مولانا ابوالکلام کے آباؤ اجداد عہد بابر ہی میں ہرات سے چل کر آگرہ پہنچے تھے۔ عہداکبری کی ابتدا میں دہلی آکر سکونت اختیار کی تھی۔ اکبر کے معاصران کے خاندان کے جمال الدین الیاس جو شیخ بہلول کے نام سے مشہور تھے اپنے زمانے کے بڑے عالموں میں شمار کیے جاتے تھے۔ جب شہنشاہ اکبر ایک نیامذہب نافذ کرنے کے لیے مذہبی علما سے راضی نامہ پر دستخط کرا رہے تھے ،شیخ بہلول نے دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مولاناآزادنے تذکرہ میں اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے اجداد کو دنیاداری سے غرض نہیں تھی۔
ان کے پرادادا مولانا منورالدین نے مغلیہ سلطنت کے زوال اور اس سے پیدا ہوئی نراجیت سے مایوس ہوکر حجاز جانے کا فیصلہ کرلیا۔وہ بمبئی کے راستے بھوپال پہنچے تو وہاں کی نواب سکندربیگم نے بڑی منت سے انھیں روک لیا۔ وہ ان کی تقریروں سے بہت متاثر تھیں۔ کچھ دنوں بعد ہی 1857کا انقلاب شروع ہوگیا اور وہ بھوپال ہی میں رکے رہے۔ تھوڑاامن ہوا تو وہ بمبئی چلے آئے۔ ان کا دل بری طرح اچٹ گیاتھا،مگر وہاں بھی ان کے شاگردوں نے روک لیا۔ اسی وقت بیمار ہوئے اور کچھ مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ مولاناآزاد کے والد مولاناخیرالدین نے اپنے والد کے ارادوں کا احترام کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا اور حجاز چلے گئے۔ وہاں ان کی ملاقات متعددعلما اور صوفی سنتوں سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے اپنے استاد شیخ محمدظاہر بطریقی کی بھانجی عالیہ سے شادی کی۔ وہیں مکہ کی مقدس سرزمین پر مولاناابوالکلام کی پیدائش 6ستمبر1888 کو ہوئی۔تین بہنوں اور دو بھائیوں کا خاندان وہاں خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ 1895کے آس پاس ایک حادثے میں والد مولاناخیرالدین کے پائوں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔وہاں ان کا بہتر علاج ممکن نہیں تھا۔لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس کا سب سے اچھا علاج کلکتہ میں ہے۔ اسی مقصد سے پورے خاندان کے ساتھ وہ 1897میں کلکتہ آگئے اور وہیں آباد ہوگئے۔ یہاں علاج تو ہوا مگر پائوں میں مستقل طور پر نقص بنا ہی رہ گیا۔
جب ان کی والدہ عالیہ کا انتقال ہوا اس وقت مولانا آزاد کی عمر7-9سال ہی کی تھی۔ ان کی تعلیم تو مکہ ہی میں شروع ہوچکی تھی ۔عربی ان کی مادری زبان تھی۔والد تعلیم کے معاملے میں بہت سخت تھے اور بچوں کی تعلیم کے تعلق سے بہت غوروفکر کرتے تھے۔ مکہ میں انھوں نے شیخ محمد عمر اور شیخ حسن جیسے ناموراساتذہ کو اتالیق رکھا تھا،جنھوں نے باضابطہ قرآن کی تعلیم دی تھی۔کچھ دنوں تک مولاناخیرالدین نے خود ہی اپنے بچوں کوپڑھایا۔ ان کی ابتدا اردوفارسی سے ہوئی۔ بعدمیں کلکتہ کے مشہور استاد مولوی یعقوب،مولوی نذرالحسن، مولوی ابراہیم،مولوی عمراور مولاناسعادت حسین جیسے عالموں سے انھیں کسب فیض کا موقع ملا۔ مولانا آزاد بچپن سے ہی ذہین تھے اور انھیں کوئی بھی چیز ایک بار میں یاد ہوجاتی تھی۔ خلاصہ ہندی اور مصورفیوض کے بعد گلستاں اور بوستاں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھوں نے آمد نامہ کے مصادر حفظ کرلیے۔ عربی کی تربیت تو بچپن ہی سے تھی، اس لیے میزان منشعب اور اجرومیہ کی تعلیم جلد مکمل کرلی۔ ان تمام قابل عالموں نے شروع ہی میںہیرے کی تراش خراش کرکے ایسا انمول بنا دیا کہ اس کی چمک بچپن میں نظر آنے لگی۔
مشہور شاعر عرش ملسیانی نے ان کی سوانح میں بڑی بہن فاطمہ بیگم کے حوالے سے بڑے ہی دلچسپ واقعات پیش کیے ہیں۔ سات آٹھ برس کے مولانا آزادگھر کے صندوقوں، بکسوں کو سجا کر کہتے کہ یہ ریل گاڑی ہے اور تم لوگ الگ الگ کھڑے ہوکر چلا کر کہو’’ہٹو!ہٹوراستہ دو!دہلی کے مولانا آرہے ہیں۔‘‘پوچھنے پر وہ کہتے’’تم سمجھ لو کہ مجھے لینے کے لیے اسٹیشن پر آئے ہو اور ہزاروں کی بھیڑ کھڑی ہے۔پھر وہ کسی بڑے آدمی کی طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے چلتے۔ کبھی کسی اونچی جگہ پر کھڑے جاتے اورکہتے ،میرے بولنے پر تم لوگ تالیاں بجاؤ۔ سمجھ لو سامنے ہزاروں لوگوں کا ہجوم ہے اور سبھی تالیاں بجا رہے ہیں!
بچپن کے اس واقعے کے جوش وجذبے کو درکنار کرکے مولانا ابوالکلام کے اس تصورکائنات پر غورکریں تو اس عہد میں ان کے اندر کس قسم کے جذبات اور خیالات کی لہریں اٹھ رہی تھیں اور وہ کس طرح کا خواب دیکھ رہے تھے۔بچپن میں خواب دیکھنے والا آگے چل کر کس طرح خوابوں کو تعبیر عطاکرنے والا بن گیا اسے تاریخ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ان کے بچپن میں ایک خاص قسم کا غیرمعمولی پن موجود تھا جو عموماً اس عمر کے بچوں میں نہیں ہوتا۔اس کا ثبوت انھوں نے ان بچوں کے ان پرجوش کھیلوں میں باربار دیا۔ وہ محض 12-13برس کی عمر میں عربی قواعد پر بحث و مباحثے کرنے لگے تھے۔ اسی عمر میں انھوں نے شرح ملا اور قطبی کا مطالعہ مکمل کر کیاتھا۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا بھی ہے کہ:’’لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کودمیں گزارتے ہیں لیکن 12-13برس کی عمر میں میری حالت ایسی تھی کہ کتاب لے کر کسی کونے میں جابیٹھتا اور کوشش کرتاتھا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔‘‘1؎دوتین برس بعد تو پڑھانے بھی لگے تھے اور ترجمہ جیسے مشکل کاموں میں ان کی مہارت سامنے آنے لگی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:’’میں جب سولہ برس کا تھا تو میں نے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کرلیااور میرے والد نے کوئی پندرہ ایسے طلبا اکٹھا کرلیے جنھیں میں اعلیٰ معیار کا فلسفہ، ریاضی اور منطق پڑھاتا۔‘‘2؎غور کیجیے’اعلیٰ معیار کا فلسفہ،ریاضی اور منطق ‘ ظاہر ہے یہ قبل از وقت بلوغت ،ذہنی بالیدگی اور مہارت کا ہی اظہار تھا۔
15-16سال کی عمر میں 20نومبر1903کو انھوں نے ’لسان الصدق‘ نامی رسالے کی اشاعت اور تحریر بھی شروع کردی۔ نصاب سے باہر کی کتابوں اور رسالوں کے باضابطہ مطالعے نے ان کے ذہنی پرواز کے پر کھول دیے۔اب وہ جلسوں میں کلکتہ سے باہر بھی جانے لگے تھے۔ اسی دوران دونوں بھائیوں اور ایک چھوٹی بہن کو شعر و شاعری سے شغف پیدا ہوگیا۔ ابوالکلا م تو رات رات بھر مشاعروں میں بیٹھے رہتے۔ گاہے بگاہے شعر وشاعری بھی کرتے اور شائع بھی کراتے مگر اس راہ پر وہ تادیر نہیں چل سکے۔ تاریخ ان کے لیے پہلے ہی الگ راہ منتخب کرچکی تھی۔ وہ پوری توجہ سے صحافت کی طرف گئے اور اپنی پرجوش نثری تخلیقات سے بہت داد و تحسین وصول کیے۔ان سے ملنے والے ان کی عمر دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتے۔ عموماًیقین نہیں کرپاتا کہ رسائل کی ادارت اورایسی خوبصورت پرمغز نثر لکھنے والا ابھی تو بالکل نوجوانی کی عمر میںہے۔ اس طرح حیران ہونے والوں میں الطاف حسین حالی بھی شامل ہیں۔
اسی دوران کا ان کا رابطہ علامہ شبلی نعمانی سے ہوا۔ دسمبر1899ئ میں ’آل انڈیامحمڈن اورینٹل ایجوکیشنل کانفرنس ‘ نے اپنا تیرہواں اجلاس کلکتہ میں کیا،جہاں ان کی ملاقات علامہ شبلی نعمانی سے ہوئی۔ وہ ان کے اور ندوہ کے اور قریب آئے۔ 1902میں ان کے والد مولانا خیرالدین کے اسلامی فکر پر کئی قسم کے الزامات لگے۔ ابوالکلام آزاد نے ان سارے الزامات کا جواب بڑی نفاست، منطقی اوردانشورانہ طریقے سے دیا اور ان کی پہلی کتاب ’اعلان الحق‘ شائع ہوئی۔اس میں ان کے بے باک افکارکاتعارف ملتا ہے، ساتھ ہی اس میں ان کی خود اعتمادی بھی نظر آتی ہے۔ ’’تعصب کی گھٹاچار طرف چھائی ہوئی ہے،جہالت کا طوفان جوش زن ہے،ایک لکھانہ پڑھا فاضل مشہورہے،دوسرا دوحرفی لیاقت کے نشے میں چور ہے۔‘‘3؎اس میں ان کی نثر میں جس شعریت کی جھلک نظر آتی ہے ،وہ آگے ان کی تحریروں اور تقریروں میں بہتر طور پر فروغ پائی۔ ان کی نثر میں قرأت کی زبردست تسکین میں ملتی ہے۔
سرسیداحمد کی تحریروں کوپڑھ کر وہ بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ وہ اس بات کو محسوس کرنے لگے کہ جب تک جدید علوم، فلسفہ اور ادب کابہتر مطالعہ نہ ہوگاتب تک صحیح معنوں میں تعلیم مکمل نہیں ہوگی۔انھوں نے مولوی محمدیوسف جعفری سے مدد لے کر انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنے طور پر انگریزی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ شبلی نعمانی کی نظر اس باصلاحیت نوجوان پر تھی اور اپریل مئی 1905میں ’لسان الصدق‘ کے بند ہوتے ہی انھوں نے انھیں اپنے پاس بلانے کافیصلہ کرلیا۔ اسی دوران بمبئی میں ملاقات ہوئی تو لکھنؤ آنے کی دعوت دی۔ مولاناآزاد شبلی نعمانی کے تئیں بہت عقیدت رکھتے تھے اور ندوہ کے دارالعلوم کے تعلق سے بھی ان کے خیالات اچھے تھے۔ وہ لکھنؤ گئے اور شبلی نعمانی صاحب نے انھیں’ الندوہ‘کے مجلس ادارت میں شامل کرلیا۔ لیکن وہ وہاں رک نہیں سکے،محض چھ مہینے بعد ہی کلکتہ واپس آگئے۔نوجوانی میں قدم رکھتے بے باکاک اور باصلاحیت ابوالکلام کی شہرت ایسی تھی کہ امرتسر سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’وکیل‘ کے مالک شیخ غلام محمد نے انھیں ادارت کاپیغام بھیجا۔ 18-19سال کے اس نوجوان کی ایسی عزت افزائی؟وہ امرتسر گئے اور ’وکیل‘ کی ادارت کرنے لگے۔ کچھ ہی دنوں میں وکیل ہفتے میں تین دن پابندی سے شائع ہونے لگا ۔ اخبار کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی وقت انھیں یہ افسوس ناک خبر ملی کہ ان کے بڑے بھائی ابولنصر آہ کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اس کا ان کے دل پر گہرا اثر ہوا۔وہ بھاگے بھاگے کلکتہ آئے۔ والد خیرالدین صاحب جوان بیٹے کی موت سے بری طرح صدمے میں تھے۔ ایسے میں ابوالکلام کے تعلق سے وہ مزید حساس ہوگئے۔ ابوالکلام کو بھی محسوس ہوا کہ اس حال میں والد کو چھوڑ کرجانا مناسب نہیں۔کچھ دنوں کے لیے کلکتہ ہی میں وہ ہفت روزہ ’دارالسلطنت‘سے وابستہ ہوگئے۔لیکن اس کے مالک قدامت پرست تھے اور وہ مسلمانوں میں اصلاحی تحریک چلانے،تحریک آزادی اور بین الاقوامی سیاسی سرگرمیوں سے متعلق تحریروں سے پرہیز کرتے تھے۔ ظاہر ہے ایسے اخبار سے ابوالکلام آزاد کی بھلاکہاں تک بنتی؟ انھوں نے وقت ضائع کیے بغیر اس سے راہ الگ کرلیا۔
خیرالدین اپنے بڑے بیٹے کو اپنا مذہبی جانشیں بناناچاہتے تھے، اس کی بے وقت موت سے دکھی والد کولگا کہ ابوالکلام اس ذمہ داری کو قبول کرلے لیکن ان کی راہ کچھ مختلف معلوم ہوتی تھی۔ والد نے1907میں ان کا نکاح اپنے دوست مولوی آفتاب الدین کی چھوٹی بیٹی زلیخابیگم سے کردیا۔ ابوالکلام کی شہرت ایک مدیر اور قلم کارکے طور پر بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ہفت روزہ وکیل کے مالک کو جیسے ہی خبر ملی کہ و ’دارالسلطنت‘ سے الگ ہوگئے ہیں، انھیں پھر مدعو کیا۔ ابوالکلام نے بھی اسے قبو ل کرلیااور وہ پھر امرتسر چلے گئے۔ اب ان کے سیاسی شور میں تبدیلی آنے لگی تھی اور وہ ملک کی آزادی کے تعلق سے سنجیدہ ہوگئے تھے۔وہ صحافت کے ذریعہ بے باک اور سرگرم کردار ادا کرنا چاہتے تھے لیکن’وکیل‘ اتنی دور چلنے پرراضی نہیں تھا۔انھوں نے جولائی 1908میں اسے چھوڑ دیااور بغرض تفریح اپنی بہن آبروبیگم کے پاس بھوپال چلے گئے۔پھر وہ پونا گئے جہاں انھیں فرحت کا احساس ہوا۔ اسی درمیان والد کی بیماری کی اطلاع ملی اور وہ کلکتہ آگئے۔ والد سے آخری ملاقات تو ہوئی مگر دوسرے ہی دن16اگست1908کو ان کا انتقال ہوگیا۔اب ابوالکلام تمام بندشوں سے مکمل طور پر آزاد ہوگئے تھے۔
وہ مصر،ترکی اور عراق کے سفر پر نکل گئے۔اس سے پہلے ان کا رشتہ بنگال انقلابی رہنما شیام سندرچکرورتی سے قائم ہوچکا تھا اور وہ مسلمانوں کو جنگ آزادی سے وابستہ کرنے کاعہد بھی کر چکے تھے۔اس سفر کے دوران ان کی ملاقات عراقی انقلابی نوجوانوں، مصطفی کمال پاشاکے متبعین اور کئی ترک نوجوان رہنمائوں سے ہوئی۔ ان سبھی کا خیال تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ وہ حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ وہ کیسے انگریزوں کے ماتحت رہنے کا فیصلہ کررہے ہیں؟ وہ لوٹ کر بنگال میں گھوم گھوم کر تقریر کرنے لگے اور مسلمانوں سے اپیل کرتے کہ وہ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں شریک ہوں۔مولاناسیدسلیمان ندوی نے 26-28مارچ1910کو منعقدہ ندوۃ العلما کے سالانہ جلسے میں ابوالکلام کے جامع خطبے کی بہت تعریف کی ہے۔ 1905میں تقسیم بنگال سے جو تحریک جاری تھی اسے طول دینے اورفیصلے سے خوف زدہ حکومت نے1911میں تقسیم کو کالعدم قرار دیا۔یہ عوامی مزاحمت کی بڑی فتح تھی۔ اس سے ابوالکلام بھی بہت خوش ہوئے۔ اب انھیں محسوس ہوا کہ انھیں اپنا اخبار نکالنا چاہیے۔
انھوں نے 1912میں اپنے مشہور ہفت روزہ اردواخبار’الہلال‘ کااجرا کیا،جس نے اردو صحافت کی تاریخ میں ایک انقلابی باب کا اضافہ کردیا۔یہ اخبار غیرمعمولی طور پر مقبول ہوا۔ ابوالکلام کا پرزور اسلوب اور شعریت سے لبریز رواں نثر کازبردست اثر پڑا۔ تحریک آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری کے تعلق سے ’الہلال ‘کا کردار تاریخ میںلاثانی ثابت ہوا۔اس کو مسحورکن انداز، شاعرانہ نثر اورپرزور افکار کا ایسا اثر ہوا کہ لوگوں میں کھلبلی مچ گئی۔ دہائیوں سے جاری سرسید احمد کی ہدایت پھیکی پڑنے لگی۔ بدرالدین طیب، علامہ شبلی نعمانی یا حسرت موہانی جس آواز کو مسلم قوم تک لے جانے کے مشکل کام میں مصروف تھے، اسے ’الہلال‘ نے منزل تک پہنچا دیا۔ اب مسلم قوم کے اندر ایک نئی بیداری آگئی تھی جو تحریک خلافت اورتحریک عدم تعاون میں مجسم ہوکر سامنے آئی۔ یہ مسلم قوم کے اندر ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابوالکلام آزاد کو سرسیداحمد کے بعد مسلم قوم کا سب سے بڑارہنما ماناجاتا ہے۔ انھوں نے مسلم قوم میں نشاۃ ثانیہ کے جو جذبات اور افکار پیدا کیے اس نے تاریخ کی لہر کو موڑ دیا۔
ہفت روزہ ’الہلال‘ کا پہلا شمارہ 13جولائی1912کو شائع ہوا۔ اس کی ہیئت، سائز، مواداور پیش کش بالکل نئی تھی۔اس میں لیتھو کے بجائے ٹائپ کا استعمال ہوا تھا۔فنکارانہ دلچسپی کے نظریے سے اس کی پہچان ہی علیحدہ تھی۔ اس شمارے میں مصر، ترکی، بلقان اور طرابلس کی باتیں تھیں۔ دراصل مولاناابوالکلام ہندوستانی مسلم قوم کو بین الاقوامی دینا سے جوڑ کر اس کی سوچ کو وسیع کرناچاہتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے ہندوستانی مسلم سماج کے مسائل پر مواد شائع کرنا شروع کیا اور دھیرے دھیرے اپنے سیاسی عزائم کا اظہار بھی کرنے لگے۔ان کی درخواست پر سید سلیمان ندوی جو علامہ شبلی نعمانی کے شاگردخاص تھے ’الہلال‘ سے وابستہ ہوگئے۔ اسی درمیان کانپور مسجد کا حادثہ ہواجس پر ’الہلال‘ نے کئی فکرانگیز مضامین شائع کیے۔ان کا مقصد صاف تھا: ’’الہلال بھی ایک دعوت ہے جس کے تمام اغراض و مقاصد اور اصول و فروغ کا نقطہ وحید صرف اس دین الٰہی کی تجدید اور اس کے اصول بنیادی’’الامربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘زندہ کرنا ہے۔‘‘4؎ آپ غور کیجیے دین الٰہی کو نئی صورت میں ڈھالناہی نشاۃ ثانیہ ہے۔وہ اتنے باشعور اور باخبر تھے کہ انھیں دین الٰہی کو بدلنا نہیں بلکہ اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی صورت میں پیش کرنا تھا۔
جب حسرت موہانی کے ’اردوئے معلی‘ سے تین ہزار کی ضمانت طلب کی گئی تو ابوالکلام تڑپ اٹھے اور انھوں نے اداریہ لکھ کر اس کی پر زور مخالفت کی۔ وہ جانتے تھے کہ ’الہلال‘ کے سامنے بھی یہ مصیبت آنے والی ہے، اس لیے انھوں نے قارئین سے اپیل کرکے پہلے ہی ضمانت کی رقم اکٹھا کرلی تھی۔ یہی ہوا بھی اور 18ستمبر1913کو ان سے بھی زرضمانت کا طلب کیا گیا۔ اس کی خبر ملتے ہی قارئین کے منی آرڈر آنے لگے،جنھیں وہ شکریہ کے ساتھ واپس کرتے گئے۔ آپ غور کیجیے کہ انگریزوں کے اشارے پر قائم کی گئی مسلم لیگ سے الگ جو لوگ مسلم سماج کو بیدار کررہے تھے اور اسے تحریک آزادی سے جوڑ رہے تھے ،حکومت انھی کے خلاف سختی برت رہی تھی۔ ابوالکلام آزاد نے اس سے نبردآزماہونے کے لیے سریندرناتھ بنرجی اوراخبار’امرت بازار‘ کے مدیرموتی لال گھوش سے مل کر انڈین پریس ایسوسی ایشن کے بارے میں بات کی۔ اس کے تنظیمی ڈھانچے کا خاکہ بھی پیش کیا۔ ’’جو عام اور وسیع ہو۔ جس میں بدبختانہ اور نامبارک تفریق نہ ہوجومسلمانوں کے سوال کی صورت میں ہر جگہ پیدا کی جاتی ہے،جس میں ملک کے ہر حصہ سے ارباب مطابع و جرائد شریک ہوں۔۔۔پھر اس کا ایک مرکزی مقام ہو اور اس کی شاخیں تمام صوبوں میں قائم ہوجائیں۔ ‘‘5؎ انھوں نے 2اکتوبر1913کو ایک اجلاس طلب کیا اور سریندرناتھ بنرجی کی صدارت میں ایک کمیٹی بنالی۔ سیاسی سمت میں یہ ان کی بڑھتی سرگرمی تھی۔
1947میں جب عالمی جنگ شروع ہوئی تو ’الہلال‘ نے روزنامہ اخبار نکالنا شروع کیا جو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ اس میں جنگ سے متعلق واقعات ، خبریں اور مضامین ہوتے تھے۔ وہ مسلسل غیرملکی حکومت کے مظالم اور ناانصافی اور اس کی حیات مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرتے تھے۔ ظاہر ہے یہ باتیں حکومت کو کھٹکنے لگی تھیں۔ انگریزوں کے حامی اخبار’پانیئر‘ نے تو ابوالکلام کے خلاف مورچہ ہی کھول دیا تھا اور حکومت کو کارروائی کے لیے اکسا بھی رہا تھا۔ آخر14اور 21 اکتوبر1914کے مشترکہ شمارے کو ضبط کرکے انگریزوں نے ’الہلال‘ کی زرضمانت دوہزار روپے بھی ضبط کر لی۔اس کی خبرابوالکلام آزاد کو سفر کے دوران ملی۔ اس دور میں وہ غالب کی غیرمطبوعہ شاعری اور نثری تخلیقات کو پہلی مرتبہ ’الہلال‘ میں شائع کررہے تھے۔ اس پر ان کے لکھے تبصرے بھی بہت اہم ہیں۔ظاہرہے حکومت ’الہلال‘ کو بند کرنے پر آمادہ تھی اور ’الہلال‘ بند ہوگیا۔
مولاناابوالکلام نے اس وقت کا استعمال قرآن کے ترجمے میں کیا۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ قرآن شریف کے اصل جذبے کی تشریح کریں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عظیم اسلامی عالم شاہ ولی اللہ کی نامکمل سوانح کا کام بھی مکمل کرلیا۔ پھر انھیں محسوس ہوا کہ قومی آزادی کاکام ناقص رہ جائے گا۔ وہ پھر کسی اخبار کی اشاعت کے منصوبے میں لگے رہے اور 12نومبر1915 کو ’البلاغ‘ جاری کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تمام دشواریوں کے درمیان جیسے تیسے 31مارچ 1916 تک انھوں نے اسے شائع کیا۔ برطانوی حکومت کی شاطر نگاہ ان پر تھی اور آخرکار ڈیفنس ایکٹ3-کے تحت انھیں بنگال چھوڑنے کا حکم سنا دیا گیا۔ بہار کے علاوہ کئی صوبائی حکومتوں نے ان کے داخلے پرپابندی کا حکم جاری کردیا تھا۔لہٰذا وہ رانچی میں مورآبادی گاؤں میں آکر ٹھہرے۔ پولس انتظامیہ نے یہاں ان کی تلاشی لی، متعدد کتابیں اور کاغذات اپنے ساتھ لے گئی اور نظربندی کا حکم بھی سنا گئی۔ لیکن اس سے ان کی سرگرمی پر روک نہیں لگی۔ نظربندی کے دوران ہی انھوں نے رانچی میں’انجمن اسلامیہ‘ کی بنیاد رکھی۔
تحریک خلافت کی وجہ سے ہندمسلم اتحاداپنے عروج پر تھا۔ یہ بات برطانوی حکومت کو راس نہیں آرہی تھی۔ مسجدوں میں غیر مسلموں کے داخلے کے حکم امتناعی کو پامال کرتے ہوئے سوامی شردھانند نے جامع مسجد میں تقریر کی۔ انگریزوں نے اس کے خلاف انتہاپسندوں کو اکسایا تو اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مولاناابوالکلام آزاد نے اسی معاملے پر مئی جون1919کے ’معارف‘ میں اپنا مشہور مضمون ’جامع الشواہد فی دخول غیرالمسلم فی المساجد‘ شائع کیاجس میں انھوں نے شواہد اور دلائل کے ساتھ اس اعتراض کی مخالفت کی کہ مسجدوں میں غیرمسلموں کا جاناممنوع ہے۔وہ انتہاپسندوں کی سوچ، قرآن کی غلط تعبیرات اورانگریزوں کی امتیاز والی بنیاد سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر معاصر سیاق اور تقاضوں کی رونیی میں قرآن شریف کا ترجمہ اور نئی تشریح کررہے تھے۔ اس بات کو وہ شدت سے محسوس کررہے تھے کہ وقت اورحالات کے مطابق تشریح سے قوم پر انتہاپسندوں کے بڑھتے اثر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
27دسمبر1919کو مولاناآزاد کو رہاکیا گیا۔ چار برسوں میں ہندوستان کی سیاسی سرگرمیں میں زیادہ تیزی آئی تھی اور پہلی عالمی جنگ ختم ہوتے ہی انگریز اپنی من مانی کرنے لگے۔ ہندوستانیوں کی قربانی کا صلہ یہ دیا کہ رولٹ ایکٹ نافذ کردیا جس کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہونے لگے۔اسی وقت جلیاں والاباغ قتل عام کا سانحہ ہوا۔ انھوں نے سب سے پہلے 18جنوری1920کو گاندھی جی سے ملاقات کی۔ ملاقات ضرور پہلی تھی لیکن دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے اور گاندھی جی نے نظربندی کے دوران ملنے کی کوشش بھی کیتھی،لیکن حکومت بہار نے منع کردیا تھا۔مولاناآزاد نے گاندھی جی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ایک نمائندہ وفد وائسراے سے ملے اور خلافت اور ترکی کے متعلق ہندوستانے مسلمانوں کے جذبات سے انھیں آگاہ کرے۔ گاندھی جی بخوشی راضی ہوگئے۔ 20جنوری1920کو دلی میں منعقدہ ایک اجلاس میں لاک مانیہ تلک اور مہاتماگاندھی نے اس مسئلے پر جذبات ِمسلم کی حمایت کی۔ مولاناآزاد نے درخواست پر دستخط تو کردیے تھے،لیکن وہ ملنے نہیں گئے۔ ویسے بھی وائسراے نے اس پر غور کرنے سے منع کردیا تھا۔
آخرکانگریس نے عدم تعاون کی تجویز پاس کردی اور مولاناآزاد دوسرے رہنماؤں کی طرح ملک میں گھوم گھوم کر اسے کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔یہ ان کی براہ راست سیاسی سرگرمی کا ایک نیا باب تھا۔ مولاناآزاد کی جامع تقریروں کا زبردست اثر پڑرہا تھا اور عوام میں ایک نئی بیداری پیدا ہورہی تھی۔ان کی زوردار تقریریں سامعین کو متحرک کردیتی تھیں۔ انھوں نے 25-26جون 1921کو جمیعۃ العلما بہار کے اجلاس کی صدارت کی۔پھر25اگست 1921 کوآگرہ میں خطاب کیا۔ اس میں وہ اسلام اور قرآن میں راسخ عقیدہ کے ساتھ مسلمانوں کو سیاسی طور پر بیدار ہونے کی اپیل کر رہے تھے۔ انھوں نے انگریزوں سے ملک کی آزادی کی بات دہرائی اور اس کے لیے ہندومسلم اتحادپر بطور خاص زور دیا۔ ملک میں آزادی میں ان کی شرکت کو فرمان خداوندی قرار دیا۔قرآن کا سبق یاددلایا۔ ظلم کی مخالفت اورآزادی کی جنگ قرآن کاحکم ہے۔ کانگریس سے وابستہ ہوتے ہی ان کی سیاسی سرگرمی بہت تیزی سے بڑھی۔ وہ لاہور، بمبئی، کلکتہ،غرض جگہ جگہ جاتے اور لوگوں کو اپنی غیرمعمولی خطابت سے سحرزدہ کردیتے۔ لوگ ان کی تقریر سننے کو ہمیشہ تیار رہتے۔
مولاناآزاد کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی ان کی شفافیت تھی۔ وہ اندرباہر سے پاک صاف تھے،اس لیے ان کی آواز میں غضب کی خوداعتمادی اور جادوتھا۔ ان کے بولنے کا انداز بھی علیحدہ تھا۔ ان کے جذبات و خیالات میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں تھا۔ ’’تحریک خلافت کے لیے سب سے پہلے خود ہندوستان کا میدان تھا،خود مسلمانوں کا میدان تھا، ہندوستان میں بسنے والی قوموں کا میدان تھا۔‘‘ پھر وہ آگے کہتے ہیں:’جب دنیا کی آنکھ کھلی تو اس نے محسوس کیا کہ یہ کسی محدودجماعت کی تحریک نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا متفقہ مسئلہ ہے۔‘‘یہ پہلا میدان تھا جو تحریک خلافت کو پیش آیا اور اس کو کامیابی کے ساتھ اس تحریک نے فتح کرلیا۔ان کے مطابق ان کی دوسری منزل یہ ہے کہ یہ تحریک کسی مخصوص طبقے کی نہیں ہے بلکہ اس قومی تحریک کی شکل میں آچکی ہے ۔ سات کروڑ مسلمانوں کی نہیں بلکہ 32کروڑ ہندوستانیوں کی تحریک بن چکی ہے۔ آگے وہ آگاہ کرتے ہیں کہ ’’ہرتحریک کی کامیابی ایمان اور عمل کی طاقت پرموقوف ہے۔‘‘6؎مسلمان جنگ آزادی میں حصہ لینے میں تامل کا اظہار کررہے تھے۔ وہ مسلم قوم میں مسلسل جوش اور خوداعتمادی پیدا کررہے تھے:’’مومنین! نہ تو ہراساں ہوں،نہ غمگین ہوں۔تمھیں سب پر غالب ہوگے اگر سچا ایمان اپنے اندر پیدا کرلو۔ ہماری کاتمام فتح مندیوں کی بنیاد چار سچائیوں پر ہے اور میں اس وقت بھی ملک ہر باشندے کو انھیں کی دعوت دیتا ہوں۔ ہندومسلم کاکامل اتفاق، امن ،نظم قربانی اور استقامت۔‘‘وہ کہتے ہیں:’’ مسلمانوں سے خاص طور پر التجاکروں گا کہ اپنے اسلامی شرف کو یاد رکھیں اور آزمائش کی اس فیصلہ کن گھڑی میں اپنے تمام ہندوستانی بھائیوں سے آگے نکل جائیں۔اگر وہ پیچھے رہے تو اس کا وجودچالیس کروڑ مسلمانان عالم کے لیے شرم وذلت کا ایک دائمی دھبہ ہو گا۔‘‘7؎
وہ ہمیشہ مسلمانوں کے ایک سچے رہنما کی شکل میں سرگرم رہے۔اس دور میں جب انگریزوں نے ہندومسلم تنازعہ کو کارگر ہتھیار بنالیا تھا مولاناآزاد ایک درویش کی طرح روشن راہ دکھا رہے تھے۔اسلام کے راہ راست کا دوسرا بڑا عالم ان کے سوا کون تھا؟ جس نے بھی ’ترجمان القرآن‘ پڑھا ہے وہ اس بات کی تصدیق کرے گا۔
پورے ملک میںرہنمائوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔مولاناآزاد 10دسمبر1921کو گرفتار ہوئے اور دیش بندھو بھی۔انھیں چھ مہنے کی سزا ہوئی اور مولاناآزاد کو ایک برس کی۔ اس وقت مولانا آزاد نے ایک تحریری بیان دیاتھا جو آج ’قول فیصل‘ کے نام سے تاریخ کا دستاویز بن چکا ہے۔ ’’مسٹرمجسٹریٹ!اب میں اورزیادہ کورٹ کاوقت نہ لوں گا۔یہ تاریخ کاایک دلچسپ اور عبرت ناک باب ہے جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ہمارے حصے میں مجرموں کا کٹہرا آیا ہے،تمھارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے جس قدر یہ کٹہرا۔ آؤ اس یادگار اور افسانہ بننے والے اس کام کو جلد ختم کردیں۔ مؤرخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہاہے۔ ہمیںجلد جلدیہاں آنے دواور تم بھی جلدجلد فیصلے لکھتے رہو۔ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا۔یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ خداکے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہوگا۔‘‘(پرسیڈنسی جیل، علی پور کلکتہ11جنوری1922) 8؎مہاتما گاندھی نے ’ینگ انڈیا‘ میں لکھا کہ اس سے پرزور، پُرصداقت اور بے باک کسی ستیہ گرہی کا نہیں ہوگا۔ آپ اس میں خداکے عد ل پریقین کامل اور اس سے پیداشدہ غیرمعمولی خوداعتمادی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔بلاشبہ ایسے فولادی عزم والوں نے ہی ہماری تاریخ بنائی ہے اور ہمیں ایک عظیم وراثت سونپ گئے ہیں۔
