دہلی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے قیام کے بعد بانیٔ شعبہ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کو جلد ہی احساس ہوا کہ ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔ دہلی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کا باقاعدہ قیام نومبر 1959 میں عمل میں آیا، اس سے قبل دلّی کالج کے اساتذہ آرٹس فیکلٹی میں پڑھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس وقت تک اردو، عربی اور فارسی ہم جماعت تھے، یعنی تینوں کو ایک ہی گھر میں بسا رکھا تھا۔ فاروقی صاحب نے نئی بہو کی طرح ساس سسر سے الگ رہنے کی ضد کرڈالی۔ اردو کے لیے عربی فارسی کی حیثیت ساس سسر جیسی ہی ہے، باقی زبانیں تو دیورانی جیٹھانی کا درجہ رکھتی ہیں۔ علیحدگی کی ضد محکمۂ تعلیم تک پہنچی اور منظوری مل گئی۔ بس اردو کو الگ گھر ملنا تھا کہ اُس نے اپنے چاہنے والوں کو بلانا شروع کردیا۔ علاحدہ گھر آباد ہوتے ہی دوسرے ممالک سے بھی مہمان یعنی طلبہ آنے لگے۔ اُن کی ضیافت کے لیے شیریں زبانی لازمی تھی۔ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کو معلوم ہوا کہ لکھنؤ میں پروفیسر احتشام حسین کی ایک شاگردہ ڈاکٹر شمیم نکہت کی شیریں زبانی سے اہل لکھنؤ بہت مرعوب ہیں، فاروقی صاحب نے دبستانِ لکھنؤ کی قدر کرتے ہوئے دبستان دہلی میں اردو سکھانے کے لیے ڈاکٹر شمیم نکہت کو مدعو کرلیا۔ ان کی موجودگی سے تصویر شعبہ میں رنگ بھرگیا۔ ڈاکٹر شمیم نکہت بیسویں صدی عیسوی کے اختتام تک شعبۂ اردو سے وابستہ رہیں۔ اس مدت میں انھوں نے سیکڑوں غیر اردوداں کو اردو لکھنا اور پڑھنا سکھادیا۔
جس وقت ہم شعبۂ اردو میں آئے، شعبہ میں تین خواتین درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ایک ڈاکٹر شمیم نکہت، دوسری ڈاکٹر فرحت فاطمہ اور تیسری ڈاکٹر عابدہ بیگم جو بہت جلد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ڈاکٹر فرحت فاطمہ کے والد پروفیسر خواجہ احمد فاروقی تھے اور ڈاکٹر عابدہ بیگم کے شوہر پروفیسر فضل الحق ۔ ہم اردو والے ہی کیا غیر اردو والے بھی اللہ کی اس بات پر سختی سے عمل کرتے ہیں کہ سب سے پہلے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو۔بہرحال شعبہ کی تینوں خواتین بہت مہذب اور نیک تھیں۔ شمیم آپا کے دہلی آنے کی وجہ شارب صاحب کی دہلی ہجرت بھی ہوسکتی ہے۔ دونوں طویل مدت تک لکھنؤ میں ساتھ رہے، رشتے کا تقاضا تھا کہ اس ساتھ کو مزید نبھائیں، یوں بھی شارب صاحب کے دنیا میں آنے کے ایک ماہ بعد ہی شمیم آپا بھی عالمِ آب و گِل میں آگئی تھیں۔ اگرچہ حضرت آدم اور حوا کی طرح علاحدہ علاحدہ مقامات پر آئے تھے، لیکن لکھنؤ دونوں کے لیے جدہ ثابت ہوا۔ لکھنؤ محبت کا شہر ہے، ایک ہی شہر میں بلکہ ایک ہی چھت کے نیچے مختلف عقائد و مسالک کے لوگ اس قدر محبت سے رہتے ہیں کہ ش اور س کے نقطوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ شمیم آپا سے شعبہ میں آتے ہی ہماری قربت اس لیے بڑھی کہ وہ افسانہ نگار تھیں، دوسرے یہ کہ ترقی پسندوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی وہ ہماری طرح دین سے غافل نہیں تھیں۔ ترقی پسندی اپنی جگہ اور دین داری اپنی جگہ، یعنی ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘۔ اساتذہ اور طلبہ میں اُن کی مقبولیت کا سبب اُن کی شیریں بیانی تھی۔ ان کے چہرے کا جمال اور دراز قامتی دیکھ کر راجپوت شہزادیوں کی حسن کااندازہ ہوتاتھا، دراصل شمیم آپا والدہ کی طرف سے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ شمیم آپا کے حق میں یہ بہتر ہی تھا کہ وہ شارب صاحب سے تقریباً منسوب ہوکر ہی دہلی آئی تھیں۔ مستقل شارب صاحب کے گھر جانے میں اس لیے وقت لگا کہ ایک کا خاندان فقہ حنفیہ پر یقین رکھتا تھا اور دوسرے کا فقہ جعفریہ پر۔ دونوں اماموں کے معتقدین کو ایک ہی چھت کے نیچے جمع کرنے کے سبب دونوں کو انتظار کرنا پڑا۔ دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر شمیم نکہت کو ایک ہی لڑکے سے دوبار نکاح کرنا پڑا، ایک بار میکے میں اور دوسری بار سسرال میں، لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ رشتے میں بہت زیادہ پختگی آگئی۔ آخر لڑکا بھی حسین و جمیل اور دراز قد تھا۔ شاید قدرت نے دونوں کی قد و قامت کی مناسبت سے ہی رشتہ ازدواج میں مسلک الگ ہونے کے باوجود منسلک کیا تھا۔ اردو والوں کے لیے یہ جوڑی ہمیشہ قابلِ رشک رہی۔
شمیم آپا نے عہد برطانیہ میں لکھنؤ کے ایک معزز اور متمول گھرانے میں آنکھیں کھولیں اور عہد بھارتیہ جنتا پارٹی میں آنکھیں بند کرلیں۔ والدین کے متمول ہونے کا ثبوت تو اُن کے کثیر العیال ہونے ہی سے معلوم ہوجاتا ہے، جس گھر میں چھ دخترانِ ملت ہوں اس گھر کی خوش بختی پر کون شک کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر شمیم نکہت کو چھ بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑے ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ شاید اسی لیے ان کے والد محمد وسیم اور تایا محمد نسیم نے اُن کا نام اپنے ناموں کا ہم قافیہ لفظ تلاش کرکے شمیم رکھ دیا۔ بعد میں قافیہ ایسا تنگ ہوا کہ بقیہ پانچوں کے نام مشرف، انیس، رئیسہ، بلقیس اور یاسمین رکھے، بلکہ بیٹے ابراہیم کے لیے بھی ہم قافیہ لفظ تلاش نہیں کیا، جبکہ لکھنؤ میں مقفع نثر لکھنے اور بولنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ جس زمانے میں شمیم آپا نے دنیا میں آکر ہوش سنبھالا، انگریزوں کی حکومت ضرور تھی، لیکن مسلمانوں نے انگریزوں کا زیادہ اثر قبول نہیں کیا تھا۔ سرسید احمد خاں کا کالج یونیورسٹی بھی بن گیا تھا۔ شیخ عبداللہ نے لڑکیوں کے لیے علی گڑھ میں کالج بھی کھول دیا تھا، لیکن مسلمان لڑکیوں کو تو کیا بھیجتے، لڑکوں کو بھی کالج بھیجنا تضیع اوقات سمجھتے تھے۔ جاگیردارانہ مزاج بدلا نہیں تھا اور جاگیرداروں کے بچے پڑھنے کے بجائے جاگیرداری کیا کرتے تھے۔ خدا جانے شمیم آپا کی والدہ کے دل میں کیا آئی کہ جس تعلیم سے خاندانی رسم و رواج کے سبب خود محروم رہیں، اپنی بچیوں کو نہیں رہنے دیا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ ہماری شمیم آپا سے کہاں ملاقات ہوپاتی۔ دراصل شمیم آپا کا جنم بھی ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہی ہوا۔ لندن میں 1935 میں اس تحریک کی بنیاد پڑی اور شمیم آپا 1935 میں ہی حسن گنج لکھنؤ میں محمد وسیم صدیقی کے یہاں آگئیں۔ شاید اسی لیے 1936 میں لکھنؤ ہی میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کا قیام عمل میں آیا، جیسے جیسے انجمن بالغ ہوئی، ڈاکٹر شمیم نکہت بھی بلوغیت کی سیڑھیاں چڑھتی گئیں۔ ان کی ترقی پسندی یہاں تک پہنچی کہ خاندان کی پہلی ایسی لڑکی بننے کا انھیں اعزاز ملا جس نے برقع اُتارکر صندوق میں بند کرکے ہمیشہ کے لیے تالا لگادیا۔ کرامت حسین گرلز کالج کی ایسی کرامت ہوئی کہ پھر اُس صندوق کو کبھی نہیں کھولا۔ دراصل وہاں رضیہ سجاد ظہیر سے ملاقات ہوگئی، جنھوں نے مشورہ دیا کہ تم اپنے احساسات و جذبات کو افسانوں کی شکل میں پیش کرو، بس وہ افسانہ نگار بن گئیں۔ لکھنؤ کی فضا اس وقت ترقی پسندانہ تھی، بہت سے والدین اپنے بچوں کو سلطان المدارس اور فرنگی محل بھیجتے تھے، لیکن وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کا حصہ بن جاتے تھے۔ اردو کے نامور ادیب اور شاعر اُس وقت لکھنؤ میں موجود تھے۔ شمیم آپا کی ترقی میں ترقی پسندوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
شمیم آپا پہلے ہی گھر سے ترقی پسند فکر لے کر نکلی تھیں، یعنی خاندانی روایات کو توڑکر بے حجاب کالج پہنچیں، جہاں رضیہ سجاد ظہیر مل گئیں، جن کی سرپرستی نے ترقی پسندانہ نظریات کو جلا بخشی اور بی اے کرنے کے بعد جب ایم اے کرنے کے لیے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل ہوئیں تو پروفیسر سید احتشام حسین جیسے ترقی پسند مل گئے۔ دوستی ہوئی تو شارب ردولوی اور عارف نقوی جیسے نوجوانوں سے۔ یعنی کریلے کی بیل نیم پر چڑھ گئی۔ کہتے ہیں اس زمانے میں شارب صاحب حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں سرگرم رہنے کے سبب نہ صرف لڑکوں میں بلکہ لڑکیوں میں بھی بہت مقبول تھے۔ اُن کی مقبولیت میں اُن کی شاعری بھی معاونت کررہی تھی۔ لڑکیوں میں شمیم آپا کی بھی مقبولیت کم نہ تھی۔ حسنِ اتفاق یہ ہوا کہ جب ڈاکٹر شمیم نکہت نے ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تو پروفیسر سید احتشام حسین نگراں مقرر ہوئے۔ ’’پریم چند کے نسوانی کردار‘‘ موضوع طے پایا۔ اسی وقت مسیّب عباس یعنی شارب ردولوی بھی پی ایچ ڈی میں داخل ہوئے تھے، لیکن ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے ساتھ۔ لیکن قدرت کچھ اور چاہتی تھی، یعنی حالات کچھ ایسے ہوئے کہ نگرانی بدل گئی اور شارب صاحب بھی سید احتشام حسین کی نگرانی میں پہنچ گئے۔ بس پھر کیا تھا اپنی تنقید بھول کر پریم چند کے افسانوں میں نسوانی کردار ڈھونڈنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شمیم آپا کو اُن سے دو سال قبل پی ایچ ڈی کی سند مل گئی۔ سند کا ملنا تھا کہ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی جیسے مردم شناس نے دو ستاروں کے ملن کا ثواب حاصل کرنے کے لئے 1963 میں ڈاکٹر شمیم نکہت کو بھی دہلی بلالیا۔ شارب صاحب دو سال پہلے ہی آچکے تھے۔ مزید دو سال دونوں کو مسلکی راستے ہموار کرنے میں لگے۔ 1965 میں ہندوستان جنگ میں سرخرو ہوا اور ان دونوں کو زندگی میں سرخروئی نصیب ہوئے۔
شمیم آپا نے اگرچہ روایات سے بغاوت کی، لیکن خاندانی شرافت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ رشتوں کے احترام کو ہمیشہ ترجیح دی۔ بزرگوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے محبت سے پیش آنا اُن کے خمیر میں شامل تھا۔ شعبہ کے اساتذہ میں کچھ بزرگ تھے، کچھ ہم عمر اور کچھ خرد۔ اُن کی گفتگو کا لہجہ اور مذاق کا طریقہ ہر ایک سے اُس کے مرتبہ کے مطابق ہوتا تھا۔ اُن کی شگفتہ مزاجی اور زندہ دلی ہر ایک کو مرعوب کرلیتی تھی۔ طالب علموں میں ہر دلعزیز تھیں۔ ان کی باریک سی مونالیزا جیسی مسکراہٹ فرحت و انبساط بخشتی تھی۔ شمیم آپا شعبہ کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ جس طرح خود انھوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی گزاری تھی۔ شمیم آپا سے میری قربت کی وجہ ادبی سرگرمیاں اور ان کا مشفقانہ رویہ تھا۔ اُن سے مل کر بڑی بہن کا سا احساس ہوتا تھا۔ وہ لکھنوی تہذیب کی طرح خوش لباس اور خوش مزاج تھیں۔ شعبہ میں ابتدا سے آخر تک وہ غیر اردوداں طلبہ کے کورسیز یعنی سرٹیفکٹ، ڈپلوما اور ایڈوانس ڈپلوما کی نگراں رہیں۔ جب مجھے سرٹیفکٹ کورس پڑھانے کی ذمہ داری دی تو میں نے شمیم آپا سے معلوم کیا:
’’شمیم آپا! اردو سکھانے کے لیے کون سا طریقہ بہتر رہے گا؟‘‘
انھوں نے مخلصانہ مشورہ دیا:
’’دیکھو! ہمارے یہاں نصاب میں حیات اللہ انصاری کی کتاب دس دن میں اردو شامل ہے۔ کتاب دیکھ لو، لیکن تم جیسے بہتر سمجھو، پڑھائو۔ ہمارا مقصد ان کو اردو سکھانا ہے۔‘‘
جب تک میں نے یہ کورس پڑھایا، شمیم آپا کی اس بات پر عمل کیا۔ ان کورسوں میں عموماً اچھے عہدوں پر فائز جوان اور بزرگ طالب علم ہوا کرتے ہیں۔ شمیم آپا اُن کی دلچسپی کے لیے مختلف طرح کے پروگراموں کا انعقاد کیا کرتی تھیں۔ اُن کے ساتھ دوستانہ رشتہ رکھ کر اردو والوں کے اخلاق کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری تھا۔ ویسے خوش اخلاقی میں اُن کا کوئی ثانی بھی نہیں تھا، اُن سے لوگ اخلاق کا درس لیا کرتے تھے۔ شارب صاحب کے ساتھ انھوں نے تمام عمر اس قدر خوش اخلاقانہ رویہ رکھا کہ ان کے بیوی ہونے پر شبہ ہوتا تھا۔ بیوی کی تو سرشت میں شامل ہے کہ وہ شوہر سے ہمیشہ بلند آواز اور تحکمانہ انداز میں بات کرے۔ ان دونوں نے پوری زندگی دوستی میں نکال دی۔ ہم نے تو بڑے بڑے ناانصافی کے خلاف نعرے لگانے والے مارکسسٹ پروفیسروں کی بیویوں کو دیکھا ہے، جنھوں نے کبھی لفظ بیوی کی معنویت کو شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ شمیم آپا نے اپنے طویل درس و تدریس کے تجربے کی بنیاد پر اردو سیکھنے کے لیے کتابیں بھی لکھیں۔ ہم نے بھی اپنے تجربے کا اظہار ’’آئو اردو سیکھیں‘‘ لکھ کر کیا۔
شمیم آپا کو دیکھ کر نذیر احمد کی اصغری کی یاد آتی ہے جو ’’تعلیم یافتہ، مہذب، ہنرمند، خوش مزاج، امور خانہ داری سے واقف ایک شائستہ عورت ہے۔‘‘ شمیم آپا ہر رشتہ کو خوش اسلوبی سے نبھانے کا ہنر بخوبی جانتی تھیں۔ انھوں نے سعادت مند بیٹی کا کردار بھی ادا کیا اور بڑی بہن کی ذمہ داری بھی نبھائی۔ رفقائ کے ساتھ رفاقت میں بھی کوتاہی نہیں برتی، شوہر سے وفاداری کی تو اردو دنیا میں دوسری مثال نہیں ملتی۔ انھوں نے ماں بن کر بھی محبت کا خزانہ لٹادیا، اُن کے اندر پریم چند کے مختلف نسوانی کردار نظر آتے ہیں اور اُس بڑے گھر کی بیٹی نے ہر کردار کو تمام زندگی انتہائی خوبصورتی سے نبھایا۔ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو اُن کی محبت اور شفقت دہلی کے قیام کے دوران اور لکھنؤ جانے کے بعد بھی حاصل رہی۔ اُن کے پاس محبت کے سوا دینے کو کچھ تھا بھی نہیں۔ ڈانٹتی بھی تھیں تو محبت کا گمان ہوتا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ حیدرآباد کا طویل سفر بھی کیا۔ غالباً 1994 کی بات ہے، حیدرآباد کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے قرعہ اندازی میں شعبہ کی جانب سے دو نام آئے، ایک شمیم آپا کا اور دوسرا میرا۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ اُن کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا، کہنے لگیں:
’’ابن کنول! تم ایسا کرو، اپنی بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے لو، میں شعاع کو ساتھ لے چلتی ہوں۔ کانفرنس تو ایک دن کی ہوتی ہے۔ سب حیدرآباد گھوم لیں گے، مزہ آئے گا۔‘‘
واقعی بہت مزہ آیا، اس وقت میرے دونوں بچے بہت چھوٹے تھے جو شعاع کی دلبستگی کا ذریعہ بن گئے۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا شمیم آپا جیسی بڑی بہن کو، جنھوں نے حیدرآباد میں مجھ سے کہا:
’’ابن کنول! ایسا کرو، تم یہاں تک آئے ہو تو بنگلور، میسور اور اوٹی بھی گھوم آئو۔ پیسوں کی فکر مت کرنا، پیسے مجھ سے لے لینا۔‘‘
میں نے شمیم آپا کی بات پر عمل کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا۔
شعاع اُن کی زندگی میں چمکتے ہوئے تارے کی طرح آئی تھی اور بہت جلد اندھیرا کرکے چلی گئی۔ اس کی شعاعوں سے شمیم آپا کی دنیا منور تھی۔ آج بھی ہماری آنکھوں میں وہ پیاری پیاری صورت، وہ کامنی سی مورت محفوظ ہے۔
شمیم آپا نے شعبۂ اردو میں کچھ کم چالیس برس گزارے۔ لیکچرر، ریڈر اور پروفیسر بنیں۔ صدرِ شعبہ کے فرائض بھی انجام دیئے۔ سبکدوشی کے بعد گھر واپسی ہوگئی۔ لکھنؤ کو پھر آباد کیا، ان کا تعلق اردو کے دو مشہور دبستانوں یعنی لکھنؤ اور دہلی سے رہا، اس لیے ان کے مزاج میں لکھنؤ کی شوخی اور شگفتگی کے ساتھ دہلی کا سوز و گداز بھی شامل تھا۔ انھوں نے پریم چند کے نسوانی کرداروں کے درد کو محسوس کیا تھا، اس لیے اُن کے افسانوی مجموعے ’’دو آدھے‘‘ کے افسانوں میں بھی وہ درد چھلک آیا ہے۔ شمیم آپا نے افسانے لکھے یا کبھی کبھی شاعری بھی کی۔ نقاد سے شادی کرنے کے بعد تنقید کی طرف رخ نہیں کیا، صرف ’’تاثرات‘‘ پیش کردیئے۔ یہی اُن کی ازدواجی زندگی کے لیے بہتر بھی تھا۔ ایک گھر میں ایک ہی نقاد کا رہنا مناسب ہے۔ شارب صاحب کی تنقید سن کر ہی ان کے اندر کا نقاد مطمئن ہوجاتا تھا۔ دراصل شارب صاحب کی سب سے پہلی قاری یا سامع وہ ہوتی تھیں، اس لیے انھوں نے مزید تنقید کی طرف رجوع نہیں کیا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ مزاج کی شگفتگی جاتی رہتی۔
شمیم آپا شعبہ کے مقبول اساتذہ میں شامل تھیں، بلکہ طلبہ میں ان کی مقبولیت کچھ زیادہ ہی تھی، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ہر وقت ہر ایک کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں۔ جب تک شارب صاحب دیال سنگھ کالج میں تھے، کبھی کبھی شعبہ میں آتے تھے۔ ان کے پاس سفید رنگ کی ایک فی ایٹ کار تھی۔ جب تک ہم بے کار تھے، یعنی ہمارے پاس کار نہیں تھی، کئی بار اس میں بیٹھنے کی عزت نصیب ہوئی۔ ہمیں اس وقت تک کار کے پورے آداب معلوم نہیں تھے ۔عموماً کار سے اُترنے کے بعد بہت زور سے کار کا دروازہ بند کرتے تھے۔ شارب صاحب نے ایک دو بار تو برداشت کیا، لیکن ایک دن آہستہ بند کرنے کی ہدایت کرہی دی، ہم سمجھ نہیں پائے، ہمارا مقصد تو اچھی طرح دروازے کو بند کرنا تھا تاکہ چلتے وقت کار کا دروازہ کھل نہ جائے۔ ویسے شارب صاحب کار اتنی تیز چلاتے ہی نہیں تھے کہ تیز رفتاری کی وجہ سے دروازہ کھلے۔ جب ہم خود صاحبِ کار ہوئے یعنی ہم نے کار خریدلی تو معلوم ہوا کہ قوت سے کار کا دروازہ بند کرنے پر اس کی آواز سے صاحبِ کار کے دل پر کیا گزرتی ہے۔اب ہمیں بھی شارب صاحب کی طرح تکلیف ہوتی ہے جب کوئی ہماری کار کا دروازہ پوری قوت سے بند کرتاہے۔
شمیم آپا بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہی شعبہ سے سبکدوش ہوگئیں۔ ان سے ایک ماہ قبل شارب صاحب نے بھی نوکری سے نجات حاصل کرلی تھی اور دونوں نے لکھنؤ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اچھا ہی کیا، کیونکہ اُن جیسے نفیس اور نازک مزاج لوگوں کے لیے دہلی جیسے تیز رفتار شہر میں قیام مناسب نہیں تھا۔ لکھنؤ کے پُرسکون علاقہ میں انھوں نے اپنا گھر بسایا اور اپنی بیٹی شعاع کی یاد میں اسکول اور کالج کھول کر خود کو مصروف کرلیا۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ شمیم آپا لکھنؤ میں موجود ہیں اور میں جب لکھنؤ جاؤں گا مجھ سے کہیں گی:
’’ابن کنول! ایسا کرو، تم یہاں تک آئے ہو تو بیوی بچوں کو فیض آباد اور کانپور بھی دکھادو۔ وہ بھی تاریخی شہر ہیں۔ اور ہاں! رُدولی بھی جانا، وہاں جاکر دیکھنا کہ شارب جیسا کوئی اور بھی وہاں ہے۔‘‘
میں نے شمیم آپا کو آخری سفر پر جاتے ہوئے نہیں دیکھا، اس لیے ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔
(موبائل : 9891455448)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page