مہرین جہانگیر
لیکچرر گورمنٹ صادق کالج وومن یونی ورسٹی بہاولپور
جب کوئی تخلیق کار تحریر کچھ لکھتا ہےتو اس تحریر سے اس کا ایک نامعلوم سا تعلق استوار ہو جاتا ہے ۔یہ تحریر اس کا اوڑھنا بچھونا اور کل کائنات ہوتی ہے۔ اس سے اس کو دلی وابستگی ہوتی ہے۔
اس کی نوک پلک سنوارنا اس کو مزید بہتر سے بہترین بنانے کی کاوشیں فنکار کی اپنی تحریر سے وفاداری کا ثبوت ہوتا ہے ۔ تخلیق دراصل کسی بھی معاشرے کی آئینہ دار ہوتی ہے اس کو معاشرے کے تمام تر زاو یوں مسلم سیاسی سماجی, اخلاقی ,شاعری اقتصادی انفرادی اور اجتماعی مسائل کا آٸینہ ہونا چاہیے ۔
سوال یہ ہے کہ کسی بھی تخلیق کو کیوں سنوارا جاۓ؟ اس سوال کا جواب نہایت سنجیدہ ہے ا کی وضاحت اس طرح سے ممکن ہے کہ ایک فنکار جب کسی بھی صنف ادب میںطبع آزماٸی کر کے لکھتاہے اس کے پیش نظر دو طرح کے حوالےہوتے انفرادی ا ور اجتماعی مثلا ناصر کاظمی کی شاعری میں علم کا تصور ہے انہوں نے جو مثال اداسی تنہائی کرب و اذیت کے لمحات کو اپنے قلم سے نہ صرف اپنی ذات کے اظہار کے لئے لکھا بلکہ تقسیم پاکستان میں گفتگو کے حالات پر اثر انداز ہوتی اسے اپنی رائے پیش کی مسلمان کا یہ شعر
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوٸی ہے یوں بھی طبیعت کبھ کبھ
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
یہ شعر دل کی حسرت ناصر کاظمی نے زندگی کی بے ثباتی اور اپنے حالات و واقعات سے بے زاری کے طور پر لکھے گئے اشعار کو اپنی زندگی کی اذیتوں سے مماثل قرار دے کر اپنے غم کے اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے جو کسی بھی شاعر ادیب مضمون نگار انشائیہ نگار کی تخلیق براہ راست تعلق معاشرے پر پڑتا ہے اگر فنکار اپنی تخلیق اپنی تخلیق کو ہی کل کائنات سمجھے اور یہ سوچے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے وہی در اصل حقیقت ہے اور معیاری ادب تخلیق نہیں ہو سکے گا اور اس راہ میں رکاوٹیں حائل ہو گئی اور اور ادب جمود کا شکار ہوگا اردو ادب میں میں دیگر اصناف ادب کی طرح زندگی مغرب سےمتعارف قاری خوشی محمد حسین آزاد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تنقید کا آغاز کیا ان کے بعد مولانا الطاف حسین حالی زندگی کتاب مقدمہ شعر و شاعری اس کتاب کے ذریعے حالی میں مغربی نقطہ نظر کے تحت زندگی کے اصول وضع کیے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تنقید مشرق میں بالکل ٹھیک ہوں نہ بعید کی ادبی معرکوں میں دو جواب دیے جاتے تھے شاید اپنی کسی بھی نظم یا غزل کو اپنے عہد کے بڑے شعراء کے پاس رسانی کے لیے بھیجتے ضرور تھے اور ان کی ہدایات کے مطابق ان میں ردوبدل ضرور کرتے تھے۔ مگر ان سب کو تنقید کی جس میں قرار نہیں دیا جاسکتا
تنقید سے مراد ہے کہ کسی بھی فن پارے کو کھرے اور کھوٹے کے معیار کے مطابق چنا کے دوسرے لفظوں میں کسی کو کنارے کی خوبیاں اور خامیاں لگتی کرنا تنقید کہلاتا ہے میں نے اپنی کتاب میں تنقید کے کچھ اصول وضع کیے جن کے تحت انہوں نے اچھی شعر و شاعری کی خوبیاں بتائیں کی تنقید نگاری کو بھی مغرب زدہ قرار دیا گیا کیا وہ سب سے الگ ہے جس کے تحت ایک معیار متعین کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہا ہے کہ جس کے تحت کسی بھی کسی بھی فن پارے کو کو معیاری بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے احساس ہوتا ہے یہی وجہ ہے ہے کہ متحدہ ہندوستان میں تنقید کی روایت اتنی مقبول نہ ہوسکی اقتدار میں میں مشرق وسطی میں ابن خلدون وغیرہ جو عربی نقاد کے سامنے آئے جنہوں نے اچھے شعر کی خوبی وزن کے لحاظ سے متعین کی تنقید کو نقص کس نکالنے کے مترادف تصور کیا جاتا تھا۔
تنقید کسی بھی معاشرے میں معیاری ادب کو تیار کرنے کے لئے راہ ہموار کرتی ہے نگاہ کا اس سلسلے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے دوسری شادی کی بہت سی اہم معلومات اہم معلومات کو ملحوظ خاطر رکھیں اس کی تنقید کا انداز غیر جانبدار ہو وہ یہ سوچے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے نہیں یقین حالات و واقعات سے متاثر ہو کر تحریر تحریر کی یہی وہ رویہ ہے جو معیاری ادب ایران کا پہلا قدم ہے بعض دفعہ تصنیف یادگار تنقید کو مثبت لیتے ہیں پٹواری دفتر کے چاکیواڑہ میں وصال کتاب لکھی جو ان کا ایک موقع ہی ناول ہے انہوں نے اس مضمون کو پڑھنے کے لئے بھیجا انہوں نے تقسیم کیا یہ کتاب معیاری نہیں ہے ہے یہ ناول نہیں ہے خالد اختر زندگی بھر صرف خوش ہے کہ منٹو کے افسانہ نگار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایک کو بھی فراخدلی سے اپنی تخلیق پر ہونے والی تنقید کو قبول کرنا چاہیے
ذاتی انا وہ عداوت و دشمنی سے ہٹ کر اپنی تحریروں کی خامیوں کو قبول کرکے اس درستگی سے بہترین ادب قاری تک پہنچے گا
تنقید ہمارے لیے اتنی ناگزیر ہے جتنی سانس
“اگر تنقید نہ ہو تو فن پارے کی ہیئت اور مواد میں تبدیلی آ نہیں سکتی یہ فن پا رے میں وسعت پیدا کرتی ہے جو ایک کلو کو توڑ کر گھوڑے اور گدھے کے بارے میں کام کرتی ہے بے حد ضروری ہے باردو پڑھنے کو جیسے
” ادب میں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ محسوس کی ہوئی باتیں ہی لکھی جائیں۔ ادب تو زبان کا معاملہ ہے۔ زبان میں جو اظہار ممکن ہے وہ ادب کا اظہار ہو سکتا ہے۔ ”
حالت یاد تنقید نہ کی جائے تو معاشرے میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہو گی یہ جمہوریت تو برنگی کا شکار ہوگا کوئی بھی تخلیق کار جب کچھ لکھے گا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ادب کے راستے میں رکاوٹیں حائل سونگ یہ عمل ہے اور غلط میں فرق کرنا چاہیے کسی بھی ہوتے ہیں کا انکا اور سچ کی حقیقت کسی بھی فن پارے فن پارے فن پارے بھی سچ کی تلاش ہے کوئی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اپنے سب سے دیتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے یہ کہ وہ محض الفاظ بھی استعمال نہیں کر رہا بلکہ وہ ایک تکلیف دے اندر ولادت نشاندہی کر رہا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسل تک ادب کا اطلاق ممکن ہو سکے کے مگر بعض دفعہ کار ان تمام باتوں کو مد نظر نہیں رکھتے اور اپنی ذاتی انا کی بنیاد پر کسی بھی تخلیق کو جانتے ہیں ان کی مثال اس شعر کی مانند ہیں
یہ بات ٹھیک ہے کہ ہر بات ہی بجا مانوں
خطاجو کی ہی نہیں اس کی بھی سزا مانو ں
جی بھینس اڑتی ہے کوا سفید ہوتا ہے
سبھی تو مان لیا اور بتائیں کیا معنوں
مندرجہ بالا مختصر جائزے کے بعد اس نتیجے پر باآسانی پہنچا جا سکتا ہےکہ جب لفظ اور معنی سات ہونے لگیں جب خیالات ماحول کا ساتھ نہ دیں جب ادب برائے ادب کا اطلاق اجتماعیت کے اصولوں کو گہنا دے تب کسی بھی معاشرے میں تنقید کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ ضرورت بھی ختم نہیں ہو سکتی۔
حوالہ جات
١ناصر کاظمی ” برگ نے”شان ہند پبلی کیشنزنٸی دہلی ہندوستان 1990ص 8,9۔
https://www.rekhta.org/authors/shamsur-rahman-faruqi/quotes?lang=ur٢۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |