ڈاکٹر یامین انصاری کی کتاب ‘صدائے دل’ ایک جائزہ – علیزے نجف
۔
اردو صحافت بدلتی دنیا کے جدید ذرائع و ابلاغ سے استفادہ کرتے ہوئے خاطر خواہ کامیابی کے مراحل طئے کررہی ہے۔ ملک کے تقریبا تمام ہی سیاسی و سماجی انقلابات میں نمایان کردار ادا کرنے میں بھی کوشاں ہے جس سے کہ کوئی انکاری نہیں ہو سکتا۔ اردو صحافت کی اپنی ایک مستند تاریخ ہے اس نے تقریبا ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ملک میں صحافت کی کمان سنبھالی ہے اس کے لئے سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ آزادی کی جنگ اردو زبان میں ہی لڑی گئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ ملک کی تقسیم کی وجہ سے فرقہ وارانہ ذہنیت نے اس زبان کی نشوونما پر کاری ضرب لگائی ہے اس کے باوجود آج بھی اردو صحافت اس ترقی یافتہ دور میں اپنے وجود کو مستحکم بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ جب کہ یہ آسان نہیں ہے کیوں کہ اردو زبان پہ منڈلانے والے خطرات سے اردو صحافت مستثنیٰ نہیں اور دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پرنٹ میڈیا سے زیادہ لوگ الکٹرانک میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں الکٹرانک میڈیا میں ابھی بھی اردو کی کارکردگی اور خدمات اتنی منظم نہیں کہ اس پہ مطمئن ہوا جا سکے۔ ان تمام دقتوں کے باوجود اگر اردو صحافت اب بھی اپنے ارتقائی سفر کو طئے کر رہی ہے تو اس کا سہرا ان صحافیوں اور قارئین کے سر جاتا ہے جن کے لئے نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ حقیقی معنوں میں اردو زبان مادری زبان کی حیثیت رکھتی ہے وہ اخبارات نہ صرف خریدتے ہیں بلکہ پڑھتے ہیں اور دوسروں کو ترغیب بھی دیتے ہیں۔ اردو صحافی بھی جدید صحافت کی تمام نزاکتوں، باریکیوں اور جہتوں سے واقفیت حاصل کر کے اردو صحافت کی آبیاری کر رہے ہیں کیوں کہ جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ہوئے بغیر اردو صحافت کی بقا و ارتقا کا تصور ہی ناممکن ہے۔ اردو صحافت جہاں بہت سارے امکانات کی راہ ہموار کرتے ہوئے آگے کا سفر طئے کر رہی ہے وہیں وہ صحافت کا اصل شعار صداقت کا بھی علم بلند کرنے میں پیچھے نہیں۔
ان حالات میں جب کوئی صحافی اردو صحافت کو اپنا مشن بناتا ہے اور شب و روز خود کو اس کی خدمت کے لئے وقف کر دیتا ہے تو ایسے میں اس کے لفظوں میں ایسی چاشنی گھل جاتی ہے جو دلوں کو تسخیر کرنے کا ہنر رکھتی ہے کیوں کہ یہ ان کے لئے صرف پروفیشن بلکہ مشن بن جاتا ہے۔ یوں تو اردو صحافت کی آغوش میں کئی سارے ایسے صحافیوں نے جنم لیا ہے جن پہ دنیائے صحافت کو ناز ہے ان میں اگر ایک نام ڈاکٹر یامین انصاری کا بھی شامل کر لیا جائے تو شاید کچھ غلط نہیں ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ابھی انھیں اس دشت و صحرا کی مزید خاک چھاننی ہے اور اپنی صحافتی بصیرت کو روشن تر کرتے رہنا ہے۔ ڈاکٹر یامین انصاری صاحب کی حالیہ دنوں میں منظر عام پہ آنے والی کتاب صدائے دل ان کی صحافتی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر یامین انصاری جنہوں نے اپنی صحافت کا آغاز شاہد صدیقی جیسے قدآور صحافی کے سربراہی میں نئی دنیا سے کیا شاہد صدیقی صاحب صحافت و سیاست کے میدان میں اپنی ایک جدا گانہ شناخت رکھتے ہیں جو اختلاف کے باوجود اتحاد کو بنائے رکھنے کا ہنر رکھتے ہیں ان کی معتدل شخصیت نے یامین صاحب کی صلاحیتوں کو سنوارنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے انھوں نے نئی دنیا سے بہت کچھ سیکھنے کے بعد سہارا سے جڑ کر اپنی صلاحیتوں کو مہمیز دی جس میں انھوں نےالکٹرانک میڈیا سے کے شعبے میں اپنی قابلیت کے دائرے کو وسیع کیا۔ اس وقت وہ ہندوستان کے کثیرالاشاعت اخبار روزنامہ انقلاب میں بحیثیت ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
صدائے دل ڈاکٹر یامین انصاری صاحب دوسری کتاب ہے ان کی پہلی کتاب سفرنامہ کی صورت ‘عراق جو میں نے دیکھا’ کے عنوان سے شائع ہوئی جسے علمی و ادبی حلقہ میں قابل ذکر پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ صدائے دل ان کی دوسری کاوش ہے جو کہ علمی، صحافتی و ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا نام جس طرح منفرد ہے بالکل اسی طرح اس میں لکھے گئے مضامین بھی انفرادیت کے حامل ہیں۔ ان کے عنوان بھی بالکل ایسے ہیں جو قاری کے تجسس کو مہمیز دینے والے ہیں۔
یامین صاحب ایک حساس اور بےباک صحافی ہیں انھوں نے ہمیشہ اپنے محسوسات کو بلا تکلف قلمبند کیا ہے ایک صحافی ہونے کے ناطے حالات حاضرہ پہ ان کی گہری نظر ہے ان کے یہ سارے مضامین اسی جیتی جاگتی دنیا تعلق رکھتے ہیں جس میں انھوں نے تصویر کے سارے ہی پہلو کو منکشف کرنے کی کوشش کی ہے اس میں تصنع کا شائبہ نظر نہیں آتا چوں کہ وہ ہمیشہ صدائے دل کے تحت لکھتے ہیں اس لئے اس میں اثریت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ جذبات و احساسات کو جب غیر ضروری پیش بندیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے تو صحافتی تقاضوں کے ساتھ ادبی اسالیب کے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مدعائے دل کو بیان کرنے کے لئے سادگی اور بےباکی کو ملحوظ رکھا جائے تو قاری کی محویت گہری ہو جاتی ہے اور اصل حقائق تک پہنچنے میں بھی آسانی ہوتی ہے یامین صاحب اپنی بات کو بنا کسی لفظی الجھاؤ اور غیر ضروری تمہیدات کے اپنی بات کہنے کا بخوبی ہنر رکھتے ہیں جس کو قاری ان کے کتاب کو پڑھتے ہوئے از خود تجربہ کر سکتا ہے۔
صدائے دل صرف ایک صحافی کی کاوش نہیں ہے بلکہ ایک ادب نواز انسان کی تخلیق ہے جو جذبات تو رکھتا ہے لیکن جذباتیت سے گریزاں ہے جیسا کہ شاہد صدیقی صاحب نے بھی کہا ہے کہ "صحافی کا قلم فوٹو گرافر کا کیمرہ ہوتا ہے مصور کا برش نہیں۔ کیمرہ جو منظر دیکھتا ہے اس کا من و عن عکس اتار دیتا ہے۔ مصور کا برش تصویر میں اپنی پسند کا رنگ بھرتا ہے ” انھوں نے بھی بےشک ایک فوٹوگرافر کی طرح وہی کچھ اپنے قرطاس پہ اتارا ہے جو انھوں نے دیکھا ادبی اسلوب پہ دسترس رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی تحریروں کو ادب کے دیدہ زیب پیراہن سے آراستہ بھی کیا ہے جو کسی مصور کے رنگوں کی طرح دلکشی رکھتا ہے تاکہ قاری حقیقت سے آگہی حاصل کرنے کے ساتھ اپنے ذوق کی بھی تسکین کر سکے۔
انھوں نے صدائے دل کے مضامین کو پانچ زمروں میں تقسیم کیا ہے جیسے مضامین، تھذیبی و ثقافتی مضامین، تعلیمی، عالمی منظرنامہ، ادب یہ سارے موضوعات ہماری تہذیب حاضر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تہذیبی و ثقافتی مضامین کے تحت لکھے گئے ایک مضمون ‘علامہ اقبال کے شاہین سے تاریخی شاہین باغ بننے کی کہانی’ میں انھوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ این آر سی کے تحت کئے جانے والی تاریخی احتجاج کی منظر کشی کی ہے اور اس میں خواتین کے کردار کی تمثیل علامہ اقبال کے شاہین سے دی بےشک