غالب:تحقیق و تنقید/ ڈاکٹر محمد یار گوندل – محمد عامر سہیل
مرزا غالب کی ڈیڑھ صد سالہ برسی کے موقع پر ڈاکٹر محمد یار گوندل کی کتاب ” غالب:تحقیق و تنقید” کی شائع ہوئی۔اردو تنقید میں باقاعدہ ایک شعبہ "غالبیات” اپنی پہچان بنا چکا ہے۔جس میں حیاتِ غالب،نثر نگاری،اشعار کی تشریح،تفہیم اور تعبیر،معاصرین اور متعقدمین سے تقابل اور اس پر مستزاد آئندہ شعرا و ادبا پر غالب کے فکر و فن کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یار گوندل کی کتاب میں سات مضامین شامل ہیں۔
- حیات غالب کے چند پہلو
- شمس الرحمن فاروقی:میر یا غالب پرست
- غالب پر معاندانہ تحریریں
- غالب کی "دستنبو” کی غرض و غایت
- مشتاق احمد یوسفی:غالب کے مشتاق
- فیض کی غالب سے شاعرانہ مماثلتیں
7.یادگارِ غالب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
پہلے مضمون ” حیات غالب کے چند پہلو ” میں بقول مصنف غالب کی عملی زندگی میں پایا جانے والا تضاد اور دورنگی کیفیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔وہ مختلف حوالوں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں غالب کی شخصیت محض انا کی سختی تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں مطلب برآوری کا مادہ بھی تھا جس کے باعث وہ اپنی انا کو پس پشت ڈال دیتے تھے۔معاملات زندگی میں مصلحت کوشی سے کام لینے کے باعث ان کے قول اور فعل میں واضح تضاد کی کیفیت پیدا ہو گئی۔مصنف نے چند مثالیں پیش کی ہیں۔جن میں غالب کا اپنے چچا کی وفات کہیں کچھ کہیں کچھ لکھی ہے۔تخلص اختیار کرنےکے حوالے سے متضاد بیان دئیے ہیں۔لکھنو میں پانچ ماہ کا قیام اور سفر ہرات بھی ثابت نہیں ہوا۔غالب کا فارسی دانی پر فخر اور دوسروں سے ریختہ کی داد طلب کرنا بھی تضاد ہے۔
مصنف لکھتے ہیں:
” غالب ہمیشہ اپنی انا کے خول میں مقید رہا ہے۔غالب کی انگلی ہمیشہ وقت کی نبض پر رہتی تھی۔حالات کی تبدیلی کے ادراک میں وہ انتہائی زیرک تھے۔وقت کی کروٹ سے پہلے ہی وہ اپنے آپ کو نئے تناظر میں ڈھال لیتے تھے۔”
غالب کی شخصیت کا ایک مضحک پہلو اپنے قصائد کے اولین ممدوحین کو بدل دینا ہے۔بقول خلیق انجم پانچ قصائد کے پہلے ممدوح بہادر شاہ ظفر تھے بعد میں غالب نے ترمیم و اضافی کر کے انھیں دوسرے ممدوحین کے نام کر دیا۔اس کے غالب اپنے ساتھ اشعار اور مثنویوں کے نام میں تحریف کرتے تھے۔دستنبو کی تصنیف انگریز سرکار کا نثری قصیدہ ہے۔غالب کا اپنے مذہب کے بارے میں متضاد بیان دینا بھی شامل ہے۔مصنف ان دلائل سے غالب کی مصلحت پسندی اور مطلب برآوری ثابت کرتے ہیں۔اس مضمون کے آخر میں مصنف اپنے قائم کردہ مقدمہ کے دلائل کے بعد نتیجہ نکالتے ہیں کہ غالب کا سیرت اور کردار مثالی نہیں اور مگر زندگی میں متضاد بیانات اور مصلحت کوشی سے کام لینا حالات کی مجبوری تھی۔
دوسرے مضمون ” شمس الرحمن فاروقی:میر یا غالب پرست ” میں وہ فاروقی کی میر تنقید میں غالب شناسی کو سامنے لاتے ہیں۔فاروقی نے میر تنقید لکھتے ہوئے جس طرح میر کا غالب سے تقابل کیا ہے اس سے فاروقی میر کو غالب سے برتر دکھانے چاہتے ہیں مگر اپنے مقدمات دلائل اور نتائج کے باعث میر پرستی میں ہی غالب کا دفاع کرتے ہیں۔ڈاکٹر محمد یار اس مضمون میں فاروقی کے بیانات کو لکھ کر اس پر گرفت کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔فاروقی کی تنقیدات (میر اور غالب) سے ہی وہ نکات اخذ کرتے یہ ثابت کرتے ہیں کہ فاروقی نے گو میر کی برتری کے حوالے سے لکھا ہے تاہم غالب کے حوالے سے لکھتے ہوئے فاروقی میر سے غالب کی برتری کے قائل ہو جاتے ہیں۔
مرزا غالب کی حیات اور فکر و فن کے حوالوں سے مختلف ناقدین نے جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اپنے مضمون ” غالب پر معاندانہ تحریروں ” میں مصنف غالب پر کیے جانے والے اعتراف کا جائزہ لیتے ہیں۔جیسا کہ غالب کی شاعری کو مہمل کہنا،ان کے انداز فکر کو نامانوس اور اسلوبِ حیات کو قابل گرفت لانا جیسے اعتراضات شامل ہیں۔غالب کلکتہ میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ولیم فریزر کے قتل اور اس کی پاداش میں شمس الدین خاں کو پھانسی کی سزا کا واقعی غالب کی بدنامی کا سبب بنا۔اخبارات میں آزاد کے والد مولوی باقر کا دہلی اردو اخبار مخالفت میں پیش پیش تھا۔قمار بازی کا الزام بھی ان کے سر رہا۔قاطع برہان کی اشاعت سے مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔بعض تزکرہ نوایسوں نے غالب کی شخصی کمزوریوں کو خوب اچھالا۔مذہبی اور مے نوشی کے حوالے سے اعتراضات کی زد میں رہے۔غالب کے سوانح نگاروں جن میں ڈاکٹر سید عبداللطیف،عبد الصمد صارم الازہری،امیر حسن نورانی اور انیس ناگی شامل ہیں انھوں نے غالب کی زندگی اور فکر و فن پر سخت تنقید کر کے جانبدرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ادبی تنقید کے تقاضوں سے دور ہوئے ہیں۔غالب پر معاندانہ تحریروں کا دائرہ کار ان کے مذہب،شاگردی،قصیدہ گوئی،انگریز حکام سے راہ و رسم ہموار کرنے کی کوشش اور غدر میں ملک دشمنی تک پھیلا ہوا ہے۔
مصنف "غالب کی دستنبو کی غرض و غایت ” کو بھی موضوع بناتے ہیں۔بقول ان کے اس تصنیف کا اصل مقصد حکام کی ہمدردی کو سمیٹنا،پنشن کی بحالی،وظیفہ کا حصول،انگریز سرکار کا درباری شاعر ہونے کی خواہش اور انگریز کے دل میں اپنے بارے نرم رویہ پیدا کرنا تھا۔اس تصنیف میں انگریزوں کی تعریفیں اور ان کی رعایا پروری کے گن گائے گئے ہیں جبکہ آزادی کے پروانوں کو گالیاں دی گئی ہیں۔مغلیہ دربار سے اپنے تعلق کی وضاحت اور انگریز سرکار کے نمک خوار ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔مصنف دستنبو کو نثری قصیدہ قرار دیتے ہیں۔
وہ مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں پر غالب کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔جیسا کہ یوسفی نے اپنی چاروں تخلیقات کے اکثر ذیلی عنوانات غالب کے اشعار کے مصرعوں سے اخذ کیے ہیں۔یوسفی نے تحریف کا انداز بھی غالب کی طرح اپنایا ہے۔یوسفی اور غالب کے جملوں کا اندراج کر کے مصنف نے دونوں میں حد درجہ مماثلتیں دریافت کر کے یوسفی پر غالب کے واضح اثرات سامنےلائے ہیں۔
غالب کی شاعری کے اثرات جن شعرا پر نمایاں ہیں ان میں فیض احمد فیض سرفہرست ہیں۔مصنف لکھتے ہیں کہ فیض غالب سے اتنے متاثر ہیں کہ اپنی شاعری کے بیشتر مجموعوں اور کلیات کا نام تک غالب کی تراکیب سے ہی مستعار لیا ہے۔اس کے علاؤہ جدت ادا،کلاسیکی رویات اور انسان دوستی تینوں میں فیص غالب کے قریب ہیں۔تاہم مصنف فیض کی انفرادی کے بھی قائل ہیں۔فیض نے غالب کی جن تراکیب اور لفظیات کو استعمال کیا ان کو اشعار کے حوالوں سے درج کیا ہے۔
کتاب کا آخری مضمون ” یادگار غالب تحقیق و تنقیدی جائزہ ” ہے۔یہ غالب پر پہلی باقاعدہ سوانحی و تنقیدی کتاب ہے۔اسی مناسبت سے اس کتاب کے دو حصے ہیں۔سوانح اور کلام پر ریویو۔اس مضمون میں یادگار غالب کے جن پہلووں کو سامنے لایا گیا ہے ان میں حالی کا غالب کی حالت اور ذہنی کیفیت کا حال بیان کرنا،غالب کی طبیعت میں مزاح کا پایا جانا،غالب کے طعام و قیام کے معاملات،سفر کلکتہ،پنشن کا مقدمہ قید کا قصہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر محمد یار گوندل نے "یادگار غالب ” کے ان پہلووں کی نشان دہی بھی کی ہیں جو تحقیقی و سوانحی اعتبار سے کمزور ہیں۔وہ اس کتاب میں واقعاتی خلا دیکھتے ہیں۔غالب کے خاندانی حالات،سفر کے احوال اور غدر کے بارے غالب کے رویہ کو بیان نہیں کیا۔اسی طرح تخلص،مہریں اور ملازموں کے بارے میں حالی نے ذکر نہیں کیا۔ڈاکثر محمد یار گوندل کے نزدیک یادگار غالب کا آغاز سوانحی انداز میں ہوتا ہے لیکن حالی سوانحی خلا پیدا کرتے ہوئے اپنا سارا زور تنقیدی حصے پر صرف کرتے ہیں۔تاہم اس کتاب کو اردو میں سوانح نگاری کا اولین نقش قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ مضمون دراصل "یادگار غالب” کا تنقیدی ریویو ہے۔جو اس کتاب کے تحقیقی،واقعاتی اور سوانحی تسامحات کو دلائل کے ساتھ واضح کرتے ہوئے کئی مغالطوں کو واضح کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد یار گوندل اپنے ہر مضمون میں پہلے مقدمہ بیان بیان کرتے ہیں اس کے بعد آگے چل کر دلائل سے نتائج تک پہنچتے ہیں جو ایک اصل تحقیقی و تنقیدی مضمون کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔اس اعتبار سے ان کا ہر مضمون ایک سچی تحقیقی کاوش نظر آتا ہے۔ان کا اسلوب واضح رواں اور عام فہم تنقیدی زبان کا حامل ہے۔وہ اپنی بات حوالوں سے ثابت کرتے ہیں۔اس کتاب کو غالب تنقید میں ایک اہم اضافہ سمجھنا چاہیے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page