Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 24, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 21, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 8, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      ساختیات پس ساختیات بنام مشرقی شعریات – ڈاکٹرمعید…

      جولائی 15, 2022

      تحقیق و تنقید

      اسلوبیاتِ میر:گوپی چند نارنگ – پروفیسر سرورالہدیٰ

      جون 16, 2022

      تحقیق و تنقید

      املا، ہجا، ہکاری، مصمتے اور تشدید کا عمل…

      جون 9, 2022

      تحقیق و تنقید

      بیدل ،جدیدیت اور خاموشی کی جمالیات – پروفیسر…

      جون 7, 2022

      تحقیق و تنقید

      "تدوین تحقیق سے آگے کی منزل ہے” ایک…

      مئی 11, 2022

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      سنت رسول ﷺ – سید سکندر افروز

      مارچ 11, 2023

      اسلامیات

      ادارۂ شرعیہ کا فقہی ترجمان ’الفقیہ‘ کا تجزیاتی…

      فروری 21, 2023

      اسلامیات

      سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات…

      جنوری 1, 2023

      اسلامیات

      اقسام شھداء:کیا سیلاب میں مرنے والے شہید ہیں؟…

      ستمبر 6, 2022

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادب کا مستقبل

      تحریک آزادی میں اردو ادب کا کردار :…

      اگست 16, 2022

      ادب کا مستقبل

      جنگ آزادی میں اردو ادب کا کردار –…

      اگست 16, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      خطرہ میں ڈال کر کہتے ہیں کہ خطرہ…

      مئی 13, 2022

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تراجم

      گیتا کا اردو ترجمہ: انور جلالپوری کے حوالے…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      تعلیم

      تغیر پذیر ہندوستانی سماج اور مسلمانوں کے تعلیمی…

      اگست 15, 2022

      تعلیم

      دوران تدریس بچوں کے نفسیاتی مسائل اور ان…

      جولائی 12, 2022

      خبر نامہ

      ہندی غزل کو اردو غزل کے سخت معیارات…

      مارچ 24, 2023

      خبر نامہ

      ڈاکٹر زرین حلیم کے شعری مجموعہ ’’آٹھ پہر‘‘…

      مارچ 22, 2023

      خبر نامہ

      ثقافتی تقاریب کا بنیادی مقصد طلبہ کو علمی…

      مارچ 22, 2023

      خبر نامہ

      جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سالانہ انٹرفیکلٹی مقابلوں کے…

      مارچ 22, 2023

      خصوصی مضامین

      لمعہ طور مظفر پور – حقانی القاسمی

      مارچ 25, 2023

      خصوصی مضامین

      منشی نول کشور کی شخصیت اور صحافتی خدمات…

      مارچ 16, 2023

      خصوصی مضامین

      جونپور کا تخلیقی نور – حقانی القاسمی

      مارچ 6, 2023

      خصوصی مضامین

      خالد ندیم : نُدرتِ تحقیق کی ایک مثال…

      فروری 8, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جہیز ایک لعنت اور ائمہ مساجد کی ذمہ…

      جنوری 14, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بھارت جوڑو یاترا کے ایک سو دن مکمّل:…

      دسمبر 18, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بدگمانی سے بچیں اور یوں نہ کسی کو…

      دسمبر 2, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جشنِ میلاد النبیﷺ: ایک تجزیاتی مطالعہ – عبدالرحمٰن

      اکتوبر 9, 2022

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      لمعہ طور مظفر پور – حقانی القاسمی

      مارچ 25, 2023

      متفرقات

      ہندی غزل کو اردو غزل کے سخت معیارات…

      مارچ 24, 2023

      متفرقات

      ڈاکٹر زرین حلیم کے شعری مجموعہ ’’آٹھ پہر‘‘…

      مارچ 22, 2023

      متفرقات

      ثقافتی تقاریب کا بنیادی مقصد طلبہ کو علمی…

      مارچ 22, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
اردو ادب میں نعت گوئی – ڈاکٹر داؤد...
آخر شب کے ہم سفر میں منعکس مشترکہ...
تحقیقی خاکہ نگاری – نثار علی بھٹی
غالبؔ کی قصیدہ گوئی: ایک تنقیدی مطالعہ –...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      مارچ 25, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 24, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 21, 2023

      کتاب کی بات

      فروری 8, 2023

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      ساختیات پس ساختیات بنام مشرقی شعریات – ڈاکٹرمعید…

      جولائی 15, 2022

      تحقیق و تنقید

      اسلوبیاتِ میر:گوپی چند نارنگ – پروفیسر سرورالہدیٰ

      جون 16, 2022

      تحقیق و تنقید

      املا، ہجا، ہکاری، مصمتے اور تشدید کا عمل…

      جون 9, 2022

      تحقیق و تنقید

      بیدل ،جدیدیت اور خاموشی کی جمالیات – پروفیسر…

      جون 7, 2022

      تحقیق و تنقید

      "تدوین تحقیق سے آگے کی منزل ہے” ایک…

      مئی 11, 2022

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      سنت رسول ﷺ – سید سکندر افروز

      مارچ 11, 2023

      اسلامیات

      ادارۂ شرعیہ کا فقہی ترجمان ’الفقیہ‘ کا تجزیاتی…

      فروری 21, 2023

      اسلامیات

      سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات…

      جنوری 1, 2023

      اسلامیات

      اقسام شھداء:کیا سیلاب میں مرنے والے شہید ہیں؟…

      ستمبر 6, 2022

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل All
      ادب کا مستقبل

      نئی صبح – شیبا کوثر 

      جنوری 1, 2023

      ادب کا مستقبل

      غزل – دلشاد دل سکندر پوری

      دسمبر 26, 2022

      ادب کا مستقبل

      تحریک آزادی میں اردو ادب کا کردار :…

      اگست 16, 2022

      ادب کا مستقبل

      جنگ آزادی میں اردو ادب کا کردار –…

      اگست 16, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث اور نوشاد منظر- ڈاکٹر عمیر منظر

      ستمبر 10, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      خطرہ میں ڈال کر کہتے ہیں کہ خطرہ…

      مئی 13, 2022

      تراجم

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      تراجم

       یو م آزادی/ راجندر یادو – مترجم: سید کاشف 

      اگست 15, 2022

      تراجم

      مسئلہ،تُم ہو !/( چارلس بکؤسکی ) – نُودان…

      جولائی 25, 2022

      تراجم

      گیتا کا اردو ترجمہ: انور جلالپوری کے حوالے…

      جولائی 25, 2022

      تعلیم

      قومی یوم تعلیم اورمولانا ابوالکلام آزاد (جدید تعلیم…

      نومبر 11, 2022

      تعلیم

      فن لینڈ کا تعلیمی نظام (تعلیمی لحاظ سے…

      اگست 29, 2022

      تعلیم

      تغیر پذیر ہندوستانی سماج اور مسلمانوں کے تعلیمی…

      اگست 15, 2022

      تعلیم

      دوران تدریس بچوں کے نفسیاتی مسائل اور ان…

      جولائی 12, 2022

      خبر نامہ

      ہندی غزل کو اردو غزل کے سخت معیارات…

      مارچ 24, 2023

      خبر نامہ

      ڈاکٹر زرین حلیم کے شعری مجموعہ ’’آٹھ پہر‘‘…

      مارچ 22, 2023

      خبر نامہ

      ثقافتی تقاریب کا بنیادی مقصد طلبہ کو علمی…

      مارچ 22, 2023

      خبر نامہ

      جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سالانہ انٹرفیکلٹی مقابلوں کے…

      مارچ 22, 2023

      خصوصی مضامین

      لمعہ طور مظفر پور – حقانی القاسمی

      مارچ 25, 2023

      خصوصی مضامین

      منشی نول کشور کی شخصیت اور صحافتی خدمات…

      مارچ 16, 2023

      خصوصی مضامین

      جونپور کا تخلیقی نور – حقانی القاسمی

      مارچ 6, 2023

      خصوصی مضامین

      خالد ندیم : نُدرتِ تحقیق کی ایک مثال…

      فروری 8, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جہیز ایک لعنت اور ائمہ مساجد کی ذمہ…

      جنوری 14, 2023

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بھارت جوڑو یاترا کے ایک سو دن مکمّل:…

      دسمبر 18, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      بدگمانی سے بچیں اور یوں نہ کسی کو…

      دسمبر 2, 2022

      سماجی اور سیاسی مضامین

      جشنِ میلاد النبیﷺ: ایک تجزیاتی مطالعہ – عبدالرحمٰن

      اکتوبر 9, 2022

      فکر و عمل

      اور سایہ دار درخت کٹ گیا – منہاج الدین…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

      ابّو جان (شیخ الحدیث مولانا محمد الیاس بارہ…

      فروری 22, 2022

      فکر و عمل

       مولانا عتیق الرحمن سنبھلی – مفتی محمد ثناء الہدیٰ…

      فروری 15, 2022

      فکر و عمل

      ابوذر غفاری ؓ- الطاف جمیل آفاقی

      جنوری 19, 2022

      متفرقات

      لمعہ طور مظفر پور – حقانی القاسمی

      مارچ 25, 2023

      متفرقات

      ہندی غزل کو اردو غزل کے سخت معیارات…

      مارچ 24, 2023

      متفرقات

      ڈاکٹر زرین حلیم کے شعری مجموعہ ’’آٹھ پہر‘‘…

      مارچ 22, 2023

      متفرقات

      ثقافتی تقاریب کا بنیادی مقصد طلبہ کو علمی…

      مارچ 22, 2023

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
کتاب کی بات

by adbimiras نومبر 19, 2022
by adbimiras نومبر 19, 2022 0 comment
مصداق اعظمی کی کتاب ‘ چھاؤں سے دھوپ تک’ ایک معروضی جائزہ – علیزے نجف
۔
زبان و بیان کو اس کی فنی و تکنیکی مہارت کے ساتھ استعمال کرنے سے ادب کے وجود کی تخلیق ہوتی ہے۔ ادب اقدارِ زندگی اور زمانہ، ماحول، معاشرتی تہذیب اور مروجہ ثقافت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ تخلیق کار کی شخصیت سازی اور ذہن سازی میں ماحول اور اس میں بسنے والے لوگوں کے تربیتی اصولوں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ایک تخلیق کار انھیں نظریات کو اپنے حسن بیان کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتا ہے  جس کا کہ وہ ساری زندگی مطالعہ و مشاہدہ کی صورت تجربہ کرتا ہے۔ یہ ایک فطری رویہ ہے۔ فنی و جمالیاتی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے سماجی و ثقافتی اقدار کی آمیزش کے ساتھ جب ادب کی تخلیق کی جائے تو اس کی تفہیم کرتے وقت دیگر تشبیہاتی عناصر سے اس کی تعبیر کرنے کی کوشش کرنا بھی ایک فطری عمل ہے۔ جس کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے۔ لسانی و شعری روایتوں کے ساتھ ساتھ عصری نظریات کی شمولیت سے ادب کی تخلیق  کرنے کو ہمیشہ سے مستحسن خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اور ادب کی بساط پر مجتہدانہ روش اپنانے کی ہمیشہ سے کوشش کی جاتی رہی ہے اعلی ادب اسی وقت وجود پزیر ہوتا ہے جب لسانی و موضوعی اور فنی و جمالیاتی اقدار و روایات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ قارئین کے لئے اجنبی شئے نہ رہے اور اسے پڑھتے ہوئے فکری ہم آہنگی کا احساس اس کے اندر پیدا ہو اور اسے عام زندگی سے متعلق کر کے دیکھ اور سمجھ بھی سکے۔ اییسی اصطلاحات جو کہ عملی بساط پہ اپنی حیثیت نہ منوا سکیں وہ بہت جلد اپنا وجود کھو دیتی ہیں اس لئے ادب کا قابل فہم بھی ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ رولان باتھ کے بقول "شعریات مخصوص ادب پارے کی تخلیق کے بجائے ادب کے قابل فہم ہونے کو اہمیت دیتی ہے”  بےشک کسی بھی ادب کا قابل فہم ہونا اس کی مقبولیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایک ایسا ادب جس کے فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کو پڑھ کر قاری مرعوب تو ہو جاتا ہے  لیکن اس کی تفہیم و تعبیر کرنے میں ناکام رہتا ہے اس سے بہتر وہ ادب ہے جو کہ اپنی سادہ بیانی اور سہل ممتنع ہونے کی وجہ سے قاری کے ذہن پر اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔  اور وہ ادب جو کہ کتابوں کے اوراق تک محفوظ ہو اکثر متروک خیال کر لیا جاتا ہے گردش وقت کی دھول میں اکثر ان کے نقوش پھیکے پڑ جاتے ہیں جب کہ عام فہم اور ہمارے ارد گرد کی تہذیب و روایت کی عکاسی کرنے والا ادب جاوداں رہتا ہے کیوں کہ وہ زندہ انسانوں کی عام زبان و بیان کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔
ادبی زبان و بیان کو باہم مربوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں منطقی پہلوؤں کی بھی نشاندھی کی گئ ہو جس میں تخلیق کار کے ذوق کی تسکین کے ساتھ ایک قاری کے ذوق کو پروان چڑھانے والے مواد ہوں ایسے ہی ادب کو فن پارے کا مقام حاصل ہوتا ہے کیوں کہ اعلی ادب محض اپنے لفظوں کے معانی تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے مفاہیم کی گہرائی لفظوں کے معنوی حدوں سے کہیں آگے تک ہوتی ہے۔ غیر معیاری اسلوب، عامیانہ الفاظ تشبیہ یا استعارے کی خامی اور بےربط جملوں کی ترتیب ہمیشہ سے ہی اعلی ادب کی تخلیق میں مانع رہی ہے۔ شعریت ہو یا نثریت دونوں کے ہی اپنے اصول اور تقاضے ہوتے ہیں جسے کہ ہم قاعدہ کلیہ بھی کہہ سکتے ہیں اور بنیادی ضرورت بھی اس لئے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
ادب کی بساط پہ نثریت و شعریت کی اپنی اپنی تاریخ رہی ہے جو کہ مسلمہ وجود کی حیثیت رکھتی ہے شعریت کی تعریف کرتے ہوئے ہم نظم نگاری کی صنف کو نظر انداز نہیں کر سکتے اگر چہ یہ کئی اصناف کے مقابلے میں جدیدیت کا مقام رکھتی ہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے اردو نظم کی ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا طور پہ کہا ہے "قدما کے یہاں لفظ نظم کا استعمال نثر کے باالمقابل شاعری کے لئے ہوا کرتا تھا اس طرح جملہ اصناف سخن کو نظم کہا جا سکتا ہے لیکن نظم کی اصطلاح جو فی زمانہ رائج ہے مغرب سے درآمد کی ہوئی بہت سی اصطلاحوں کی طرح اپنا مخصوص مقام رکھتی ہے” اس بیانیہ کی روشنی میں یہ بات بلاتوقف کہی جا سکتی ہے نظم بلاشبہ ایک جدید صنف ہے لیکن اس کے مفہوم کی جامعیت پر شک نہیں کیا جا سکتا یہ آزاد بھی ہوتی ہے اور مخصوص ہیئت کی پابند بھی اس میں بھی ایک طرح کا ردھم ہوتا ہے جو کہ متوازن ہونے کے ساتھ تسلسل کا احساس بھی رکھتا ہے۔ غزل گوئی کی طرح نظم نگاری کی بھی اپنی ایک شناخت ہے فی زمانہ نثری نظموں کو خاصی پزیرائی حاصل ہوئی ہے اس کو کہنے کے لئے اتنی ہی مشاقی اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ دوسری اصناف پہ طبع آزمائی کرتے ہوئے چاہئے ہوتی ہے۔
معری  اور آزاد نظموں کی روایت عبد الحلیم شرر سے شروع ہو کر ترقی پسند تحریک کے دور تک مضبوط و مستحکم ہوتی چلی گئ اس روایت کو انیسویں صدی کے اواخر کے ادبی رسائل و جرائد نے فروغ دیا بیسویں صدی میں بھی نظم نگاری کی جدید ہیئتوں کو خوب پزیرائی ملی۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ  موجودہ اکیسویں صدی میں بھی  نظم نگاری کی زرخیزی نمایاں ہے اور اس صنف میں موضوعات کی بہتات بھی نظر آتی ہے اور اسالیب کی وسعت بھی۔  اس میں شعراء نے اپنے احساسات و جذبات کو اس خوبصورتی کے ساتھ سمویا ہے کہ قاری مبہوت سا ہو جاتا ہے نظم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سادہ بیانی کے ساتھ ساتھ جامعیت اور بلاغت بھی پائی جاتی ہے اور لفظوں کی غیر ضروری ہم آہنگی کی شرائط سے آزاد ہوتی ہے اس میں خیالات کو اس ربط و تسلسل کے پیش کیا جاتا ہے کہ شاعر اس میں اپنے تجربات و مشاہدات کو  کسی الجھن اور عروضی کشمکش میں پڑے بغیر بآسانی بیان کرسکتا ہے اس کے لئے  موزوں طبیعت اور رجحانات کا ہونا ہی کافی خیال کیا جاتا ہے ۔ 
کسی نظم کی عمدگی کی علامت یہ ہے کہ اگر اس میں ایک بھی سطر نکال دی جائے  تو پوری نظم کا مفہوم متاثر ہو جائے اس لئے عمدہ نظم کہنے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر نظم کہنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو پوری مشاقی اور چابک دستی کے ساتھ استعمال کرے ۔ موجودہ وقت میں بھی بےشمار شعراء نے نظم نگاری کے فن کو بڑی کامیابی کے ساتھ نبھایا ہے اور ایسی نظمیں کہی ہیں جو آنے والے وقتوں میں ادب کا گرانقدر سرمایہ کہلائیں گی ۔ ان کی ادبی خدمات کا اعتراف ابھی بھی کیا جا رہا ہے۔ جن کی نظموں نے مجھے ازحد متاثر کیا انھیں میں سے ایک نام مصداق اعظمی کا بھی ہے جن کا تعلق اعظم گڈھ جیسی مردم خیز اور علم آشنا سرزمین سے ہے ۔ اعظم گڈھ کی مٹی سے اٹھنے والے بےشمار ذروں نے جس طرح بلندی کی حدوں کو پہنچ کر روشن تابناک تابناک ستارے کی طرح اپنی روشنی سے معاشرتی اندھیاروں کو شکست دی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ شبلی نعمانی ، حمید الدین فراہی، اور سہیل اقبال جیسی قدآور شخصیات کی یہ سرزمین سے اٹھنے والا ہر ذرہ تا بہ فلک اپنے نقوش مرتسم کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور یہ ذرے اپنے اسلاف کی علمی وراثت اور کارہائے نمایاں کی آن بان کو قائم رکھے گی۔
مصداق اعظمی بھی ایک ایسا ہی ذرہ ہیں جو نیر اعظم بننے کی تڑپ خود میں رکھتے ہیں۔ انھوں نے اعظم گڈھ کے نواحی علاقے میں رہتے ہوئے لالٹین کی زرد روشنی میں جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ چلتے چلتے برقی اجالوں کی کرنوں کو چھو چکا ہے جس میں انھوں نے نشیب بھی دیکھے اور فراز کا بھی تجربہ کیا ان کی زندگی بھی عام انسانی زندگی کی طرح خار و گل کا مجموعہ رہی لیکن انھوں نے اس کو عام انسان کی طرح جینے کے بجائے ایک شہسوار کی طرح جیا جو میدان علم و ادب میں بارہا گرا لیکن کبھی اٹھ کر کر دوبارہ کھڑے ہونے میں نہ کوئی عار سمجھا اور نہ ہی تھکن و مایوسی کا شکار یوئے۔ ان کی یہ پیچ و خم سے آلودہ زندگی کبھی معاندین کی سازش کا شکار ہوئی تو کبھی اپنوں کے دئیے گئے زخم سے لہو زار ہوئی پھر انھیں اپنوں کی صف میں انھیں کچھ ایسے لوگ بھی میسر ہوئے جنھوں نے اپنے التفات و محبت اور خلوص سے ان کے سارے زخموں کی کسک کی لو کو مدھم کردیا غرضیکہ مصداق اعظمی ایسی شخصیت کا نام ہے جنھوں نے کانٹوں کی سیج پہ بھی رہتے ہوئے آگے بڑھنا سیکھا ہے پھولوں کی نرمی میں رہ کر بھی خوشیوں کی بے ثباتی کا تجربہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ذہن کے سارے خانوں علم و حلم کی روشنی سے اجالنے کی تگ و دو کی ہے۔ انھوں نے زندگی کو زندگی جینے کے سلیقے کے ساتھ گذاری ہے۔ جب ایسا انسان کسی فنکار کی طرح بساط ہستی پہ اپنے فن کو منعکس کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ میں مرکز توجہ بننے کی صفت بھی پیدا کر لیتا ہے۔
مصداق اعظمی نے بلال احمد خان کے نام سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا جوں جوں یہ سفر دراز ہوتا گیا اسی رفتار سے ان کا شعور نئی اڑان بھرتا گیا یہاں تک کہ ان کے نام اور تخلص نے بھی کروٹ لی اور وہ مصداق اعظمی بن کر جہان ادب میں جلوہ پزیر ہوگئے۔ انھوں نے اپنے فن کو اس طرح تراشا کہ بازار ادب میں وہ کسی کے لئے اجنبی نہیں رہا۔ ان کے لفظ ان کی پہچان بن گئے۔ 
انھوں نے اب تک ےمتک بےشمار غزلیں اور نظمیں کہیں ہیں حال ہی میں ان کی نظموں کا مجموعہ ‘چھاؤں سے دھوپ تک’ اشاعتی مراحل سے گذر ادبی حلقے میں متعارف ہو چکا ہے جو کہ نظموں پر مشتمل ہے۔  ابتدائی عمر میں ہی وہ شعر گوئی اور سخن فہمی کی طرف مائل ہوگئے انھوں نے اس تواتر اور جذب دل سے لکھا تھا کہ اب سے کئی سال پہلے ہی ان کے کلام کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ چکی تھی لیکن ان کی خوب سے خوب تر کی جدو جہد نے انھیں اس بات پر قائل ہی نہیں کر سکی کہ وہ ان کو مجموعہ کی صورت دے کر تکیمل و تتمہ کی حد کو پہنچا دیں ۔ بلآخر کئی سالوں کی محنت و ریاضت کے بعد ان کا یہ مجموعہ ایک شاہکار کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
ان کا ادبی سفر جو کسی استاد کی سربراہی کے بغیر شروع ہوا تھا اور کافی عرصہ تک یوں ہی چلتا رہا تھا اور اس دوران ان کی والدہ ہی ان کی اولین سامع تھیں اور ان کے حوصلوں کو مہمیز دینے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ بعد میں جب ان کے والد نے ان کی شعری کوششوں کو دیکھا تو اول تو انھیں لگا کہ میرا بیٹا ایسے پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وہ سکت نہیں رکھتا  شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے کہا کہ مانا کہ یہ شعرگوئی اس کا شوق ہے لیکن اس کو غزل جیسی مشکل صنف میں لکھنے کے بجائے برہا اور آلھا وغیرہ لکھ کر اپنے شوق کی تسکین کرنی چاہئے مصداق اعظمی نے اپنے والد صاحب کی اس تنقیدی جملے کو برائے تعمیر لیا اور اسے چیلنج کی طرح قبول کرتے ہوئے اپنی شاعرانہ صلاحیت کو  تراشنے کے لئے خود  کو وقف کردیا آخرکار انھوں نے شعر گوئی کا قلعہ سر کر لیا اور اپنے والد صاحب کے لئے باعث فخر بن گئے۔ ان کے اس صبر آزما سفر میں ان کی والدہ نے ماں ہونے کا حق ادا کردیا تھا  ان کی والدہ خاتون خانہ ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کے اس جذبات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی تھیں جو ان کا بیٹا شعر و ادب کے تئیں اپنے اندر رکھتا تھا۔ حالاں کہ وہ اسے وقت گزاری اور بےجا شغل بندی کہہ کر نظر انداز بھی کر سکتی تھیں لیکن انھوں نے علم شناس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہر مرحلے پہ اپنے بیٹے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑی رہیں۔ بےشک ماں کی محبت ہر روپ میں ہی انوکھا پن اور انفرادیت رکھتی ہے اور ہر ماں کی محبت کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ لیکن انھیں میں سے کچھ مائیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت اس نہج سے کرتی ہیں کہ وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہ مائیں عظیم مائیں کہلاتی ہیں۔ اور تاریخ کے اوراق ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں ۔
مصداق اعظمی کے ان کی والدہ سے تعلق میں کیسی وارفتگی تھی اس کا اندازہ اس جملے سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے اپنی کتاب کے ابتدائی صفحے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں "امی جان آپ جب تک باحیات تھیں میرے لئے جیتی رہیں اب میں کوشش کروں گا کہ میں آخری سانس تک آپ کے لئے دعائے مغفرت کرتا رہوں” بےشک حدیث میں ایسی ہی اولادوں کو صدقہء جاریہ کیا گیا ہے۔ 
انھوں نے اپنی کتاب تشکرات و اعترافات سے آگے کے ذیل میں جو کچھ لکھا ہے اس کو پڑھتے ہوئے یوں تو ان کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک قدر شناس انسان ہیں انھوں نے جس طرح اس میں اپنے چیدہ چیدہ دوستوں اور متعلقین کے حوالے سپاس گزاری کا اظہار کیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان دوستی اور انسانیت پروری  ان کے خمیر میں ہے۔ انھوں نے زندگی کے نشیب و فراز سے جو کچھ سیکھا تھا بلا کم و کاست انھوں نے اسے اپنی نظم نگاری میں سمو دیا کسی بھی تحریر کی تاثر انگیزی کا سب سے زیادہ انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ تحریر حقیقت سے کتنی قریب تر ہے اور مافوق الحقیقت عناصر سے کس حد تک بے نیاز ہے۔ ادب کا مقصد محض وقتی لطف حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ قاری کے ذہن سازی میں کیا کردار ادا کرتا ہے اس معیار پر اگر مصداق اعظمی کی قلمی جولانیوں کو پرکھا جائے تو کہیں بھی قارئین کو مایوس کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ اکیس بیس برس کے اس ادبی سفر نے انھیں میدان ادب کا ایک منجھا ہوا شہسوار بنا دیا ایک ایسا شہسوار جو کہ لفظوں کے سارے ہی پیچ و خم سے واقف ہوتا ہے مطالب و مفاہیم اس کی دسترس میں معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے زرخیز احساس نے انھیں رنج و غم کے ساتھ خوشیوں سے بھی آشنا کرایا ہے ۔ان کی حساسیت کا دائرہ ان کے اپنے ہی غموں تک محیط نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کے رنج و محن کو اس شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ وہ لفظوں کی صورت ڈھل کر قرطاس ابیض پر نقش ہو جاتے ہیں۔ ان کے قلم سے لکھے جانے والا ایک ایک لفظ قطرہء آب  کی سی تاثیر رکھتا ہے جو کسی کو سیراب کرتا ہے تو کسی کے غم آلود تنفس کو زندگی کی نوید سنا جاتا ہے۔ بشرطیکہ پڑھنے والا اسی جذب و احساس سے پڑھنے کی کوشش کرے جس کے زیر اثر مصداق اعظمی نے اسے خلق کیا ہے۔ شاعری احساسات کو تسخیر کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور وہ کہیں نہ کہیں سوچوں کو بدل سکنے کی بھی سکت رکھتی ہے ۔
ارض تاریخ پہ بکھرا ہوا
قطرہ قطرہ
اہل نفرت کے تعصب کی 
کڑی دھوپ کبھی
میرے جذبے 
میرے ایثار و محبت کا لہو
خشک کر ہی نہیں سکتی 
یہ مرا دعویٰ ہے
مصداق اعظمی نے اپنی اس نظم میں لوگوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ خواہ اندھیرے کتنے ہی کیوں نہ گہرے اور تاریک ہو جائیں لیکن روشنی کی ایک کرن اس کو شکست دینے کے لئے کافی ہوتی ہے وہ کرن میں اپنے دل میں محسوس کرتا ہوں ہر نیک دل انسان ان کرنوں کا امین ہوتا ہے۔ یہ نظم اپنی سلاست، مفہوم اور گہرائی کی وجہ سے قاری کے دل کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مصداق اعظمی نے اپنے الفاظ و احساس کی مرئی غیر مرئی لکیروں کو  اس مہارت کے ساتھ کھینچا ہے کہ اس کے بعد اس میں کوئی دراڑ نظر نہیں آتی۔ یہ لازم نہیں کہ ہم سب کچھ لفظوں میں ہی ڈھونڈیں کچھ جذبے لفظوں کی حدوں سے پرے مفاہیم کی گہرائیوں میں دفن ہوتے ہیں جس تک رسائی کے لئے جدو جہد لازم ہوتی ہے۔
مصداق اعظمی نے محض حقیقت کی منظر کشی اور قناعت کا درس نہیں دیا ہے بلکہ ان کے یہاں امید کی رمق بھی نظر آتی ہے جو دلوں کے اندر جذبات کو بےموت مرنے سے بچاتی ہے ایک جگہ وہ اپنی نظم میں لکھتے ہیں جو کہ کافی لمبی ہے صرف ایک حصہ یہاں آپ سے شیئر کرتی ہوں۔
امید ہے کوئی آئے گا
ارباب حکومت سے بڑھ کر
سب کے جائز حق چھینے گا
مذہب کی سیاست والوں سے
روٹی کی بات اٹھائے گا
کچھ پیار کے ننھے قطروں سے
نفرت کی آگ بجھائے گا
ہر قید و سلاسل میں رہ کر
سو ظلم و ستم کو سہہ سہہ کر
سقراط کے سچ کو کہہ کہہ کر
پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر
پھر زہر بھرا ساغر پی کر
پھر سولی اور پھانسی چڑھ کر
طعنے سن کر پتھر کھا کر
سنسار میں بکھرے لوگوں کو
رشتوں کے مقدس دھاگوں سے
پھر مضبوطی سے باندھے گا
اک مست قلندر کو اب بھی
امید ہے کوئی آئے گا
ان کی یہ نظم حالات حاضرہ کی عکاسی اس خوبصورتی کے ساتھ کرتی ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے آپ درمیان میں اسے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جب بات ہماری ہو رہی  ہو اور ہماری بےبسی کی تفہیم و تعبیر کی کوشش کی جا رہی ہو جب ہم پر کئے گئے ظلم و تعدی کا احساس کرنے کی سعی کی جا رہی ہو تو ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تحریر ہم سے ہماری توجہ نہ لے سکے اور ہم اس کو زیر لب دھرانے سے رک جائیں ایسا کرنا شاید مشکل ترین ہے۔ ادب پرور ذہن حقیقت شناس سوچیں اور اگاہئ غم رکھنے والا دل کبھی بھی ایسی خطا کے حق میں نہیں ہوتا ہاں بےشعور ذہن اس سے مستثنیٰ ہے مصداق اعظمی کی  حقیقت بیانی اور لفظوں کی غنائی کبھی بھی محض چند لمحوں کی کوشش نہیں ہو سکتی۔ اس کے پیچھے ان کی وہ تڑپ وہ درد پنہان ہے جو نہ جانے کتنے ہی مناظر دیکھنے کے بعد ان کے دل کے اندر پیدا ہوئے ہوتے ہیں پھر لمحہ لمحہ اپنی کسک سے انھیں مجبور کرتا ہے کہ انھیں زبان عطا ہو انھیں پڑھا جائے ان کا درماں تلاش کیا جائے۔
موت برگد کا
پیڑ ہو جیسے
جس کی شاخیں ہیں
سانپ کے جیسی 
اور مری زندگی کا 
پنچھی بھی
سانپ کو
شاخ ہی سمجھتا ہے
مصداق اعظمی نے اس نظم میں کیا دلفریب منظر کی تصویر کشی کی ہے کہ دل جینے کی جستجو اور پانے کی آرزو میں بعض اوقات اتنا خوش فہم ہو جاتا ہے کہ کچھ حقیقتوں کو وہ دیکھ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتا ۔ بچے کی سی معصوم آرزو اس کے ارد گرد کے مناظر کو دلفریب بنا دیتی ہے ۔ کیوں کہ وہ خوشی چاہ رہا ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایسے خودساختہ طریقے سے ملنے والی خوشیاں کسی انسان کی زندگی کا آخری اثاثہ ہوتی ہیں۔
مصداق اعظمی کی نظموں کو پڑھتے ہوئے  میں بنا کسی مبالغے کے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ ان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے بارہا مجھے احساس ہوا کہ گویا انھوں نے اس میں میرے اپنے احساس کی ترجمانی کی ہے ۔ اس میں موجود تخیل میرا اپنا ہی ہے۔ کسی بھی تخلیق کار کے لئے یہ لمحہ سب سے خوبصورت لمحہ ہوتا ہے جب اس کی تخلیقات کو لوگ اپنی زندگی میں جگہ دینے لگیں اور ان کی نظموں، غزلوں اور تحریروں کو لوگ بطور حوالہ اپنی گفتگو میں استعمال کرنے لگیں۔ مصداق اعظمی کا کلام جب جب کوئی بھی ادب شناس قاری پڑھے گا وہ انھیں داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
گالیاں سن کے
مسکراؤں میں
اپنی تلخی میں
شہد بھی گھولوں
جھوٹی تعریف
جھوٹی بات کروں
حق بیانی سے
باز آجاؤں
بےحسی کی 
کثافتیں ساری
روح میں
جذب کر لوں میں اپنی
ایسا کرتے ہوئے
مرے اندر
میری بے چینیاں
نہ لیں کروٹ
یعنی
میں تیرے جیسا ہو جاؤں 
کسی بھی تخلیق کار کے لئے اس کی سب سے بڑی متاع اس کی حساسیت ہوتی ہے وہ عام انسان کے مقابلے میں واقعات و حادثات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھتا ہے اور شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہے پھر اسے اپنے فن کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچاتا ہے ایسے میں اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنی حساسیت کو قربان کر کے بےحس ہوجائے تو یہ اس پر سب سے بڑا ظلم ہوگا اس نظم میں مصداق اعظمی نے ایسی ہی صورتحال کو بیان کر کے بےحس ارباب اقتدار  اور منافق لوگوں کو مخاطب کر کے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا تم چاہتے ہو میں بےحس ہو جاؤں جب کہ میری بے چینیاں میرا ضمیر مجھے تم جیسا کبھی بھی بننے نہیں دے سکتیں۔
مصداق اعظمی کا مجموعہ چھاؤں سے دھوپ تک کی تمام ہی نظموں کا ذکر اگر میں چاہوں تو بھی نہیں کر سکتی اور میں کرنا بھی نہیں چاہوں گی اور وہ اس لئے کہ قاری اپنے تجسس کی تسکین کے لئے ان نظموں کو پڑھنے ان کی کتاب تک رسائی حاصل کرنے کی جدو جہد خود کرے۔ میری حیثیت تو درمیانی تعارف کار کی ہے اور تعارف کبھی بھی ساری ہی حقیقت و ماہیت کا متبادل نہیں بن سکتی۔
مصداق اعظمی کی نظموں میں موضوعات کی کثرت اور ہیئت کی ندرت نظر آتی ہے انھوں نے نہ صرف غم جاناں و غم دوراں کو ہی اپنا موضوع بنایا ہے بلکہ انھوں نے روحانیت کا ماخذ یعنی اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے ایمانی احساس کو بھی پیش کیا ہے انھوں نے اس کتاب کا انتساب بھی خدائے ذوالجلال کے نام کیا بےشک انسان پہ یہ لازم ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرے اور اس کے حضور نذرانہء تشکر ہمہ وقت پیش کرنا رہے کیوں کہ اللہ ہی ہماری اصل ہمارا مرجع ہے اور ہماری زندگی کی ہر نعمتوں کو عطا کرنے والا ہے۔ اس کے روپ بےشمار ہیں اگر چہ وہ ہماری ناسوتی آنکھوں میں نہیں سما سکتا لیکن اگر ہم احساس و ایمان کی رکھتے ہوں تو اس کی ہر تخلیق اس کے ہونے کی گواہی دیتی ہے اور ہر فطری منظر میں اس کے ہونے کا احساس ملتا ہے۔
اے مرے معبود
اے میرے الٰہ 
آخری تہہ میں
سمندر کی ہے تو
تو پہاڑوں کی
بلندی پر بھی ہے
آبشاروں میں بھی ہے
بس تو ہی تو
تتلیوں کے رنگ میں بھی
تو ہی ہے
پھولوں کی خوشبو میں بھی 
بستا ہے تو
قطرہء شبنم میں تو موجود ہے
تو ہی تو ٹھنڈی ہواؤں میں بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
الغرض 
ہر سمت ہر جانب فقط
جلوہ آرائی ہے تیری اس لئے
بندہء ناچیز تیرا ہر گھڑی
لاشریک وحدہ
پڑھتے ہوئے
ہے تری وحدانیت پر ہی نثار
اس نظم میں انھوں نے اللہ وحدہ لاشریک کی مدح و ثنا بڑے جذب کے عالم میں کی ہے اللہ شرف قبولیت بخشے۔
اس کے علاوہ بےشمار نظموں پر مشتمل ان کا یہ مجموعہ ہر قاری کی توجہ و التفات کا متقاضی ہے۔ میں پورے دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ اس کتاب کے قاری کبھی کم نہیں ہوں گے ہمیشہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہی جائے گا۔ اور ارباب ادب کے حلقے میں اس کو پزیرائی ملنا یقینی ہے۔ اور مجھے یقین اور امید واثق ہے کہ یہ کتاب ان کا پہلا اور آخری شاہکار نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے مابعد کے فن پاروں کا آغاز ثابت ہوگا۔ 

 

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

 

0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
شبلی: اپنے عہد کے پس منظر میں – پروفیسر کوثر مظہری
اگلی پوسٹ
‘عالمی اردو ادب’ حوالہ جاتی مجلہ ہی نہیں بلکہ ایک دستاویز ہے : پروفیسر عتیق الله 

یہ بھی پڑھیں

مارچ 25, 2023

مارچ 25, 2023

فروری 24, 2023

فروری 21, 2023

فروری 8, 2023

جنوری 29, 2023

جنوری 18, 2023

جنوری 11, 2023

جنوری 2, 2023

دسمبر 28, 2022

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (172)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (97)
  • تخلیقی ادب (532)
    • افسانچہ (28)
    • افسانہ (173)
    • انشائیہ (16)
    • خاکہ (31)
    • رباعی (1)
    • غزل (130)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (23)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (117)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (927)
    • ڈرامہ (12)
    • شاعری (462)
      • تجزیے (11)
      • شاعری کے مختلف رنگ (196)
      • غزل شناسی (166)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (8)
      • نظم فہمی (78)
    • صحافت (42)
    • طب (12)
    • فکشن (374)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (205)
      • فکشن تنقید (12)
      • فکشن کے رنگ (23)
      • ناول شناسی (131)
    • قصیدہ کی تفہیم (14)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (29)
  • کتاب کی بات (403)
  • گوشہ خواتین و اطفال (92)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (1,703)
    • ادب کا مستقبل (108)
    • ادبی میراث کے بارے میں (8)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (23)
    • تراجم (26)
    • تعلیم (26)
    • خبر نامہ (651)
    • خصوصی مضامین (73)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (201)
    • فکر و عمل (112)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (260)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں