محمد اکرام
موبائل:9654882771
موجودہ عہد کے عظیم مفکر، دانشور، فلسفی، مورخ، ایک نڈر باغی سیاست داں اور جدید لسانیات کے بانی نوم چومسکی کے نام سے اہل علم بخوبی واقف ہیں۔ ان کااصل میدان تو لسانیات ہے مگر انھوں نے عالمی سیاست، معیشت اور نظامِ تہذیب کے سلسلے میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ چومسکی کے نظریات اور افکار نے علمی اور تحقیقی دنیا کے کئی میدانوں کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ ایک انقلاب آفریں رخ دیا ہے۔ چومسکی کو لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات (Linguistics) کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی تحقیق سے کمپیوٹر سائنس، ریاضی اور نفسیات کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے۔
لسانیات کے باب میں نوم چومسکی نے کچھ ایسے نظریے پیش کیے جن سے ان کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ چومسکی کے چند خاص لسانی نظریوں میں لسانی تحصیلی آلہ(Language acoditation device-LAD) ، آفاقی قواعد (Universal Grammer) ، خداداد (Innate) صلاحیت و غیرہ اہم ہیں۔ 1957 میں جب نوم چومسکی کی معرکہ آرا تصنیفSyntactic Sturcture منظرعام پر آئی، تو اس کی پوری دنیا میں پذیرائی ہوئی۔ جدید لسانیات کے شعبے میں اس کتاب کو سنگ میل کی حیثیت ہے۔ یونیورسٹی گرامر، ٹرانسفارمیشنل گرامر (Transformational grammar) اور Congnitive Scienceجیسے موضوعات پر نوم چومسکی کے کام نے جدید انگریزی لسانیات کی بنیاد رکھی۔ 29 سال کی عمر میں ہی انھوں نے نحوی ساخت پر ‘Aspects of the Theory of Syntax’لکھ کر ماہرین لسانیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔
نوم چومسکی کا پورا نام ایورام نوم چومسکی ہے۔ 7 دسمبر 1928 کو امریکی شہر فلاڈیلفیا میں ان کی پیدائش ہوئی۔ چومسکی کے والد ولیم زیوچومسکی (William Zev Chomsky) عبرانی زبان کے عالم تھے، ماں ایلسی (Elsie Simonofsky) بھی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ انھیں بچوں کے ادب سے خاص دلچسپی تھی۔ چومسکی کی اہلیہ کیرول ڈورس شاٹز (Carol Doris Schatz) ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں، ان کی شناخت مشہور محقق کے طور ہوتی تھی۔چومسکی کو مطالعے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ انھوں نے انگریزی کے علاوہ عربی زبان، منطق اور فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کی۔ نوم چومسکی کے والد کی عبرانی قواعد کی ایک کتاب جو اپنے وقت میں محض روایتی انداز کی کتاب سمجھی جاتی تھی، چومسکی نے زمانہ طالب علمی میں اس کا مطالعہ کرلیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعے سے انھیںعبرانی قواعد اور لسانیات کا علم حاصل ہوا۔ نوم چومسکی نے 1945 میں پنسلوانیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا ، جہاں انھوں نے 1949 میں لسانیات میں بیچلر کی ڈگری اور 1951 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ایم اے میں ان کے مقالے کا عنوان”The Morphophonemics of Modern Hebrew” تھا۔ 1955 میں ہیئتی تبدیلی کے تجزیاتی مطالعہ (Transformational Analysis) جیسے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
دوران تعلیم نوم چومسکی نے لسانیات، ریاضی اور فلسفہ میں مہارت حاصل کرلی۔ پنسلوینیا یونیورسٹی میں داخلے کے بعد سے ہی نوم چومسکی کا ذہن لسانیات کی طرف مائل ہونے لگا تھا کیونکہ انھیں زیلنگ ہیرس (Zaling Harris) جیسے ممتاز ماہر لسانیات کی تربیت اور رہنمائی میسر آگئی تھی۔ اسی دورانیے میں نوم چومسکی سمیٹک (Semitic) موضوعات میں دلچسپی کے ساتھ قرون وسطیٰ کے عبرانی قواعد پر بھی کام کرنے لگے تھے۔ زیلنگ ہیرس (Zaling Harris) کی تصنیف Methods in Structural Linguistics نوم چومسکی کے لسانیات کے کام میں بہت معاون ثابت ہوئی۔ اتنے عرصے میں نوم چومسکی کی ذہانت سے زیلنگ ہیرس بخوبی واقف ہوچکے تھے، اسی لیے انھوں نے نوم چومسکی کو عبرانی زبان میں تخلیقی قواعد تیار کرنے کا مشورہ دیا۔ چومسکی نے لسانیات کے مروجہ طریقے کے مطابق عبرانی زبان کے صوتی نظام پر کام بھی شروع کردیا، مگر انھیں یہ کام بہت بوجھل اور غیراطمینان بخش معلوم ہوا۔ اس لیے انھو ںنے جلد ہی اس سے رشتہ توڑ لیا۔ بعدہ انھوں نے عبرانی جملوں کی تخلیقی قواعد وضع کرنے کا دوسرا طریقہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ نوم چومسکی کی غیرمعمولی صلاحیت، ذہانت اور تحقیقی عمل کے دوران ہوئے تجربات نے ان کے خیالات میں غیرمعمولی تبدیلی پیدا کی۔ اس تبدیلی کا اندازہ ان کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے:
’’عبرانی زبان میں ’ملک‘ (Mlk) ’راجا‘ کے مادے سے ’ملکی‘ (Malki) ’میرا راجا‘ اور ملکہ (Malka) ’رانی‘ جیسے لفظ نکلے ہیں۔ لیکن اسی مادّے سے ’ملاخم‘ (Malaxim) ’راجے‘ بھی نکلا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ Post vocalic positionمیں ہونے پر صفیریت کاری (Spirantization) کے اصول کے مطابق ’ک‘ (k) ’خ‘ (x) میں بدل جاتا ہے لیکن اسی اصول کے مطابق ’مالخی‘ (Malxey)کی جگہ ’مالکی‘ (Malkey) ہونا چاہیے تھا (جیسے ملکہ، ملکی) لیکن عبرانی میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (نوم چومسکی: ایک تعارف، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،2023، ص 7)
بہرحال نوم چومسکی ا س نتیجے پر پہنچے کہ لفظوں کے اس تضاد کی وضاحت اصوات کی تقسیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولو ںکے باہمی اور درجہ بند ضوابط کے تعین کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔
بیسویں صدی میں لسانیات کے باب میں کئی انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ساسیور ایک ماہر لسانیات کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا یہ نظریہ بہت مشہور ہوا کہ ’’انسان کی لسانی صلاحیتیں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہیں مزید اشیا اور خیالات کی درجہ بندی کے وجوہ اور طریقے بھی بتاتی ہیں۔‘‘ اسی طرح نوم چومسکی کا نظریہ ’’زبان انسان کی تخلیقی قوت کی عمدہ مثال ہے‘‘ایک نئی بحث کو جنم دینے میں کامیاب رہا۔
ساسیور (Ferdinand De Saussure) نے ایک انقلابی نظریہ پیش کیا کہ زبان کی ساخت کو بخوبی سمجھنے کے لیے زبان کی ابتدا اور ارتقا کو سمجھنا اور اس کا عصریاتی مطالعہ (Diachronic)پیش کرنا ہی کافی نہیں بلکہ کسی مخصوص نقطۂ زماں میں زبان کے عصری مطالعے کے ذریعے زبان کے Syntagmatic اور Paradigmatic پہلوؤں کے آپسی رشتے پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ نوم چومسکی نے لسانیات کے میدان میں ساسیور سے تقریباً 50 برس بعد قدم رکھا، مگر اپنے مضبوط دلائل کے ذریعے ساسیور کے نظریے کو مسترد اور منہدم کردیا۔ انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زبان کے عصری لسانی مطالعے میں مطالعے کو ظاہری سطح (Surface Structure)تک رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عمیق سطح (Deep Structure) پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ نے لسانیات، نفسیات اور فلسفہ کی حدبندیوں کو توڑ کر زبان اور انسان کے آپسی رشتے اور انسان کی لامحدود لسانی صلاحیتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کا ماننا ہے کہ زبان محدود وسائل کا غیرمحدود استعمال کرتی ہے۔ نوم چومسکی کے اس نظریہ کو ماہر لسانیات جان سرل نے ’انقلاب‘ کا نام دیاہے۔
چومسکی لسانیات کو نفسیات کا خصوصاً تفہیمی نفسیات (Congnitive Psychology) نفسیات کا جز تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شعبۂ علم حصول علم یا علم کے استعمال کا بہتر طور پر مطالعہ نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ متعلقہ علم کی فطرت اور مزاج کو سمجھنے کی کاوش نہ کرے۔
نوم چومسکی سے قبل متزامن لسانیات (Synchronic Linguistics)کا لائحہ عمل توضیحی (Descriptive) تھا۔ اس اصطلاح میں کسی زبان یا بولی کا توضیحی مطالعہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ زبان کے توضیحی تجزیے کا تصور فرڈی ننڈ ڈی ساسیور نے دیا تھا لیکن اس کے اصول و ضوابط طے کرنے میں امریکی ماہرین لسانیات باس (Boas)، لیونرڈبلوم فیلڈ (Leonard Bloomfield)، ہیرس (Harris) اور ہاکٹ (Hocket)نے نمایاں کردار انجام دیا تھا۔ 1953 کے آس پاس چومسکی نے ’توضیحی قواعد‘ کے خیال کو پوری طرح ترک کردیا تھا اور تخلیقی قواعد کے اصولوں کے تحت زبانو ںکا مطالعہ کرنے لگے تھے۔ انہی ایام میں انھو ںنے’لسانیاتی نظریے کی منطقی ساخت‘ (The Logical Structure of Linguistic Theory) پر بھی کام شروع کردیا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ لسانی اصولوں کو اسکیمیٹزم (Schematism) کی صورت میں متشکل کیا جاسکتا ہے۔ان کے خیال میں Schematism کے ذریعے مختلف زبان کے ممکنہ قواعد کی شکلیں متعین کی جاسکتی ہیں اور اسی کے ذریعے ان زبانوں کی توضیحات بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔بعد میں انھوں نے یہ بھی اضافہ کردیا کہ Schematic عمل کوقدیم تصورات (Primitive Notions) کی مدد سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں غور کرنے والی بات ہے کہ یہاں نوم چومسکی نے زبان کی تخلیق کے بجائے جملوں کی تخلیق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ میرا مقصد زبان کی غیرنحوی ساخت (Non Syntactic)کو نظر انداز کرنا نہیں بلکہ جملے کو لسانی تجزیے کا مرکزی نکتہ تصور کرنا ہے۔
چومسکی زبان کے حقائق کے تجزیے کو مکمل طور پر ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں یہ اسی حدتک ضروری ہیں جب تک یہ جملوں کی تشکیل میں معاون ثابت ہوں۔اسے اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ماہرین لسانات کا کام حقائق کا انبار لگانا نہیں بلکہ منطقی لسانی حقائق پر غور کرنے کے بعد لسانی اصولوں کو ضع کرنا بہتر ہے۔ نوم چومسکی نے تخلیقی قواعد کے لیے جن Empirical Constraints کی بات کی ہے ، اس کی وجہ فیصلہ کن اور منطقی اصول ہیں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ چومسکی جن اصولوں کی تعریف و توضیح اور ان کو معیار بند کرنے کی وکالت کرتے آئے ہیں ان میں کسی قسم کے لسانی دعوے نہیں بلکہ ان کے اصول معیار بندی پر ہی انحصار کیا گیا ہے۔ نوم چومسکی نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے:
’’لسانی اصولوں کے تحت تخلیقی قواعد کسی زبان داں کی اس زبان سے متعلق معلومات کے بارے میں ایسا مفروضہ پیش کرنا ہے جسے لسانی شواہد سے رد و قبول کیا جاسکتا ہے۔ لسانی شواہد نتیجتاً زبان داں کے لسانی علم کی تصویر پیش کرتے ہیں۔‘‘
چومسکی کے اس نظریے کا علم بھی ضروری ہے کہ ان کا زور متبادل اصولوںکے تعین قدر پر ہوتا ہے۔ وہ بارہا یہ کہتے رہے ہیں کہ تعین قدر لسانی شواہد کی شکل میں ہی ممکن ہے۔ معنی اور مفہوم کے حوالے سے بھی چومسکی کے اصول توضیحی قواعد کے اصول سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے مطابق ’’لسانیات کے وسائل کا تقابلی مطالعہ بے معنی ہے۔ انھیں ہر وہ لسانی اصول قابل قبول ہے جو لسانی مواد کا بھرپور تجزیہ پیش کرسکے۔‘‘
نوم چومسکی کے لسانی اصولوں کو سمجھنے کے لیے ان کے فلسفیانہ پس منظر کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ جس طرح بیسویں صدی کے نصف اول میں مغربی لسانیات میں توضیحی لسانیات کو برتری حاصل تھی اسی طرح فلسفے میں تجربیت (Empiricism)اور نظریۂ نفسیات میں سلوکیت (Behaviourism) کو مقبولیت حاصل تھی۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بلوم فیلڈ کے توضیحی لسانیات کے نظریہ میں سلوکیت کا عنصر ضرور شامل تھا۔ اسے ’معنی‘ سے متعلق ’خیال‘ کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے:
’’جو لوگ ماہر لسانیات نہیں ہیں وہ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ متکلم بات کرنے والا صرف آواز نکالتا ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے ذہن میں کچھ واضح تصور ہوتے ہیں۔ یہ تفصیل سے سمجھانا ماہر لسانیات کا کام ہے کہ متکلم بولنے والے کچھ اپنے خیالات نہیں ہوتے۔ اس کے لیے بولنا ہی کافی ہے کیونکہ متکلم کی آواز ہی سامع کے Nervous Systemپر اثرانداز ہوتی ہے۔‘‘
(بلوم فیلڈ: 1936:93 بحوالہ ایضاً، ص 13)
نوم چومسکی نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ایک اور نظریہ پیش کیا ہے کہ:
’’انسان میں زبان سیکھنے کی خداد داد صلاحیت ہوتی ہے جس کے باعث وہ زبان کا تخلیقی استعمال کرتا ہے اور اسی لیے بچے کسی زبان کو بہتر طور پر تیزی سے سیکھ لیتے ہیں۔ زبان سیکھنے کی یہی صلاحیت اور قوت انسان کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کردیتی ہے۔‘‘(نوم چومسکی: ایک تعارف، ص 15)
یعنی انسان کے دماغ میں زبان سیکھنے کا قدرتی آلہ (Language Acquisition Device) ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول کی مدد اور کوشش سے (Non-Instinctively) زبان سیکھتا ہے۔ جبکہ جانوراپنی زبان (اشارے یا Signals) قدرتی طور سے (Instructively) سیکھتے ہیں۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ جانوروں پر کیے گئے تجربوں سے اخذ کیے گئے نتائج کا اطلاق انسان پر نہیں ہوسکتا۔
دراصل اسکینر نے1957 میں ایک کتاب Verbal Behaviour لکھی تھی، جس میں بچے کے زبان سیکھنے کے تعلق سے اپنا یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ’’بچے اپنی مادری زبان ’محرکہ-ردِّعمل‘ (Stimulus-Response) یعنی مشاہدے اور تجربے سے سیکھتے ہیں… چھوٹے بچے محض اپنے بڑوں کی نگرانی کی وجہ سے ہی زبان سیکھتے ہیں …‘‘ نوم چومسکی نے اس کتاب پر 1959 میں ایک جامع تبصرہ کیا جو لسانیات کے مشہور جریدہ Language میں شائع ہوا۔اس تبصرے کے ذریعے چومسکی نے اسکینر کے مفروضوں اور دلائل کو کلی طور سے مسترد کردیا اور اپنے نظریہ کی تائید میں ’زبان اور ذہن‘ (Mind & Languagre) جیسی جامع کتاب تصنیف کی۔ چومسکی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ ’’جب ہم انسانی زبان کا مطالعہ کرتے ہیں تو دراصل ہم انسانی جوہر (Human essence) کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ انسانی جوہر دماغ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ہے جس کو تاحال ہم جان سکے ہیں اور یہ امتیازی خصوصیت انسانوں کو دوسرے سے جدا کرتی ہے یعنی انسان اس بے مثال خصوصیت کا تنہا حامل ہے۔ ‘‘
اس سے ملتا جلتا نوم چومسکی کا ایک اور نظریہ ہے کہ ’’ہر بچے میں ایک تعمیر شدہ نظام ہوتا ہے جسے لسانی تحصیلی آلہ (LAD) کہتے ہیں۔ یہ خداداد قوت پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آتی ہے اور اس میں زبان کے بنیادی اصول پائے جاتے ہیں۔ ‘‘ اگر اسے دوسروں لفظوں میں کہا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’بچے زبان کے اصول و ضوابط کی استعداد کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، انھیں صرف الفاظ کا ذخیرہ حاصل کرنے کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ ‘‘ اس نظریے کی وکالت کرتے ہوئے نوم چومسکی نے کچھ دلائل و شواہد بھی پیش کیے ہیں، مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’بنی نوع انسان کی زبان بنیادی طور پر ایک جیسی ہے، مثلاً ہر زبان میں فاعل، فعل، مفعول ہی ہوتے ہیں اور ہر ایک زبان میں چیزوں کو منفی یا مثبت میں پیش کرنے کی خوبی ہوتی ہے۔‘‘
چومسکی کا یہ نظریہ بھی بہت اہم ہے کہ وہ ذہنی قواعد (Mental Grammar) اور لسانی قواعد کے درمیان اختلاف کرتے ہیں۔ لسانی قواعد درحقیقت مثالی متکلم کے ذہنی قواعد کی ترجمانی کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔اس سائنسی اصول کو چومسکی اسی حد تک درست مانتے ہیں جس حد تک یہ ذہنی قواعد کی صحیح ترجمانی کرے۔اس ضمن میں نوم چومسکی کے یہ لسانی اصول قارئین کے لیے بہت اہم ہیں:
’’انسانی دماغ میں زبان سیکھنے کا ایک خدادداد نظام (Innate Mechanism) ہے جسے آفاقی قواعد یا یونیورسل گرامر کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ قواعد ان اصول و نظریات کا نظام ہیں جو اچانک نہیں بلکہ حیاتیاتی ضروریات کے تحت ہر انسان میں موجود ہوتے ہیں۔‘‘
(نوم چومسکی: 1975:29، بحوالہ نوم چومسکی ایک تعارف، ص 20)
نوم چومسکی کے قواعد کا تخلیقی (Generative) تصور، یہ ایسا نظریہ تھا جس نے ماہرین لسانیات کو اپنی طرف سب سے زیادہ متوجہ کیا۔چومسکی سے پہلے یس پرسسن (Otto Jespersen) نے مبتدا اور خبر کے روایتی قواعد کے درمیان رشتے کو اجاگر کیا تھا بس انھوں نے تخلیقیت کی جگہ تقابل کے آپسی رشتوں کی بات کی تھی، ہیرسن (Harrison)نے بھی تخلیقی لفظ کا استعمال کیا ہے مگر الگ طریقے سے سے۔ انھوں نے تقابلی پہلو کو اجاگرکیا ہے، ہیرسن نے بھی جملے کی بنیاد مبتدا اور خبر کو تسلیم کیا ہے، مگر نوم چومسکی نے جو مزید وضاحت پیش کی ہے وہ ہے منطقی پہلو۔ تخلیقی قواعد کے ذریعے چومسکی نے جملوں کی تشکیل کی دو سطحیں طے کیں، ان میں ایک عمیق ساخت (Deep Structure) اور دوسری بالا سطحی ساخت (Surface Structure) ۔اسے انھو ںنے مثالوں کے ذریعے عمدہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نوم چومسکی نے تخلیقی قواعد کے اصول کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے (1) معنی کو محفوظ رکھنے کا اصول (2) تبدل معنی کا اصول (3) اسلوبیاتی اصول (4) عام اصول۔ دوسرے قواعد کی بہ نسبت تخلیقی قواعد کے جواز میں نوم چومسکی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ’’تخلیقی قواعد جملوں کے ابہام کی بخوبی نشاندہی کرتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر مبہم جملو ںکا تجزیہ بھی اس قواعد میں ممکن ہے‘‘
نوم چومسکی کا یہ نظریہ بھی بہت اہم ہے کہ تخلیقی قواعد کی ہیئت پورے طور پر ساختیاتی ہے، معنی پر اس کا انحصار نہیں ہے۔ اس ضمن میں ان کے شواہد یہ ہیں کہ مثالی متکلم خداداد صلاحیتوں سے روشنی پاتے ہیں، معنی سے نہیں۔ چومسکی اس بات سے بھی متفق ہیں کہ تخلیقی قواعد کے لسانی اصولوں کے اجزا اور ان کے معنوی پہلو میں بے پناہ مماثلت ہے۔ نوم چومسکی نے تخلیقی قواعد کو اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ اسی کے ذریعے ذہنی قواعد کو اس کے لسانی اظہار سے جوڑا جاسکتا ہے۔ ان کے اس نظریے سے بھی واقفیت ضروری ہے کہ ’معیاری اصول‘ کے سامنے آنے کے بعد ہی تخلیقی قواعد پر تیزی سے کام شروع ہوا۔
پروفیسر اقتدار حسین خاں کے مطابق : ’’1984 میں میڈیسن کے نوبل انعام پانے والے سائنس داں جیرین (Niel K. Jerene) نے اپنے نوبل لکچر کا عنوان ‘The Generative Grammar of immune system’ رکھا جس میں چومسکی کے ’تخلیقی قواعد‘ کے نظریے کو استعمال کیا۔‘‘(ماہنامہ ’اردو دنیا‘ قومی اردو کونسل، نئی دہلی، اکتوبر 2016)
چومسکی کا یہ خیال بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ’ ’نوم چومسکی کے Universal قواعد کے تصور سے رفتہ رفتہ مجرد داخلی ساخت کو تقویت ملی۔ یہی وجہ ہے کہ لیکفLakoff) ( 1970 نے یہ تجویز پیش کی کہ ’’صفت اور فعل کو ایک ہی قواعدی زمرے کا جز تسلیم کرلیا جائے کیونکہ ان کے لسانی مزاج میںیکسانیت ہے۔‘‘ (نوم چومسکی ایک تعارف، ص 31) یعنی راس (Ross) مانتے ہیں کہ اسم، فعل اور صفت کے مابین قواعد کی سطح پر اختلاف کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔
نوم چومسکی کا ایک اور نظریہ ہے ’تحصیل زبان‘ ۔ اس نظریہ کی ابتدا 1957 میں شائع ہوئی ان کی کتاب ‘Syntactic Structure’ سے ہوتی ہے۔ اس کتاب کے آنے کے بعد ہی نوم چومسکی نے سابقہ تشکیل شدہ ساختی ماہرین لسانیات کے نظریات کو چیلنج کرکے قابل تغیر قواعد کی بنیاد رکھی۔ مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظوں کے مجموعے کا اپنا قاعدہ ہے جسے ہم رسمی قواعد کہتے ہیں۔
چومسکی کے مطابق لسانیات کے لیے عمدہ اور حتمی مقصد (Goal) ہے ، اس کے ذریعے ان اصولوں کی شناخت کرنا ہے جو دنیا کی ہر زبان پر صادق اور مشترک ہوں۔ چومسکی نے ان اصولوں کو ’عالمگیر قواعد‘ کا نام دیا ہے۔
چومسکی کا ایک نظریہ سلسلۂ مراتب کا بھی ہے۔ اسے Chomsky’s Hierarchy بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق زبان کے جملوں کو قواعد کی پیچیدگی کے لحاظ سے مختلف زمروں میں منقسم کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ سے کمپیوٹر سائنس نے بھی استفادہ کیا ہے۔
چومسکی کا ایک نظریہ ’اقل ترین پروگرام‘ کا ہے۔ اس (Minimalist Programme) میں انھوں نے لسانیات میں استعمال ہونے والی اصطلاحاتی زبان کو آسان اور عام فہم بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔
چومسکی نے لسانیات کو ادراکی نفسیات یا (Cognitive Psychology) کا حصہ بتایا ہے۔ مزید انھوں نے یہ بتایا ہے کہ لسانیات ایک قدرتی سائنس (Natural Science) ہے، اس کو حیاتیاتی لسانیات (Biolinguistics) بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ انسانی زبان کی تشکیل دماغ کی نوعیت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
نوم چومسکی کے مذکورہ لسانی نظریات زبانوں کی تحصیل اور نشو و نماکو سمجھنے میں بہت کار آمد ہیں۔
لسانیات کے علاوہ نوم چومسکی کا شمار ماہر سیاست داں کے طور پر ہوتا ہے۔ سیاست میں چومسکی کی شہرت کی وجہ امریکی خارجہ پالیسی، میڈیا اورسرمایہ دارانہ نظام پر تنقید ہے۔ انھوں نے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی ان تمام پالیسیوں پر اپنا سخت موقف درج کرایا جس میں عوام کے حقوق کا استحصال ہو۔ امریکہ کی ان بین الاقوامی پالیسیوں کو تو خاص طور پر نشانہ بنایا، جن کی وجہ سے کئی ممالک کو معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوم چومسکی نے ویت نام میں امریکی حملے کو استعمار سے تعبیر کیا۔ انھوں نے ویت نام جنگ پر The Responsibility of Intellectuals(دانشوروں کی ذمہ داری) اور For Reasons of State(اسباب ریاست کے لیے)جیسی کتاب تصنیف کی، جس کے بعد چومسکی بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے سخت ناقد اور سیاست کے ایک بڑے ماہر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ انگریزی کی مشہور ہندوستانی ادیبہ اوردانش ور محترمہ اروندھتی رائے نے چومسکی کی امریکی پالیسی کی تنقید کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’’ چومسکی جیسا امریکی شہری ہی امریکہ کے ہر نوع کے غیراخلاقی اقدامات کی بہتر طریقے سے تنقید کر سکتا ہے۔ وہ اس بات کی پیش گوئی بھی کرتی ہیں کہ جب امریکہ کا زوال ہوجائے گا تب بھی چومسکی کاعلمی کارنامہ اپنی تابناکی کے ساتھ موجود ہوگا۔‘‘ (نوم چومسکی کی کتاب ’فور ریزنس آف اسٹیٹ‘ ، معراج رعنا، موشوعہ، ایک روزن، 31 اکتوبر 2017)
نوم چومسکی خود کو بنیادی طور پر Radical Anarchistاور Libertarian مانتے ہیں۔ نیویارک آمد کے دوران چومسکی یاڈیش (Yiddish) انارکسٹ سے متعارف ہوئے۔ چومسکی نے روڈالف راکر (Rudolf Rocker)کی تصنیف (The tragedy of Spain) کا کم عمری میں مطالعہ کیا تھا جنھوں نے انارکسٹ (انتشاریت) اور کلاسیک ازم کے درمیان تعلق کو متعارف کروایا۔ دوسرے سیاسی مفکرین جن کو نوم چومسکی نے پڑھا ان میںانارکسٹ Diego Abad de Santillan جمہوری اشتراکیت پسند جارج آرویل (Georg Orwell)، برٹرنڈرسل (Bertrand Russell) اور ڈوائٹ میکڈونلڈ (Dwight Mocdonald) شامل تھے۔ ان کی تحریروں سے چومسکی اس حد تک متاثر ہوئے کہ انھیں کہنا پڑا کہ انارکسٹ معاشرے کی ضرورت ہیں۔
نوم چومسکی فرد کی آزادی میں مداخلت کو قطعی برداشت نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خطہ ارض پر رہنے والے باشندے اپنے تمام حقوق کے تئیں آزاد وخود مختار رہیں۔ انھوں نے دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا۔جہاں بھی انھیں محسوس ہوا کہ عوام کو حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پریشانیاں لاحق ہیں تو انھیں متنبہ کرنے کے ساتھ یہ ذہن نشیں کرایا کہ کوئی ملک اسی وقت ترقی یافتہ ہوسکتا ہے جب وہاں کی رعایا خوش حال ہو۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چومسکی کے الفاظ اہم نہیں ہوتے بلکہ اہم ہوتے ہیں وہ مسائل جو دنیا کے مختلف ممالک سے متعلق ہوتے ہیں، اور وہی مسائل ان کی تحریر و تقریر کے بنیادی موضوعات ہوتے ہیں۔ 2020 میں پاکستان کی کراچی یونیورسٹی میں ان کے دیے لیکچر کو وہاں کی حکومت اور عوام کئی دہائیوں تک یاد رکھے گی۔ جب انھوں نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے حکومت اور مذہب کے ٹھیکیداروں پر سخت تنقید کی اور انھیں ان کے تابناک ماضی کی یاد دلائی:
پاکستان سائنس اور سائنسی فکر سے دور ہٹتا جارہا ہے اور وہ توہمات کی زد میں آچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان ہی تھا جہاں نوبیل انعام پانے والے سائنس داں پیدا ہورہے تھے اور اب ان کی جگہ توہمات نے لے لی ہے۔‘‘ (روزنامہ ’دنیا‘ 12 دسمبر 2020، کالم: نوم چومسکی کی باتیں: مسعود اشعر)
نوم چومسکی ویتنام پر امریکہ کے بیجا ظلم اور حملے کے سخت خلاف تھے۔ چومسکی کے مطابق ’’ویت نام کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کی بنیاد وہاں کے سیاسی عدم استحکام کودور کرنا نہیں تھا بلکہ اس کا اصل محرک کمیونزم کی مخالفت اور آزادی عوام کے نام پر امریکی طرزِ جمہوریت کی بحالی تھی۔ ایک ایساجمہوری نظام جس کے قیام کے لیے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیاگیا اور فصلیں اورصنعتیں برباد کردی گئیں۔ ‘‘ (نوم چومسکی کی کتاب ’فور ریزنس آف اسٹیٹ‘ ، معراج رعنا، موشوعہ، ایک روزن، 31 اکتوبر 2017)
ویتنام پر امریکی حملے سے نوم چومسکی اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ انھوں نے ویتنام کی حمایت میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں جان لاک میموریل لکچرپیش کیا۔ اسے سننے کے لیے اساتذہ اور طلبا کی ایک بڑی تعداد اکٹھا ہوئی۔ دانشوران کا کہنا ہے کہ ایسی جم غفیر برٹرنڈرسل کے بعد پہلی بار کسی کا لیکچر سننے کے لیے جمع ہوئی تھی۔ اس لیکچر کا مقصد عوام کا اعتبار حاصل کرنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ویتنام پر امریکہ کی بربریت کے خلاف لوگ ان کے ساتھ آئیں، شاید اس کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ سامنے آئے۔ چومسکی اپنے ملک امریکہ کی استعماریت پر ہمیشہ سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ کبھی دبی آواز میں، تو کبھی ببانگ دہل۔ پہلے تو انھوں نے اس جنگ کے خلاف آواز بلند کی مگر جب بات نہیں بنی تو عملی طور پر مزاحمتی تحریکوں اور احتجاجی ریلیوں میں شریک ہوئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی خاطر انھیں جیل بھی جانا پڑا، پھر بھی وہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہتے رہے۔ ان کا یہ مشہور جملہ بھلا کون بھول سکتا ہے کہ ’’میں جب بھی واشنگٹن آتا ہوں مجھے یہاں آنسو گیس کی بو آنے لگتی ہے‘‘نوم چومسکی کا ماننا ہے کہ ہر ملک کے اپنے اصول، اپنے قاعدے و ضوابط اور اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں، اگر وہاں کا حکمراں ان کی توقعات کے برعکس کرتا ہے تو اسے سبق سکھانے کے لیے وہاں کی عوام ہی کافی ہے، کسی دوسرے ملک کی بے جا مداخلت کو وہ قطعی برداشت نہیں کرتے ۔ کاش دنیا کو آئینہ دکھانے والے نام نہاد حکمراں یہ سمجھ پاتے تو آج کئی ممالک ان کے عتاب سے بچ جاتے اور بے گناہوں، معصوم انسانو ںکی جانیں نہ جاتیں۔
نوم چومسکی کا نظریہمیڈیا خاص کر امریکن میڈیا کے خلاف رہا ہے، ان کے خیال میں میڈیا اپنی ذمے داریوں سے بھاگ رہا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح حکومت اور کارپوریٹ محکمے کا غلام بن گیا ہے۔ نوم چومسکی نے میڈیا کے اس کردار پر بہت جم کر لکھا ہے۔ وہ مسلسل امریکہ کی قومی میڈیا کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اس موضوع پر ان کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ چومسکی کے خیال میں امریکن میڈیا اشرافیہ کا ترجمان ہے، سی بی ایس اور نیو یارک ٹائمز وغیرہ ملک کے بڑے کارپوریشنوں میں سے ہیں۔ ان کے لیے امریکن عوام اتنے اہم نہیں جتنے ’’جنرل موٹرز‘ وغیرہ اہم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ میں عوام اور میڈیا بالکل متضاد سمتوں میں چلتے ہیں۔ (بحوالہ: ماہنامہ ’افکارِ ملی‘ دہلی، شمارہ: جون 2008)
نوم چومسکی نے امریکہ اور برطانیہ کی پالیسیوں اورچالبازیوں پر کھل کر بات کی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی صدیوں سے برطانیہ نے اپنی مکاریوں اور چالبازیوں سے کتنے ممالک پر حکمرانی کی، اور وہاں کی بھولی بھالی جنتا کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ادھر کئی دہائیوں سے امریکہ بھی یہی کرتا آرہا ہے۔ وہ اپنے فیصلے وہ کمزور ممالک پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی سیاسی روایت یہ بھی رہی ہے کہ امریکہ یورپ سے الگ تھلگ رہ کر ’جزیرۂ قوت‘ بنا رہے۔ ایشیا اور یورپ کے اتحاد کے تئیں بھی امریکہ کے نظریات منفی ہیں۔ امریکہ مانتا ہے کہ اگر ایشیا اور یورپ متحد ہوگئے تو امریکہ کی طاقت کمزور پڑ جائے گی۔ اسی طرح برطانیہ نے بھی اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت یورپ سے دوری بنائے رکھی، برطانیہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے اور رہتی ہے کہ کسی طرح یورپ کے آپسی اتحاد کو روکے۔ اگر یورپ متحد ہوگیا تو برطانیہ کی طاقت بے معنی ہوجائے گی۔
امریکہ اور برطانیہ نے اقوام متحدہ (UNO) جیسی طاقت کو بھی بے معنی کردیا ہے۔ اقوام متحدہ اگر کسی ملک کے لیے کوئی اہم کام کرنا چاہے بھی، تو امریکہ اور برطانیہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ دراصل سلامتی کونسل میں جو پانچ طاقتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین ہیں اگر ان میں کسی نے بھی ویٹو کردیا تو وہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ ویسے تو سلامتی کونسل میں 15 سیٹیںہوتی ہیں، مگر مذکورہ پانچ مستقل ممبرا ن ہی اہم ہوتے ہیں۔بقیہ 10 غیرمستقل ممبران کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا ہے ۔نوم چومسکی اس تعلق کہتے ہیں کہ ’’بڑی طاقتیں سلامتی کونسل یا ویٹو پاور کو ختم ہونے نہیں دیں گی کیونکہ وہ اپنے معاملات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کرتیں۔ مثلاً امریکہ کی مثال لیجیے جو 1970سے لے کر اب تک سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کرنے میں سب سے آگے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کوئی اقدام کرنا چاہے اور امریکہ اسے پسند نہ کرتا ہو تو امریکہ اس سے سرد مہری برتے گا، نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ کام نہ ہو سکے گا کہ اقوام متحدہ خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
(بحوالہ: ماہنامہ ’افکارِ ملی‘ دہلی، شمارہ: جون 2008)
نوم چومسکی پہلے کی طرح آج بھی اپنے ملک امریکہ کی حکمت عملی اور ظلم و زیادتی پرغصے کا اظہار کرتے ہیں، اور اپنے سخت موقف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ شاید اسی لییامریکہ کی سیاست میں نوم چومسکی آج بھی ایک متحرک دانشور کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ نوم چومسکی کایہ خیال کہ ’’انسان فطرتاً تخلیقی حیوان ہے‘‘ ان کے لسانی اصولوں کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لسانیاتی اور سیاسی دونوں میدان میں ایک نقطۂ اشتراک نظر آتا ہے۔
نوم چومسکی (Noam Chomsky)ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں جنھوں نے دو سو سے زائد کتب اور ایک ہزار سے زائد تحقیقی مقالات لکھ کر علم وادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے پسندیدہ موضوعات لسانیات، سیاست، سائنس، فلسفہ، منطق وغیرہ رہے ہیں۔ چومسکی کی بیشترکتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ انگریزی اور یورپین زبانوں کے علاوہ ایشیا کی عربی ، فارسی اور اردو جیسی زبانوں میں بھی چومسکی کی کئی کتابوں کے تراجم ہوچکے ہیں۔
عربی زبان میںجن کتابوں کے تراجم ہوئے ہیں ان میں تواریخ الانشقاق (ترجمہ: محمد نجّار) 1997، ھیمنۃ الاعلام، الانجازات المذہلۃ للدعایۃ (ترجمہ: ابراہیم یحییٰ الشہابی) 2005 ، مداخلات (ترجمہ: محمود برہوم، ونوال القہار سریانی) 2007 ، غزۃ فی أزمۃ، تاملات فی الحرب الاسرائیلیۃ علی الفلسطینین (ترجمہ: )2011 ، العالم الیٰ این (ترجمہ: ریم طویل)2018 ، عن الارہاب الغربی، من ہیروشیما الی حروب الطائرات المسیرۃ (ترجمہ: محمد الارزقي) 2018 ، اصول النحو التولیدی کما یراہا تشومسکی (ترجمہ: حمزہ بن قبلان المزینی) 2020 ، النزعۃ الانسانیۃ العسکریہ الجدیدۃ (ترجمہ: ایمن حنّا حداد) وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
فارسی زبان میں چومسکی کی زیادہ تر کتابو ںکے تراجم ہوچکے ہیں۔ کچھ کتابوں میں ، زبان و ذہن :Language and Mind (مترجم: کوروش صفوی) 1968 ، مناظرہ چومسکی فوکو در باب طبیعت بشر:The Chomsky-Foucault Debate: On Human Nature (مترجم: مہدی افشار)1974 ، دمکراسی بازدارندہ : Deterring Democracy (مترجم: مہوش غلامی) 1991 ، ہای کہنہ و نوین جہانی: World Orders, Old and New (مہبد ایرانی طلب) 1994 ، کنترل رسانہ ہا: Media Control (مترجم: محمد غلامی) 1997، دربارہ طبیعت و زبان: On nature and language (محمد فرخی یکتا) 2002 ، فہم قدرت : Understanding power (مترجم: احمد عظیمی بلوریان) 2002 ، سلطہ یا بقا: Hegemony or Survival (علی رضا ثقفی خراسانی)2003 ، امپراتوران و دزدان دریایی : Pirates and Emperors, Old and New (مترجم: محمد عسکری جہقی) 2003، در باب آنار شیسم : On Anarchism(مترجم: رضا اسکندری) 2005 ، غزہ در بحران: Gaza in crisis (مترجم: محسن عسکری جہقی) 2010، کتاب بہرہ کشی از مردم : Profit over People(مترجم: آموزگار) 1999، دربارہ تروریسم غرب: ہیروشیماتا پھپادہا : On Western Terrorism: From Hiroshima to Drone Warfare (مترجم: مازیار کاکوان) 2013 ، دربارہ فلسطین: On Palestine(مترجم: محسن عسکری جہقی) 2015 ، فرمانروای جہان کیست؟:Who Rules the World (مترجم: کومرث پارسای) 2016 ، حاکمان جہان کیستند: Who Rules the World (مترجم: رضا قشلاقی) 2016 ، خوش بینی و رای نومیدی- درباب سرمایہ داری، امپراتوری و تغییر اجتماعی : Optimism over despair : on capitalism, empire and social change(مترجم: نرگس حسن لی) 2017 ، قدرت شکنندہ آمریکا: The Withdrawal (مترجم: سعید محمدی کاوند) 2022، مرثیہ ای برای رؤیای آمریکایی (Requiem For The American Dream?): مترجم: مترجم: محمد نصیری، دنیا دست کیست (مترجمان: ضیاء الدین خسروشاہی،مسعود حسن پور)، تسخیر خیابان ہای آمریکا (مترجم: ضیاء الدین خسرو شاہی)، دموکراسی بازدارندہ (مترجم: مہوش غلامی)، زندگی نامہ و بیوگرافی نوآم چومسکی (امیرشیرین زادہ)، چہ کسی برجہان حکومت می کند:Who Rules the World (مترجم: محسن عسکری جہقی)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
عربی اور فارسی کی بہ نسبت اردو زبان میں یہ تعداد بہت کم ہے۔ پھر بھی اردو داں حلقے میں نوم چومسکی کو متعارف کرانے میں یہ کتابیں: نظریات اور طاقت، ترجمہ: تاج بہادر تاج، ریاستی دہشت گردی (The Culture of Terrorism)، 2012 ، سرکش ریاستیں (Rogue States)، ترجمہ، ورلڈ آرڈر کی حقیقت(Powers and Prospects)، کون دنیا پر حکومت کرتا ہے (Who Rules the World) (ترجمہ: سید نجیب الحسن زیدی) بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
نوم چومسکی کی شخصیت و سوانح اور لسانی و سیاسی خدمات کا اعتراف ترجمے کے ذریعے بھرپور کیا گیا ہے۔ کچھ مصنّفین اور سوانح نگاروں نے اپنی تصانیف کے ذریعے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ان سوانح نگاروں میں رابرٹ برسکی کا نام بہت اہم ہے۔ ان کا شمار مشہور محققین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب(Noam Chomsky: A Life of Dissent)میں چومسکی کی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1997 میں شائع ہونے والی اس سوانح حیات کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رابرٹ برسکی کوچومسکی کی حیات،علمی و ادبی خدمات اور نظریات کے بارے میں استناد کا درجہ حاصل ہے۔ ایک اورسوانح نگار والف گانگ بی سپر لچ کا نام بھی بہت اہم ہے۔ یہ چو مسکی کے اسلوب پر عالمانہ دسترس رکھتے ہیں ۔ انھوں نے چومسکی کی طرز زندگی کا نہایت قریب سے مشاہدہ بھی کیا ہے۔ والف گانگ بی سپرلچ نے 2006 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب (Noam Chomsky: Critical Lives) میں اس ماہر لسانیات کی زندگی کے نشیب و فراز پر حقیقت پسندانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس ضمن میں فارسی زبان میں بھی کچھ کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن میں زندگی نامہ وبیوگرافی نوآم چومسکی (امیرشیرین زادہ)، نوم چومسکی (احمد علامہ فلسفی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
نوم چومسکی لسانیات اور سیاست کے علاوہ کئی ممالک میں دیے گئے اپنے لیکچرز اور انٹرویوز کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے کچھ مشہور لیکچرز : 1969 میں آکسفرڈ یونیورسٹی میں جان لاک (John Locke) لکچر، 1971 میں کیمبرج یونیورسٹی میں برٹرینڈرسل میموریل لکچر، 1972 میں دہلی یونیورسٹی میں نہرو میموریل لکچر، 1977 میں لیڈن (Leiden) یونیورسٹی اور 1978 میں کولمبیا یونیورسٹی میں ووڈبرج (Woodbridge) لکچرز، 1979 میں اسٹینفورڈ (Stanford) یونیورسٹی میں کانت (Kant) میموریل لکچر، 1988 میں ٹورینٹو (Toronto) یونیورسٹی میں ماسے (Massey) لکچرز، 1997 میں ڈیوی میموریل لکچر کیپ ٹاؤن میں۔، 2001 میں نئی دہلی میں لکٹروالا (D.T. Lakdawala) میموریل لکچر۔، 2002 اور 2003 میں برازیل میں ورلڈ سوشل فورم میں لکچرز۔، 2011 میں رکمین گولڈی لکچرز یونیورسٹی کالج لندن میں وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیز، اداروں اور تنظیموں نے انھیں لسانیات، سیاست، سائنس، کمپیوٹر وغیرہ میں ان کے کارناموں کی وجہ سے اعلیٰ اعزازات و انعامات سے نوازا ہے۔ کچھ اہم اعزازات اس طرح ہیں:
لندن اور شکاگو یونیورسٹیوں نے چومسکی کو 1967 میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا، 1972 میں دہلی یونیورسٹی نے ان کو ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی، 1973 میں ان کو ان کی اپنی یونیورسٹی MIT نے اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا؟ کلکتہ اور وشوبھارتی یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈگریاں دیں؟ ایشیاٹک سوسائٹی نے چومسکی کو رابندرناتھ ٹیگور صدی ایوارڈ سے نوازا، 1984 میں امریکہ کی نفسیاتی انجمن نے نفسیاتی ژرف نگاہی کے لیے چومسکی کو انعام سے نوازا، 1988 میں ’بنیادی سائنس‘ میں نمایاں کارکردگی کے لیے کیوٹو (Kyoto) انعام ملا، 1999 میں کمپیوٹر اور ادراکی سائنس میں کام کے لیے بینجمن فرینکلن تمغا، 2008 میں آئرلینڈ کی یونیورسٹی نے انعام دیا، 2010 میں جرمنی کا ایرک فروم (Erich Fromm) انعام، 2011 میں چومسکی کو سڈنی پیس پرائز (Sydney Peace) سے سرفراز کیا گیا۔
کئی ممالک میں ان کے نام پرانسٹی ٹیوٹ اور ادارے بھی قائم ہیں۔ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک کامپلیکس Noam Chomsky Complexکے نام سے منسوب ہے۔
چومسکی کی خدمات کا فلمی دنیا نے بھی اعتراف کیا۔ کچھ اداروں نے ان پر ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائیں۔ 2003 میں مشہور اداکار ویگو (Viggo Mortensen) اور گٹارماسٹر بکٹ ہیڈ (Buckethead) نے اپنانیا البم چومسکی کے نام (Dedicate) کیا۔
نوم چومسکی اب 94برس کے ہوچکے ہیں۔ مگر آج بھی ان کا علمی اور احتجاجی سفر اپنی توانائی و تابانی کے ساتھ جاری ہے۔ واقعی نوم چومسکی آج کی دوغلی اور مصنوعی دنیا میں سچائی کا چہرہ ہیں۔ ان کا صلح و آشتی اور بھائی چارے کا پیغام کمزوروں اور مجبوروں کے لیے کسی اکسیر سے کم نہیں۔ مجھے امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوگا۔
مآخذ و مصادر
.1 نوم چومسکی: ایک تعارف، مصنف: انجنی کمار سنہا، مترجم: علی رفاد فتیحی، ناشر: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،2023
.2 عالمی سیاق و سباق میں لسانی پالیسی، مصنف: ڈڈلی رینولڈز، مترجم: کاشف رضا
.3 ماہنامہ ’اردو دنیا‘ قومی اردو کونسل، نئی دہلی، اکتوبر 2016
.4 ماہنامہ ’افکارِ ملی‘ دہلی، شمارہ: جون 2008
.5 کون دنیا پر حکومت کرتا ہے، مصنف: نوم چومسکی، مترجم: نجیب الحسن زیدی
.6 نوم چومسکی کی کتاب ’فور ریزنس آف اسٹیٹ‘ ، معراج رعنا، موشوعہ، ایک روزن، 31 اکتوبر 2017
ٔٔٔٔٔٔ٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page