رشیدحسن خان اُردوکے معروف ماہرِلسانیات،محقق ،نقاد،مدون،مرتب اورشاعر تھے۔اُن کی دل چسپی کے خاص موضوعات املا، لغت، تدوین اورقواعدِزبان وبیان تھے۔رشیدحسن خان ایک کل وقتی محقق ونقادہونے کے ساتھ ساتھ اُردوادب سے جڑی ہوئی شخصیت تھے جس کا منہ بولتاثبوت اُن کی تصانیف ہیں ۔انھوں نے ایسے موضوعات پرقلم اٹھایاجن پرقلم اٹھانامشکل ہی نہیں ناممکن نظرآتاہے۔انھوں نے قواعدجیسے خشک سمجھے جانے والے موضوع پرصرف قلم ہی نہیں اٹھایا بلکہ لکھنے کاحق اداکیاہے۔اس کے علاوہ تدوین جیسی پُرخاروادی میں قدم رکھاتواس کوبھی چارچاندلگادئیے۔اُن کے تدوین کام اورتدوینی اُصول سے آج بھی اہلِ ادب مستفیدہورہے ہیں ۔
رشیدحسن خان کی درجنوں تصانیف اُن کی جہدمسلسل اورمستقل مزاجی کاپتادیتی ہیں ۔رشیدحسن خان کی تصانیف میں زبان اورقواعد(لغت،تلفظ اورقواعدِزبان وبیان کے مباحث)،ادبی تحقیق :مسائل اورتجزیہ(عملی تحقیق پرمضامین)،تلاش وتعبیر(تنقیدی مضامین)،تدوین،تحقیق اورروایت(تحقیقی مضامین)،مصطلحاتِ ٹھگی،املائے غالب(مرزاغالب کی املاپربحث)،اُردوکیسے لکھیں،انشائے غالب اورکلاسیکی ادب کی فرہنگ شامل ہیں۔
رشیدحسن خان نے تدوین میں بھی گراں قدرکام کیااورکئی اہم قدیمی متون کومنظرِعام پرلانے میں اپناحصہ ڈالا۔اُن کے اہم اورقابلِ قدرتدوینی کاموں میں تدوینِ فسانہ عجائب،مثنوی گلزارِنسیم،مثنوی سحرالبیان،مثنویاتِ شوق اورباغ وبہارشامل ہیں۔
”باغ وبہار” کی تدوین رشیدحسن خان سے پہلے بھی کئی اہم شخصیات نے کی مگرجس قدرمحنت اورتدوینی اصولوں کے پیش ِ نظررشیدصاحب نے یہ کام کیااس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔اس لیے آج تک اُن کی مدونہ باغ وبہارکی اہمیت دوچندہے۔رشیدحسن خان سے پہلے جن شخصیات نے باغ وبہار کی تدوین کی ان میں ڈنکن فاربس،مولوی عبدالحق، ممتازحسین، سیدوقارعظیم، سید ابو الخیر کشفی،ممتازمنگلوری،مرزاحامدبیگ اوراسلم عزیزدرانی شامل ہیں۔
رشیدحسن خان سے پہلے بھی یہ داستان کئی مرتبہ مرتب ہوتی رہی مگرحق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔لیکن رشیدحسن خان نے اس کی تدوین کرکے حق اداکردیا۔رشیدحسن خان کی اس ترتیب سے نہ صرف ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے بلکہ باغ وبہارسے صحیح معنوں میں آشنائی بھی ہوئی ہے۔ تدوینِ متن کی روایت میں عملی تحقیق کی یہ ایک عمدہ مثال ہے ۔جس اندازسے اس کے مقدمہ میں رشید صاحب نے اپنے تحقیقی وتنقیدی شعورسے کام لیتے ہوئے تمام چیزوں کومفصل اندامیں پیش کیا ہے ۔اس سے مدون کی خصوصیات،تحقیق وتدوین کے مراحل اورتدوین کے اصول وضوابط مرتب کئے جاسکتے ہیں ۔اورآنے والی نسلوں کے لیے یہ بطوررہنمااصول ہیں ۔کیوں کہ اُن سے پہلے جن لوگوں نے بھی تدوین کاکام کیااس قدرتفصیل سے مقدمات میں اُن سب چیزوں کاذکرنہیں کیا۔
رشیدحسن خان نے باغ وبہارکا124صفحات پرمشتمل ایک مفصل مقدمہ تحریرکیاجس میں انھوں نے مصنف کے حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ اس کی تصانیف،تخلص اورکتاب کے نام پرمفصل بحث کرنے کے ساتھ ساتھ کتاب کے تمام نسخوں کی تفصیل ،کون سا نسخہ کہاں سے ملا،کون سانسخہ بنیادی بنایااوراس کی خاص وجہ کیاتھی جس وجہ سے اس کو بنیادی بنیایا گیاوغیرہ تمام معلومات کاذکربڑے مفصل انداز میں کیا ہے۔رشیدحسن خان نے مقدے کوچندذیلی عنوانات میں تقسیم کرکے اُن پرروشنی ڈالی ہے جس سے اُن کی مستقل مزاجی اورتحقیقی وتنقیدی بصیرت کااندازہ ہوتاہے ۔مقدمے کے ذیلی عنوانات کی فہرست ملاحظہ کیجیے۔
1)حدودکاتعین 2) حالاتِ زندگی 3) نام 4) تخلص 5) وطن،علاقہ اورمحلہ 6) تعلیم 7) جاگیراور منصب 8) مذہب 9) اولاد اوراہلِ خانہ 10) دہلی سے روانگی 11) کلکتے میں آمد 12) ملازمت 13) ملازمت سے سبک دوشی 14) گنجِ خوبی 15) باغ وبہارآغازاوراختتام 16) کتاب کانام 17) باغ وبہار کی تیاری میں مدداورنثرکی درستی کادعوہ 18) انعام 19) باغ وبہار،ترجمہ،تالیف یاتصنیف 20) امیرخسروسے منسوب روایت 21) خطی نسخے 22) ہندی مینول (م) 23) اشاعتِ اول (ک) 24) اشاعتِ اور کاسرورق 25) پیش لفظ 26) اعراب،علامات ،رموزِ اوقاف 27) مرتبہ ڈنکن فاربس (ف) 28) مرتبہ مولوی عبدالحق (ع) 29) قصہ چہاردرویش (فارسی) 30) قصے کے مآخذ اوربعض دیگر متعلقات 31) نظرِ ثانی 32) باغ وبہارکی نثر،اہمیت اوراجزائے ترکیبی 33) تکرارالفاظ 34) املا 35) بہ کی مرکبات 36) قافیہ بندی 37) صنعتیں 38) عربی،فارسی اورہندی الفاظ 39) مرکبات 40) فارسی اوراجنبی طرزِ ادا 41) نے اورکوکااستعمال 42) جمع الجمع 43) تذکیروتانیث 44) اختلافِ عددومعدود 45) شتر گربہ ‘نا ‘علامتِ مصدر 46) ہائے مخلوط اورنون غنہ 47) افعال 48) الفاظ 49) طریق کار درج بالا فہرست پرنظرڈالیں توپتا چلتا ہے کہ رشیدحسن خان نے کس قدرمحنت اور مستقل مزاجی سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایاہے ۔اس کام میں انھوں نے کم وبیش بیس سال صرف کیے تب جاکر یہ شاہکارمنظرعام پرلانے میں کامیاب ہوئے۔ایک نسخے کی تلاش میں انھوں نے کتناوقت صرف کیادیکھتے ہیں انھی کے الفاظ میں ۔
"1964ء سے 1984ء تک مسلسل میں اس فکر میں رہا کہ ہندی مینول کا پتا ،نشان معلوم کیا جائے؛ کیوں کہ یہ بات میرے نزدیک طے شدہ تھی کہ ایک سودو(102) صفحات پرمشتمل اُس روایتِ اول کوسامنے رکھے بغیر اس متن کی تدوین صحیح طورپرہوہی نہیں سکتی۔” (1)
ہرمدون نے اپنے کام کے پیشِ نظراصول مرتب کیے ہیں ۔کیوں کہ تدوین ایک ایساکام ہے جوہمیشہ ایک طرح کانہیں ہوسکتا۔ہرصنفِ ادب کے اپنے تقاضے اورمعیارات ہیں ۔اس لیے ہرصنفِ ادب کی تدوین کے الگ اصول ہوں گے اورپھرہرمتن اپنے الگ اصول رکھتاہے کیوں کہ متن جتناقدیم ہوگااس کے لیے زیادہ مشکلات ہوں گی اوراُن مشکلات سے عہدہ براہونے کے لیے مدون کوجوجوطریقے اختیارکرناپڑیں وہی اس کے اصول وضوابط بن جائیں گے۔ہرمدون نے اپنے اپنے کام کے پیشِ نظراصول وضوابط مرتب کیے ہیں ۔اسی طرح رشیدحسن خان نے بھی تدوین کے اصول وضوابط مرتب کئے ہیں ۔یہاں اُن کی مدون داستان باغ وبہارکی روشنی میں تدوینی اصولوں کوسرسری طورپرزیربحث لاجائے گا۔
تدوینی اصولوں کے ساتھ ساتھ مدون کی مشکلات ،تدوین میں پیش آنے والے مسائل ،تدوین کی ضرورت واہمیت اورمقدمہ تحریرکرنے کے اصول وضوابط پربھی اجمالی بحث کی جائے گی اوریہ دیکھاجائے گاکہ رشیدحسن خان نے تدوین جیسے خشک کام کوکس طرح دل چسپ اور ہمہ جہت بنادیاہے۔ان کے اس کام سے نہ صرف باغ وبہارکااصل متن منظرِ عام پرآیابلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے تمام نسخوں کی تفصیل ،مصنف کے مکمل حالاتِ زندگی اورمتن سے متعلق تمام معلومات مفصل اندازمیں ملتی ہیں جس سے تاریخی کی بہت سی کڑیاں ملتی نظرآتی ہیں ۔
تدوینی اُصول
- متعلقہ تدوینی متن کی ضرورت واہمیت واضح کی جائے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ جس متن کی تدوین کرنے کامنصوبہ ہے اس سے کیافائدہ ہوگااوراس پرکتنے وسائل اوروقت کاضیاع ہوگا۔کیوں کہ غیرضروری متن کی تدوین سے فوائدکی بجائے نقصانات ہوں گے۔
- مدون کاایمان دارہونااشدضروری ہے تاکہ وہ ایمان داری سے تمام نسخوں کی جانچ پڑتال کے بعداصل متن کومنظرِعام پرلائے۔اگرمدون ایمان دارنہیں اوروہ مطلوبہ کام میں ایمان داری سے کام نہیں کرتاتواصل متن منظرِعام پرنہیں آسکے گابلکہ اس میں کئی طرح کے مسائل درآئیں گے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ حرف شناس ہواورحروف کی شناخت،پہنچان اوراُن کوبرتنے کاہنرجانتاہو۔کیوں کہ تدوین کسی قلمی نسخے کی ہوگی اس لیے مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ الفاظ کے استعمال اوراس کے زیروبم سے خوب واقف ہووگرنہ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل مزاج اورصبرسے کام لینے والا ہو،کیوں کہ تدوین ایک مشکل اورتھکادینے والاکام ہے ۔اگرمدون مستقل مزاج نہیں تووہ اُکتاجائے گااورنسخوں کی تلاش اورپھراختلافِ نسخ کے مراحل میں ثابت قدم رہنااس کے لیے مشکل کام ہوگا۔اس لیے تدوین کے اصولوں میں سے یہ ایک اہم اصول ہے کہ مدون کومستقل مزاجی،صبر،جرات مندی،حوصلے اورمسلسل محنت سے کام کرنا ہوگا۔رشیدحسن خان نے صرف ایک نسخے ہندی مینول کے لیے تقریباَ بیس سال مسلسل محنت اورکوشش کی تب جاکروہ اس کوحاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ متن کے تمام نسخوں تک رسائی حاصل کرنے کے بعدتدوین کاکام شروع کرے ۔کسی نسخے کوتلاش کیے بغیرہی غیرضروری سمجھ کرچھوڑدینایاکسی نسخے کے جلدی نہ ملنے سے پریشان ہوکراس کوچھوڑدیناتدوین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتاہے اس لیے مدون کوچاہیے کہ حتی الوسع کوشش کرکے مطلوبہ متن کے تمام نسخوں کوتلاش کرے اورپھراُن کی مکمل تفصیل مقدمے میں درج کرے۔اگرمکمل کوشش کے باوجودبھی کسی نسخے تک رسائی ممکن نہ ہوتوبھی مقدمے میں اس کاذکرکرے تاکہ بعد میں آنے والوں کوپتاچل سکے کہ کوئی نسخہ موجودتھامگرمدون کوکسی وجہ سے نہ مل سکا۔اس لیے اس طرح سے بعدمیں کام کرنے والوں کے لیے نئے راستے نکلتے ہیں اورمدون بدیانتی سے بچ سکتاہے۔کسی نسخے کوجان بوجھ کرگول کرجانابدیانتی متصورہوگا۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ حواشی میں تمام وضاحت طلب الفاظ ومحاوراتاوراگرنسخہ زیادہ قدیم ہے توتمام متروک الفاظ ومحاورات کی وضاحت کرے تاکہ قاری کے لیے آسانی رہے ۔کیوں کہ تدوین کامقصدمتن کومنشائے مصنف کے مطابق ڈھالناہوتاہے اس لیے ضروری ہے کہ بہت سے الفاظ ومحاورات ایسے ہوں جویاتومشکل ہوں یامتروک ہوچکے ہوں اس لیے مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ حواشی میں ان سب چیزوں کی وضاحت کرے جووضاحت طلب ہوں ۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلی تنقیدی وتحقیقی بصیرت کاحامل ہو۔کیوں کہ بہت سی چیزیں تدوینی مراحل میں تحقیق طلب ہوتی ہیں اُن کی جانچ پڑتال کے لیے تحقیقی مزاج کاہونابہت ضروری ہے وگرنہ بہت سی تدوینی کڑیاں تشنہ رہ جانے کے امکانات واضح ہیں ۔تحقیقی بصیرت کے ساتھ ساتھ تنقیدی بصیرت بھی انتہائی ضروری ہے کیوں کہ اگرمدون تنقیدی بصیرت سے عاری ہے توبہت سے مراحل میں غلطی کے امکانات ہیں جس سے تدوینی عمل متاثرہوگااورمطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیک وقت تحقیقی وتندوینی مزاج کے ساتھ ساتھ تنقیدی مزاج کا بھی حامل ہوتب جاکروہ صحیح نتائج دے پائے گا۔
- تنقیداورتدوین دونوں الگ الگ پہلوہیں لہذادونوں پہلوؤں کوساتھ ساتھ برتناہوگا۔کسی ایک کی کمی یازیادتی سے تدوین کاعمل متاثرہوگا۔مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دونوں رویوں میں توازن سے کام لے کرتدوین کرے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ تدوینی اصولوں کی پاسداری کرے اورپہلے سے موجوداصولوں کوسامنے رکھتے ہوئے کام کرے۔ہاں دورانِ کام اگرکچھ کمی بیشی کرنی پڑے توضرورت کے مطابق کرے اورساری وضاحت مقدمے میں پیش کرے تاکہ بعد میں کام کرنے والوں کے لیے نئے اصول مرتب ہوتے رہیں ۔کیوں کہ ہرکام کی نوعیت الگ ہوتی ہے اوراس کے لیے پہلے سے موجودہ قوانین ناکافی ہوتے ہیں مگرپہلے کے اصولوں کے پیش نظرکام کرے اورمزیداضافے اورنئے اصول مرتب کرے ،جس سے تحقیق وتدوین کی راہیں مزیدہموارہوں۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف متن تک نہ رہے بلکہ مصنف کے حالاتِ زندگی،تخلیق متن کے زمان ومکان،تخلیق متن کی وجوہات،اس عہدکی املا،رسم الخط،کاغذ،روشنائی اورتمام سیاسی،ثقافتی اورمذہبی سرگرمیوں سے بھی واقفیت رکھتاہو۔کیوں کہ ادب زندگی کاعکاس ہے اورجس دورمیں وہ متن لکھاگیاہے اس دورسے مکمل آگاہی ہی متن کوسمجھنے اورپھراس کی وضاحت میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔اس لیے مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ بین العلومی مطالعہ کاحامل ہو۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ رموزِاوقاف کاخاص خیال رکھے ۔کیوں کہ رموزِاوقاف تحریرکومعنی ومفہوم دیتے ہیں ۔زیر،زبر،پیش،وقفہ،سکتہ،قوسین،واوین،علامتِ تخلص،علامتِ شعر،علامتِ مصرع اوردوسری تمام شدمدتحریرکوخوب صورت اوربامعنی بناتی ہیں ۔لہذامدون کوچاہیے کہ اگرمتن میں ان چیزوں کااہتمام کیا گیاہے توپھران میں احتیاط سے کام لے کردرست اندازسے برتے ،کیوں کہ زیرزبرسے معنی کچھ کے کچھ ہوجاتے ہیں ۔اوردوسرامدون کوچاہیے کہ اسی دورکے رموزاوقاف برتے جس دورکامتن ہے اگرموجودہ دورمیں وہ علامات الگ معنی میں مستعمل ہیں یامتروک ہوچکی ہیں توان کی الگ وضاحت حواشی میں کرے نہ کہ مستمل علامات برتے ۔حواشی میں مستعمل علامت بھی تحریرکرے اوراس کی وضاحت بھی کرے۔رشیدحسن خان نے باغ وبہارمیں رموزاوقاف کاخاص خیال رکھاہے ۔کیوں کہ جس نسخے کوانھوں نے بنیادی نسخہ بنایاہے وہ 1804ءوالی اشاعتِ اول ہے جوفورٹ ولیم کالج کے زیرِ اہتمام مرتب کرکے شائع کیا گیا تھا اور فورٹ ولیم کامقصدانگریزوں کواُردوزبان سکھاناتھااس لیے اس میں رموزاوقاف کااستعمال ضروری تھا۔یہ ساری وضاحت رشیدحسن خان نے اپنے مقدمے میں کی ہے اوراپنے مرتبہ متن میں اس کاخاص اہتمام کیا ہے ۔رموزاوقاف اورعلامات کے حوالے سے رقم طرازہیں ۔
"اس نسخے میں الفاظ پراعراب اورعلامات،نیزعبارت میں رُموزاوقاف کاخاص اہتمام ملتاہے۔اُن کی ضروری تفصیل سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ گل کرسٹ نے جب کتابیں مرتب کرانے اورچھاپنے کامنصوبہ بنایاتھا،توپہلے یہ بنیادی کام کیا تھاکہ ایک مکمل نظامِ املا مرتب کرلیا تھا۔اُسے اُردورسمِ خط اورغیرملکی طلبہ،دونوں کی مشکلوں کاخوب علم تھا۔” (2)
- تدوین میں املاکا مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے۔مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنف کی دیگرتصانیف سے بھی واقف ہواوراسے مصنف کی املاسے خوب آشنائی ہوتاکہ کہیں لفظ مٹاہوایامدھم ہوتووہ مصنف کی املاکے اندازکے پیشِ نظرقیاسی تصحیح کرسکے۔اگراس دورکے الفاظ غیرمانوس یامتروک ہوچکے ہوں توان کی حواشی میں وضاحت کرے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ متن میں موجوداشخاص،عمارات،پرندوں،جانوروں،چیزوں اورکتب وغیرہ کی ضمیمہ میں الگ الگ وضاحت کرے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ پرگہری نظررکھنے والاہواورمتن میں موجودتاریخی واقعات کی الگ سے وضاحت کرے۔
- مدون کے لیے ضروری ہے کہ مطلوبہ متن پرجوتحقیقی یاتنقیدی کام ہواہے اس سے بھی آگاہ ہوکیوں کہ بہت سی معلومات ان کاموں میں سے بھی مل جاتی ہیں جوتدوینی کام میں مدددیتی ہیں ۔بہت سے نایاب نسخوں کی تفصیل یاہلکے سے اشارے ان کاموں سے ملتے ہیں جوتدوین کے لیے انتہائی اہم ہوتے ہیں ۔رشیدحسن خان نے باغ وبہارپرہونے والے ایسے کاموں کاذکرکیاہے جن سے انھیں کئی اہم نسخوں کاسراغ ملاہے،اورجن کوبعدمیں انھوں نے بڑی عرق ریزی سے حاصل کرکے اپنے کام کوایک شاہکاربنادیا۔
- تدوین کے لیے تذکیروتانیث کاخیال رکھنابھی انتہائی اہم ہے اوررشیدحسن خان نے اس معاملے میں بھی بڑی ریاضت کی ہے اورتذکیروتانیث کامکمل خیال رکھتے ہوئے منشائے مصنف کے مطابق متن تیارکیاہے۔کیوں کہ بقول رشید حسن خان کے تدوین کامقصدملاحظہ کریں ۔
"تدوین کامطلب یہ ہوتاہے کہ کسی متن کومنشائے مصنف کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔اس میں اصل حیثیت صحتِ متن کی ہوتی ہے ۔مصنف نے آخری بارعبارت کس طرح لکھی تھی،یہ سب سے اہم مسئلہ ہوتاہے۔” (3)
مختصراََ یہ کہ رشیدحسن خان نے تدوین کے لیے بہترین اصول مرتب کیے ہیں جومدونین کے لیے کسی شاہکار سے کم نہیں ۔انھوں نے اپنے ضخیم مقدمے میں جن چیزوں کاتذکرہ کیاہے یہی تدوین کے اصول وضوابط ہیں ۔اُن کے اس طویل مقدمے سے مقدمہ لکھنے کاطریقہ کار،تدوینی مراحل،تدوین کے اصول وضوابط اورمدون کی خصوصیات واضح طورپرمرتب کی جاسکتی ہیں ۔
حوالہ جات :۔
1)۔ ْْْْْباغ وبہارٗٗٗٗ،مرتبہ ،رشیدحسن خان،لاہور:نقوش پبلشرز،1992ء،ص16
2)۔ایضاََ،ص83
3)۔ایضاََ،ص20
عمیرؔیاسرشاہین
پی۔ایچ۔ڈی (اسکالر)
یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا
0303.7090395
umairyasirshaheen@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |