کسی بھی تہذیب کا کوئی بھی مطالعہ کئی اعتبار سے پیچیدہ ہوتا ہے کیوں کہ تہذیب کوئی میکانکی پراڈکٹ نہیں ہے۔ افراد کے درمیان یہ صدیوں کے شعوری، لا شعوری، جذباتی، فکری، سیاسی، جغرافیائی اور روحانی روابط کی ایک ایسی مرکب تعمیر ہے جس میں ہر لمحہ تحوّل اور تغیر کے لئے لچکداری پائی جاتی ہے۔ اس طرح تہذیب چاہے وہ کہیں کی ہو، ایک ایسا نامی تصور ہے جس کی وحدت مختلف واسطوں سے آئی ہوئی انگنت کثرتوں کے مجموعے سے بنتی ہے لیکن جس میں بڑی نامی وحدت بنانے والے اجزاء اس طرح آپس میں مل جاتے ہیں جیسے دودھ میں شکر۔ ایسی صورت میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک محلے کی تہذیب دوسرے محلے سے مختلف اور ایک شہر کی تہذیب دوسرے شہر سے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک ملک کی ایک ہی تہذیب کہلاتی ہے۔کچھ ایسی ہی ہمارے ملک ہندوستان کی تہذیب بھی ہے ۔
ہمارا ملک ہندوستان اپنی جغرافیائی اور دوسری کئی خصوصیات کی بنا پر زمانۂ قدیم سے ہی بیرون ملک کے لوگوں کے لئے خصوصی دلچسپی کا مرکز رہا ہے چنانچہ مختلف قومیں مختلف زمانوں میں یہاں وارد ہوتی رہیں اور اسے اپنا مسکن بناتی رہیں۔ بقول علامہ جمیل مظہری:
ارمینی، چینی، جاپانی
پی کر تیرا میٹھا پانی
ہوگئے سو جی جان سے تیرے
ڈال دئے گنگا پر ڈیرے
(نظم: بھارت ماتا)
کوی گرو ربندر ناتھ ٹیگور کی ایک معنی خیز نظم ’’بھارت کا سفر‘‘ میں بھی کچھ ایسا ہی پیغام ملتا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے ملک کا دامن مختلف مذہبی اور لسانی تہذیبوں کے لیے بے حد کشادہ ہے جس کی شاہد ہندوستان کی تاریخ بھی ہے ۔ نظم کا آخری بند ملاحظہ ہو جس سے ہمارے ملک کی وسعتِ قلبی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے :
اے آریا ، غیر آریا آؤ، ہندو مسلمان آؤ
آج آؤ ، سب انگریز ، کرسچن آؤ
من کو پاک کر آؤ ، برہمن سب کے ہاتھ پکڑو
اے بچھڑو آؤ ، من کے سب بوجھ اتار دو
ماں کی ممتا کی چھاؤں میں جلد آؤ
سب کے لمس سے پاک کیے مقدس جل سے
اس عظیم بحرِ ہند کا ساحل
اس کا گھاٹ ابھی بھرا نہیں ہے
ہندوستان کی اس تہذیبی تکثیریت کا ادراک مولانا آزاد کو بھی کماحقہٗ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بنیادی طور پر ہمہ جہت فکر و نظر کے حامل دانشور تھے جس کا اطلاق ان کی زندگی کے ہر پہلو پر ہوتا ہے۔ دین ، ادب ، صحافت ، سیاست … ان تمام گوشوں میں مولانا آزاد کی فکر و عمل کے درخشاں پہلو نمایاں ہیں، جس کی بنیاد تکثیری نظریے پر قائم تھی یعنی ہندوستان جیسے ملک میں دینی اور لسانی بنیادوں پر اختلاف کے باوجود اتحاد لازمی جز تھا۔
بعض ناقدین کی نظر میں مولانا آزاد کی علمی صلاحیتوں کو بچپن میں ہی جِلا مل گئی تھی۔ ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ‘ کے مصداق مولانا آزاد، جنھوں نے ایک عالم گھرانے میں شعور کی آنکھیں کھولی تھیں، کو اکتسابِ علم و ادب کے ابتدائی دور سے ہی تاریخِ اسلامیہ کے روشن پہلوؤں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ ’میثاقِ مدینہـ‘ بھی ان روشن پہلوؤں میں سے ایک تھا، جو دراصل مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مدینہ ہجرت کے بعد طے پایا تھا ۔ اس میثاق یا معاہدے کی رو سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک تحریری مفاہمت پر اتفاق رائے قائم ہوگیا تھا کہ بعض معاملات میں یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ مدینہ میں قائم اسلامی ریاست کے سربراہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ ہوںگے اور عیسائی بھی ان کی قیادت و سیادت کو تسلیم کریں گے۔ 622ء میں ہوئی بین مذہبی اشتراک کی اس اولین اور بہترین مثال کا مطالعہ مولانا آزاد نے ہندوستان آمد سے قبل ہی کرلیا تھا ، جس کے سبب وہ کلکتہ میں عیسائیوں اور سناتن دھرم کے مبلغوں کی کثرت کے باوجود ذہنی ہم آہنگی میں بہت جلد کامیاب ہوگئے۔ اس ضمن میں پروفیسر مشتاق احمد کی رائے ملاحظہ کریں :
’’… بچپن ہی میں انھوں نے میثاقِ مدینہ کا مطالعہ کیا تھا اور اس کے اسباق ان کے ذہن پر ثبت ہوگئے تھے۔ دراصل میثاقِ مدینہ اسلامی معاشرے کا ایک ایسا ضابطۂ تحریر جو نہ صرف پہلی اسلامی ریاست کا دستور تھا بلکہ عالمی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اس طرح کا ضابطۂ انسانی معاشرہ قبل ازیں تحریر نہیں ہوا تھا اور مولانا آزاد کے ذہن کے گوشے گوشے میں میثاقِ مدینہ کے چراغ روشن ہوگئے تھے اور جب ان کا خاندان ہندوستان منتقل ہوا تو ان کے اکابرین نے ایک ایسے شہر کو منتخب کیا جہاں پہلے سے ہی سناتن دھرم کے کئی مذہبی پیشوا اپنی تبلیغ کے ذریعہ عالمِ انسانیت کو سناتن دھرم کی روح ’’بسودیو کٹمبکم‘‘ یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے کے سبق سے روشناس کرانے کی جدوجہد کر رہے تھے۔…‘‘
(مضمون ’’مولانا ابوالکلام آزاد کا نظریۂ تکثیریت‘‘ روزنامہ ’’تاثیر‘‘ پٹنہ شمارہ ۱۱؍نومبر ۲۰۲۲ء)
چونکہ مولانا ایک زبردست مقرر بھی تھے اور ساتھ ہی اپنی تحریروں سے دلوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے اس لئے انگریزوں کی کڑی نظر مولانا پر رہتی تھی ۔’’الہلال‘‘ اور’’ البلاغ‘‘ جیسے اخبارات کلکتہ سے شائع کرکے ملک گیر پیمانہ پر غلامی کے خلاف جو تحریک وہ چلاتے رہے اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ہندواور مسلمان کے درمیان اتحاد کسی بھی حال میں ختم نہ ہونے پائے۔ قومی یکجہتی اور بھائی چارگی کا جذبہ بیدار کرنا اور اپنے دشمن انگریز کو ہندومسلم منافرت پھیلانے میں کامیاب ہونے نہیں دینا ان کا مقصد تھا۔ اس لیے مولانا نے اپنے مشن کو عوام کے درمیان بخوبی مشتہر کیا لیکن انگریزوں کے مظالم نے’’ الہلال‘‘ اور’’ البلاغ‘‘ کو بند کرکے اپنی جابرانہ پالیسی کے تحت افکار وخیالات کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مولانا کو رانچی اور احمد نگر جیل جیسے مقامات پر قید کر دیا جہاں انہیں صعوبتیں بھی دی گئیں اور ان کے اندر آزادی کے لئے پائی جانے والی دیوانگی کو پامال کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر پھر بھی وہ انگریزوں کی مخالفت میں نرمی برتنے کے لئے بالکل تیار نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی سے زیادہ قیمتی ملک کی دو بڑی مذہبی جماعتوں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہے اور اسی میں ملک کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ اس کا اندازہ ان کی اس مشہور تقریر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ۱۹۲۳ء میں پہلی بار کانگریس کا صدر منتخب کیے جانے کے بعد اجلاس میں کی تھی ۔ اس تقریر کا ارتکاز ہندو- مسلم اتحاد پر ہی تھا۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’آج ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج ۲۴؍گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے ، بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا۔ کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہے۔‘‘ (’’کمالِ ابوالکلام ‘‘ علی جواد زیدی ص: ۳۵)
