میرے ایک دوست ہیں ۔اگر ایسی کوئی دکان ہوتی کہ جہاں پریشانیاں خریدی جاسکتیں تو موصوف اس دکان کے مستقل گاہک ہوتے۔ ایک دن جب میں آفس گیا تو وہ بہت پریشان تھے۔ میرے پوچھنے پر بولے کہ یار خالد اخبار میں آیا ہے کہ ساٹھ برس بعد دنیا سے گیس ناپید ہوجائے گی ۔میں نے جواب میں کہا کہ ساٹھ سال بعدہم کہاں تم کہاں ۔بھائی گیس ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اس وقت تو میں نے اپنے دوست کو تسلی دے دی لیکن اسی رات نیند سے آنکھ کھل گئی۔ اٹھا اور کچن جاکر گیس آن آف کی گیس آرہی تھی ۔تسلی کے بعدپھر دوبارہ سوگیا۔ بعد میں سوچا کہ میں نے ایسا کیوں کیا حالانکہ اس بات کو ابھی ساٹھ سال بھی نہیں ہوئے تھے ۔ میرا آج کا ممدوح اسحاق وردگ بھی ایسی ہی ایک پریشان روح ہے ۔ جو بڑی سہولت سے اپنی حیات کی سب سے بڑی پریشانی "ادب” آپ کے دماغ میں انڈیل سکتا ہے ۔آپ اس سے کوئی بھی بات کرلیں۔ دنیا میں ہونے والی دہشت گردی پر گفتگو کرلیں۔گلوبلائزیشن کوموضوع بنالیں ۔گلوبل وارمنگ پر بحث کرنے لگیں لیکن دوسری جانب سے یہی جواب آئے گا کہ دنیا کے تمام مسائل اپنی جگہ لیکن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ادب ہے اور ادب میں بھی جدید شاعری عالمی سے زیادہ کائناتی مسئلہ ہے۔پھر اس کے بعد وہ "زوال ادب” کے "کائناتی مسئلے” پر جوجو دلائل دیتا ہے وہ اتنے جاندار ہوتے ہیں کہ اگر کسی کو ادب کی الف بے بھی معلوم نہ ہواور وہ اسحاق وردگ کی ادب کے حوالے سے گفتگو سن کرکم از کم ایک رات ضرور اس خوف سے نہیں سوپائے گا کہ پاکستان میں ادب کا مستقبل کیا ہے؟
اسحاق وردگ سے میری پہلی ملاقات پشاور یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں ہوئی تھی ۔اسحاق ایم اے پریویس کا طالب علم تھا۔ میں کسی کام کے سلسلے میں شعبہ گیا تھا تو ایک گورا چٹا سنہرے بالوں،سبز آنکھوں اور متناسب جسم کا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔اپنا تعارف اسحاق وردگ کے نام سے کروایا۔رنگ روپ سے مجھے وہ چترالی لگا۔میرے پوچھنے پر اسحاق نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ میرے اندازے کو درست ثابت کرے ہوئے ترنگ میں کہہ دیا کہ وہ چترالی ہے ۔مجھے جتنی کھوارزبان آتی تھی وہ میں نے اسحاق کو سنا دی جبکہ قصہ خوانی کے چترالی بازار کے قریب عرصہ دراز سے رہنے کی وجہ سے اسحاق مجھ سے زیادہ کھوار زبان جانتاتھا۔ سو اس نے پکاکردیا کہ وہ چترالی ہے ۔میں نے پوچھاکہ پشاور میں رہنے والے چترالی تو ہندکو اور پشتو بھی بول لیتے ہیں ۔ جواب میں اسحاق نے پہلے پشتو اور پھر ہندکو کا وائیواا دے ڈالا۔پشتو،ہندکو سن کر تو مجھے بہت رشک آیا کہ یہ چترالی نوجوان اردو، ہندکو ،پشتواور چترالی زبانیں جیب میں لیے یونیورسٹی آگیا ہے اس کا مستقبل تو بڑا روشن ہے ۔ پشاور کے لوگ چترالیوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور پیار سے انھیں مابرار’’میرا بھائی‘‘ کہتے ہیں ۔ میں بھی بڑے عرصے تک اسحاق کو مابرار ہی پکارتا رہااور وہ پوری ڈھٹائی سے چترالی زبان میں جواب دیتا رہا ۔کچھ عرصے بعد جب شناسائی تعلق میں بدلی تو اس شریف آدمی نے بتایا کہ اس کا تعلق وادئ دیر سے ہے ۔والد بہت پہلے پشاور آگئے تھے ،گویا اس کی جم پل پشاور کی ہے ۔پشاور ہفت اقلیم شہر توہے ہی یوں اسحاق بھی زبانیں سیکھتا رہا ۔
یوں تو میں اپنے تمام دوستوں سے محبت کرتا ہوں لیکن اسحاق مجھے واقعی بہت عزیز ہے ۔اگرچہ محبت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی مگرپھر بھی اسحاق سے میری محبت کی کوئی وجہ تلاش کی جائے تو وہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسحاق وردگ کئی برسوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ مجھے صاحبِ کتاب بنانے کے "میشن ایمپوسیبل” میں لگا ہوا ہے۔گویا علامہ اقبال کی زبان میں
"تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ۔۔”
اس "عظیم” مشن میں وہ میری بہت مدلل، اور قابل قبول انداز میں تعریف کرتا ہے کہ آپ افسانوں کا مجموعہ لے آئیں ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔ گویا مجھے نئے نئے زاویوں سے منکشف کردیتاہے ۔مجھے مجھ پر ہی پاکستان کا ایک عظیم نثر نگارثابت کرنے کی اس کی کوشش قابل ستائش ہوتی ہے۔ہر ملاقات یا فون کال پر وہ حال احوال بعد میں پوچھتا ہے کتاب کی اشاعت کا سوال پہلے داغ دیتا ہے۔ عام طور پر مجھے اپنی تعریف اچھی نہیں لگتی لیکن اسحاق اتنے خلوص اور اپنائیت سے یہ کام کرجاتا ہے کہ اس کے کہے الفاظ پریقین کرناہی پڑتا ہے۔ یوں افسانوی مجموعے کی اشاعت کا وقتی جذبہ دل میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔اس سے ملاقات کے بعد جب بھی گھر آکر اس کی دل موہ لینے والی باتو ں کی جگالی کرتا ہوں تومجھے اپنا آپ کچھ کچھ منٹو اور کچھ کچھ اشفاق احمد جیسا لگتا ہے۔آپ ہی بتائیے کہ کوئی دوست آپ کے تخیل کو ایسی بلندپروازی عطا کردے کہ آپ چشم تصور میں خود کو ادب کے نوبل پرائز کا حقدارسمجھنے لگیں تواس دوست کے لیے تو دوچار پنگے لے لینا کون سی بڑی بات ہے ۔ اسحاق وردگ کوالبتہ یہ مغالطہ ہے کہ میں جو اس کے شعر کی تعریف کرتا ہوں یا میں نے جو اس کی شاعری پر متعدد کالم لکھے ہیں شاید وہ میں نے اس کی دوستی میں لکھے ہیں۔مگر اسے شاید علم نہیں کہ میں یہ گناہ صرف کتابوں کے فلیپ کی حد تک ہی کرتاہوں جس کے لیے میں احتیاطاًہر فلیپ لکھنے کے فوراًبعد استغفار ضرور پڑھ لیتاہوں ۔میں کالم نگاری میں اپنے قاری کے ساتھ منافقت کی تب و تاب نہیں پاتا۔خوشامدی یا فرمائشی کالم لکھنے پر کبھی خود کو قائل نہیں کرسکا۔ جبکہ اسحاق کا شعرتوخود اپنی داد وصول کرتا ہے ۔ کوئی بھی شاعر کسی ایک شہر ، کسی ایک حلقے تک تو ستائش باہمی کی بنیاد پر خود کواچھا شاعر کہلواسکتا ہے لیکن شعراسی وقت سرحدوں کو عبور کرتا ہے جب اس شعر کے رنگ بھی نکھرے ہوں اوراس کی خوشبو بھی مہکتی ہو۔ ورنہ توذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا والی صورتحال ہی رہتی ہے ۔ ڈاکٹر نذیرتبسم ،نشاط سرحدی ، ڈاکٹر اظہاراور امجد بہزادپشاور کے بہت اچھے شاعر ہیں لیکن وہ پشاور کی پزیرائی پر ہی قناعت کرگئے ورنہ ان کے شعر میں اتنی جان تھی کہ اردوکے بڑے منظر نامے میں ان کی پزیرائی ہوسکتی تھی ۔ اسحاق وردگ نے پشاور پر قناعت نہیں کی۔اس نے شاعری کو اسلوبِ حیات بنایا۔ اسے پشاور میں روکنے والے دیکھتے رہ گئے۔اور اس نے سازشوں کے جال کو توڑ کر پہلے اٹک پار اور پھر سرحد پار اپنی شاعری کا سکہ جمایا۔ وہ بیسیوں بار "کل پاکستان کے مشاعروں کی ضرورت بنا۔اس نے ان مشاعروں میں شرکت کی اور اپنے کلام کو سند دلوائی ۔وہ اپناشعر لے کر چیچو کی ملیاں بھی گیا اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی،اور نہ جانے کہاں کہاں ۔وہ کسی اچھے بزنس مین کی طرح اپنے مال کے لیے منڈی تلاش کرنے میں سرگرداں رہا۔جدید شاعری میں جذب ہو کر اسحاق وردگ نے پرانی شاعری کی جگالی کے بجائے نئی شاعری کا جادو سیکھا۔اور اسے یوں چلایا کہ آج کئی زندہ اشعار اس کے کریڈٹ پر ہیں۔یار لوگوں نے ٹھٹھہ بھی کیا۔اسحاق وردگ پر پشاور کے مشاعروں کے دروازے بھی بند کیے۔اسے جھکانے کی کوششیں بھی کیں۔تاہم وہ ناکام ہوئے۔عظمتوں کو چھونے کے لیے بندے کو تھوڑاسا "ڈھیٹ” بھی ہونا چاہیئے ۔اس کی زندہ مثال اسحاق وردگ ہے ۔اس نے جو کہا اس پر میخ ٹھونک دی ۔اورآج یہ دن ہے کہ پشاور کا نام آتے ہی اٹک اور سرحد کے اس پار لوگ جدید شعر میں اسحاق وردگ کا نام لیتے ہیں۔اسحاق کا شعر اسحاق کی پہچان بن گیا ہے اور اسحاق خیبر پختونخوا کی شناخت۔
اسحاق ایک وقت میں حلقہ ارباب ذوق کی سیکریٹری شب "چھن” جانے پر بہت دکھی تھا۔وہ حلقہءارباب ذوق پشاور کے فورم کو جدید شعروادب کی درس گاہ بنانا چاہتا تھا۔اس مقصد کے لیے اس نے جدید اردو ادب پر مذاکروں کی بنیاد رکھی اور حلقہء ارباب ذوق پشاور میں اردو غزل،نظم،افسانے،تنقید اور ناول میں جدید رجحانات کو سمجھنے کے لیے مسلسل مذاکروں کو رواج دیا ۔اسحاق حلقے میں جمہوری اقدار اور حلقہء ارباب زوق کا مدت سے "معطل” آئین بحال کرنا چاہتا تھا۔نئے تخلیق کاروں پر حلقے کے بند دروازے کھولنا چاہتا تھا۔تاہم یہ خواب ٹوٹ کر اس کے لیے مستقل روگ بن گیا۔اس کی یہ لڑائی اپنی ذات کے لیے نہیں تھی۔پشاور میں اردو ادب کے فروغ کے لیے تھی۔وہ تو اپنی جنگ جیت رہا تھا بس نئے ادیبوں کے راستے کے کانٹے ہٹانا چاہتا تھا۔ اسحاق وردگ کا دکھ سمجھ میں بھی آتا ہے ۔یہ اسحاق کی اٹھان کے دن تھے ۔شاید وہ حلقہ ارباب ذوق کی سیکریٹری شپ سے اپنا ادبی کیرئیر بناکر آگے بڑھنا چاہتا تھا ۔
اسحاق وردگ نے اس زمانے میں حلقہ چلایا بلکہ اس کا احیا کیا۔جب بم دھماکوں کی وجہ سے لوگوں نے پشاور شہر میں گھومناپھرنا ہی بند کردیا تھا ۔لیکن اسحاق سر ہتھیلی پر رکھ کر حلقے کے اجلاس چلاتارہا۔یوں اسحاق کے لیے سارا ادب شاید حلقہء ارباب ذوق میں سمٹ آیا تھا ۔یہ وہ موقع تھا جب اپنے خواب کے بکھرنے پر اسحاق شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔ میں اس کے درد کو خوب سمجھتا تھا کہ حلقہء ارباب ذوق کی سیکریٹری شپ کا طوق اسحاق کے بعد میرے گلے میں ڈال دیا گیا تھا۔لیکن پاکستانی سیاست کی طرح ہمارے ادبی منظر نامے کی بھی ایک "اسٹیبلشمنٹ” ہوتی ہے۔ میرے جیسا اکھڑ بندہ ایک ہی برس میں اس "ادبی اسٹیبلشمنٹ” کے لیے غیرمقبول ہوگیا ۔ اس سے پہلے کہ مجھے اس عظیم مرتبے سے نکالاجاتااور بعدازاں میں چیختا پھرتا کہ مجھے کیوں نکالاسو میں خود ہی حلقے کی سیکریٹری شپ سے استعفیٰ دے کرنکل بھاگ نکلا ۔اسحاق اس موقع پر ادبی کارگل کے محاذ پر لڑنے لگا ۔ اس نے "ادبی اسٹبلشمنٹ” سے سمجھوتا کرنے اور "چور دروازے” سے "لفافہ” مشاعروں میں انٹری دینے کے بجائے۔جمہوری اقدار کی بحالی کی کٹھن راہ چنی۔جب ایک ایک کرکے اس کے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ٹی وی اور ریڈیو کے ادبی پروگرامز پر اس پر "غیر محسوس” طریقے سے پابندی لگائی گئی۔تو وردگ نے سوشل میڈیا پر نیا محاذ کھول لیا۔اب وہ مکمل باغی اور انقلابی کے روپ میں سامنےآیا ۔فیس بک پر اس کی پوسٹیں اس کی فرسٹریشن کا چیخ چیخ کراعلان کررہی تھیں ۔ جبکہ فیس بک کی اس لڑائی میں چند غیر معروف "ادیبچے” ادبی اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر جوابی کارروائی میں اسحاق کی شخصیت کو نقصان پہنچارہے تھے ۔ یہاں اسحاق وردگ تن تنہا ایک ادبی لڑاکے کے روپ میں سامنے آرہاتھا جو روپ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔کیونکہ اس رویے نے بڑے اچھے ادیبوں کو آگے بڑھنے نہیں دیا ۔پشاور ہی کے ایک بے پناہ شاعر جلیل حشمی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جن کا شعر اس وقت کے ادبی جرائدفرمائش پر منگوا کر چھاپتے تھے لیکن جلیل حشمی کی کمزور پی آر اور ان کا جارحانہ رویہ ان کے شہرت کو نقصان پہنچاتا رہا کہ آج کی نسل کوشاید ان کا نام بھی یاد نہ ہوگا۔تب میں نے اسے مشورہ دیا کہ اسحاق پشاور سے نکلوورنہ حلقہ تمہارے حلقوم میں اڑجائے ۔وہ مان گیا اور آج اسحاق کو پشاور نہ بھی مانے پاکستان اور پاکستان سے باہر اسے شاعر ضرور مانا جاتاہے ۔ خدا جانے اسحاق اپنے ادبی سفر میں کس کس سے مشورہ لیتا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ میرے مشورے کونصیحت کادرجہ دیتا ہے۔مجھے ادبی سرپرست اور محسن سمجھتا ہے۔اسحاق وردگ احسان فراموش انسان نہیں۔نا ہی موقع پرست ۔جو مفاد کے لیے اپنا راستہ اور نظریہءادب بدلے۔وہ اپنی لڑائی اپنے شعر اور نظریے کے بل بوتے پر لڑتا رہا ہے۔اور اسی لیے مجھے تمام تر خامیوں کے ساتھ قبول ہے۔لہذا ایک "ان دیکھے” حریف کی "چال بازیوں” سے محفوظ رکھنے کے لیے میں نے بس اتنی کوشش کی کہ اس کا رستہ کھوٹا نہ ہو۔خاص طور پر اس کی شاعری کے ابتدائی دن بہت حساس تھے ۔میں نے اسحاق کو اپنی توجہ کے انکیوبیٹر میں رکھا ۔احسان کا بدلہ چکانے کی نیت سے اسحاق مجھے خوب اکساتا ہے کہ افسانوں،انشائیوں ، خاکوں اور ڈراموں کی کتاب چھاپیں ۔ مجھے اپنے افسانے دیں میں ادبی رسائل میں چھاپوں وغیرہ لیکن چونکہ میں اپنی تحریر کے حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں سو اسحاق کو ہر بار ٹال دیتا ہوں۔نصف صدی سے زیادہ کے سفر میں کوئی اپنا ادبی مقام نہ بناسکے تو باقی کیا بچتا ہے ۔
اسحاق وردگ سازشی تو نہیں لیکن سازشی بننے کے زبردست امکانات اور صلاحیت ضرور رکھتاتھا ۔لیکن افسوس وہ اس خدادا صلاحیت کوبروئے کار نہ لاسکا کہ وہ ادب کو سیڑھی بناکر "لفافہ” مشاعروں کے رائج الوقت "ہتکھنڈوں” کے بجائے صرف اپنے خواب اور اپنی شاعری کے سہارے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور نئی شاعری کے عمدہ مجموعے”شہر میں گاؤں کے پرندے” کی شکل میں ادبی سفر کے کئی سنگ میل طے کر چکا ہے۔ البتہ وہ اس صلاحیت سے اپنے خلاف سازشوں کو ضروربھانپ لیتاہے ۔ اب خدانخواستہ وہ سازشیں حکومتیں گرانے ، یا دلفریب ویڈیوبنانے والی تو ہوتی نہیں۔زیادہ سے زیادہ اپنے حریفوں کا سرقہ برآمد کرلیا ۔ کسی کی غزل کو بے بحری کی تہمت دھر دی ۔کسی کو کسی مشاعرے سے روک دیا وغیرہ وغیرہ ۔مگر اسحاق ایسا بھی نہ کرسکا کیونکہ اس کو اس کے شعر کی داد ملنا شروع ہوگئی ہے۔اردو کے بڑے شاعر ظفر اقبال کے کالموں میں اس کی غزلیں چھپ رہی ہیں۔سرحد پار کی تنقیدی کتب میں وہ جدید شاعر کے طور پر زیرِ بحث ہے۔جس کا نشہ شراب سے بھی زیادہ ہوتاہے۔مگراب وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ اس کے خلاف سازشیں ’’منعقد ‘‘ کی جائیں ۔
اسحاق وردگ دنیا دار نہیں اس کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے ہے ۔ اسحاق بڑی سہولت سے نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی کسی ایک دکان پر بیٹھ کر پیسہ کماسکتا ہے ۔ لیکن اسے توپیسے سے زیادہ خواب کی تعبیر اور داد کمانے کا شوق ہے جو اس کے شعر پر اسے ملتی ہے ۔اس لیے وہ نناوے کے پھیر میں نہیں پھنسا بلکہ فعلن فعلن کامنتر پڑھ کر اس نے اپنے گرد ایک حلقہ بنادیا اور ایک لکھشمن ریکھا کھینچ دی کہ بھائی یہاں سے نہیں نکلنا۔اور یہ کیابڑی بات نہیں کہ بندہ ایک خواب دیکھے اور اس خواب کو اپنی محنت اور ذہانت سے شرمندہ تعبیر کردے ۔ اسحاق نے بھی خیبر پختونخوا کا روایت شکن شاعر ہونے کا خواب دیکھا اور وہ جدید شاعر ہوگیا۔ اسحاق کوبچپن میں قطعاً شاعر بننے کا شوق نہیں تھا ۔بچپن میں تو وہ بچوں کی کہانیاں لکھتا تھا۔ میرے خیال میں اسحاق اکتسابی شاعر ہے۔ اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ خاکسار کی بچپن سے طبیعت موزوں تھی ۔ اس نے شاعری کے لیے تپسیا کی ہے۔ اہل زبان استاد شاعر پروفیسر محمد طہ’خان مرحوم کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔اس زریں دور میں حلقہء ارباب ذوق پشاور کا جائنٹ سیکرٹری بنا۔جب خاطر غزنوی،محسن احسان،یوسف رجا چشتی،سجاد بابر جیسے جید شعراء مستقل حلقے کی نشستوں کی رونق تھے۔اس جنون اور مستقل مزاجی سے وردگ نے شعر کہنا سیکھا ہے ۔بلکہ یوں کہوں کہ اس نے اچھا اور نیا شعر کہنا سیکھا ہے ۔کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لیے اس ہنر کو سمجھنا از حد ضروری ہے ۔ اسحاق پشاور کے ان چند ادب شناسوں میں سے ایک ہے کہ جس کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔وہ نظم و نثر کا یکساں علم رکھتا ہے ۔ بلکہ شعرو ادب کے جدید رجحانات کاتو اسے اتنا علم ہے کہ مجھ جیسے ایم اے اردو کے کورس کا مطالعہ رکھنے والے اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں۔ اسحاق کو اس کو مطالعے نے اچھا شعر کہنا سکھایا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون سا شعر اسے داد دلوائے گا۔ یہی اسحاق کی کامیابی ہے ۔
اسحاق وردگ جدید دور کا شاعر ہے اور اسے یہ بھی ادراک ہے کہ جدید دور کے شعر کے کیا تقاضے ہیں۔وہ سوشل میڈیا کے سارے گتکے جانتا ہے ۔ اب اسے چاہنے والے مل گئے ہیں۔جو سوشل میڈیا پر اس کے پھڑکتے ہوئے شعر لگانے کا فن جانتے ہیں۔ کبھی انڈیا تو کبھی پاکستا ن تو کبھی کینڈا سے کوئی اس کا شعر لگا رہا ہے ۔کسی شاعر کا شعر ریختہ اور دیگر ادبی ویب پیجز پرلگنا اور پاک و ہند کے مستند ادبی رسائل میں چھپنا کوئی عام بات نہیں کیونکہ یہ جدیدطرز کے ادبی رجحانات ہیں ،جدید دور کے جدید شعر کے اور جدید شاعر کے رجحانات ۔اور ان رجحانات سے اب کسی کو انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔آج دو ہزار بائیس میں کوئی یہ سوچے کہ وہ بہت اچھا ادب تخلیق کررہا ہے اور وہ بس ایک کتاب چھاپ کر خود کو منولے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی اوراسحاق وردگ شعروادب کا یہ اسم اعظم جان چکا ہے ۔ اس کی شاعری پاکستان اور انڈیا کے رسائل میں چھپ رہی ہے ۔اسحاق کیسے ادبی مراکز تک رسائی ممکن بناتا ہے یہ اس کاالگ سے ایک کارنامہ ہے ۔یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے لگژری بسوں میں بس کے انجن کے علاوہ ایک الگ سے ایک انجن ہوتا ہے ۔جو اے سی کو چلاتا ہے کہ اکلوتے انجن پر اضافی لوڈ نہ پڑے یہی اضافی انجن اس بس کو لگژری بناتاہے ۔ اس سارے منظرنامے میں اسحاق وردگ نے ایک نئی روایت تخلیق کی ہے ۔وہ نئے دور کے نئے انسان کی وضح کردہ روایتو ں کو نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ نبھانا بھی جانتا ہے ۔ اب اسے یہ ہنر آ گیا ہے کہ سازش کی دیوار کے اندر سے کیسے گزرنا ہے۔ اب مخالفین بی ایس اور ایم فل کو روکتے رہ جاتے ہیں۔اور اسحاق وردگ محققین کو اپنے شعر سے قائل کرکے خود اپنے کلام پراور اپنے بہت قریبی دوستوں بشمول راقم الحروف پر مقالات لکھوا رہا ہے۔ یہ سارے کام کوئی چیتا ہی کرسکتا ہے میری طرح کاہل چاہتے ہوئے بھی نہیں کرسکتا۔ اگر اسحاق ایسا کرتا ہے تو برا ہی کیا ہے۔ جس طرح زندگی کے دوسرے پروٹوکولز بدلے ہیں اسی طرح ادب اور ادیب کے پروٹوکولز بھی بدلے ہیں ۔ اورمیری نسل نے تو ادب میں صرف اپنی بقاء ہی ممکن بنائی ہے۔اب کے تو بقاء کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں ۔ یہ تقاضے سفاک بھی ہوں تو بقاء کی جنگ میں اس کی کون پروا کرتاہے ۔
جس طرح ہم ایک رات سوئے اورجب صبح جاگے تو پتہ چلاکہ کوئی شاہد آفریدی آیا ہے اور اس نے ون ڈے کی تیز ترین سنچری بناڈالی ہے۔ اسحاق وردگ بھی شاہد آفریدی کی طرح راتوں راتوں سٹار بنا ہے ۔
خیرات میں دے آیا ہوں جیتی ہوئی بازی ۔۔۔ اور دنیایہ سمجھتی ہے کہ میں ہار گیا ہوں
اس کا یہ شعر قومی منظرنامے میں ایک تاریخی واقعے کے سبب اور شوشل میڈیا پر ایسا پھیلاکہ اس شعرنے پشاور شہر ہی کے سوہنے شاعر عزیز اعجاز کے شعر
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے ۔۔موسم تو انسا ن کے اندر ہوتا ہے
کے آفاقی اثر کو توڑڈالا ۔اسحاق کا خیرات والا شعر واقعی خیرات کے صدقہء جاریہ کی طرح کہاں کہاں تک نہ پہنچا ۔کہ خود اسحاق پیچھے رہ گیا اور یہ شعر پاکستان اور ہندوستان کی بڑی شخصیات کی فیس بک والز،کالموں،میڈیا اور ٹیوٹر ٹرینڈز کی زینت بن گیا ۔یہ الگ بات کہ ملک کے شہروں شہروں مشاعرے پڑھنے والا اسحاق وردگ اکثر "بوجوہ” پشاور کے مشاعروں کی لسٹوں میں اپنا نام نہیں پاتا۔اس کے شعری مجموعے "شہر میں گاؤں کے پرندے” کو اٹک پار اور سرحد پار اچھی خاصی توجہ ملی لیکن اپنے شہر کی ادبی اسٹبلشمنٹ نے اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔اس پر وہ دکھی بھی ہوتا ہے لیکن رُکتا نہیں ۔وہ اس کا بدلہ ایک اور اچھی غزل کہہ کر لے لیتا ہے ۔کیونکہ اسحاق کے لیے ادب سنجیدہ سرگرمی اور "کائناتی مسئلہ” ہے ۔وہ مشاعروں اور ادبی انعامات کے سہارے زندہ رہنا نہیں چاہتا۔وہ روایت اور تاریخ کا حصہ بننا چاہتا ہے۔اور اس کے لیے وہ دن رات مشقت کرتا ہے ۔ اس کاشعر اس کی مشقت کی گواہی دیتا ہے ۔میں نے اسحاق کی شاعری کے علاوہ دیگر ترجیحات نہیں دیکھیں کیونکہ اس کی حتمی ترجیح شعرہی ہے۔حیرت انگیز طور پر اسحاق کا تخلیقی سفر افقی جانب رواں ہے اور پوری رفتار کے ساتھ رواں ہے ۔اسحاق دیر کا پشتون ہے مگر پشاور شہر اس کے اندر بستا ہے ۔ اس نے پشاور شہر کو محبوب بنارکھا ہے ۔ اسے دیر کے جینز سے سخت جانی اور استقلال میسر آیا ہے اور پشاور نے اسے تہذیبی ورثے کا خزانہ سونپا ہے ۔ زبانوں نے اسے فکر کے ہمہ جہت دھارے بخشے ہیں اور شعر کے جنوں نے اسے تحرک ودیعت کیا ہے کہ جس سے اسحاق ایک ایسا پیکج بن جاتا ہے کہ جو آنے والے دنوں میں بڑا شاعر ہونے کا استحقاق رکھتا ہو۔۔۔اور جس کے شعر کے ذکر کے بغیر نئی شاعری کی تاریخ نامکمل ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |