ایک انسان اپنی زندگی میں بڑا کام یہ انجام دے سکتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی”انسان” سمجھے اور یہ سمجھ واقعی بڑا ہونے کے بعد آتی ہے۔میں انسان کے حسن اعمال میں اس احساس کا شامل ہونا بہت اہم سمجھتا ہوں کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے جتنے بھی اسباب ہیں یہ احساس ان میں سب سے اہم ہے مگر یہ احساس اب نایاب ہے۔زندگی کے اندھیروں میں تو انسان ہر اس شے کی شناخت کرلیتا ہے جو اسے دیکھائی تک نہیں دیتی مگر زندگی کی چکاچوند روشنی میں سامنے کی چیزیں بھی نہیں دیکھائی دیتیں، تب ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جہاں اپنا سراپا ہی سارا جگ بن جاتا ہے ہاں ! پر کچھ ایسی نگاہیں ضرور ہوتی ہیں جن کے سامنے چکاچوند روشنی ماند پڑ جاتی ہے اور وہ اندھیروں میں بھی شناخت کی قوت رکھتی ہیں اور اجالوں میں بھی، ایسی نگاہیں دیکھتی بھی ہیں اور محسوس بھی کرتی ہیں۔ ایسی نگاہوں کو آپ کیا کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم پر ایسی نگاہوں والی ایک شخصیت ہے، جنہیں ہم دبیر احمد کہتے ہیں۔
دبیر احمد وہ شخصیت ہیں، جن کے حاسد بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ویسے تو وہ ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں مگر پتا نہیں کیوں وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور پروفیسر لکھنا پسند نہیں کرتے۔یہ ان کی اعلی ظرفی ہے کہ سامنے والے کو اپنے عہدے سےمرعوب ہونے نہیں دیتے ورنہ کبھی کبھی تو وہ بھی ڈاکٹر ہوجاتے ہیں جو کمپاؤنڈر بھی نہیں ہوتے مگر دبیر احمد کو یہ سابقہ پسند نہیں۔ نہ وہ خود ڈاکٹر لکھتے ہیں اور نہ دوسروں کو لکھنے دیتے ہیں۔آپ ذرا محسوس کیجئے کہ یہ کیا ہے؟ یہ اپنی انا کو کچلنے کی ایک کوشش ہے ، ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ ان کے لوگوں سے مراسم کے درمیان یہ سابقہ سامنے نہ آئے۔دبیر صاحب محفلوں میں مجلسوں میں معمولی آدمی بننے کی لاکھ کوشش کرلیں پھر بھی محفل میں ان کی موجودگی ، ان کے بڑے ہونے کا اعلان کرتی ہے۔دور حاضر میں دبیر احمد جیسا کوئی ہو تو بھولے سے ہی زمین پر پیر رکھے مگر وہ ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں بے دھڑک داخل جاتے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، ان کی شخصیت سے مغلوب ہونا ہی ہے۔اجلے چہرے پر stethoscope نما آنکھیں جو سامنے والے کو دیکھنے سے ذیادہ محسوس کرتی ہیں عجب معاملہ ہے دبیر صاحب کا آنکھوں سے بھی دل کا کام لیتے ہیں اور پڑھ بھی لیتے ہیں۔
اصل میں جب سے ہوش سنبھالا پڑھنے اور پڑھانے پر ہی زور دیا ، کتابوں کو، انسانوں کو اور ان کے جذباتوں کو پڑھا اور ملت کے نونہالوں کو پڑھایا بھی اور یہ سلسلہ آج بھی بدستور جاری ہے۔ درس وتدریس (جسے میں عبادت سے تعبیر دیتا ہوں) کے مقدس پیشے سے منسلک ہیں۔اللہ نے بے پناہ صلاحیتیں بخشی ہیں،قلم کے دھنی ہیں اور ارادے کے پکے بھی ۔مولانا آزاد کالج ان کا میدان عمل ہے، ویسے کلکتےکے کئی ادارے اور علمی و ادبی تنظیموں سے ان کی وابستگی ہے اور نہایت فعال اور عدیم افرصت شخصیت ہیں۔علم و ادب کے گلیاروں میں ان کی تحریر و تقریر کا سحر چلتا ہے۔ایک کامیاب استاد کہ جس نے کئی کامیاب استاد بنا ڈالے۔فراخ دل ایسے کہ اپنے دوستوں ،اپنے عزیزوں کو اپنے برابر دیکھنا پسند کرتے ہیں یہ برابر دیکھنے سے مراد یہ کہ انہیں بھی وہیں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں وہ خود ہیں یہ بات سننے میں جتنی آسان لگ رہی ہے اس کو عملی جامہ پہنانا اتنا ہی مشکل ہے۔آج کے اس دور انتشار میں کسے فرصت ہے کہ کسی کو رک کر، ٹھہر کر دیکھے لیکن دبیر احمد کی حساس نظریں رکتی ہیں ، ٹھہرتی ہیں اور ضرورت محسوس کی تو اپنا دست شفقت سر پر رکھتی بھی ہیں وہ اس بات کے بھی منتظر نہیں رہتے کہ کوئی طالب ہو تو وہ اپنا فریضہ انجام دیں۔ وہ دنیا کی بے ثباتی کو خوب جانتے ہیں اور خالق کو شکر ادا کرتے ہیں کہ خالق نے انہیں ایسا دل دیا اور ایسی طبیعت دی، اس لئے تو خالق نے بھی اپنی رحمتوں کا در ، ان کے لئے کھول دیا۔
موصوف محقق اور ناقد تو ضرور ہیں مگر وضع قطع افسانوی کردار معلوم ہوتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی رومانی افسانہ نگار سہانی شام کو کسی پیڑ تلے بیٹھے اپنے افسانے میں وصل کے لمحے لکھ رہا ہو۔یہ بھی اتفاق دیکھئے کہ ان کے آئیڈیل جدیدیت کے مایہ ناز افسانہ نگار ظفر اوگانوی صاحب رہے ہیں حسن امتیاز یہ رہا کہ ظفر اوگانوی کے یہاں رمز تھا اور ان کے یہاں وضاحت۔ دمکتے چہرے پر میل کھاتی ناک۔مسکراتا دہن ،مہذب زبان درمیانہ قد گوری رنگت ، عمر کو مات دینے والی چہرے کی دلکشی، بالوں سے ہلکی ہلکی جھانکتی چاندی ، چہرے کو مزید پر وقار بناتی ہے ۔ ان کے diet جاننے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ فتح یابی کی داستان سناتی پیشانی پر ان کی خوش اخلاقی کے نقش ابھرے ہوئےہیں جب کہ دونوں چیزوں کا آپس میں ملنا بعید قیاس ہے۔ فتح یابی ملتی ہے تو خوش اخلاقی کا انخلا ہوجاتا ہے مگر دبیر احمد ان دونوں کو برابری کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ ان کی تنظیمی صلاحیت کی ادنی مثال ہے۔زندگی کے ہر کام میں سلیقگی پسند ہیں۔خوش اخلاق ،خوش طبیعت انسان ہیں۔ لوگوں سے ملتے وقت ان کے منصب کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ ہی اپنے منصب کا رعب ان کے چہرے پر دکھتا ہے۔جب کہ حقیقت یہی ہے کہ تعلیمی،ثقافتی پروگراموں کی زینت بھی ان کے دم سے ہوتی ہے، پر اس کا ذکر تک کبھی زباں پر نہیں لاتے۔بڑے لوگ یونہی بڑے نہیں ہوتے۔انتہائی مصروفیت انسان کو جڑ چڑا بنا دیتی ہے اور اعلیٰ مقام دوسری دنیا کا مخلوق بنا دیتا ہے حیرانی ہے کہ دبیر صاحب کی سراپا شخصیت اور اعلیٰ ظرف کے سامنے یہ چیزیں لامعنی بن جاتی ہیں۔میں نے انہیں جب پہلی بار دیکھا تو مجھے حیرانی ہوئی بالکل عام آدمی کی طرح لوگوں سے مل رہے تھے۔ میں جس بات سے سب سے ذیادہ متاثر ہوا وہ ان کا سبھوں کو عزت واحترام کے ساتھ نام لینا اور مخاطب کرنا تھا ۔لنچ کے وقت وہ سبھوں سے ایسے پیش آتے تھے گویا وہ منتظمین میں سے ہوں،انہیں اس بات کا احساس بالکل نہیں تھا کہ وہ” ڈاکٹر دبیر احمد ” ہیں جنہوں نے کتنی ہی معمولی شخصیتوں کو غیر معمولی بنا دیا۔دیکھئے انسان ، انسان کا ازلی دشمن ہے تو یہ لازم ہے کہ اختلافات ہوں مگر حقیقت سے منھ موڑنا بھی انسان کی اعلیٰ خصلتوں میں شمار نہیں ہوتا۔کھلے دل کے دبیر احمد ان باتوں سے کبھی اپنے دل کو میلا نہیں کرتے، پر حق بولنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے، چاہے روزمرہ کی زندگی کا معاملہ ہو یا ادبی معاملہ! ایک جرآت مند انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دلیر اور حق گو مصنف بھی ہیں۔اللہ جب نوازنے پر آتا ہے تو بندے کی طلب نہیں دیکھتا ، وہ اپنی شان کریمی دیکھتا ہے۔دبیر صاحب کو بھی اللہ نے بے پناہ علمی و ادبی صلاحیتوں کے ساتھ تدریسی اور تنظیمی صلاحتیں بخشی ہیں۔ایک قابل فخر استاد ،ایک معتبر محقق ، ایک منصف مصنف اور ایک قائد۔کئی علمی و ادبی اداروں سے ان کی وابستگی، ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی امین ہیں۔اپنی زبان کی بقا کی خاطر وہ ہمیشہ ایک پاؤں پر کھڑے رہتے ہیں ایسے ہوتے ہیں محسن زبان۔
دنیا میں مختلف زبانوں اور قوموں میں لاتعداد ایسے اقوال اور مثالیں موجود ہوتی ہیں جو انسان کو بھلائی کی طرف آمادہ کرتی ہیں مگر ان تمام تر باتوں کا تعلق جب تک پڑھنے تک رہے گا ، کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، ہاں۔۔۔بس اپنے علم میں اضافہ کرکے دوسرے کو تلقین کی جاسکتی ہے دبیر احمد ان باتوں کو عملی زندگی میں پیش کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔وہ خود بھی آگے بڑھے، دوسروں کو بھی بڑھایا جبکہ دور حاضر گرانے پر ذیادہ یقین کرتا ہے۔ انہوں نے کسی کےقد کو چھوٹا نہیں کیا بلکہ اپنے قد کو اپنی قابلیت، اپنا حسن طرف، اپنی نیک نیتی اور مستحکم ارادے سے دراز کرلیا۔وقت کی آنکھوں نے یہ بھی تماشہ دیکھا ہے کہ لوگ اپنے والدین تک کو بھلا دیتے ہیں مگر انہوں نے بعد از مرگ بھی اپنے استاد کو بالکل فراموش نہیں کیا اور آج تک اپنے استاد محترم ظفر اوگانوی کے فن کے گوشوں کو عیاں کرنے اور انہیں وہ مقام، جن کے وہ حقدار تھے، دلانے کی کوشش میں سر گرداں رہتے ہیں۔یہاں ہمیں ان کے اندر ایک ایسا طالب علم دکھتا ہے جو استاد سے محبت نہیں رکھتا بلکہ عقیدت رکھتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس نیک عمل کا اجر، نیک ہی ملنا تھا لہذا ان کے پاس بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح شاگر ملے ہیں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ایک اچھا اور قدر شناس طالب علم ہی ایک مثالی استاد بنتا ہے۔ آج جبکہ لوگ اپنا نام اور اپنی شہرت کے کوس لمن الملک بجانے اور بجوانے میں جی ہلکان کرتے ہیں، وہی دبیر احمد ان سستے حربوں سے خود کو باز رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔خود اعتمادی ان کی شخصیت کو مزید نکھارتی ہے۔ان کو خود پر بہت اعتماد ہے ، اس لئے وہ اپنی کار بھی خود ہی ڈرائیو کرتے ہیں۔آپ کبھی انہیں ڈرائیو کرتے دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ ان کی کار بھی ویسے ہی شاہانہ انداز میں چلتی ہے، جیسے ان کے قدم۔
مغربی بنگال میں اردو ادب کو اپنے قلمی نسخوں سے جس طرح مالا مال کر رہیں ہیں، یہ خیال اغلب ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے مضامین ، جنہیں دستاویزی حیثیت حاصل ہے، ادب کی راہیں متعین کرنے میں معاون ہوں گے۔ظفر اوگانوی صاحب کے فنی محاسن کو جس طرح انہوں نے ناقدان فن کے سامنے پیش کیا ہے اور ان پر تجزئے کروائیں ہیں، وہ لائق ستائش ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی بات کو حرف آخر نہیں سمجھتے بلکہ دوسرے کی آراء کو بھی مقدم سمجھتے ہیں اور ان آراء کا کھلے دل سے استقبال بھی کرتے ہیں۔ ان سیمیناروں میں ،جہاں دبیر صاحب بہ نفس نفیس موجود رہتے ہیں، تو وہاں سوال و جواب کا ایک سیشن چلتا ہے، جس میں دانشوران فن اپنے علمی گفتگو سے خصوصاً طالب علموں کو فیض پہنچاتے ہیں۔اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں کوشاں iron determined دبیر احمد سے اردو ادب کو ڈھیروں امیدیں وابستہ ہی نہیں ہیں بلکہ یقین ہے کہ ان کی خدمات سے بنگال کے ساتھ پورے ملک کے زبان و ادب کو بہت فائدہ ہو گا۔
نسیم اشک
ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
واہ کیا بات ہے ۔۔۔بہت خوب سر۔۔۔۔اللہ آپکو مزید کامیابی آتا فرمائے ۔۔,آمین یارب العالمین