انگریزی حکومت کے تسلط سے پہلے ہندوستان میں کئی اصلاحی تحریکیں شروع ہوئیں۔ مذہبی تصورات کی ترویج پر بالخصوص زور دیا گیا۔ اس نوع کی تحریکوں سے جنہیں منسوب کیا جاتا ہے، ان میں حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولانا سید احمد بریلوی، مولانا کرامت علی جونپوری، مولانا عبدالحئی، مولوی محمد اسمٰعیل پانی پتی اور دیگر شخصیتوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے وطن کے چپّہ چپّہ میں انس و محبت اور دعوت و تبلیغ کا علم بلند کیا۔ اسی زمانے میں انگریزی تعلیم کو ہندو دھرم کے رہنما بسر و چشم قبول کررہے تھے جب کہ مسلم قوم اور اس کے رہنماؤں نے اس انگریزی تعلیم کی مخالفت کی۔ راجہ رام موہن رائے کے بارے میں عزیز احمد لکھتے ہیں:
’’رام موہن رائے اس جماعت کے پہلے رہنما تھے اور جس مذہبی اصلاح کا انہوں نے آغاز کیا وہ پہلی اصلاحی تحریک تھی جومسیحی اثرات اور انگریزی تعلیم کے ذریعے مغربی خیالات سے جاری ہوئی۔‘‘
راجہ رام موہن رائے کے علاوہ گوپال کرشن گوکھلے اور راناڈے نے ’’پرارتھنا سماج‘‘ کی تشکیل کی۔ سوامی دیانند سرسوتی نے آریہ سماج کی بنیاد رکھی اور ویدک دھرم کا پرچار کیا۔ شری رام کرشن نے ’’رام کرشن مشن‘‘ کے ذریعہ مشرق اور مغرب کے تہذیبی اور تعلیمی عناصر و عوامل کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں میں بھی دھیرے دھیرے ایک نامعلوم سا جذبہ بیدار ہورہا تھا اور ان کے دلوں میں بھی کش مکش کی جگہ تہذیب و تمدن اور جدید تعلیم کی شمع روشن ہونے لگی تھی۔ البتہ کچھ کٹر قسم کے مسلمانوں نے نئی روشنی کو گمراہ کن سمجھا۔ اسی عہد میں سر سید کی شخصیت سامنے آئی۔ سر سید سلطنت مغلیہ کی زوال پذیری، انگریزی حکومت کے استحکام اور مسلم قوم کی تعلیمی بے چارگی و پس ماندگی کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ان کی ادبی و تعلیمی تحریک نے اس وقت کے ذہین اور قابل زعمائے قوم کو متاثر کیا۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ اور شبلی کے نام بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ شبلی نے تاریخ نگاری و سیرت نگاری اور مقالہ نگاری میں اپنی خدا داد صلاحیت سے کئی اہم آثار چھوڑے جیسے : سیرۃ النبی، سفرنامہ، المامون، الجزیہ، الغزالی، اورنگ زیب عالم گیر، سوانح عمری مولانا روم، الکلام، الفاروق، سیرت النعمان اور مقالات شبلی وغیرہ۔
شبلی کو ان کے والد جناب شیخ حبیب اللہ صاحب اکتوبر ۱۸۸۱ء میں لے کر علی گڑھ گئے جہاں مہدی حسن انٹرنس کررہے تھے۔ شبلی نے سرسید کے لیے ایک عربی قصیدہ لکھ لیا تھا جسے سن کر سرسید بہت متاثر ہوئے تھے جو بعد میں اخبار علی گڑھ گزٹ کے شمارہ مورخہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۸۱ء میں شائع ہوا۔ اس ملاقات کے بعد شبلی اور سرسید بہت قریب ہوگئے اور آگے چل کر مولانا شبلی علی گڑھ میں عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہوگئے۔ وہ اس کالج کی سیاسی اور سماجی فضا سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کا اندازہ ان کے اس موقف سے لگایا جاسکتا ہے:
’’حضرات! یہ سچ ہے کہ اگر میری زندگی کا کوئی حصہ علمی یا تعلیمی زندگی قرار پاسکتا ہے تو اس کا آغاز، اس کی نشو نما، اس کی ترقی، اس کی نمو، اس کا امتیاز جو کچھ ہوا ہے، اسی کالج سے ہوا ہے۔‘‘
علی گڑھ میں رہ کر شبلی کو قومی اور ملی دونوں قطبین کے قریب جانے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا ’’صبح امید‘‘ اسی زمانے کی مشہور نظم (مثنوی) ہے۔ اس میں ایام ماضی کی کروٹیں بھی ہیں اور اس دور کی زبوں حالی بھی، تہذیب و تمدن کی شکست و ریخت کا پر تو بھی ہے اور ثقافتی ڈھانچے کے ٹوٹنے بکھرنے کی اندوہناک داستان بھی۔ چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں:
وہ قوم کہ جان تھی جہاں کی
جو تاج تھی فرق آسماں کی
تھے جس پہ نثار فتح و اقبال
کسریٰ کو جو کرچکی پامال
وہ نیزۂ خوں فشاں کہ چل کر
ٹھہرا تھا فرانس کے جگر پر
زوال آمادہ معاشرہ اور آپسی منافقت پر شبلی کا تاثر یوں ہے:
اپنی تو ہمیں نہ کچھ خبر تھی
اوروں کے عیوب پر نظر تھی
لڑ پڑتے تھے بات بات میں ہم
ڈوبے تھے تعصبات میں ہم
برپا تھے وہ مسجدوں میں فتنے
دیکھے نہ سنے کبھی کسی نے
شبلی جس عہد میں جی رہے تھے، اس کے تقاضے اور نئی روشنی پر وہ کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
سمجھے نہ ذرا کہ وقت کیا ہے؟
کس سمت زمانہ چل رہا ہے
اب صورت ملک و دیں نئی ہے
افلاک نئے، زمیں نئی ہے
لیکن نقش زمیں رہے ہم
بیٹھے تھے جہاں وہیں رہے ہم
شبلی سر سید کی تحریک کی کورانہ تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے نظریات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد تسلیم کرتے تھے۔ خود شبلی کی تعلیم و تربیت قدیم طرز پر ہوئی مگر وقت اور اقتضائے وقت نے ان کے اندر قدیم و جدید افکار کا ایک خوبصورت امتزاج پیدا کردیا۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اگر مسلم قوم جدید تعلیم سے بے بہرہ رہ گئی تو رفتار زمانہ اسے گرد راہ بنا دے گی۔ اس امر کی تصدیق و توثیق سید صباح الدین عبدالرحمن کے اس قول سے ہوتی ہے:
’’وہ تو عربی مدارس میں بھی انگریزی پڑھانے کے لیے کوشاں رہے، فرماتے ہیں کہ اگر علماء انگریزی جانتے ہوتے تو کیا کچھ نہیں اسلام کی خدمت کرسکتے تھے۔‘‘
علی گڑھ کا کالج خالصتاً جدید علوم و فنون کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں ہندو، مسلم، انگریز ہر فرقہ کے اساتذہ تھے۔ اس فضا سے شبلی نے اپنے آپ کو کچھ اس طرح ہم آہنگ کرلیا کہ پروفیسر آرنلڈ اور دوسرے انگریز اساتذہ مولانا موصوف کے تحقیقی ذہن اور نوبہ نو علمی اور تاریخی کاموں سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ کالج کے ایام پروفیسری میں شبلی نے یہاں کے ماحول کو اہل علم کی آماجگاہ بنا دیا تھا۔ مولانا حالی بھی اکثر یہاں آتے رہے۔ محمد علی مرحوم ، مولوی عزیز مرزا، خواجہ غلام الثقلین اور مولوی عبدالحق اسی ماحول کے پروردہ ہیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کا یہ عالم تھا کہ اکثر تصنیف تین چار مہینے میںختم ہوجاتی تھی اور دوسرے ایڈیشن کی نوبت آجاتی تھی۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے رشحات قلم نے علی گڑھ کالج کو مالی تعاون بھی عطا کیا۔ سید سلیمان ندوی کا بیان ملاحظ کیجئے جس سے شبلی نعمانی کی عظمت کا پتہ چل سکے گا:
’’… ان کی نظر کیسی غائر اور ان کا علم کیسا وسیع، ان کے خیالات کیسے بلند، ان کا ذہن کیسا تیز، ان کی تحریر کیسی پر زور، ان کا بیان کیسا صاف اور ان کی تحقیق کیسی عالمانہ ہے۔ وہ ہمارے زمانے کے پہلے مصنف ہیں جنہوں نے اپنی تالیفات میں فصاحت بیان اور سلاست عبارت اور لٹریچر کی تمام خوبیوں کے ساتھ اعتدال اور بے تعصبی اور انصاف کا لحاظ رکھا… اخبار و روایات کے صدق و کذب کے دریافت کرنے کا راستہ بتایا…‘‘
مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود آخر کون سے اسباب تھے کہ مولانا شبلی سرسید کے مخالف ہوتے گئے اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ سید محمود کے زمانے میں وہ کالج سے رخصت ہوگئے؟ سر سید کے قریب رہ کر بھی شبلی ان کے سارے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ سر سید کو مختلف النوع تاویلات بہم پہنچا دیتے مگر خود الگ ہو جاتے۔ سر سید عیسائیوں کی گردن مروڑی ہوئی مرغی کو جائز قرار دیتے تھے، شبلی کہتے تھے کہ بے شک اہل کتاب کا کھانا اور ذبیحہ حلال ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ محرمات اسلام میں سے نہ ہو، سر سید دعا کی قبولیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس طرح اور بھی کئی اسباب ظاہری و باطنی تھے جن کی بنا پر شبلی اور سرسید میں اختلاف پیدا ہوتا گیا۔
’’ہیروز آف اسلام‘‘ میں حضرت عمر کی زندگی قلم بند کرنے کو سر سید پسند نہیں کرتے تھے۔ ’’الفاروق‘‘ کے وجود میں آنے سے پہلے ہی منشی سراج الدین احمد نے ۱۸۹۳ء میں سیرۃ الفاروق کے نام سے ایک کتاب لکھ دی۔ شبلی اس سے بددل ہوئے جس کے لیے سرسید نے صفائی پیش کی اور اخیر میں شبلی کے الفاروق لکھنے کے عزم صمیم پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا:
’’… اور ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے مولوی شبلی الفاروق نہ لکھیں۔ ہم مولوی شبلی سے اصرار کررہے ہیں کہ اپنا سفر نامہ ختم کرنے کے بعد الغزالیؔ یعنی لائف آف امام غزالی لکھ دیں… خدا ان کو توفیق دے کہ ہماری بات کو مانیں۔ اس کے بعد جو خدا کو منظور ہو وہ کریں، لیکن اس کے بعد بھی انہوں نے الفاروق لکھی تو ہم اس وقت ان کو کہیں گے جو کہیں گے۔‘‘
مگر شبلی کے اندر جو علمی تحقیق اور مادہ تحریر نہاں تھا اس کا تقاضا یہی تھا کہ الفاروق جیسی کتاب لکھی جائے۔ تمام تر مصروفیات، ملازمت اور اتفاقی موانع کے باوجود یہ کتاب ۱۸۹۴ء سے شروع ہوکر ۱۸۹۸ء میں مکمل ہوگئی۔ اس کے پہلے ہی جب مولانا شبلی سفر روم سے واپس آئے تھے تو سر سید نے ایک طالب علم سے انگریزی میں خط لکھوا کر حکومت فرنگ کو بھجوا دیا تھا اور شبلی جیسے نابغۂ روزگار کو خطاب سے نوازنے کی سفارش کی تھی۔ آخرکار شبلی کو شمس العلماء کا خطاب جنوری ۱۸۹۴ء میں تفویض کیا گیا۔ سرسید نے اسے مشتہر کرکے کالج کی مقصد براری کا کام بھی لیا۔ اس وقت مولانا شبلی کی عمر پینتیس سال تھی۔ مگر وہ وقت بھی آیا کہ مولانا کے تعلقات انگریزوں سے خراب ہوتے گئے۔ پان اسلام ازم کا ہّوا یورپ کے ماحول پر چھایا ہوا تھا۔ انگریزوں کو شک ہوگیا کہ مولانا اسی پان اسلام ازم کے داعی بن کر ہندوستان واپس آئے ہیں۔ شبلی کے ساتھ جاسوس بھی لگائے گئے اور کدورت اتنی بڑھی کہ انہیں سلطان ترکی سے جو تمغہ مجیدی بطور نشان محبت ملا تھا، وہ چوری ہوگیا۔ اس وقت سرسید سے بھی اختلاف بڑھ رہے تھے۔ دراصل سرسید انگریزوں کو بہت قریب رکھنا چاہتے تھے اور اسی لیے کالج میں مسلمان بچوں کی تربیت کا کام بھی انگریزوں کو دے رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کے خاص معاون اور دوست مولوی سمیع اللہ خاں بھی برہم ہوگئے تھے۔ سر سید کی طبیعت کا خاصہ تھا کہ وہ اپنی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہلوانا چاہتے تھے۔ حیات جاوید میں مولانا حالی نے ان کے اس میلان طبع کی طرف اشارہ بھی کیا ہے:
’’اس میں شک نہیں کہ سرسید احمد خاں بالکل ایک ڈسپاٹک طبیعت کے آدمی تھے، اس خصلت کو چاہو ان کے برے کاموں کی بنیاد سمجھو اور چاہو ان کے اخلاقی عیوب میں شمار کرو، بہرحال یہ خصلت ان میں ضرور تھی۔‘‘
انگریزی تعلیم کا چرچا تھا اور شبلی نے بھی اس تعلیم کی وکالت کی تھی مگر سر سید کے نظریے اور شبلی کی فکر میں بڑا فرق ہے۔ شبلی نے ایک تقریر میں کہا تھا:
’’یہ بات کہ قوم کو انگریزی میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کی نہایت ضرورت ہے، ایک ایسا دعویٰ ہے جو اپنے ثبوت میں دلیل کا بہت کم محتاج ہے۔ ظاہر ہے کہ ہماری ملکی، تمدنی، اخلاقی غرض ہر ایک طرح کی ترقی انگریزی میں اعلیٰ درجے کی تعلیم پر موقوف ہے۔‘‘
مولانا سید احمد خاں کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے۔ مسٹر بک (پرنسپل کالج) نے اپنی شاطرانہ چال سے سرسید کے دل میں یہ بٹھا دیا تھا کہ کانگریس کی مخالفت اور انگریزوں کی دوستی ہی میں دراصل کالج اور مسلمانوں کا فائدہ ہے۔ سرسید انگریزوں کی آنکھ سے دیکھنے لگے تھے اور انہیں کے کانوں سے سننے لگے تھے۔ اس طرح سیاسی پالیسی کی سطح پر بھی شبلی نے سر سید سے مخالفت کی۔ انہوں نے اپنے دوست کو ایک خط میں لکھا:
’’رائے میں ہمیشہ آزاد رہا۔ سرسید کے ساتھ سولہ برس رہا لیکن پولیٹکل مسائل میں ہمیشہ ان سے مخالف رہا اور کانگریس کو پسند کرتا رہا اور سرسید سے بارہا بحثیں رہیں۔‘‘
اس طرح کئی سطحوں پر شبلی کے اختلاف قائم رہے۔ شبلی کا سیاسی ذہن پختہ اور بالیدہ تھا۔ اس لیے وہ اتنی آسانی سے سرسید کی حامی نہیں بھرسکتے تھے۔ قوم کی فلاکت اور معاشرتی امراض کے لیے سرسید کا نسخہ یہ تھا کہ مسلمان مذہب کے علاوہ ہر چیز میں انگریز ہوجائیں۔ جب کہ شبلی یہ چاہتے تھے کہ اسلامی شعار اور اخلاق کی بقا اور تحفظ کے ساتھ ساتھ زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات کی مفید اور لائق تتبع اقدار کو اپنایا جائے۔ ان دونوں نظریوں میں بین فرق ہے۔ سرسید وضع قطع اور انگریزی اطوار کی طرف مائل رہے اور اس دھن میں قوم کی زندگی سے دور ہوتے گئے۔
سرسید کی خواہش تھی کہ ان کی سوانح عمری شبلی لکھیں۔ مگر شبلی تاویلوں اور حیلوں کے ذریعے اس سے دامن بچاتے رہے۔ آخرکار یہ کام مولانا حالی کے سپرد ہوا۔ اس طرح سرسید اور شبلی کے درمیان نظریاتی اختلافات بڑھتے گئے۔ شبلی کے خطوط میں اسی کی وضاحت ملتی ہے۔ شبلی کے علاوہ اور کئی لوگ کالج اور تحریک سے برہم ہوگئے تھے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر شبلی کی نظموں میں جو احتجاجی رنگ ملتا ہے اس پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ وہ ایک صاف گو اور بے باک عالم تھے۔ تحریر، تقریر اور شاعری میں ان کی صاف گوئی دیکھی جاسکتی ہے۔ اخلاقی اور مذہبی نظموں کے علاوہ انہوں نے متعدد نظمیں لکھیں۔ کلیات شبلی میں اس قبیل کی ۴۹ نظمیں درج ہیں۔
۱۹۱۲ء میں یوروپ کے مختلف ملکوں نے ساز باز کرکے بلقان سے ترکی پر حملہ کروا دیا۔ اس خون ریزی اور بربریت کا اثر ہندوستانی مسلمانوں پر بھی ہوا۔ غم و غصے کی ایک لہر سی پیدا ہوگئی۔ شبلی نے اس واقعہ سے متاثر ہوکر ایک نظم ’’شہر آشوب اسلام‘‘ لکھی:
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام و نشاں کب تک
چراغِ کشتۂ محفل سے اٹھّے گا دھواں کب تک
قبائے سلطنت کے گر فلک نے کردیے پرزے
فضائے آسمانی میں اڑیں گی دھجّیاں کب تک
مراکش جاچکا، فارس گیا، اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک
یہ سیلاب بلا بلقان سے جو بڑھتا جاتا ہے
اسے روکے گا مظلوموں کی آہوں کا دھواں کب تک
شبلی کے سامنے مراکش اور فارس کا تاریخی پس منظر بھی ہے۔ ان کی فکر میں خلوص اور احساس کی شدت ہے۔ ٹرکی کو ’’مریض سخت جاں‘‘ کہنا بڑی ہی اندوہناک تصویر پیش کرتا ہے۔ اس نظم کا عروج ملاحظہ کیجئے:
یہ مانا تم کو تلواروں کی تیزی آزمانی ہے
ہماری گردنوں پر ہوگا اس کا امتحاں کب تک
کہاں تک لوگے ہم سے انتقامِ فتح ایوبی
دکھاؤ گے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
بکھرتے جاتے ہیں شیرازۂ اوراق اسلامی
چلیں گی تند بادِ کفر کی یہ آندھیاں کب تک
نظم کا اختتام یوں ہوتا ہے:
جو ہجرت کرکے بھی جائیں تو شبلی اب کہاں جائیں
کہ اب امن و امان شام و نجد قیرواں کب تک
اس جنگ میں طبی امداد کے لیے مولانا محمد علی نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو علی گڑھ سے وفد لے کر بھیجا۔ شبلی نعمانی بھی لکھنؤ پلیٹ فارم پر الوداع کہنے کو حاضر تھے، ان کے اندر جو جوش، جذبہ اور ہیجانی کیفیت تھی اس کا اندازہ شیخ اکرام کے اس قول سے ہوگا:
’’گاڑی روانہ ہونے لگی تو انہوں نے (شبلی) و فور جوش میں چاہا کہ ڈاکٹر انصاری کے پاؤں کا بوسہ لیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس وقت بوٹ پہن رکھے تھے۔ علامہ ان ہی سے لپٹ گئے۔ لب سے بوٹوں کے بوسے لیے۔ آنسوؤں سے ان کے گرد و غبار کو دھویا اور اس طرح اس مجسمۂ جوش و جذبات نے اپنے سوز دروں کو ٹھنڈا کیا۔‘‘
پھر جب ڈاکٹر مختار احمد انصاری وفد لے کر واپس آئے تو بمبئی میں ان کے خیر مقدم میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں شبلی نے ایک خوبصورت نظم لکھی اور پڑھی تھی۔ صرف دو اشعار پیش کئے جاتے ہیں:
تمہارا دردِ دل سمجھیں گے کیا ہندوستاں والے
کہ تم نے وہ مظالم ہائے گونا گوں بھی دیکھے ہیں
لہو کی چادریں دیکھی ہیں رخسارِ شہیداں پر
زمیں پر پارہ ہائے سینۂ پرخوں بھی دیکھے ہیں
مسلمانوں کا درد اور مسلمان کی ہمہ گیر اخوت اور آفاقی محبت کو شبلی کی سیاسی نظموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر ہم چاہیں گے کہ ڈاکٹر سجاد ظہیر کا یہ موقف دہرایا جائے :
’’… وہ اسلامیان ہند کی تہذیبی زندگی کے اس موڑ کے راہ نما ہیں جہاں پر سر سید کا بنایا ہوا راستہ تاریخی اعتبار سے ختم ہوتا ہے اور وہ شاہراہ آزادی شروع ہوتی ہے جس پر ابوالکلام آزاد، محمد علی، مختار احمد انصاری اور خود علامہ اقبال جیسی مقتدر ہستیاں گامزن نظر آتی ہیں۔‘‘
شبلی نعمانی نے سیاست سے متعلق جو مضامین لکھے یا جو آزادانہ نظمیں لکھیں وہ اس عہد کے قومی و ملی مسئلوں اور کش مکشوں کا نتیجہ تھیں۔ چونکہ شبلی کبھی تملّقانہ روش پر نہیں چلے اس لیے وہ عزیز سے عزیز دوست کی مخالفت بھی شدومد کے ساتھ بیباکانہ کرتے تھے۔ وہ کبھی اس کی فکر نہیں کرتے کہ احباب کیا کہیں گے یا پھر یہ کہ ان کے دو ٹوک فقرے کا لوگوں پر کیا تاثر مرتب ہوگا۔ اس میلان طبع کی توثیق کے لیے کبھی کبھی یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
خاطر یک دو کس ارشاد شود از بس است
زندگانی بہ مراد ہمہ کس نتواں کرد
اس طرح کی سیاسی نظموں میں حادثہ کانپور سے متاثر ہوکر لکھی گئی نظم بھی پرخلوص آہ و فغاں کی سچی تصویر ہے۔ اس واقعہ کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے ۱۹۱۴ء لکھا ہے، عبداللطیف اعظمی نے ۱۹۱۲ء بتایا ہے جب کہ مولینا شبلی نعمانی کے جانشین سید سلیمان ندوی صاحب نے ۱۹۱۳ء لکھا ہے جو زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ایسے بھی ۱۹۱۴ء میں مولینا شبلی نعمانی صاحب فراش تھے اور تقریباً ستمبر ۱۹۱۴ء سے ہی لکھنے پڑھنے کا کام موقوف تھا اور ۱۸؍نومبر ۱۹۱۴ء کو وفات پائی۔ مذکورہ بالا حادثہ کا پس منظر یہ تھا کہ کانپور کی ایک مسجد کے کسی حصہ کو منہدم کرکے سرکاری طور پر سڑک نکالی گئی۔ مسلمانوں نے جلوس نکالا اور بکھری ہوئی اینٹوں کو یکجا کرکے دیوار بنانے لگے۔ یہ دیکھ کر ڈپٹی کمشنر کانپور نے فوجوں کو فائرنگ کا حکم دے دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم جانبازوں کی لاشیں بچھ گئیں۔ اس وقت مولینا شبلی ممبئی میں تھے۔
حادثہ کانپور کا پورے ملک میں چرچا تھا۔ مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی دبی چنگاری سر ابھارنے لگی۔ اسی عہد میں مولانا ابوالکلام آزاد الہلال (کلکتہ) کے ذریعے ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کے معدوم ہونے سے آگاہ کررہے تھے۔ زمیندار اور الہلال دونوں میں اس سلسلے کی کئی نظمیں شائع ہوئیں۔ شبلی کی یہ نظم مختصر ہے جو محض نو شعروں پر مبنی ہے، مگر جامع اور دل گداز تاثر سے معمور ہے۔ پوری نظم یہاں پیش کی جارہی ہے:
کل مجھ کو چند لاشۂ بے جاں نظر پڑے
دیکھا قریب جاکے تو زخموں سے چور ہیں
کچھ طفل شیر خوار ہیں جو چپ ہیں خود مگر
بچپن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں
آئے تھے اس لیے کہ بنائیں خدا کا گھر
نیند آگئی ہے منتظرِ نفخِ صور میں
کچھ نوجواں ہیں بے خبرِ نشّۂ شباب
ظاہر میں گرچہ صاحب عقل و شعور ہیں
اٹھتا ہوا شباب یہ کہتا ہے بے دریغ
مجرم کوئی نہیں ہے مگر ہم ضرور ہیں
سینے پہ ہم نے روک لیے برچھیوں کے وار
ازبسکہ مست بادۂ ناز و غرور ہیں
ہم آپ اپنا کاٹ کے رکھ دیتے ہیں جو سر
لذّت شناسِ ذوقِ دل ناصبور ہیں
کچھ پیر کہنہ سال ہیں دلدادۂ فنا
جو خاک و خوں میں بھی ہمہ تن غرق نور ہیں
پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟ آئی یہ صدا
ہم کشتگانِ معرکۂ کانپور ہیں
اس طرح کی اور بھی سیاسی نظمیں ہیں مگر یہاں سب کا جائزہ نہ مقصود ہے اور نہ لازمی۔ اس نمونے اور جائزے سے شبلی کی ذہنی اور فکری روش اور طرز رد عمل دونوں پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ پر بھی نظم لکھی اور ندوۃ العلماء پر بھی اور ہر ایک نظم کا خاص پس منظر ہے۔ جس طرح سرسید اور ان کے رفقا جدید مغربی تعلیم کو مسلم قوم کا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتے تھے اور جس طرح انگریزوں جیسے وضع قطع اختیار کرنے کو بھی ضروری قرار دیتے تھے، اسی طرح نیچر پرستی کا غلغلہ کچھ ایسا بلند ہوا تھا کہ زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ مذہبی امور میں بھی عقلیت سرایت کرگئی۔ گویا نیچر اور عقل کو مذہبی عقائد پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ سیاسی امور میں بھی مصلحت کوشی سما گئی۔ اس صورت حال میں مولانا شبلی نے سرسید کی تحریک اور تعقل پسندی میں اعتدال پیدا کیا۔ شبلی اس بات کے معترف تھے کہ دوسری قومیں مغربی تعلیم کی بدولت ہی ترقی کی منزلیں طے کررہی ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھی مغربی علوم و فنون سے کرنیں کسب کرکے اپنی تعلیمی زندگی منور کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی اپنی قومیت کی بقا کے لیے تعلیم کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ شبلی اپنے دوسرے ہمعصروں کی طرح مسلمانوں کی روبہ زوال زندگی اور تعلیمی پس ماندگی کا علاج کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے شبلی اسکول میں کٹّر مولویوں کے اختلافات کے باوجود انگریزی مضمون کو رائج کیا اور اسی طرح ندوۃ العلماء میں انگریزی تعلیم کو قائم کیا مگر وہ سر سید یا اپنے دوسرے ہم عصروں کی طرح کورانہ تقلید سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ ہر امر اور نظریے کی چھان پھٹک کرکے ہی اسے لائق عمل قرار دیتے تھے۔ وہ انگریزوں کی ہر پالیسی کو بغائر سمجھنے کی کوشش کرتے تھے جس کی تائید پروفیسر عبدالمغنی نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’شبلی ہندوستان کے مسلم زعماء میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اہل فرنگ کی مکّاریوں کو سمجھا۔ ان کے نظریات سے مرعوب نہیں ہوئے اور ان کے ساتھ قوم کا مستقبل وابستہ کرلینے کو مہلک تصور کیا۔ ملی اصلاح کے لیے شبلی کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی جدوجہد کے لیے اسلامی خطوط ہی کو موزوں اور کارگر قرار دیا۔‘‘
(رسالہ جامعہ شمارہ: ۱،۲،۳، ۱۹۹۵ء— کتاب ’’سرسید سے اکبر تک‘‘ میں شامل، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ دہلی)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page