آج بہت دنوں بعدڈاکٹر تسلیم عارف کا فون آیا۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعدانھوں نے استادِ محترم صفدر امام قادری کی خیریت پوچھی :
’’کیاآج کل سر کے یہاں جاناہو رہا ہے یا نہیں۔‘‘
’’ نہیں بھائی۔ سر کے پاس کہاں جا پاتی ہوں آج کل،بس سوچ کر رہ جاتی ہو ں۔ شام کو جب تھک ہار کر گھر واپس آتی ہوں تو بدن ہاتھ جواب دے جاتا ہے اور کہیں نکلنے کا جی ہی نہیں کرتا ۔سب خیریت ہے نا؟؟
’’ہاں ہاں! سب خیریت ہے ۔ہم نے سمجھا کہ تمھیں پتا ہوگا ۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’نہیں۔مجھے تو کچھ نہیں معلوم ۔کیا بات ہے؟‘‘
’’صفدر سر کی حیات و خدمات پر ایک کتاب شایع ہونے والی ہے ۔ظفر کمالی صاحب اور واحد نظیر صاحب اس کتاب کو تیار کر رہے ہیں جن میں سر کی تخلیقات پر مضامین تو کافی تعداد میں جمع ہو گئے ہیں لیکن ان کی زندگی اور شخصیت پر بہت کم ہی لکھا گیا ہے۔تم بھی تو سر کو پندرہ بیس برسوں سے جانتی ہو۔ تمھیں بھی ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہیے۔‘‘
’’اس میں کوشش کی کیا بات ہے۔بالکل سر کے بارے میں لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔ ان شا اللہ میں ضرور کوشش کروں گی۔‘‘
میرے ذہن میں مولوی نذیر احمد کا خاکا گھومنے لگا ۔جس طرحـ مولوی عبدالحق کی فرمایش پر فرحت اللہ بیگ نے ایک یادگار تحریر قلم بند کی تھی۔آج قدرت نے مجھے بھی یہ موقع عنایت کیا ہے میرے بھائی جیسے دوست کی فرمایش پراستاد محتر م پروفیسر صفدر امام قادری کی شخصیت کے بارے میں چند باتیں اپنی لکھنے کی کوشش کی جائے۔
میرے ذہن میں برسوں پہلے کی تصویریں گردش کرنے لگیں۔ صفدر سرسے میری پہلی ملاقات پٹنہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں ہوئی۔ان سے میرا تعارف پروفیسر اسلم آزادسر نے کرایاتھا۔ میں اسلم آزاد سرسے کچھ پوچھنے صدر شعبہ کے دفتر گئی تھی، اُسی وقت پروفیسر صفدرامام قادری وہاں تشریف لائے تو پروفیسر اسلم آزاد نے ان سے میرا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:
’’یہ ہماری شاگردہ ہیں لیکن میں چاہتا ہو ں کہ یہ آپ کی نگرانی میں اپنی تعلیم آگے بڑھائیں اور آ پ کی کوچنگ میں ان کا داخلہ ہو جائے ۔‘‘
یہ سر سے میری پہلی ملاقات تھی ۔اس کے بعد ایک دن موقع ملا تو میں صفدر سر کے کوچنگ سنٹرگئی تو سر کلاس میں تھے۔ تھوڑی دیرانتظار کرنے کے بعد سر کلاس روم سے واپس آئے اورتعلیم کے سلسلے سے کچھ باتیں ان سے ہوئیں۔ اگلے دن آنے کاکہہ کر میں واپس ہوئی لیکن کچھ مسائل ایسے ہوئے کہ میں نہ دوبارہ کوچنگ جا سکی اورنہ یونی ورسٹی کی تعلیم ہی مکمل کر پائی۔کرنا تو بہت ہی کچھ چاہتی تھی پر شاید ہماری قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر وہی خواب دیکھنے لگی کہ کاش میں زندگی میں کچھ ڈھنگ کا کام کر پاتی۔ اپنی تعلیم کو مکمل کرتی،میں بھی نیٹ اور جے آرایف کرتی۔ انھی خوابوں کے ساتھ ایک بار پھر ہمّت کرکے آگے بڑھی اور سب سے پہلا کام پٹنہ میں گرلس پی جی میں ایک بیڈ لیا اور اُ س کے بعد صفدر سر سے ملاقات کے لیے اُن کے رہایش پہنچی ۔وہا ں اُن کے بہت سے شاگرد پہلے سے ہی موجودتھے ۔ان سب کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیااردو میں بھی اپنا کیرئر بنایا جا سکتا ہے؟کیوں کہ میںاردو کے تعلق سے ہمیشہ یہ گمان کیا کرتی تھی کہ اردو پڑھ کر کیا ہوگا؟ اردو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ بس ایک ڈگری مل جائے گی اور کیا۔ لیکن سر کے اتنے سارے شاگردو ںسے مل کر مجھے کافی خوشی ہوئی اور اردو کے بارے میں میری سوچ کافی بدل گئی اور آگے پڑھنے کا بھی ہمیں حوصلہ ملا۔
حالاں کہ چندبرس قبل میں سر سے مل چکی تھی لیکن اُس وقت سرسے پورے طور پر واقف نہیں تھی، اُس وقت بس ایک سرسری سی بات ملاقات ہوئی تھی ۔لیکن اس بار میں مصمّم ارادے کے ساتھ آئی تھی۔اس مرتبہ جب میں صفدر سر سے ملی توانھوں نے کہا :
’’اس باربھی پہلے کی طرح آئی ہویاکچھ کرنابھی ہے۔‘‘
’’ جی سر کچھ کرنا تو چاہتی ہو ں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔اس کے بعد سر نے ہمیں کافی کچھ سمجھایا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میں بھی کچھ کر سکتی ہوں۔یہ بہت کم اساتذہ کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کا اس طرح حوصلہ بڑھائے اور انھیں ان کی اہمیت سمجھائی جس سے ان کی زندگی کا ہدف اُبھر کر سامنے آنے لگے۔ میں نے سر سے پوچھا :
’’سر فیس ۔۔۔؟‘‘
سر تھوڑی دیرکے لیے خاموش ہو گئے اور فرمایا:
’’ہماری فیس یہ ہے کہ تم نیٹ جے آرایف کرلو۔یہ ہی ہماری فیس ہوگی۔‘‘
میں مالی اعتبار سے کافی کمزور تھی اور سر کو یہ باتیں معلوم تھیں۔اس لیے انھوں نے مجھے بغیر کسی اجرت کے ہی تعلیم دینے کا فیصلہ پلک چھپکتے ہی کر لیا۔آج جب کہ تعلیم گاہیں تجارتی ادارے بن گئے ہیں، کوچنگ کے نام پر لُوٹ مچی ہے ،اس دور میں استاد اللہ نے مجھے عطا کیا جسے میری تعلیم سے زیادہ غرض تھی نہ کہ مجھ سے حاصل ہونے والے پیسوں سے۔
سر نے ہماری کاپی لی اوراس طرح سمجھانا شروع کیا جس طرح ایک چھوٹے بچّے کو سمجھایا جاتا ہے۔سر نے سمجھاتے ہوئے مجھ سے فرمایا:
’’ دیکھو! نیٹ میں تین قسم کے سوالات آتے ہیں، معروضی ،مختصر اور تفصیلی جواب والے سوالات کے ساتھ بے حد تفصیلی جواب کاایک سوال۔‘‘ (اس زمانے میں نیٹ امتحان اسی طرز پر لیا جاتا ہے، آج صرف معروضی سوالات نٹ امتحان میں پوچھے جاتے ہیں)۔ اس کے علاوہ تعلیم کے سلسلے سے ہی بہت سی باتیں سر نے بتائیں ۔ اس طرح صفدر سر سے ہماری دوسر ی ملاقات نے میرے خیال سے عمر بھر کے لیے ان سے رشتہ قایم کر دیا اور اب ایک عرصہ ان کی شاگردی میں گزارنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ سر صرف ایک استاد ہی نہیں ہیں وہ ہم سب شاگردوں کے ایک گارجین بھی ہیں ۔ سر کے رہایش پر کوئی تشریف لائے اور ناشتہ، کھانا اور چائے کے ساتھ اس کی مہمان نوازی نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ کبھی کبھی ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنے حصّے کی روٹی بھی اپنے شاگردوں کے ساتھ اس طرح بانٹ کر کھا لیتے ہیںجیسے وہ ان کے اپنے بچّے ہوں۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنے شاگردوں کوبچّوں کی طرح پیار کرے ۔پھر صفدرسر نے فرمایا:
’’ایسے کام نہیں چلے گا تم شام میں بھی فرصت نکالو اور کوچنگ میں آئو۔ میں نے بھی سوچا سر ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں اور پھرمیں شام کو سر کے کوچنگ پر(فارمنس نٹ؍جے آر ایف)پہنچی تو دیکھا کہ کلاس روم میںوھائٹ بورڈ مارکر رکھا ہے ایک قطار میں بینچیں لگی ہوئی ہیں اور سامنے کی طرف ایک پوڈیم بھی ہے ، اس سے پہلے میں نے کلاس میں دیوار سے لگا ہوابلیک بورڈدیکھا تھا لیکن یہاںدیوار پر وھائٹ بورڈ لگا ہوا تھا۔ کھلّی کی جگہ مارکر نے لے رکھی تھی۔سر کے کلاس روم میں آنے سے قبل ہمارے ذہن میں جو تصّو ر تھاوہ یہ تھا کہ سر کلاس روم میں آئیں گے میر ، غالب ، مومن جو بھی موضوع ہو، اُن کے بارے میں کچھ نوٹ وغیرہ لکھوا کر یا کچھ کتابی باتیں بتائی جائیں گی لیکن یہا ں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔یہاں روایتی تعلیم سے بالکل مختلف ماحول تھا۔ درس وتدریس میں صفدر سر کااندازبالکل ہی مختلف تھا ۔مانوں ہم کسی اوردنیاکی سیرکررہے ہو ں۔ مانیے ایسا لگ رہاتھا جیسے کہ سر ان شعرا و ادبا کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ سر جب کلاس روم میں داخل ہوتے تو سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ جس موضوع کو پڑھانا ہوتا تھا ،وہ عنوان بورڈ پرلکھ دیتے اور ایک بعد ایک اہم نکات او پرسے نیچے کی جانب لکھتے چلے جاتے اور اسی پر اپنا لکچر دینا شروع کردیتے ۔ ایک ایک پوائنٹ کو تفصیل سے سمجھاتے۔ جب وہ کسی شاعر کو پڑھاتے تو اُن کے اہم اشعار بورڈ پرلکھ دیتے اوران کے معنی کو سمجھانے سے پہلے وہ طلبا کو موقع دیتے کہ وہ ان اشعار سے کیا سمجھ رہے ہیں ۔اُس کے بعد آخر میں خود اس شعر کا مطلب سمجھاتے۔
پھر ایک دن سر نے مجھے ایم۔ اے۔ کرنے کا مشورہ دیا۔سر کے مشورے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایم اے میں داخلہ لیا بلکہ اس میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعدسر کے ہی مشورے سے مگدھ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے ہم نے فارم بھرا اور اس میں منتخب بھی ہو گئی لیکن اُسی دوران یونی ورسٹی آف دہلی کے ایم فیل کا انٹرنس امتحان کا ریزلٹ بھی آگیا جس میں قسمت آزمانے کی خاطر میںشامل ہوئی تھی۔ کامیاب طلبہ کی فہرست میں میرا بھی نام تھا۔ اس لیے میں نے سر کے مشورے سے دہلی یونی ورسٹی سے ہی آگے کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کے بعد مجھے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ بھی ملنے لگی ۔ وہاں رہ کر محنت سے پڑھائی کی تو کئی کوششوں کے بعد نیٹ امتحان میں بھی کامیابی مل گئی۔ میں خود کو نہایت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اللہ نے مجھے صفدر سر جیسی شخصیت سے ملوایااور ان کے ذریعہ سے زندگی کی کئی اہم کامیابیاں مجھے حاصل ہوئیں۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
زندگی کا ایک چھوٹا سا عرصہ میں نے طے کیاہے۔ اسکول سے کالج اور پھر یونی ورسٹی ،کوچنگ ،ٹیوشن وغیرہ لیکن ایسا استاد نہ ہم نے دیکھا نہ سنا جو اپنے طلبہ کو اتنا عزیز رکھتا ہو ۔ صرف پڑھنا لکھنا ہی نہیں، زندگی کے ہر مرحلے میں وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی تکلیف اور دکھ درد میں ہر طریقے سے ان کی مدد کرتے ہیں۔
آج ٹکنالوجی کی دنیا ہے ۔جہا ںاچھے چھے لوگو ں دقت پیش آتی ہے لیکن ایک ہمارے صفدر سر ہیںجو ہر کا م بہ آسانی انجام دیتے ہیں اور اپنے کاموں سے انھوں نے ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ کئی سا ل پہلے سر نے کہا تھا :
’’ آنے والے وقت میںجب جہا سارا کا م ٹکنالوجی کے ذریعہ کرنا ہوگا ۔‘‘
اس وقت سر کی اس بات کو ان کے شاگردوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی لیکن آج دیکھتی ہو ں کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے۔یہ ان کی دور اندیشی ہی ہے کہ انھوں نے وقت سے پہلے ہی یہ انداز ہ لگا لیا تھا کہ آگے دور میں کیا کیا تبدلیاں ہوں گی اور وہ ان تبدیلیوں کے لیے اپنے طلبہ کوتیاری کرنے کانہ صرف مشورہ دیتے ہیں بلکہ اس کے لیے خود کو بھی ذہنی اور تکنیکی طور پر تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
مارچ ۲۰۲۰ کورونا کی وبا نے جیسے پوری دنیاہی بدل دی۔ پڑھائی لکھائی کا پورا کا نظام ہی بدل گیا۔ ملک اور دنیا کے نظام میں واضح تبدیلیاں رو نما ہونے لگیں ۔ بازارکے ساتھ ساتھ تمام طرح کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ اس میں بھی صفدرسر سب سے منفرد نظر آتے ہیں ۔ جہاں دوسرے اساتذہ آن لائن کلاس میں پریز ٹیشن کی خبر سن کر گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں،ان رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اورکلاس کے دوران ان کی سانسیں پھولنے لگتی ہے وہیں صفدرسر نے نہ صرف آن لائن کلاس کا کام تن دہی سے انجام دیا وہیں اس موقعے کو غنیمت جان کرکئی اہم کام انجام دے دیے خاص کر سکرٹیریٹ اسسٹنٹ ٹرانس لیٹرامتحان کے لیے آن لائن کلاس لینا ،آن لائن (zoom app)پر کانفرنس ،میٹنگ کے علاوہ کئی کتابیں بھی مکمل کر کے شایع کرادیں۔ان سب کے ساتھ ہی غریبوں اور ضرورت مند وں کی اس مشکل موقت میں مدد کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کیا اور ہنگامی آن لائن چندہ کرکے سیکڑوں گھروں تک راشن مہیاکرایا۔
آج اردوکی ادبی دنیا میں صفدرسر کا ایک اہم مقام ہے۔ ان کی شخصیت نہ صرف میرے لیے بلکہ ان کے کئی طلبہ کے لیے باعثِ رحمت ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ ان کو لمبی عمر عطا کرے اور ان کے علم کی روشنی مزید طلبہ کو سرفراز ہونے میں مدد ملے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page