اردو میں طرحی مشاعروں کی روایت اپنے مخصوص عہد کے بعد تخلیقی زرخیزی کے ساتھ پنپ نہ سکی۔ کیوں اس روایت کے احیا میں ایک جمالیاتی جواز موجود تھا کہ طرح پر کہنا طبعِ شاعر پر جبراً احساس مسلط کرنے کے مترادف ہے اور اس نتیجے میں پیدا ہونے والے شعری سرمائے میں تخلیقی وفور اور بیساختگی کا مزاج اپنی اکمل حالت میں نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا شعر، جو کہ سراسر ایک الہامی عطیہ ہے، اسے طبیعت کے جبر کے تحت لفظی کھیل بناتے ہوئے دبانا کسی طرح بھی احسن عمل نہیں ہے۔اس کے علاوہ طرحی نشستوں کی ایک وجہ روزگارِ زمانہ کی پیدا کردہ مصروفیت ہے جس نے فردی یکجائی کے عمل کو روکنے میں مہمیز کا کام کیا۔
لیکن عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کی بدولت نشستوں کا متبادل آنلائن رابطہ بن گیا جس سے مشاعرے کی روایت میں ایک بار پھر زندگی کی رَو پیدا ہوئی۔ یہ خوش آئند بھی ہے اور روایت کا احیا بھی، اس سے فن میں روانی پیدا کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے اور ایک وفور اور کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی شعری تخلیق کے لیے محرک کا کردار ادا کر سکے۔
اشرف عادل وادئ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر ہیں۔ابھی تک آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔بہت پہلے "لذتِ گریہ ” کے نام سے آپ کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔”الہام سے پہلے”آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو 2021ء کےآخری دنوں یعنی دسمبر کے مہینےمیں منصۂ شہود پر آگیا۔ عادل صاحب کہنہ مشق شاعر ہیں کہ ہر دن فیس بک پر ان کی کم از کم ایک غزل پوسٹ ہوتی رہتی ہے۔زیرِ نظر مجموعہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مجموعہ آن لائن طرحی فی البدیہ غزلوں پر مشتمل ہے۔گوکہ آپ سے پہلے بھی اردو میں اس طرح کی غزلوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہونگے لیکن جہاں تک میری دانست کا تعلق ہے مجھے لگتا ہے کہ وادئ کشمیر میں یہ اس نوعیت کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔
تخلیق ایک جاں گسل عمل ہے کہ اس میں خونِ دل کشید کرنے کے بعد ہی مصرعہء تر کی صورت نظر آتی ہے۔ایک طرف یہ تفریق تو دوسری جانب اپنی شاعرانہ شناخت کا معاملہ۔آج کے دور میں مانو جو کچھ بھی نہیں کرتا ہے وہ شاعری کرتا ہے۔گوکہ شعرا کی ایک کثیر تعداد جہاں آج بھی گل و بلبل،ہجر و وصال،حسن و عشق کے روایتی قیود میں محصور ہے،وہیں شعرا میں خاص کر نوجوان نسل روزمرہ کے موضوعات کو برت کرنت نئے تجربات بھی کررہی ہے کہ کہیں پر ان کو کامیابی تو کہیں پر ناکامی کا سامنا رہتا ہے لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مذکورہ دونوں گروہوں کا سنگم ہے کہ روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ وہ جدت کو بھی اپنی شاعری کا زیور بنالیتے ہیں اور جدید شاعری کے ایوان کو نئے نئے گل بوٹوں سے سجاتے اور سنوارتے ہیں اور اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت قائم کرلیتے ہیں ان ہی شعرا میں اشرف عادل کا نام بھی شامل ہے۔اشرف عادل کی اس انفرادیت کا بین ثبوت ان کا شعری مجموعہ”الہام سے پہلے”ہے۔
” الہام سے پہلے "۶۴ غزلوں پر مشتمل طرحی مصرعوں پر کہی گئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔جس کے طرحی مصرعے کلاسیکی شعرا جیسے مصطفی خان شیفتہ، مرزا غالب،مومن خان مومن،آتش،علامہ اقبال سے لیکرجدید دور کے شعرا فیض احمد فیض،ناصر کاظمی،جون ایلیا،سلیم کوثر وغیرہ تک کی غزلوں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ان طرحی مصرعوں کو قومی و بین الاقوامی آن لائن فیس بک ادبی فورمز جیسےفورم سائباں، صبا آداب کہتی ہے،بزمِ سخنوراں،فیس بک ٹائمز سپین،عشق نگر،قوسِ قزح ممبئی،بزمِ تخلیق،شمعِ محفل (پاکستان ) موجِ سخن وغیرہ نے وقتاً فوقتاً شعرا کی طبع آزمائی کے لیے منتخب کیاتھا۔اس سلسلے میں اشرف عادل نے بھی اپنے شاعرانہ جواہر دکھائے تو مذکورہ شعری مجموعہ معرضِ وجود میں آیا۔
شعری مجموعہ”الہام سے پہلے "،میں کلاسیکی دور کے شعرا کی اس روایت کی بازیافت کا سراغ ملتا ہے جس کا سب سے پہلا منکر غالباً مرزا غالب تھا کہ ان سے پہلے جب بھی کوئی شاعر اپنا دیوان مرتب کرتا تھا تو دیوان کے ابتدائی اوراق حمد،نعت،منقبت وغیرہ کے لیے مختص ہوتے تھے لیکن غالب نے براہِ راست اپنے دیوان کا آغاز غزل سے کرکے اس روایت کو توڑ دیا تھا،البتہ مذکورہ مجموعہ میں اشرف عادل حمد ونعت سے شروعات کرکے اس صدیوں پرانے رواج کو پھر سے فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ وہ تخلیقی سطح پربھی غزل کےکلاسیکی ہاؤ بھاؤ اور رنگ رچاؤ کے پرستار نظر آتے ہیں۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے یہاں عصری حسیت بالکل بھی نہیں ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ جدید دور کی افراط و تفریط کو بھی غزل کی کلاسیکی لَے اور مزاج کے ساتھ منقلب کرتے ہیں کہ خوبصورت کلاسیکی تشبیہات ،تراکیب اور دلکش استعاروں سے بھی جدید دور کی ملمع کاری کا پردہ فاش ہوجاتا ہے۔یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ زبان کے معاملے میں داغ دہلوی کا اثرواضح نظر آتا ہے۔وہی آسان، شستہ اور سادہ زبان ہے جس میں داغ دہلوی کی مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے۔وہی عشقیہ لہجہ جو اپنے دور کے حالات کی نمناکی کو بھی آئینہ بنادیتا ہے۔یعنی اسی اعلیٰ تغزل کی نشانی اشرف عادل کی غزل بھی ہےجس کی امین داغ دہلوی کی غزل رہی ہے۔داغ سے اس وابستگی کا بین ثبوت زیر نظر کتاب کا انتساب بھی ہے۔اور”تمثیلِ داغ” کے عنوان سےداغ کی زندگی اور عشق پر مبنی مصنف کی ریڈیائی ڈراموں پر مشتمل تصنیف بھی ہے۔
عشق میں اشرف عادل کے ہاں ہجر کا پہلو غالب ہے جو شاید محبت میں ناکامی کا ثمرہ ہے۔جس سے ان کے اندر کا باطنی انہدم ان کی غزل میں ٹھہراؤ اور سنجیدہ پن پیدا کردیتا ہے اور پھر ان کی تخلیقی آگہی میں بصیرت افروز اضافہ کردیتا ہے،جو بے لگام تخیل پرستی سے نہیں بلکہ سنجیدہ غور وفکرسے زندگی کے نگار خانے میں رنگ بھر دیتا ہے۔مذکورہ شاعرہجر کی راتوں سے گھبراتا نہیں ہے بلکہ اُمید کی مشعل لے کر دیدارِ یار کا منتظر ہے۔
تمہارے ہجر کا مزہ اٹھا کے دیکھتے ہیں ہم
چراغ آندھیوں میں اب جلا کے دیکھتے ہیں ہم
یہ چاند غم کا ڈوب ہی جائے گا صبح تک
یہ شام ہے فراق کی پر شام ہی تو ہے
ہجر میں بے لباس حسرتوں،اُمنگوں،
محرومیوں اور اُداسیوں کا انبار پورے مجموعے میں جگہ جگہ ایک طرح کے یادیاتی اسلوب کو جنم دی
اشرف عادل وادئ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر ہیں۔ابھی تک آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔بہت پہلے "لذتِ گریہ ” کے نام سے آپ کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔”الہام سے پہلے”آپ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو 2021ء کےآخری دنوں یعنی دسمبر کے مہینےمیں منصہ ءشہود پر آگیا۔ عادل صاحب کہنہ مشق شاعر ہیں کہ ہر دن فیس بک پر ان کی کم از کم ایک غزل پوسٹ ہوتی رہتی ہے۔زیرِ نظر مجموعہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مجموعہ آن لائن طرحی فی البدیہ غزلوں پر مشتمل ہے۔گوکہ آپ سے پہلے بھی اردو میں اس طرح کی غزلوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہونگے لیکن جہاں تک میری دانست کا تعلق ہے مجھے لگتا ہے کہ وادئ کشمیر میں یہ اس نوعیت کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔
تخلیق ایک جاں گسل عمل ہے کہ اس میں خونِ دل کشید کرنے کے بعد ہی مصرعہء تر کی صورت نظر آتی ہے۔ایک طرف یہ تفریق تو دوسری جانب اپنی شاعرانہ شناخت کا معاملہ۔آج کے دور میں مانو جو کچھ بھی نہیں کرتا ہے وہ شاعری کرتا ہے۔گوکہ شعرا کی ایک کثیر تعداد جہاں آج بھی گل و بلبل،ہجر و وصال،حسن و عشق کے روایتی قیود میں محصور ہے،وہیں شعرا میں خاص کر نوجوان نسل روزمرہ کے موضوعات کو برت کرنت نئے تجربات بھی کررہی ہے کہ کہیں پر ان کو کامیابی تو کہیں پر ناکامی کا سامنا رہتا ہے لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مذکورہ دونوں گروہوں کا سنگم ہے کہ روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ وہ جدت کو بھی اپنی شاعری کا زیور بنالیتے ہیں اور جدید شاعری کے ایوان کو نئے نئے گل بوٹوں سے سجاتے اور سنوارتے ہیں اور اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت قائم کرلیتے ہیں ان ہی شعرا میں اشرف عادل کا نام بھی شامل ہے۔اشرف عادل کی اس انفرادیت کا بین ثبوت ان کا شعری مجموعہ”الہام سے پہلے”ہے۔
” الہام سے پہلے "۶۴ غزلوں پر مشتمل طرحی مصرعوں پر کہی گئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔جس کے طرحی مصرعے کلاسیکی شعرا جیسے مصطفی خان شیفتہ، مرزا غالب،مومن خان مومن،آتش،علامہ اقبال سے لیکرجدید دور کے شعرا فیض احمد فیض،ناصر کاظمی، جون ایلیا،سلیم کوثر وغیرہ تک کی غزلوں سے منتخب کیے گئے ہیں۔ان طرحی مصرعوں کو قومی و بین الاقوامی آن لائن فیس بک ادبی فورمز جیسےفورم سائباں، صبا آداب کہتی ہے،بزمِ سخنوراں،فیس بک ٹائمز سپین،عشق نگر،قوسِ قزح ممبئی،بزمِ تخلیق،شمعِ محفل (پاکستان ) موجِ سخن وغیرہ نے وقتاً فوقتاً شعرا کی طبع آزمائی کے لیے منتخب کیاتھا۔اس سلسلے میں اشرف عادل نے بھی اپنے شاعرانہ جواہر دکھائے تو مذکورہ شعری مجموعہ معرضِ وجود میں آیا۔
شعری مجموعہ”الہام سے پہلے "،میں کلاسیکی دور کے شعرا کی اس روایت کی بازیافت کا سراغ ملتا ہے جس کا سب سے پہلا منکر غالباً مرزا غالب تھا کہ ان سے پہلے جب بھی کوئی شاعر اپنا دیوان مرتب کرتا تھا تو دیوان کے ابتدائی اوراق حمد،نعت،منقبت وغیرہ کے لیے مختص ہوتے تھے لیکن غالب نے براہِ راست اپنے دیوان کا آغاز غزل سے کرکے اس روایت کو توڑ دیا تھا،البتہ مذکورہ مجموعہ میں اشرف عادل حمد ونعت سے شروعات کرکے اس صدیوں پرانے رواج کو پھر سے فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ وہ تخلیقی سطح پربھی غزل کےکلاسیکی ہاؤ بھاؤ اور رنگ رچاؤ کے پرستار نظر آتے ہیں۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے یہاں عصری حسیت بالکل بھی نہیں ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ جدید دور کی افراط و تفریط کو بھی غزل کی کلاسیکی لَے اور مزاج کے ساتھ منقلب کرتے ہیں کہ خوبصورت کلاسیکی تشبیہات ،تراکیب اور دلکش استعاروں سے بھی جدید دور کی ملمع کاری کا پردہ فاش ہوجاتا ہے۔یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ زبان کے معاملے میں داغ دہلوی کا اثرواضح نظر آتا ہے۔وہی آسان، شستہ اور سادہ زبان ہے جس میں داغ دہلوی کی مقبولیت کا راز پوشیدہ ہے۔وہی عشقیہ لہجہ جو اپنے دور کے حالات کی نمناکی کو بھی آئینہ بنادیتا ہے۔یعنی اسی اعلیٰ تغزل کی نشانی اشرف عادل کی غزل بھی ہےجس کی امین داغ دہلوی کی غزل رہی ہے۔داغ سے اس وابستگی کا بین ثبوت زیر نظر کتاب کا انتساب بھی ہے۔اور”تمثیلِ داغ” کے عنوان سےداغ کی زندگی اور عشق پر مبنی مصنف کی ریڈیائی ڈراموں پر مشتمل تصنیف بھی ہے۔
عشق میں اشرف عادل کے ہاں ہجر کا پہلو غالب ہے جو شاید محبت میں ناکامی کا ثمرہ ہے۔جس سے ان کے اندر کا باطنی انہدم ان کی غزل میں ٹھہراؤ اور سنجیدہ پن پیدا کردیتا ہے اور پھر ان کی تخلیقی آگہی میں بصیرت افروز اضافہ کردیتا ہے،جو بے لگام تخیل پرستی سے نہیں بلکہ سنجیدہ غور وفکرسے زندگی کے نگار خانے میں رنگ بھر دیتا ہے۔مذکورہ شاعرہجر کی راتوں سے گھبراتا نہیں ہے بلکہ اُمید کی مشعل لے کر دیدارِ یار کا منتظر ہے۔
تمہارے ہجر کا مزہ اٹھا کے دیکھتے ہیں ہم
چراغ آندھیوں میں اب جلا کے دیکھتے ہیں ہم
یہ چاند غم کا ڈوب ہی جائے گا صبح تک
یہ شام ہے فراق کی پر شام ہی تو ہے
ہجر میں بے لباس حسرتوں،اُمنگوں،
محرومیوں اور اُداسیوں کا انبار پورے مجموعے میں جگہ جگہ ایک طرح کے یادیاتی اسلوب کو جنم دیتا ہے کہ جس میں شاعر اپنے محبوب کی ہر اُس ادا، نازنخرے،حسن پاشی کا تذکرہ کرتا ہے جوبطورِ یاد گزرے زمانے میں اس کا اثاثہ رہاہے۔یہی وہ نقطہء ارتکازہے جہاں سے عادل اشرف کی غزل اپنے داخلی محرکات کو خارج کی طرف دراز کرکے اپنےفکری حصار میں عصری آگہی کو بھی گوندھ دیتا ہے۔وادی میں نامساعد حالات سے پیدا شدہ مسائل کا تدارک اور امن و امان کی آرزو بھی ان غزلوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔اس طرح سے جو موضوعات اشرف عادل کی غزل کا حصہ بن جاتے ہیں ان میں محرومی،اداسی،وحشت، خوف،ڈر وغیرہ شامل ہیں۔
مانا کہ ابھی زرد ہے رنگت گل تر کی
یہ چہرے گلابوں کے نکھر جائیں گے اک دن
آئے گا مہتاب لب بام کبھی تو
اس شہر میں ہم لوگ سنور جائیں گے اک دن
پیغام لئے امن کا الفت کے کبوتر
کشمیر کی وادی میں اُتر جائیں گے اک دن
پھر دھوپ کے پاؤں میں بھی زنجیر پڑے گی
سورج کے زمانے بھی گزر جائیں گے اک دن
جدید دور جس افراتفری،جس انتشارو خلفشار اور جس تناؤ کا شکار ہے یعنی جس طرح کے حالات و واقعات آج پوری دنیا میں رونما ہورہے ہیں کہ انسان کو کسی جنگلی جانور سے زیادہ ڈرانسان سے ہی محسوس ہورہا ہے۔سیاسی،سماجی،تہذیبی و تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی غرض ہرسطح پر جس طرح کے مہرے آزمائے جارہے ہیں صاف ظاہر ہے کہ دُنیا آہستہ آہستہ جنگل بنتی جارہی ہے کہ جہاں من مانی اور طاقتور کی چلتی ہے،کمزور بس جان بچی تو لاکھوں پائے کے اصول پر کار بند ہیں۔ساتھ ہی مادیت کی ہولناکی کے اثرات،غیر محفوظیت،بے چہرگی،بے روزگاری،ناانصافی،ظلم و جبر، استحصال،اعلی اقدار کی پامالی،انسان کی بے ضمیری،فرقہ پرستی اور بے زمینی،اجنبیت، نارسائی وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن سے نئے عہد اور نئے انسان کی بے چارگی اور بے بسی کا شدید احساس ہوتا ہے۔اشرف عادل کی غزل ان تمام احوال و آثار کی آئینہ سامانی رمزیت کے پیکر میں پیش کرتی ہےچنانچہ مذکورہ شاعر کی غزلوں میں ان تمام ٹھوس اور سنگین سچائیوں کا علم ہوتا ہے جن سے آج کا دور پوری طرح جھوجھ رہا ہے۔
میں نے بھی اپنے خون کا سودا کیا سدا
تو نے لہو میری رگوں کا پیا بہت
اوتار تھا اک سنگ میں اک سنگ میں شیشہ
ہر شخص کے چہرے پہ تھا چہرا مرے آگے
ہمارے وہم میں کہیں کہیں گماں تھا فکر کا
مسام دل کی تیرگی میں آشکار ہم ہوئے
کہیں سے دھوپ نکل آئی تیز بارش میں
عجیب شخص ہے رویا بھی مسکرایا بھی
آگ کچھ فرقہ پرستی کی لگانی ہے تجھے
یوں سیاست میں وزارت نہیں ملنے والی
لوگ آتے ہیں سیاست کے شکنجے میں بہت
مفلس شہر نے دیکھا نہ شکم سے آگے
کوئی افسر کوئی رہبر کوئی خود سر ہے یہاں
سب زمانے کے خداؤں سے بچانا مجھ کو
حاصلِ کلام،اشرف عادل کا شعری مجموعہ "الہام سے پہلے” وادئ کشمیر کے شعری منظر نامے میں ایک نئی نوید ہے جو گو کہ بنیادی طور پر غزل کی کلاسیکی روایات کے تقدس اور احترام کا پاسدار ہے لیکن اس کے اندورن میں سیال تخلیقیت کا ایسا جوہر پوشیدہ ہے کہ جو حالاتِ حاضرہ کا خلاصہ بھی معلوم ہوتا ہے۔جس میں حسن و عشق کی طلسم آرائیاں بھی ہیں اور ہجر راتوں میں آنسوؤں کی کمائی بھی،جس میں داخلیت کا سنجوگ بھی ہے اور خارجیت کا روگ بھی، جس میں دردِ دل کی داستان بھی ہے اور رنج و الم کی دستاویز بھی، آرزؤں کا خون بھی ہے اور تمناؤں کا جنوں بھی،جس میں جدید دور کے انسان کی چال بازیوں کا پردہ بھی فاش ہے اور شعور و شعریت سے بھر پورفکر و نظر بھی۔شاید اسی سبب سے شعر کا ایک ایک لفظ الہامی معلوم ہوتا ہے اور شاعر کو اس دعوے کا جواز حاصل ہوتا ہے کہ
یہ جنبشِ قلم ہے کہ اللہ کا کرم
مولا یہ لفظ لفظ بھی الہام ہی تو ہے
مرے ہنر کو خدا نے کی ہیں عطا سانسیں
غزل کے ہاتھ کا کوئی کمال ہے مجھ میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |