مادر علمی جامعۃ الفلاح کی طالب علمانہ زندگی میں ،وہاںکے جن بزرگوں اور ذمے داروں نے اپنے حسن اخلاق ،اصول پسندی اور وسعت نظری سے متاثر کیا ،ان میں مولانا ابو البقا ندوی (۱۹۳۲۔۲۰۲۲)صاحب کا نام نامی بہت اہم اور نمایاں ہے ۔میں نے سب سے پہلے جامعۃ الفلاح میں نائب ناظم کے طور پر انھیں دیکھا ۔ اس وقت ان کا زیادہ وقت فلاح کے تعمیری کاموں اور اس کی دیکھ ریکھ میں صرف ہوتا تھا ۔کچھ دنوں کے بعد یہ اندازہ ہوا وہ طلبہ سے بڑی شفقت اور اپنائی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں پھر ان سے گھل مل جاتے ہیں ۔ انھی دنوں کا ذکر ہے کہ فلاح میںمولانا کی نگرا نی میں ٹریکٹر سے مٹی گرائی جارہی تھی اور جامعہ کا میدان مسطح کیا جارہا تھا ۔ایک روز ایسا ہوا کہ مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ،کوئی متعین امام نہ ہونے کی وجہ سے مولانا ابو البقا ندوی نے نماز کی امامت فرمائی ۔نئی آواز سن کر طلبہ کو تجسس ہوا تو معلوم ہوا کہ آج نماز نائب ناظم جامعہ نے پڑھائی ہے۔ ان کی قرات سن کر اچھا لگا اور یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ قرآن دلکش انداز میں تجوید کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔اس دوران میں چلتے پھرتے طلبہ کے ساتھ ان کی گفتگو اور مشفقانہ رویے کی خوشبو بورڈنگ ہاؤس کے اکثر کمروں میں پھیل گئی ۔طلبہ کی بڑی تعداد انھیں اپنا مخلص و مشفق سمجھنے لگی تھی۔
ایک روز عصر کی نماز کے بعد مولانا جب اپنے گھر ہنگائی پور کی طرف جانے کے لیے سائیکل پر سوار ہوکر نکل رہے تھے تو قریب کی پان کی دوکان پر بھی گئے ۔ وہاں سے پان لیا اور دکان دار کو کچھ اضافی پیسے دیے یہ کہہ کر کہ مجھ سے پہلے جو طالب علم سگریٹ پی رہا تھا ،اس نے مجھے دیکھ کر سگریٹ پھینک دی ہے۔ اس لیے اب جو میرے جانے کے بعد آئے تو اس سے پیسہ مت لینا ۔یہ بات اس طالب علم تک بھی پہنچی مولانا کے اس عمل کا اس پر غیر معمولی اثر ہوا۔ یہی نہیں کہ اسے اپنے فعل پر شرمندگی کا احساس ہوا بلکہ وہ سگریٹ اس کے لیے آخری ثابت ہوئی ۔اسی دن سے اس نے سگریٹ نوشی ترک کردی اس نوعیت کے مزید واقعات علم میں آتے رہے ،جن سے مولانا کی خوش خلقی اور اخلاقی برتری کاخاموش پیغام طلبہ کے دلوں میں ان کے تئیں ہمدردی اور احترام کے جذبے کو بڑھاتاچلا گیا ۔
بلریاگنج سے متصل ایک چھوٹی سی بستی ہنگائی پور کے نام سے جانی جاتی ہے۔مولانا ابو البقا ندوی کا وہیں سے تعلق تھا۔وہ ایک معزز علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔ان کے والد محترم حضرت مولانا محمد سعید ندوی دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں مفتی تھے ۔تدریس کی ذمے داری بھی تفویض تھی ۔واضح رہے کہ مفتی محمد سعید ندوی جامعۃ الفلاح کے بانی اور دیار شرق کے معروف معالج محترم حکیم محمد ایوب رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حکیم صاحب کی بھی پوری تعلیم انھی کی تربیت و نگرانی میں ندوۃ العلماسے ہوئی تھی ۔ مولانا کا بچپن ندوۃ العلما کے احاطے میں گذرا ۔علم و عمل کی بے شمار برگزیدہ شخصیات کے زیرسایہ انھوں نے زندگی کا سفر شروع کیا ۔اخلاص و محبت اور نظم و ضبط کے علاوہ اصول و انتظام کے بہت سے ایسے اسباق انھوں نے یہیں پڑھے ،جن کے بغیر ان کی شخصیت بہر حال ادھوری رہتی ۔ندوۃ العلما کے استاذ الاساتذہ ،جید عالم وفقیہ اور مولانا کے مشفق ماموں مولانا مفتی محمد ظہور ندوی بھی وہیں تھے ۔ان کا بھی سایۂ شفقت اُن پر رہا ۔
میرے وطن چاند پٹی اور ہنگائی پور میں لوگوں کی بہت سی عزیز داریاں ہیں ۔ بزرگوں کے یہاں رشتوں اور عزیز داریوں کو تقدس و احترام کا درجہ حاصل رہا ہے۔مولانا سے دور نزدیک کی ہماری بھی عزیز داری بھی تھی۔وہ چاند پٹی جب بھی تشریف لاتے تو دادامرحوم (حاجی نذیر احمد )سے ضرور ملنے آتے تھے۔یہ بات میرے لیے باعث سعادت رہی ہے کہ جامعۃ الفلاح سے تعلیم مکمل کرنے کے بعدبھی مولانا سے میرارابطہ رہا ۔ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ وہ دلی آتے تو ملاقات کی سبیل خود ہی پیدا کرتے تھے۔ موبائل کا چلن جب عام ہوگیا تو مولانا کے خلوص اور محبت کا دائرہ مزید وسیع ہوتاگیا ۔اگر کبھی میں بھول جاؤں تو مولانا صرف سلام و دعاکے لیے ہی فون کرتے ۔ان کی شخصیت کا یہ وصف نہ صرف دل میں گھر کرتا گیا، بلکہ ربط و تعلق کی ایک نئی دنیا استوار ہوتی چلی گئی۔یہ رویہ اب کہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
۲۰۱۲میںدلی سے جب میں لکھنؤ پہنچا تو کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ مولاناارباب ندوہ کی طلب پر اپنی مادر علمی ندوۃ العلما میں خدمت کے لیے لکھنؤ میں مقیم ہیں۔یہاں بارہا ملاقاتیں ہوئیں۔میرے علم اور مشاہدے کے مطابق ندوۃ العلما میں مولانا کو بہت احترام حاصل تھا ۔لکھنو میں،میں جب بھی ان سے ملتا خوب باتیں ہوتیں علمی بھی اور ادبی بھی ،روحانی اور تحریکی بھی ۔مگر یہاں کی ان کی دو باتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ۔مولانا اپنی مادر علمی ندوۃ العلما کے بارے میں ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ یہاں مجھے بہت اطمینا ن و سکون ہے ۔اس کا ذکر بھی بہت احترام سے کرتے ۔ البتہ وہ کبھی فلاح کو نہیں بھولتے ،بلکہ ہمیشہ یہ نصیحت کرتے کہ آپ لوگ فلاح کے لیے متحرک رہیے ۔ یہ ملت کا بہت اہم ادارہ ہے اس کی ترقی کے لیے ہمیں لوگوں کو آگے آنا ہوگا ۔میں یہاں ضرور ہوں مگر فلاح کی ترقی اور تعمیر کے لیے دعا کے ساتھ دیگر راستوں پر بھی غور و فکر کرتا رہتا ہوں ۔
مولانا ابو البقا ندوی ایک خاص وضع و قطع کے ساتھ آخر عمر تک جامعۃ الفلاح کی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرم رہے ۔وہ ایک عرصہ تک جامعۃ الفلاح کی مختلف ذمے داریوں کو نبھاتے رہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس ادارے سے ان کا بڑا گہرا رشتہ قائم ہوگیاتھا ۔وہ پہلے پہل نائب ناظم کے طورپر فلاح آئے اس کے بعد ناظم اعلی منتخب ہوئے،رکن شوری ،معتمد مال،رکن عاملہ کے طوربھی انھوں نے کام کیا ۔
پہلی بار انھیں جامعۃ الفلاح میں سائیکل کے ساتھ دیکھا تھا اور شاید آخری بار بھی۔ عجب شان بے نیازی کے ساتھ وہ اس پر سوار ہوتے اورتقریباً دو کلومیٹر کا سفر لوگوں سے سلام و دعا میں ختم ہوجاتا۔ جامعۃ الفلاح کے تعارف اور اس کی تعمیر و ترقی کے لیے مولانا اکثر فکر مند رہتے تھے اورلوگوں کو اس طرف متوجہ بھی کرتے رہتے تھے ۔مولانا سے پہلے اس منصب پر بہت سے لوگ اوراہم لوگ آئے ،جن میں سے بعض اپنے علمی و دینی اکتسابات اور شہرت و ناموری میں مولانا سے کہیں آگے تھے ۔ان لوگوں نے بھی جامعۃ الفلاح کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ کم کوشش نہ کی ہوگی، مگر جامعۃ الفلاح کی تاریخ میں شاید پہلی بار یہ بات سامنے آئی کہ ناظم باقاعدہ مالیات کے لیے بھی سرگرم عمل تھا ۔ اس کا پہلا مرحلہ مدرسہ کا تعارف تھا۔
اگست 2003میں جامعۃ الفلاح کے زیر اہتمام ’مدارس اسلامیہ خدمات اور چیلنجز ‘کے عنوان سے ایک پروگرام جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوا ۔پروگرام کا اصل مقصد فلاح کا تعارف تھا، اس میں امیر شریعت مولاناسید نظام الدین ،مولانا سید جلال الدین عمری مولانامحمد کلیم صدیقی،ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی ،مولانا عبید اللہ خاں اعظمی ،پروفیسر اخترالواسع ،ڈاکٹرسید فاروق ،ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس،مولانا نظام الدین اصلاحی،مولانا ابو البقاندوی ،مولانا محمد طاہر مدنی اور مولانا مقبول احمد فلاحی جیسے اکابر ملک و ملت نے خطاب کیا تھا ۔مولانا ابوالبقا ندوی نے اختتامیہ کلمات اور اپنی دعا پر اس کا اختتام کیا تھا ۔جناب مشرف حسین صدیقی فلاحی نے مہمانوںکا خیر مقدم کیا تھا۔جناب نعیم غازی اوردلی میں مقیم بے شمار فلاحی فرزندان پیش پیش تھے۔ کسی بڑے شہر میں فلاح کے تعارف کی شاید یہ پہلی بڑی اور اب تک کی آخری منصوبہ بندکوشش تھی ۔یہ بہ ہرحال مولانا ابو البقا ندوی کی توجہ کا نتیجہ تھی ۔اس پروگرام کی کام یابی سے مولانا بے حد مسرور تھے ۔اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کے علی الرغم انھوں نے لوگوں تک فلاح کی خدمات کو پہنچانے کی ایک کام یاب کوشش کی۔ سامعین کو فولڈر کی شکل میں باقاعدہ فلاح کا تعارف پیش کیا گیا تھا ۔ مولانا کے چہرے پر اس روز عجیب مسرت و شادمانی کی کیفیت تھی ،جسے دیکھ کر ہم لوگ بھی بے حد مسرور تھے اور مادر علمی کی خدمت کے اس زریں موقع کو اپنی زندگی کا ایک قیمتی لمحہ تصور کررہے تھے۔
فلاح کی مستقل آمدنی کے وسائل کی تلاش بھی مولانا کی ایک اہم مہم تھی ۔اپنی بساط بھر وہ جو کرسکتے تھے، مشورے اور تجاویز کی صورت میں جو لائحہ عمل ممکن ہوتا وہ فلاح کے لیے ضرور بناتے ۔ آج فلاح کے احاطے میں قائم چند دکانیں اسی کوشش اور توجہ کا نتیجہ کہی جاسکتی ہیں۔جیسا کہ سطور بالا میں عرض کیا جاچکا ہے کہ مولانا مالیات کے سلسلے میں ہمیشہ کوشاں رہے ۔اور سلسلے میں منظم انداز میں تگ و دو کی ۔ بعض مستقل سفرا کو اس کام کے لیے متعین کیا ۔مولانا کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد کسی قدر یہ بھی اندازہ ہوا کہ وہ ٹیم ورک اور اشتراک عمل کے قائل تھے ۔ایک طرف جہاں وہ یہ چاہتے تھے کہ فلاح کے وسائل میں اضافہ ہو ۔وہ لوگوں کو مدرسے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے برابر کوسعی کرتے تھے ۔یہ بات ان کی بڑی اہم اور اونچی سوچ کی تھی کہ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اداروں کے لیے ضروری ہے کہ آمدنی سے کہیں زیادہ اپنے خرچ پر کنٹرول کرے ۔ضروری اور بنیادی چیزوں کی فہرست تیار کی جائے اور کن امور کوروکا جاسکتاہے یا انھیں کچھ دنوں کے لیے ملتوی کیا جاسکتا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔معاملات کی چھان پھٹک اور ان پر سنجیدہ غور وفکر کے وہ قائل تھے ۔مختلف حیثیتوں سے انھوں نے فلاح کی خدمت کی ۔یہاں کے لوگوں خصوصاًاساتذہ کرام اور دیگر ذمہ داروں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا ۔فلاح کے مختلف شعبہ جات کو الگ الگ پروگرام کے تحت بہتر بنانے کی کوشش کرتے اور اگر دیکھتے کہ کوئی شعبہ اچھا کام کررہا ہے اور اس کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے توغیر ضروری مداخلت نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ موقع محل دیکھ کر ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔کوشش کرتے تھے کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ لیا جائے ۔غالباً اسی سبب وہ بعض باتوں کے سلسلے میں عام لوگوں سے بھی رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۔یہ مولانا کی ایسی ادا تھی،جس نے جامعہ کو غیر معمولی تعمیر و ترقی سے ہم کنار کیا اور اس کے شعبوں کو مستحکم و منظم کیا ۔
آج مدارس کی ایک بڑی تعداد موروثی اور خاندانی بنیادوں پرقائم ہے ۔وہاں ٹیم ورک کا تصور نہیں لیکن جامعۃ الفلاح جو اپنی شورائیت اور اجتماعی فیصلوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے یہاں نئے نئے لوگوں کو مواقع فراہم کیے جاتے رہے ہیں ۔اچھے ذمہ دار کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ کام کرنے والے افراد کو تلاش کرتا رہتا ہے ۔مولانا ابو البقا ندوی کے یہاں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی کہ وہ افراد کی تیاری اورباصلاحیت لوگوں کو آگے بڑھانے کا جذبہ رکھتے تھے ۔استاد گرامی مولانا محمدطاہر مدنی صاحب ایک مثالی استاد کے طو رپر طلبہ میں ہمیشہ مقبول رہے ہیں۔اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ رہا ہوگا کہ وہ ایک اچھے منتظم بھی ہوسکتے ہیں ۔مولانا ابو البقا ندوی نے مولانا کی انتظامی صلاحیتوں کو پہچانا اور انھیں بطورِ منتظم بھی متعارف کرایا۔یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمدطاہر مدنی صاحب ایک کام یاب استاد کے ساتھ ساتھ اچھے منتظم بھی ثابت ہوئے اور جامعہ کو بہت آگے بڑھا دیا ۔ جس کا سہرابہرحال ابو البقا ندوی کے سر جاتا ہے ۔پہلے اُنھیں مہتمم تعلیم وتربیت بنایا ،پھر نائب ناظم ،پھر ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب وہ فلاح کے ناظم اعلی ہوگئے ۔ہمارے اداروں میں افراد سازی کی بڑی کمی محسوس ہوتی ہے ۔
جامعۃ الفلاح ایک عرصے سے مقامی اور غیر مقامی کی کشمکش کا شکار ہے ۔مدرسہ سے وابستہ بہت سے افراد سے مقامی کی تعبیر و تشریح سن کر یہی گمان گذرتا ہے کہ جیسے فلاح سے متصل ایسے لوگوں کی آبادی ہے جو ہر حال میں مدرسہ کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ فلاح کی تعمیر و ترقی کا کوئی بھی باب مقامی افراد کی توجہ ،محنت اور قربانی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں کہا جاسکتا۔کیونکہ آج سے نصف صدی پہلے جب دور دور تک تعلیم اور تعلیمی زندگی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا تو یہیں کے بزرگوں نے نہ صرف ایک ادارے کو قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ دور ونزدیک سے جو بھی اس کارواں میں شامل ہوتا گیا اس کا یہاں کے لوگوں نے خیر مقدم کیا ۔اب تو صورت حال یہ ہے کہ حاجی محمداکرام ،حکیم محمد ایوب اور مولانا محمد عیسی قاسمی کی قربانیوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔افسوس یہ ہے کہ مقامی اور غیر مقامی کی کھائی روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ اب شوری کے اجلاس بلریا گنج کے بجائے دلی میں جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں ہوتے ہیں اور عاملہ کی میٹنگ آن لائن تاکہ مقامی افراد کے دباؤ کو کم کیا جاسکے ۔شوری اور عاملہ میں موجود مقامی ارکان کی یہ اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے منفی پروپیگنڈہ کو ختم کرنے میں اپنا سرگرم کردار ادا کریں کیونکہ اس وقت وہ اپنے بزرگوں کی وراثت کے امین اور پاس دار ہیں ۔اور اپنے بزرگوں کے فیضان سے ہی یہاں تک پہنچے ہیں ۔مولانا اس کھائی کو پاٹنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتے رہے اور اگر کچھ دنوں اور اس جہان فانی میں رہتے تو کچھ عجب نہیں کہ یہ کھائی پَٹ جاتی اس لیے کہ وہ اتفاق اور حکمت و دانش وری کا ایک منبع تھے۔
مولانا ابو البقا ندوی کے یہاں انکسار، توسع اورعفو و درگذرکا مادہ بہت تھا ۔بہت سے فیصلوں میں انھوں نے اپنی ذات یا اپنے کو سامنے نہیں رکھا بلکہ مدرسے کے مصالح ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے ہیں۔ بسااوقات انھیں ایک مختلف صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مگر اسے انھوں نے گوارا کیا ۔چونکہ مزاج میں نرمی اور انکسار تھااس لیے انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ’ میں ہی سب کچھ ہوں‘وقت اور موقع ملنے کے باوجود انتقام کے بجائے معاف کرنے کو ترجیح دی ۔ایک بارایک فلاحی نوجوان نے اپنے کسی سرپرست کے اشارے پر یا کسی دوسرے جذبے سے ان پر بعض خود ساختہ الزامات لگائے اور اسے سوشل میڈیا پر بھی ڈالدیا۔ باتیں کچھ ایسی تھیں جو غلط اور خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا کی کردار کشی بھی کرتی تھیں ۔ایسی کردار کشی جو ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی نہیں سوچ سکتا تھا ۔مولانا کو اس سے سخت تکلیف پہنچی ۔انھوں نے بعض مخلصین کے مشورے سے کورٹ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ مگر اس نوجوان کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ وہ مولانا سے معافی کا خواستگار ہوا۔ مولانانے فوراً اسے معاف کردیا ۔جب مولانا کے بعض بہی خواہوں نے مولانا کی اس ادا پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو فرمایا :کیا کرتا،بچہ تھا ،کسی کے کہنے میں آگیا ہوگاجب معافی مانگ لی تو معاف کردینا چاہیے تھا ۔ہمارے بزرگوں کا یہی شیوہ رہا ہے ۔یہ واقعہ انتقال سے ایک برس پہلے کا ہی ہے ۔اس سے مولانا ابو البقا ندوی کے مزاج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
مولانا ابو البقا ندوی نے زندگی کا ایک بڑا عرصہ جامعۃ الفلاح میں گذارا، انھوں نے خود کو اس ادارے کی تعمیر و ترقی سے اس طرح مربوط کررکھا تھا کہ وہ اس سے الگ رہ کر کچھ سوچ ہی نہیں سکتے تھے ۔ فلاح کی ترقی و کام یابی ان کی زندگی کا مشن تھا ۔کچھ دنوں پہلے ان کی بیماری کی خبر آئی لیکن اس کی تفصیل جان کر مایوسی نے گھیر لیا ۔دعا کرتے رہے مگر جو خبریں آرہی تھیں وہ کسی اور طرف کا اشارہ کررہی تھیں یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آن پہنچا۔آناً فاناً خبر پھیل گئی ۔وابستگان فلاح خصوصاً فلاحیوں کے لیے یہ ایک جاں کاہ صدمہ تھا ۔آبائی وطن ہنگائی پور میں ظہر بعد تدفین کا اعلان کیا گیا۔ فلاح کے مہتمم تعلیم و تربیت نے اپنے اساتذہ کو ایک گھنٹہ پہلے آخری رسوم میں شرکت کے لیے پابند کیا تھا جبکہ اگلے روز تعزیتی نشست کی خبر دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ رسم پوری ہوگئی ہے ۔ فلاح میں اخلاقی ترجیحات کس تیزی سے بدل رہی ہیں، اس کی ہمیں توقع نہ تھی۔افسوس کہ ان کی جیسی قدر ہم فلاحیوں کو کرنی چاہیے تھی نہیں کرسکے۔ بلکہ ان کو اس طرح پہچان ہی نہیں سکے جیسا کہ ان کا حق تھا۔
مولانا بڑی خوبیوں کے مالک تھے ۔دینی اداروں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ۔باوجود یہ کہ فلاح سے ان کا بہت گہرا اور اٹوٹ رشتہ تھا مگر دینی خدمت سمجھ کر دیگر اداروں کی مدد کے لیے بھی کمر بستہ رہتے تھے ۔اس کا اندازہ ان کے انتقال کے بعد ہوا ۔مولانا متعدداداروں سے وابستہ رہے اور اپنی وقیع خدمات ان اداروں کے لیے وقف کرتے رہے ۔تعلیم سے فراغت کے بعد دارالمصنفین شبلی اکیڈی سے وابستہ رہے ۔مولانا عارف عمری کے بقول دارالمصنفین سے ان کی وابستگی کے دوا دوار ہیں ۔پہلا تو فراغت کے بعد لائبریری میں ان کا تقرر ہوا ۔یہ زمانہ اکیڈمی کی گولڈن جبلی کا تھا ’دوبارہ اسلام اور مستشرقین کے عنوان سے منعقد ہونے والے عالمی سمینار کے موقع پر انتظامی امور کی دیکھ ریکھ کی ذمے داری انھیں سونپی گئی۔جس میں مخطوطات کی نمائش کی سلیقہ مندی میں آپ کی کوششوں کو بہت سراہا گیا ۔ممتاز عالم دین اور جامعہ اسلامیہ مظفر پورکے ناظم اعلی مولانا تقی الدین ندوی نے مولانامرحوم کو اپنے استاد کی حیثیت سے یاد کیا اور تعزیتی نشست میں بتایا کہ جامعہ کے قیام کے بعد اس کے مشیر کے طور پر ہمیں مولانا کی خدمت حاصل رہی ہے جس سے جامعہ بلندیوں تک پہنچا ہے ۔ مولانا محمدسیدرابع حسنی ندوی کا تعزیتی نوٹ پڑھنے کے لائق ہے چند جملوں میں مولانا کی شخصیت کا عطر کشید کردیا ہے ۔مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی نے لکھا ہے :
’’ وہ(ابوالبقا ندوی ) بڑے منتظم ،بڑے اصول پسند،بڑے جفا کش، انتہائی متواضع ،مضبوط ارادہ کے حامل اور بے لوث انسان تھے ۔….کئی برس ندوۃ العلما نے ان کی انتظامی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا‘‘ ۔
افسوس کہ وہ شخصیت جو ہمیشہ دینی ،سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں منہمک رہی ۳۱مئی ۲۰۲۲کو ہمارے درمیان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی ۔مولانا محمد طاہر مندی جو اس وقت جامعہ کے ناظم ہیں انھوں نے مولانا کی وفات پر اپنے غم و حزن کا اظہار کرتے ہوئے چار مصرعوں میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
دار فنا سے دار بقا وہ چلے گئے
آئی تھی ان کے پاس قضا وہ چلے گئے
طاہر بھی سوگوار ہے ان کی وفات سے
اللہ کی ہو ان پہ رضا وہ چلے گئے
یقینا جامعۃ الفلاح اپنے ایک مخلص ،فکر مند اور جانباز سپاہی سے محروم ہوگیا ۔فلاح کے درودیوارتادیر اس کی گواہی دیں گے ۔ (OOMAIRMANZAR@MANUU.EDU.IN)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
2 comments
آپکے رسالے میں مولانا ابو البقا ندوی مرحوم کے بارے میں ڈاکٹر عمیر منظر کا جذباتی مضمون اور مرحوم کے بارے میں جو کچھ تفصیل سے بتایا ہے پڑھ کر بہت خوشی ہوئی الله تعالیٰ مرحوم کو جنّت الفردوس میں جگہ دے آمین ہماری بھی مولانا سے دو چار بار ملاقات ہوئی ہے. میں بھی ان سے متاثر رہا ہوں. اور الله کے فضل سے انکے جنازے میں بھی شریک تھا.
محمّد عارف فلاحی بنارس
ادبی میراث رسالہ پہلی بار نظر سے گزرا ہے اچھا لگا ہو سکے تو ہمارے mail پر اسکے بارے میں تفصیل دیں