علامہ شبلی نعمانی کی زندگی تصنیف و تالیف سے یوں وابستہ رہی کہ اوائلِ نوجوانی سے آخری ایام تک وہ متواتر کسی نہ کسی موضوع پر لکھتے رہے۔ ابتدا میں فروعی مسائل پرقلم اُٹھایا اور اسکات المعتدی علیٰ انصات المقتدی اور ظل الغمام فی مسئلہ القراۃ خلف الامام لکھیں، جس کے بعد مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم اور الجزیہ کے ذریعے انھوں نے خالص علمی موضوعات پر طبع آزمائی کی؛ المامون، سیرۃ النعمان، الفاروق اور اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر نامی سوانح عمریاں تحریر کیں؛ روم و مصر و شام کی سیاحت پر مشتمل ایک سفر نامہ لکھا؛ الغزالی، علم الکلام، الکلام اور سوانح مولانا روم کے نام سے مسلم فلسفہ کی تاریخ مرتب کی اور موازنہ انیس و دبیر اور شعر العجم کے ذریعے ادب کی خدمت کی۔ اور سب سے بڑا کارنامہ، جس کی داد آج تک وہ وصول کر رہے ہیں، وہ سیرت النبی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مقالات، خطبات، اردو فارسی شاعری اور اردو فارسی اور عربی مکتوبات بھی یادگار ہیں۔
علامہ شبلی محض ستاون برس کی عمر میں علم و ادب کی اس قدر خدمت کرگئے، جس کا بالعموم تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بزرگوں اور عزیزوں کی طرف سے عدم تعاون، دو بیویوں اور بعض بچوں کی وفات، دوستوں کی بے اعتنائی، ندوہ میں شدید مخالفت، اپنی نا قدری کا احساس، اوائل عمری سے صحت کی دِگرگوں صورتِ حال، حتیٰ کہ پچاس سال کی عمر میں ایک ٹانگ کا پنڈلی تک کٹ جانا، پھر ندوہ سے اخراج، سیرت النبی کے مقدمے پر سخت اعتراضات اور کفر کے فتوے، یہ معمولی تکلیفیں نہ تھی؛ لیکن علامہ کی تگ و تاز اور تصنیف و تالیف میں کوئی امر مانع نہ ہوا اور وہ چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے اتنا کام کر گئے، جتنا کوئی ادارہ ہی کر سکتا ہے، اس کے باوجود شبلی کے بعض منصوبے ایسے بھی تھے، جو روب عمل نہ ہو سکے۔ ان کی بعض تحریروں میں ان کے متعدد ارادوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان منصوبوں میں چند ایک کا آغاز بھی ہوا اور کچھ خیال سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ذیل میں ان تمام ارادوں اور منصوبوں کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
ردِ تذکرۃ [المنتھی فی ردِ اسکات المعتدی]
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ [علی گڑھ] کالج جانے سے پہلے غیر مقلدین سے مناظرے کا بہت شوق تھا۔ حافظ سلامت اللہ صاحب جیراج پوری اعظم گڑھ میں غیر مقلدوں کے سرگروہ تھے، تقلید و حنفیت کے رَدّ میں وہ چھوٹے چھوٹے رسالے لکھتے تھے، مولانا [شبلی] ان کا جواب دیتے تھے۱؎۔ اسی سلسلے میں انھوں نے علامہ شبلی کا یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’امام کے پیچھے قرأتِ فاتحہ نہ صرف یہ کہ واجب نہیں، بلکہ مکروہ ہے‘؛ اسی بنا پر انھوں نے اسکات المعتدی علی انصات المقتدی کے نام سے عربی میں چوبیس صفحات پر مشتمل ایک مختصر رسالہ لکھا۔ اس رسالے میں مولانا شبلی نے متن میں ’قال بعض العلما‘ لکھ کر مولانا عبدالحی صاحب فرنگی محلی کی تحقیق کا رَدّ کیا تھا۔ مولانا عبدالحی کے شاگروں میں سے مولانا نور محمد ملتانی نے تذکرۃ المنتھی فی رَدِّ اسکات المعتدی کے ذریعے شبلی کے رسالے کا جواب دیا۔ مولوی محمد عمر کے نام ایک فارسی خط مرقومہ ۷؍اکتوبر ۱۸۸۲ئ میں شبلی اس رَدّ کا جواب لکھنے میں حائل بعض مجبوریوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
… بارے توفیقت رہبری کرد کہ حنا از پاے خامہ کشادی و طرح مکاتبت درمیان نہادی، پارہ از ردّ تذکرہ برزبانِ قلم آمدہ بود کہ ہمدرین میان ما را بکار امانت گماشتند و از ہجومِ کار و ترا کم افکار کمری سنج کردن نتوانستم و چو از ایں کشمکش فارغ نشستم دیگر روے داد، یعنی کارم بہ گودام و متعلقات او افتاد و ہر چند آں چناں کارے سزاے ایں ہیچکارہ نہ بود مگر مرا از امتثال امر حضرت قبلہ گاہی چارہ نہ بود، اکنونکہ ازیں ہرزہ گردبہا ستوہ آمدہ خود را در ایں جا رساندہ ام، اِن شا اللہ در اندک زمانے از عہدۂ رد تذکرہ بدرمے آیم۔۲؎
[ترجمہ]
توفیقِ باری سے قسمت نے یاوری کی اور لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ردِّ تذکرۃ کے سلسلے میں ابھی تھوڑا بہت ہی لکھا تھا کہ مجھے اس کام میں [قرق]امین بنا دیا گیا ہے۱؎۔ ہجومِ کار کے باعث ابھی اس کام کے لیے دوبارہ کمربستہ نہیں ہو سکتا۔ اس کشمکش سے نجات ملی تو ایک اَور افتاد آن پڑی، یعنی گودام اور اس کے متعلقات کی نگرانی کرنی پڑی؛ اگرچہ مَیں اس کا اہل نہ تھا، لیکن چونکہ یہ حضرت قبلہ گاہ [والد] کا حکم تھا ، اس لیے بجاآوری کے سوا چارہ نہ تھا۔ اب کہیں جا کر اس بیگار سے جان چھوٹی ہے اور مَیں واپس آ گیا ہوں۔ اِن شا اللہ جلد ہی تذکرۃ کا جواب مکمل کر دوں گا۔ کچھ دوستوں کے خیال میں حافظ صاحب کے افکار پر مبنی دو رسالے اَور بھی ہیں۔اب تک تو مجھے حافظ صاحب کے علم و استعداد پر اعتماد تھا، مگر اب وہ اعتماد بھی اُٹھ گیا ہے۔ اِن شا اللہ جلد ہی غازی پور جاؤں گا اور تذکرۃ اور ایماضات کے مصنف کی اغلاط اور گمراہیوں کی نشاندہی کروں گا۔
لیکن دستیاب معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ شبلی یہ رسالہ نہ لکھ سکے۔
تاریخِ بنی العباس
شروع شروع میں شبلی نے بنی عباس کی تاریخ لکھنے کا ارادہ کیا، البتہ پہلی مرتبہ انھوں نے ۱۸۸۳ میں اس کا ذکر کیا اور مولوی محمد سمیع کو لکھا کہ ’مجھ کو تو آج کل تاریخِ بنی العباس کی پڑی ہے‘۔۳؎ ۹؍اپریل ۱۸۸۴ کو مطلع کیا کہ ’اِس وقت تک مَیں معتصم کا حال لکھ رہا ہوں اور پہلی جلد اِن شا اللہ یہیں تک ختم کر دی جائے گی‘،۴؎ لیکن ۲۷؍نومبر ۱۸۸۴ کو انھی کے نام خط میں اپنی مصروفیات کے تذکرے کے بعد بتایا کہ ’اپنی کیا بتاؤں! وہی تاریخ کا جھگڑا ہے، ہر روز چار سطریں لکھ لیتا ہوں‘۔۵؎
یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مذکورہ تاریخ کی پہلی جلد، جو معتصم تک ختم ہوئی تھی، بعد میں کتابی صورت میں شائع کیوں نہ ہو سکی؟ سید سلیمان ندوی کا کہنا ہے، افسوس کہ اس تاریخ کا خیال بعد کو چھوڑ دیا گیا۔۶؎
ہیروز آف اسلام
تاریخ بنی العباس کا خیال ترک کرنا پڑا تو انھوں نے اپنے منصوبے کو ہیروز آف اسلام تک محدود کر دیا۔ چنانچہ انھوں نے المامون (مطبوعہ ۱۸۸۷)کے دیباچے میں لکھا:
ایک مدت سے میرا ارادہ تھا کہ اسلامی حکومتوں کی ایک نہایت مفصل اور بسیط تاریخ لکھوں، لیکن مشکل یہ تھی کہ نہ مَیں تمام خاندانوں کا استقصا کر سکتا تھا، نہ کسی خاص سلسلے کے انتخاب کی مجھ کو کوئی وجہ مرجِّح ملتی تھی۔ آخر مَیں نے یہ فیصلہ کیا کہ رائل ہیرو آف اسلام (یعنی نامور فرماںروانِ اسلام) کاایک سلسلہ لکھوں، جس کا طریقہ یہ ہو کہ اسلام میں آج تک خلافت و سلطنت کے جتنے سلسلے قائم ہوئے، ان میں سے صرف وہ نامور انتخاب کیے جائیں، جو اپنے طبقے میں عظمتِ حکومت کے اعتبار سے اپنا ہمسر نہ رکھتے تھے اور ان کے حالات اس ترتیب اور جامعیت سے لکھے جائیں کہ تاریخ کے ساتھ لائف کا مذاق بھی موجود ہو۔۷؎
شبلی نے مختلف حکمران سلسلوں میں سے ایک ایک ممتاز حکمران کو منتخب کیا، یعنی خلفاے راشدین میں سے حضرت عمر فاروقؓ، بنو اُمیہ سے ولید بن عبدالملک، عباسیہ سے مامون الرشید، بنو اُمیہ اندلس سے عبدالرحمن ناصر، بنوحمدان سے سیف الدولہ، سلجوقیہ سے ملک شاہ، نوریہ سے نورالدین محمود زنگی، ایوبیہ سے صلاح الدین ایوبی، موحدینِ اندلس سے یعقوب بن یوسف اور ترکانِ روم سے سلیمان اعظم ۔ دیگر حکمران خاندانوں سے صرفِ نظر کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے شبلی نے لکھا:
ان خاندانوں کے سوا اَور بھی بہت سے اسلامی خاندان ہیں، جو تاج و تخت کے مالک ہوئے، مگر مَیں نے ان کو دانستہ چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے بعضوں سے متعلق (مثلاً غزنویہ، مغلیہ، تیموریہ) تو اس وقت ہماری زبان میں متعدد تصنیفیں موجود ہیں، بعض ایسے ہیں کہ شانِ حکومت یا وسعت سلطنت کے اعتبار سے ان کو یہ رُتبہ حاصل نہیں کہ ہیروز کے معزز دربار میں ان کے لیے جگہ خالی کی جائے۔۸؎
اگرچہ تمام مسلم حکمران خاندانوں میں سے چند خاندان منتخب کیے اور پھر ہر خاندان سے ایک ممتاز حکمران چنا، لیکن اس کے باوجود شبلی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ انھوں نے بتایا:
جس زمانے میں مجھ کو ہیروز آف اسلام کا خیال پیدا ہوا، اُسی وقت یہ خیال بھی آیا کہ ہمارے ملک میں جس قدر تاریخی سرمایہ موجود ہے، وہ اس مقصد کے لیے کسی طرح کافی نہیں ہو سکتا۔ یہی خیال تھا، جس نے اوّل اوّل اس سفر [روم و مصر وشام] کی تحریک دل میں پیدا کی، کیونکہ یہ یقین تھا کہ مصر و روم میں اسلامی تصنیفات کا جو بقیہ رہ گیا ہے، ان سے ایک ایسا سلسلہ تالیف ضرور تیار ہو سکتا ہے۔۹؎
لیکن شبلی کی مجوزہ فہرست میں سے حضرت عمر فاروق (الفاروق) اور مامون الرشید (المامون) ہی ان کی تحقیق کا موضوع بن سکے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ سلسلہ تیموریہ شبلی کے پیش نظر نہ تھا، مگر دسمبر ۱۹۰۶ سے مارچ ۱۹۰۸ کے دَوران میں انھوں نے الندوہ میں اس خاندان میں سے اورنگ زیب عالم گیر پر سلسلہ مضامین شروع کیا، جنھیں بعد میں اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر کے نام سے کتابی صورت میں ۱۹۰۹ میں شائع کر دیا گیا۔ اگرچہ ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۰ کو سید احمد مرتضیٰ نذر کے نام لکھے گئے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں لکھی گئیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی سوانح عمریوں کو شبلی لغو سمجھتے تھے، چنانچہ ایک مدت تک سلطان ایوبی کی سوانح عمری لکھنے کا ارادہ باندھتے رہے، لیکن ایسا کر نہ سکے اور نہ انھیں تب اس کے لکھنے کی امید ہی رہی تھی۔۱۰؎ اس طرح ’ہیروز آف اسلام‘ کے سلسلے سے تین حکمرانوں پر تصانیف معرضِ تحریر میں آ سکیں؛ جب کہ آٹھ حکمرانوں، یعنی ولید بن عبدالملک، عبدالرحمن ناصر، سیف الدولہ، ملک شاہ، نور الدین زنگی، سلطان صلاح الدین ایوبی، یعقوب بن یوسف اور سلیمان اعظم سے متعلق ان کے منصوبے روبعمل نہ ہو سکے۔
نامورانِ اسلام
۱۸۹۲ میں جب سیرۃ النعمان شائع ہوئی تو ’ہیروز آف اسلام‘ میں کسی قدر ترمیم کا اظہار ہوا۔ شبلی نے دیباچے میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
’نامورانِ اسلام‘، جس کا ایک حصہ المامون چھپ کر شائع ہو چکا ہے، اوّل مجھ کو اس کا خیال پیدا ہوا تو نہایت وسیع بنیاد پر ہوا۔ جس طرح مَیں نے خلافت و سلطنت کے مختلف خاندانوں سے نامور انتخاب کیے؛ ارادہ تھا، اسی طرح سے علوم و فنون کے جدا جدا خاندان قائم کیے جائیں اور جو لوگ ان خاص خاص فنون میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے، ان کو سلسلے کا ہیرو قرار دیا جائے، مگر اتنا بڑا کام تنہا میرے بس کا نہ تھا؛ مجبوراً حیثیت حکومت کی قید لگا کر مَیں نے اس وسیع خیال کو بہت کچھ محدود کر دیا، بلکہ سلسلۂ حکومت سے بھی بہت سے خاندان چھوڑ دیے، تاہم وہ خیال دل سے نہ گیا کہ فرصت ہو تو اہلِ کمال کا دربار بھی سجایا جائے کہ السیف و القلم توأمان۔۱۱؎
’نامورانِ اسلام‘ کے سلسلے میں انھوں نے امام ابوحنیفہؒ(سیرۃ النعمان)، امام غزالیؒ(الغزالی) اور مولانا روم (سوانحِ مولانا روم) کی سوانح و شخصیات پر تصانیف پیش کیں، لیکن الغزالی اور سوانحِ مولانا روم کو ’نامورانِ اسلام‘ کے بجاے سلسلہ کلامیہ میں شمار کیا جانا چاہیے؛ یوں ’نامورانِ اسلام‘ میں سے صرف امام ابوحنیفہؒ پر ان کی تصنیف منظر عام پر آ سکی۔
قرآن کا اعجاز
۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۲ کو مولوی سید ممتاز علی (۱۸۶۰ئ-۱۹۳۵) کو اپنے مختلف تصنیفی ارادوں سے متعلق مطلع کرتے ہوئے ’قرآنِ مجید کا اعجاز‘ کا ذکر کرتے ہیں۔۱۲؎ البتہ مقالاتِ شبلی جلد پنجم میں شامل ان کی ایک مختصر تحریر ’اعجاز القرآن‘ کے علاوہ اس منصوبے کا کہیں تذکرہ نہیں۔
علوم القرآن
محسوس ہوتا ہے، شبلی کا ’قرآنِ مجید کا اعجاز‘ نامی منصوبہ مسلسل ان کے ذہن میں گردش کرتا رہا اور اس کے بارے میں متواتر سوچ بچار کرتے رہے،چنانچہ یکم دسمبر ۱۹۰۹ کو مولانا ابوالکلام آزاد کے نام ایک خط میں ندوہ میں اپنی روز افزوں مصروفیات کی بابت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اِدھر علوم القرآن لکھنا شروع کر دیا ہے، وہ بھی کچھ ہو جائے گا‘۔۱۳؎ لیکن وہ خواہش کے باوجود، اس طرف توجہ نہ دے سکے، کیونکہ ریاست ٹونک کے سررشتہ دار سید احمد مرتضیٰ نذر کے نام ۶؍ستمبر ۱۹۱۰ کے مراسلے میں شعر العجم کی چوتھی جلد کا ذکر کرتے ہیں، جس کی تکمیل میں ان کا زیادہ وقت صرف ہو رہا تھا، ساتھ ساتھ دعا کرتے ہیں کہ ’خدا جلد اس سے فرصت دے، اصلی کام علوم القرآن اور آنحضرتؐ کی سوانح عمری ہے، ان کے انجام کی خدا توفیق دے‘۔۱۴؎
