رائج تھا، غالب نے اس ہٹ کر ایک الگ راہ نکالی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب کو شعوری یا غیر شعوری سطح پراپنی انفرادیت کے تحفظ کا بہر حال احساس تھا اور ہر چند کہ وہ اپنے خطوط کی شہرت کو اپنی سخن وری کے شکوہ کے منافی سمجھتے تھے (بنام تفتہ)،لیکن اپنی نثر کے اسلوب کا ایک باضابطہ تصور ضرور رکھتے تھے۔ حالی نے خطوط کے واسطے سے غالب کی انفرادیت کا تعین تین بنیادوں پر کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ غالب لوازم نامہ نگاری سے انکار کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے ادائے مطالب کے لیے مکالماتی پیرایہ اختیار کیا اور تیسرے یہ کہ ہر خط میں، غالب کوئی ایسی بات لکھنے کی کوشش کوتے ہیں جس سے مکتوب الیہ خوش اور محظوظ ہو۔ بہ ظاہر یہ اوصاف غالب کی شخصیت یا ان کی خطوط نگاری کے ہیں، نثر کے نہیں۔
لیکن جیسا کہ آٖفتاب احمد نے غالب کے خطوط پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’اسلوب کی بحث اگر محض لفظوں کے جوڑ توڑ، جملوں کی ساخت اور بیان کے ظاہری پہلوؤں کے تجزیے سے آگے بڑھے، تو لازمی طور پر کچھ محدود اور بے نتیجہ سی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔۔۔ اسلوب کی بحث صرف اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جب وہ خارجی پہلوؤں یعنی لفظ و بیان کے تاروپود سے گزر کر اس داخلی کیفیت کا تجزیہ پیش کرے جو کسی مخصوص اسلوب کے لباس میں ظاہر ہوئی ہو۔ غالب کے خطوط کی طرز تحریر اور اسلوب میں بھی غالب کی ادبی شخصیت کی ایک مخصوص کیفیت جھلکتی ہے۔‘‘ (غالب آشفتہ نوا،ص ۱۴۱)
اس سلسلے میں آفتاب احمد نے ایک بلیغ نکتہ یہ بھی پیش کیا ہے کہ غالب نے جس قسم کی نثر اپنے اردو خطوط میں لکھی ہے، ایسی نثر وہ اپنی زندگی کے آخری ادوار میں ہی لکھ سکتے تھے۔ اوائل عمری کے دور میں اس طرح کی نثر کا تصور بھی ممکن نہیں۔ یہ خطوط ایک پوری زندگی کا نقشہ سامنے لاتے ہیں۔ ایک پورے عہد کی روداد سناتے ہیں۔ ایک فرد اور ایک معاشرے کے وجود کی ایسی تصویر بناتے ہیں جو آزمائشوں کے ایک لمبے سلسلے سے گزرنے کے بعد مکمل ہوئی۔ ان خطوط کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں زبان وادب کے آرائشی وسیلوں کا استعمال کم سے کم کیا گیا ہے۔ ان میں بڑے ادب کا وہ حسن ملتا ہے جو ادبیت کا محتاج نہیں ہوتا۔ گویا کہ خطوط کے واسطے سے غالب کی نثر کا مطالعہ صرف زبان وبیان اوراسلوب کامطالعہ نہیں ہے۔ شاعر غالب کی نظر میں معنی آٖفرینی کا جو بھی معیار رہا ہو، نثر نگار غالب کی دلچسپی خیالوں سے اتنی نہیں جتنی کہ انسانوں سے ہے۔
انسانوں سے دلچسپی اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ نثرنگار غالب کو اپنے پیرایہ بیان میں بھی سب سے زیادہ تلاش جن عناصر کی رہتی ہے، وہ ادبی اور فنی عناصر نہیں بلکہ انسانی عناصر ہیں۔ شخصی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر، ان خطوں میں انسانی زندگی کے سیکڑوں مظاہر بکھرے پڑے ہیں۔ یہ ایک پورے عہد، ایک پورے انسان، ایک پوری روایت کی ہاؤ ہو کا نقشہ ہے۔ ان خطوں میں ہم غالب کے سوانح پڑھتے ہیں، ان کے عہد کی معاشرتی، سیاسی، تہذیبی تاریخ پڑھتے ہیں، پھر تاریخ کو بھول جاتے ہیں، مگر جس فرد نے اور جس معاشرے نے تاریخ کے اس تجربے کا بوجھ اٹھایا ہے، یہ سارے عذاب جھیلے ہیں، اس تمام انسانی صورت حال کے پس پشت جو اجتماعی اور انفرادی روح کام کررہی ہے، اسے ہم اپنے سامنے موجود پاتے ہیں اور اس کی آنچ پوری طرح محسوس کرتے ہیں۔
غالب کہتے ہیں، ’’میں نے آئین نامہ نگاری چھوڑ کر مطلب نویسی پر مدار رکھا ہے۔ جب مطلب ضروری التحریر نہ ہو تو کیا لکھوں۔‘‘ (بنام قاضی عبد الجمیل جنون) گویا کہ نامہ نگاری انسانی تعلقات کی تفہیم اور توسیع کا ایک وسیلہ ہے۔ اس کا مقصد نہ تو زبان دانی کا اظہار ہے، نہ لسانی کرتبوں میں کسی طرح کی مہارت کا اظہار۔ یہ ایک زندہ اسلوب میں ایک زندہ شخصیت اور ایک زندہ معاشرے کی تصویریں ہیں، روز مرہ زندگی کے رنگوں میں نہائی ہوئی، انسانی تجربوں کی تابناکی، ارتعاش اور حرارت سے معمور۔ یہ شخصیت کا بےریا اور بیباکانہ اظہار ہے، ہر طرح کے تصنع، احتیاط، مصلحت سے عاری۔
اپنی شاعری کے وسیلے سے غالب مغل اشرافیہ کی ایک علامت کے طور پر ابھرے تھے۔ ان کی نثر ہندی مسلمانوں کے طرز احساس کا مرقع بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ طرز احساس دنیا کی دو بڑی تہذیبوں، ہندو اور مسلمان کے باہمی ارتباط کانتیجہ ہے اور اس پر عربی، ایرانی، ترکی روایات کے ساتھ ساتھ ہندی روایات کا سایہ بھی بہت گہرا ہے۔ غالب کی شاعری میں اپنی تمام تر آفاقیت اور وسعت کے باوجود ایک سوچی سمجھی علاحدگی پسندی کارنگ بھی جھلکتا ہے،
مقامی اور ارضی حقیقتوں کے رنگ سے مختلف۔ مگر غالب کے خطوط سے جو شخصیت ابھرتی ہے اور جو ماحول نمودار ہوتا ہے، اس سے عام ہندو مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے منظر یے مرتب ہوتے ہیں۔ اس منظر یے میں امتیاز سے زیادہ امتزاج پر زور ہے اور یہی امتزاج خطوط کے واسطے سے غالب کی انفرادیت کا تعین کرتا ہے۔ اس انفرادیت کا سب سے نمایاں پہلو اس کے انسانی رابطے، حوالے اور وہ انسانی عنصر ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض اور نکات کی نشاندہی ضروری ہے۔
(۱) غالب کی شاعری فکری رفعت وجلال کا اور ان کی نثر ایک نرم آثار انسانی سروکار کا تاثر قائم کرتی ہے۔ انسانی صداقتوں کا ادراک غالب کی نثر میں بہت پر کشش معروضی حوالوں کے ساتھ ہوا ہے۔
(۲) غالب کی شاعری اورنثر دونوں مل کر ایک مکمل منظر نامہ ترتیب دیتے ہیں، نظم کو نثر سے الگ کرکے معنی کے ایک منطقے تک ہم پہنچ تو جاتے ہیں، مگر یہ منطقہ ادھورا ہی رہتا ہے۔
(۳) غالب کی نثر ایک فرد کی ترجمان ہوتے ہوئے بھی ایک پورے عہد اور ایک معاشرے کی آواز ہے۔ اس کی لفظیات، لہجے، اسالیب ہمیں عام معاشرے کی حسیات سے روشناس کراتے ہیں۔
(۴) اس نثر میں یگانگت کا عنصر نمایاں ہے۔ ہم اسے پڑھتے وقت غالب سے مرعوب نہیں ہوتے، عام انسانی سطح اور غالب کی انسانی سطح کے درمیان فورا ایک ربط ڈھونڈ نکالتے ہیں۔
(۵) غالب کی نثر ایک جمہوری مزاج اور ذائقہ رکھتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میرامن کے بعد انیسویں صدی کے کسی دوسرے نثر نگار کے یہاں زبان اور زندگی کے معمولات میں چھپی ہوئی عظمت کا ایسا ادراک نہیں ملتا جیسا کہ غالب کے یہاں۔
(۶) میرامن کی طرح غالب کی نثر کا رشتہ بھی زمین سے بہت گہرا ہے۔ ہر تخیلی صداقت یہاں زمینی صداقتوں کی تابع دکھائی دیتی ہے۔ عام انسانی تجربوں سے اس حد تک مالا مال دنیا ہمیں صرف فکشن لکھنے والوں کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ پنشن کے قضیے سے متعلق خطوں میں غالب نے جس طرح دفتری اور سرکاری سطح کی تفصیلات کا بیان کیاہے، یا اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی ابتری، بدنظمی اور بے ہمتی کا جو نقشہ کھینچا ہے، اہل محلہ، اہل شہر، اہل دربار، اہل بازار، لال قلعہ سے چاندنی چوک تک کے تماشے کی جو تصویریں لفظوں میں پیش کی ہیں، دوستوں، دشمنوں، عزیزوں، شاگردوں سے تعلق کی جو روداد سنائی ہے، ہر طرح کی کیفیتوں اور جذبوں، افسردگی اور ملال، دہشت اور اضطراب کے جو مرقعے ترتیب دیے ہیں، چھوٹے چھوٹے غموں اور خوشیوں کا جو بیان کیا ہے، ان کے حوالے سے ہم غالب اور ان کے عہد کے علاوہ خود اپنی زندگی اور اپنے زمانے کی بہت سی حقیقتوں سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ کچھ اقتباسات بھی دیکھتے چلیں،
’’دھوپ میں بیٹھا ہوں۔ یوسف علی خاں اور لالہ ہیرا سنگھ بیٹھے ہیں، کھانا تیار ہے۔ خط لکھ کر بند کر کے، آدمی کو دوں گا اور میں گھر جاؤں گا اور وہاں ایک دالان میں دھوپ ہوتی ہے، اس میں بیٹھوں گا، ہاتھ منھ دھوؤں گا، ایک روٹی کا پھلکا، سالن میں بھگو کر کھاؤں گا، بیسن سے ہاتھ دھوؤں گا، باہر آؤں گا۔ پھر اس کے بعد خدا جانے کون آئےگا، کیا صحبت ہوگی ؟‘‘
’’برسات کا حال نہ پوچھو۔ خدا کا قہر ہے۔ قاسم جان کی گلی سعادت خاں کی نہر ہے۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں، عالم بیگ خاں کے کٹرے کی طرف کا دروازہ گر گیا۔ مسجد کی طرف کے دالان کو جاتے ہوئے جو دروازہ تھا گر گیا۔ سیڑھیاں گراچاہتی ہیں۔‘‘ (بنام میر مہدی مجروح)
’’اے میری جان، یہ وہ دلی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے ہو، یہ وہ دلی نہیں جس میں تم نے علم تحصیل کیا ہے۔ وہ دلی نہیں ہے جس میں تم شعبان بیگ کی حویلی میں مجھ سے پڑھنے آتے تھے۔ یہ وہ دلی نہیں ہے جس میں سات برس کی عمر سے آتا جاتا ہوں، وہ دلی نہیں جس میں اکیاون برس سے مقیم ہوں۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان، اہل حرفہ، یا حکام کے شاگرد پیشہ باقی سراسر ہنود۔‘‘ (بنام علاء الدین خاں علائی)
’’تنخواہ کی سنو، تین برس کے دوہزار دو سو پچاس ہوئے۔ سو مد خرچ کے جو پائے تھے وہ کٹ گئے۔ ڈیڑھ سو متفرقات میں اٹھ گئے۔ مختار کا ر دو ہزار لایا۔ چونکہ میں اس کا قرض دار ہوں، روپیے اس نے اپنے گھر میں رکھے اور مجھ سے کہا میرا حساب کیجیے۔ حساب کیا۔
سود مول سات کم پندرہ سو روپیے ہوئے۔ میں نے کہا، میرے قرض متفرق کا حساب کر۔ کچھ اوپر گیارہ سو روپیے نکلے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ گیارہ سو روپیے بانٹ دے۔ نو سو بچے۔ آدھے تو لے، آدھے مجھے دے۔ وہ کہتا ہے پندرہ سو مجھے دو۔ پان سات سوتم لو۔ یہ جھگڑا مٹ جائےگا تب کچھ ہاتھ آئےگا۔‘‘
’’میرے حالات سراسر میرے خلاف طبیعت ہیں۔ میں تو یہ چاہتاہوں کہ چلتا پھرتا رہوں۔ مہینہ بھر وہاں اور دو مہینے وہاں اور صورت یہ کہ گویا مشکیں بندھا پڑا ہوں کہ ہرگز جنبش نہیں کر سکتا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ کاغذ تمام ہو گیا اور ہنوز باتیں بہت باقی ہیں۔‘‘ (بنام منشی نبی بخش حقیر)
’’میاں میں بڑی مصیبت میں ہوں، محل سرا کی دیوار یں گرگئی ہیں، پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیس ٹپک رہی ہیں۔ تمہاری پھوپھی کہتی ہیں ہائے دبی، ہائے مری۔ دیوان خانے کا حال محل سرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ فقدان رحمت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے۔ ابر دو گھنٹے بر سے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔‘‘ (بنام علاالدین خاں علائی)
’’گرمی کا حال کیا پوچھتے ہو۔اس ساٹھ برس میں یہ لو اور یہ دھوپ اور یہ تپش نہیں دیکھی۔چھٹی ساتویں رمضان کو مینھ خوب برسا۔ ایسا مینھ جیٹھ کے مہینے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب مینھ کھل گیا ہے۔ ابر گھرا رہتا ہے۔ ہوا اگر چلتی ہے تو گرم نہیں ہوتی اور اگر رک جاتی ہے تو قیامت آتی ہے۔ دھوپ بہت تیز ہے۔‘‘ (بنام منشی نبی بخش حقیر)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خط نہیں بلکہ کسی سلسلہ وار انسانی تماشے کا منظرنامہ ہے۔ غالب کی نظر ہر تجربے، ہر کیفیت، ہر واقعے، ہر صورت حال کی تما م جزئیات تک پہنچتی ہے۔ اور ان کا بیان بھی وہ اس طرح کرتے ہیں جیسے قصہ سنارہے ہوں، وہ بھی اس طرح کہ دوسرے کو اپنے تجربے میں شریک کرنا چاہتے ہوں۔ یہ ایک گہرا وجودی رویہ ہے جس میں غالب کی ہستی ہر تجربے تک رسائی کا، ہر حقیقت کے ادراک کا بنیادی حوالہ بن کر سامنے آتی ہے۔ آگہی ہو یا غفلت، جو بھی ہواپنی ہستی سے ہو اور واضح رہے کہ یہاں بھی سارا دھیان اپنی ہستی پر ہے، اس میں چھپے ہوئے امکانات پر نہیں۔ تفتہ کو لکھتے ہیں،
’’تم مشق سخن کر رہے ہو اور میں مشق فنا میں مستغرق ہوں۔ بو علی سینا کے علم اور نظیری کے شعر کو ضائع اور بے فائدہ اور موہوم جانتا ہوں۔ زیست بسر کرنے کو کچھ تھوڑی سی راحت درکار ہے اور باقی حکمت اور سلطنت اور شاعری اور ساحری سب خرافات ہے۔ ہندوؤں میں اگر کوئی اوتار ہوا تو کیا اور مسلمانوں میں نبی بنا تو کیا۔ دنیا میں نام آور ہوئے تو کیا اور گمنام جئے تو کیا۔ کچھ وجہ معاش ہو اور کچھ صحت جسمانی، باقی سب وہم ہے، اے یار جانی،ہر چند وہ بھی وہم ہے، مگر میں ابھی اسی پائے پر ہوں۔ شاید آگے بڑھ کر یہ پردہ بھی اٹھ جائے اور وجہ معیشت و راحت سے بھی گزر جاؤں۔ عالم بے رنگی میں گزر پاؤں، جس سناٹے میں ہوں وہاں تمام عالم بلکہ دونوں عالم کا پتا نہیں۔ ہر کسی کا جواب مطابق سوال کے دیے جاتا ہوں۔‘‘
یہ روداد اپنی بھلی بری صورت حال کی ہے۔ اس کے اسباب کی طرف یا اس میں مخفی کسی طبیعی یا خیالی یا جذباتی امکان کی طرف، غالب سرے سے توجہ نہیں دیتے۔ اور یہی وہ عام، سچی، کھری انسانی سطح ہے جس پر وہ دوسرے انسانوں سے رابطہ استوار کرتے ہیں۔ صورت حال کے اس سلسلے کو، جو غالب کی نثر کے توسط سے ہمارے سامنے آیا ہے، ہمیں وقوعوں کی یکے بعد دیگرے بدلتی ہوئی تصویروں یا Happenings کے ایک Sequence کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ان میں کوئی رنگ اختراعی یا فرضی نہیں۔ کوئی لکیر، کوئی نقطہ زبردستی کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے۔ غالب جس طرح جس صورت حال سے گزرتے ہیں، اس صورت حال کا مشاہدہ اپنے احساسات کی معیت میں جس جس طرح کرتے ہیں، اسے بے کم و کاست اپنے بیان میں پرو تے چلے جاتے ہیں،
