غبار خاطر امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ اور معرکۃ الآرا تصنیف ہے۔اردو کا شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے اس کتاب کا مطالعہ نہ کیا ہو۔یہ کتاب ان خطوط کا مجموعہ ہے جنہیں مولانا نے قلعۂ احمد نگر کی اسیری(۱۹۴۳-۱۹۴۵) کے دوران لکھے تھے۔بقول محقق کتاب مالک رام ’’کہنے کو تو یہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو ایک کو چھوڑ کر ان میں سے مکتوب کی صفت کسی میں نہیں پائی جاتی۔ یہ دراصل چند متفرق مضامین ہیں جنہیں خطوط کی شکل دے دی گئی ہے‘‘ (مقدمۂ غبار خاطر ص ۸)بقول پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ یہ مولانا کے نجی خطوط تھے اور اس خیال سے نہیں لکھے گئے تھے کہ شائع کئے جائیں گے لیکن قید سے رہائی کے بعد اجمل خاں کے اصرار پر مولانا نے ۱۹۴۶ میں یہ خطوط ’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کرادیے ۔
غبار خاطر کئی لحاظ سے بہت اہم کتا ب ہے۔ اولا تو یہ کہ جیسا کہ مالک رام نے مقدمۂ کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اورکتاب کے مطالعے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ مولانا مرحوم کے حالات بالخصوص ابتدائی زندگی کے حالات اتنی شرح وبسط سے کسی اور جگہ نہیں ملتے۔یہ کتاب ان کی سوانح کے لیے بہت اہم ماخذ ہے۔ اس کی دوسری اہمیت اس کا اسلوب تحریر ہے کیونکہ غبار خاطر کو ناقدین نے مولانا آزاد کے اسلوب نگارش کا نقطۂ عروج تسلیم کیا ہے۔مالک رام کہتے ہیں کہ اس کی نثر ایسی نپی تلی ہے اور یہاں الفاظ کا استعمال اس حد تک افراط وتفریط سے بری ہے کہ اس سے زیادہ خیال میں نہیں آسکتا(غبار خاطر ص۱۴)۔بعض ناقدین نے غبار خاطر کی زبان کو شعری زبان سے تعبیر کیا ہے۔کئی مقامات کے نثری جملے پڑھ کرمنہ سے بے ساختہ واہ واہ نکل جاتا ہے اور قاری مولانا کی تحریر کو پڑھ کر عش عش کراٹھتا ہے۔
غبار خاطرکواسیری ادبیات میں جس قدر مقبولیت حاصل ہوئی اتنی مقبولیت کسی اور کتاب کے حصے میں کم آئی ہے ۔مآخذ ومراجع سے دور کسی قید خانے کی خوفناک تنہائیوں میں اس طرح کے ادبی شاہکار کی تخلیق پر وہی قدرت رکھ سکتا ہے جسے مولانا آزاد جیسا کمپیوٹر نما ذہن ودماغ حاصل ہو۔ ظاہر ہے مولانا آزاد جیسے ذہین وفطین اور عبقری کے لیے ایسا کارنامہ انجام دینا کوئی بڑی بات نہیں۔اس کتاب میں علمی وادبی معلومات ، عربی ،فارسی،اوراردو کے بے شمار مصرعوں، محاوروں اور قرآنی آیات کے بے تکلفانہ استعمال کے علاوہ روحانیت وفلسفہ اورطنز ومزاح کے بے انتہا قیمتی خزانے چھپے ہوئے ہیں۔میں غبار خاطر کو پڑھوں یا اندلس کے مشہور زمانہ ادیب وشاعر ابن زیدون کو۔ دونوں میں سے کسی ایک کے مطالعے کے وقت دوسرے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ابن زیدون اندلس کا وہ معتبر شاعر اور ادیب ہے کہ اس کو شعری اور نثری دونوں اصناف سخن پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ادبی وشعری مقبولیت اور حاکم وقت ابو الحزم ابن جہور سے قربت کی وجہ سے حاسدین کی ریشہ دوانیوں نے اسے قید خانے کی تاریک کوٹھری تک پہونچا دیا ۔ قید خانے سے اس نے ابن جہور کو ایک خط لکھا جسے عربی ادب میں ’’الرسالۃ الجدیۃ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ تین چار صفحات پر مشتمل اس خط کو اندلسی ادب میں ایک عظیم ادبی شہ پارے کی حیثیت حاصل ہے۔یہ خط ایسی نثری نظم کا نمونہ ہے جس میں کلاسیکی شعرائ کے بے شمار اشعار، مصرعوں، محاورں، قرآنی آیتوں، فنی خصوصیات سے آراستہ تراکیب اورتاریخی واقعات کو اس قدر خوب صورتی سے جڑا گیا ہے کہ یہ خط شعر وادب اور علمی وادبی معلومات کا خزینہ بن گیا ہے۔
مولانا آزاد مکہ میں پیدا ہوئے۔والدہ ایک عرب خاندان کی چشم وچراغ تھیں۔مادری زبان عربی تھی مگر ہندوستان میں نشو ونما پانے کی وجہ سے اردو زبان ہی مولانا کا ذریعۂ اظہار ٹھہری۔ مولانا عربی زبان اور اس کے علم وادب پر گہری نظر رکھتے تھے ۔اردو کے ساتھ فارسی پربھی آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں عربی وفارسی تراکیب کا اثر واضح طور سے نظر آتاہے۔بقول مالک رام الہلال اور البلاغ کے دور میں ان کے یہاں عربی اور فارسی کے ثقیل اور عسیر الفہم جملوں اور ترکیبوں کی بھرمار ہے ۔بلکہ تذکرہ کی زبان تو عربی اور فارسی کے ثقیل اور مغلق الفاظ، فقرے، اقوال وامثال اور اشعار وغیرہ سے بہت زیادہ بوجھل ہے۔ اس کے برعکس غبار خاطر میں ایک نئی دنیا نظر آتی ہے۔ اس میں عربی فارسی کی مشکل ترکیبیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ اس کی نثر ایسی شگفتہ اور دل نشین ہے کہ یہ نہ صرف ہر کسی کے لیے قریب الفہم ہے بلکہ اس سے لطف بھی لیا جاسکتا ہے (غبار خاطر ص ۱۴)
تعجب کی بات یہ ہے کہ عربی پرقدرت کے باوجود مولاناعربی میں نہیں لکھتے تھے۔تلاش بسیار کے باوجود مجھے مولانا کی کوئی عربی تحریر دستیاب نہیں ہوئی۔ احمد سعید ملیح آبادی لکھتے ہیں کہ ’’عربی مولانا کی مادری زبان تھی اور اس کے علم وادب پر گہری نظر رکھتے تھے مگر عربی میں مولانا لکھتے نہیں تھے۔ ان کی کوئی تصنیف اور قابل ذکر تحریر عربی میں نہیں ملتی۔ مولانا اردو میں سوچتے اور اردو میں لکھتے۔ پندرہ روزہ عربی مجلہ الجامعہ کلکتے سے مولانا ملیح آبادی کی ادارت میں نکلا مگر اس میں بھی مولانا کے قلم سے کوئی مضمون نہیں چھپا۔ آزادی کے بعد مولانا کے حکم سے ۱۹۵۰ میں انڈین کونسل فار کلچرل رلیشنز قائم ہوئی اور وہاں سے عربی رسالہ ثقافۃ الہند مولانا ملیح آبادی کی ادارت میں جاری کیا گیا تو مولانا کی عربی تحریر اس میں بھی شائع نہیں ہوئی‘‘(ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت ص ۲۹۵-۲۹۴)
تذکرہ کے مضامین اور الہلال والبلاغ کے عربی وفارسی تراکیب سے بوجھل مضامین کے بجائے صرف غبار خاطر پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولاناعربی زبان اور عربی ادبیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔غبار خاطر میں مولانا نے عربی کے کل اکتیس اشعار،پانچ مصرعوں، ۲۳ آیتوں ، احادیث کے مختلف ٹکڑوں اورعربی کے محاوروںکے ساتھ خالص عربی کی متعدد تراکیب کا برمحل استعمال کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان اشعار کا برمحل استعمال ان کے حفظ کا متقاضی ہے اور ان کے حفظ کا تقاضہ ہے کہ ان کے مفہوم کا ادراک کیا جائے ورنہ نہ تو انہیں صحیح طور سے نقل کیا جاسکتا ہے نہ ان کا برمحل استعمال۔ ایسا وہی شخص کرسکتا ہے جسے عربی زبان اورعربی ادبیات پر دستگاہ حاصل ہو۔ ان اشعار کا برمحل استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ مولاناکو یہ اشعار زبانی یاد تھے اور ان کے مفہوم سے مولانا بحسن وخوبی واقف تھے۔لطف کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مولاناجہاں عربی کے اشعار نقل کرتے ہیں اکثر مقامات پر وہ ان اشعارکے خالق کانام بھی ذکرکرتے ہیں۔ایک جگہ فرماتے ہیں ’’گویا ابو نواس والی بات ہوئی‘‘ (غبار خاطر ص ۱۴) اس کے بعد اس کا شعر نقل کرتے ہیں۔ابونواس عباسی دور کا بہت اہم شاعر ہے۔ اس کا ذکر مولانا اس طرح کرتے ہیں گویا اسے روزانہ پڑھتے اور اس کا ذکر کرتے رہتے ہوں۔احمد نگر کے ذکر کے پس منظرمیںکہتے ہیں کہ’’ بے اختیار ابو العلائ معری کا لامیہ یاد آگیا(غبار خاطر ص ۲۵)اس کے بعد وہ معری کے قصیدۂ لامیہ کا ایک شعر نقل کرتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں جب ابو العلا معری نے اپنا مشہور لامیہ کہا تھا یا… جب ابو فراس حمدانی نے اپنا لافانی رائیہ کہا تھا…پھر ان کے قصیدوں کے اشعار ذکر کرتے ہیں۔عربی قصیدوں کو دوسرے مصرعے کے آخر میں آنے والے حرف سے یاد کیا جاتا ہے۔اگر اخیر میں لام ہے تو اسے قصیدۂ لامیہ ، میم ہے تو قصیدۂ میمیہ اور سین ہے تو قصیدۂ سینیہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔معری کے قصیدے کو لامیہ یاحمدانی کے قصیدے کو رائیہ سے یاد کرنے کا مطلب ہے کہ مولانا عربی ادب کی ان فنی اصطلاحات پر بھی نظر رکھتے تھے۔
مولانا نے کئی مقامات پروضع الشی فی غیر محلہ (غبار خاطر ص۱۳)علی سبیل التعاقب والتوالی (غبار خاطر ص۱۴)لاتاس علی ما فات (غبار خاطر ص۳۶)بین الجبر والاختیار(غبار خاطر ص۶۳)ضرب علی الآذان (غبار خاطر ص۷۸)لقد احسن من قال (غبار خاطر ص۱۲۹) جیسی خالص عربی ترکیبیں اور علمی اصطلاحات بھی استعمال کی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’آنے والی زندگی میں جو معاملات پیش آنے والے تھے یہ ان سے میرا ’’ پہلا سابقہ ‘‘تھا۔ پھر ایک عربی شعر نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’’دیکھیے یہاں ’’پہلا سابقہ‘‘ لکھتے ہوئے میں نے عربی کی ترکیب ’’کان أول عہدی بہا‘‘ کا بلا قصد ترجمہ کردیا(غبار خاطر ص ۵۰)۔کسی اجنبی زبان کی کسی ترکیب کو نقل کرنے کے بعد اس کا ترجمہ کردینے پر اسی شخص کو قدرت حاصل ہوسکتی ہے جسے اس زبان پر عبور ہو، اس کی نزاکتوں اور باریکیوںکا علم ہو۔
موسیقی پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ عربوں نے ہندوستان کے تمام علوم وفنون میں دلچسپی لی لیکن ہندوستان کی موسیقی پر ایک غلط نظر بھی نہ ڈال سکے۔ اس کے بعدہندوستان کا سفر کرنے والے مشہور عرب سیاح ابو ریحان البیرونی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے اپنی کتاب’’ الہند‘‘ میں ہندؤوں کے تمام علوم وعقائد پرنظر ڈالی ہے اور ایک باب ’’فی کتبہم فی سائر العلوم‘‘ پر بھی لکھا ہے مگر موسیقی کا اس میں کوئی ذکر نہیں (غبار خاطر ص ۲۶۵)اس کے بعد ایک دوسرے مقام پرانہوں نے بیرونی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ہندوؤں میں مشہور ہے کہ اگر کوئی مسافر بندروں کے غول میں پھنس جائے اور ر امائن کے وہ اشعار جو ہنومان کی مدح میں لکھے گئے ہیں پڑھنے لگے تو بندر اس کے مطیع ہوجائیں گے اور اسے کچھ نقصان نہیں پہونچے گا۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کی تہ میں بھی وہی گانے کی تاثیر کام کرتی ہوگی یعنی رامائن کے اشعار کے مطالب کا یہ اثر نہ ہوگا۔ اشعار کی لے اورنغمہ سرائی کی تاثیر ہوگی۔پھر لکھتے ہیں کہ پہلی تصریح غالبا اس باب میں ہے جو فی ذکر علوم لہم کاسرۃ الأجنحۃ علی افق الجہل کے عنوان سے ہے اور دوسری تصریح اس کے بعد کے باب میں ملے گی جو فی معارف شتی من بلادہم وانہارہم کے عنوان سے لکھا ہے‘‘ (غبار خاطر۲۸۱) یہاں نہ صرف بیرونی کی کتاب میں وارد معلومات مولانا کو حفظ ہیں بلکہ انہیں ان عربی ابواب کا نام بھی یاد ہے جہاں ان کا ذکرآیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے بیرونی کی اس کتاب کا بغائرمطالعہ کیا تھا۔ اس کے عربی ابواب کا نقل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا کو عربی لکھنے بولنے اور پڑھنے کا سلیقہ بدرجۂ اتم معلوم تھا۔
مولانا نے کئی مقامات پر بیرونی پر تنقیدی بھی کی ہے۔ مثلا کہتے ہیں کہ اس کی کتاب میں موسیقی کا کوئی ذکر نہیں۔اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس نے سنسکرت کی شاعری اور فن عروض کا بہ تفصیل ذکر کیالیکن ناٹک کا اس کی کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔مولانا نے ابو ریحان کی کتاب کانام الہند لکھا ہے جب کہ صحیح نام الہند نہیں’’ فی تحقیق ما للہند‘‘ ہے اور اس کا پورا نام ’’فی تحقیق ما للہند من مقولۃ مقبولۃ فی العقل او مرذولۃ‘‘ہے۔ عربی موسیقی ہی پر بات آگے بڑھتی ہے تو عربی ادبیات کی مشہور زمانہ کتابیں الاغانی(از:ابو الفرج اصفہانی) اور العقد الفرید(از:ابن عبد ربہ اندلسی) کی کتابوں کی یاد ان کے ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے ۔ یہ دونوں ہی کتابیں عربی ادبیات میں بہت اہم ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ خاص طور سے الاغانی موسیقی اور عربی ادبیات کے حوالے بہت اہم کتاب شمار کی جاتی ہے۔
آپ نے عباسی دور کے مشہور ناقد قدامہ بن جعفراورتنقید پر اس کی مشہور کتابوں نقد الشعراور نقد النثر کابھی ذکر کیا ہے۔ اس کی طرف منسوب کتاب نقد النثر کی اشاعت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جامعہ مصریہ کے ادارہ نے اس کا عکس حاصل کیا تھا اور ڈاکٹر منصور اور ڈاکٹر طہ حسین کی تصحیح وترتیب کے بعد چھپ کر شائع ہوگیا (غبار خاطر ص ۲۶۷) اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ مولانا کو جامعہ مصریہ اور ڈاکٹرطہ حسین جیسے مصر کے معتبر ادیبوں اور ان کی علمی سرگرمیوں کے بارے میں بھی اپ ٹوڈیٹ معلومات حاصل رہتی تھیں۔
شیخ سلامہ حجازی مصر میں تھیٹراور منظوم ڈرامے کو پروان چرھانے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔حجازی خود ایک مغنی اور موسیقار تھے۔ انہوں نے مصرمیں ایک میوزک بینڈ بھی قائم کیا تھا۔مولانا نے اس میوزک بینڈ کے لیے عربی میں مستعمل لفظ ’’جوق‘‘ کا استعمال کیا ہے اور اس حوالے سے بڑی علمی باتیں لکھی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’جوق وہاں (مصر میں) منڈلی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ ہم نے یہاں منڈلی کے لیے ’’طائفہ‘‘ کا لفظ اختیار کیا تھا پھر اس کی جمع طوائف ہوئی اور رفتہ رفتہ طوائف کے لفظ نے مفرد معنی پیدا کرلیے یعنی زنِ رقاصہ ومغنیہ کے معنی میں بولا جانے لگا‘‘۔مزید لکھتے ہیں ’’شیخ سلامہ کا جوق قاہرہ کے اوپراہاؤس میں اکثر اپنا کمال دکھایا کرتاتھا اور شہر کی بزم طرب بغیر اس کے بارونق نہیں سمجھی جاتی تھی (غبار خاطر ص ۲۶۲)۔مولانا مزید لکھتے ہیں کہ مصر میںایک مشہور عالمہ طائرہ نامی باشندۂ طنطا تھی۔ پھر لفظ ’’عالمہ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عالمہ مصر میں مغنیہ کو کہتے ہیں۔ یعنی موسیقی کا علم جاننے والی۔ ہمارے علمائے کرام کو اس اصطلاح سے غلط فہمی نہ ہو۔ یورپ کی زبانوں میں یہی لفظAlmaہوگیا ہے۔(غبار خاطر ص ۲۶۲)
مصرکی مشہور ومعروف مغنیہ ام کلثوم کو مصر میں وہی حیثیت حاصل تھی جو ہندوستان میں لتا منگیشکر کوحاصل ہے۔ ام کلثوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مولاناکہتے ہیں کہ اس کے مشہور انشادات میں سے ایک نشید علیہ بنت المہدی کا مشہور نسیب ہے (غبار خاطر ص ۲۶۳)نشید (ترانہ یا نغمہ) انشادات (نغمے، گانے) نسیب (غزل کا شعر) اور عالمہ (مغنیہ) جیسے خالص عربی مفہوم کے الفاظ کا استعمال وہی شخص کرسکتا ہے جسے عربی کی باریکیوں کاعلم ہو۔ نسیب عربی میں اس غزلیہ تمہید کو کہتے ہیں جو قصیدے کی ابتدا میں پیش کی جاتی ہے۔اسے عربی میں تشبیب بھی کہاجاتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بی اے اور ایم اے عربی کے بہت سارے طلبہ بھی ایسی اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔
اپنی ابتدائی تعلیم اور طالب علمی کے زمانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے ہندوستان میں رائج تعلیمی نظام پر بہت سخت تنقیدی لہجہ اپنایا ہے۔ اسے سرتاسر فرسودہ اور عقیم کے لقب سے ملقب کیا ہے۔درس نظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے ان کی نظرمصر کی مشہور عالمی واسلامی دانش گاہ جامعہ ازہر کے تعلیمی نظام پر جاکر ٹکتی ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ’’ جامع ازہر قاہرہ کے نصاب تعلیم کا بھی تقریبا یہی حال ہے۔ ہندوستان میں متاخرین کی کتب معقولات کو فروغ ہوا لیکن وہاں اتنی وسعت بھی پیدا نہ ہوسکی۔سید جمال الدین اسد آبادی نے جب مصر میں کتب حکمت کا درس دینا شروع کیا تھا تو بڑی جستجو سے چند کتابیں وہاں مل سکی تھیں اور علمائے ازہر ان کتابوں کے ناموں سے بھی آشنا نہ تھے۔ بلاشبہہ ازہر کا نظام تعلیم بہت کچھ اصلاح پاچکا ہے لیکن جس زمانہ کا میں ذکر کررہاہوں اس وقت تک اصلاح کی کوئی سعی کامیاب نہیں ہوئی تھی اور شیخ محمد عبدہ مرحوم نے مایوس ہوکر ایک نئی سرکاری درسگاہ دار العلوم کی بنیاد ڈالی تھی‘‘(غبار خاطر ص ۹۸ـ-۹۷) ان جملوں کو پڑھ کر جدید مصر کا تعلیمی منظر وپس منظر نگاہوں کے سامنے رقص کرجاتاہے اور یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مولانا عربی زبان اور ادبیات کے ساتھ ساتھ عالم عرب کے حالات پر بھی گہری نگاہ رکھتے تھے۔ عربی کے مشہور زمانہ نابینا ادیب ڈاکٹر طہ حسین نے اپنی خود نوشت ’’الایام‘‘ میں اپنے زمانے کے نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ ازہر کے تعلیمی حالات اور نصاب تعلیم پر تقریبا اسی طرح کی تنقید کی ہے جس طرح کی تنقید مولانا کررہے ہیں۔ طہ حسین تو اس حوالے سے اس قدر سرگرم ہوگئے تھے کہ انہیں ازہر سے خارج کردیا گیا تھا۔ مولانا کی یہ رائے بھی درست ہے کہ ازہر کے تعلیمی نظام اور روایتی طرز تعلیم کے رد عمل میں دار العلوم کالج کی بنیاد ڈالی گئی۔البتہ شیخ محمد عبدہ نے نہیں جیسا کہ مولانا نے لکھا ہے بلکہ علی مبارک نے اس کی بنیاد ڈالی تھی۔مشہور مصری ادیب ڈاکٹر شوقی ضیف لکھتے ہیں’’اس وقت عربی زبان کی تعلیم وتدریس صرف جامع ازہر میں ہو رہی تھی اورازہری علما ایک طرف مقفی ومسجع عبارتوں اور علم بدیع کی صنعتوں کا التزام کرنے والے اسلوب کا اہتمام کرتے تھے تو دوسری طرف علم نحو کی مشکل ومغلق کتابوں کی درس وتدریس میں محوتھے۔ ایسے حالات میں علی مبارک نے دار العلوم کی تاسیس کی تاکہ ایسے اسلوب میں عربی علوم وفنون کی تدریس کا فریضہ انجام دیا جاسکے جو جدید ارتقا کی تحریک سے ہم آہنگ ہو۔ چنانچہ دار العلوم نے بھی زبان کو مشکل ومغلق اور مقفی ومسجع اسلوب بیان سے آزاد کرانے کا مطلوبہ کردار ادا کیا اور ایسے اساتذۂ فن کی تخریج کی جو طلبہ کے لیے عربی کو آسان بناکر پیش کرتے اور انھیں جدید دور کے لیے تیار کرتے‘‘ (جدید عربی ادب ص۶۴)
غبار خاطر کے کسی بھی پہلو پر بات ہو اور محقق کتاب مالک رام کا ذکر نہ آئے تو یہ ناانصافی ہوگی۔جس قدر شاہکار مولانا کی یہ تالیف ہے اسی قدر شاہکار محقق کتاب کی حاشیہ آرائی، تحقیقات اور تعلیقات ہیں۔عربی اشعار کی تخریج اورمختلف موضوعات پر حاشیہ آرائی میں انہوں نے جتنی عربی کتابوں کا حوالہ دیا ہے عربی کے بہت سارے ریسرچ اسکالروں کو اتنی کتابوں کے نام تک نہیں معلوم ہوں گے۔کئی مقامات پرانہوں نے اپنی تحقیقی وتنقیدی بصیرت کا بھی ثبوت پیش کیاہے۔مولانا نے نقد الشعرکے ساتھ نقد النثر کو بھی مشہور عباسی ناقد قدامہ بن جعفر کی کتابوں میں شامل کیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا اور کہا کہ آخر الذکر کتاب ڈاکٹر منصور اور ڈاکٹر طہ حسین کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔ محقق نے سچ لکھا ہے کہ’’ علمائ کی بہت بڑی جماعت نقد النثر کو قدامہ بن جعفر کی تصنیف تسلیم نہیں کرتی۔یہاں مولانا سے سہو ہوا ہے۔ نقد النثر کو ڈاکٹر منصور اور ڈاکٹر طہ حسین نے نہیں بلکہ طہ حسین کے ساتھ پروفیسر عبد الحمید العبادی نے مل کر یہ کام کیا تھا‘‘ (غبار خاطر ص ۳۸۷)مولانا نے عربی کے ایک مشہور شعر’ ’رقّ الزُّجاجُ ورَقّتِ الخَمَرُ٭فَتَشَابَہا فَتَشاکلَ الامرُ‘‘ کو مشہور عباسی شاعر ابو نواس کی طرف منسوب کیا ہے۔ مالک رام لکھتے ہیں’’یہ شعر ابونواس کا نہیں۔ نہ اس کے دیوان میں ملا اگر چہ ابو القاسم الزعفرانی نے بھی اسے ابو نواس کا ہی بتایا ہے۔ اس کے برخلاف راغب اصفہانی نے محاضرات الادبائ (۱/۸۵ نیز ۲/۷۱۲) میں اور ابن خلکان نے وفیات الاعیان (۱/۲۰۸) میں اسے صاحب بن عباد سے منسوب کیا ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں’’ محاضرات میں مصرع اول میں ’’ورَقّت‘‘ کی جگہ راقت ہے‘‘ (غبار خاطر ص۲۹۳)البتہ مولانا نے جہاں مشہور ناقد قدامہ بن جعفر کو ابن قدامہ لکھاہے سلامہ حجازی کو احمد سلامہ حجازی لکھاہے ،دار العلوم کے موسس علی مبارک کے بجائے شیخ محمد عبدہ لکھا ہے وہاں انہوںنے سکوت اختیار کیا ہے۔ غبار خاطر میں مولانا نے جو کچھ لکھا ہے سب قوت حافظہ کی مدد سے لکھا ہے اور جو کچھ لکھا ہے وہ بے مثال، شاہکار اور علم وفن کی معراج سے تعبیر کیے جانے کے مستحق ہے اس لیے یہ’’ سہو قلم‘‘ کوئی معنی نہیں رکھتے۔
مولانا ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے۔ صاحب اسلوب ادیب اور عظیم عالم تھے۔آپ کو عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا اس لیے آپ کی زبان میں عربی اور فارسی الفاظ وتراکیب، اشعار،مصرعوں، ضرب الامثال اورمحاوروں کا بہ کثرت استعمال کوئی نادر اور عجیب بات نہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ تذکرہ یا الہلال والبلاغ کی طرح غبار خاطر عربی اور فارسی کی خالص ترکیبوں سے بوجھل نہیں۔ اس کا اسلوب بہت لطیف، دلنشیں، شستہ وشائستہ اور عربیت وفارسیت زدہ نہیں۔اس میں عربی کے اشعار،مصرعے، جملے، محاورے، ترکیبیں ہیں مگر اس طرح بے تکلفی سے انہیں جڑا گیا ہے کہ وہ مولانا کے اسلوب کے گل بوٹے بن کر دعوت نظارہ دیتے ہیں کیونکہ عربی وفارسی لفظیات سے آراستہ زبان کا استعمال ہی مولانا کی نثر کی خصوصیت ہے۔اسی لیے عربی اور فارسی کے مرکبات سے آراستہ مولانا کے قلم سے جب جب کوئی تحریر سامنے آتی تو سب کو اپنا اسیر بنالیتی۔ نثر ابو الکلام کو دیکھ کر لوگ اپنی شاعری کے لطف کو بے معنی سمجھنے لگتے۔سجاد ظہیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ کہ اگر قرآن نہ نازل ہوا ہوتا تو مولانا آزاد کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی۔مولانا عبد الماجد دریابادی کے بقول مولانا آزاد تحریر وانشا میں اپنے اسلوب کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی۔(اردو کا ادیب اعظم ، عبد الماجد دریابادی ص۲۵) عبد الرزاق ملیح آبادی کے بقول مولانا آزادی کی تحریر ایسی ہے کہ عش عش کرتے رہیے ، اعلی انشا وادب کا نمونہ جس کی تقلید ممکن نہیں (ذکر آزاد، عبد الرزاق ملیح آبادی ص ۴۱۲)مولانا ایک ایسے دانشور تھے کہ اگر وہ سیاست کے پیچ وخم میں نہ الجھتے تو برصغیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا ثانی بن کر مطلع علم وادب پر روشن ہوتے۔پھر بھی مولانا مرحوم نے جو علمی میراث چھوڑی ہے وہ انہیں ہندوستان کے صف اول کے علمائ میں سرفہرست رکھنے کے لیے کافی ہے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدرشعبۂ عربی
باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
9419103564
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |