میر اور غالب کا نام ایک ساتھ ذہن میں جو آتا ہے تو صرف اس لیے نہیں کہ دونوں نے اپنے اظہار کے لئے شعر کی ایک ہی صنف کو اولیت دی یایہ کہ دونوں کا تعلق ادب اور تہذیب کی اس روایت سے تھا جو زمانے کے فرق کے ساتھ ہماری اجتماعی زندگی کے ایک ہی مرکز یعنی دلی میں مرتب ہوئی۔ شخصیتوں، تخلیقی رویوں اور طبیعتوں کے زبردست فرق کے باوجود کئی حوالوں سے دونوں میں اشتراک کے متعدد پہلو بھی نکلتے ہیں۔ مگر اس تفصیل میں جانے سے پہلے کچھ حقائق پر نظر ڈال لی جائے۔
یادگار غالب میں حالی نے غالب کے واسطے سے میر کا بس مختصر سا ذکر کیا ہے، ان لفظوں میں کہ، ’’جس روش پر مرزا نے ابتدا میں اردو شعر کہنا شروع کیا تھا، قطع نظر اس کے کہ اس زمانے کا کلام خود ہمارے پاس موجود ہے، اس روش کا اندازہ اس حکایت سے بخوبی ہوتا ہے۔ خود مرزا کی زبانی سنایا گیا کہ میر تقی نے جو مرزا کے ہم وطن تھے، ان کے لڑکپن کے اشعار سن کر یہ کہا تھا کہ اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سیدھے راستے پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔‘‘
یاد گار غالب کے اس صفحے پر (۱۰۹) جہاں یہ عبارت درج ہے، حالی نے اس پر یہ حاشیہ بھی لگا یا ہے کہ، ’’مرزا کی ولادت ۱۲۱۲ھ میں ہوئی ہے اور میر کی وفات ۱۲۲۵ھ میں واقع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرزا کی عمر میر کی وفات کے وقت تیرہ چودہ برس کی تھی۔ مرزا کے اشعار ان کے بچپن کے دوست نواب حسام الدین حیدر خاں مرحوم والد ناظر حسین مرزا صاحب نے میر تقی کو دکھائے تھے۔ (یادگار غالب۱۸۹۷، ایڈیشن اشاعت ۱۹۸۶، غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی)
مولانا غلام رسول مہر نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان، ’’مرزا غالب اور میر تقی‘‘ (مطبوعہ ماہ نو، کراچی فروری ۱۹۴۹) میں میر اور غالب کے تعلق سے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مختلف دلیلوں کی بنیاد پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ یاد گار غالب میں حالی نے جو حکایت بیان کی ہے، درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ،
(۱) حالی نے اس روایت کی سند کے سلسلے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حالی نے یہ روایت بلا واسطہ غالب سے نہیں سنی بلکہ کسی اور نے اسے بیان کیا تھا۔
(۲) مولانا مہر نے اس مضمون میں یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ ایک مرتبہ اپنے شبہات کا اظہار انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کے سامنے بھی کیا تھا اور آزاد نے اس پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ ’’غالب کی قدرتی استعداد اور مناسبت کے پیش نظر ممکن ہے کہ غالب نے گیارہ برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا ہو اور ندرت و غرابت کی وجہ سے لوگوں میں اس بات کا چرچا ہونے لگا ہو، حتی کہ کسی نے یہ تذکرہ میر صاحب تک پہنچا دیا ہو۔‘‘ لیکن مہر کا شک اس روایت کی صحت میں بہر حال باقی رہا۔ کہتے ہیں،
’’مجھے تعجب اس بات پر نہیں کہ غالب نے گیارہ برس کی عمر میں شاعری شروع کی۔ تعجب اس بات پر تھا اور ہے کہ گیارہ برس کی عمر کے لڑکے کے شعر آگرہ سے میرتقی میر کے پاس لکھنؤ کیوں کر پہنچے؟ اس کے متعلق میر جیسے کہنہ مشق اور کہن سال استاد سے رائے لینے کی ضرورت کسے محسوس ہوئی؟ کیوں محسوس ہوئی؟ آگرہ میں ایسا کون تھا جس نے غالب کے طبعی جوہروں کا اندازہ بالکل ابتدائی دور میں کر لیا تھا۔ پھر مزید اطمینان کی غرض سے اس معاملے پر میر سے مہر تصدیق ثبت کرانا ضروری سمجھا گیا؟‘‘ (ماہ نو، چالیس سالہ مخزن، جلد اول، اشاعت ۱۹۸۷، ادارہ مطبوعات پاکستان، لاہور)
(۳) مولانا مہر کا خیال ہے کہ ’’اگر میر تقی میر اور مرزا ایک شہر میں مقیم ہوتے تو بھی اس حالت میں میر صاحب کی ’’بددماغی‘‘ یا تنک دماغی‘‘ کے پیش نظر، اس قسم کا واقعہ تعجب انگیز سمجھا جاتا، کیونکہ میر بڑے بڑے شاعروں بلکہ امیروں اور رئیسوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ یہ کیونکر ممکن تھا کہ نوے برس کی عمر میں گیارہ برس کے بچے کے شعر دیکھتے اور ان پررائے زنی کرتے۔‘‘
(۴) میر اور غالب کی نسبت سے اس حکایت میں مولانا مہر کے شک کو تقویت اس واقعے سے بھی ملتی ہے کہ ’’میر عمر کے آخری حصے میں ضعف اور بعض دوسرے امراض مزمنہ میں مبتلا ہو گئے تھے۔ میل جول اور خلا ملا سے متنفر تو پہلے ہی تھے، امراض کی شدت گرفت نے انہیں بالکل گوشہ نشیں بنا دیا۔ وفات سے تین برس پیشتر ان کی صاحب زادی کا انتقال ہو گیا۔ اگلے برس ایک صاحب زادہ فوت ہو گیا۔ اس سے اگلے سال اہلیہ داغ مفارقت دے گئی۔ ان صدموں کے باعث ان کے حواس میں فتور آ گیا تھا۔‘‘
غرض جس بزرگ کی زندگی کے آخری دو تین برس وارفتگئی حواس اور ہجوم امراض میں گزرے اس کے متعلق یہ روایت کیونکر قابل یقین ہو سکتی ہے کہ آگرہ سے گیارہ بارہ برس کے بچے کے اشعار اس کے ملاحظہ کے لیے لکھنؤ بھیجے گئے۔ اس نے اشعار دیکھے اور یہ رائے ظاہر کی کہ، ’’اگر اس بچے کو کامل استاد مل جائےگا اور سیدھے راستے پر ڈال دےگا تو لاجواب شاعر بن جائےگا ورنہ مہمل بکےگا۔‘‘
مالک رام نے ذکر غالب میں اس روایت کو قرین قیاس ٹھہرایا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ’’اس نہایت ابتدائی زمانے میں بھی ایسے ارباب نظر کی کمی نہیں تھی جو مرزا کے کلام کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتے اور اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ بطور تحفہ لے جانے کے قابل سمجھتے تھے۔‘‘ مالک رام کا خیال ہے کہ ’’غالب کے بارے میں مشہور اس فقرے پر بھی میر کی مخصوص چھاپ لگی ہوئی ہے۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب۔
مجھے اس روایت کے صحیح یا غلط ہونے سے زیادہ سروکار اس مسئلے سے ہے کہ میر اور غالب کی شاعری کے رنگ اور آہنگ میں نمایاں فرق کے باوجود وہ عناصر کون سے ہیں جو ایک کو دوسرے سے قریب کرتے ہیں۔ میر نے غالب کے متعلق جو کچھ بھی رائے قائم کی ہو یا نہ کی ہو، مگر ایک بات طے ہے کہ خود غالب، میر کی شاعری اور ان کی استادی کے بہر حال قائل تھے۔ یہ دو شعر،
ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اور
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بہ قول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرنہیں
نہ صرف یہ کہ میر اور غالب کے ناموں کو ایک لڑی میں پروتے ہیں، ان سے غالب کے وجدان کی لچک اور شعور کے پھیلاؤ کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر غالب سند کے طور پر ناسخ کو بھی بیچ میں لاتے ہیں۔ گویا کہ میر کی شاعری میں غالب کو تخلیقی تجربے کی جن بلندیوں کا سراغ ملتا ہے، ان کی داد ایسے اصحاب بھی دے سکتے ہیں جو میر کے شاعرانہ وجدان سے زیادہ مناسبت نہ رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ غالب نے ناسخ کے کمالات کا قائل ہونے کے باوجود ناسخ کا رنگ سخن اختیار نہیں کیا۔ غالب تک غزل کی جو روایت پہنچی تھی اس کے حساب سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اپنے پیش روؤں میں بہ شمول ناسخ سب کو عبور کرتے ہوئے، غالب سیدھے میر تک گئے۔ اپنے ایک اور شعر میں غالب نے کہا تھا۔
میر کے شعر کا احوال کہوں کیا غالب
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں
یعنی کہ میر کا دیوان غالب کے لیے حسن کے وفور اور وقار، تخیل کی عظمت اور زرخیزی، جذبوں کے تنوع اور رنگارنگی کاایک غیر معمولی مرقع تھا۔ اردو کی شعری روایت میں واحد شخصیت میر کی ہے جو غالب کے لیے ایک مثال، ایک موڈل (modal)، ایک آدرش کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ناصر کاظمی نے اپنے معروف مضمون بہ عنوان’’میر ہمارے عہد میں‘‘ (مشمولہ، خشک چشمے کے کنارے، اشاعت ۱۹۸۲ میں ص ۸تا۱۲۰) میں کہا تھا، ’’اردو شاعری پر میر کی شاعری کے اثرات بڑے گہرے اور دور رس ہیں۔ ان کے بعد آنے والے سبھی کاملان فن نے ان سے تھوڑا بہت فیض ضرور اٹھایا ہے مگر ان کی تقلید کسی کوراس نہیں آئی۔ غالب ہی ایک ایسا شاعر ہے جس نے میر سے بڑی کاری گری اور کامیابی سے رنگ لیا اور ایک الگ عمارت بنائی، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ میر صاحب کا پہلا تخلیقی طالب علم غالب ہی ہے۔‘‘
تو کیا واقعی غالب نے میر کی تقلید کی؟ شاید نہیں۔ دونوں کے فکری مناسبات، تجربوں کی منطق اور اظہار کے طور طریق میں بہت فرق ہے۔ قائل تو غالب، ناسخ کے بھی رہے ہوں گے ورنہ میر کے سلسلے میں ناسخ کو حوالہ نہ بناتے۔ لیکن ناسخ اور غالب کی تخلیقی شخصیت کے عناصر میں، ناسخ کی بابت افتخار جالب اور شمس الرحمن فاروقی کی بعض تعبیرات کے باوجود اختلاف اتنا ہے کہ ناسخ کارنگ غالب کو راس نہیں آ سکتا تھا۔ ناسخ ہماری شعری تاریخ کے معمار ہیں۔ شعری روایت کے نہیں۔ چنانچہ اپنی روایت کے سہارے ماضی میں چاہے جتنی دور تک کا سفر کیا جائے، ناسخ پر نگاہ تو ٹھہرتی ہے، لیکن روایت کے مرکزی سلسلے سے وہ الگ، بلکہ لاتعلق سے دکھائی دیتے ہیں۔ (یہ بھی پڑھیں نئی غزل کی روایت – پروفیسر شمیم حنفی )
ولی، سراج، سودا، درد، قائم، مصحفی، آتش، یہاں تک کہ ذوق، ظفر اور مومن کے نام اس سلسلے سے منسلک ہوتے جاتے ہیں، جس کی روشن ترین کڑی غالب کی شاعری ہے۔ مگر ہم غالب کے ساتھ ان سے پہلے کے ناموروں میں تفصیل کے ساتھ نظر صرف میر پر ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی کچھ نمایاں وجہیں ہیں جن میں سے ایک کی طرف اشارہ ناصر کاظمی کے اس اقتباس میں موجود ہے کہ غالب نے میر سے استفادہ تو کیا، تاہم اپنی الگ عمارت کھڑی کی۔ میر اور غالب کی غزل میں فرق کی نشاندہی ناصر کاظمی نے ایک مضمون (عنوان، غالب، مشمولہ خشک چشمے کے کنارے) میں اس طرح کی ہے کہ،
’’میر جذبات کے شاعر ہیں اور فکر و خیال کو بھی جذبات بناکر اشعار کا روپ دیتے ہیں۔ لیکن غالب کی شاعری میں فکری عنصر غالب ہے۔ وہ ہر بات کو پیچ دے کر کہتا ہے۔ اس کے کلام کا حسن یہی ہے کہ وہ پرانے الفاظ اور پرانے خیالات کو بھی نئے انداز کے ساتھ پیش کرتا ہے لیکن اس طرح کہ سننے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ بات تو اس کے دل میں بھی مدت سے اظہار کے لیے بے قرار تھی لیکن وہ اسے لفظوں کی شکل نہیں دے سکا۔‘‘
اس مضمون میں ناصر کاظمی نے ایک اور توجہ طلب بات بھی کہی ہے، کہ ’’غالب کائنات کی ہر چیز اور زندگی کے ہر مسئلے کے بارے میں محض جذباتی انداز سے نہیں سوچتا۔ اس کا آشوب لاعلمی یا محض جذبات سے پیدا ہونے والا آشوب نہیں ہے۔ بلکہ شعور اور آگہی کا آشوب ہے اور یہ آشوب ہمارے عہد کے انسان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔‘‘ قطع نظر اس کے کہ خود غالب نے دل کے پیچ و تاب کو نصیب خاطر آگاہ (پیچ و تاب دل نصیب خاطر آگاہ ہے ) قرار دیا تھا اور غفلت شعاری کو وسیلہ آسائش (رشک ہے آسائش ارباب غفلت پر اسد) بتایا تھا، شاعری میں جذبے اور شعور کی معنویت کا مسئلہ آسان نہیں ہے۔ چنانچہ میر اور غالب کے بارے میں بھی ایک عام تصور جوقائم کر لیا گیا ہے کہ میر جذبات کے شاعر ہیں، غالب شعور، تعقل یا آگہی کے شاعر ہیں، اس تصور کی بنیاد پر کئی غلط فہمیاں رواج پاگئی ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی نے نئی غزل پر اپنے مضمون (مشمولہ، لفظ و معنی) میں نئی غزل کے بنیادی اسالیب کی شناخت متعین کرتے ہوئے سودا کے اسلوب کو منطقی اسلوب کا نام دیا تھا۔ سودا کے اسلوب کی صلابت کے فیض صاحب بھی بہت قائل تھے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ سودا کے مقابلے میں میر کا اسلوب اپنی انفعالیت، دھیمے پن، حزنیہ آہنگ اور جذباتیت سے پہچانا جاتا ہے اور تعقل کے عناصر سے عاری ہے، درست نہیں ہوگا۔ غالب کی شاعری اپنے تصورات اور تفکر سے زیادہ پرکشش اپنے اس طلسم کے باعث بنتی ہے جو معنی کی تکثیر سے پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر بڑے شاعر کی طرح میر کی شاعری بھی معنی کی کثرت کا تاثر قائم کرتی ہے۔ اس کثرت کو صدمہ پہنچتا ہے اکہرے تعقل اور اکہرے جذبات سے۔ اس سطح پر میر اور غالب دونوں اردو غزل کی روایت بنانے والے دوسرے شعرا سے ممتاز یوں نظر آتے ہیں کہ دونوں نے اوپر سے کسی بڑے صفتی تغیر کا بوجھ اٹھائے بغیر غزل کی ماہیت میں غیر معمولی وسعت پیدا کی۔
میر اور غالب کے فرق کا ذکر کرتے ہوئے عسکری صاحب نے کہا تھا (مضمون غالب کی انفرادیت، مشمولہ تخلیقی عمل اور اسلوب) کہ ’’میر عام زندگی کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتے ہیں، غالب اسے اپنے اندر سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی غالب روحانی بلندی کا صرف ایک ہی تصور کرسکتے ہیں کہ تعینات کو نیچے چھوڑ کر اوپر اٹھیں۔ میر انہی تعینات میں رہ کر اور ان تعینات کی تہہ میں جاکر وہ روحانی درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ میر اور غالب کی کسی قدر دوراز کارتعبیر ہے۔ عام زندگی کی طرف دونوں کے رویے، دونوں کے انسان دوستانہ مشرب کی وسعت کے باوجود انتخابی تھے۔ نہ تو میر ہجوم میں گم ہونا چاہتے تھے، نہ غالب۔ یہ مرتبہ تو کسی نہ کسی حد تک میرا ور غالب کے عصر سے قرابت کا رشتہ رکھنے والوں میں نظیر اکبر آبادی ہی کو حاصل ہوسکا کہ انہوں نے زبان، بیان، لہجے، تجربے، احساس اور ادراک کے لحاظ سے اردو کی شعری روایت کو ایک واضح جمہوری مزاج عطا کرنے کی کوشش کی۔
جہاں تک میر اور غالب کا تعلق ہے، ان دونوں کی شاعری انسانی اوصاف اور عناصر سے مالا مال ہونے کے باوجود ایک اختصاصی سطح رکھتی تھی اور یہ دونوں روش عام اختیار کرنے سے گریزاں تھے۔ فراق صاحب نے ذوق کو ’’پنچایتی شاعر‘‘ یوں کہا تھا کہ ذوق کی شاعری میں ان کے وجدان اور تخلیقی تجربے کی سطح، زبان پر ان کی ماہرانہ گرفت اور فکری طمطراق کے باوجود بہر حال ایک عمومی حد سے آگے نہیں جاتی۔ مگر میر کا یہ کہناکہ ’’شعر میرے ہیں گو خواص پسند‘‘ یا غالب کا یہ کہنا کہ آگہی سماعت کے جال چاہے جتنے بچھالے ان کے مدعا کا گرفت میں آنا ممکن نہیں، ایک تہہ در تہہ اور پیچیدہ تخلیقی تجربے تک رسائی کا پتہ دیتے ہیں۔ وقت کے دو الگ الگ منطقوں سے متعلق ہونے اور ایک دوسرے سے خاصا مختلف تہذیبی اور سوانحی پس منظر رکھنے کے باوجود میر اور غالب کے ذہنی مراتب میں یگانگت کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔
میر اپنے کسی بھی ہم عصر کو برابری کادرجہ دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ قریب قریب یہی حال غالب کا تھا جو میر کی جیسی قلندارانہ بے نیازی اور استغنا تو نہیں رکھتے تھے لیکن اپنے معاصرین کی حیثیت اور اپنا منصب اچھی طرح پہچانتے تھے۔ شاعری کے اختصاصی رول اور تخلیقی تجربے کی انفرادیت کا ایسا ادراک اور منظم معاشرو ں میں رہتے ہوئے بھی ذہنی تنہائی کا اتنا گہرا اور کھرا احساس اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شاعروں میں اور کسی کے یہاں نہیں ملتا۔ یہاں بیرونی سطح پر بھی دونوں کے یہاں کئی مماثلتوں کی طرف ذہن جاتاہے۔ مثلاً یہ کہ دونوں نے اردو اور فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا۔ دونوں ہی ایک اجڑتی ہوئی بستی کے ہولناک تماشے سے دوچار ہوئے۔ دربدری کا تجربہ دونوں کے حصے میں آیا۔ لیکن اس سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ میر اور غالب دونوں اپنے اپنے عہد کو عبور کرتے ہیں اور ہمارے عہد کی حسیت میں اپنے قدم اس طرح جماتے ہیں، کہ ہمارے لیے یہ دونوں صرف پیش رو نہیں رہ جاتے، ہم عصر بھی بن جاتے ہیں۔
بیسویں صدی کے شعری منظر نامے پر دونوں کا اقتدار مسلم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میر اور غالب کے توسط سے ہم اپنے آپ کو دریافت کر رہے ہیں اور ان کے انتشار آگیں زمانوں میں ہم اپنے عہد کا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ مگر تقسیم، ہجرت، فسادات کے دور میں جس زور و شور کے ساتھ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی دلی کے تجربوں کو یاد کیا گیا اور اتباع میر کے سلسلے میں جو سہل پسندانہ طریقے اختیار کیے گئے، وہ میر کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ اسی طرح فکری مہم جوئی، تشکیک، تجسس اور آگہی کے عذاب و آشوب کے نام پر ہمارے زمانے میں غالب کا جو چرچا ہوا، وہ غالب کے شایان شان نہیں ہے۔
زبان و بیان کے کچھ سہل الحصول نسخوں سے مدد لینایا ایک خاص وضع رکھنے والے تصورات اور تجربوں کا احاطہ کر دینا اپنی روایت کے دو سب سے بڑے شاعروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہے۔ جیسا کہ عسکری نے اپنے مضمون ہمارے شاعر اور اتباع میر (مشمولہ، تخلیقی عمل اور اسلوب) میں لکھا تھا۔ میر کی تقلید کے ضمن میں ہمارے زمانے کے بعض بہت اچھے شاعروں (فراق، ناصر کاظمی) کے لیے بھی اداسی اور حزن کو ایک شاعرانہ تجربے کے طور پر قبول کرلینا تخلیقی جدوجہد کا ماحصل بن کر رہ گیا۔ اس طرح کی تقلید ذہنی کا وش سے بالعموم محروم رہ جاتی ہے۔ مزید برآں صرف ایک آہستہ خرام بحر میں اور ہندی آمیز زبان میں شعر کہہ لینے کو رنگ میر سے تعبیر کرنا شاعری کے مجموعی عمل اور میر کے تخلیقی منصب کے ساتھ زیادتی ہے۔
غالب، میر کی استادی کے دل سے قائل تھے۔ لیکن نہ تو انہوں نے میر کا آہنگ اور لہجہ اختیار کیا، نہ میر کی زبان استعمال کی۔ دونوں کی شخصیتیں مستحکم اور پائداربہت تھیں، جنہیں نہ تو اپنے اپنے عہد کا مذاق مغلوب کر سکا نہ ذاتی سوانح اورحالات۔ جس قسم کے تجربوں سے میر اور غالب کا سابقہ پڑا، ان کی شخصیتیں اندر سے اگر اتنی مضبوط نہ ہوتیں تو دونوں بکھر گئے ہوتے۔ تخلیقی اعتبار سے میر اور غالب دونوں کی شخصیتیں حیرانی کی حد تک منظم دکھائی دیتی ہیں۔ میر اور غالب کی عظمت اور انفرادیت کا انحصار ان کے باطن کی اسی تنظیم پر ہے جو انہیں پریشان تو رکھتی ہے، لیکن پسپا نہیں ہونے دیتی۔ دونوں اپنے اپنے زمانوں کی دہشت کے علاوہ اپنے اپنے وجود کی دہشت میں بھی ڈوبنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ زمانہ انہیں مغلوب نہیں کرپاتا۔ دونوں اپنے اپنے زمانے پر غالب نظر آتے ہیں۔ خیر تذکرہ اتباع میر کا ہو رہا تھا تو ذوق کا وہ شعر بھی یاد کیجئے جس میں شاید غالب پر چھپا ہوا ایک طنز بھی شامل ہے۔ شعر یہ ہے کہ،
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
اپنی ذات کی حد تک اس شعر میں ذوق کا اعتراف عجز بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اب رہے غالب تو میر سے عقیدت کے باوجود غالب اپنے آپ کوان کا ہمسر بھی سمجھتے تھے۔ اسی لیے میر کے انداز انہوں نے اس طرز پر اختیار کرنے کی جستجو بھی نہ کی، جو مثال کے طور پر ہمارے زمانے میں فراق کے یہاں دکھائی دیتا ہے،
اب اکثر بیمار رہیں ہیں کہیں نہیں نکلیں ہیں فراق
حال چال لینے ان کے گھر کبھی کبھی ہم ہولیں ہیں
صدقے فراق اعجاز سخن کے کیسے اڑالی یہ آواز
ان غزلوں کے پر دے میں تو میر کی غزلیں بولیں ہیں
وغیرہ وغیرہ، اسی طرح ناصر کاظمی پر میر کے تتبع میں ناکامی کا الزام عاید کرتے ہوئے ان کے ایک معاصر نے کہا تھا،
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
کوٹ پتلون پہن کر کئی بابو نکلے
اصل میں آزمودہ اسالیب میں توسیع کے بغیر تقلید کا کوئی مطلب نہیں نکلتا، تقلیداگر با معنی ہے تو اس کا انحصار گئے وقتوں کے دس بیس محاوروں اور متروکات کے الٹے سیدھے استعمال پر نہیں ہوگا۔ دلی کے مانوس پیرائے میں بات کرنے والا میرا من کا جانشین نہیں ہو جاتا۔ بہ قول عسکری، ’’جس ادب کی تخلیق میں دماغ استعمال نہ ہو، برساتی کھمبیوں کی طرح ہے جس سے زمین تو ڈھک جاتی ہے مگر غذا حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘ ہر بڑا شاعر، اپنے پیش رو بڑے شاعر سے استفادہ اس کے تجربوں کی گردان کرنے کے بجائے اس طرح کرتا ہے کہ تقلید کے عمل میں روایت کا دائرہ پہلے کی نسبت وسیع تر بھی ہو جائے اور اس میں نئے تجربوں اور احساسات کے بیان کی گنجائش بھی نکل آئے۔ ہمارے زمانے میں میر اور غالب کی تقلید اس سطح پر بھی کی گئی ہے اور اس سے نئے طرز احساس اور پرانے اسالیب یا بعض بنیادی حیثیت رکھنے والے انسانی تجربوں کی تخلیقی توسیع بھی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ ایک اور تفصیل کا طالب ہے۔ اس لیے فی الوقت ہم اس سے دست بردار ہوتے ہیں اور غالب کی طرف واپس آتے ہیں۔
غالب کے لیے اگر تمام تر اہمیت صرف میر کے اسلوب کی تعمیر میں کام آنے والے کچھ خاص لفظوں، ترکیبوں اور ان کی پہچان قائم کرنے والے مخصوص لہجے کی اور آہنگ کی ہوتی تو انہوں نے ایک نئی شعری قواعد و ضع کرنے، لفظیات کا ایک نیا ذخیرہ جمع کرنے کے بجائے سارا زور میر کی شعر یات اور لغت کے استعمال پر صرف کر دیا ہوتا۔ لیکن غالب نے اس سطح سے آگے بڑھ کر، میر کی پوری تخلیقی اور تہذیبی شخصیت کو، اسے تقسیم کیے بغیر اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ میر اپنے ہم عصروں کی روش سے خود کو بچاتے کس طرح ہیں، ابتری اور انحطاط کے حوصلہ شکن ماحول میں میر اپنی تخلیقی شخصیت کا اعتبار کس طرح قائم رکھتے ہیں، شاعری کی حرمت اور وقار کی حفاظت کس طرح کرتے ہیں، غالب کے نزدیک اصل اہمیت ان باتوں کی تھی۔ جو کام میر نے اپنی جذباتی کیفیتوں سے لیا تھا، غالب وہی کام اپنی آگہی اور ادراک سے لیتے ہیں۔ جذبہ آگہی میں منتقل کس طرح ہوتا ہے، اس کی بہترین مثالیں غزلیہ شاعری میں میر کے یہاں ملتی ہیں۔ ’’کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ۔‘‘
غالب کے مزاج کی ترکیب اور نوعیت کچھ ایسی تھی کہ وہ اول تو میر کی راہ اختیار کر ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ بالفرض وہ ایسا کرتے بھی تو ان کی تخلیقی بصیرت میر کے معیار تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتی۔ اسی لیے غالب نے تسلسل سے زیادہ تبدیلی کی خواہش سے سروکار رکھا اورمیر کی روایت کے تتبع کی جگہ اپنی علاحدہ روایت اور شناخت متعین کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ غزل کی روایت دونوں کے تخلیقی تجربات میں یکساں طور پر پیوست دکھائی دیتی ہے۔ میر اور غالب کی شاعری سے جس حقیقت کے نشاند ہی ہوتی ہے، یہ ہے کہ بڑی اور سچی شاعری کسی بندھے ٹکے نسخے کی پابند نہیں ہوتی، بلکہ بھری پری، توانا تخلیقی شخصیت کے اظہار سے وجود میں آتی ہے۔ ایسی شخصیت جو بلند وپست یا معمولی اور منفرد کے خانوں میں بانٹی نہ جا سکے۔
میر کے طرز اظہار سے جہاں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بڑے جذبات شعور کی اعانت کے بغیر بروئے کار نہیں آتے، وہیں غالب کا گردوں شکار تخیل ہمیں یہ بتاتا ہے کہ شعور کی اعلا ترین سطحیں جذبات کی دنیا میں ہلچل کے بغیر دریافت نہیں کی جا سکتیں۔ بڑی شاعری ہمیشہ زندگی کی متضاد اور باہم متصادم سچائیوں اور مختلف الجہات تجربوں پر ایک ساتھ توجہ سے جنم لیتی ہے۔ اسی لیے اہمیت صرف اس بات کی نہیں ہوتی کہ شاعر نے زبان میں معنی کے کتنے گوشے نکالے ہیں یا ایک لفظ میں ’’معنی کے کتنے معنی‘‘ سموئے ہیں۔
اہمیت دراصل اس بات کی ہوتی ہے کہ اس جہان معنی میں ہمیں اپنے آپ کو، اپنے عہد کو، زندگی کے بنیادی مسئلوں کو سمجھنے کے جو راستے دکھائی دیتے ہیں، ان کی حیثیت کیا ہے۔ ان سے ہمیں جو بصیرت ملی ہے اس کی سطح کیاہے۔ اس کا تخلیقی مرتبہ کیا ہے۔ اس میں دیرپائی کتنی ہے۔ انسانی روح کو بے چین رکھنے والے کتنے سوالوں کو سمجھنے میں یہ بصیرت ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ ایک رنگ کے مضمون کو سو رنگ میں باندھنے کا ہنر خوب ہے، مگر آخری تجزیے میں تو یہی دیکھا جائےگا کہ ہمارے شخصی اور اجتماعی وجود کے سیاق میں اس ایک مضمون کی اور اس مضمون سے وابستہ رنگوں کی بساط کیا ہے۔
میر اور غالب میں یہ امتیاز مشترک ہے کہ ہمارے اپنے زمانے کی حسیت اور ہمارے تجربوں کی کائنات پر دونوں کا سایہ ایک جیسا طویل اور گہرا ہے۔ دونوں ہمارے لیے یکساں طور پر با معنی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں کے شعور کی یکجائی سے ایک مسلسل بڑھتے پھیلتے ہوئے دائرے کی تکمیل ہوئی ہے۔ اس دائرے نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ میر کے انتقال (۱۸۱۰) کو دو صدیاں پوری ہونے کو ہیں۔ غالب کی پیدائش (۱۷۹۷) کو دوسو سال گزر چکے۔ مگر ہمارا اپنا شعور ابھی بھی ان کے دائرے سے نکلنے پر آمادہ نہیں ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page