ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اپنے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ادب اس لحاظ سے بھی اہم ہوتا ہے کہ شعراء و ادباء اپنی تخلیقات میں حسن و عشق کے بیان کے علاوہ اپنے عہد کے مسائل عوام کے مطالبات،ضروریات اور درپیش حالات کو افسانوں ،غزلوں اور نظموں میں پیش کرتے ہیں۔اردو ادب میں رائج ہر صنف اظہار کا ہی ایک وسیلہ ہے مگر دوسرے اصناف میں نظم کو یہ مرتبہ حاصل ہے کہ شاعر آزادانہ طور پر اپنی بات مفصل بول سکتا ہے۔نظموں کا اپنا سحر ہے یہ کبھی بارش کی پہلی پھوار بھی معلوم ہوتی ہے اور کبھی کرب زیست کی دھوپ بھی۔اردو شاعری میں بیشتر شعراء نے نظموں کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا۔اپنے نظریات کی توسیع کی۔اردو ادب میں پیدا ہوئیں تحاریک سے قطع نظر اس بات پر ہر کوئی متفق ہوگا کہ شاعر بندھے ٹکے اصولوں کا پابند نہیں ہوتا اور ہوتا ہے تو اپنے فن کےساتھ پورا انصاف نہیں کر پاتا۔میر،غالب،اقبال کے مدمقابل نہ سہی پر اپنی نظموں کو کھردرے طریقے سے عوام کی زبان میں، عوام سے, عوامی زندگی پر گفتگو کرنا آسان نہیں ہے۔عوام کا دم بھرنے والے عوام کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔دنیا کی تمام تر خوبصورتی، اس کی رنگا رنگی،بے ثباتی میں ثبات،تہواروں کی ہمک،بھائی چارگی،دوستی،اخوت،مشترکہ خوشی،مشترکہ غم سب کچھ عام انسانوں سے ہی ہیں کیونکہ عام انسان میر درد کی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ”درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو” ذات و مذہب کی منافرت سے بالا تر ایک ہندستانی جس کی رگوں میں گنگا جمنی تہذیب خون کی طرح دوڑتا تھا اور جس نے انسان کو بس ایک انسان سمجھا اس کی نظر میں انسان ہونا خود میں ایک عظیم خوبی ہے۔اس نے اپنے قلم سے لعل و گہر تو نہیں لٹائے پر اپنی بیاض میں عام انسانوں کی زندگی کے کئی حسین نغمیں لکھ ڈالے۔وہ جس نے ہر خاص و عام کے لئے اپنا در کھلا رکھا وہ فطرت نگار نظیر اکبرآبادی تھے۔جن کی شہرت عوامی شاعر کی حیثیت سے مسلم ہے۔
نظیر اکبرآبادی کی شہرت نظم نگار کی حیثیت سے مستحکم ہے۔نظیر اکبرآبادی کی بہترین نظموں میں "آدمی نامہ "ایک بہت ہی خوبصورت نظم ہے۔اس نظم میں شاعر نے آدمی نامہ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔آدمی زندگی کے ہر موڑ پر آدمی ہی رہتا ہے۔اس نظم میں شاعر انسان کی عظمت کا بھی ذکر کرتا ہے اور اس کی ذلت کا بھی مگر ہر حال اسے آدمی ہی گردانتا ہے۔گر آدمی ہونے کی شرط اس کی شکل و شباہت ہے تو چاہے جیسا بھی ہو پر ذات آدم ہی ہے۔پادشاہ ہو یا فقیر ہو،ٹکڑے پر گزر بسر کرنے والا ہو یا نعمتیں کھانے والا آدمی ہی ہوتا ہے۔آدمی اپنے اعمال سے آدمیت کے اعلیٰ مقام پر بھی پہنچتا ہے اور کچھ منکر ہوکر کفر تک بھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ اپنے زہد و ریاضت سے خالق سے بھی مل لیتا ہے۔شاعر نے فرعون،شداد،نمرود کی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں خدا ہونے کا شوق تھا اور اس خدائی کی چاہ میں کسی نے خدائی کا دعویٰ کیا کسی نے بہشت بنائی۔آدمی رہبر بھی ہے آدمی رہزن بھی ہے۔شیطانیت کے خصائل رکھنے والا بھی آدمی ہی ہے۔ساری کارستانی آدمی کی ہے آدمی عبادت کو مسجد بناتا ہے آدمی خطبے سناتا ہے امام بھی ہے اور مقتدی بھی اور ان کی جوتیاں چرا لے جاتا ہے وہ بھی آدمی ہی رہتا ہے اور حد ہے جو اس حرکت کو تاڑتا ہے وہ بھی آدمی۔آدمی ہی آدمی کی جان لیتا ہے آدمی ہی آدمی پر جان دیتا ہے۔آدمی کو عزت آدمی ہی دیتا ہے ذلت بھی آدمی کو آدمی سے ہی ملتی ہے گرچہ دنیا میں جو بھی تماشے آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں وہ آدمی کی مرہون منت ہیں۔خدمت گار آدمی اور خدمت کرانے والا بھی آدمی پکارنے والا بھی آدمی دوڑنے والا بھی آدمی۔جھوٹا ،سچا،ایماندار،بے ایمان،راجہ ،پرجا،خوش خوراک ،افلاس کا مارا،خوش لباس یا چیتھڑا لپیٹا ہوا تمام تر صورتوں میں آدمی ہی جلوہ گر ہے حتیٰ کہ جنازے پر لیٹا ہوا اور جنازے کو کندھا دینے والے سبھی آدمی ہیں۔
اس نظم میں نظیر کا ایک آفاقی پیغام بھی ملتا ہے کہ کوئی کسی کو حقیر نہ سمجھے جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب آدمی ہی ہیں اس لئے بلا امتیاز شکل اور مشغلہ ،ذات و مذہب،رنگ و نسل سب کو آدمی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ان کی اس نظم کے ہر بند کے آخر میں استعمال ہونے والا فقرہ "سو ہے وہ بھی آدمی” ذومعنی ہے پہلا معنی تو یہ ہے کہ چاہے جیسا ہو وہ آدمی ہے جو آدمی جیسا دکھتا ہے، دوسرا مفہوم حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ جس طرح کا بھی آدمی ہو اسے آدمی ہی کہنا پڑے گا۔
عام موضوعات کو آفاقی بنادینے والا شاعر نے صرف یہی بتانے کی کوشش نہیں کی ہےکہ ہر جملے کا اسم آدمی ہے۔وہی doer ہے اور وہ ہر کام انظام دیتا ہے۔نظیر نے ایک سوال بھی پیدا کیا ہے کہ کیا اچھا برا،خادم مخدوم،ظالم مظلوم سب کی شباہت یکساں ہے تو کیا اس بنیاد پر بشکل آدمی ہر کوئی آدمی کہلانے کا مستحق ہے یا اس کے کچھ اور بھی پیمانۂ امتیاز ہیں؟ نظیر اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ آدمی جیسا دکھنے والا آدمی ہے مگر اس نظم میں ایک بات یہ بھی ملتی ہے کہ حیف آدمیت سے بیگانے بھی آدمی ہونے کی سند رکھتے ہیں۔آدمی کا مرتبہ اس جہان فانی میں بہت اعلیٰ ہے۔اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اس لحاظ سے ہر ایک آدمی اس خالق کی تخلیق ہے اور اس کا مقام دوسری مخلوق سے بر تر ہے مگر آدمی کبھی کبھی اپنے رتبے کا پاس نہیں رکھتا جبکہ ہم سب اولاد آدم ہیں تو ہمارے اندر آدمی کی صفات ہونی چاہئے نا کہ بہائم کی۔
نظیر نے جن آدمی کو جن شکلوں میں دیکھا وہ دکھایا اور شائد اسکے قبل آدمی کا نامہ ایسا نہیں ملتا۔نظیر کی نظموں میں موسیقیت ملتی ہے اس نظم میں بھی موسیقیت ہے ساتھ ہی ساتھ ایک لطف کا احساس ہوتا ہے جو اس طویل نامے کو پڑھنے پر بھی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا اور نئے لطف سے آشنا ہوکر قاری اس کی قادرابیانی کا قائل ہوجاتا ہے۔نظیر کی نظموں میں ثقیل الفاظ نہیں ملتیں عام طور پر بولی جانے والے الفاظ ملتے ہیں اور نظیر کا کمال یہ ہے کہ وہ ان الفاظ سے وہ کام لے لیتے ہیں جو ہر کوئی نہیں لے سکتا۔عوامی شاعر ہونے کا شرف نظیر کو زیب دیتا ہے کہ انہوں نے شاعری کے کسی پڑاؤ میں اپنا انداز تخاطب نہیں بدلا اور ہمیشہ عوامی دلچسپیوں کو ملحوظ خاطر رکھا۔ایسے عنوانات چنے جن پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ایسا اسلوب اپنایا جو عوام میں مقبول ہوا۔اس نظم میں شاعر نے آدمی کے مختلف اشکال کو پیش کیا ہے اور اس بات پر مہر ثبت کی ہے کہ آدمی زندگی کے ہر گلیارے میں موجود ہے۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page