شبلی اُن دِنوں پچپن برس کے ہو گئے تھے اور قویٰ میں اضمحلال محسوس کرنے لگے تھے، علاوہ ازیں ان کی خوراک دن بھر میں صرف ایک چپاتی رہ گئی تھی؛ چنانچہ وہی ہوا، جس کا شبلی کا خدشہ تھا۔ اگرچہ سیرت النبی کی تالیف کا اتنا سامان ہو گیا کہ ان کے شاگردِرشید، سید سلیمان ندوی کی توجہ سے یہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی، لیکن زیرِ نظر منصوبے پر باقاعدہ کام نہ کر سکے، البتہ چند ایک مقالات سے اس موضوع سے ان کی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے، مثلاً ’علوم القرآن‘، تاریخِ ترتیبِ قرآن‘، ’اختلافِ مصحف اور قرأت‘ ، ’قرآن مجید میں خدا نے قسمیں کیوں کھائیں؟‘، ’قضا و قدر اور قرآنِ مجید‘، ’یورپ کے عدیم الصحۃ ہونے کا دعویٰ‘، ’قرآنِ مجید کی تدوین کی کیفیت‘اور ’تحریر و کتابت‘۔ سید سلیمان ندوی نے یہ تمام تحریریں مقالات کی جلد اوّل میں شامل کردی ہیں۔
عربی شاعری کی ہسٹری
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۲ کو شبلی نے اپنی تین تصانیف کے منصوبے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، اُن میں قرآنِ مجید کا اعجاز، فارسی یا عربی شاعری کی ہسٹری اور الغزالی شامل ہیں۔ اس موضوع پر ’عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ‘ اور ’شعر العرب (کتاب العمدہ لابن رشیق)‘ کے عنوانات کے تحت ان کی دو تحریریں مقالاتِ شبلی کی دوسری جلد میں شامل ہیں، تاہم انھوں نے عربی شاعری کی تاریخ پر باقاعدہ کام نہیں کیا۔ اس کے برعکس شعرالعجم کے نام سے پانچ جلدوں میں فارسی شاعری کی تاریخ مرتب کر دی۔ شعرالعجم کے مندرجات کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر شبلی عربی شاعری کی تاریخ پر توجہ دے سکتے تو اردو میں ایک اَور نادر کتاب کا اضافہ ہو جاتا۔
اخلاقِ عرب
علامہ شبلی کاایک مضمون بعنوان ’حضرت اسما‘ مقالات کی پانچویں جلد میں پہلی تحریر کے طور پر شامل ہے، جس کے ذیلی عنوان کے طور پر ’اخلاقِ عرب‘ مندرج ہے۔ اس ذیلی عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ ایسا منصوبہ تھا، جس کے تحت وہ کوئی سلسلۂ مضامین لکھنا چاہتے تھے۔ اسی جلد میں ’متبنّی‘ کے نام سے ایک اَور مضمون بھی شامل ہے، جس کے آغاز میں علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ الندوہ میں ہم نے ’اخلاقِ عرب‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا، جس کا صرف ایک نمبر نکل کر رہ گیا۔ آئندہ وہ سلسلہ پھر شروع ہو گا، لیکن اس مضمون میں بھی اس عنوان کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے،۱۵؎ لیکن دستیاب معلومات کی بنا پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان دو مضامین کے علاوہ وہ اس منصوبے پر زیادہ توجہ صرف نہ کر سکے، چنانچہ یہ سلسلہ مضامین جاری نہ رہ سکا اور کوئی تالیف بھی منصہ شہود پر نہ آسکی۔
مجددانِ اسلام
شبلی نے الندوہ جلد ۵نمبر۶میں مطبوعہ اپنے ایک مضمون ’علامہ ابنِ تیمیہ حرانی‘ کا سرِعنوان ’مجددانِ اسلام‘ دیا ہے، لیکن شبلی کے کسی خط، تحریر یا گفتگو سے اس سرِعنوان کے تحت کسی سلسلۂ مضامین یا کسی تصنیف کا ذکر نہیں ملتا، نہ ہی اس سلسلے میں ان کا کوئی مزید مضمون شائع ہوا۔جہاں تک عنوان کا تعلق ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موضوع پر کوئی سلسلۂ مضامین یا تالیف دینا چاہتے تھے، لیکن وہ ایسا کر نہ سکے۔
واضح رہے کہ ایک حدیث ’ہر صدی میں ایک مجدد پیدا ہو گا‘ پر جرح کرتے ہوئے شبلی نے مجدد کے لیے تین ضروری شرائط کا ذکر کیا، یعنی (۱)مذہب یا علم یا سیاست میں کوئی مفید انقلاب پیدا کر دے، (۲) جو خیال اس کے دل میں آیا ہو، کسی کی تقلید سے نہ آیا ہو، بلکہ اجتہاد ہو اور (۳) جسمانی مصیبتیں اٹھائی ہوں، جان پر کھیلا ہو، سرفروشی کی ہو۔ شبلی کے خیال میں، تیسری شرط کو ضروری قرار نہ دیا جائے تو امام ابوحنیفہ، امام غزالی، امام رازی، شاہ ولی اللہ اس دائرے میں آ سکتے ہیں، لیکن جو شخص رفارمر کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے، وہ علامہ ابنِ تیمیہ ہے۔۱۶؎
اگرچہ شبلی کے اس خیال سے بہت کچھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اپنے بیان کے مصداق اس موضوع پر وہ مزید کوئی تحریر نہ دے سکے اور یوں یہ عنوان، یعنی ’مجددانِ اسلام‘، جس میں صیغہ جمع استعمال کیا گیا تھا، کتابی صورت اختیار نہ کر سکا۔
مشاہیر رجال
سفرِ روم کے حاصلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شبلی کو مشاہیر رجال کے سوانح حالات قلم بند کرنے کا خیال آیا۔ منشی شرف الدین رام پوری کے نام ۲۹؍دسمبر ۱۸۹۲ کے خط میں پوری تفصیل لکھتے ہیں:
میرا ایک مدت سے خیال ہے کہ بڑی بڑی سوانح عمریاں تو مدتوں میں لکھی جا سکتی ہیں، لیکن نامورانِ سلف کے مختصر حالات بھی اگر چھوٹے چھوٹے رسالوں کی شکل میں شائع ہوں تو نہایت مفید ہے۔ مَیں نے ترکی میں اس قسم کا ایک سلسلۂ تصنیف دیکھا، جس کا نام مشاہیر رجال ہے۔ اس میں نظام الملک، فخر رازی، مولوی روم اور بہت سے بزرگوں کے حالات میں مستقل رسالے ہیں اور ان کو یکجا کر کے ایک مجموعہ چھاپا گیا ہے۔ اس کو دیکھ کر مجھ کو خیال ہوا کہ ہمارے ملک میں بھی اس قسم کا ایک سلسلہ قائم ہونا چاہیے، یعنی قوم کے چند اَعیان، چند بزرگوں کے حالات لکھیں اور ان سب کو ایک مجموعے کی شکل میں مرتب کر کے شائع کیا جائے، چنانچہ مَیں نے بعض دوستوں سے اس کے متعلق خط کتابت بھی کی ہے اور کر رہا ہوں۔۱۷؎
اس سلسلے میں بعض شخصیات پر ان کی کچھ تحریریں ملتی ہیں، جو اَب مقالات کے جلد پنجم میں شامل ہیں، مثلاً ’مُوبَدانِ مجوس‘، جس میں دس شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس کے علاوہ’زیب النسا‘، ’مولوی غلام علی آزاد بلگرامی‘ اور ’فریدی وجدی بک‘۔
بعد ازاں ان میں سے سوانحِ مولانا روم کے نام سے ایک منصوبہ روبعمل ہو سکا، جب کہ نظام الملک، فخر الدین رازی یا دیگر بزرگوں اور اعیان سے متعلق سلسلہ تصانیف شرمندئہ تصنیف نہ ہو سکا۔
سیرت ابنِ رُشد
علامہ شبلی اگرچہ مذہبی تعلیم سے آراستہ تھے اور ان کی زندگی کا زیادہ حصہ مذہبی اورملّی موضوعات پر تصنیف و تالیف میں گزرا، لیکن ان کا ذہن بہت جدید تھا، چنانچہ ان کی شخصیت کے بعض بہت دلچسپ پہلو نمایاں ہوتے رہے ہیں۔غالباً یہ سرسید کی صحبت کا اثر تھا کہ وہ قسطنطنیہ کے کتب خانوں میں معتزلہ سے متعلق کتابوں کے متلاشی رہے، دوسری جانب وہ ریاست حیدرآباد میں اپنی ملازمت اور ندوۃ العلما کے زیرِ اثر بہت محتاط بھی تھے؛ چنانچہ وہ مسلم فلسفے پر لکھتے ہوئے نہایت احتیاط سے آگے بڑھے۔ وہ اپنی بات بھی کہنا چاہتے تھے اور کسی بڑی مخالفت سے محفوظ بھی۔ اس بات کا ثبوت مہدی افادی کے نام ان کا ۱۱؍مئی ۱۹۰۲ کو لکھا ہوا ایک خط ہے۔ شبلی لکھتے ہیں:
مَیں علما وغیرہ کو جس سطح پر لانا چاہتا ہوں، اس کے لیے زینے درکار ہیں۔ الغزالی پہلا زینہ ہے، دوسرا تاریخِ علم کلام [علم الکلام]، پھر اصلی سطح، یعنی علمِ کلامِ جدید [الکلام] ہے، جو زیرِ تصنیف ہے۔… غزالی میں اگر کھل کھیلتا تو علما برسوں، بلکہ قرنوں کے لیے ہاتھ سے نکل جاتے اور مجھ کو ان سے کٹ کر الگ رہنا منظور نہیں۔۱۸؎
اگرچہ اس سلسلۂ کلامیہ میں انھوں نے مزید کسی شخصیت یا زینے کا ذکر نہیں کیا، لیکن ان کتابوں کی اشاعت (الغزالی ۱۹۰۲، علم الکلام ۱۹۰۳ اور الکلام ۱۹۰۴) کے عرصے، یعنی ۹؍مارچ ۱۹۰۳ کو مولانا حمید الدین فراہی کے نام ایک خط میں مطلع کرتے ہیں:
مَیں نے علم الکلام نہایت ناتمام کتاب لکھی اور وہ در حقیقت میری تصنیفات کا سب سے ناقص حصہ ہے۔ جدید علمِ کلام غالباً اچھا لکھا جائے، بہت کچھ ہو چکا ہے۔ عنقریب ہی ابنِ رُشد کی لائف لکھنا چاہتا ہوں۔۱۹؎
ابنِ رُشد کی حیات و افکار پر شبلی کی یہ تحریریں الندوہ کی جلد اوّل نمبر۳، معارف جلد۲ عدد۱۲، جلد اوّل نمبر۷ اور جلد ۳نمبر۶ میں چھپتی رہی ہیں، جو بعد میں ایک مقالے کی صورت میں مقالاتِ شبلی جلد پنجم (ص۱۵-۴۹) میں شامل ہوئیں۔ شبلی اس موضوع پر مزید دادِ تحقیق و تنقید نہ دے سکے اور تقریباً پینتیس صفحات پر مشتمل یہ مضمون کبھی توسیع نہ پا سکا اور نہ ہی کتابی صورت اختیار کر سکا۔
ترجمۂ ابنِ خلدون
امیر عبدالرحمن والیِ کابل کو ابنِ خلدون کے ترجمے کا خیال ہوا تو انھوں نے اپنے سفیر کے ذریعے اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے مولانا حالی، ڈپٹی نذیر احمد اور علامہ شبلی نعمانی کی رضامندی معلوم کی۔ شبلی نے اوّل اوّل اپنی خرابیِ صحت کے باعث انکار کیا، لیکن بعد ازاں اعزہ و احباب کے اصرار پر راضی ہو گئے۔ اس پر سفیر نے کُل ترجمے اور اس سے متعلق تمام تر امور کا اہتمام شبلی کے سپرد کر دیا اور دس ہزار روپے کی رقم بطور معاوضہ بالاقساط یا یکمشت ادا کرنا منظور کیا۔ ٹائپ کے درآورد خط میں سات ہزار صفحات پر مشتمل اس کتاب کے ترجمے کے لیے شبلی نے تین برس کا وعدہ کیا۔ بعد ازاں شبلی نے مولانا حمید الدین فراہی کو بھی اس کام میں شامل ہونے کی دعوت دی، حتیٰ کہ وہ اپنی نگرانی میں سارا کام فراہی صاحب کے سپرد کرنا چاہتے تھے۔
اس سارے منصوبے کی تفصیل مولانا حمید الدین فراہی کے نام ۳؍جولائی ۱۸۹۹ اور ۱۸؍جولائی ۱۹۰۰ کے خطوں میں اور نواب سید علی حسن خاں کے نام ۹؍اگست ۱۸۹۹ کے خط میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ۲۰؎
ایک تو یہ مجوزہ کام ترجمے پر مشتمل تھا، دوسرے یہ کہ ترجمہ مولانا حمید الدین فراہی کے سپرد کر دینے کا ارادہ یکیا تھا اور حتمی بات یہ کہ یہ سارا منصوبہ روبعمل ہی نہ ہو سکا، اس لیے اسے موعودہ کتب میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہ تھا، لیکن چونکہ اس کی اشاعت کی صورت میں اس پر شبلی کا نام بھی درج ہوتا اور اسے شبلی کے علمی کاموں میں شمار کیا جاتا، اس لیے اس علمی منصوبے سے آگہی ناگزیر تھی۔
………
دیکھنا یہ ہے کہ شبلی کے مذکورہ منصوبے پایۂ تکمیل کو کیوں نہ پہنچ سکے؟ بلاشبہ علامہ شبلی نے بھرپور علمی زندگی بسر کی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے ذہن میں خیالات اس قدر تیزی سے جنم لیتے تھے کہ وہ سب کو معرضِ تحریر میں نہیں لاسکے۔ وہ ان خیالات کے بارے میں نہایت پُرجوش انداز میں مطلع کرتے ہیں، ان کا اعلان کرتے ہیں اور پھر بعض کا آغاز بھی کرتے ہیں؛ لیکن اکثر مکمل نہیں ہو پاتے؛ چنانچہ ان کی مطبوعہ تصانیف کی نسبت موعودہ کتب کی تعداد اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں اور اگر شبلی تمام موعودہ کتب لکھنے پر قادر ہو سکتے تو یقینا ان کے علمی مقام و مرتبے میں کئی گنا مزید اضافہ ہو جاتا۔
……………
حوالے:
۱؎ سید سلیمان ندوی: مکاتیبِ شبلیدوم، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، ۱۹۱۷، ص ۲۷۸
۲؎ شبلی نعمانی بنام مولوی محمد عمر (فارسی)، ۷؍۱۰؍۱۸۸۲، مشمولہ مکاتیبِ شبلی دوم، ص ۲۷۸-۲۷۹
۳؎ شبلی نعمانی بنام مولوی محمد سمیع، ؟؍؟؍ ۱۸۸۳ئ، مکاتیبِ شبلی اوّل، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین، ۱۹۱۶، ص ۵۴
۴؎ شبلی نعمانی بنام مولوی محمد سمیع، ۹؍اپریل ۱۸۸۴، مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۷۴
۵؎ شبلی نعمانی بنام مولوی محمد سمیع، ۲۷؍نومبر ۱۸۸۴، مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۷۸
۶؎ سید سلیمان ندوی: مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۷۴
۷؎ شبلی نعمانی: دیباچہ المامون، دہلی: افضل المطابع، طبع پنجم۱۸۸۹، ص ۴
۸؎ شبلی نعمانی: دیباچہ المامون، ص ۵
۹؎ شبلی نعمانی: سفر نامۂ روم و مصر و شام، دہلی: قومی پریس، طبع اوّل۱۸۹۲، ص، ۱۳
۱۰؎ شبلی نعمانی بنام سید احمد مرتضیٰ نذر، ۱۵؍ستمبر ۱۹۱۰، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۳۲۶-۳۲۷
۱۱؎ شبلی نعمانی: دیباچہ سیرۃ النعمان، آگرہ: مطبع مفید عام، طبع دوم۱۸۹۲، ص ۴
۱۲؎ شبلی نعمانی بنام مولوی سید ممتاز علی، ۲۱؍اکتوبر ۱۸۹۲، مشمولہ مکتوباتِ شبلی مرتبہ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی، اعظم گڑھ: ادبی دائرہ، ۲۰۱۲، ص ۷۱
۱۳؎ شبلی نعمانی بنام مولانا ابوالکلام آزاد، یکم دسمبر ۱۹۰۹، مشمولہ مکاتیبِ شبلی اوّل، طبع جدید۱۹۱۰، ص ۲۵۲
۱۴؎ شبلی نعمانی بنام سید احمد مرتضیٰ نذر، ۶؍ستمبر ۱۹۱۰، مکاتیبِ شبلی اوّل، ص ۳۲۶
۱۵؎ شبلی نعمانی: ’متبنّی‘ مطبوعہ الندوہ لکھنؤ، جون ۱۹۰۵ بحوالہ مقالاتِ شبلی پنجم، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، طبع جدید ۲۰۰۷، ص ۶۳
۱۶؎ شبلی نعمانی: مقالاتِ شبلی ہشتم، اعظم گڑھ: دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، طبعِ جدید ۲۰۰۷، ص ۵۰
۱۷؎ شبلی نعمانی بنام منشی شرف الدین رام پوری، مرقومہ۲۹؍دسمبر ۱۸۹۲، مکاتیبِ شبلی اوّل، ص، ۳۲۷
۱۸؎ شبلی نعمانی بنام مہدی افادی، ۱۱؍مئی ۱۹۰۲، مشمولہ مکاتیبِ شبلی دوم، ص ۲۳۱-۲۳۲
۱۹؎ شبلی نعمانی بنام مولانا حمید الدین فراہی، ۹؍مارچ ۱۹۰۳، مشمولہ مکاتیبِ شبلی دوم، ص۱۵
۲۰؎ مکاتیبِ شبلی دوم، صفحات بالترتیب ۸، ۱۰-۱۱، ۱۹۴
……………
ڈاکٹر خالد ندیم
صدر شعبہ اردو اور مشرقی زبانیں
سرگودھا یونیورسٹی سرگودھا
dr.khalidnadeem@gmail.com
03214433155
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
2 comments
ڈاکٹر خالد ندیم صاحب ! شبلیات کے ذیل میں آپ کی خدمات لائق ہزار ستائش اور قابل قدرومنزلت ہیں ۔ یہ تحقیق بنیاد مضمون شائقین و ماہرین کے لیے تحقیق و تنقید کے نئے دریچے وا کرنے کے لیے عمدہ اساس فراہم کرے گا ۔
جزاک اللّٰہ محبی پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد قادری۔