’ناؤ میں ندیا‘مترجمہ الیاس کبیر – صدف فاطمہ
سبز مائل سرورق پر ندیا میں ڈولتی ناؤ کی تصویر کے ساتھ عنوان ’ناؤ میں ندیا‘ یک بارگی توجہ کھینچنے میں کامیاب ٹھہرتی ہے ۔ذہن ناؤ میں ندیا اور ندیا میں ناؤ کے درمیان ہچکولے کھاتا بےساختہ کتاب کی پڑھت کا تقاضا کرتاہے ۔ اصل کتاب ’بیڑی وچ دریا‘ مصنفہ اسلم انصاری کا مذکورہ اردو روپ بنام ’ناؤ میں ندیا‘ مترجمہ الیاس کبیر فکشن ہاؤس لاہور سے ۲۰۲۳ میں خوبصورت طباعت کے ساتھ سامنے آیا ہے ۔ ’بیڑی وچ دریا ‘ کی زبان سرائیکی ہے ،جسے پڑھنے کے لیے قاری کو سرائیکی زبان سے آشنائی ضروری ہے ، الیاس کبیر کی خدمات ناول کے دائرہ قارئین میں اضافے کا سبب بنی ہے ۔ سرائیکی سے ناآشنا یا اردو طبقہ مذکورہ ناول سے حظ اٹھا سکتا ہے ۔ ناول کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۲ میں ’بیڑی وچ دریا‘ کی اشاعت کے فورا بعد اسے ڈائریکٹر سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر انوار احمدکی تجویز پر ملتان کے نامور ادارے بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی نے شامل نصاب ایم اے سرائیکی کیا ۔یہ ناول سرائیکی زبان ، ثقافت ، رہن سہن ، رسم و رواج اور ملتان کی زمینی خوشبو کا امین ٹھہرتا ہے ۔
ڈاکٹر اسلم انصاری سے قبل بھی سرائیکی ناول لکھے گئے ہیں، جو مقبول ہوئے اور ان کے تراجم بھی مختلف اوقات میں سامنے آئے ۔ اسلم انصاری ناول کے پیش لفظ میں ’بیڑی وچ دریا‘ لکھنے کا مقصد واضح کرتے ہیں :
’پرانے لوگوں کی باتیں اور قصے ، ان کےمحاورے اور اکھان سال ہا سال گزرنے کے بعد بھی ریت کے ٹیلوں پر موتیوں کی مانند بکھرے ہوئے تھے ۔ ۔۔انھیں کسی ایک دھاگے میں پرونا آسان نہ تھا لیکن اس کے باوجود بھی میں یہ کوشش کرتا رہا ہوں۔ اس کہانی کا بنیادی خیال کسی ایسی زبان کا تقاضہ کرتا تھا جو اصل ملتانی زبان کا روپ بھی پیش کر سکے اور جسے پڑھ کر کسی حد تک قدامت کا احساس بھی ہو ۔‘
مندرجہ بالا بیان کو مد نظر رکھا جائے تو مترجم کے لیے ایسے متن کا ترجمہ ایک چیلنج سے کم نہیں رہا ہو گا ۔ ایسا متن جو حقیقت میں کسی زبان کی ترویج کے خیال سے لکھا گیا ہو ، جس کے لفظوں میں معنی سے بڑھ کر لہجے کی اٹھان اور مٹی کی خوشبو پروئی گئی ہو ، ایسا متن جس کی بنیاد ہی ایک قدیم ثقافت پر رکھی گئی ہو اسے دوسری زبان میں ڈھالنے والاخود ترجمے کے متعلق کیا کہتا ہے:
’ترجمہ ایک ثقافت سے دوسری ثقافت کی طرف سفر بھی ہے اوربہ یک وقت دونوں میں سانس لینا بھی ۔۔۔ترجمہ کاری کے لیے بنیادی وجہ اس کا انتخاب ہے ۔یعنی پہلی بات تو یہی ہے کہ ترجمے کے لیے کیا منتخب کیا جائے ؟ اول تو یہ محبت کے تجربے کی طرح ایک داخلی تجربہ ہے ۔ کوئی چیز آپ کے باطن کو گرفت میں لیتی ہے تبھی آپ اس کے ترجمے کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔‘
سرائیکی زبان الیاس کبیر کی ماں بولی ہے اور یہ ناول اس کی دھرتی کا نمائندہ ہے ،یہی عوامل ترجمہ کی توجیہ ثابت ہوتے ہے ۔سرائیکی سے اردو میں ترجمے کے باوجود زبان کی یہ تبدیلی فن، کرداریا کہانی پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے ۔ مترجم نے بڑے سلیقے سے وسیب کے کردار ، کہانی یہاں تک کہ سرائیکی اصطلاحات کو ترجمے میں برقرار رکھا ہے ۔ فارسی مصرعے اور سرائیکی الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔ بعض مقامات پر ان کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے ، جہاں نہیں دیا گیا وہاں سیا ق سباق سے مفہوم واضح ہو جاتا ہے ۔اسلم انصاری کا مقصد سرائیکی زبان کی نمائندگی کرنا تھا سو اس ناول میں کرداروں کے ناموں سے لے کر علاقوں ،رسم و رواج ، عام استعمال کی چیزیں یہاں تک کہ علیک سلیک کا انداز بھی خالص سرائیکی ثقات کا غماز ہے ۔ سانول ، وسو، صاحباں ناول کے مرکزی کردار ہیں ان کے علاوہ سکھ اور ہندو کردار بھی اپنی جگہ متعلقہ زبان کے ساتھ سرائیکی علاقوں کی نمائندگی کرتے معلوم ہوتے ہیں ۔ اسلم انصاری نے انیسویں صدی کے ابتدائی عشرے کا زمانہ اپنی کہانی کے بیان کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ زمانہ اپنے ساتھ قدیم کردار و تاریخ کو جوڑتا ہے ۔ ناول میں تاریخ کا بھی ایک حصہ محفوظ کیا ہے مثلا تاریخی کردار رنجیت سنگھ،مولراج،مظفر خان سدوزئی سے تعارف کروایا جاتا ہے مگر یہ کردار کہانی کے کم اور تاریخ کے ورق زیادہ الٹتے ہیں ۔ ناول کے مرکزی کرداروں کا جائزہ لیا جائے تو سانول سرائیکی مرد اور صاحباں سرائیکی عورت کی نمائندہ ہے ۔ وسو مغنیہ کا کردار ہونے کے باوجود سرائیکی غیرت و نسائی وفا کی نمائندگی کرتی ہے ۔ سکھا شاہی اور گورا شاہی کس طرح سرائیکی ثقافت سے کھیلتی رہی اور ملتان اس کی مزاحمت میں اپنی وجودی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے کھڑا رہا یہ سب اس ناول کی ذیل میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ اسی مضمون کو پیش لفظ میں الیاس کبیر نے شمیم عارف قریشی کے ایک شعر سے تقویت بخشی ہے :
کل عالم وچ جیندا رہسی، جیندا ہے ملتان
ہر پھیرے اے کسدا رہ گئے وکیا نئیں ملتان
کہانی اپنے فکری مقاصد سے بخوبی نبرد آزما ہوتی ہے مگر فنی لحاظ سے اس کا جائزہ باقی ہے ۔ ناول کے موضوع کو الیاس کبیر پیش لفظ میں بیان کرتے ہیں:
’’بیڑی وچ دریا کا بنیادی موضوع تنہائی ہے ۔ یہ تنہائی ناول کے قریب قریب تمام کرداروں کے گرد گھومتی ہے ۔ مرکزی کردار سانول پورے ناول میں تنہائی کے حصار میں رہتا ہے ۔‘
مذکورہ بیان کی وضاحت ناول کے ابتدائی چند صفحات کرتے ہیں جہاں کہانی کو صیغہ واحد متکلم کے ساتھ بیانیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔ سانول اپنی کہانی ،اپنی زبانی کے مصداق اپنے داخلی احساسات کو بیان کرتا ہے ۔
’کسی وقت تو مجھے یہ بالکل یاد نہیں رہتا کہ میں کہاں سے آیا تھا ۔ حالاں کہ یہ بات یاد کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔سب کہتے تھے کہ میں یہیں کا پیدائشی ہوں اور میری سات پشتیں بھی یہیں کی تھیں ۔ مجھے یہ بات یاد رکھنے کی قطعا کوئی ضرورت نہ تھی کہ میں کہاں سے آیا ہوں ۔ ‘
’میں نے دیکھا تو میں واقعی کنارے پر اترا ہوا تھا ۔ پیچھے پلٹ کر دیکھا تو ناؤ اور ملاح ایک دھندلے سے دھبے میں بدل چکے تھے ۔ میں نے چاروں سمت نظریں گھمائیں اور دیکھا کہ اس سمت کا کنارہ خشک ہے ۔ بادل دور جا رہے ہیں ۔۔۔شاید میں کافی دور تک چلتا رہا تھا ۔‘
مگر چند ایک صفحات کے بعد کہانی اپنا صیغہ بدلتی ہے اور اب کہانی کسی اَور کی زبانی بیان ہوتی ہے ،جس کا مرکز سانول ہے ۔
’وہ صبح کے نور تڑکے میں ایسے چلتا جا رہا تھا اور ابھی تک اسے ادھر ادھر کوئی آدمی بھی نظر نہیں آیا ۔ اسی حالت میں اس نے دیکھا کہ ایک آدمی گھوڑی دوڑائے ہوئے آرہا ہے ۔ گھڑ سوار نے سچ مچ میں اس کے قریب پہنچ کر گھوڑی روک دی اور اتر کر اس کے قریب آگیا ، شاید اسے پہلے سے جانتا ہو ۔ ‘
ناول میں سرائیکی لوک گیت کو بھی جگہ دی ہے، جسے مترجم نے ہوبہو نقل کر کے ناول کی چاشنی کو برقرار رکھا ہے :
دل تانگ تانگے ، اللہ جوڑ سانگے
سجڑاں دا ملڑا مشکل مہانگے ، دل تانگ تانگے
البتہ کہانی میں چند ایک مقامات پر بیانات میں تضاد بھی سامنے آتا ہے ۔ مثلا :
’جان بی بی سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اٹھارہ انیس سال کی جوان بیٹی کو چالیس سال کے بوڑھے سے کیسے بیاہ دے۔ چالیس سال کا مرد تو جواب ہی ہوتا ہے۔‘
ایک صفحے بعد درج ہے :
’بیٹی! میں کب تک صبر کروں۔اب تم بائیس سال کی ہونے والی ہو۔ اس عمر میں تو بیٹیاں کئیں بچوں کی مائیں بن جاتی ہیں ۔‘
ناول میں مناظر و کردار کی خوب وضاحت ملتی ہے لیکن بعض مقامات پر وضاحتی پیراگراف قاری کی عقل پر سوال اٹھاتے ہیں ۔
’ملک چوں کہ مسلمانوں کا تھا اس لیے مسلمانوں کی شکست کے رسم و رواج کا کسی حد تک خیال رکھا جاتا تھا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ۱۸۱۸ میں مسلمانوں کی شکست کے بعد مسلمانوں کی عام حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی ۔ اکثر مسلمان بھگدڑ میں شہر سے نکل گئے تھے ۔ بھگدڑ تھمنے اور امن قایم ہو جانے کے بعد سارے مسلمانوں کی واپسی تو نہ ہو پاتی ، ان میں سے کچھ مر کھپ اور کچھ پردیس میں کہیں گم ہو جاتے تھے۔اسی وجہ سے مسلمان کم ہو گئے لیکن پھر بھی اندر کوٹ اور خاص شہر کو چھوڑ کر ملک کی زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی ۔شہر میں زیادہ تر ہندو آباد ہو گئے تھے جن میں سے اکثر اروڑا اور ملہوترہ تھے۔قصٔہ مختصر یہ کہ شہر بس رہا تھا ۔‘
’بھیڑ کم ہوئی تو بزرگ نے اُسے کہا:’ارے سانولے !(انھیں معلوم نہ تھا کہ اس کا نام سانول ہے ۔انھوں نے بزرگوں کے محاورے میں بات کی )۔اُسے بھول جاؤ یا صبر کرو۔‘
مجموعی طور پر ناول کا مقصد سرائیکی زبان ، ثقافت اور رہن سہن ، رسم ورواج کو پیش کرنا ہے، جس میں مصنف و مترجم نے عمدہ کوشش کی ہے۔ تاریخ سے جوڑنے کی کوشش اسے کہیں سے پھیکا یا جھولدار تو کرتی ہے مگر اصل مقصد سے زیادہ دور نہیں جانے دیتی ۔ اسی مقصد کے تحت اگر ناول لکھے جاتے رہے تو یقینا چند سالوں میں سرائیکی ناول کا عمدہ ذخیرہ ہاتھ آئے گا۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |