صاحبو! بالآخر وہ دن آہی گیا جب مجھے ڈاکٹر موصوف پر لکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ میرا لکھنا یہ عام بات ہے لیکن میں جس پر کچھ لکھ رہا ہوں وہ اردو زبان و ادب کی غیرمعمولی اور خاص شخصیت ہے۔ افسانہ، افسانچہ انہیں ڈاکٹر جاوید، شاعری شاربؔ اور احباب انہیں ڈاکٹر پالوجی کے نام نامی سے جانتے ہیں۔ جی ہاں دوستوں! میں ڈاکٹر جاوید حسن ولد محمد حسین پالوجی کی بات کر رہا ہوں۔ کوکن کے ماحول میں پلے بڑے پیشے سے ماہر طب، دراز قامت، چہرہ پر متانت، نشیلی گہری آنکھیں ، دل و دماغ میں جذبہ خدمت خلق، زبان میں اردو کی مٹھاس ، حساس دل جو اصلاح معاشرے کے لیے تڑپتا ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف احتجاجی آوازبن کر کبھی شاعری ، افسانہ کبھی افسانچے کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ صوم و صلاۃ کے پابند ، اپنے آپ کو مایہ ناز نہ سمجھنے والے ، دوستوں کے دوست، گہری سیاست بصیرت رکھنے والے، اردو کے عاشق و مخلص خدمتگار و قلم کار ایسے ہیں ہمارے پالوجی ڈاکٹر جاوید حسین شاربؔ ۔
مجھے یاد ہے ڈاکٹر صاحب کی تحریریں آئے دن اخبارات و رسائل میں چھپ رہی تھی۔ ان تحریروں نے ڈاکٹر صاحب سے غائبانہ تعارف کرایا۔ پھر ان کے افسانوں نے مراسم کو گہراکیا ۔افسانچوں نے مستحکم بنایا۔ 2011ء سولاپور میں جشن فاروقی کے موقع پر ڈاکٹر صاحب سے پہلی بار بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت اردو کے کئی درخشاں ستارے پہلی مرتبہ سولاپور تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلی ملاقات میں کئی احباب کو اپنا گرویدہ بناڈالا۔ موصوف کی سادگی و اپنے پن نے متاثر کیا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ دوسری ملاقات اعظم کیمپس میں بے ساختہ کے رسم رونمائی کے موقع پر ہوئی تھی۔ ملاقات کے دوران موصوف کی افسانہ، افسانچے/فکشن پر ڈھیر ساری گفتگو، یہی ثابت کرتی ہے کہ موصوف کی ادب کے منظر نامہ پر گہری نظرہے۔
موصوف میر اور غالبؔ کے دلدادہ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جدت اور روایت کا حسین امتزاج ہے۔ کبھی عورت کے مظلوم ہونے پر ، تو کبھی فسادات پر ندائے جاوید سنائی دیتی ہے۔ موصوف نے اگرچہ نظم بھی کہی ہیں لیکن یہ بنادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ نظم انہیں پسند ہے۔ ۔ ان کی تحریر کی کئی خصوصیات ہیں۔ سب سے اہم خصوصیت اسلوب اور زبان ہے۔ خلوص و اپنائیت ایسی کہ ہر شخص موصوف کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مجھے یاد ہے شموگا کرناٹک سے ہفت روزہ اخبار نکلتا تھا۔ اس میں موصوف کے اکثر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے میرا بھی زرِ سالانہ ادا کیا تھا جب تک وہ اخبار نکلتا رہا ، پابندی سے مجھے ملتا رہا۔ اسی طرح ممبئی سے مذہبی رسالے کا 2سالہ زرسالانہ ڈاکٹر صاحب نے ادا کرکے میرے نام جاری کروایا تھا۔ وہ بھی برابر ملتارہا۔ اس محبت و خلوص کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔ ڈاکٹر صاحب تخلیق کے قائل ہیں ۔
وہ اپنے فن پر لکھنے کے لئے کسی سے نہیں کہتے۔ ڈاکٹر جاوید پالوجی کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں لیکن چہرے پر تھکاوٹ یا پریشانی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ رہتی ہے۔ اور آنکھوں میں وہی اخلاص و محبت کی روشنی۔
میں ڈاکٹر جاوید پالوجی شاربؔ صاحب کو مبارک باد اس لیے بھی دے رہا ہوں کہ انہوں نے اپنی حیات و فن پر کتاب مرتب کرنے کو منظوری دی اور میں ان کا ممنون ہوں مجھے اس قابل سمجھا۔ ڈاکٹر صاحب کو پھر سے ایک بار مبارک باد ۔ اپنا قیمتی تعاون دینے والے قلم کاروں و احباب کا شکریہ۔ جزاک اللہ و دعا گو ہوں کہ رب العزت انہیں صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے تاکہ وہ اسی طرح اردو ادب کی آبیاری کرتے رہیں۔ آمین ثم آمین۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page