ہرمقدمے اور سزا کا ایک اورپہلو زلیخا بیگم کا مہاتماگاندھی کو بھیجا گیا خط تھا۔ اس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا:’’انھیں صرف ایک سال کی قیدسخت کی سزا دی گئی۔یہ اس سے بدرجہا کم ہے جس کے سننے کے لیے ہم تیار تھے۔اگر سزا اور قید قومی خدمات کا معاوضہ ہے تو آپ تسلیم کریں گے کہ اس معاملے میں بھی ان کے ساتھ سخت ناانصافی برتی گئی ۔یہ تو اس سے بہت کم ہے جس کے وہ مستحق تھے۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں:’’بنگال میں جو جگہ ان کی خدمات کی خالی ہوئی ہے ان کے لیے میں نے اپنی ناچیز خدمات پیش کردی ہیں اور وہ تمام کام بدستور جاری رہیں گے جو ان کی موجودگی میں انجام پاتے تھے۔‘‘9؎آپ اس عہد، اس عہد کے افراد، ان کے جذبات اور ایثار کا تصور کرسکتے ہیں۔ متعدد بڑے رہنمائوں کے ساتھ تقریباًپچیس ہزار ستیہ گرہی جیل میں تھے۔ اس سال کانگریس کا سالانہ اجلاس احمدآبادمیں حکیم اجمل خاں کی صدارت میں ہوا۔ لیکن چوری چورا حادثے کے بعد گاندھی جی نے تمام بڑے رہنماؤں سے صلاح و مشورہ کیے بغیر تحریک واپس لے لی۔ بے شک مہاتما گاندھی عظیم تھے،یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ ان میں جمہوری اقدار کی کمی تھی۔ ان کی شخصیت پرستی جب جب نمایاں ہوئی اس کے نتائج ناموافق اور نقصان دہ ہوئے۔ کوئی رہنماخواہ کتنا ہی بڑا ہومگر کوئی ملک،کوئی تحریک اور انقلابی اس کے ذاتی تجربے کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ گاندھی جی سے پہلے بھی ملک تھا، ان کے بعد بھی رہا مگر انھوں نے جس طرح پوری جنگ آزادی کوہی اپنے تجربہ گاہ کے آلات میں منتقل کردیا تھا وہ بالکل مناسب نہیں تھا۔ جواہرلال نہرو نے بھی اس فیصلے کی تنقیدکی اور حیرت کا اظہار کیا۔ اتنا ہی نہیں،اس کے بعد ہندوستان کی آزادی ہی طول نہیں کھینچی بلکہ بے عمل عوام کے اندر بھی انگریزوں اور انتہاپسندوں کو فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کا مناسب موقع مل گیااور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جس تشدد کے لیے گاندھی جی نے اچانک تحریک ختم کی تھی ،ا س سے کئی گنازیادہ تشدداسے ختم کرنے کی وجہ سے ہوا۔
مولاناآزاد 6جنوری1923کو ایک سال کی سزا کاٹ کر باہر آئے۔ اس سے پہلے گیا کے اجلاس میں ’سوراج پارٹی‘ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ ان دونوں جماعتوں نے مولانا آزاد کو اپنے ساتھ لانے کی کوششیں کیں۔ لیکن اتحاد کے پُرزورحامی مولاناآزاد نے اس گروہ بندی سے خود کوالگ رکھا۔ نتیجتاً دونوں جماعتوں نے اگست1923 کوبمبئی میں ہونے والے کانگریس اجلاس کی صدارت کے لیے مولاناآزاد ہی کو منتخب کیا۔محض35برس کی عمر میں صدارت کرنے والے مولاناآزاد اس وقت تک کی کانگریس تاریخ میں سب سے کم عمر صدر ہوئے۔ انھوں نے اپنے خطبے میں معاصر قومی اور بین الاقوامی مسائل کا سنجیدہ تجزیہ اور اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ پھر انھوں نے ترکوں کی عظیم فتح،مشرق،عرب اور وسط ایشیا کے حالات کے ساتھ قومی مزاحمت،عدم تشدد، عدم تعاون اور قومیت کے مختلف پہلوؤں پر بہت ہی پرمغز اور سنجیدہ خطبہ دیا۔ مخالف جماعتوں کے لیے انھوں نے ایک بنیادی راہ بھی دکھائی کہ دونوں اپنی اپنی راہ پر ہی چلیں ،لیکن کانگریس میں رہ کر اس کا اتحاد بحال رکھیں تو کوئی بری بات نہیں۔ اس عمر میں بھی بالیدہ،فکرانگیز اور دانشورانہ باتوں سے انھیں پورے ملک میں غیرمعمولی عزت حاصل ہوئی۔
مولاناآزاد کی سرگرمی کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔وہ علی گڑھ تحریک سے الگ قائم شدہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بھی وابستہ رہے۔انھوں نے ترغیب اور تعاون دے کر مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی کی ادارت میں عربی ماہنامہ ’الجامعہ‘ کی اشاعت کلکتہ سے یکم اپریل1923کو شروع کی۔ وہ عرب دنیا سے وابستہ ہوکر ہندوستان کی تحریک آزادی کی حمایت چاہتے تھے۔دوسری بات یہ کہ جمال الدین افغانی کے پان اسلام ازم کے وہ حامی تھے۔ یہ رسالہ تحریک خلافت کی کھل کر حمایت کرتا تھا۔ لیکن مارچ1924کو اس کا آخری شمارہ شائع ہوکر بندہوگیا۔اسی وقت اسمبلی اور کونسل کے لیے کانگریسی امیدواربن فضا بنانے لگے۔ اس کا بہت نقصان دہ نتیجہ سامنے آیا۔ہندومسلم فاصلہ اور عدم اعتمادی میں اضافہ ہونے لگا اور ملتوی تحریک عدم تعاون سے بے کار بیٹھے عوام کو آپس میں لڑنے کا موقع مل گیا۔ فرقہ پرست تنظیموں کے مضبوط ہونے سے باہمی تصادم کے واقعات تیزی سے بڑھے۔ آپسی امتیاز اور افتراق کے واقعات عام ہوگئے۔ ہندومسلم اتحاد پر مولانا بہت بے باک ہوکر بولتے، لیکن اس عہد کے خلفشار میں ان کی آواز بھی بے اثر معلوم ہونے لگی۔ اس کے باوجود وہ اس مہم میںمصروف رہے۔ 27-29جون1924کو احمدآباد میں منعقدہ کانگریس اور جمیعۃ العلما ہند کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے ہندومسلم اتحاد پر زوردار تقریر کی۔
مولانا کے اندر ’الہلال‘ بند ہونے کی کسک باقی تھی جو وقتاً فوقتاً زور مارتی اور وہ بے چین ہوجاتے۔ آخر انھوں نے بڑی جدوجہد کے بعد 10جون1927کو ’الہلال ثانی‘ نام سے دوبارہ شائع کرنا شروع کیا۔ یہ ان کی شخصیت کی جرأت اور ناقابل تسخیر جذبے کا ثبوت تھا۔یہ اخبار بھی محض چھ مہینے نکل کر 9دسمبر1927کو بند ہوگیا۔مولانا آزاد نے ہندومسلم اتحاد کو ایک مہم کی طرح اخذ کیا تھااور وہ اس پر مستقل زور دے رہے تھے۔اس مسئلے پر غوروفکر کے لیے کانگریس نے 29اکتوبر1927کو کلکتے میں جو اجلاس طلب کیا تھااس کی صدارت شری نواس آینگر نے کی، لیکن وہ خرابیِ صحت کی وجہ سے درمیان میں ہی اٹھ کر چلے گئے تو مولانا آزاد ہی کویہ ذمہ داری ادا کرنی پڑی۔ اس میں سبھاش چندربوس، محمدعلی، مختارانصاری اورمولاناآزاد نے ہندومسلم اتحاد پر بہت ہی مؤثر لیکچر دیے۔
1928میں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے لیے پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہورہے تھے۔ مولانا آزادنے دلی، امرتسر، لاہور، راولپنڈی کے علاوہ مختلف شہروں میں اس کے خلاف تقریریں کیں۔ اسی برس مسلمانوں کا ایک طبقہ نہرو رپورٹ کی سخت مخالفت کررہا تھا ، مولانا آزاد نے اس کی حمایت میں اپنی آواز بلندکی۔انھوں نے کہا کہ وہ خود اس کے بعض نکات سے اتفاق نہیں رکھتے لیکن بحث و مباحثے کے بعد اس میں ترمیم و اضافے کی کافی گنجائش ہے،اس لیے اختلاف براے اختلاف درست نہیں۔25دسمبر1929 کو کانگریس کے ایک اجلاس میں جب جواہرلال نہرو نے مکمل آزادی کی تجویز پیش کی تومولاناآزاد وہاں موجود تھے۔ برطانوی حکومت نے اسے خارج کردیا۔ پھر 1930میں گاندھی جی کے نمک آندولن میں بھی مولانا آزادنے ساتھ دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ انگریزوں نے اسے بھی خارج کردیا۔
1934کے آخری مہینوں میں مولاناآزاد نے بالی گنج کلکتہ کی جامع مسجد کے نمازجمعہ کی امامت قبول کی۔اس کے بعد خطبوں کا سلسلہ شروع ہوا۔وہ اجتماعی زندگی کے اعمال،امتیازات اور خصائل پر زور دیتے اور قوم کو بھٹکانے والی چیزوں سے آگاہ کرتے۔ایک خطبے میں انھوں نے کہا:’’کاش مجھ میں ایسی قوت ہوتی یا وہ شے موجود ہوتی جس کی مددسے میں تمھارے مقفل قلوب کے پٹ کھول سکتاتاکہ میری ٓواز تمھارے کانوں میں نہیں تمھارے دل میں سما سکتی اور تم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے۔‘‘10؎ آپ ان کی بے چینی کا اندازہ کیجیے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم قوم کے دل میں قرآن کی حقیقت اتر جائے۔ وہ حقیقت جسے وہ سمجھتے تھے۔ آدمی سچائی سے روبرو ہوجائے۔ انھیں اس بات کا ملال بھی رہتا تھا کہ لوگ ان کی باتوں کو سن اورسمجھ نہیں رہے ہیں۔ 22دسمبر1937کو غلام رسول مہر کو لکھے خط میں انھوں نے کہا بھی کہ افسوس ہے کہ زمانہ ان کے دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہیں کرسکا۔ اس دوران کے پیر کی رگوں میں تکلیف تھی اور وہ کافی پریشان رہے، مگر انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
3سمبر1939کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز کی وجہ سے پورے ملک میں اندیشہ، خوف اور کشمکش کی حالت تھی۔ گاندھی جی چاہتے تھے ایسے نازک حالات میں وہ دوبارہ کانگریس کی صدارت قبول کرلیں۔ ظاہر ہے وہ گاندھی جی کے اعتماد اور حکم کو ٹال نہیں سکتے تھے۔ 15 جنوری 1940کو مشہور کمیونسٹ مفکر ایم۔این۔راے سے وہ جیتے اور کانگریس کے صدر بن گئے۔ عالمی جنگ میں ہندوستان کے شامل ہونے ،نہ ہونے پر کانگریس منقسم ہوگئی تھی اور دونوں جماعت سیاست کرنے میں لگی تھی۔ مولانا آزادبے حد پریشان تھے اور انھیں عمداً پریشان کیابھی جارہا تھا۔ گاندھی جی جنگ میں شامل ہونے کے سخت خلاف تھے۔ نہروجی،سردارپٹیل، راج گوپال آچاریہ، خان عبدالغفارخان مولاناآزاد کی حمایت میں تھے کہ ہندوستان کو ہر حال میں جنگ میں شرکت کرنی چاہیے اور اپنی قومی تحریک میںآزادی کی حکمت عملی کو کامیاب بنانے میں لگ جانا چاہیے۔ اسی دوران 27مارچ1940کو کانگریس کا 53واں اجلاس رام گڑھ میں ہوا جس میں مولاناآزاد کی صدارتی تقریر آج آزادی کے نایاب دستاویز میں شمار ہوتی ہے۔ یہ ان تاریخی خطبوں میں شامل ہے جومولانا آزادکی شخصیت اور فکرکے بلند معیار کے ثبوت ہیں۔
خوداعتمادی، بے باکی اور بے لاگ لپیٹ والی بلند آہنگی ان کی تقریر کے لازمی عناصر رہے۔ انھوں نے تقسیم ہندو پاک کے اس پراشتعال ماحول میں بھی اپنی بات بڑی بے باکی سے رکھی:’’ہندوستانی کے سیاسی مسائل میں کوئی بات بھی اتنی غلط نہیں سمجھ گئی جتنی یہ بات کہ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اقلیت ہیں،اور ا س وجہ سے انھیں جمہوریۂ ہند میں اپنے حقوق اور ترقی میں شک کرنا چاہیے۔ اس ایک بنیادی غلطی نے بے شمار غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ غلط بنیادوں پر غلط دیواریں چنی جانے لگیں۔‘‘ آپ ان کی عظمت کا اندازہ لگائیے۔اس میں کہیں ہندو فرقہ وارانہ رہنمائوں یا سیاست کی بات نہیں ہے۔لیکن ان کے زہریلے اثر کا زبردست جواب ہے۔ وہ ڈھکی چھپی بات نہیں کرتے بلکہ ببانگ دہل کرتے ہیں:’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم ، اسلام کی تاریخ، اسلامی علوم و فنون،اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔‘‘ شخصیت کی ایسی بے باکی اور پاکیزگی اس عہد میں بھی کم رہنماؤں میں ملتی ہے۔ اپنی شناخت اور شعور پر ناقابل تسخیراعتقاد ہی ان کی خوداعتمادی کی قوت تھی۔ لیکن اس کی اصل طاقت اس کے دوسرے بیش قیمت پہلوؤں میں ہے جسے وہ آگے واضح کرتے ہیں’’ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اوربھی احساس رکھتا ہوںکہ جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی ،وہ اس راہ میں رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا اہم عنصرہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ اس کی تکوین (بناوٹ)کا یک ناگزیرعامل ہوں۔ میں اپنے اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا۔‘‘یہ ایک غیرمعمولی اہمیت کی تقریر ہے۔ شخصی شناخت اورقومی شناخت کے اتحاد اور عروج کا ایسا اثردار ، پرجوش اور مسحورکن خطاب تحریک آزادی کے دستاویزوں میں بہت زیادہ نہیں ہے۔
انھوں نے اسی تقریر میں ہندوئوں کی اکثریت اور مسلمانوں کی اقلیت سے متعلق پھیلی اور پھیلائی گئی غلط فہمیوں پر مدلل اور منطقی طریقے سے اپنی بات رکھی اور اقلیت کے تصور ہی پر ضرب لگائی۔ ہندوئوں سے کم تعداد ہونے کے خیال سے جھجک رہی قوم کو انھوں نے تقریباً للکارتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ابھی تک دریا کے کنارے کھڑے ہیں گو تیرنا چاہتے ہیںمگر دریا میں اترتے نہیں۔ ان اندیشوں کاصرف ایک ہی علاج ہے۔ ہمیں دریا میں بے خوف وخطر کودجانا چاہیے۔ جونہی ہم نے ایسا کیا ہم معلوم کر لیں گے کہ ہمارے سارے اندیشے بے بنیاد تھے۔‘‘ان کی جرأت اور خود اعتمادی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے سوال کیا:’ہم ہندوستانی مسلمان ہندوستان کے آزاد مستقبل کو شک اور بے اعتمادی کی نظر سے دیکھتے ہیں یا خوداعتمادی اور ہمت کی نظر سے؟‘‘ وہ ببانگ دہل پورے حق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہمارے بغیر ہندوستان کی عظمت نامکمل ہے۔ حب الوطنی سے ایسالبالب احساس جو آج بھی قدم قدم پر حیرت میں ڈال دے۔ اس خطبے کو پڑھتے ہوئے بار بار ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہم فکروخیال کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں۔ مذہبی معاملے میں وہ خود کو ذرہ برابر بھی کم خیال نہیں کرتے تھے۔ ’’اگر ہندومذہب کئی ہزار برس سے اس سرزمین کے باشندوں کا مذہب رہا ہے تو اسلام بھی ایک ہزار برس سے اس کے باشندوں کا مذہب چلا آتا ہے۔جس طرح آج ایک ہندو فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہے اور ہندومذہب کا پیرو ہے،ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیںکہ ہم ہندوستانی ہیں اورمذہب اسلام کے پیرو ہیں۔میں اس دائرے کو اس سے زیادہوسیع کروں گا۔میں ہندوستانی مسیحی کابھی یہ حق تسلیم کروں گا کہ وہ آج سراٹھا کے کہہ سکتا ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اورباشندگان ہند کے ایک مذہب یعنی مسیحیت کا پیرو ہوں۔‘‘مولاناآزاد اپنی اس تقریر سے آپ میں احساس فخر بھر دیتے ہیں۔ ایک عظیم وراثت کا فخر! وہ تاریخ کی اس عظیم لہر اور رجحان کی بات کرتے ہیں جس میں’’ایک ہزار سال کی مشترکہ زندگی نے ایک متحدہ قومیت کاسانچہ ڈھال دیا ہے۔ایسے سانچے بنائے نہیں جاسکتے۔وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے صدیوں میں خود بخود بنا کرتے ہیں۔ اب یہ سانچہ ڈھل چکااور قسمت کی مہراس پر لگ چکی۔ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں۔‘‘11؎ یہ صرف ایک سوچ نہیں تھی بلکہ اندرونی احساس تھا۔’’ہماری جدوجہد کی بنیاد کا کیا حال ہے۔میرااشارہ ہندومسلم اتحاد کی طرف ہے۔یہ ہماری تعمیرات کی وہ پہلی اینٹ ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لیے ہوسکتی ہیں،محض خواب وخیال ہیں، صرف یہی نہیںہے کہ اس کے بغیرہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے۔ آج ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار کر کھڑے ہوکر اعلان کر دے کہ سوراج24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے ،بشرطیکہ ہندوستان ہندومسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے،تو میں سوراج سے دستبردار ہوجائوں گامگر اس سے دستبردار نہ ہوں گا،کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیرہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا، لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔‘‘(1923کانگریس کے خصوصی اجلاس کے صدارتی خطبہ کاحصہ)اس خطبے سے علم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں اتحاد کی کیا اہمیت ہے؟انھوں نے صاف صاف کہا:’’میں بلا کسی تامل کے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ آ ج ہمیں ہندوستان میں نہ کسی ہندو سنگٹھن کی ضرورت ہے نہ مسلم سنگٹھن کی،ہمیں صرف ایک سنگٹھن کی ضرورت ہے اور یہ ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ہے۔‘‘12؎ وہ بے باک فکر اور بے باک گفتگو کرنے والے رہنما تھے۔ آپ چاہیں تو مولاناآزاد کے اندر دھڑکتے ہندوستان کو محسوس کرسکتے ہیں۔
بے شک ان کی آواز ٹھیک سے سنی نہیں گئی گوکہ وہ بہت بلند تھی۔نوشتۂ تقدیر کی ان دیکھی کر دی گئی۔ وہ رہنما جو ایک فرشتہ تھا، اس نے وہ تمام کوششیں کیں جو وہ کرسکتا تھا۔ لیکن کبھی کبھی تاریخ کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ سبھی چیزیں روند کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ فکر و جذبہ کسی کام نہیں آتا۔ ہندستان کے اس دور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ شورش کشمیری نے لکھا ہے:’’ان کی پیٹھ پر خنجر گھونپے گئے، مسلمانوں نے انھیں اپنے نفرت کا واحد مرکز بنا لیا لیکن زبانوں کی آوارگی پر اف تک نہیں کی۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں:’’علی گڑھ سے لے کر سرینگر تک میں مسلم لیگ کے منچلوں نے ان کے خلاف طوفان اٹھایا۔ ملک کی سیاسی جدوجہد میں ایساکبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘13؎ لیکن انھوں نے یہی کہا کہ مخالفوں سے الجھنے والا آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرپاتا۔انھوں نے مخالفین کو پوری طرح نظرانداز کردیا۔ اپنے کام میں لگے رہے۔ مولاناآزاد اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ تاریخ میں ہمیشہ سچ کی فتح نہیں ہوتی، لیکن راہ حق پر چلنے والا اپنی راہ تو نہیں بدلتا؟وہ اسی راستے پر چلتا ہے خواہ انجام کچھ بھی ہو۔ مولاناآزاد نے بھی یہی کیا۔
وہ حالات کا جائزہ لینے پنجاب گئے تھے لیکن واپسی میں 13دسمبر1940کو الٰہ آباد میں دیے خطبے کے جرم میں گرفتار کرلیے گئے۔ 18مہینے کی سزا ہوئی اور وہ نینی جیل میں آگئے۔ دوسری جنگ عظیم اور تقسیم ہند وپاک کی ابتدا کے ساتھ تحریک آزادی بھی تیز ہوگئی۔ امریکہ کا برطانیہ پر دبائو بڑھ رہا تھا۔ برطانیہ نے نئی حکمت عملی اختیار کی اور تمام گرفتار رہنماؤں کو رہا کرنے لگا۔ 14دسمبر 1941 کو مولاناآزاد بھی رہاہوئے۔انھوں نے 5جنوری1942کو باردولی میں کانگریس کا اجلاس طلب کیا۔11مارچ1942کو کرپس کے آنے کی اطلاع ملی۔ وہ ہندوستان آکر عرصۂ جنگ کے لیے حکمت عملی تیار کریں گے اور جنگ کے بعد آزادی کے لیے برطانیہ کارروائی شروع کرے گا۔ مولاناآزاد 29مارچ1942کو کرپس سے ملے۔ مولانانے اس سے کافی سوالات پوچھے۔ دوسری ملاقات کے بعد وہ سمجھ گئے تھے کہ انگریز موجودہ عالمی جنگ میں ہندوستانیوں کو استعمال کریں گے اور بعد میں منھ پھیر لیں گے۔ انگریزوں کایہی کردار تھا۔ پھر وہ2اپریل کو ملے اور اس مسئلے پر غور وخوض کے لیے مجلس عاملہ کی میٹنگ بلائی۔بعد میں مولانا نے کرپس مشن کی ناکامی پر پریس کانفرنس کیا۔
پاکستانی نژاد مصنف محمداسحاق بھٹی نے مولاناآزادپر جو کتا ب لکھی ہے اس میں خود سے ہوئی جس بات کا حوالہ دیا ہے،وہ بالکل مختلف ہے۔ اس پر یقین کرنا بھی مشکل ہے۔ ان کے مطابق مولانا نے بات چیت میں فرمایا کہ انھوں نے لیاقت علی کو جاکر کہا کہ ’پورے پنجاب، پورے بنگال اورپورے آسام کا مطالبہ کرو، جہاں مسلمان اکثریت میں ہے۔اگر یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے تو تحریک شروع کرا، جس کا رخ برطانوی حکومت کی جانب بھی ہو اور کانگریس کی طرف بھی۔ گرفتاریاں دو اور تحریک اس وقت تک جاری رکھو جب تک مطالبہ منظور نہ ہوجائے۔ انگریز کسی ایک جماعت کو حکومت دے کر نہیں جائے گا۔مولانانے فرمایا،لیاقت علی راضی ہو گئے تھے لیکن آگے منوا نہ سکے۔‘اسی میں وہ آگے لکھتے ہیں:’’انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ کے جن بڑے رہنماؤں کا تعلق ہندوستان سے ہے ان کو اپنے ملک کی شہریت ختم نہیں کرنی چاہیے۔انھیں یہاں رہ کر مسلمانوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ان کی حفاظت اور خدمت کا صحیح وقت اب آیا ہے۔اتنا ہی نہیں بھٹی صاحب کو بات چیت میں مولانا نے یہاں تک کہا کہ انھوں نے کشمیر اورحیدرآباد کو آزاد چھوڑنے کی تجویز پیش کی تھی۔انھوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ جب انھوں نے پٹیل اور کرپلانی کو فرقہ پرست کہا تو مولانانے کہا’’ہندوستان میں کون فرقہ پرست نہیں ہے۔‘‘14؎
مجھے ایسی باتوں پر ذرا بھی بھروسہ نہیں۔ ایک تو مولانا بے باکی سے اپنی بات رکھنے کے لیے معروف تھے اور گاندھی یا نہرو کسی کے خلاف بولنے سے جھجکتے نہیں تھے۔دوسری بات یہ کہ وہ تقسیم ہند وپاک کے شدید مخالف اور لیگ کے سخت ناقد تھے ۔سردار پٹیل ان کے گہرے دوست تھے اور فیصلہ کن لمحات پر ان کے صدر نہ بننے دینے کی بھول کے لیے پشیماں تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ہندومسلم اتحاد کی باتیں زوردارطریقے سے کیں اور دونوں کو مل کر برطانوی حکومت سے لڑنے کی ترغیب دینے والے رہنما بنے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ باتیں مولاناآزاد کی پوری شخصیت کو مشکوک کرنے والی ہوجاتی ہے۔ ایسے میں صرف لکھنے والے کی ذاتی گفتگو کو تاریخی طور پر معتبر نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مولانا آزاد کو مشکوک بنانے کی یہ کوشش خود اسحاق بھٹی کو مشکوک بنادیتی ہے۔
5جولائی 1942کو وردھا میں کانگریس مجلس عاملہ کااجلاس ہوا،جس میں گاندھی جی کی تجویز ’بھارت چھوڑو‘ پر غوروخوض ہوا۔ 4اگست کو وہ بمبئی آئے،تین چار دن تک اجلاس میں مصروف رہے اور فوراً 9اگست کوچھٹی مرتبہ گرفتار کرلیے گئے۔ سبھی احمدنگر جیل میں تھے،جہاں 7فروری کو زلیخا بیگم (بیوی)کی بیماری کی اطلاع ملی۔23کو حالت نازک ہونے کی خبر ملی۔ جیل ہی میں انھیں یہ بھی خبر ملی کہ19اپریل کو ان کاانتقال ہوگیا۔ جیل کی چہار دیواری میں رہ رہ کر بے چین کرتی یادیں پریشان کرتی رہیں۔مولانا سب کچھ ایک جان لیوا خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ انھوں نے ’غبارخاطر‘ میں ان کے ساتھ اپنے رشتوں کی اور آخری وقت ان سے رخصت ہونے کی دلکش تصویر پیش کی ہے۔ آخر میں وہ لکھتے ہیں:’’ہمارے چھتیس برس کی ازدواجی زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور ہم دونوں کے درمیان موت کی دیوار کھڑی ہوگئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے، لیکن اس دیوار کی اوٹ سے۔‘‘
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم نشاۃ ثانیہ میں سرسیداحمد کے بعد مولاناابوالکلام آزاد سب سے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ان کی شخصیت جتنی عظیم تھی اتنی ہی عمیق بھی تھی ۔ان کی حیات اور خدمات سے گزرتے ہوئے آپ کو باربار کسی سمندر میں بھٹکنے کا احساس ہوگا۔ ان کی تخلیقات اور سرگرمیوں کا دائرہ اتنا وسیع اور رنگارنگ رہا ہے کہ اختصار میں اس کا مناسب تجزیہ ممکن نہیں۔ زندگی اور سماج کے اتنے اطراف میں ان کا دخل تھا کہ یقین کرنا مشکل ہوجائے۔ یہ تلاش ایک دلچسپ جوش سے بھر دیتے ہے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جو ان کی شخصیت کو اتنا پُرجلال اور ان کے کارناموں ایسا غیرمعمولی بنا گئی۔ اگر ہم ان کی ایک ایک تخلیقی خدمات کو شعوری طور پر بیان کرنا شروع کریں تو ترجمان القرآن پر آکر ٹھٹک جاتے ہیں۔ ان کی مسحور کن زبان اور شخصیت کا جادوئی اثر تو ان کی ہر تخلیق اور تقریر میں ملتا ہے لیکن یہاں روح کو منور کردینے والی زبان آپ کو قدم قدم پر محو کردے گی۔ ایسی زبان جس میں دل اور دماغ اس قدر گھل مل گئے ہوں کہ کیا مجال کوئی ذرہ برابر بھی فرق ڈھونڈ پائے۔ مجھے لگتا ہے اسی سے خلق شدہ ان کا داخلی کردار ہے جس پر ان کی پوری زندگی کا جلال قائم ہے۔
مولانا آزاد کی تمام سوچ اسلام سے نکلتی ہے اور اس کے دائرے سے کبھی باہر نہیں جاتی۔ انھوں نے اسلام کی عظیم روایت اور اس کی وراثت پرافتخار کااظہار ببانگ دہل کیا۔اسلام کے تعلق سے ان کے اندر ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے۔اس آہنی اسلامی عقیدے کا موازنہ آپ گاندھی جی کے مذہبی عقیدے سے کرسکتے ہیں۔اسلام سے متعلق ان کا نظریہ مختلف یا الگ نہیں تھابلکہ ان کی نگاہ میں اسلام کی وہی صادق اور واحد سمجھ تھی جو ان کی اپنی تھی اور اس کے لیے وہ کسی حد تک بحث کرنے کے لے تیار رہتے تھے۔ عربی و فارسی کے میدان میں ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ان سے اسلام پربحث و مباحثے کی ہمت کسی عالم اور فقیہ میں نہیں تھی۔ وہ اسلام کی بنیادی کتاب ’قرآن‘ سے اچھی طرح واقف تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلامی ثقافت، اسلامی وراثت اور اسلامی روایت کے وہ خود ایک متحرک مجسمہ بن چکے تھے۔
جب مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی بات ہوئی تو مولاناآزاد نے بے جھجک ہوکر کہا: ’’آپ کہتے ہیں کہ سیاسی بحث و مباحثے سے مذہب کو الگ کردوں ،لیکن اگر الگ کردوں تو ہمارے پاس باقی کیارہ جاتاہے؟ہم نے تو اپنے سیاسی افکار مذہب سے حاصل کیے ہیں۔ وہ مذہبی رنگ میں ہی رنگے ہوئے نہیں ہیں بلکہ مذہب کی پیداوار ہیں۔ ہم انھیں مذہب سے کیسے الگ کرسکتے ہیں؟ میرے مذہبی نقطۂ نظر میں قرآن سے الگ کسی اور وسیلے سے حاصل کیاہواکوئی فکر مکمل طور پر قابل مذمت ہے۔ میں اس میں سیاست کو بھی شامل کرتا ہوں۔‘‘15؎ وہ ضد کی حد تک جاکر یہ کہتے ہیں کہ قرآن کے باہر سے حاصل شدہ افکار ان کے لیے مذہب مخالف ہیں، خواہ وہ سیاست ہی کیوں نہ ہو۔ان کا درد صرف اتنا ہے کہ لوگ اسلام کو اس کی حقیقی عظمت کے سیاق میں نہیں دیکھتے۔ جیسے گاندھی جی کا خیال تھا کہ لوگ ہندتو کے اصل مفہوم کو نہیں سمجھتے۔ مولاناہمیشہ مذہب اسلام کو اس کی جامعیت کے ساتھ دیکھتے تھے۔’’مسلمانوں کی زندگی حکمت سے معمور زندگی ہو یا علم سے معمور، سیاسی ہو یا معاشرتی، مذہبی ہو یا ثقافتی، قوم کی شکل میں ہو یا عوام کی شکل میں، وہ اپنے اندر ایک مکمل ضابطۂ حیات رکھتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ دنیا کا آخری اور عالم گیر مذہب نہ ہوتا۔‘‘16؎ اس معاملے میں انھوں نے خود کو پوری طرح غیرمتبادل بنا لیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ عالمی ترقی اور تمدن کو چھٹی صدی عیسوی تک ہی محدود رکھنے کے حامی تھے؟یا ان کی سوچ سخت قدامت کی شکار تھی؟ نہیں ، بلکہ ان میں ایک قسم کی زبردست ترقی پسندی تھی۔ ان کی نظر میں بنیادی نقطہ’انصاف‘ تھا۔ صحیح بالکل صحیح ، انصاف پر مبنی فکر ہوگا تو وہ یقینی طور پر قرآن کی روح کے موافق ہوگا۔ اسلام تو ملت اور امن کا مذہب ہے۔ وہ امن اور انصاف کا علم لے کر چلنے والا مذہب ہے۔ اس لیے ہر مسئلے پر ان کی اپنی سوچ تھی جو خواہ دوسروں کو بنیادی معلوم ہو ان کے لیے وہ قرآنی احکام تھے۔ وہ قرآن کی مدد سے اپنے سیاسی افکار عصریت سے وابستہ کردیتے تھے۔ لکھتے ہیں:’’انھیں حکم دیا گیا ہے کہ مناسب غور وفکر کرکے تمام امور انجام دیں۔ اے پیغمبر! تمام کاموں کو صلاح ومشورے سے مکمل کیا کرو، لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہونا چاہیے کہ وہ آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں اور شوری طرز کی حکومت انھیں جب تک نہ مل جائے اپنے مذہبی اصولوں کے حق میں مزاحمت کرتے رہیں۔‘‘17؎اگر گاندھی جی سیاست میں بنیادی جدت کا بیج ڈال رہے تھے تو مولاناآزاد اس کی تکمیل کررہے تھے۔
انھوں نے اسلام اور قومیت نام سے ’الہلال‘ میں جو قسط وار مضامین لکھے اس میں ان حیرت میں ڈالنے والی تاریخی توضیح ان کے جدید شعور کا بین ثبوت ہے۔ مغربی علوم نے قومیت کے عروج کے ساتھ استحصال کی نئی پالیسی بنالی۔ ہماری کمزوریوں سے انھوں نے فائدہ اٹھایا: ’’ہر یورپی قوم سب سے بڑاغاصب اور منافع خور بننے کی آرزو رکھتا ہے۔سامراج قائم کرنے، تجارت،اسلحوں کی پیداوار، جسمانی قبضہ اور ذہنی اثر ہر میدان میں یہ دوڑ جاری ہے۔‘‘18؎ انھوں نے بتایا کہ کیسے اس فطرت سے پہلی عالمی جنگ ہوئی ، کیسے یہ قوم پرستی عالم انسانیت کے لیے خطرے کی شکل میں آئی، اس میں کیسی تبدیلی ہوئی۔ ان معاملات میں ان کے باریک سیاسی شعور کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ لکھتے ہیں:’’وہ قوم جو بنی نو ع انسان کی شخصیت اور قومی حقوق کے تحفظ کے لیے سامنے آئی تھی ، آخر کار انسانی آزادی اور حقوق انسانی کے استحصال کا اوزار بن گئی۔ انھوں نے حفاظتی قومیت کی شکل میں جنم لیا لیکن آخرکار جارح قوم پرستی میں تبدیل ہوگئی۔ جماعتوں کی تنگ نظری، ملکی غرور ، عظمت کا جذبہ اور قومی برتری کے سارے جذبات صف اول میں آگئے۔‘‘19؎ ظاہر ہے یہ فطرت انسانیت اور بھائی چارے کے خلاف تھی جو اسلام کے مقاصد کے خلاف بھی ہے۔ اسلام آزادی کو سلب کرنے اور انسان کے حقوق غصب کرنے والی فطرت کے خلاف ہے۔ آپ غور کیجیے کہ ان کے یہاں ملک اور دنیا کی تعبیر بالکل جدید ہے اور اس سے نبردآزما ونے کے لیے صرف اسلام کے روایتی احکام کو سامنے رکھتے ہیں۔دھیان رہے، یہ ان کی شاطرحکمت عملی یا سیاسی ہنر مندی نہیں تھی بلکہ اسلام کی ایسی ہی سمجھ اور عقیدت سے ان کے شعور کی تعمیر ہوئی تھی۔
اس وقت سرمایہ داری اورسامراجیت کے عروج اور سماج واد کی مزاحمت سے متعلق ان کا نظریہ بالکل واضح تھا۔سرمایہ داری کے موجودہ ڈھانچے کی ترقی کو وہ تاریخ کے سیاق میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:’’سرمایہ داری کا بہاؤ پہلے سے کسی بھی عہد کے مقابلے میں آج سب سے زیادہ طاقتور ہے۔پہلے انسانوں پر جس قبضے کو قائم کرنے میں شاہی خاندانوں اور جاگیردارانہ نظام کو صدیاں لگ جاتی تھیں ،آج اسے دولت کے زور پر کچھ مہینوں اور برسوں میں قائم کیاجاسکتا ہے اور ایسے سرمایہ دار کے ہاتھ میں بہت آسانی سے جنگ اورامن کا نتیجہ ، حکومتوں کا اقتدار اور اختیارات چلے جاسکتے ہیں۔‘‘20؎سرمایہ دار کس طرح دنیا میں جنگ اور نراجیت کا سبب بناہواتھا اور کس طرح اقتدار اس کے زیر اثر تھا اس سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔گوکہ وہ سماج واد کے حامی نہیں تھے لیکن انھیں اس بات کا علم تھا یہ بوسیدہ اور خطرناک جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنے والی طاقت ضرور ہے۔ ’’انیسویں صدی میں سماج واد کی تخم ریزی اسی ردعمل کا اظہار تھا۔ اب وہ کمیونزم کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کا مقصد یورپ کے قوم پرستانہ طرز ہی کو نہیں بلکہ سماجی نظام کے سارے تانے بانے کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔‘‘21؎مولانا آزاد کی اصل فکر ہندوستان اور ہندوستانی سماج تھی۔
وہ کس طرح سماج کی پسماندگی کودیکھ اور سمجھ رہے تھے اور اس کے خلاف ان کیا سوچ اور سمجھ تھی، اس پر غور کرتے ہوئے ہم ان کی جدیدیت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ہندوستانی سماج کی قدامت اور تنگ نظری ان کے فکری مرکزمیں تھی :’’تمدن کی ترقی جذبات اور رفطرت کی منتقلی کرتی ہے،لیکن یہ روح کو نہیں بدل سکتی۔تاریکی بھرے عہد کے عربوں کا غرور اور ہندوستان کے برہمنوں کی پُرغرور تنگ نظری ایسی شکل میں رونما ہوئی جو اپنے قدیم طرز سے زیادہ جامع اور تلخ تھی۔نتیجتاً انسانیت کا دائرہ ابھی بھی اتنا ہی تنگ ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔‘‘22؎ یہ ہندوستانی سماج کی اصل رکاوٹ تھی جس سے گاندھی جی اور مولاناآزاد اپنے اپنے طریقے سے نبردآزما تھے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسلام کی عظیم روایت اور بوسیدہ رسم و رواج کے فرق کو وہ ابتدا سے نمایاں کررہے تھے۔
1903 میں صرف 15برس کی عمر میں مولاناآزاد نے ’لسان الصدق‘ میں مضمون لکھا۔ اس دور میں ان کے دو ابتدائی مضامین ’تعصب کی مزرتیں اور قواعد اور رسوم ‘ملتے ہیں۔یہ ان کی کتابوں اور رسائل میں پڑھے گئے مضامین، افکار کو اپنے طریقے سے تیار کیا گیا مختصر خلاصہ ہے۔ ظاہر ہے،اس میں فکری اتحاد تو ہوگا ہی۔ اس میں انھوں نے مسلم سماج کی غلط رسم و رواج کو بیان کرتے ہوئے سماجی اصلاح سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر یقین نہیں ہوتا۔نوجوانی میں کسی سے ہم اس قسم کی سوچ کی امید نہیں کرسکتے تھے لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر ہی کچھ ایسی تھی ۔ ان کا شعور اور نظریہ بچپن ہی میں تنقیدی اور تجزیاتی ہوگیا تھا۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص طرح کا باغیانہ تیور ابتدائی دنوں سے موجود تھا: ’’میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا تھا ،جس پر مذہبی روایتوں کا رنگ بہت گہرا تھا،روایتی زندگی کے آداب بے چوں چرا تسلیم کیے جاتے تھے اور راسخ طریقوں سے ذرا سا انحراف بھی اس خاندان کو گوارا نہیں تھا۔ میں اپنے آپ کومروجہ رسوم اور ایقانات سے ہم آہنگ نہیں کرسکا اور میرا دل بغاوت کے ایک نئے احساس سے بھر گیا۔ ‘‘23؎
مثلاروایت میں کیارکھا ہے،کیا اختیار کرنا ہے ،کسے ترک کردینا ہے،یہی شعور تو نشاۃ ثانیہ کی اصل سمجھ اور دانشورانہ حصولیابی ہے۔ مجھے لگتا ہے اختیار و ایثار کے اس نایاب شعور کا نتیجہ تھا کہ مولاناآزاد میں روایت اور جدت کا حیرت انگیز اجتماع ہوا۔’’یہ حماقت آمیز رسوم ہمارا مزاج کیوں بن گیا، مذہبی رہنماؤں کی ان دیکھی کے نتیجے میں عوام یہ سمجھنے لگے کہ یہ مذہب کاجزو ہے اور ہرایک مسلمان کے لیے اس کی پابندی ضروری ہے ۔ کچھ رسم ایسے ہیں جن سے مذہبی علما کو مالی فائدہ پہنچتا ہے اور اسی وجہ سے کسی قسم کی تبدیلی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔‘‘24؎ یعنی ہر مذہب کی طرح اسلام میں بھی مذہبی اجارہ جاری کو انھوں نے بہت پہلے پہچان لیا تھاکہ کس طرح مالی منفعت کے لیے پاکھنڈ کا رواج ہوجاتا ہے اور مذہب کی حقیقت پیچھے چلی جاتی ہے۔ان کاخیال تھا کہ اس کا عروج لکھنؤ کی درباری تہذیب اور شرپسندانہ خودمختار طرزحیات ہے۔اسی وقت ان کا یہ بھی خیال تھا کہ ایسے رسوم میں عقیدت کی وجہ سے ہندوستان میں کئی برائیاں پیدا ہوگئیں،جنھیں مٹانے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ یہ گھن کی طرح پوری قوم کوکھوکھلا کرتا جارہاہے۔ وہ اس کے لیے تعلیم کی کمی کو ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں لیکن اصلاح معاشرہ کی تحریک شروع کیے بغیر اسے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ انھیں اس پریشانی کا بھی اندازہ ہے کہ ممکن ہے اس اصلاحی مہم ہی کو مخالف معاشرہ قرار دیا جائے گا۔ یعنی وہ اس کی تمام پیچیدگیوں پر غوروفکر کرتے ہیں۔
ان کے اندر جو مضبوط خوداعتمادی اور بے باکی تھی، اس کا بے باکانہ اظہار سیاسی معاملات میں بھی ہوا ۔ مہاتماگاندھی ہوں یا پنڈت جواہرلال نہرو،اختلاف یا مخالفت درج کرانے میں انھوں نے کوتاہی نہیں برتی۔ مولاناآزاد کوجناح بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور انھیں کانگریس اور ہندوؤں کا ’پٹھو‘ کہتے تھے۔ وہ انھیں کسی گفتگو میں بھی شامل دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔اتحاد کی باتیں، کانگریس سے ربط وضبط، تقسیم کی مخالفت اورہندومسلم کے متحد ہوکر برطانوی حکومت سے لڑنے کی باتیں ،مسلم سماج کے ایک بڑے حصے کے لیے انھیں ’ولن‘ بنادیا تھا۔جناح کازہر اتنا مؤثر تھا کہ جو مسلم پاکستان کے حق اور تقسیم کی بات نہیں کرتا ،اسے کافر تصور کرلیا جاتا ۔ پاکستان کے مطالبے پر زبردستی دستخط کرانے کے سلسلے میں ڈاکٹرسیف الدین کچلو کی جان بڑی مشکل سے بچی تھی۔ مولاناآزاد اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ مہاتما گاندھی بلاوجہ جناح کو اتنی اہمیت دے رہے تھے۔ گاندھی جیسے رہنما کی یہ کیسی معصومیت تھی،انھیں لگا اس سے جناح ان کی بات مان لیں گے۔ وہ آدمی تو انگریزوں کے مشاہراہ پر تھا۔ عرش ملسیانی نے لکھا ہے:’’مہاتماگاندھی نے اپنے آشرم کی ایک مسلم خاتون سے پوچھا کہ جناح کو خط لکھیں تو انھیں کس طرح سے خطاب کریں؟ اردو اخبارات میں اس خاتون نے جناح کے نام کے ساتھ قائد اعظم کا لقب دیکھاتھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو وہی بتا دیا۔ ‘‘ گاندھی نے ان کے خط میں یہ خطاب کیا لکھا لوگ اسے لے اڑے اور بالآخر انھیں قائد اعظم بناکر ہی دم لیا۔ جیل میں جب مولانا آزادنے اخبارات میں یہ سب پڑھا تو انھوں نے کہا:’’گاندھی جی سخت غلطی کررہے ہیں۔جناح نے ان حالات کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔‘‘25؎ دوسری عالمی جنگ کے مسئلے پر بھی مولاناآزاد گاندھی جی کے مقابلے میں زیادہ صحیح تھے۔
مولاناآزاد کا واضح خیال تھا کہ اگربرطانوی حکومت ہندوستان کو آزادی دے تو عالمی جنگ میں ضرور ہندوستانیوں کو حصہ لینا چاہیے۔مہاتما گاندھی عالمی جنگ اور ہٹلر کی جارحیت کے خلاف اپنے عدم تشدد کا اصول پیارا تھا۔ وہ ملک کی آزادی کو بھی ثانوی سمجھ رہے تھے۔ وہ برطانوی اقتدار کو نصیحت دے رہے تھے کہ ہٹلر کا مقابلہ عدم تشدد سے کرنا چاہیے۔ انگریزوں کو چاہیے تھا، وہ مہاتما گاندھی کو ہٹلر کے سامنے پیش کردیتے۔ مولانا کو امید تھی کہ مجلس عاملہ میں لوگ ان کی دلیل قبول کریں گے،مگر سردار پٹیل ، راجندرپرشاد ،آچاریہ کرپلانی اور پرپھل چندر گھوش نے توخلاف توقع استعفیٰ سونپ دیا۔ اس وقت لارڈ ویول حکومت ہندوستان کا اقتدار اوراختیار سپردکرنے کے لیے بات کرنے انگلینڈگئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گاندھی جی کے عدم تشددکی ضد کی وجہ سے کتنے بڑے پیمانے پر لوگ مارے گئے۔
جب ویول مولاناآزادسے ملاتو ان کی شائستگی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ جو نفاست،سلیقہ اور ادب اس نے مولاناآزاد میں دیکھا اس سے وہ حیرت زدہتھا۔ اس نے بھی مولاناکی بہت عزت و توقیر کی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں ایک دوسرے کے مداح بن گئے۔ شملہ اجلاس جناح کی ضد کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ گاندھی جی کی وسیع القلبی کی پالیسی دھری کی دھری رہ گئی۔ ڈاکٹرکھگیندرٹھاکر نے کمیونسٹ رہنما اور مفکر ڈانگے کے حوالے سے ایک بہت پتے کی بات کہی تھی کہ گاندھی جی کسی بھی حالت میں تحریک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں پھسلنے دینے کو راضی نہیں تھے اور اس کے لیے وہ کسی حد تک چلے جاتے تھے۔ جب سبھاش بابو کانگریس صدر کا منصب حاصل کرچکے تو وردھا میں جاکر انھوں نے گاندھی جی سے کانگریس مجلس عاملہ کے ارکان کی فہرست مانگی۔گاندھی جی نے بے حد چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:’’تم اپنا ایک ممبر تو رکھو گے ہی، اس کا نام بتائو۔ سادہ لوح رہنما سبھاش بوس نے جونہی کسان رہنما سہجانندسرسوتی کا نام لیا،گاندھی جی آپے سے باہر ہوگئے۔ لاکھ کہنے پر بھی نام نہیں دیا اور غصے میں انھیں جانے کے لیے کہہ دیا۔ صاف صاف تاناشاہی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے سبھاش بوس کو ہٹنے پر مجبور کرکے ہی دم لیا۔ تمام درویشی کے باوجود ان کے اندر ایک زبردست تاناشاہی تھی۔
مولاناآزاد کے دوبارہ کانگریس صدر بننے کے بعددوسری عالمی جنگ، تحریک ہندوستان چھوڑو اور گول میزکانفرنس میں ان کے نمائندہ یقینی ہونے کی وجہ سے بھی انتخاب نہیں ہوا اور وہ تقریباً چھ برسوں تک کانگریس صدر بنے رہ گئے۔ صورتحال موافق ہونے پر انھوں نے انتخاب کامدعا اٹھایا۔ جیسے ہی یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی، اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سے یہ مطالبہ ہونے لگا کہ مولانا آزاد ہی کانگریس کے صدر برقرار رہیں۔ اندر ہی اندر سردارپٹیل اور ان کے دوست انھیں صدر بنانے کی کوشش کرنے لگے،لیکن مولانا آزاد1939سے1946تک صدر رہے تھے، اس لیے وہ کسی قیمت پر اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ سردارپٹیل کو صدر بنانے کے حق میں بھی نہیں تھے، کیونکہ تب ان کی وزارت عظمیٰ پر ان کی دعوے داری بن سکتی تھی۔ اپنی خود نوشت میں مولاناآزاد نے اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی بھول تسلیم کیاہے۔ ’’میں نے اپنی دانست میں بہتر سے بہتر فیصلہ کیا۔لیکن واقعات نے جو کروٹ بدلی اسے دیکھ کرسوچتا ہوں کہ شاید میں نے اپنی سیاسی زندگی میں سب سے بڑی بھول کی تھی۔ مجھے اپنے کسی کام کا اتنا زیادہ افسوس کبھی نہیں ہواجتنا کے ایسے نازک وقت میں کانگریس صدر سے اپنانام واپس لینے کے فیصلہ کا۔ میری یہ بھول ایسی تھی جسے گاندھی جی کے لفظوں میں بڑی بھول کہوں گا۔میری دوسری بھول یہ تھی جب میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں خود صدر کے عہدے کے لیے کھڑانہ رہوں تو میں نے سردار پٹیل کی حمایت نہیں کی۔ ہم دونوں کئی معاملوں پر اختلاف رکھتے رہے مگر مجھے یقین ہے کہ اگر میرے بعد وہ کانگریس صدر بن جاتے تو وہ کامیابی کے ساتھ کیبنٹ مشن کے منصوبے کو منظور کرا لیتے۔ وہ ایسی بھول کبھی نہ کرتے جو جواہرلال نے کی اور جواہر لال نے اس منصوبے کو ختم کرنے کی ذمہ داری ایک موقع پر جناح کے کندھے پر ڈال دی۔ میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر پاتا جب میں سوچتا ہوں کہ اگر میں نے ایسی غلطی نہ کی ہوتی توشاید گزشتہ دس سال کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔‘‘26؎
اس اہم اقتباس میں پہلی بات یہ کہ تاریخ تبدیل کرنے والی کنجی رکھنے والے مولاناآزاد کا کردار کتنا بڑا تھا۔دوسری بات یہ کہ تقسیم روکنے کے آخری موقع کو جواہرلال نہرو نے کس طرح کھو دیا۔تیسری بات یہ کہ وہ سردارپٹیل کو اس معاملے میں زیادہ قابل سمجھ رہے تھے۔چوتھی بات یہ کہ کس طرح مایوس جناح نے اس آخری موقع کو لپک لیااور کیبنٹ کو ختم کرا دیا۔پھر نئے سرے غوروفکر کا موقع دیکھ کر پاکستان کی بات رکھی اور تمام جماعتوں کو اسے تسلیم کرنے پر مجبور بھی کردیا۔ آپ غور کیجیے کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان بنوانے والے جناح صرف پیدائشی مسلمان تھے۔ وہ خنزیر اور گائے کا گوشت بھی کھاتے تھے۔ انھوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی۔ ان کا اسلام پر ایمان تھا ، اور وہ اسلامی وراثت اور تہذیب کوبھی سمجھتے تھے یا نہیںاس کاکبھی کوئی ثبوت نہیں دیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے انھیں اپنا رہنما تسلیم کیا۔ دوسری طرف مکہ میںپیدا ہوئے، تمام اسلامی عالموں سے درس لینے والے، قرآن کی عظیم تفسیر ’ترجمان القرآن‘ لکھنے والے،مسلم روایات، وراثت اور تہذیب کے مجسم مولاناآزاد اپنی قوم کے ایک بڑے حصے میں کافر تسلیم کرلیے گئے۔ یہی وقت کی ستم ظریفی اور تاریخ کا عقدۂ لاینحل ہے۔آج مسلم قوم خواہ ہندوستان،پاکستان یا کہیں کی ہو، مولاناآزاد کو سرآنکھوں پر بٹھا رکھی ہے۔ ان سے ترغیب حاصل کرتی ہے اور متحد ہوتی ہے۔
مولاناآزاد کو اپنی غلطی کا احساس اسی وقت ہوگیا تھا جب جواہر لال نہرو نے کیبنٹ مشن پر بچگانی تقریر کی تھی۔ مولانانے بہت کوشش کی۔ کانگریس مجلس عاملہ سے کسی طرح نئی تجویز بھی منظور کرائی مگر دباؤ میں کیبنٹ مشن کو تسلیم کرنے والی مسلم لیگ اس موقع کو کسی طرح گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ جناح نے اس موقع کا فیصلہ کن استعمال کیا۔ مولاناآزاد نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ جب وہ کلکتہ لوٹ رہے تھے تو ہرایک اسٹیشن پر لوگوں کا ہجوم آتا ،ان کے ڈبے کے پاس آکر ان کے ہی صدر بنے رہنے کانعرہ لگاتا۔ اسی ٹرین میں سفر کررہے شرت چندربوس ہر بڑے اسٹیشن پر ان کے پاس آکرسنا جاتے:’’دیکھئے لوگ کیاچاہتے ہیں اور آپ نے کیا کیا؟‘‘لیکن کبوتر ہاتھ سے اڑ چکا تھا۔
پنڈت نہرو کی اس بھول سے جناح کو جو موقع ملاتھا ،اسے ممکن بنانے کے لیے وہ خونی کھیل ضروری تھا ،جو کھیلا گیا اور جس سے تقسیم کی درار پختہ ہوگئی۔مولاناآزاد صدمے میں تھے۔ انھوں نے خود لکھا ہے:’’16اگست کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ماتمی دن رہے گا۔کلکتہ کے عظیم الشان شہر میں عوام کے تشدد نے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی،خوف،قتل اور غارت گری کا طوفان برپا کیا۔ سیکڑوںجانیں ضائع ہوئیں، ہزاروں زخمی ہوئے اور کروڑوں روپے کی جائداد برباد ہوگئی۔لیگ نے لوگوں کے جلوس نکالے،جنھوں نے لوٹنا اور آگ لگانا شروع کردیا۔‘‘جب مولاناآزاد جیسے تیسے دنگائیوں سے پٹتے بچتے دم دم ہوائی اڈہ پہنچے تو دیکھا:’’ایک بہت بڑا فوجی دستہ ملٹری لاریوں میں انتظار کررہاہے۔ جب میں نے پوچھا کہ امن و امان بحال کرنے میں وہ مدد کیوں نہیں کررہے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ انھیں تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے مگر کچھ کرنے کا حکم نہیں ہے۔کلکتہ کے پورے شہر میں فوج اور پولس تیار کھڑی تھی اور بے قصور مردوں اور عورتوں کے قتل کاتماشہ دیکھ رہی تھی۔‘‘آگے مولانا نے صاف صاف لکھا ہے کہ’’نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر واقعات کے لیے جواہرلال نہرو ذمہ دار تھے۔ان کا یہ افسوسناک بیان رہا کہ کانگریس کو آزادی ہوگی کہ وہ کیبنٹ مشن پلان میں ترمیم کرسکے۔اس بیان سے سیاسی اور فرقہ وارانی سمجھوتے کے مسئلے کو دوبارہ بحث میں لانے کا موقع دیا گیا۔ مسٹرجناح نے اس غلطی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔‘‘ مولاناآزاد یہیں نہیں رکے، وہ پنڈت نہرو کی جذباتیت کی مثال بھی پیش کرتے ہیں:’’جواہر لال میرے عزیز ترین دوست ہیں۔انھوں نے ہندوستان کی قومی زندگی کو ترقی دینے میں کسی سے کم حصہ نہیں لیا ہے۔۔۔۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب انھوں نے قوم کو بھاری نقصان پہنچایا ۔انھوں نے 1937میں بھی قوم کو ایک بڑابھاری نقصان پہنچایا تھا۔‘‘27؎انھوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت ہونے والے انتخاب کا تذکرہ کیا ہے۔ اس وقت جمیعۃ العلمائ ہند نے لیگ کو کانگریس کی حمایت کرنے کی شرط پر ان کی مدد کی تھی۔ اس وقت مولاناآزاد نے دونوں تنظیموں سے بات کرکے حمایت اور تعاون کا عہد لے لیاتھا۔ کیبنٹ میں پانچ کانگریس کے اور لیگ کے صرف دو ممبر ہوتے۔ مولاناآزاد نے ساری باتیں پختہ کرلیں اور پٹنہ چلے آئے،جہاں بہار کیبنٹ کی تشکیل ہونی تھی۔مگر پنڈت نہرو پلٹ گئے اور صاف کہہ دیا کہ وہ نواب اسماعیل خاں اور خلیق الزماں میں سے کسی ایک ہی کو رکھیں گے،لیگ چاہے جسے منتخب کرے۔ اس افسوسناک واقعہ سے مسلم لیگ ہی نہیں،ملک کی مسلم قوم بھی بھڑک اٹھی۔ مولاناآزاد کو پہلے تو یقین ہی نہیں ہوا۔ دیکھتے دیکھتے پوری سیاست گرم ہو گئی۔ وہ پنڈت نہرو کو سمجھاتے رہ گئے۔پھر وہوردھا جاکر گاندھی جی سے ملے۔ وہ مولاناآزاد کی راے سے متفق تھے لیکن ہوشیار گاندھی جی نے زیادہ زورنہیں ڈالا اور اترپردیش میں سمجھوتہ ٹوٹ گیا۔ یہ اس وقت کی سیاست کو تقسیم کی سرحد تک لے جانے میں ایک اہم واقعہ بن گیا۔ دھیرے دھیرے فسادات دیگر جگہوں پر بھی رونماہوئے اور ہندوستانی سیاست تقسیم شدہ تباہی کی طرف بڑھ گئی۔ جب حالات بے قابو ہوگئے تو نہروجناح سے کہنے لگے کہ کانگریس کے دروازے لیگ کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔جناح نے نہرو کوان کی اوقات پرلاکر چھوڑ دیا۔ آخر آزاد ہندوستان میں نہرو کو جو چاہیے تھا ،اسے انھوں نے حاصل کیاہی۔
راج موہن گاندھی نے بھی اس موضوع پر غور وفکرکیا ہے اور اس پرخلیق الزماں کی یادداشتوں کے حوالے سے لکھا ہے:’’خلیق الزماں کا دعویٰ ہے کہ خود آزاد پر کانگریس کے دوعناصر اثرانداز ہوئے ان میں سے ایک مسلم مخالف اور دوسرااشتراکیوں کی طرف جھکائو رکھنے والاتھا۔ جنھوں نے لیگ کو کابینہ مینؤں شامل کرنے کے عوض لیگ کو اترپردیش میں ختم کرنے کی شرط عائد کی۔خلیق الزماں کاخیال ہے کہ ’اگر آزاداپنی جگہ ڈٹ جاتے تو حالات کا دھارا کچھ اور ہوتا۔لیکن آزاد نے جرأت مندی سے کام نہیں لیا۔‘‘28؎ پاکستان بننے کے بعد لکھنؤ کے ایک اجلاس میں سردارپٹیل نے خلیق الزماں کو اس کاذمہ دار ٹھہرایا تو مولانا آزادنے پنڈت نہرو کو اور خلیق الزماں نے خود مولاناآزاد کو۔ راج موہن گاندھی نے مشیرالحق کی تنقید کا بھی تذکرہ کیاہے لیکن مجیب کی باتوں سے انھوں نے اتفاق کااظہار کیا ہے۔وقار آزاد کی کمزوری تھی۔انڈیاونزفریڈم (خودنوشت)میں ہم اس کی جھلک دیکھتے ہیں۔ صرف اس کے تجزیاتی پہلووالے حصے میں ہی نہیں، جس کا تذکرہ محمدمجیب صاحب کرتے ہیں اور جس میں آزاد نے اپنے مخالفین پر کوئی جوابی حملہ نہیں کیا بلکہ ’میں ہی سب سے ہوشیار تھا‘ والے انداز میں لکھی پوری کتاب میں ہی قوم کے دل کو پھیرنے والے لڑائی کے وقت اپنے وقت کی عوامی راے سے بے خبر رہنے والے آزاد انڈیاونز فریڈم میں تاریخ کے نظریے کو متاثر کرنے کے لیے بے چین نظرآتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق اس کتاب میں بالواسطہ طور پر یہ منشا موجود ہے کہ آگے ہمارے بارے میں کیا سوچے جائے گا‘۔ آگے لکھتے ہیں:’’عجلت اور بے تابی کے باعث درحقیقت انھوں نے مکمل طور پر اپنی یادداشت پر بھروسہ کیا۔ اس سے کئی یک طرفہ نتائج اخذ کیے اسی لیے بعض حقائق کی غلطیاں رہ گئیں۔ آزادی اور تقسیم پر تحقیق کرنے والے اور طالب علموں کے لیے ضروری ہے کہ اس اہم کتاب انڈیاونزفریڈم کے ساتھ کچھ اور چیزیں پڑھ لیں اور اس کی غلطیوں کی اصلاح کرلیں۔‘‘29؎
انھوں نے محمدمجیب کی ایک اور بات کا حوالہ دیا ہے کہ آزاد کے اندر احساس تفاخر کے ساتھ ساتھ رقابت کا جذبہ بھی تھا۔ وہ دل ہی دل میں ذاکر حسین کو کسی بااختیار اورموثر عہدے پر فائز دیکھنانہیں چاہتے تھے۔بڑے یا عظیم لوگوں کے اپنے تضادات ہوتے ہیںاور پوری زندگی میں ایسے انحراف کی چھوٹی موٹی مثالوں کے باوجود ان کی شخصیت اور ان کی حیثیت کہیں سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔آخر آدمی کی خوبی اس کی زندگی کی ایسی ہی غیرمتوقع غلطیوں میں ہوتی ہے۔ آدمی کی خوبی نہ تو اس کے خدا ہونے میں ہے اورنہ مشین ہونے میں۔
مولاناآزادکی شخصیت تقسیم ہندو پاک سے پہلے کے نازک دور میں اس طرح ابھر کر سامنے آتا ہے،جیسے وہ اپنے متعدد معاصر رہنماؤں کا قدکم کردیتے ہیں۔عارضی حکومت میں کانگریس اور لیگ کے درمیان تو روایتی شک، دوئی اور عمل وردعمل جاری رہا، وزیرخزانہ کی شکل میں لیاقت علی نے جو چالیں چلیں،مسلسل بے اطمینانی اور بے دلی سامنے آئی اس سے یہ طے ہوگیا کہ ہندوستان کی تقسیم کو اب ٹالا نہیں جاسکتا۔ تقسیم کے تعلق سے انگریز اور لیگ بہت متحرک ہوگئے تھے۔ کرشن میمن نہرو کی کمزوری تھے اور اسے بڑے منصب کی چاہ تھی۔ ایسا مہرہ انگریزوں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔سردارپٹیل کے ساتھ ساتھ نہرو بھی تقسیم کے لیے تیار تھے۔ وزیراعظم بننے کی حد سے بڑھی ہوئی نہروکی خواہش کو انگریزوں نے بھانپ لیا تھا۔ مولانا آزاد ہی تھے جن پر اہم رہنماؤں میںجن پرکسی کا اثر کام نہیں کررہا تھا۔ مولاناآزاد کو راضی کرنے کے لیے نہرو خود ان کے گھر گئے اور طرح طرح کی دلیلیں پیش کرکے انھیں اپنے موافق بنانے کی کوشش کی۔مولاناآزاد کسی صورت میں تقسیم وطن کے حق میں نہیں تھے۔مولاناآزاد کی آخری امید گاندھی جی تھے، جو نوآکھالی میں اپنے طلسماتی اثر سے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کا ایک بے مثال اثر پیدا کر آئے تھے۔ وہ31مارچ کو دلی پہنچے۔ مولانافوراً ان سے ملنے گئے۔ گاندھی جی کے پہلے تبصرے سے ہی انھیں بڑی راحت ملی۔ گاندھی جی نے کہا؛’’اب تقسیم ایک دھمکی بن چکی ہے۔ایسالگتا ہے کہ ولبھ بھائی اور یہاں تک کہ جواہرلال نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اب آپ کیاکریں گے؟ کیا آپ میری حمایت کریں گے یا آپ بھی بدل گئے ہیں؟‘‘ مولاناآزاد نے فوراً جواب دیا:’’میں تقسیم کے خلاف تھا اور آج بھی ہوں۔میںپہلے تقسیم کے خلاف اتنا نہیں تھا جتنا آج ہوں لیکن مجھے یہدیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ جواہرلال اور پٹیل نے بھی تسلیم کرلیا ہے اور آپ کے لفظوں میں انھوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔میری امیدیں اب صرف آپ سے وابستہ ہیں۔‘‘
گاندھی جی بولے:’’آپ نے بھی کیابات کہی ہے! تقسیم کے خلاف میری مخالفت اتنی طاقتور نہیں رہی،جتنی آج ہے۔ اگر کانگریس تقسیم کو تسلیم کرنا چاہتی ہے تو اسے میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔ جب تک میں زندہ ہوں تب میں ہندوستان کی تقسیم پر ہرگز متفق نہیں ہوسکتا۔‘‘ گاندھی جی کی یہ ڈرامائیت زیادہ طویل نہیں رہی۔ وہ دو تین مرتبہ گاندھی جیسے ملے۔درمیان میں پٹیل نے ان سے دوگھنٹے تنہائی میں بات کی اور گاندھی جی اپنی ڈرامائیت سے باہر حقیقی رنگ میں آگئے۔مولاناآزاد نے لکھا:’’مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ یہ لگا کہ گاندھی جی بھی بدل گئے ہیں۔وہ کھل کر تو نہیں لیکن اپنی روایتی کشمکش والی حالت میں چلے گئے۔‘‘مولاناآزاد دو گھنٹے تک اپنی دلیلیں پیش کرتے رہے مگر مہاتما توغیرمنسلک اور بے حرکت تھے۔ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ مایوس ہوکر مولاناآزاد نے کہا:’’اگر آک کے خیالات بھی یہی ہوگئے ہیں تو ہندوستان کو تباہی سے بچالینے کے لیے میرے پاس کوئی امید نہیں ہے۔‘‘30؎ معروضی فکر کے لوگ جانتے ہیں کہ ایسے نازک موقعوں پرگاندھی جی خاموش ہوکر اپنی درویشی بحال رکھتے تھے۔
مولاناآزاد نے14جون1947کو انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی میںکہاکہ :’’ہندوستان کی تقسیم ایک المیہ ہے۔ ۔۔۔اب اورکوئی راستہ نہیں ہے اور اگر اب آزادی چاہتے ہیں تو ہمیں تقسیم ہندوستان کے مطالبے کو قبول کرلینا چاہیے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قوم ایک ہے، اور اس کی ثقافتی زندگی ایک ہے اور ہمیشہ ایک رہے گی۔ سیاسی طور پر ہم ناکام ہوگئے اور اس لیے ہم ملک کی تقسیم کررہے ہیں۔ہمیں اپنی شکست تسلیم کرلینی چاہیے،لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری ثقافت کا بٹوارہ نہ ہو۔‘‘31؎ ظاہر ہے کانگریس کے ہندو نواز عناصرکو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ پروشتم ٹنڈن نے تو اپنی ہندوتو نواز تنگ نظری سے مولانا کی مخالفت کی ہی، سردارپٹیل نے بھی تقسیم کو کمزوری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے مجبوری بتایا۔ اصل بات یہ ہے کہ تقسیم کا جو درد وغم مولاناآزاد کی آوازاوردل میں تھا، وہ ان کے کسی ساتھی میں نہیں تھا،نہ اس کا اظہار ہوا۔ سبھی آزادی کے جشن اور حصول اقتدار کی خوشی میں تھے۔
تقسیم کی تڑپ مولاناآزادکو کئی سطحوں پر بے چین کرتی رہی۔ ابتدا میں ان کاخیال تھا کہ یہ تقسیم ملسمانوں کوتباہ کردے گا۔ انھوں نے لکھنؤ اور دلی کی جامع مسجد میں جو تقریر کی،اس میں ی بات خاص طور پر کہی گئی۔ ایک دل سوز پشیمانی جس کا اظہار وہ باربار کررہے تھے۔اس میں ایک طرح کی شکوہ بھی تھی اور دکھ بھی:’’تمھیں یاد ہے میںنے تمھیں پکارا اور تم نے میری زبان کاٹ لی۔ میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ کاٹ دیے۔ میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پیر کاٹ دیے۔ میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑ دی۔ حتی کہ گزشتہ سات برسوں کی تلخ نوا سیاست آج تمھیں داغ جدائی دے گئی ہے۔۔۔۔تم لوگوں کوجھنجھوڑنا چاہا، تم پر میری صدا سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ غفلت و انکار کی ساری سنتیں تازہ کردیں۔ نتیجہ معلوم ہے کہانھیں خطروں نے آج تمھیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمھیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔‘‘32؎ اس پوری تقریر میں ان کی ان سنی کردی گئی باتوں کی شکایت تھی،جس میں ایک شدیددرد تھا۔ انھوں نے وہ ساری باتیں دہرائیں کہ کس طرح انھوں نے آزادی کے لیے ہندوئوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے لڑنے کی بات کہی تھی۔ دو برادریاں، دو قوم کے تصور کو انھوں نے پھر ہدف ملامت بنایا۔ انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ کی غلط رہنمائی کی وجہ سے قوم کے سامنے یہ مسئلہ رونماہواہے۔مولاناآزاد نے مایوس اور پست مسلم قوم کو پھر سے اٹھ کھڑا ہونے اور صحیح فکر کے ساتھ درست راہ اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ انھوں نے ان کے اندر ڈوبتی خوداعتمادی کو دوبارہ بحال اور مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے احتساب نفس پر زورڈالا اور بے خوفی کا پیغام دیا۔ سچے مسلمان کا تصور پیش کیا: ’’مسلمان اور بزدلی یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ پرجمع نہیں ہو سکتے۔سچے مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ ‘‘انھوں نے نئی تبدیلی کوقبول کرنے کی اپیل کی، ان کی آواز میں نشاۃ ثانیہ کا پیغام تھا:’’آؤ عہد کروکہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اسی کے لیے ہیں اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔‘‘33؎ مولاناآزاد نے نئے ہندوستان کی تعمیر میں شامل ہونے کی اپیل کی۔یہ پوری تقریر آج بھی مسلم قوم کو رشنی دینے والی ہے۔ نشاۃثانیہ کے اس عظیم پیشوا نے ایک نئے جوش، نئے جذبے اور نئی فکر سے پست قوم میں نئی روح دوڑا دی۔
مولاناآزاد کی بصیرت ایسی تھی کہ وہ بڑی سہولت سے ہر موضوع کی روح تک پہنچ جاتے تھے۔ سیاست، مذہب اور ادب کے علاوہ تعلیم،فن،موسیقی میں بھی انھیں نہ صرف دخل حاصل تھا بلکہ ان میدانوں کا ایک اپنا تصور بھی رکھتے تھے۔ حتی کہ سائنس اور تکنیک کے بارے میں بھی ان کی خاص فکر تھی۔ ان کے معاصرین میں شاید ہی کوئی اورہو جو اتنے میدانوں میں جاکر حاکمانہ انداز میں بول سکتا تھا۔ان کی ذاتی شناخت ایسی تھی کہ بڑے سے بڑا طوفان بھی انھیں ہلا نہیں سکتا تھا اور وہ اپنی روایت میں پاؤں پیوست کرکے جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے کسی قسم کی کشمکش کے شکار نہیں ہوتے۔ان میں صلابت فکری اور ترقی پسندی کا بہترین توازن تھا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ نوآبادیاتی آزادی کے باوجودنوآبادیاتی نظام اسی طرح ہے اور اس میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک اور سماج کی ترقی ناممکن ہے۔ 21دسمبر1947کو پٹنہ یونیورسٹی کے تقسیم اسناد پروگرام میں انھوں نے ہندی میں بولتے ہوئے اس سوال کو اٹھایا اور تعلیم، زبان اورعلم کی خودمختاری کے سوال کو سامنے رکھا:’’باقی دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ آزادی کے بعد بھی ہم بغیر زبان والی ریاست کیوں بنے ہوئے ہیں؟ انتظامیہ اور تعلیم نے ابھی تک اپنی زبان طے کیوں نہیں کرپائے۔‘‘34؎؎
آپ ایمانداری سے غور کریں تو اس وقت کے وزیراعظم جواہرلال نہرو میں ذاتی شناخت کی کمی تھی اور وہ روایت کو بھی ذہنی سطح پر ہی زیاد ہ سمجھتے تھے۔اسی لیے بنیادی طور پر ان کے اندر خودمختار ہندوستان کی وہ تڑپ نظر نہیں آتی جو مولاناآزاد میں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔ مولاناآزاد نے بات کی توسیع کرتے ہوئے کہاکہ غیرہندوستانی طریقے سے تعلیم لینا اور دینا غیرفطری ہے اور اس سے زبان ہی نہیں ذہن بھی بدل جاتاہے۔ ہم اپنا فطری دماغ کھو دیتے ہیں۔ انھوں نے مثال دے کر سمجھایا کہ مصر، شام، ترکی،چین،جاپان سبھی نے جدیدتعلیم کو تو اپنا لیا لیکن اپنی زبان کے ذریعے۔اس سے ان کی ترقی تیزی سے ہوئی اور ان کی کثیرالجہات ترقی ہوئی۔ جدت میں بھی وہ آگے رہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم غیرملکی تہذیب اور ادب کی محبت میں گرفتار ہوکر اپنی شاندارتہذیب اور ثقافت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے بڑی آسانی سے تنگ نظری بڑھتی جاتی ہے۔ انھوں نے آگاہ بھی کیا کہ اس سے مذہب میں توہم پرستی اور سیاست میں قوم پرستی پڑھتی ہے۔ انھوں نے فکر اور تحمل پر زور دیا۔ وسیع النظری کی بات کی۔ دراصل اگرہم اپنی روایت میں کھڑے ہوکر جدیدیت کو اختیار کرتے ہیں تو ردو قبول کے شعور سے ہم خود طے کرتے ہیں کہ ہمیں کس سے کیا لینا ہے اور کیا نہیں لینا ہے۔ہم کسی کے غلام نہیں ہوتے۔ درآمد کی ہوئی جدیدیت ہمیں ذہنی طور پر غلام بنا لیتی ہے۔
مولاناآزاد مذہبی تعلیم کو سرکاری تعلیم سے منسلک کرنے کے حامی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے تعصب، توہم اور تنگ نظری پیدا نہیں ہوگی۔ مذہبی تعلیم کو اگر غیرسرکاری تنظیموں کے بھروسے چھوڑیں گے تو ممکن ہے وہ مذہبی منافرت پیدا کریں ،متعصب بنائیں اور مناسب مذہبی ہم آہنگی پیدا نہ ہونے دیں۔ وہ قابل اساتذہ کے ذریعہ قدامت پرست مذہبی تعلیم کی جگہ مذہب کے فلسفیانہ عناصر کی تعلیم دیں جس میں اخلاقیات، انسانیت، امن اور تحمل کا پیغام ہوگا۔ ہماری جدید ذہنیت کو اسے قبول کرنے میں شاید تامل ہولیکن آج مذہبی تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اسے ذہن میں رکھ کرغور کریں تو مولاناآزاد کی سوچ آج بھی قابل توجہ معلوم ہوتی ہے۔ مولاناآزاد یکساں حقوق تعلیم کے حامی تھی اور اس بات کے سخت خلاف تھے کہ یونیورسٹی کارخانوں کی طرح طلبا کی تعداد میں اضافہ کریں۔ تعلیم سے ملازمت کا حصول ایک ذیلی مقصد ہے ، اصل بات تعلیم کے اعلیٰ معیار کا ہے۔ وہ اس بات کے سخت خلاف تھے کہ تعلیم یافتہ ہوکر،خاندانی کاروبار چھوڑ کر شہری بابو بن جائیں ۔ تعلیم کو لوگوں کو ان کی وراثت سے منھ پھیرنے کے بجائے مزید باثروت بناناچاہیے۔ ہرایک کوتعلیم حاصل کرنے کا حق ہے لیکن تعلیم یافتہ بن کر سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی غیرصحت مند خواہش پر لگام لگاناضروری ہے۔‘‘35؎ وہ تعلیم کے تعلق سے جامعیت میں سوچتے ہیں۔ و ہ تعلیم کوسماج اور قومی سروکار سے وابستہ کرکے فروغ دینے کے حق میں تھے۔ خاص طور سے وہ مدرسوں اورمسلم تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ تعلیم سے متعلق ’الہلال‘ کی اشاعت سے مرکزی وزیرتعلیم ہونے تک وہ مسلسل غوروفکرکرتے رہے اور اپنے افکار وخیالات کا اظہارتحریری اور تقریری طور پرکرتے رہے۔وہ مسلم نشاۃ ثانیہ کے ان چند رہنماؤں میں تھے جو اسلام اور جدیدیت کو ساتھ ساتھ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تب متعدد تنگ نظر اور متعصب افکار کے لوگوں نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔ ان میں وقت کے ساتھ غوروفکر کی حیرت انگیز ترقی پسندی تھی،مگر ایسا شعورکہ جس میں وہ اپنی روایت پر مضبوطی سے پائوں جمائے رکھیں۔ وہاں وہ کسی مفاہمت پر بالکل تیار نہیں تھے۔
یہ ملک کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے جیسا عظیم رہنما ہندوستان کا پہلا وزیرتعلیم بنا جس کے تحت فن، موسیقی، رقص، ڈراما اور ادب کے فروغ کی ذمہ داری تھی۔ انھوں نے اردو،عربی، فارسی اور ترکی ادب کاگہرا مطالعہ توکیا تھاانگریزی اور ہندوستانی ادب کے بھی وہ عمدہ قاری تھے۔ خود وہ اعلیٰ سطح کے قلم کار تھے۔ ان کی نثر کی تخلیقیت ، لکھنے بولنے کا مسحور کن شاعرانہ اسلوب، غضب کی روانی اور ان کی زبان میں قاری کوگرفت میں رکھنے کی زبردست قوت ہے۔یہ تمام اہم قلم کار کی خوبیاں تھیں۔ ادب کے بارے میں ان کانظریہ بذات خود بہت بلند تھا۔ ساہتیہ اکادمی کے پہلے اجلاس میں انھوں نے ادب کو تمام اصناف میں اہم ترین بتایا۔ ان کی راست فہمی کا اندازہ ’اکادمی‘ لفظ کی تشریح سے ہی ہوجاتاہے۔’’قریب قریب 900سال تک یونان میں اکادمیوں کا زور رہااگر جسٹیمن کا تہدیدی فرمان جاری نہ ہوتا توان اکادمیوں کی بساط کبھی نہ الٹ سکتی۔900سال کی اس طویل مدت کے دوران اکادمی کی اصطلاح اپنے ایک خاص مفہوم کے ساتھ شہرت پاگئی۔ السنہ شرقیہ و غربیہ کی لغات میںاکادمی کے لیے کوئی ایسا مترادف لفظ نہیں ملتا جو لطف اور شائستگی میں اکادمی کا لگا کھا سکے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے کسی نئے لفظ کی کھوج میں وقت نہیں گنوایا اور سعی لاحاصل سے باز رہے۔ہم اصل لفظ اکادمی تلفظ کی تھوڑی بہت رعایتوں کے ساتھ قبول کرلیا۔‘‘36؎ ان کے لیے ادب اور فن مسرت یا تفریح کے لیے کبھی نہیں رہا۔ یہاں بھی انھوں نے دہرایا کہ اس کا مقصد عوام کی پسند کو نکھارنا اور ادب کو بتدریج فروغ دینا ہے۔ اس میں انھوں نے فرانس کی اکادمی کا تذکرہ کیاہے جس کی رکنیت دنیا کے بڑے بڑے قلم کاروں کو بھی مشکل سے ملتی ہے۔ انھوں نے فرانسیسی ادب پر جو مختصر تبصرہ کیا ہے اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلاسیکی فرانسیسی ادب سے کتنی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اس اصول و ضوابط، خودمختاری اور حکومت کے غیرجانب دارانہ کردار پر انھوں نے جو خیالات پیش کیے ان سے اس وقت کے معیارحکومت کو بھی تھوڑا سا سمجھا جاسکتا ہے۔یہ خوش قسمتی ہے کہ ان کے عرصۂ کار میں ہی ساہتیہ اکادمی، رقص، ناٹیہ اور سنگیت اکادمی، للت کلا اکادمی، بھارتیہ اتیہاسک ابھیلیکھ آیوگ اور تاریخ سے متعلق اداروں کے ساتھ الیکٹرانک انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسے متعدد اداروں کاقیام عمل میں آیا۔
5مارچ1952کو سویت للت کلانمائش کے افتتاح کے وقت انھوں نے لینن کا ایک قول دہرایا کہ فن کا تعلق عوام سے ہے۔ اس کی جڑیں کام کرنے والے عوام کے ہجوم کی گہرائیوں سے ہونی چاہیے۔ ’’سیاسی طور پر دنیا مسابقتی گروہوں میں منقسم ہوسکتی ہے۔نظریات کا تصادم ہوسکتا ہے لیکن فن ، فلسفہ، ادب اور اقدار کی بنیاد پر تمام بنی نوع انسان ایک ہے۔ ان میدانوں میں کسی بھی فرد کی تخلیق پوری انسانی برادی کی وراثت ہوتی ہے۔‘‘37 ؎ انھیں ادب کے آفاقی قدروں کی بہت عمدہ سمجھ تھی۔
مولاناآزاد ہندوستان کی فنی حصولیابیوں سے واقف ہی نہیں تھے بلکہ ان پر وہ فخر کااظہار بھی کرتے تھے۔ فلسفہ اور سائنس کے قابل افتخار ماضی کے ساتھ وہ یونان کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ بطور خاص موسیقی کے بارے میں ان کی باریک ، سنجیدہ اور لطیف سمجھ حیرت میں ڈالتی ہے۔ وہ عام معنوں میں سیاسی رہنما نہیں تھے ،وہ ہندوستان کی ثقافتی علامت تھے۔ ’’امیرخسروعظیم شاعر تو تھے ہی ساتھ ہی انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا نقش دیگر فنون لطیفہ پر بھی چھوڑا ہے۔ ہندوستانی اور پارسی سروں کے اختلاط سے انھوں نے کئی نئے راگ تیار کیے۔ لاکھوں ہندوستانیوں کے ذریعہ آج بھی گنگنائے جانے والے گیت ،کول اور سہلہ ان کی صلاحیتوں کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جہاں تک سازوالی موسیقی کا سوال ہے تو ستار کی ایجاد کا سہرہ انھیں کے سر ہے۔ انھوں نے وینا جیسی مشکل ساز کے تاروں کی تعداد کم کرکے تین کردی۔پارسی میں ستار کامطلب تین تار ہے اور یہ اسی وقت کو بیان کرتا ہے۔‘‘37؎ آگے وہ خیال اور دھرپد کاتذکرہ کرتے ۔ہیںآپ کومحسوس ہی نہیں ہوگا کہ یہ کوئی سیاسی لیڈر لکھ رہا ہے۔ جب موسیقی پر لکھتے ہیں تو موسیقی کے ماہر اور جب ڈراما پر لکھتے ہیں تو تاریخ ڈراما کے ماہر جیسی زبان اور لہجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ’’گزشتہ پچاس برسوں کے دوران مصر کی تاریخ پر ہوئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں برس پہلے ،عیسیٰ مسیح کی پیدائش سے قبل بھی مصر میں ڈراما رائج تھا۔ بریسٹیڈ کے اصول کے مطابق والادت ِمسیح سے پہلے چارہزارصدی میں میم فس ڈراما کی صنف کافی ترقی یافتہ تھی۔800 قبل مسیح میں ایتھوپیا کے فروہا نے اس روایت کو پھر سے شروع کیااور آج بھی اس کے کچھ اجزا زندہ ہیں۔ بابل اور نینوہ میں بھی مذہبی جشن کے دوران ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔‘‘39؎ پھر وہ ہندوستان کے بھاس،بھوبھوتی اور کالیداس کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حالیہ تحقیق سے بھی واقف تھے۔اسلامی ممالک کے جامع مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کا وہ نظریہ بہت اہم ہے جو پرانے زمانے سے چلی آرہی تہذیبی میل جول کو نشان زد اور معتبر کرتا ہے۔ہندوستان کے مندروں میں ترقی یافتہ انداز رقص، اس کی تعلیم اور عوامی جذبات کے بے شمار اظہارات، نشیب وفراز اور لاجواب لے کاتذکرہوہ جس طرح کرتے ہیں اس سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس سمت بھی وہ گہری دسترس رکھتے تھے۔ یہ ان کی گہری دلچسپی کے مخصوص علاقے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ سب کی ترقی میں حکومت کے کردار کو تحفظ، تعاون اور سرمایہ تک ہی محدود کرکے وہ مکمل خودمختاری کے حامی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مولاناآزادہندوستان میں ایسے ادارے قائم کرسکے۔ نشاۃ ثانیہ کی سوچ، ذہنیت اور جذبہ ہی تھا کہ اس شروعاتی دور میں یہ ڈھانچے ایک عظیم معمار کی نگرانی میں کھڑے ہوگئے،ورنہ کیا پتہ اس ملک کا کیا ہوتا!
ان کی دلچسپی کے وسیع اورمتنوع میدان میں تاریخ ایک اہم علاقہ تھا۔ اس میں ان کی رسائی بہت اندر تک تھی اور نظریہ بالکل جدید تھا۔ مطالعۂ تاریخ ہندوستان میں انھوں نے بہت سارے کام کیے۔28دسمبر1948کوتاریخ ہندوستانی ریکارڈ کمیشن کی سلورجبلی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے بہت ہی پرمغز لیکچر دیا۔ انھوں نے ایک تفصیلی لائحہ عمل بناکر کام کرنے کی صلاح دی تھی۔ تاریخ کے کچھ علاقے نامعلوم ہیں تو کچھ کے تعلق سے بہت غلط تصورات پیش کیے جاتے ہیں۔جیسے ’’موہن جوداڑو تہذیب کے جنوبی ہند یا مشرق وسطیٰ کے علاقوں کے ساتھ رشتوں کی گتھی ابھی سلجھنی باقی ہے۔ بحرین اور کویت میں حال ہی میں ہوئی کھدائی سے کئی ایسے مینار روشنی میں آئے ہیں ، جو عیسیٰ کی دوسری ہزار صدی قبل یا اس سے بھی پہلے کے وقت کے بتائے گئے ہیں۔ کچھ مؤرخوں نے ان میں جنوبی ہند میں فارس کی کھاڑی کے علاقوں کے وسط قدیم رشتوں کے ثبوت دکھائے ہیں۔‘ ‘40؎ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک تاریخ کے طالب علم کی طرح وہ ہر کھدائی اور تحقیق سے باخبررہتے ہیں اور ایشیا بالخصوص ہندوستان کے قدیم رشتوں کے علاقوں کو تو مکمل طور سے کھنگالنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے ابتدائی دور میں ہی1857کے تعلق سے نوآبادیاتی تاریخی نظریے سے انکار کرتے ہوئے اسے جنگ آزادی کہا۔ انھوں نے اس پر گہرائی سے تحقیق کرنے، تمام ماخذات تلاش کرنے اور اسے نئے سرے سے مرتب کرنے کی اپیل کی۔ انھوں نے ایک اور غیرمعمولی اہمیت کا حامل کارنامہ عہدوسطیٰ کی تاریخ میں انجام دیا۔ 1953ئ میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عہدوسطیٰ کے ہندوستان کی تاریخ سے متعلق بنیادی ماخذ ،اشیااور مواد کو فارسی اورعربی سے تلاش کرکے انھیں ہندی میں منتقل کرنے کے منصوبے کی داغ بیل ڈالی۔یہ ذمہ داری پروفیسرشیخ عبدالرشید صاحب اور پروفیسرایس نورالحسن صاحب کی نگرانی میں عظیم مؤرخ ڈاکٹرسیداطہرعباس رضوی نے ادا کی۔مولانا آزادکو علم تھا کہ ہندو اور مسلم متعصب دانشوروں کے لیے فرقہ واریت کو فروغ دینے کا سب سے زیادہ مواد اسی عہد میں ہے۔ اسے انگریزمؤرخوں نے اور آسان بنا دیاتھا۔ مولاناصاحب کے اس منصوبے سے عہدوسطیٰ کی تاریخ کے بنیادی ماخذ جب نوجلدوں میں سامنے آئے تو انگریزمؤرخوں کی کج روی بھی واضح ہوگئی۔اپنے عرصۂ کار میں نیشنل آرکائیوز کو بین الاقوامی سطح تک لے جانے کے لیے جتنا وہ کر سکتے تھے ،وہ سب کیا۔ اس کی ہرایک اہم تقریب میں وہ ذاتی دلچسپی لیتے اور شریک بھی ہوتے تھے۔ اسی طرح نیشنل لائبریری کے لیے بھی بہت کچھ کیا۔اپنے عرصۂ کار میں انھوں نے دہلی اور بیرون دہلی میں مجموعی طورپر ساتھ ادارے قائم کیے۔ آج وہ سارے ادارے ملک کے رہنماادارے ہیں اور اس میدان میںملک جو کچھ بھی بہتر حاصل کرسکا ہے اس میںبلاشبہ ان کا کردار ہے۔
مولاناآزاد کی حب الوطنی دلکش الفاظ کی نمائش نہیں تھی۔ آزادی کے بعد جس دوراندیشی، خودسپردگی اور مہارت سے انھوں نے ہندوستان کی تعمیر میں خود کووقف کردیا یہ ملک ان احسان کبھی نہیں چکا سکتا۔ان کے قائم کردہ 27اداروں میں آپ سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق اداروں پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ مستقبل کے ہندوستان کے بارے میں ان کا تصور کیا تھا؟ ان کا جذبہ کیا تھا اورکس طرح انھوں نے ہندوستان کی تعمیر کی۔ وہ نئے ہندوستان کے کتنے بڑے معمار تھے۔1۔ آل انڈیا کونسل فار ٹکنیکل ایجوکیشن2۔سنٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، رڑکی، 3۔ دی کونسل فار اسائنٹفک اینڈانڈسٹریل ریسرچ 4۔ کھڑکپور انسٹی ٹیوٹ آف ہائرٹکنالوجی 5۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس 6۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور7۔دہلی پولیٹکنک 8۔ویسٹرن ہائر ٹکنالوجیکل انسٹی ٹیوٹ بمبئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سائنس کے میدان میں متعدد تجربہ گاہیں قائم کیں۔1942میں قائم شدہ سائنس اور ٹکنالوجی ریسرچ کونسل کو انھوں نے 1949سے پوری رفتار عطا کردی۔ اسی کے ماتحت الیکٹرانک انجینئرنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی تھی۔ 1954میں اس کی بنیاد رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کلکتہ، نئی دہلی اور بمبئی میں قائم شدہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے بعد یہ ملک کی ترقی کو مزید تیزی بخشے گی۔ملک کے تمام بڑے سائنس دانوں کو انھوں نے شامل کیااور کام کرنے کا مکمل اختیار دیا۔ کستوربھائی،لال بھائی، ایچ۔جے۔بھابھا، ایس۔ایس۔بھٹناگر،کے۔ایس۔کرشنن اور جے۔سی۔گھوش جیسے بڑے سائنس دانوں کو پوری آزادی تھی اور وہ جو مشورہ دیتے تھے مولاناآزاد اسے ضرور توجہ دیتے تھے۔ اصل میں مولاناآزاد جدیدہندوستان کے ایسے معمار تھے جو بغیر کسی شور اور نمائش کے اسے آنے والے وقت کے لیے تیارکرتے رہے اور مضبوط بناتے رہے۔
خدا ہو یا رسول ،اس زمین پر کوئی اپنا مستقل ٹھکانہ نہیں بناتا۔ زمین شاید یہ سوچ کر وداع کردیتی ہے کہ جانے والے پھر آنے کی تمنا کرے۔ 19فروری1958کو آکاش وانی سے جب ان کی بیماری کی منحوس خبر نشر ہوئی تو پورے برصغیر میں بے چینی پھیل گئی۔ لوگ بے ترتیب سانسوں سے اگلی خبر کابے صبری سے انتظار کررہے تھے۔ ان کے بنگلے پر صدرجمہوریہ راجندرپرشاد،وزیراعظم جواہر لال نہرو اور بہت ساری شخصیات جمع ہوگئیں۔ لوگوں کا ہجوم امڈپڑا۔ ان پر فالج کا حملہ ہواتھا۔ڈاکٹروں نے کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ اوپر والے کو اپنا فرشتہ واپس چاہیے تھا۔ آخر22فروری1958کو رات سو دس بجے ان کی وفات ہوئی۔ وہ فرشتہ کسی کا مقروض نہیں تھا۔ اس کے پاس نہ ذاتی مکان تھا، نہ کوئی جائداد۔ یہ بات دیگر کہ ان کے خانسامے عبداللہ(جس کی موت پر مولاناآزادرودیے تھے) نے اپنے گائوں ضلع گونڈا میں کافی جائداد بنا لی تھی اور بینک بیلنس بھی کرلیا تھا مگر فرشتہ تو فقیر کا فقیر ہی رہا۔بہت سارے طلبا اور بیوائیں جنازے کے ساتھ بلک بلک کر رو رہی تھیں۔ انھیں ہرمہینے خاموشی سے پیسے بھیجنے والا فرشتہ اڑگیا تھا۔
ماخذ
1۔امام الہند(صدی یادگارکتاب 3-)سیدہ سیدین حمید،پروفیسرمجیب رضوی،ص؛16
2۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛3
3۔ابوالکلام آزاد،عبدالقوی دسنوی،ص؛19
4۔ابوالکلام آزاد،عبدالقوی دسنوی،ص؛30
5۔ابوالکلام آزاد،عبدالقوی دسنوی،ص؛32
6۔ابوالکلام آزاد،عرش ملسیانی،ص؛34
7۔ابوالکلام آزاد،عرش ملسیانی،ص؛35
8۔مولاناآزاد کی یادمیں، خدابخش لائبریری پٹنہ،ص؛57
9۔ابوالکلام آزاد،عرش ملسیانی،ص؛38
10۔ابوالکلام آزاد،عبدالقوی دسنوی،ص؛56
11۔رام گڑھ کانگریس(مارچ1940)کا صدارتی خطبہ
12۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛74-75
13۔مولاناابوالکلام آزاد،مرتبہ،ملک محمد کمال یوسف، ص؛31
14۔مولاناابوالکلام آزاد:ایک یگ پروش،محمداسحاق بھٹی، ص؛18-19
15۔امام الہند(صدی یادگارکتاب 3-)سیدہ سیدین حمید،پروفیسرمجیب رضوی،ص؛27
16۔امام الہند(صدی یادگارکتاب 3-)سیدہ سیدین حمید،پروفیسرمجیب رضوی،ص؛28
17۔امام الہند(صدی یادگارکتاب 3-)سیدہ سیدین حمید،پروفیسرمجیب رضوی،ص؛32
18۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛101
19۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛99
20۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛102
21۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛102
22۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛102
23۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛3
24۔امام الہند(صدی یادگارکتاب 3-)سیدہ سیدین حمید،پروفیسرمجیب رضوی،ص؛3
25۔ابوالکلام آزاد،عرش ملسیانی،ص؛66
26۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛146
27۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛152-153
28۔مسلم من کا آئینہ، راج موہن گاندھی،ص؛262
29۔مسلم من کا آئینہ، راج موہن گاندھی،ص؛281
30۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛181
31۔آزادی کی کہانی(خودنوشت)،ص؛191
32۔مولاناآزاد کی یادمیں، خدابخش لائبریری پٹنہ،ص؛76
33۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛157-158
34۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛162
35۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛179
36۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛277-278
37۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛217
38۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛269
39۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛269
40۔چنندہ لیکھ اور ابھی بھاشن، کے۔سی۔یادو،ص؛242
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |