ادب انسانی جذبوں کو احساس کی قوت اور شعور کو بصیرت عطا کرتاہے اور تنقید ادبی تخلیق و فن پارے کی قدروقیمت متعین کرکے اسے ادب و تہذیب کا مظہر ثابت کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس لیے تنقید کا یہ بھی فریضہ بنتاہے کہ وہ اپنے دور کے لیے نظام خیال کی تشکیل نو کرے تاکہ صالح اقدار پر مبنی ادب فروغ پاتا رہے۔ بہ قول جمیل جالبی:
’’ہردور میں مختلف تاریخی دھاروں کے بہاؤ کی وجہ سے کلچر بدلتا رہتاہے اور پرانا نظام خیال کمزور ہوتاہے اور ٹوٹتا پھوٹتا ہے۔ تنقید کا کام یہ ہے کہ وہ اس نظام خیال کو نئے سرے سے مرتب کرتی رہے تاکہ ایک طرف تغیر میں تسلسل باقی رہے اور دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں تخلیق کا عمل جاری رہے۔‘‘ (دیباچہ: ارسطو سے ایلیٹ تک)
اس زاویۂ نظر کے تحت اردو میں باقاعدہ تنقیدنگاری کی بنیاد سرسید تحریک کے زیراثر پڑی۔ در کھلے تو مغربی ثقافتی دھاروں کی بنیاد میں ہمارے تنقیدی رویے میں نوع بہ نوع تغیر و تبدل کے سلسلے چل پڑے اور اردو تنقید، محض سو سوا سو سالہ تاریخ میں اپنے نظام خیال، رومانوی، ترقی پسندی اور جدیدیت کے تشکیلی عمل سے گزرتے ہوئے مابعدجدیدیت پر آٹکی ہے۔ اس میں بھی ساختیات اور پس ساختیات، تشکیل اور ردِتشکیل وغیرہ سامنے آئے ہیں، تاہم انھیں کتنا ثبات ملتا ہے یہ تو مستقبل ہی طے کرے گا۔
* ریجنل ڈائرکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)، ۷۱۔جی، تلجلا روڈ، کولکاتا، ۷۰۰۰۴۶
ادب میں مواد کی تبدیلی بہ تقاضاے حالات تو فطری عمل ہے لیکن پہلے مواد کو تشکیل دینے والے اصول ہمیشہ قائم و دائم رہتے تھے۔ مغربی افکار کی بنیاد میں مواد کی تبدیلی اصولوں سے آزاد ہوگئی۔ نتیجتاً اصول و ہیئت کی شکست وریخت کے بعد کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی جو ادب کو انارکی سے بچا سکے۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ اب ہماشما بھی اپنی بات، اپنا تخلیقی عمل اور اپنا نظریہ منوانے پر مصر نظر آتاہے اور اس کے لیے مغربی معلوم و نامعلوم حوالوں سے مزین مضامین اور کتابوں کے انبار لگتے جارہے ہیں۔ جب کہ مغرب کی صورت حال پر فرینک کرموڈ نے لکھاہے کہ:
’’آج کل جیسی تنقیدی کتابیں تنقید کے نام پر مغرب میں خاص کر امریکہ میں لکھی جارہی ہیں، ان کی اوسط زندگی دوچار برس سے زیادہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجہوں میں ایک وجہ فرینک کرموڈ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ تنقید کا کاروبار کرنے والے صاحبان ’نئی سے نئی‘ کتابوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ان کے خیال میں ہر’نئی‘ کتاب میں ’نیا علم‘ بھی مہیا کیا جاتاہے۔‘‘
(شمس الرحمن فاروقی۔ شرح کی تعبیر، ص:۱۸۶)
اس المناکی کو اردو کا قاری بھی جھیل رہاہے۔ دوسری طرف بعض اردو کے ناقدین کی لاطائل عبارت آرائی، غیرمانوس اصطلاحات کی ژولیدگی اور تنقیدی عمل میں اصول و نظریات کے اطلاق کی پراگندگی، قاری کو اپنے ادب کی افادیت سمجھنے سے عاجز کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں کچھ ایسی ہستیاں ہردور میں رہی ہیں جن کی ناقدانہ بصیرت نے تنقید کا حق ادا کیاہے، نظام خیال کی تشکیل نو کی ہے اور ان کی نگارشات نے دل کو طمانیت اور دماغ کو ترفع بخشاہے۔ ایسی ہستیوں میں فی زمانہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں عنوان چشتی ایک ہیئت پرست ناقد – ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی )
علوم مشرقیہ، پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی ذہنی تربیت و تنظیم کی اساس بنے اور علمی شغف کے مواقع نے مغربی ادبیات تک ان کی رسائی بہم پہنچائی۔ اس لیے مشرقی و مغربی دونوں تنقیدی تصورات کی یہ گہری بصیرت رکھتے ہیں؛ صرف مطالعے کی حدتک نہیں بلکہ ان کی مرتبہ و مدونہ کتابیں ’مشرق کی بازیافت‘، ’انتخاب انعام اﷲ خاں یقینؔ‘، ’رشید احمدصدیقی: ادبی قدروقیمت‘، ’انتخاب فراق گورکھ پوری‘، ’اردو فکشن آزادی کے بعد‘ اور ’نظریاتی تنقید‘ کے مقدمے باور کراتے ہیں کہ تنقید سے ان کا لگاؤ گہرا رہاہے۔ ابوالکلام قاسمی کا اختصاص یہ ہے کہ ادب کی کسی مخصوص یا چند صنفوں تک ان کی تنقید کا دائرۂ کار محدود نہیں۔ سمیناروں اور رسائل و جرائد میں منتشر تنقیدی نگارشات کے علاوہ تنقیدی مضامین کے مجموعے ’مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت‘، ’شاعری کی تنقید‘، ’تخلیقی تجربہ‘ اور ’معاصرتنقیدی رویے‘، ’اردو شاعری‘ افسانوی و غیر افسانوی نگارشات، تنقید اور تحقیق سبھی کو محیط ہیں اور ان میں اصول و ضوابط کی پاسدار افادی تنقیدی رجحان پیدا کیے جانے پر زور کا پہلو غالب ہے۔ اس تخصص نے ان پر پینی نظر رکھنے والوں کو بھی قائل کیا ہواہے مثلاً پروفیسرصفدر امام قادری نے ’معاصر تنقیدی رویے‘ پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ:
’’ان تمام مضامین میں ایک ایسی شخصیت چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے جسے ادب کے نظریات اور اصول و ضبوابط کے آئینے میں ادبی سرمایے کی طرف متوجہ ہونے کا شوق بے پایاں ہے۔ ابوالکلام قاسمی کا یہی اختصاص انھیں برتر مقام عطا کرتاہے۔‘‘
(نئی پرانی کتابیں۔ ص:۱۳۲)
میری سمجھ میں آج ادب کے فروغ کے لیے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے قاری اور ادب کے درمیان قربت کے بجائے دوری پیدا ہورہی ہے اور اس دوری کو کم کرنے کے لیے اردو تنقید کو جو کام کرنا چاہیے، وہ نہیں کرپارہی ہے۔ کیوںکہ ایک طرف اصولی سطح پر تنقیدی معیاروں اور اصولوں کے واضح تصور کے بغیر ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی عمومی تجزیے اور تنقید کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف تنقیدی تصورات اور نظریے کا مبحث و اطلاق افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ادب پارے کے معقول افہام و تفہیم کی سبیل تو تنقیدی اصول و نظریات ہی پیدا کرتے ہیں، یہ بات مسلّم ہے۔ مثلاً:
’’اگر ہم کسی فن پارے میں شعری تدبیروں اورشاعرانہ صنعتوں کی نشان دہی کرناچاہیں تو ان کا پس منظر یہ ہوگا کہ شاعرانہ ذہن کیوں کر اشیا میں مماثلتیں تلاش کرلیتا ہے؟وہ کیسے مختلف حقائق کے اسباب وعلل میں تبدیلی یا حسن پیدا کرکے اپنے بیان میں لطف اورکشش پیدا کرتا ہے، یا یہ کہ رمز و کنایہ اور استعارے کااستعمال کیوں کر سامنے کے متعین معنوں کے ساتھ دوسرے معنوں کا امکان پیدا کردیتاہے؟ ان باتوں میں اول الذکر پس منظر میں تشبیہ یا استعارہ پیدا ہوتا ہے، ثانی الذکر کے باعث حسن تعلیل کی صنعت عمل میں آتی ہے اور موخر الذکر پس منظر ، فن پارے کو زمان ومکان کی تبدیلی کے باوجود بامعنی باقی رکھتا ہے۔یہ تمام رویے شعری تنقید کے لیے نظری بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ یہی رویے جب اطلاقی سطح پر تنقیدی عمل سے مربوط ہوجاتے ہیں تو فکری یا نظریاتی سطح پر اس کے سرچشمے انسانی زندگی یاتہذیب و ثقافت سے پھوٹے ہوئے محسوس ہونے لگتے ہیں۔‘‘ (معاصرتنقیدی رویے۔ ص:۱۰۔۱۱)
ٰؒلیکن اس ضمن میں میرا خیال ہے کہ کسی بھی نظریے کو یا کسی بھی طریقے کو عمومی سطح پر ایک قوت کی طرح بروے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس طرح متعارف کرایا جائے کہ وہ عام قارئین پر ایسا تاثر ڈالے کہ وہ اسے خوش دلی اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔ اس رویے کو ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی ناقدانہ بصیرت عام کرنے میں سرگرم نظر آتی ہے۔
گرچہ قاسمی صاحب کے یہاں متن کو متن کے حوالے سے جانچنے، پرکھنے اور تعین قدر کا نظریہ کلیدی اہمیت رکھتاہے جو مابعد جدیدیت کے رجحان پر مبنی ہے اور اس کے پیروکار اور بھی ناقدین ہیں مگر موصوف اپنے ہم عصروں میں اس معنی میں منفرد ہیں کہ متن کے تجزیاتی عمل میں معانی و مفاہیم کی نئی جہتوں اور نئی معنویت کے اثرانگیز ہونے کے امکانات کی جستجو میں دیگر اصولوں کو بھی بروے کار لے آتے ہیں۔ یہ بہتوں کی طرح کسی مخصوص نظریہ کی پاسداری پر مصر نہیں ہوتے کیوںکہ فن پارے کی معنوی عظمت کے تعین کے لیے احساساتی نظام تک رسائی بھی ضروری ہوتی ہے جو محض فنی تدابیر پر قناعت سے ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً ’اقبال کے لفظیاتی نظام‘ کے تجزیے میں شمس الرحمن فاروقی مطالعۂ الفاظ کے دوران ذرّہ برابر بھی متنی اکائی سے باہر نہیں گئے، البتہ ’شعرشورانگیز‘ میں انھوں نے بعض لفظوں کو شعری متن سے الگ کرکے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ عام طورپر ایسا نہیں کرتے جب کہ قاسمی صاحب مطالعۂ الفاظ کے دوران بندھے ٹکے اصول سے گریز کرتے ہیں اور متن کے تجزیاتی عمل میں لفظوں کے تہذیبی و تاریخی سیاق و سباق سے بھی کام لیتے ہیں اور لفظوں کو عصری تناظر میں رکھ کر بھی تشریح کرتے ہیں۔ مثلاً خسرو کی غزلیہ شاعری کی حرکیات کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ان کی غزل اپنے پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے فعالیت ، حرکت اور محرک قوتوں کی کش مکش کا ایسا تاثر قائم کرتی ہے جس کی تشکیل میں استعارہ سازی ، پیکر تراشی اور قول محال کی موجودگی بنیادی کردار ادا کرتی ہے —مثال کے طور پر یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ محبوب کی بلند قامتی کو سروکے استعارے سے بیان کیا جاتا ہے — ظاہر ہے کہ سرو بلند قامتی کی نمائندگی ضرور کرتاہے مگر یہ استعارہ حرکت یا نقل مکانی کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف خسرو سرو کے استعارے کو تو اپنی روایت سے قبول کر لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی کسی نہ کسی صفت کا اضافہ بھی کردیتے ہیں اور یہ صفت ایسی ہوتی ہے جوحرکت کو بھی قبول کرتی ہے اور نقل مکانی کو بھی۔‘‘
یہاں پروفیسر قاسمی نے بتایاہے کہ خسرو نے ’سرو‘ کے بجاے ’سرورواں‘ و ’سروخرامیدہ‘ کو استعمال کرکے منجمد استعارہ کو کس طرح فعالیت بخشا ہے۔
شعری متن کی کثیرالمعنویت کے انکشاف کے لیے لہجے و قرأت کی اہمیت کا تصور قدیم عربی و سنسکرت ادب میں بھی ملتاہے اور مابعد جدید رجحان نے بھی اسے اپنایاہے لیکن موصوف نے لہجہ و قرأت کے توسط سے جس حکمت سے غالب کی شاعری کا باقاعدہ تنقیدی جائزہ لیاہے، اس کی کوئی بڑی مثال غالب کے تمام ناقدین و شارحین کے یہاں نہیں ملتی جس سے غالب کی معنی آفرینی کی ندرت کو سمجھا جاسکے۔ قاسمی صاحب نے روایتی جائزوں سے یکسر مختلف انداز میں پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ بتایاہے کہ لہجے کے وسیلے سے شعر کے عام یا مروجہ معنی کس طرح نئے معنی میں منقلب ہوتے ہیں اور کس طرح لسانی پیرایوں، صوتی آہنگوں اور نحویات کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو براہ راست شعری لہجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً غالب نے قول محال اور تعقید لفظی سے شعر میں معنوی وسعت و تنوع پیدا کی ہے۔ قاسمی صاحب نے قول محال اور تعقید لفظی پر مبنی اشعار کا تجزیہ کرکے ثابت کیاہے کہ ان کے معنوی تعینات لہجے کے تعین کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے، کیوںکہ ان سے جس شعر کی تشکیل ہوئی ہے وہ طنزیہ بھی ہوسکتا ہے، ڈرامائی بھی اور استفہامیہ بھی۔ ان تینوں لہجوں کی تعمیر و تشکیل میں قول محال اور تعقید لفظی نے کتنی غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، ان کا حیرت انگیز انکشاف کرکے موصوف نے ’تنقیدغالب‘ میں اضافہ کیاہے۔
تنقیدی اصول و نظریات پر انھوں نے بہت گفتگو کی ہے مگر کہیں بھی الجھاؤ اور ابہام نہیں ملتا بلکہ موضوع و موقف پر ایسا ارتکاز ملتا ہے کہ بسا اوقات ان کے موقف سے اختلاف کے باوجود قاری ان کی سلیقہ مندی کا قائل ہوجاتاہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے ’مابعدجدیدیت، مضمرات و ممکنات‘ میں ان کے رویے کو خوب سراہا ہے اور لکھاہے کہ:
’’مابعدجدید رویے میں حقیقت، واقعات، تجربات یا مشاہدات کی کیا صورت ہے؟ ان سب کا تعلق زبان سے کس طرح ہے؟ لسانی اظہار کی سطحیں کیا ہیں اس کی معنویت کیا کچھ ہے؟ ان امور پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور پھر آگے جاکر جوابات بھی مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ (ص:۴۱۹)
مگر صفدرامام قادری کہتے ہیں کہ:
’’قاسمی اس نئی ادبی تحریک یا رویے کے ایسے رہبر ہیں جسے ان نظریوں میں کوئی کوتاہی یا تحفظ اور حدود کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔‘‘
(نئی پرانی کتاب، ص:۱۳۲)
یہ بات بار بار غور کرنے کے باوجود ناچیز کے سرسے گزر جاتی ہے کیوںکہ بہ قول ڈاکٹر منصور عمر:
’’مابعدجدیدیت کا سورج ابھی طلوع ہی ہوا تھا اور اس کی روشنی سے ابھی ادبی فضا منور بھی نہیں ہوئی تھی اور بیش تر ادیب و فن کار جدیدیت کی چادر تانے ابھی محوخواب ہی تھے کہ ابوالکلام قاسمی، مابعدجدیت کے سورج کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنے اور اس کی کرنوں کو اپنے اندر جذب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘
(مابعدجدیدیت: مضمرات و ممکنات- ایک جائزہ، ص:۸۴)
اسی طرح مضامین ’نوآبادیاتی فکر اور اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی‘، ’تانیثی ادب کی شناخت اور تعین قدر‘، ’قرۃالعین حیدر اور نسائی حسیت کا رجحان‘ وغیرہ کے مطالعے ثابت کرتے ہیں کہ ان موضوعات پر قاسمی صاحب نے اس وقت قلم اٹھایا اور نو آبادیاتی فکر کو اردو کی ادبی و شعری نظریہ سازی سے ہم آہنگ کرنے نیز تانیثی ادب کی اطلاقی صورتوں کو نمایاں کرنے کی سعی کی جب بہت کم ادیبوں نے ان کی طرف توجہ دینے کی زحمت گوارہ کی تھی۔
لہٰذا صفدر امام قادری کی متذکرہ رائے پر گفتگو کی جائے تو بات بہت دور تک جائے گی۔ اس لیے صفدرامام قادری کی ہی ایک دوسری مثبت رائے سے رجوع کرکے اپنے موضوع پر لوٹتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’قاسمی کے تجزیے کی معروضیت اور گہرائی کلیم الدین احمد پر لکھے مضمون میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس مضمون سے اس بات کا اندازہ بھی ہوتاہے کہ قاسمی چاہیں تو کسی نقاد کا انصاف پسندانہ جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس مضمون میں کلیم الدین احمد کی تنقیدی خصوصیات سے وہ پورے طورپر واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ نپی تلی تنقیدی رائے دے سکتے ہیں اور تجزیہ کرکے اپنی باتوں کو ثابت کرسکتے ہیں۔ اس مرحلے میں اردو کے موجودہ نقادوں میں ان کی حیثیت نمایاں ہوجاتی ہے۔‘‘ (نئی پرانی کتابیں، ص:۱۳۴)
عہد بہ عہد فن پارے میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ فن کار اپنے زمانے سے متاثر ہوتاہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے نئی معنویت اور تبدیلی پر بڑی اچھی رائے دی ہے کہ:
’’فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی فکر و آگہی سے آزادانہ تخلیقی معاملہ کرے اور کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ اپنے طورپر کھرے کھوٹے کو پرکھے۔ ادب میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ادب کی پہلی شرط اس کا ادب ہوناہے اور ادب وہی ہے جو زندگی کی حکت و حرارت سے جڑا ہوا ہو، اپنی تہذیبی پہچان رکھتاہو اور اپنے عہد کے ذہن و شعور، سوز و ساز و دردو داغ و جستجو و آرزو کی آواز ہو، نہ صرف آواز ہو بلکہ موثر آواز ہو۔‘‘
(’تنقیدکا نیامنظرنامہ اور گوپی چندنارنگ‘ ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی، فلپ)
پروفیسرابو الکلام قاسمی عصرحاضر کے ایسے نقاد ہیں جن کی تنقیدنگاری میں توازن اور انفرادیت جھلکتی رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تنقید کا اپنا ایک مزاج ہوتاہے جس میں کسی بھی تخلیق کے منفی اور مثبت پہلو کو دیکھنے کے لیے عام طورپر جو رویے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اکثر توازن برقرار نہیں رہ پاتا، لیکن ابوالکلام قاسمی نے منفی پہلوؤں پر بھی مثبت رائے دینے کا ایک نیا وژن اختیار کیاہے۔ میرا خیال ہے کہ پروفیسرآل احمد سرور کا ایکسٹینشن نئے پیرایے میں اپناکر انھوں نے اپنی تنقیدی صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے اور اردو تنقید میں ایک نئی طرح ڈالی ہے۔
میرے خیال میں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ادب، ان کی روایت اور ان کے تخلیقی رجحانات و میلانات سے پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی غیرمعمولی آگاہی، اعلیٰ ادبی ذوق، جمالیاتی قدروں کا گہرا شعور اور ان کے تنقیدی عمل میں تنوع اور ہمہ گیریت موجب امتیازات ہیں تو سلجھا ہوا، واضح، استدلالی اسلوب اور معروضیت پر مبنی نپی تلی رائے سونے پر سہاگا۔ اس طور فی زمانہ اردو تنقید کی کئی جہتوں میں پروفیسر ابو الکلام قاسمی کی اوّلیت تو کہیں امتیاز و اختصاص نمایاں ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
[…] تحقیق و تنقید […]
[…] تحقیق و تنقید […]