’’صاحب، ہم تمہارے اخبار نویس ہیں اور تم کو خبر دیتے ہیں کہ برخوردار میر بادشاہ آئے ہیں۔‘‘ (بنام تفتہ)
’’میاں لڑکے، کہاں پھر رہے ہو، ادھر آؤ، خبریں سنو!‘‘ (بنام میر مہدی مجروح)
’’سنو، اب تمہاری دل کی باتیں ہیں۔‘‘ (بنام مجروح)
’’میری جان، سنو داستان۔‘‘ (بنام مجروح)
’’صاحب، میری داستان سنیے۔‘‘ (بنام علائی)
’’میری جان، غالب کثیر المطالب کی کہانی سن، میں اگلے زمانے کا آدمی ہوں۔‘‘ (بنام علائی)
’’آؤمرزاتفتہ، میرے گلے لگ جاؤ، بیٹھو اور میری حقیقت سنو۔‘‘ (بنام تفتہ)
’’سنو میاں، میرے ہم وطن یعنی ہندی لوگ جو وادئ فارسی میں دم مارتے ہیں وہ اپنے قیاس کو دخل دے کر ضوابط ایجاد کرتے ہیں۔‘‘ (بنام تفتہ)
’’بھائی، میرا ذکر سنو۔‘‘ (بنام حکیم نجف خاں)
اور پھر غالب کے یہ بیانات، اپنے خطوں کے اسلوب کی بابت، ’’میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مرا سلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔‘‘ (بنام مرزا حاتم علی مہر)
’’اب میں حضرت سے باتیں کر چکا۔‘‘ (بنام انور الدولہ شفق)
’’یہ خط لکھنا نہیں ہے، باتیں کرنی ہیں۔‘‘ (بنام شفق)
صاحب، میاں لڑکے سنو، میری جان، سنو داستان، آؤمرزا تفتہ، سنو میاں، بھائی میرا ذکر سنو۔ گویا کہ غالب مسلسل سنائے جانا چاہتا ہیں۔ گزشتہ کو موجود، غائب کو حاضر مان کر اپنی سی کہے جاتے ہیں۔ اس طرز تخاطب میں ایک تو یہ کہ اپنائیت بہت ہے۔ دوسرے یہ کہ میاں، صاحب، سنو، آؤ اور اس طرح کے بہ ظاہر غیر ضروری لفظوں کی جادوئی چھڑی گھماتے ہی غالب کی نثر پڑھنے والے کو فوراً اپنے اعتماد میں لے لیتی ہے۔ یہاں دو اور نکتوں کی طرف توجہ مفید ہوگی۔ ایک تو یہ کہ میرامن کے بعد، غالب کی شخصیت انیسویں صدی کی دلی کے سب سے بڑے قصہ گو کی صورت ابھرتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں میرا اشارہ تقریری زبان یا قصے کی حکائی روایت کی طرف ہے۔ یہ عناصر ہمیں یا تو میرا من کے یہاں ملتے ہیں یا پھر غالب کے بعد، بہت آگے چل کر محمد حسین آزاد کے یہاں۔ مگر غالب کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کے بیان میں یہ زاویہ نکالاہے۔ غالب یا ان کے عہد کے دوسرے انسانوں کی طرح شہر دلی بھی دکھ سکھ کے کیسے کیسے موسموں سے گزرتاہوا، غالب کی نثر میں اپنا عکس چھوڑتا جاتا ہے۔
’’صاحب، تم جانتے ہو کہ یہ معاملہ کیا ہے اور کیا واقع ہوا؟ وہ ایک جنم تھا کہ جس میں ہم تم باہم دوست تھے اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت درپیش آئے۔ شعر کہے، دیوان جمع کیے۔ اسی زمانے میں ایک اور بزرگ تھے کہ وہ ہمارے تمہارے دوست تھے اور منشی نبی بخش ان کانام اور حقیر تخلص تھا۔ ناگاہ نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ اشخاص، نہ وہ معاملات، نہ وہ اختلاط، نہ وہ انبساط۔۔۔‘‘ (بنام تفتہ)
’’ناتوانی زور پر ہے۔ بڑھاپے نے نکما کر دیا ہے۔ ضعف، سستی، کاہلی، گرانجانی، رکاب میں پاؤں ہے۔ باگ پر ہاتھ ہے۔ بڑا سفرِ دور دراز در پیش ہے۔ زادراہ موجود نہیں۔ خالی ہاتھ جاتا ہوں۔۔۔‘‘ (بنام تفتہ)
’’شہر کی اَمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنر مند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔ جو حکما کا حال کل لکھا ہے وہ بیان واقع ہے۔ صلحا اور زہاد کے باب میں جو حرف مختصر میں نے لکھا ہے، اس کو بھی سچ جانو۔‘‘ (بنام علائی)
یہ ایک کونے میں بیٹھے ہوئے، بازیچہ اطفال کی طرح نیرنگ روزگار کا تماشا دیکھتے ہوئے، تھکے ہوئے، کبھی مطمئن اور مسرور، کبھی دل گرفتہ اور رنجور بوڑھے کی باتیں ہیں اور
اسے ہر حال میں اپنا مخاطب چاہیے جسے وہ اپنے ٹھہرے ہوئے، منظم، مربوط اور سچے سروں میں اپنی آپ بیتی سنا سکے۔ ہندی بھکتوں میں اپنے شردھالوؤں (معتقد ین) سے بات چیت کی وہ جو ایک روایت ملتی ہے، اس کے اسالیب کا بیان اور اظہار کے فن کی روشنی میں بھی تجزیہ کیا جائے تو کچھ دلچسپ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر، رام کرشن پرم ہنس کے ملفوظات کووچن مالا کا نام دیا گیا ہے اوریہاں نہ صرف یہ کہ ایک کہنے والا اور ایک سننے والا ہے، بلکہ دونوں اپنے اپنے طور پر متحرک اور فعال بھی ہیں۔ گویا کہ یہ محض زبانی اظہارات کی رپورٹ نہیں، ایک طرح کی کہنی سننی کا قصہ ہے۔
غالب اکثر مقامات پر سامع کے رد عمل یا اشتراک کو جو اپنی تحریر کا حصہ بنا لیتے ہیں تو بے وجہ ایسا نہیں کرتے۔ ان کا مزاج قصہ نویسی یا ڈرامہ نگاری کے لیے جتنا، موزوں اور مناسب تھا، اس کے پیش نظر حیرت کی بات یہ ہے کہ غالب کو اپنے انتقال سے کچھ پہلے باقاعدہ قصہ لکھنے کا خیال کیوں آیا۔ میر کی طرح غالب بھی وقائع نویسی سے ایک فطری مناسبت رکھتے تھے اور جس طرح اس فن میں پوری اٹھارویں صدی میر کا کوئی جواب پیش کرنے سے قاصر ہے، اسی طرح انیسویں صدی میں ہمیں غالب کا کوئی ہمسر نظر نہیں آیا۔ محمد حسن عسکری نے میرا من کے ذکر میں ایک جگہ لکھا تھا کہ درویش جب اپنی بیتی سناتے ہیں تو لگتا ہے کہ پوراا سمان کہانی سنا رہا ہے۔ اسی طرح غالب اپنی بات شروع کرتے ہی گویا کہ ہمارے سامنے ایک اسٹیج آراستہ کر دیتے ہیں۔ کبھی ایک کردار، کبھی دو کردار،کبھی ایک بھیڑ، پوری بستی، پورا شہر یہاں تک کہ پورا عہد اس اسٹیج پر آن موجود ہوتا ہے،
’’سنو، عالم دو ہیں، ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب وگل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے لمن الملک الیوم ؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے للہ الواحد القھار۔‘‘
’’آٹھویں رجب ۱۲۱۲ھ میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ تیرہ برس حوالات میں رہا۔
۷/ رجب ۱۲۲۵ھ کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی پاؤں میں ڈال دی اور دلی کو زنداں مقرر کیا اور مجھے زنداں میں ڈال دیا۔‘‘
’’سال گزشتہ، بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ کر معہ دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا، میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوا رام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہا تھا کہ پھر پکڑ آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا۔ بھاگوں گا کیا؟ بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔۔۔‘‘ (بنام علائی)
ان لفظوں کو ہم پڑھتے ہی نہیں۔ ان کے پیچھے سے ہمیں ایک خستہ و خراب حال بوڑھے کے ہانپنے کی مسلسل آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ جادو الفاظ کا بھی ہے، الفاظ کو برتنے والے کا بھی اور اس کا پورا تاثر، جسے معنی کا بدل کہنا چاہیے، اسی وقت گرفت میں آتا ہے جب ہم لفظوں سے آگے دیکھنے کا موقع کھوتے نہیں۔ جب ہم غالب کی نثر کا مطالعہ شاعر غالب، شخص غالب اور اس شاعر اور شخص کو عقبی پردہ فراہم کرنے والی کوٹھری یابستی یا شہر یادور کے مجموعی حوالے کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ایک اجڑتے ہوئے معاشرے، ایک بکھرتی ہوئی زندگی، ایک تھکے ہوئے جسم کے ساتھ بھی غالب حلقہ یاراں میں شمع محفل کی طرح روشن اور تابناک رہے۔ یہ ان کی اپنی بشریت کا، علاوہ ازیں انسانی ہستی کی طرف اور کاروبار زیست کی طرف ان کے غیر معمولی رویے کا غیر معمولی اظہار ہے۔
غالب نے اپنے زمانے کے اجتماعی انحطاط کا تذکرہ جابجا، بہت افسردگی کے ساتھ کیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ انہیں گئے دنوں کے آئین حیات کی بے اثری کا بھی احساس تھا۔ ان دونوں کیفیتوں سے مل کر، زندگی کی بابت ایک مستقل کشاکش کے رویے کا ظہور ہوا ہے، اسی لیے غالب کی نثر جہاں اٹھلاتی اور شوخیاں کرتی ہے، وہاں بھی ان کادل محیط گریہ دکھائی دیتا ہے، اور اداسی کے گہرے لمحوں میں بھی اپنے آپ سے ایک سوچی سمجھی جذباتی لاتعلقی ظاہر ہوتی ہے۔
’’یہاں خدا سے بھی توقع نہیں، مخلوق کا کیا ذکر۔ کچھ بن نہیں آتی۔ اپنا آپ تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں۔ یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کر لیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے، کہتا ہوں کہ لو، غالب کے ایک اور جوتی لگی۔۔۔‘‘ (بنام مرزا قربان علی بیگ سالک)
ایسے موقعوں پر غالب کی بذلہ سنجی اور ظرافت بھی پڑھنے والے کے لیے افسردگی کی وہ کیفیت پیداکرتی ہے جسے فراق نے اپنے ایک شعر میں زندگی کی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے ’’سوچ لیں اور اداس ہو جائیں‘‘ کہہ کر ظاہر کیا ہے۔
’’اب میں اور باسٹھ روپے آٹھ آنے کلکٹری کے، سوروپے رام پور کے، قرض دینے والا ایک میرا مختار کار، وہ سود ماہ بہ ماہ لیا چاہے، مول میں قسط اس کو دینی پڑے۔ انکم ٹکس جدا،
چوکیدار جدا، سود جدا، مول جدا، بی بی جدا، بچے جدا، شاگرد پیشہ جدا، آمدوہی ایک سو باسٹھ۔ روز مرہ کا کام بند رہنے لگا۔ سوچا کہ کیا کروں؟کہاں سے گنجائش نکالوں؟ قہر درویش بجان درویش۔ صبح کی تبرید متروک، چاشت کا گوشت ادھار، رات کی شراب وگلاب موقوف، بیس بائیس روپے مہینہ بچا۔ روز مرہ کا خرچ چلا۔ یاروں نے پوچھا تبرید وشراب کب تک نہ پیو گے؟ کہا گیا کہ جب تک وہ نہ پلائیں گے۔ پوچھا کہ نہ پیو گے تو کس طرح جیوگے؟ جواب دیا کہ جس طرح وہ جلائیں گے۔‘‘ (بنام مرزاعلا الدین خاں علائی)
یہ بشریت کے آداب ہیں اور غالب نے انہیں جیسے سخت حالات میں جتنے سلیقے کے ساتھ برتا ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ دل کو موہ لینے والی ادا ہے۔ ایک یار باش آدمی کی اعلا سنجیدگی۔ اس کا تعلق ایک ایسے تہذیبی ماحول سے ہے جہاں زندگی میں واقعات تو ہوتے ہیں، مگر زندگی کی آہستہ خرامی میں فرق نہیں آتا اور ہر صورت حال میں وہ ایک وضع احتیاط کی پابند نظر آتی ہے۔ اسی لیے، اپنی ہزیمتوں اور بیچارگیوں کے باوجود، یہ زندگی اپنے اندر ایک حسن، ایک وقار رکھتی ہے۔ بے شک، غالب کی ہستی پر تلخیوں کا سایہ ہمیشہ قائم رہا اور ان کی زندگی مصائب کی گرفت میں رہی، لیکن خود غالب کی گرفت بھی زندگی پر اتنی ہی مضبوط تھی۔ وہ کہیں ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ایسی ہر صورت حال میں ان کی حقیقت پسندی اور اپنے آپ سے بے نیازی ایک ڈھال بن جاتی ہے۔ اس ڈھال کے بغیر غالب کے شعر میں نہ تو وہ مینا کاری پیدا ہو سکتی تھی اورنہ ہی نثر میں وہ ٹھہراؤ، نرم روی اور نظم و ضبط۔
جس طرح غالب نے حال میں اپنے انہماک کے باوجود اس کی حدیں اتنی پھیلالی تھیں کہ اس میں ان کا ماضی بھی سمویا جا سکے، اسی طرح اپنے وجدان میں بھی انہوں نے اتنی لچک اور اپنے شعور میں اتنی وسعت پیدا کرلی تھی کہ زندگی کی سردوگرم سچائیوں کو ایک سی فراخ دلی کے ساتھ قبول کر سکیں اور اپنے آپ سے بے تعلقی کا بوجھ بھی اٹھا سکیں۔ شب وروز کے جس تماشے کو غالب نے بچوں کا کھیل کہا تھا، اس تماشے میں ان کی اپنی ذات بھی شامل تھی۔ خطوں کی نثر میں بہت مقامات پر بجائے تحریری جملوں کے وہ جو برمحل اور بے ساختہ مکالموں کا انداز پیدا ہو گیا ہے، وہ اس لیے ہے کہ غالب وقائع نویسی اور تماشابینی کے عمل کو ایک دوسرے میں ملا دیتے ہیں۔
’’اسی مہینے میں اپنے آقا کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ وہاں نہ روٹی کی فکر، نہ پانی کی پیاس، نہ جاڑے کی شدت، نہ گرمی کی حدت، نہ حاکم کا خوف، نہ مخبر کا خطرہ، نہ مکان کا کرایہ دینا پڑے، نہ کپڑا بنواؤں، نہ گوشت گھی منگواؤں، نہ روٹی پکواؤں، عالم نور سراسر سرور۔‘‘
نہ نہ نہ کی مستقل تکرار ایک طرف زندگی کا یہ ڈرامہ ترتیب دینے والے کی مکالمہ نویسی کا اظہار ہے، تو دوسری طرف زندگی میں اپنے یقین کی پھسلتی ہوئی ڈور کو سنبھالے رکھنے کی لگاتار کوشش کا اظہار بھی ہے۔ غالب لفظوں کی کاری گری کا استعمال بھی اس مہارت کے ساتھ کرتے ہیں کہ میر انیس کی طر ح صناعی تو پیچھے چلی جاتی ہے، تاثر بڑھ کر سامنے آ جاتا ہے۔۔۔ کچھ مثالیں،
’’یہاں اغنیا کے ازواج و اولاد بھیک مانگتے پھریں اور میں دیکھوں ؟ اس مصیبت کی تاب لانے کو جگر چاہیے! اب خاص اپنادردروتا ہوں۔ ایک بیوی، دو بچے، تین چار آدمی گھر کے۔ کلو،
کلیان، ایاز یہ باہر ہیں۔ مداری کے جو رو بچے بدستور گویا مداری موجود ہے۔ میاں گھمن گئے آگئے، مہینہ بھر سے آگے کہ بھوکا مرتا ہوں۔ اچھا بھائی تم بھی ہو، ایک پیسے کی آمدنی نہیں، بیس آدمی روٹی کھانے کے لیے موجود۔۔۔‘‘
’’اب جو چار کم اسی برس کی عمر ہوئی اور جاناکہ میری زندگی برسوں کیا مہینوں کی نہ رہی۔ شاید بارہ مہینے جس کو ایک برس کہتے ہیں، اور جیوں۔ ورنہ دو چار مہینے، پانچ سات ہفتے، دس بیس دن کی بات رہ گئی ہے۔‘‘
مزید آگے لے جانے والے۔۔۔ سر سید، نذیر احمد، آزاد، حالی، شبلی سب موجود تھے۔ البتہ حقیقت کو کہانی بنانے اور روز مرہ زندگی کی واردات کو ایک گھنے گنجان انسانی تماشے کی
سطح تک لے جانے کی استعداد کے معاملے میں غالب اپنے عہد کے سب سے بڑے نثر نگار تھے۔
(بحوالہ : غالب کی تخلیقی حسیت۔ شمیم حنفی۔ غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی۔ )
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page