اس احتجاج کی گونج دنیا کے سارے ہی بڑے فورم پہ سنائی دی یامین صاحب نے اس مضمون میں شاہین باغ کا منظرنامہ اور اس کا محل وقوع اس طرح سے بیان کیا ہے کہ قارئین تصور کی آنکھوں سے اسے بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔بےشک انھوں نے صحیح کہا ہے کہ ‘شاہین باغ اپنی جغرافیائی اہمیت سے زیادہ قوم و ملت کو بیدار کرنے اور احتجاج کی نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے اپنی شناخت قائم کر چکا ہے لہٰذا آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاہین باغ کو عورتوں کی طاقت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا آواز کوئی بھی اگر اس میں شعور کے ساتھ عزم کی گونج شامل ہو جائے تو اس کو کبھی بھی نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
یامین صاحب نے اسی طرح اور کئی سارے حساس موضوعات پہ قلم اٹھایا ہے جیسے شاہین باغ کے ستیہ گرہ میں کشمیری پنڈت، گاندھی جینتی: باپو ہم شرمندہ ہیں ۔۔۔ ، طلاق: انصاف تو ہر مسلم عورت کو چاہئے، مسلکی اختلاف تھے ہیں اور رہیں گے! وغیرہ وغیرہ ان سارے موضوعات پہ انھوں نے جس طرح قلم آزمائی کی ہے اور حقیقت کے سارے پہلوؤں پہ جس طرح اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی ہے قاری کو متوجہ کئے بغیر نہیں رہ سکتی یہ وہ سارے موضوعات ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہر کسی کے زبان پہ تو ضرور ہیں لیکن اکثر لوگ اس کی مسخ شدہ حقیقت کا ہی علم رکھتے ہیں یامین صاحب نے ایسے تمام موضوعات پہ لکھ کر لوگوں کے علم و بصیرت میں اضافہ کیا ہے۔
یامین صاحب صحافتی بصیرت کے ساتھ تعلیمی شعور سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں انھوں نے اس ناچیز کے ذریعے انٹرویو لئے گئے کے دوران کہا تھا کہ اگر آج میں صحافی نہیں ہوتا ایک معلم ہوتا بےشک ان کے اندر سیکھنے اور سکھانے کا جو جذبہ ہے وہ ان کی شخصیت کے رکھ رکھاؤ سے صاف نظر آتا ہے انھوں نے تعلیم کے موضوع پہ اب تک بہت کچھ لکھا ہے صدائے دل میں ان کے وہ مضامین بھی قارئین کی آسانی کے لئے شامل کر دیے گئے ہیں ان میں سے ایک مضمون ہے ‘تعلیم آن لائن ہو یا آف لائن ضروری ہے’ اس میں انھوں نے کورونا کے دور میں پیدا مشکلات ذکر کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے بےشک کورونا نے پورے نظام تعلیم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اس اچانک سے پیدا ہوجانے والی آفت نے بہت ساری مشکلات پیدا کی ہیں حکومت ڈجیٹل انڈیا کے لاکھ دعوے کرے لیکن سچ یہ ہے کہ عملی سطح پہ اس کی حقیقت ناقابل تشفی ہے ایسے میں ہمیں حالات کو رونے اور حکومت کو الزام دینے کے بجائے خود آگے بڑھ کر اپنے قوم کے بچوں کے لئے تعلیم کے حصول کے راستوں کو آسان بنانے کی کوشش کرنی ہوگی اور صاحب حیثیت لوگوں پہ بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ارد گرد کے وسائل سے محروم طلبہ کو آسانی فراہم کریں کیوں کہ تعلیم کے سلسلے کو ہم موقوف رکھنے کا تحمل نہیں رکھ سکتے خواہ وہ آف لائن ہو یا آن لائن تعلیم جاری رہنی چاہئے کیوں کہ تعلیم ہی ہے جو کسی قوم کی ترقی کی ضامن ہے۔ نوجوان نسل کی ذہن سازی کے لئے ضروری ہے کہ بنا کسی رکاوٹ کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے تاکہ ان کا تعمیری ذہن تخریبی سرگرمیوں سے محفوظ رہے ۔ اس موضوع پہ انھوں نے ان سارے زمینی حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو ہمیں اس وقت درپیش رہے ہیں۔
یامین صاحب ایک علم دوست انسان ہیں ان کا تجسس انھیں مستقل علمی راہوں میں محو سفر رکھے ہوئے ہے وہ نہ صرف اردو صحافت کی خدمت میں مشغول ہیں بلکہ اردو کی بقا و ارتقاء کے ماہرین کے وژن سے استفادہ کرنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ وہ اپنے خیالات کو بیان کرنے میں کوئی تامل اور جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
کسی بھی زبان یا شعبے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہے تنقیدات کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور نظریات پہ تحقیق کا راستہ بھی کھلا رہے کیوں کہ جب علم جمود کا شکار ہو جائے تو وہ متاع متروک ہو جاتا ہے جو وقت کے ساتھ اپنی شناخت اور اہمیت سب کچھ کھو دیتی ہے۔
اس کتاب کے سارے ہی مضامین علم و آگہی کے تحت لکھے گئے ہیں جس کا اندازہ بحثیت قاری کے آپ خود کر سکتے ہیں میں تمام ہی مضامین پہ تبصرہ کرنے سے اس لئے گریزاں ہوں تاکہ قاری کا تجسس برقرار رہے اور وہ ان مضامین کا خود مطالعہ کر کے ان کی علمی و عقلی مباحث اور دلائل سے استفادہ کرے۔ ہمیں دوسروں کی رائے سے مستفید ہونے کے ساتھ خود اپنی رائے بنا کر زندگی کے اصل حسن کو محسوس کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس طرح علم کے دروازے کھلتے ہیں اور شعور کی پرتیں بھی نئے پہلو وا کرتی ہیں۔ ایک قاری صدائے دل سے یامین صاحب کی صلاحیتوں سے متعارف ہونے کے ساتھ ان کی شخصیت میں موجود ان کی عاجزی و انکساری اور ایمانداری جیسے خصائص کو محسوس کئے بنا نہیں رہ سکے گا۔ وہ حقیقی زندگی میں بھی بالکل ایسے ہی ہیں نئے صحافیوں اور قلمکاروں کی حوصلہ افزائی میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے ان کو آگے بڑھنے کے حتی المقدور سارے مواقع فراہم کرتے ہیں وہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے معاشرے کو مزین کرنے کا ہنر رکھتے ہیں وہ اس بات کا شدت کے ساتھ احساس رکھتے ہیں یہ نسل ہی آنے والے کل کی قیادت کرنے والی ہے اس لئے ان کی ذہن سازی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔
یامین صاحب کے مضامین کی فکر انگیزی پہ اگر بات کی جائے تو اس حوالے سے بطور قاری میں یہ بات پوری ایمانداری کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ ان کا قلم ہر موضوع کا حق ادا کرنے کا ہنر رکھتا ہے وہ اپنی رائے مشاہدے اور تجربات کو بیان کرنے میں کبھی پس و پیش کا شکار ہوتے نظر نہیں آتے ان کے نظریات سے اختلاف کسی کو بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کے انداز بیان سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے اختلاف کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے کیوں کہ کسی کی بھی رائے اس معاشرے میں حرف آخر نہیں ہو سکتی اختلاف ہی سوچ کا در کھلا رکھتا ہے تبدیلی کے امکان کو بڑھا سکتا ہے۔ اپنی بات کہنے کا ہنر ہی کسی قلمکار کا سب سے بڑا فن کہلاتا ہے اور یہ فن یامین صاحب کی تحریروں سے عیاں ہے۔
یامین صاحب نے اپنے ان تمام مضامین کو جو کہ انقلاب میں شائع ہوئے ان کو یکجا کر کے قابل تحسین کام انجام دیا ہے کیوں کہ یہ ان کے وہ مضامین ہیں جن کی عمر طویل ہے اس کو ایک ہی دن میں دریا برد نہیں کیا جا سکتا اردو ادب و صحافت کی خدمت کے لئے یہ ضروری تھا کہ اسے کتاب کی صورت یکجا کیا جائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page