خالق کائنات کی قدرت پر یقین کرنے کے لیے یوں تو دنیا میں بے شمار چیزیں ہیں، لیکن انسانوں کی شکلیں دیکھ کر بلاشبہ اس کے تخیل اور خلّاقی کی وسعت سے کوئی ملحد بھی منکر نہیں ہوگا۔ آدم تا ایں دم اربوں انسان پیدا ہوئے، لیکن سب کی شکلیں مختلف ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ کتنے ڈیزائن خالق کے پاس موجود ہیں۔ انسان اگرچہ چاند کے پار جانے کے دعوے کرتا ہے، لیکن اس کا تخیل اتنا وسیع نہیں ہوپایا ، اس کی بنائی ہوئی لاکھوں چیزیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ اور تو اور اس کے پاس ذخیرئہ الفاظ بھی اس قدر نہیں کہ مختلف شکلوں کے افراد کے نام بھی مختلف رکھ سکے۔ قدرت نے شکلیں تو الگ کردیں، لیکن انسان انھیں نام الگ نہیں دے سکا۔ ایک ہی نام کے ہزاروں لوگ مل جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کو غلط فہمیاں اور بعض اوقات خوش فہمیاں ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک کے کارنامے دوسرے کے نامۂ اعمال میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ناموں کی یکسانیت کے سبب بعض لوگ شرپسند کو خیرپسند اور خیرپسند کو شرپسند سمجھ لیتے ہیں۔ ہر شعبہ میں ایک جیسے ناموں کے سبب غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اردو کے ناموں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میرؔ تقی کی غزل میرؔ فتنہ کے نام سے چھپ جاتی ہے، عتیق صدیقی کی کتاب کو لوگ عتیق احمد صدیقی کی سمجھ لیتے ہیں، قمر رئیس بہرائچی کے کلام پر پروفیسر قمر رئیس کا شبہ ہوتا ہے۔ دیگر افراد کی طرح یہ پریشانی ہمارے سامنے بھی آتی ہے، جب کتابوں پر صرف عبدالحق لکھا دیکھتے ہیں۔ کتاب دیکھے بغیر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ مولوی عبدالحق کی ہے یا پروفیسر عبدالحق کی۔ ویسے تو پروفیسر عبدالحق کے اندر بھی تمام مولویانہ صفات موجود ہیں۔
ہم نے جب اپنے محسنِ قدیم اور سابق رفیق شعبہ پروفیسر عبدالحق پر خاکہ لکھنے کا ارادہ کیا تو ان کے صرف تصنیفی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اردو کی ایک ویب سائٹ کا سہارا لیا۔ دیکھتے ہی ہماری آنکھیں کافی دیر تک وا رہیں، اس لیے کہ ان کے نام کے نیچے کتابوں کی تعداد 168 تھی۔ ہمیں حیرت بھی ہوئی، عقیدت بھی اور افسوس بھی۔ حیرت اور عقیدت کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے درمیان اس قدر کثیر الکتب ادیب موجود ہے اور ہم نے اس کی قابل قدر قدر نہیں کی۔ افسوس اس لیے ہوا کہ انھوں نے ہمیں اس تعداد کی نصف بھی تحفتاً نہیں دی تھیں۔ بہرحال اسی عالم میں جب ہم نے ویب سائٹ کی مزید پرتیں کھولیں تو سائنسی ایجادات پر رونا آیا۔ دراصل ویب سائٹ میں مولوی اور پروفیسر کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ خدا جانے سائنس کا یہ کرشمہ کسی شخصیت کے لیے فائدے مند ہے یا نقصان دہ۔ لیکن ثابت یہ ہوا کہ سائنس کی ایجادات بھی ناموں کی یکسانیت کے سبب کنفیوز ہوجاتی ہیں۔
یوں اردو ادب کی تاریخ میں کئی عبدالحق مل جائیں گے، لیکن دو عبدالحق کو اردو ادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ایک مولوی عبدالحق جو ہاپوڑکے تھے اور دوسرے پروفیسر عبدالحق جن کا وطن پہاڑپور ہے۔ اردو والے اگر دونوں کے ناموں میں لاحقے کے طور پر ہاپوڑی اور پہاڑپوری لگانا شروع کردیں تو کنفیوژن بھی دور ہوجائے گا اور دونوں کے کارنامے خلط ملط نہیں ہوں گے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ پروفیسر عبدالحق کا وطن اتّرپردیش کا ایک گائوں پہاڑپور ہے۔ پہاڑپور گائوں قصبہ مچھلی شہر میں ہے، مچھلی شہر ضلع جونپور میں ہے۔ پتہ نہیں پہاڑپور یا مچھلی شہر نام کیوں رکھے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق نہ وہاں پہاڑ ہیں اور نہ مچھلیاں، البتہ چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں جونپور میں شرقی خاندان کی آزاد حکومت تھی، اس لیے پہاڑپور والے بھی خود کو جونپوری کہتے ہیں۔ کتنا اچھا لگتا اگر عبدالحق صاحب اپنے نام کے ساتھ پہاڑپوری لگاتے، کیونکہ ان کی شخصیت بھی اردو میں پہاڑ جیسی ہے۔ لیکن خدا جانے کیوں لوگ اپنے آبائی وطن کو چھوڑکر بڑے شہر سے نسبت جوڑ لیتے ہیں۔ میرا آبائی وطن ڈبائی ہے، لیکن بلندشہر بتاتا ہوں، فانی ضلع بدایوں کے قصبہ اسلام نگر میں پیدا ہوئے تھے، لیکن اپنے نام کے ساتھ بدایونی لکھا، کیفی اعظمی مجواں کو نظرانداز کرکے اعظمی لکھتے تھے۔ بعض نام عجیب ضرور ہوتے ہیں، لیکن کچھ شعرا اور ادیب فخریہ لگاتے ہیں۔ گائوں کے نام میں وہاں پیدا ہونے والے کا کوئی قصور نہیں ہوتا، اس لیے کسی کے نام میں کسمنڈوی، کسی کے نام میں چریاکوٹی، کسی کے نام میں جھنجھانوی، کاسگنجوی اوربگھروی بھی لگا ہوتا ہے۔ عبدالحق صاحب بھی اگر ایسا کرتے تو مولوی عبدالحق کی کاوشیں ان کے کھاتے میں شامل نہیں ہوتیں اور ان کے کارناموں پر مولوی عبدالحق کا شبہ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ’’حقوق الادب‘‘ کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ دونوں نے تمام زندگی پڑھنے لکھنے ہی کا کام کیا، حق تو یہ ہے کہ اردو کا حق ادا کردیا۔
ہماری پہلی ملاقات عبدالحق صاحب سے 1978 میں ہوئی، وہ شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی میں استاد تھے اور ہم بحیثیت ریسرچ اسکالر داخل ہوئے تھے۔ ویسے تو اُس وقت شعبہ میں ہر رنگ و نسل کے استاد موجود تھے، لیکن پروفیسر عبدالحق پٹھان نہ ہوتے ہوئے بھی خوش شکل تھے، عمر کی چار دہائیاں مکمل ہونے میں کچھ ماہ باقی تھے۔ نام کی مناسبت سے حقیقت کی بازیافت میں ہمہ وقت لگے رہتے تھے، یعنی تحقیق پڑھاتے تھے اور کرتے بھی تھے۔ عموماً محقق خشک مزاج ہوتے ہیں، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، اس کا اندازہ ہمیں شعبۂ اردو میں موجود مرحوم رشید حسن خاں سے مل کر ہوگیا تھا۔ اُس وقت شعبہ میں شاہجہاں پور کے دو پٹھان تھے، لیکن دونوں کے مزاج میں شمس و قمر کا سا فرق تھا۔ عبدالحق صاحب عملاً محقق تھے، لیکن مزاجاً شاعر یعنی نرم گو ۔ شاید علامہ اقبال کی قربت نے گفتگو میں شعریت پیدا کردی تھی۔ بچپن میں فارسی پڑھی تھی، اس لیے آج تک گفتگو اور تحریر میں ’’نوطرز مرصع‘‘ اور ’’فسانۂ عجائب‘‘ کا طرز جھلکتا ہے۔ عہد عاضر میں اُن کی لکھی ہوئی بعض تقاریظ کو بھی تشریح کی ضرورت ہوتی ہے۔ ممکن ہے آئندہ برسوں میں ان کی کتابوں کی غالبؔ اور اقبالؔکے کلام کی طرح شرح لکھی جائیں۔
ایک وقت تھا جب پورب میں لکھنؤ اور الٰہ آباد کی طرح گورکھپور بھی اردو کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ مجنوں گورکھپوری، پروفیسر محمود الٰہی، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ڈاکٹر احمر لاری، اختر بستوی اور ڈاکٹر افغان اللہ خاں جیسے اساتذہ گورکھپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ تھے۔ اسی شعبہ سے تعلیم حاصل کرکے پروفیسر فضل الحق، پروفیسر اصغر عباس،ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر فضل امام رضوی، پروفیسر عبدالحق، پروفیسر فیروز احمد، پروفیسر قاضی افضال حسین اور پروفیسر قاضی جمال حسین جیسے نامور ادیب ملک کی معروف دانش گاہوں میں پہنچے۔ فراق گورکھپوری، مہدی افادی اور ظفر گورکھپوری نے تو گورکھپور کو اردو میں شہرت دلائی۔ ہمارے شعبہ کے بانی پروفیسر خواجہ احمد فاروقی کو پروفیسر محمود الٰہی کے شاگرد ایسے بھائے کہ پہلے ڈاکٹر فضل الحق کو دہلی بلایا، پھر اُن کے ہم قافیہ ڈاکٹر عبدالحق کو شعبہ میں بلالیا۔ عبدالحق دہلی یونیورسٹی میں پہلے جزووقتی ملازم ہوئے اور پھر 1968 میں کل وقتی ہوگئے، بس وہ دن ہے اور آج کا دن، نہ دہلی چھوٹی اور نہ دہلی یونیورسٹی کیمپس۔ کبھی در کے پاس رہے تو کبھی دیوار کے پاس۔ شعبہ سے سبکدوش ہوئے اٹھارہ برس ہوگئے، لیکن ابھی تک یونیورسٹی کے گلی چوباروں ہی میں آباد ہیں۔ یوں بھی جو ایک بار دہلی آجاتا ہے بہت کم ہی اُس کی گھر واپسی ہوتی ہے۔ گائوں کی بڑی حویلیوں کو چھوڑکر دہلی کے کبوتر خانوں میں رہنے کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ گائوں کی صاف و شفاف آب و ہوا کو نظرانداز کرکے شہر کی آلودگی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اجداد کے کھیت کھلیان اُس کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ کھیت گملوں میں سمٹ جاتے ہیں اور حویلیاں مختصر کمروں میں۔ عبدالحق صاحب کا بچپن اور جوانی کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر گھومتے ٹہلتے گزرا، بڑے بڑے مکانوں میں سانسیں لیں، لیکن شہر میں ایسے گھر میں رہے یا رہتے ہیں جس میں نہ چھت اپنی اور نہ زمین۔ دینی ماحول میں پرورش ہوئی جس کا اثر آج تک ہے، لیکن دہلی آکر ایسی جگہوں پر قیام کیا، جہاں نہ گھر کے قریب کوئی مسجدہے اور نہ اذانوں کی آوازیں۔ جمعہ کے جمعہ مسجد دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔
ہمارا اور عبدالحق صاحب کا ساتھ چار دہائیوں سے زیادہ کا ہے۔ میرا خیال ہے اتنی طویل مدت کسی کو سمجھنے کے لیے بہت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں انسان کی پہچان اس وقت بھی ہوتی ہے جب اس کے ساتھ سفر کیا جائے۔ عبدالحق صاحب کے ساتھ ہمارا طویل سفر حجاز مقدس کا رہا، یعنی حج بیت اللہ کے موقع پر چالیس دن ہم لوگ ایک ہی عمارت میں رہے۔ ویسے اس مقدس سفر میں شخصیت کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہ وہاں موجود ہر شخص متقی پرہیزگار معلوم ہوتا ہے۔ حج کے بعد ایک سفر عبدالحق صاحب کے ساتھ ماریشس کا اوردو اسفار پاکستان کے۔ پہلے سفر میں اُن کی دینداری دیکھنے کو ملی اور دیگر اسفار میں دنیاداری۔ عبدالحق صاحب کی یہی خوبی ہے کہ وہ دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ کعبہ اگر اُن کے آگے ہے تو کلیسا بھی پیچھے دکھائی دیتا ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اسی میں پنہاں ہے۔ اللہ کو بھی راضی رکھتے ہیں تاکہ اُس کی رحمتوں سے محروم نہ رہے اور دنیا سے بھی غافل نہیں رہتے تاکہ اس کی نعمتوں سے بھی مستفید ہوں۔ زندگی کو اس انداز سے گزارنے کے سبب ہی اللہ نے بھی انھیں خوب نوازا اور دنیا نے بھی۔
دہلی یونیورسٹی سے پروفیسر عبدالحق کی تقریباً چالیس برس وابستگی رہی۔ پروفیسر محمود الٰہی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی مکمل کرکے صرف 26 برس کی عمر میں دہلی یونیورسٹی میں آئے۔ 65 برس کی عمر میں سبکدوش ہوئے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جب ہماری ملاقات عبدالحق صاحب سے ہوئی وہ انتہائی خوش شکل اور خوبرو جوان تھے، جبکہ عمر کی چالیس گرہ لگنے میں صرف ایک گرہ باقی تھی۔ ویسے خوش شکل داڑھی رکھنے کے باوجود آج بھی ہیں۔ اس وقت جب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کلاوے میں اتنی گانٹھیں لگنے کے بعد بھی ابھی تک مجرد ہیںتو بڑی حیرت ہوئی۔ ہم علی گڑھ سے آئے تھے، جہاں ہم نے دیکھا تھا کہ عمر کی اس منزل تک پہنچتے پہنچتے تو بیشتر اساتذہ دوبارہ سہرا باندھنے کی راہ ہموار کرلیتے ہیں۔ اردو والوں میں یہ روایت خاصی قوی ہے۔ اور پھر عبدالحق صاحب کے ممدوح علامہ اقبال تو عمر کے چالیس برس مکمل ہونے تک تین بار قاضی کو زحمت دے چکے تھے۔ اس معاملے پر میں مزید خامہ فرسائی نہیں کرسکتا، اس لیے کہ یہ ذاتی معاملات ہیں۔ ویسے ناہید (Venus) تک پہنچنے میں وقت تو لگتا ہے۔ عبدالحق صاحب مزاجاً اور عملاً محقق ہیں، تحقیق وقت اور صبر چاہتی ہے، ناہید کی بازیافت ان کے محققانہ مزاج کا ثبوت ہے۔
عموماً یوں دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی ریسرچ اسکالر نے کسی خاص موضوع پر تحقیق کی ہے تو وہ اس کے ماہرین میں شمار ہوجاتا ہے۔ اتنی محبت اہل خانہ سے نہیں ہوتی جتنی اپنے تحقیقی موضوع سے تمام زندگی رہتی ہے۔ مثلاً پروفیسر قمر رئیس کی وابستگی پریم چند سے ہوگئی، ڈاکٹر تنویر احمد علوی ذوقؔ کے حوالے سے پہچانے جانے لگے، پروفیسر محمود الٰہی کو قصیدہ گوئی کا ماہر سمجھا گیا، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کو مومنؔ مان لیا گیا، پروفیسر عبدالحق نے علامہ اقبال کی شاعری پر اپنا تحقیقی مقالہ قلمبند کیا، بس ان کی زندگی میں اقبال کا آنا تھا کہ اقبال کی وجہ سے ان کا اقبال بلند ہوگیا۔ نہ اقبال کو انھوں نے چھوڑا اور نہ اقبال نے انھیں چھوڑا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جہاں اقبال کا ذکر ہوتا ہے وہاں عبدالحق صاحب ضرور ہوتے ہیں اور جہاں عبدالحق صاحب ہوتے ہیں وہاں ذکر اقبال لازمی ہے۔ عہد حاضر میں چند ماہرین اقبال میں عبدالحق صاحب کا شمار ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے جس قدر اقبال سے آگاہی عبدالحق صاحب کو ہے خود اقبال بھی خود سے آگاہ نہیں ہوں گے۔ ایک نووارد ماہرِ اقبال کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اپنے اشعار کو سمجھنے کے لیے اقبال عالمِ خواب میں اُن کے پاس آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ اور اقبالؔ خود اپنے بارے میں اتنا نہیں جانتے ہوں گے جس قدر اُن کے ناقدین اُن کی حرکات و سکنات سے متعلق واقفیت رکھتے ہیں۔ ممکن ہے روزِ محشر مذکورہ شعرائ کے اعمال ناموں کو دیکھنے کے لیے ان کے ناقدین کی کتابوں سے مدد لی جائے۔ ہندوستان میں عبدالحق صاحب کے ہم پلّہ کوئی اقبال شناس نظر نہیں آتا، البتہ ان کے بعض شاگردوں کو اقبال شناسی کا دعویٰ ہے۔ دراصل اقبال شناسی کے بڑے فائدے ہیں۔ اردو میں غالب اور اقبال ایسے شاعر ہیں جن کی شاعری سے ہزاروں لوگوں کے نہ صرف گھر چلتے ہیں بلکہ عالی شان گھر بنتے ہیں۔ بیچارے مرزا غالب تو قرض کی پیتے تھے اور کرایے خانے میں رہتے تھے، لیکن ان کے نام پر ایوان موجود ہیں، کوئی ان کے کلام کو گاکر شہرت اور دولت حاصل کررہا ہے اور کوئی ان پر ڈرامہ کرکے اپنا پیٹ پال رہا ہے۔ علامہ اقبال تو واقعی علامہ نکلے، انھیں تو پورا ایک ملک ہی مل گیا۔ اقبال شناسی کے بڑے فائدے ہیں۔ اہل ایمان بھی قدر کرتے ہیں اور ملحدین بھی۔ اقبال عبدالحق صاحب کے رگ و پے میں ہر دم رواں دواں رہتے ہیں۔ سرسید احمد خاں نے مسدس حالی کو اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھا تھا اور عبدالحق صاحب نے اپنی ہی نہیں پوری قوم کی بخشش کلیات اقبال کو قرار دیا ہے۔ انھیں یقین ہے کہ جو شخص کلام اقبال کے ساتھ پروردگار عالم کے روبرو پیش ہوگا اس سے سوال جواب ہی نہیں ہوں گے۔ ان کا عشق اقبال قابل رشک ہے۔
عبدالحق صاحب نے باقاعدہ مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی، کچھ دن گائوں کے مدرسے کی دری پر ضرور بیٹھے، لیکن کلامِ اقبال کے مطالعے نے انھیں مولوی بنادیا۔ اقبال کا کلام اہل ایمان کے لیے مدرسہ ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ حج بیت اللہ کی ادائیگی اور ملازمت سے سبکدوشی کے بعد عبدالحق صاحب نے داڑھی کی سنت کی طرف پیش قدمی کی اور مجنوں کے ٹیلے والی مسجد میں بروز جمعہ امام سے پہلے خطاب کرنا شروع کردیا اور اہل ایمان کو کلامِ الٰہی کے بعد کلامِ اقبال کی اہمیت بتائی۔ قوم کو احساس دلایا کہ کلامِ اقبال کا مطالعہ کتنا لازمی ہے۔ ہم بھی کبھی کبھی اس مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں اور عبدالحق صاحب کے خطاب سے مستفید ہوتے ہیں۔ ماشائ اللہ بیان میں کیا روانی ہے، بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ عبدالحق صاحب کے پاس قوتِ متخیّلہ بھی ہے اور ذخیرۂ الفاظ بھی۔ کلام اقبال بھی اور فکر اسلام بھی۔ قوم کا جو درد کلامِ اقبال میں پوشیدہ ہے وہ زبانِ عبدالحق سے ادا ہوتا ہے۔ عبدالحق صاحب نے کلیات اقبال میں سراغِ زندگی پالیا ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے اقبالؔ کے اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں عبدالحق صاحب کے آنے کے بعد اقبال شناسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایم فل یا پی ایچ ڈی کے جس طالب علم کی قربت عبدالحق سے بڑھی، اس کا موضوع اقبال شناسی متعین کیا گیا یا جس ریسرچ اسکالر نے اقبالیات کو موضوع بنایا اس کی نگرانی عبدالحق صاحب کو دے دی گئی۔ اقبال شناسی کے جملہ حقوق عبدالحق صاحب کے پاس محفوظ تھے۔ ان کی سبکدوشی کے بعد ان کے شاگردوں نے ان حقوق پر حق ملکیت کا دعویٰ کیا۔ عبدالحق صاحب کی اقبال شناسی نے انھیں پاکستان میں بھی عزت دلائی اور ہندوستان میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے بھی غالب اور اقبال کا دامن پکڑلیا وہ سب پر غالب بھی رہا اور اس کا اقبال بھی ستاروں کی طرح بلند ہوا۔ کسی کو ایوان غالب یا غالب اکیڈمی ملی اور کسی کو اقبال اکیڈمی، کوئی غالب انعام سے سرفراز ہوا اور کوئی اقبال سمّان سے۔ عبدالحق صاحب کی اقبال دوستی کا یہ عالم ہے کہ ان کی تین درجن کتابوں میں سے ایک درجن کا موضوع اقبالیات ہے ،باقی دودرجن میں بھی کسی نہ کسی بہانے اقبال نظرآجاتے ہیں۔انھوں نے ’’اقبال کے ابتدائی افکار‘‘ کو بھی قلمبند کیا۔ ’’فکر اقبال کی سرگذشت‘‘ بھی بیان کی۔ اقبال کو ’’شاعر رنگین نوا‘‘ کے طور پر بھی دیکھا۔ اقبال کے ’’حرفِ شیریں‘‘ سے بھی محظوظ ہوئے۔ ’’اقبالیات‘‘ کا بھی جائزہ لیا اور ’’اقبال کے شعری اسالیب‘‘ پر بھی گفتگو کی۔ اقبال کی ڈائری میں ’’بکھرے خیالات‘‘ کو اردو کا جامہ پہنایا اور ’’اقبال کی شعری و فکری جہات‘‘ کے علاوہ ’’اقبال کی غالب شناسی‘‘ پر بھی بحث کی۔ ظاہر ہے اس قدر اقبالی مطالعے کے بعد تو ماہر اقبال کہلانے کے وہ حقدار ہیں۔ خدا جانے ان کی اس اقبال پسندی سے اقبال کا مرتبہ بلند ہوا یا اقبال کی وجہ سے عبدالحق صاحب کو عزت و وقار ملا۔
عبدالحق صاحب ایک چھوٹے سے گائوں پہاڑپور سے مچھلی شہر اور گورکھپور ہوتے ہوئے دہلی جیسے خودغرض شہر میں آئے۔ وہ گائوں جہاں انھوں نے کبڈی بھی کھیلی اور گلی ڈنڈا بھی، باغوں سے آم بھی توڑے اور چنے کے کھیت سے پھلیاں بھی، گائوں کی ایک دین دار خاتون سے قرآن بھی پڑھا اور بکری چَرانے کی سنت بھی ادا کی۔ گائوں کے اس ماحول نے ان کے اندر عاجزی اور انکساری، متانت و شرافت کے عناصر کو ہمیشہ کے لیے ضم کردیا، جو دہلی کے ماحول میں بھی زائل نہیں ہوسکے، اس لیے کہ گائوں سے رشتہ ختم نہیں ہوا۔ گائوں سے دور رہ کر بھی انھوں نے گائوں کے سرپنچ کے فرائض بھی انجام دیئے۔ بزرگوں کا احترام کرنا اور عزیزوں سے محبت سے پیش آنا اُن کے لاشعور میں شامل ہے، وہ اپنے شاگردوں کی ترقی دیکھ کر نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ ان کی ترقی کی راہ ہموار کرنے میں جا اور بے جا کوشش بھی کرتے ہیں۔ محبت کی خاطر کبھی کبھی لائقوں کے ساتھ ساتھ نالائقوں کی بھی مدد کرنے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ ویسے بھی ہمارا دین کمزوروں کی مدد کرنا سکھاتا ہے اور عبدالحق صاحب کی دین داری کے بارے میں تو سب جانتے ہیں۔ کچھ خاندانی ہے اور کچھ کلام اقبال سے ملی۔ دراصل ہم سب مروّت کے مارے ہوئے ہیں۔ اکثر نااہلوں کی بھی مدد، کبھی شاگرد ہونے کے ناطے اور کبھی رفقائ کے کہنے پر کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ عبدالحق صاحب یقیں محکم اور عمل پیہم کے قائل ہیں۔ مردِ مومن کی طرح حوصلہ رکھتے ہیں۔ کسی امیر و کبیر کے دبائو میں نہیں آتے۔ شعبہ کی ملازمت کے دوران بعض ہم عمر معاصرین نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں ناموران ادب موجود تھے، دیگر اردو والوں کی طرح لڑتے تھے اور ایک دوسرے سے نظریاتی اختلافات بھی رکھتے تھے، لیکن ایک ساتھ اُٹھتے بیٹھے اور کھاتے پیتے تھے، کسی کے احترام میں کمی نہیں آتی تھی۔ سب ایک خاص دور کی تہذیب کے پروردہ تھے۔ میں نے کبھی عبدالحق صاحب کو چیختے چلاتے نہیں دیکھا۔ انتہائی نرم گو ہیں، بات کرتے یا تقریر کرتے وقت ان کی دونوں ہتھیلیاں اور دسوں انگلیاں معانقہ میں مصروف رہتی ہیں۔ کسی کی تعریف کرتے ہیں تو اس طرح کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی اور نہیں، مثلاً اقبال سے بڑا نہ کوئی شاعر ہے اور نہ دانشور، پروفیسر محمود الٰہی جیسا کوئی اردو کا استاد نہیں، دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بڑا برصغیر میں کوئی شعبہ نہیں، یہ انسانی فطرت ہے۔ جس سے محبت اور عقیدت ہوتی ہے، وہ سب سے افضل نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی عبدالحق کی اقبال پرستی یہاں تک کہلوادیتی ہے کہ ’’دس صدیوں میں عالمِ اسلام میں اقبال جیسا عظیم دانشور، مفکر اور مسلمانوں کی ہمہ گیر رہنمائی کرنے والا پیدا نہیں ہوا۔ کوئی شخص اقبال کے بغیر نہ تو دین کا ماہر ہوسکتا ہے اور نہ دنیا کا‘‘، بے چارے بعض معصوم مسلمان تو یہ سن کر کلیاتِ اقبال حاصل کرنے کے لیے اردو بازار کا رخ کرتے ہیں۔ عبدالحق صاحب کو حاتم نے بھی اپنی سخاوت سے خاصا مستفید کیا ہے۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اہل قلم کا قلم رواں دواں رہتا ہو۔ عبدالحق صاحب عالمِ پیری میں بھی ہر دم جواں رہتے ہیں۔ انھوں نے کوہ کن سے زندگانی کی حقیقت کو سیکھا ہے، زندگی کو وہ اندیشۂ سود و زیاں سے برتر سمجھتے ہیں۔ آج بھی جوئے شیر کے لیے پا بہ رکاب رہتے ہیں۔ ملازمت سے آزادی کے بعد عبدالحق صاحب نے اپنے وقت کو تصنیفی کام کے لیے وقف کردیا، اُن کی بیشتر کتابیں گزشتہ دو دہائیوں میں شائع ہوئی ہیں۔ وہ علامہ اقبال کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں:
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
دفترتو بندہوگیالیکن جتنے مخطوطات، ملفوظات گھرمیں یا ذہن میں ہیں ان کی تدوین، تحقیق اورتجدیدسے وہ غافل نہیں ہیں،عمرکی اس منزل میں بھی ہمہ وقت ستاروں سے آگے جہاں تلاش کرنے کے لیے عبدالحق صاحب کے ہاتھ باگ پراورپارکاب میں رہتے ہیں۔نئے چمن،نئے آشیاں اورنئے آسمان کی خواہش میں شاہین کی طرح پرواز میں خود کومصروف رکھتے ہیں،اللہ ان کی شاہینی پرواز کوبلندکرکے ان کی اقبال مندی میں مزیداضافہ کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |