دسمبر کے آخری ہفتے کی سرد، یخ راتیں تھیں جب دانت بجتے ہوں اور سارے بدن میں ٹھنڈک ہڈیوں تک اتر کر گودا جمادیتی ہو ۔ ایسی ٹھٹھرتی سردی میں آج وہ بہت جلدی نیند کی گہری وادیوں میں کھوگئ اور ایسے راحت افزا لمحات اس کی زندگی میں کم ہی آتے تھے کہ کوفت کا سامنا کیے بنا نیند کی دیوی خود اس پہ مہربان ہوجائے یکایک اسے لگا جیسے اس کے سارے وجود کو کسی گرم لو کے تھپیڑے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو ۔ جیسے کوئی نرم گرم سا احساس اسطرح اس کو اپنی آغوش میں لے چکا ہو اور بدن میں برقی لہروں کی طرح سنسناہٹ پیدہ کر رہا ہو ایک ایساہوائی بگولہ جس میں گم ہوکر کوئی اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھے ۔ ایسے گہرے پانیوں کا گرداب جس میں غوطے کھانے کو دل کرتا ہو ۔ اس کا وجود کسی خوابیدہ سانپ کی طرح ہلکا ساکسمسایا ۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی کی سانسیں اس کی گردن کا طواف کر رہی ہوں ۔ ایسے میں گیلے بالوں سے ٹپکتی موتی جیسی بوندیں اس کے تپتے رخساروں پہ پڑیں، ایسے لگا جیسے گرم دہکتے انگاروں پہ کسی نے پانی چھڑک دیا ہو ۔ وہ نیم مدہوشی کی کیفیت میں تھی ۔ اس نے چیخنا چاہا مگر اس کی آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی ۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کی کمر کے گرد اپنے بازو حمائل کر دئیے ہوں اور اس کے وجود سے اسطرح لپٹ گیا ہو کہ اس کے پورے وجود کوخود سے ڈھانپ لیا ہو ۔ اس کے بدن میں ہلکی ہلکی لرزش کی لہریں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی اپنی مخروطی انگلیاں اس کی گردن کو ہلکے سے چھوتے ہوئے اس کے ملائم بالوں کو سہلانے لگے ۔ زبان چاہت کا لمس لیے کانوں کی لو کو گیلاکرتے ہوئے گردن اور پھر رخساروں کو نیلا کردے ۔ نرم ہونٹوں کی گیلاہٹ جب اس کو اپنےلبوں پر محسوس ہونے لگی تو وہ ایکدم اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ دل کی دھڑکنیں بے قابو، سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا ۔ اس کا پورا وجود پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ۔ اس نے گھپ اندھیرے میں چاروں طرف دیکھا ۔ اس کی نظریں جب اندھیرے سے مانوس ہوگئیں تو وہ اٹھی اور کھڑکی کے پردے کی لرزش کو دیکھ کر اور سرسراہٹ کو سن کر ٹھٹھک گئی جیسے کوئی پردے کے پیچھے کھڑا ہو ۔ پھر اس نے اپنے سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر ایکدم پردہ ہٹا دیا ۔ کھڑکی سے باہر چودھویں کا چاند پورے جوبن پر تھا جیسے وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگا ہو ۔ اس کے ذہن میں ایکدم جھماکہ ہوا اس چمکتے چاند میں اسامہ کا چہرہ نمایاں ہو رہا تھا یہ وہی مرد واحد تھا جس نے اسے اس وقت شدت سے چاہا تھا جب سب اسے ہمدردی اور سہارے کے نام پر حاصل کرنا چاہتے تھے اور اب جب اسے دنیا سے لڑنا آگیا تھا تو اچانک اس طرح کا احساس ابھرنا اسے خود حیران کر گیا دھیرے دھیرے اس کا سانس بحال ہونے لگا ۔ دھڑکنیں قابو میں آنے لگیں تو اس نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا ۔ صرف گیارہ بج رہے تھے اس نے اپنا فون اٹھایا اور ایک نمبر ملایا ۔ اسے اندازہ تھاکہ اسوقت وہ جاگ رہا ہوگا اور اپنے لیپ ٹاپ پر جھکا کام میں مگن ہوگا ۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اس کی چاہت سے منکر رہی تھی اور اس نے اس کی محبت کو کبھی اتنا بھی در خور اعتناء نہ سمجھا تھا کہ کبھی اس سے بات بھی کی جائے ۔ سالوں بیت جانے کے باوجود وہ اس کے لیے اپنی چاہت سے دستبردار نہیں ہو سکا تھا ۔ وہ اپنے تئیں دل ہی دل میں صدق دل سے اس کا ہر حال میں ساتھ دینے کا وعدہ کر چکا تھا ۔ اب وہ اس ایک لمحے کا منتظر تھاجب وہ پکارے اور وہ دوڑا چلا جائے ۔ اور پھر سب سے خوبصورت احساس کہ وہ یہ سب جانتی تھی ۔ آج پہلی بار اس کیفیت کے عالم میں اسے، اس کا ہی خیال آیا ۔ اور خیال بھی ایسا کہ باقی سارے خیال کہیں بہت دور رہ گئے ۔ اب صرف وہ ہی وہ تھا ذہن میں دل میں اس کی آنکھ میں کسی کا سوچ کر پہلی بار آنسو آئے ۔ اس نے اس طلسماتی کیفیت میں جب وہ مکمل طور پر اس کے عشق کے سحر میں گرفتار ہو چکی تھی اس کا نمبر ملایا ۔ اسے بالکل بھی انتظار کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی ، دوسری گھنٹی پر ہی فون ریسیوکر لیا گیا، "جی فرمائیے” ایک دھیمی باوقار آواز ابھری ۔ "اسامہ!…کیا اس وقت… آپ مجھ سے ملنے آسکتے ہیں”؟ ” اس نے نیم سرگوشی میں استفسار کیا ۔ سرگوشی کے سرور میں وہ کچھ دیر تک بول نہیں سکا، یہ وہی آواز تھی جسے وہ لاکھ آوازوں میں پہچان سکتا تھا، اور یہ اس ہستی کی آواز تھی جسے ملنے کی حسرت میں کئ برس یاسیت میں گزر چکے تھے، پھر دوسری طرف خاموشی کا عذاب ایک لمحہ بھی جھیلنا مشکل ہو گیا تو اسامہ چونک کر زور دیتے ہوئے بولا ” اچھا۔۔۔” وہ یہ سن کر گہری سوچ میں مستغرق ہو گئ.
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page