میں نے ہمت اور حوصلہ بخشنے والی چند کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ دورانِ مطالعہ یہی سوچا کہ کیا ان کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے، اس کی تصویر بن سکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ میں نہ مصور ہوں اور نہ ہی سنگ تراش۔ ایک معمولی فہم و فراست کا آدمی ہوں، لہٰذا برسوں تک ان تمام کتابی باتوں کو تصویر کی شکل میں دیکھنے کی حسرت کرتا رہا۔ شاید فطرت کو میری یہ آرزو پوری کرنے کا ارادہ ہوا اور میری ملاقات ایک لمبے قد کانٹھی والے ایک شخص سے ہوئی۔میں اوّل تو انہیں دیکھتا رہ گیا ، ان کی قد کانٹھی نہیں بلکہ ان کی مسکراہٹ۔میں سوچنے لگا ، اس لئے سوچنے لگا کیونکہ وہ مسکراہٹ غموں کی کالی رات کے بعد لبوں پر نمودار ہوئی تھی۔مظبوط کندھے والے اس شخص نے کبھی زیست کو تو کبھی زیست کے جھمیلوں کو اور کبھی کبھی احباب کے کاموں کے ساتھ اپنوں کی تنقیدوں کا بوجھ نہ صرف یہ کہ اُٹھا رکھا تھا بلکہ اسے منزل پر پہنچا کر لوٹ بھی آیا تھا۔ عموماً ایسے دشوار کن مسائل کی چکّی میں تمام حوصلے پِس جاتے ہیں مگر وہ حوصلہ نہیں ہوتا، وہ شکست خوردہ احساس ہوتا ہے۔
ہاں، تو مظبوط کندھے والے شخص نے جب مجمع سے تخاطب کیا تو غضب ڈھا گیا۔تقریر کی لطافت نے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دیے۔کسی کام کے سلسلے میں جب میری ان سے بات ہوئی تو مجھے کلی طور پر اپنے اوپر اعتبار نہیں ہو رہا تھا کہ یہ شخص وہی ہیں، جن کو میں نے چند روز پہلے ایک پروگرام کی ڈائس پر بیٹھے دیکھا تھا ۔ ہوا یوں کہ انہوں نے وہ تمام بھرم کے غبارے جو ہم سبھی کے ہاتھوں میں چھوٹے یا بڑے ہوتے ہیں،یکسر پھوڑ ڈالے تھے۔میں نے اُن سے بات کرتے وقت ایسا محسوس کیا، جیسا میں اپنے پرانے دوست سے بات کر رہا ہوں لیکن مان گیا، وہ جادو گر ہیں اور میں تو سب کو بتاؤں گا کہ وہ جادوگر ہی ہیں، بچ کے رہنا ایک بار مل لو گے تو دوبارہ باوجود کوشش بھول نہیں سکتے۔ شہرت،دولت،عہدہ یہ وہ چیزیں ہیں جو آنے سے پہلے انسان سے قول و قرار کراتی ہیں کہ اب وہ انسان خصلتیں چھوڑ کر ایک نئی دنیا کا مخلوق بنے گا بلکہ کبھی خالق بننے کی کو شش بھی کرے گا ۔ ہاں مگر جب یہ چیزیں موصوف کے پاس آئیں تو انہوں نے ان سے قول و قرار نہیں بلکہ فیصلہ سنایا کہ وہ انسان رہ کر ان چیزوں کو اہمیت دیں گے۔ کچھ آنا کانی کے بعد بات طے ہوئی اور شہرت، دولت، عہدے کو ان کی بات تسلیم کرنی پڑی اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ ڈاکٹر تسلیم عارف کو تسلیم کرنے میں بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔
واقعات کی بھر مار میں جانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں، ورنہ ایسے کئی واقعات ہیں، جہاں ان کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں۔ابھی تو ان ذہین اور دور بین نگاہوں کا تذکرہ کرنا ہے۔لمبے قد پر خوبصورت چہرہ اور اس پر دو دور اندیش نگاہوں کے ہمراہ قہقہے لگاتا ہوا دہن، جیسا قد ، سیدھا ویسی ناک جس پر انہوں نے کبھی ناک نہ لگایا۔لباس کی سادگی کبھی انہیں مدبر کی حیثیت سے پیش کرتی ہے مگر در حقیقت ان کے اندر ایک شوخ اور زندگی سے پُر ایک دل ہے ، جو موقع بہ موقع پُر تکلف نہ ہوکر پُرجوش ہوکر باہر نکل آتا ہے۔ ڈاکٹرتسلیم عارف لے دے کر اور ظاہری و بناوٹی زندگی سے بے زار نظر آتے ہیں اور جب ہجوم ان کی طرف اپنی نظریں گاڑ تا ہے تو وہ اس ہجوم میں ماضی کا وہ ورق ڈھونڈتے ہیں جس میں اُن کے اپنوں کے نام ہیں۔وہ ہجوم سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی لیاقت کے جوہر تو دکھاتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس وقتی بھیڑ میں ان کی نگاہیں اس دائمی لہراتا آنچل کو بھی ڈھونڈتی ہیں تاکہ مقدس آنچل والی وہ عورت کہیں کھڑی اپنے چاند کو نہار رہی ہو۔وہ جس نے اسکول جاتے وقت اپنے بیٹے کی پیشانی چومتے وقت اپنے دامن کی ساری خوشیاں دیدی اور بیٹے کے مقدّر کے آنسووں کو اپنی آنکھ میں بھر لیا۔
اسکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر کرتے ہوئے اس لئے تکان کا احساس نہیں ہوا کیونکہ ماں نے سفر پر نکلتے وقت اخلاق و محبت کی ایسی گھونٹ پلائی تھی جس کی طراوت کا احساس آج تک ویسا ہی ہے، جیسا اُس وقت تھا۔
تدریسی فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں ۔ اکثر طلبا وطالبات ان کا گن گاتے ہیں۔کمپیوٹر کے کی بورڈ پر انگلیاں بجلی سی دوڑتی ہیں اور چلتی ہیں یا رقص کرتی ہیں، یہ معلوم نہیں ہوتا۔لوگوں سے بڑے تپاک سے ملتے ہیں۔ تصنع کی ذرا بھی بو باس نہیں ۔ حیرت ہوتی ہے تصنع کے اس دور میں وہ اس کو ٹھوکر پر رکھتے ہیں۔ اپنے سے کمتر لوگوں سے ملتے وقت وہ اور زیادہ سادہ اور آسان ہو جاتے ہیں ۔ یہ رویہ ان کا ہوتا ہے جو اس فانی دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اور جن کے اندر اور باہر ایک ہی شکل والا انسان بستا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میرے ذہن میں جب بھی ان کی تصویر ابھرتی ہے ، وہ مسکراتے ہی نظر آتے ہیں۔ اُن کی اس صفت کا ذکر اکثر اُن کے احباب بھی کیا کرتے ہیں اور ان کے بڑے بھی۔
دوستوں کی بے تکلف محفل میں وہ بے تکلف نظر آتے ہیں ، وہاں سب ان کے دوست ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات ، وہ وہاں صرف دوست ہی رہتے ہیں اور باقی مقام و مرتبہ کو زنبیل میں بھر کر کہیں رکھ دیتے ہیں یا ٹانگ دیتے ہیں ۔ جاتے وقت کبھی انہیں یاد دلانا پڑتا ہے ، ورنہ وہ زنبیل وہیں چھوڑ دیں۔
جنون سے ان کی وابستگی پرانی ہے۔ موصوف اسی جنون کی ایک تصویر ہیں۔ان کا جنون بڑا سخت جان ہے۔ ہمیشہ زندگی کی پُر پیچ راہوں پر یہ جنون اُن کا ہم سفر رہتا ہے ا ور پُر خار راہوں پر گل کاریاں کرتا رہتا ہے۔ گر راہیں مسدود ہو جائیں تو نئی راہیں نکال لیتا ہے۔ ایسا ہے یہ جنون ، جو مسلسل ان کے اندر نئی جوت جگاتا ہے۔اسی جنون نے انہیں وہاں پہنچا دیا ، جہاں علم و فن کی شمعیں روشن کی جاتیں ہیں۔وہ دوسروں کے کام کو سراہتے بھی ہیں اور نکھارتے بھی ہیں۔انسان ، انسان ہوتا ہے اور تمام تر آزمائشیں اس آدم زاد کے لئے ہی ہوتی ہیں، اس لئے میں سمجھتا ہوں انسان ہونا مشکل ہے، بہ نسبت کچھ اور ہونے کے۔جب آپ کی نظریں کسی پر اس لئے پڑتی ہوں کہ آپ کو اسے جانچنا ہے تو آپ کو سوائے خامیوں کے کچھ نظر نہیں آتا مگر جب آپ کی نگاہیں کسی پر محبت سے پڑتی ہیں تو یقین جانیے، خوبیاں تخمینے میں نہیں آتیں،تو یہ حسنِ نظر یا ظرفِ نظر ہے ، جو چیزوں کو جیسا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، بنا دیتی ہے۔ڈاکٹر تسلیم عارف کی حسن نظر ہے کہ وہ دوسروں میں خامیوں سے زیادہ خوبیاں دیکھتے ہیں۔اُن کا بلند قد، اُن کی سر بلندی کا اشارہ ہے۔ اُن کے قہقہے ، غموں کے اندھیرے کا روشن چراغ ہے۔ رب العزت ہمیشہ چائے کے اس رسیا کے قہقہوں کو سلامت رکھے۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page