بعض اوقات ناموں کے سابقوں اور لاحقوں کی یکسانیت کے سبب ایک دوسرے سے لاشعوری طور پر محبت ہوجاتی ہے۔ مثلاً کسی کے نام میں اگر سیّد لگا ہوا ہے تو دوسرا سیّد اُسے اپنے خاندان کا سمجھنے لگتا ہے۔ یہی کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب ناموں کے ساتھ صدیقی، فاروقی، عثمانی ،علوی ،رضوی یانقوی لگا ہوا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ سلمانی، قریشی یا اویسی جیسے سابقے یا لاحقے دیکھ کر بھی قربت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ دل میں خود بخود اپنائیت جاگ جاتی ہے۔ غیر آدمی بھی اپنا برادر یعنی برادری کا لگنے لگتا ہے۔ ہمارا اصل نام ناصر محمود کمال ہے، اس لیے جب بھی کسی کے نام کے ساتھ محمود یا کمال لگا ہوا دیکھتے ہیں دل میں اپنائیت بیدار ہوجاتی ہے۔ ہم نے نہ محمود غزنوی کو کبھی غیر سمجھا اور نہ سلطان ناصر الدین محمود کو۔تو بھلا خالد محمود کو کیوں غیر سمجھتے۔ ڈاکٹر خالد محمود سے ہماری قربت یا ابھی تک رشتہ قائم رہنے کی وجہ اُن کی محمودیت ہے۔ اُن کے نام میں شامل محمود ہمیں اُن سے رشتہ توڑنے سے باز رکھتا ہے، ورنہ خطِ ضبط یعنی لائن آف کنٹرول قائم ہونے کے ہمارے درمیان کئی مواقع آئے۔ پروفیسر خالد محمود نے دانستہ اپنے نام کے ساتھ نسلی شناخت یعنی لفظ ’’خان‘‘ کو پروفیسر قمر رئیس، ڈاکٹر خلیق انجم وغیرہ کی طرح شامل نہیں کیا ہے، کیوں کہ اردو کے بعض پٹھان محققین کے بارے میں عام رائے بہتر نہیں ہے۔ خالد محمود میں جو شعریت اور حسن ہے وہ خالد محمود خاں سے برباد ہوجاتی ہے۔ پروفیسر خالد محمود اور ہمارے درمیان بہت سی باتوں کے علاوہ ایک چیز اور مشترک ہے وہ ہے ہم دونوں کی فارغ البالی۔ جس کے لیے ان کے یہاں پردے کا معقول انتظام ہے اور ہم قدرت کی اس ستم ظریفی کو اس لیے بے پردہ رکھتے ہیں کہ قدرتی بے انصافی کو سب دیکھ سکیں۔ شاید ہی اہل خانہ کے علاوہ اُن کی فارغ البالی کا کوئی چشم دید گواہ ہو۔
ہمیں صحیح طور سے یاد نہیں کہ کب، کیسے اور کیوں ہماری پروفیسر خالد محمود سے سلام دعا شروع ہوئی۔ تقریباً چار دہائی پہلے زیادہ تر پڑھے لکھوں کی اکثریت بٹلہ ہائوس میں رہا کرتی تھی، اس لیے کہ اُس وقت نہ ذاکرنگر تھا، نہ ابوالفضل انکلیو اور نہ شاہین باغ۔ ہم بھی جب دہلی میں آئے تو بٹلہ ہائوس میں ایک ہائوس کرایہ پر لیا۔ بٹلہ ہائوس میں زیادہ تر بلیماران کے جوتے والوں کے مکان تھے یا جامعہ کے ماسٹروں کے۔ خدا جانے جوتے والوں نے جامعہ کو کیوں ترجیح دی۔ جوتوں سے حاصل کی گئی رقم سے بٹلہ ہائوس میں مکان بنائے اور اُن میں پڑھے لکھوں کو آسرا دیا۔ جوتوں کے خوف سے بہت کم لوگ مکانوں پر قابض ہوتے تھے۔ خالد صاحب بھی بھوپال سے آکر بٹلہ ہائوس میں مقیم ہوئے۔ خدا جانے کس خوف سے انھوں نے جوتے والوں کا مکان نہیں لیا، بلکہ اپنے ایک ہم پیشہ عبدالرشید صاحب کے مکان میں اپنا بستر کھول دیا۔ عموماً شاعر اور ادیب اپنی گفتگو سے مالک مکان کیا دوکانداروں کو بھی مرعوب کرلیتے ہیں، جس کے بعض اوقات اچھے نتائج بھی نکلتے ہیں۔ مالک مکان بار بار کرایہ کا تقاضا نہیں کرتا اور دوکاندار زیادہ منافع نہیں لیتا۔ کبھی کبھی منفی نتائج بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ آتے جاتے مالک مکان کو کلام سنانے کے سبب مکان خالی بھی کرنا پڑجاتا ہے۔ عبدالرشید صاحب انتہائی شریف آدمی ہیں، انھوں نے خالد صاحب سے اُس وقت تک مکان خالی نہیں کرایا جب تک وہ خود مالک مکان نہ بن گئے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ رشید صاحب کتنے صابر انسان ہوں گے، مجھے اس لیے معلوم ہے کہ جب اُس مکان میں بحیثیت کرایہ دار میں خود منتقل ہوا تو اس مکان کے در و دیوار پروفیسر خالد محمود کے اشعار دہرا رہے تھے۔ کبھی کبھی کسی دروازے سے انشائیہ اور خاکہ بھی داخل ہوجاتا تھا۔ پروفیسر خالد محمود کی شخصیت کا اندازہ مجھے اُس مکان میں رہ کر ہوا۔ ان کے قیام سے مکان کی فضا باغ و بہار ہوگئی تھی۔ کسی روشندان سے مزاح نکلتا تھا اور کسی کھڑکی سے طنز۔ پروفیسر خالد محمود کی ظریفانہ گفتگو اور تحریروں میں شگفتگی دیکھ کر اکثر لوگ ان کے پٹھان ہونے پر شک بھی کرنے لگتے تھے۔ اسی شک و شبہ کو دور کرنے کے لیے کبھی کبھی انھیں اپنی نسلی شناخت کا عملاً اظہار کرنا پڑتا ہے۔
پروفیسر خالد محمود اور ہمارے درمیان ملاقات کی وجہ اردو بنی۔ اردو نے بھی بہت لوگوں کو نہ چاہتے بھی جوڑا ہے۔ یہی اس زبان کا کمال ہے۔اردو کی نئی بستیوں کے رہنے والوں کو بھی انداز گفتگو سکھا دیتی ہے۔ جب تک خاں صاحب جامعہ اسکول سے وابستہ رہے ہماری ان سے آشنائی صرف ہم محلہ ہونے تک محدود رہی، لیکن جب وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد داخل ہوگئے تو باقاعدہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو آج تک قائم ہے، البتہ کبھی کبھی وہ احساس دلادیتے ہیں کہ اُن کے پردادا نادر شاہ درّانی کے ہم نام تھے۔
پروفیسر خالد محمود نے ہماری طرح زندگی کا طویل حصہ دہلی میں گزارا ہے، لیکن ہم سب یہاں مہاجر ہی کہلاتے ہیں۔ ہماری شناخت آبائی وطن ہی سے ہوتی ہے۔ خالد محمود دہلی میں رہنے کے باوجود سرونجی کہلاتے ہیں، اس لیے کہ اُن کا آبائی وطن سرونج ہے۔ بس اِدھر ملک آزاد ہوا اور اُدھر سرونج کی سرزمین پر انھوں نے اپنی شگفتگی کے گُل کھلائے۔ والد بزرگوار صوفی مشرب تھے، یہی سوچ کر کہ بیٹا بھی ایسا نکلے گا ریاض المدارس میں تعلیم دلوائی۔ لیکن پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی شاعری شروع کردی اور مدرسہ چھوڑکر بھوپال کا رُخ کیا، کالج کے ماحول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ شاعری کو بھی فروغ ملا۔ عموماً نوجوان شعراء کی کالجوں میں ہر صنف میں بہت قدر ہوتی ہے۔ خالد محمود جس طرح دراز قد آج ہیں اس وقت بھی تھے، خوبرو ہونے کے سبب خوبرویوں میں عزیز تھے۔ اس وقت انھیں سر چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ قدرت نے سیاہ بالوں کا سائبان عاریتاً انھیں دیا ہوا تھا۔ شکم سیری کے سبب آج جو شکم کی صورت حال ہے، ایسی نہ تھی۔ شعری ذوق کی وجہ سے نوجوانوں میں اور نثری مزاج کے سبب اساتذہ میں انھیں بہت جلد مقبولیت حاصل ہوگئی تھی۔ ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم پڑھتے بھی رہے اور پڑھاتے بھی۔ اسی لیے علم کے معاملے میں ’’سمندر آشنا ‘‘ہوگئے۔ دہلی آکر ’’نقوشِ معنی‘‘ تلاش کیے۔ ’’شاخ گل‘‘ پر بیٹھ کر ’’شگفتگی دل کی‘‘ بیان کی، ’’شعر زمین‘‘ سے’’ تفہیم و تعبیر‘‘ نکال کر ’’شعر چراغ‘‘ روشن کیا اور ’’ادب کی تعمیر‘‘ بتائی۔ ’’تحریر کے رنگ‘‘ دکھائے۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنے ادبی اور غیر ادبی سفر کا آغاز سرونج سے کیا، پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، خود دنیا کا سفر کیا اور سفرناموں کا مطالعہ کرڈالا۔
سرونج کے اس پٹھان نے دہلی میں آکر نمایاں شناخت حاصل کی، لیکن سرونج اور بھوپال میں بھی ابھی تک انھیں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ یہ دل اور مزاج کی شگفتگی کا معاملہ ہے۔ ویسے دہلی میں رہ کر بھی ان کا دل وطن میں ہی رہتا ہے۔ دہلی میں پروفیسر خالد محمود کی مہمان نوازی بہت مشہور ہے۔ وہ اُن میں سے نہیں ہیں کہ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا۔ وہ کھاتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں، اسی لیے بعض احباب تو اکثر مغرب کے بعد ہی اُن کے گھر کا رُخ کرلیتے ہیں۔ اُن کی فراخ دلی دسترخوان کے علاوہ سفرمیں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت سفر میں ساتھ رہ کر پہچانی جاتی ہے، اس لیے ہم نے اُن کے ساتھ کئی سفر کیے، میزبان سے پسندیدہ کھانے کی خواہش کے اظہار کے وقت قصیدہ کا جزو ’’حسن طلب‘‘ یاد آجاتا ہے۔ سفر میں اُن کی شگفتہ مزاجی عروج پر ہوتی ہے۔ سفر کی تھکان کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ شاید پروفیسر خالد محمود نے سفرناموں کے تنقیدی مطالعہ سے یہ بات سیکھی ہے۔ دہلی میں انھیں وہی عزت حاصل ہے جو استاد ذوق یا غالب کو بادشاہ کا اُستاد ہونے کی وجہ سے حاصل تھی۔ دراصل جب نجیب جنگ صاحب جامعہ کے شیخ الجامعہ ہوئے تو غالب شناسی کا شوق پیدا ہوا۔ جامعہ میں انھیں پروفیسر خالد محمود سے بہتر کوئی غالب شناس نظر نہیں آیا، بس دونوں میں بہادر شاہ ظفراور ذوق کی طرح استادی شاگردی کا رشتہ قائم ہوگیا۔ محترم نجیب جنگ نے گورنر ہونے کے بعد بھی استاد کا دامن نہ چھوڑا۔ ایک بات پر تعجب ہوتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر جیسے بے بس اور لاچار بادشاہ نے بھی غالب کو خطاب سے نوازاتھا، لیکن نجیب صاحب نے دہلی کا گورنر ہونے کے باوجود خالد صاحب کو کوئی خطاب و خلعت پیش نہیں کی، بس بحیثیت شیخ الجامعہ اچھا مدرس ہونے کی وجہ سے ملازمت سے سبکدوشی کی مدت میں توسیع کردی۔ خیر یہ بھی ایک اردو کے استاد کے لیے اعزاز اور رفقا کے لیے حسد کی بات تھی۔ احباب کے لیے حسد و رشک کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ پروردگار عالم نے حضرت آدم کو ایک موقع دیا تو خاتون خانہ نے جنت ہی سے نکلوادیا، لیکن پروفیسر خالد محمود کو دوبار آزمایا، دونوں مرتبہ وجودِ زن کے سبب ان کا گھر ہی جنت بن گیا۔ کچھ لوگ ان کی خوشحالی دیکھ کر ان کی پیشانی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس پر خالق کائنات نے کیا رقم کیا ہے۔ لیکن خالد صاحب نے بھی نایاب مخطوطہ کی طرح پیشانی کی تحریر کو سرپوشی کے بہانے چھپا رکھا ہے۔ یہ سب عزت و وقار خالد صاحب کو اس لیے حاصل ہوا کہ انھوں نے زندگی میں بہت محنت کی ہے، جو کام بھی کیا وہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ کیا۔ ستائش اور صلے کی پرواہ نہیں کی، خود کو درس و تدریس کے لیے وقف کردیا۔ جامعہ ریاض الاسلام سرونج سے سیفیہ کالج بھوپال تک، سیفیہ کالج سے جامعہ اسکول تک اور جامعہ اسکول سے شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ تک وہ ایک فعال اور متحرک شخصیت نظر آتے ہیں۔ وہ کام کرنا بھی جانتے ہیں اور اپنے رفقا سے کام لینا بھی۔
شعبۂ اردو کی صدارت کے دوران انھوں نے صرف اپنے شعبہ کے اساتذہ ہی کو نہیں بلکہ اردو کے بیشتر ناقدین کو نصف بنگالی بنادیا تھا۔ دراصل شعبۂ اردو کو سرکار کی طرف سے ٹیگور شناسی کا ایک پروجیکٹ ملا۔ منظور شدہ رقم کو وقت مقررہ پر ختم کرنے میں زیادہ تر یر بنگالی اردو والوں نے پروفیسر خالد محمود کا بھرپور تعاون کیا۔ اردو والوں کی ٹیگوریت میں ایک وقت تو ایسا آگیا تھا کہ ٹیگور کو لوگ اردو کا ہی ادیب اور شاعر سمجھنے لگے تھے۔ خالد صاحب کی شناخت بنگالی نہ جانتے ہوئے بھی ماہرِ ٹیگوریات میںہونے لگی تھی۔ پٹھان عموماً ضدی ہوتے ہیں، جو دل میں ٹھان لیتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں۔ خالد صاحب میں بھی پٹھانوں کی یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ انھوں نے ہر جگہ اپنے عمل سے پٹھان ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ دہلی اردو اکیڈمی اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کی سربراہی کے وقت اُن کی فعالیت قابل تحسین ہے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادبی سرگرمیوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ خدا انھیں اسی طرح سرگرم رکھے، لیکن ان کی گرمی سے ہم سب کی حفاظت بھی فرمائے۔
(ibnekanwal@yahoo.com)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page