قفس سے آشیاں تک / ہندیؔ گورکھپوری – داؤد احمد
زیر تبصرہ کتاب’’ قفس سے آشیاں تک‘ ‘ اردو کے کہنہ مشق شاعر،مجاہد آزادی ہندیؔ گورکھپوری کا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں کل 46 نظمیں اور28 قطعات شامل ہیں۔اس کا پہلا ایڈیشن1972 ئ میں شائع ہوا تھا۔وقت کی ضرورت کے مطابق ان کی نیک دختر ثمینہ ادیب ضیائؔ نے اسے دوبارہ ترتیب دے کر اس کا دوسرا جدید ایڈیشن 2021 میں حالی پبلشنگ ہاؤس ،دہلی کے زیر اہتمام شائع کرایا ہے۔علاوہ ازیں مجموعہ کلیات شعر ’’ شعلۂ گل ‘‘((1984 اورحال ہی میں شعری مجموعہ’’ کلیات ہندیؔ ‘‘ کو ثمینہ ادیب ضیا نے ڈاکٹر سلیم احمد کے باہمی اشتراک سے مرتب کر شائع کرایا ہے۔ مجموعہ’’ قفس سے آشیاں تک‘‘ میں آزادی کے قبل اور بعد کی نظمیں حقائق کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔وطنی خلوص اور قومی اصلاحی جذبہ ان کی شاعری کے خصوصیات ہیں۔ ہندی ؔ صاحب کو ہندوستان سے جنون کی حد تک محبت و عقیدت تھی ،اسی بنیاد پر انھوں نے اپنا قلمی نام ہندی ؔ گورکھپوری کر لیا۔مجنوں گورکھپوری کی نظر میں :
’’ ہندیؔ گورکھپوری نئی نسل کی مخلوق ہیں اور میں تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہیئت اجتماعی اور موجودہ نظام زندگی سے بڑی شدت احساس کے ساتھ ناآسودہ ہیں ۔ ہندیؔ انقلابی اورترقی پسند شاعر ہیں ،رجعتی ہرگز نہیں۔وہ نئی نسل کے باغی شاعر ہیں۔اگر کوئی ادیب یا شاعر صرف نا آسودگی اور بغاوت کا پیغام دیتا ہے تو ہمارے بڑے کام کا ہے اور ہندیؔ کی بغاوت اور نا آسودگی میں جیسا مہذب گداز اور جیسی شائستہ درد مندی ہے وہ ہمارے لیے یقینا ایک مؤثر میلان ہے اور اس سے ہم زندگی کے ایک نئے اٹھتے ہوئے خمیر میں بڑی مدد لے سکتے ہیں‘‘۔( صفحہ۔14)
شاعری کی اصل بنیاد احساس فکر پر ہوتی ہے ۔شاعر کا حس لطیف اور فکر جمیل اسے اپنے گرد و پیش کے واقعات اور اس کے اپنے تجربات کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔شاعری دراصل تغزل ،رنگین بیانی اور قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہوتی بلکہ شاعری شاعر کے وجدان ،اس کے احساسات و جذبات ، اس کے افکار و نظریات اور زمانے کی گردشوں اور اس میں پرورش پا رہی نئی امنگوں اور نئی آرزوؤں کا بیان ہوتی ہے۔پیش لفظ کے تحت ہندیؔ گورکھپوری رقمطراز ہیں :
’’ شاعری بغیر کسی خاص مقصد یا نصب العین کے جس کا واسطہ زندگی کی ریشہ دوانیوں یا حیات کی کشمکش اور تگ و دو سے نہ ہو۔صد البصحرا ہے۔شاعری اگر احساسات و جذبات کی بیداری کا پیغام نہیں ، اگر روشن ضمیری اور بلند خیالی کا نغمہ نہیں ہے اگر ذہن و دماغ کی بالیدگی اور وسعت کا علمبردار نہیں ، اگر زندگی کی شب ظلمات میں چراغ راہ نہیں اور اگر قلب و روح کے لیے جلا نہیں ہے تو وہ نسل قوم،ملک اور تمام بنی نوع انسان کے لیے بے سود ہے‘‘۔(صفحہ۔23 )
ہندی ؔ گورکھپور ی کی شاعری میں فن کی پاسداری ،زبان کی صحت اور بیان کی شفافیت نمایاں ہیں۔ لفظیات کا ایک بڑا ذخیرا شاعر کی جھولی میں ہے اور ان کوبرمحل برتنے کا ہنر اور سلیقہ ان کی کہنہ مشقی کی دلیل ہے۔اس مجموعے کو پڑھنے والایہ اندازہ لگائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہندیؔ گورکھپوری نے زندگی کو قریب سے اور کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان کی نظموں میں سلگتے ہوئے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔شاعر نے بڑے صبر آزما اور تلخ حالات کا سامنا کیا ہے اس لیے لہجے میں بلا کی کاٹ آگئی ہے۔ ان کی شاعری میں فولادی عزم و حوصلہ پایا جاتا ہے ۔ وہ ظلم و جبر سے بر سر پیکار ہوکر اسے تہ خاک کردینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ ان کے یہاں انسانیت کو فروغ دینے کا عمل ملتا ہے ۔ وہ انسانی ترقی و برتری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عناصر کے خلاف بڑے شد و مد کے ساتھ وار کرتے ہیں اور اپنا سب کچھ قربان کرکے امر ہونا وہ کامیابی کی معراج تصور کرتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ہندی ؔ گورکھپوری نے ہندوستان کے ماضی اور حال کے مخصوص نشیب و فراز کی حقیقت کو اپنی نظموں میں شامل کیا ہے۔ ان کی نظموں میں عزم، حوصلہ، انقلاب اور ولولہ پایا جاتا ہے جو انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اور ان کے دلوں کو گرما کر ہمت و حوصلہ پیدا کرتا ہے۔انھوں نے مختلف عنوانات پر نظمیں لکھی ہیں، ان میں ’’بغاوت کا نعرہ‘‘ ’’غلامی میں لطف جوانی کہاں‘‘’’ مادر وطن‘‘’’پابند سلاسل‘‘’’مجاہد وطن‘‘’’مزدور بچارا‘‘’’مقام عمل‘‘ ’’ امن کا ترانہ‘‘’’بند کرو یہ فتنے‘‘’’رنگ تباہی آہ نہ پوچھ‘‘’’ جاگا اجیارا‘‘ ’’اب سمئے ملن کا آیا‘‘’’ آزاد کا پھل‘‘’’ہم سپاہی وطن کے وفادار ہیں‘‘’’مسلمان اور ہندوستان‘‘’’دلی کا فرقہ وارانہ قتل عام‘‘’’ مہاتما کی روشنی‘‘’’انقلاب آرہا ہے‘‘’’ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘’’آؤ چلو اس پار چلیں‘‘’’سنسار بدلنے والا ہے‘‘’’ اے شہیدان وطن تم کو سلام‘‘’’ہمارا وطن‘‘’’انتباہ‘‘شاعر کا اعلان جنگ‘‘’’ ایشیا آج بیدار ہے‘‘ وغیرہ نظمیں شامل مجموعہ ہیں۔ان نظموں میں حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور تہذیب و تمدن کے مرقعے جذباتی ہم آہنگی سے پیش کئے گئے ہیں۔
ہندی ؔگورکھپوری نے بہت سی نظمیں وطن کے جذبۂ تصور اور وطنیت کے رائج الوقت احساس کے زیر اثر لکھی ہیں یہ سب نظمیں اطمینان بخش اور امید افزا ہیں،ان میں سے ہر نظم نہ صرف اپنے عنوان کا احاطہ کئے ہوئے ہے بلکہ بڑے قرینے کے ساتھ بلیغ اشاروں میں ہمارے فکر و احساس کو ابھارتی ہے ؎
اٹھو ! نوجوانان عالم اٹھو
زمانہ کو تخریب کا درس دو
امارت کی رگ کا لہو چوس لو
غریبوں کی دنیا بساتے چلو
بغاوت کے نعرے لگاتے چلو
( بغاوت کا نعرہ )
یہ مانا چمن کا ہے دلکش سماں
یہ مانا ہے عشرت کدہ یہ جہاں
یہ مانا ،ہے موجوں میں مستی رواں
مگر اے مرے پیارے ہندوستاں
غلامی میں لطف جوانی کہاں
( غلامی میں لطف جوانی کہاں؟)
جی نہیں لگتا ہے بہلانے سے اب میرا یہاں
تیری مٹی میں غلامی بھن گئی ہے الاماں
تجھ میںافلاس اور غربت کا تلاطم ہے رواں
تجھ میں پستی ہے بلندی کا نہیں نام و نشاں
مادر ہندوستاں ، اے مادر ہندوستاں
( مادر ہندوستاں)
بلندیوں کا آخری مقام ہے مرے لئے
حیات نو کا ہر نفس پیام ہے مرے لئے
جہاں میں کار کشت وخون عام ہے مرے لئے
جواں ہوں تیغ زن ہوں میں ، مجاہد وطن ہوں میں
( مجاہد وطن)
ہندی ؔ گورکھپوری بڑی سلیم الطبعی کے ساتھ اپنے تخلیقی شعور کو سنوار تے رہے ہیں اور بیک وقت پرانے اسالیب کے محاسن اور نئی زندگی کے میلانات اور مطالبات کو ایک آہنگ بنا کر اپنی شاعری کی روح میں جذب کرتے رہتے ہیں :
جیون کے پرانے سپنوں کا اوتار بدلنے والا ہے
ٹوٹے ہوئے ساز فطرت کا ہر تار بدلنے والا ہے
چوٹی پہ ہمالہ پربت کی وہ سرخ پھریرا لہرایا
مشرق سے کرن پھوٹی ہے نئی سنسار بدلنے والا ہے
( سنسار بدلنے والا ہے )
دشمن کے ہر اک وار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
وقت آنے دو اغیار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
یا امن کا ہر ملک میں لہرائیں گے پرچم
یا جنگ کی تلوار سے ہم بڑھ کے لڑیں گے
( شاعر کا اعلان جنگ)
کتاب کے آخر میں قطعات کے بکھرے ہوئے شرارے ،غلامانہ ماحول ،سامراجی بیڑیوں اور غیر ملکی بندشوں میں جکڑے ہوئے جسم کے آزاد جذبات اور احساسات کی وہ للکار ہے جو باغیانہ جرأت کو پیش کرتا ہے :
بہار ہو کے ستم دیدۂ خزاں ہوں میں
کہ آشیاں ہی میں محروم آشیاں ہوں میں
مجھے غلامی نے پستی نصیب کر ڈالا
وگر نہ عظمت و رفعت میں آسماں ہوں میں
نوائے عزم اٹھی جنگ کا پیام اٹھا
رگ حیات میں پھر جوش انتقام اٹھا
اٹھ ! اور تو بھی اے مزدور خانماں برباد
وہ سامنے ہے دھری تیغ بے نیام اٹھا
زیر نظر مجموعہ میں ہندیؔ گورکھپوری نے بڑے سے بڑے باغیانہ احساس یا انقلابی خیال کو بڑے شائستہ سوز و گداز سے ادا کیا ہے اور انھوں نے کسی کو آزردہ کئے بغیر اپنے انحرافی میلان کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے عصر حاضر کی عکاسی کرتے ہوئے مختلف نظمیں تخلیق کی ہیں اور کئی تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہیں۔
زبان و بیان کے علاوہ ظاہری اعتبار سے کتاب بہت عمدہ اور پرکشش ہے۔ سرورق سادگی کے باوجود حد درجہ جاذب نظر اور خوبصورت ہے۔کاغذ کا بھی بہتر استعمال ہوا ہے۔کتاب کے بیک پیج پر ہندی ؔگورکھپوری اور ثمینہ ادیب ضیائؔ کی تحریر کتاب کی زینت کو بڑھا رہی ہے۔قوی امید ہے
کہ قارئین اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اہل علم کے مابین اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔
Mobile : 8423961475, Email:daudahmad786.gdc@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page