یہ مولانا کی عملی سیاست کا نقطۂ آغاز تھا۔ اس سے پہلے وہ ایک عالم دین اور صحافی کی حیثیت سے اپنے کمالات کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ مولانا تاحیات اپنے اس موقف پر قائم رہے ۔اس طرح انھیں ہندو-مسلم اتحاد کے زبردست علم بردار کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
مولانا کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے اندر بے پناہ ادبی، علمی اور دینی صلاحیت تھی۔ ان کی تقریری خوبیوں کا بھی برٹش حکومت لوہا مانتی تھی اور عوام پر کانگریس کے پلیٹ فارم سے جو انہوں نے اثرات مرتب کئے تھے وہ قابل قدر تھے۔ مولانا آزاد ایک عظیم مدبر تھے اور ایک مدبر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ سو سال آگے تک کے حالات کو سمجھ لے اور اپنی رائے قائم کرے اور دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے واقف کرادے۔ مولانا آزاد ایک مدبر کی حیثیت سے کھرے اترے۔ وہ تقسیم ہند کی مخالفت کرتے رہے۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ مذہبی بنیاد پر کسی ملک کا بٹوارہ کتنا مضر ہوتا ہے اس کا نتیجہ ہندوستان کے مسلمان اور پاکستان کے مہاجر اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ مولانا کی لاکھ مخالفت کے باوجود ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پورا ملک آگ اور خون کی ہولی کھیلتا رہا اور برسوں تک اس کے برے نتائج سامنے آتے رہے۔ کشمیر کا مسئلہ آج بھی درد سر ہے۔ بنگال کے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ پنجاب بٹ چکا تھا۔ سندھ کے دو حصے ہوچکے تھے۔ کشمیر بھی آدھا ادھر آدھا ادھر ہے۔ یہ کیسی تقسیم تھی، یہ کیسا بٹوارہ تھا جس سے دونوں ممالک کے عوام خوش نہیں تھے۔ یہ ساری باتیں مولانا نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں جابجا پیش کی تھیں لیکن فرقہ پرستی کے زہرسے دونوں طرف دو قومی نظریہ کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تھی۔ عقل پر پٹیاں بندھ گئی تھیں دور تک دیکھنے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ شومیٔ قسمت کہ برٹش حکومت کی سازشوں سے کانگریس میں بھی دو الگ الگ فکری نظریے پروان چڑھ گئے تھے۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا آزاد نے دور اندیشی سے کام لے کر دو مختلف نظریہ کے رد کے لئے اور کانگریس کو ایک ہی پلیٹ فارم پر دیکھنے کے لئے کانگریس رہنمائوں کو وفاق (Federation)کا مشورہ دیا تھا۔ اگر اس پر عمل آوری ہوتی تو ہندوستان اور پاکستان دو ملک نہیں بنتے بلکہ قومی یکجہتی کو استحکام ملتا اور مولانا آزاد کے نقطۂ نظر کے پیش نظر دفاعی اتحاد مساوی طور پر مستحکم ہوتا اور انگریز حاکموں کے جابرانہ رویے میں بھی ایک الگ رجحان سے نفسیاتی اثر سامنے آتا لیکن مسلمانوں میں لیگی خیالات اور کانگریس میں ہندو سخت گیر نظریات کی وجہ سے جو تصادم ہوا اس کا اثر یقینی طور پر ملکی سیاست پر پڑا جس کی تفصیل مولانا آزاد کی تحریروں میں جابجا ملتی ہے۔ مولانا آزاد نے اصلاحی کوششوں کے لئے قلم کو ہتھیار بنایا اور اصلاح معاشرہ کی طرف ان کا رجحان بڑھتا گیا لیکن سیاست میں بھی ان کی پکڑ مضبوط تر ہوتی گئی جس سے نہرو جیسے دیدہ ور و سیاست داں بھی تاعمر استفادہ کرتے رہے۔ انگریز بھی یہی چاہتے تھے کہ کانگریس کے اندر کے سخت گیرہندو اور اقتدار کے لالچی اس بنیاد پر خلیج پیدا کرلیں اور یہ افواہ پھیلائی گئی کہ اس مشن میں انگریز کامیاب ہوگئے ہیں۔یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ سخت گیرہندو مسلمانوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیں گے اور ان کی قربانیوں کو فراموش کردیں گے تب مولانا آزاد بھی ذہنی طور پرالجھن کے شکار ہوئے۔ یہ بات صرف کانگریس کے کچن کیبنٹ تک ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ سیاسی گلیاروں سے لے کر عوامی شاہراہوں پر بھی موضوع بحث ہوگئی کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کو کچھ نہیں ملنے والا ہے ۔ اس موقع پر مسلم لیگی ذہنیت ابھر کر سامنے آئی اور جناح نے اس افواہ کو سنجیدگی سے لیا اور ایک نئی خود مختار حکومت کے بارے میں سوچ کر ریاست پاکستان کی مانگ کرلی۔ اس پر انگریزوں نے اپنی سازش کو کامیاب ہوتے دیکھ کر ظاہراً تو اپنا رد عمل سامنے نہیں آنے دیا لیکن دوقومی نظریہ کی وکالت کو منظوری دے دی۔ مولانا آزاد کی تمام تر کوششوں اورگاندھی جی کی یقین دہانیوں کے باوجود ملک تقسیم ہوگیا ۔پاکستان میں جناح اور ہندوستان میںنہرو اقتدار پر قابض ہوگئے۔مولانا کی جانب سے دو قومی نظریہ کی ناکامی کے لئے حکمتِ عملی بہت اپنائی گئی لیکن جناح اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے، نہرو نے اقتدار پانے میں کامیابی حاصل کی اور برٹش حکومت کی سازش ہندوستان کے ہندومسلمان کے درمیان تفرقہ پھیلانے میں کامیاب ہوگئی اور مولانا آزاد جنہوں نے جنگ آزادی کو اپنا لہو پلایا تھا، قربانیاں دی تھیں ان کے نظریہ کو تہہ خانہ میں بندکرکے رکھ دیا گیا۔ مولانا آزاد سخت گیرہندوؤں کی سازشوں کے شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کی صائب رائے ہے :
’’مولانا ابوالکلام آزاد ملک کے سچے وفادار اور ملک کی آزادی کے طلب گار تھے۔ انھوں نے اس وادیِ پرخار میں بچپن سے قدم رکھا، ساری جوانی اس میں صرف کردی اور جب آزادی کی منزل قریب آئی تو یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے کہ ہندوستانی قوم انگریزوں کے ذریعہ پھیلائی گئی فرقہ پرستی کی لپیٹ میں آگئی۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تحریر، تقریر اور عمل سے جہاں جہاں موقع ملا ، قومی ہم آہنگی کے لیے کوششیں کیں۔ …مولانا آزاد تکثیری ہم آہنگی کے بڑے علم بردار تھے۔ ہندوستانیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لیے انھوں نے جا بجا تقریریں بھی کیں۔ اتحاد و اتفاق پر ان کی تحریریں بہت دل آویز اور پراثر ہیں۔ … ‘‘
(کتاب ’’ مولانا ابوالکلام آزاد اور تکثیری ہم آہنگی ‘‘ مرتبہ: ڈاکٹر درخشاں زریں ، اشاعت: ۲۰۲۲ء ص: ۱۹)
مولانا آزاد نے جنگ آزادی میں جو قربانی دی اور جو مدبرانہ فیصلے لیے اس کا حشر بھی ہم لوگ دیکھ چکے۔ مولانا کے مطابق دو لسانی جماعتیں دو مختلف علاقے میں بٹ کر ایک ملک نہیں ہوسکتیں نتیجتاً بنگلہ دیش اس کی مثال ہے اور یہ بھی کہ دو کمیونٹی یا قوم ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں جس کو جناح نے اپنی دلیل بنائی تھی اس کی مثال ہندوستان ہے کہ درجنوں دنگوں اور فسادوں کے باوجود آج بھی ہندو-مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں اور تمام شعبہ ہائے حیات میں اشتراک کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس لئے آج مولانا آزاد غیر مسلموں میں بھی مقبول ہیں اور مسلمانوں میں بھی۔ مولانا آج کے تناظر میں جب بھی دیکھے جائیں گے تو وہ ہندو اور مسلمان کی حیثیت سے نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ آزادی کے علمبرداروں کی طرح ان کا جائزہ لیا جائے گا کیونکہ بر صغیر مشترکہ تہذیب کا گہوارہ تھا۔ اس مشترکہ تہذیب کو برباد کرنے والے لوگ کل بھی سرگرم عمل تھے اور آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس میں ہندو اور مسلمان کی کوئی قید نہیں کیونکہ نفرت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اس سے اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے اور اس سے اجتماعی طور پر قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ نظریے تو بنتے اور بگڑتے ہیں لیکن قومیں آباد رہتی ہیں اور مذہب کی بنیاد پر قائم نظریہ کسی ملک اور سیاست کے لئے مہلک ہوتا ہے۔ یہ بات کل بھی مولانا نے سمجھائی تھی اور آج بھی اس بات سے ہر آدمی اتفاق کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے تاریخی پس منظر میں ملکوں کے عروج و زوال کی داستانوں کو دیکھا تھا اور اس کے نتائج بھی مولانا کے ذہن میں تھے اس لئے وہ عوام کو ہلاکت خیزی سے بچانے کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ اس کے لئے۱۱؍سال کی عمر سے ہی انھوں نے خود کو صحافت سے جوڑا اور ’’نیرنگِ عالم ‘‘ ، ’’المصباح‘‘ ، ’’احسن الاخبار‘‘ ،’’خدنگِ نظر‘‘ اور ’’ایڈورڈ گزٹ‘‘ کی ادارت کی۔ ’’الندوۃ‘‘ لکھنؤ ، ’’وکیل ‘‘ امرتسر اور ’’دارالسلطنت‘‘ کلکتہ کے ایڈیٹوریل بورڈ میں رہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا محی الدین احمد فیروز بخت ابوالکلام آزاد کی شخصیت نابغۂ روزگار تھی اور وہ منفرد و ممتاز اُسلوب کے موجد و خاتم تھے۔ مولانا کا اُسلوب جدید ذہن کو متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ مسحور بھی کرتا ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اپنی انانیت ، بلاغت ، اشاریت ، ایمائیت ، تصویریت ، موسیقیت کے باعث نقش کاالحجر بن کر ابھرتا ہے ، دل کی بساط الٹ دیتا ہے ، افکار و نظریات و خیالات کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے۔ انھوں نے جس اسلوبِ نگارش کی بنا ڈالی اس میں شاعری اور نثر کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ان کی تقاریر کی طرح نگارشات میں بھی ہندو-مسلم اتحاد کا درس جا بجا ملتا ہے۔ اس زمانے میں ہندو-مسلم اتحاد ناگزیر بن چکا تھا ، ہندوستانیت کی بقا کے لیے لازمی تھا، جس کا احساس مولانا کی طرح دیگر دوراندیش شعرا و ادبا کو بھی تھا ۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’نیا شوالہ‘‘ کے یہ اشعار دیکھیں :
آ غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقشِ دوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ! اک نیا شوالہ اس دیس میں بنادیں
مولانا آزاد کا نظریۂ تکثیریت آفاقی تھا۔ حالاں کہ آزادیٔ وطن کے موقع پر تقسیم اور ہجرت کے دوران شرپسندوں نے ہندو-مسلم اتحاد کوپارہ پارہ کرنے کی لگاتار کوششیں کیں اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ، لیکن مولانا اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے قول و عمل سے اس نظریہ کی تبلیغ میں منہمک رہے۔ ملک کے اولین وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے جو بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ، اس میں بھی یہ نظریہ واضح طور پر ملتا ہے۔ مولانا کی ولادت یعنی’ قومی یومِ تعلیم‘ کے موقع پر ۱۱؍نومبر ۲۰۲۱ء کو قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان ، نئی دہلی کی جانب سے ’’آج کے ہندوستان کے لیے مولانا آزاد کی وراثت‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر سیّدہ سیّدین حمید (سابق رکن ، پلاننگ کمیشن اور سابق چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد) نے اپنی تقریر میں فرمایا :
’’…مولانا آزاد کی حیثیت آج کے دور میں آندھی میں چراغ جیسی ہے۔ ہندوستان کی مکمل آزادی کا تصور سب سے پہلے مولانا آزاد نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعے دیا اور بعد میں یہی قومی تحریک بن گئی اور پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔…‘‘
ان کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا :
’’آزاد ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نمایاں کردار ہے۔ …مولانا آزاد کی قیادت کا میدان بہت وسیع تھا، انھوں نے جس میدان میں بھی قدم رکھا، اپنی عظیم شخصیت کے اَنمٹ نقوش ثبت کردیے۔ …مولانا آزاد قومی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سب سے بڑے داعی تھے اور انھوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں جابہ جا متحدہ قومیت اور اس مشترک سرمایے کو موضوع ومحور بنایا، جو ہندوستانی قوم کا ہزاروں سال کا قابل فخر سرمایہ ہے اور اسی پر اپنے سیاسی نظریے کی بنیاد رکھی۔ آزاد ہندوستان میں تعلیمی منصوبہ بندی کا آغاز بھی مولانا نے ہی کیا اور ملک کے تمام طبقات کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے اسے قومی ترقی کی بنیادی شرط قرار دیا۔‘‘
مولانا آزاد ہندو-مسلم اتحاد کے جس نظریے کی پیروی ساری زندگی کرتے رہے، وہ ان کے بعد بھی ملک کی سلامتی اور بقا کا بنیادی عنصر رہا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے ۶۲؍سال گزرنے کے بعد آج بھی جب کہ وطنِ عزیز میں اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازشیں وقفے وقفے سے نمایاں ہوتی رہتی ہیں، ان سازشوں کے رد کے لیے بھی مختلف حلقوں اور گوشوں سے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ آج کا یہ عالمی سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں ہم مولانا آزاد کی ان تعلیمات اور نظریات پر غور و خوض کر رہے ہیں جو وطنِ عزیز کی بقا اور سلامتی کے لیے لازمی ہے ۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہندو – مسلم اتحاد اور تکثیری نظریے کے معاصر پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہے اور مولانا آزاد جیسے عظیم رہنما کی تعلیمات کو واضح کیا جاتا رہے۔ فراق کے اس مشہور زمانہ شعر کے ساتھ اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں :
سرزمینِ ہند پر اقوامِ عالم کے فراقؔ
قافلے آتے گئے‘ ہندوستاں بنتا گیا
٭٭٭
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
۱-اے/۱،چھاتو بابو لین ، (محسن ہال ) ، تیسری منزل کولکاتا-۱۴ موبائل : 08902496545 / 9431085816
ای میل : imamazam96@gmail.com بلاگ : drimamazam.blogspot.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |