عائشہ بانو صدیقی
طالبہ بی اے سال دوم
نتیشور کالج مظفرپور بہار
آج میں ایک ایسی عالمی شخصیت کا انٹرویو پیش کرکے اہل اردو کو ان کی ذات عالیہ سے متعارف کرانے کی کوشش کررہی ہوں جنہوں نے نیپال کی راجدھانی کاٹھمانڈو میں رہ کر اردو کے حوالے سے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا کام کیا ہے ، کاٹھمانڈو کی خوشنما وادیوں کو نغمگی عطا کی ہے ردیف و قوافی کا شعور بخشا ہے صرف اردو زبان کی حدتک نہیں نیپالی زبان و ادب نے ان کی کوششوں کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے علم عروض کو گلے سے لگانے کا کام کیا ہے زبان وا دب کے لئے عالمی ملکی طور پر شعراء و ادباء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور اسٹیج سجاکر عالمی طور پر اردو کی آفاقیت و عالمگیرت کو جلا بخشنے کا کام کیا ہے اس شخصیت کو دنیائے اردو ادب اسکے کارناموں اور شاعری کے تعلق سے ،، ڈاکٹر ثاقب ہارونی ِ،،کے نام سے جانتی ہے
ڈاکٹر صاحب میں نتیشور کالج مظفرپور بہار بھارت سے بی اے سال دوم کی ایک طالبہ عائشہ بانو صدیقی آپ سے مخاطب ہوں آج میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں تاکہ آپ کی شخصیت سے دنیائے اردو ادب کو روشناس کراسکوں
ؑعائشہ: محترمی سب سے پہلے ممنون ہوں کہ آپ نے انٹرویو کے لئے موقع مرحمت فرمایا سب سے پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے اور کہاں سے تعلق رکھتے ہیں
ڈاکٹرثاقب: میرا نام ڈاکٹر عبدالمبین خان ہے اور میرے والد گرامی کا نام نامی محمد ہارون سلفی ہے میرا تخلص ثاقب ہے اور والد محترم سے اپنی نسبت کو عمیق اور مضبوط بنانے کے لئے اپنے تخلص کے ساتھ ہارونی کا اضافہ کرتا ہوں اور دنیا ئے اردو ادب مجھے ڈاکٹر ثاقب ہارونی کے نام سے جانتی ہے
عائشہ: آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی:
ڈاکٹر ثاقب: میری جائے پیدائش نیپال میں لمبنی انچل کے ضلع کپل وستو کے یشودھرا گاوں پالیکا کے وارڈ نمبر ۵ موضع بیدولی میں حاجی شہادت حسین خاں کے پوتے اور محمد ہارون سلفی کے بڑے بیٹے کی شکل میں ۱۶ مارچ ۱۹۷۹ءکو ہوئی
عائشہ: آپ کا تعلیمی سفر کیا رہا :
ڈاکٹر ثاقب: بچپن میں مکتب کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ سرکاری اسکول میں پرائمری کے تعلیم کو جاری رکھا بنارس اور اعظم گڑھ سے عالمیت فضلیت کی تعلیم حاصل کی ، جامعہ اردو علی سے ادیب ماہر و کامل کیا بعدازان نیپال تربھون یونیورسٹی سے شوسالوجی میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی اور بھارت سے میری ادبی سرگرمیوں کے لئے میرے مجموعہ کلام کیلئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی گئی
ابھی حال ۲۰۲۳ءکے اوائل میں روائل امریکن یونیورسٹی امریکہ کی طرف سے نیپال میں پیس ایمبیسدر کے طور پرہوئی ہے
عائشہ: آج تک کا قلمی سفرکیسا رہا ہے کن کن اصناف پر آپ نے کام کیا اور ابھی کتنی تخلیقات منظر عام پر آچکی ہیں:
ڈاکٹر ثاقب: شاعری کا مجھے بچپن سے شوق تھا بچوں کے ہفتہ واری پروگرام اور جلسے جلوس میں حمدو نعت پڑھتا تھا مگر جب میں طلب علم کے لئے بھارت کے ضلع اعظم گڑھ کی مردم خیز سرزمین پر قدم رکھا تو وہاں کے ماحول میں میرا یہ شوق اپنے عروج کو پہنچا میرا تعلق صنف غزل اور نظم سے رہا ہے اکثر و بیشتر غزلوں پر میں کام کیا ہے البتہ کچھ نظمیں بھی ہیں اپنے طالب علمی کے دور میں سب سے پہلی غزل کہی جو عوام الناس میں کافی مقبول ہوئی اور وہاں کے مقامی مشاعروں میں میرا آنا جانا شروع ہوا تعلیم مکمل کرنے بعد میں نے تجارت شروع کی جس نے ادبی سرگرمیوں پر بھی اثر ڈالا لیکن نیپال میں ماؤنواز شورش ہوئی تو مجھے کافی مشکلات کا سامنا کرنا اور ماؤوادیوں نے ۲۹ فروری ۲۰۰۵ء کی رات کو میرے گھر پر مسلح حملہ کیا وقت سے خبر مل جانے پر ہم تمام اپنے گھروں سے باہر چلے گئے تھے جس میں جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ انہوں نے میرے گھر کو بم سے اڑا دیا تھا اسکے بعد بطور پناہ گزین بھارت اترپردیش کے ضلع سدھارت نگر چلاآیا میری فیملی نے وہاں چار سال تک بطور پناہ گزین زندگی بسر کیا مگر میں بھارت میں چار ماہ رہ کر اپنے ملک کی راجدھانی کاٹھمانڈو چلا آیا جہاں پر دوسالوں تک میں روپوش ہوکر زندگی گزاری اور اسی درمیان میرے تلخ و تند تجربات اور گردش ایام نے مجھے مکمل طور سے شاعر بنا دیا یہی پر نیپالی ادب کے مختلف شعراء سے رابطے ہوئے پہلے پہل نیپالی شعراء کے کلام کو سنا تو کہا ان کو رہنمائی کی ضرورت ہے جب علم عروض کی بات کی تو تربھون یونیورسٹی کے ایک پروفیسیر ڈاکٹر سنت کمار وسطی نے کہا کہ نیپال میں یہ سب نہیں چلے گا مگر ان کے اشعار پر میرے پیہم کمنٹ اور تبصروں نے ڈاکٹر سنت کمار وسطی کو علم عروض سیکھنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے علم عروض پر پہلی نیپالی کتاب ،، واہ غزل ،، کی تالیف کی اسکے بعد نیپالی شعراء میںعروج سیکھنے کی ایک ہوڑ سی لگ گئی اور نیپالی زبان میں نوجوان شعراء کی ایک بھیڑ موجود ہے جو بحروں کی شاعری کررہی ہے اسی درمیان برادرم آواز شرما کی علم عروض پر ایک اور کتاب ،، عروض بگیان،، کے نام سے آچکی ہے جس سے نئی نسل مستفید ہورہی ہے
پھر کاٹھمانڈو میں دوسال بعد ہیومن رائٹ کمیشن کی نمائندگی میں میرا ماؤوادیوں پر ایک دوسرے پر کاروائی نہ کرنے اور امن و شانتی سے رہنے کا معاہدہ ہوگیا اور میری زمین و جائداد جو ماؤوادیوں کی وجہ سے بنجر پڑی تھی دوبارہ کاشت کا کام شروع ہوا اور مکان کو دوبارہ تعمیر کرایا مگر حالات پھر بھی کشیدہ تھے لہذا حالات نے مجھے کاٹھمانڈو میں سکونت اختیار پر مجبور کردیا شورش سے پہلے میرا ایک مجموعہ کلام تیار ہوچکا تھا ماؤوادیوں کے بم نے میرے گھر ہی نہیں میرے اس مجموعہ کلام کو بھی جلاکر خاکستر کردیا تھا جو میرے لئے کسی کریہہ سانحہ سے کم نہ تھا
جب نیپال میں آزادی آئی تو نیپال میں تمام زبان و ادب کی حوصلہ افزائی اور اسی سلسلے میں حکومت نیپال کے روزنامچہ گورکھا پتر میں مجھے اردو صفحات کا ایڈیٹر بنایا گیا اور لگ بھگ دس سال تک میں پورے انہماک کے ساتھ منسلک رہا لیکن میرے اپنے ادارے مرکزالامام احمدبن حنبل الاسلامی جو ایک دینی سماجی و رفاہی ادارہ کی مصروفیات نے گورکھاپتر کو چھوڑنے پر مجبور کردیا مرکز ادارہ نیپال میں ایک انگلش میڈیم انٹر میڈیٹ کالج، تین نسواں اسکول، ایک عالمیت تک عربی میڈیم اسکول ، اور چار پرائمری اسکول ملک کے مختلف حصوں میں چلاتا ہے جہاں اردو کو بطور سبجیکٹ میں نے رکھا ہوا ہے ابھی سال گزشتہ میں میراپہلا شعری مجموعہ ،آہنگ ہمالہ،، منظر عام آچکا ہے ، بروقت ایک اور شعری مجموعہ ،، رنگ ہمالہ،، اگست تک منظر عام پر آنے کو تیار ہے علاوہ ازیں میری ایک کتاب ،، تاریخ اردو نیپال بھی تیار ہے ان شاء اللہ میری کوشش ہوگی کہ جلد سے جلد منظر عام پر آجائے
میں نے کانفرنس، سیمینار اور مشاعروں میں شرکت کی غرض سے بھارت میں دہلی ممبئی بھوپال بنگلور لکھنئو گورکھپور، دربھنگہ ، پٹنہ ، سیوان کا سفر کیا اور نیپال میں عالمی وقومی سیمینار اور مشاعروں کا اہتمام بھی کیا ہے
عائشہ: نیپال میں اردو کی کیا حالت ہے اور کس حدتک آپ کوشاں ہیں؟
ڈاکٹر ثاقب: نیپال میں اردو کی حالت بہتر ہے یہاں کی دوفیصد آبادی اردو لکھتی پڑھتی اور بولتی ہے اور اس اردو نیپال میں آٹھویں نمبر کی زبان ہے ہم تمام کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ مدارس کے لئے ہائی اسکول تک نصاب تجرباتی مرحلے میں ہے جس میں اردو کو ایک سبجیکٹ ہے انٹرمیڈیٹ لیول پر کام جاری ہے
نیپال اردو اکیڈمی کا قیام ۲۰۱۱ ءمیں میری صدارت میں عمل میں آیا الحمد اللہ اکیڈمی بہتر کام کررہی ہے اور اردو کے عام کرنے میں اردو اکیڈمی کا بہت بڑا ہاتھ ہے بروقت اردو اکیڈمی کے صدر معروف شاعر جناب امتیاز وفا اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ وقت کوشاں ، ناچیز بروقت ساہتیہ اکیڈمی نیپال کے صدر کی حیثیت سے کام کررہا ہے ساہتیہ اکیڈمی نیپال بروقت چھ بھارتیہ زبانوں ، اردو ، ہندی، نیپالی، اودھی، بھوج پوری ، میتھلی کیلئے کام کررہی ہے
عائشہ : ہم طلباء و طالبات کے لئے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے:
ڈاکٹر ثاقب: کسی بھی ادب کیلئے کام کرنا آسان کام نہیں ، شاعر و ادیب ہونا عام بات نہیں بہت ہی خاص ہوتی ہے ایک ادیب و شاعر کسی سماج کا آئینہ اور مشعل راہ ہوتا ہے اور خود کو نمائندہ حیثیت میں لانے کے الہامی کیفیتوں کا حامل بنانا ہوتا ہے جو کتابوں کے مطالعے اور مسلسل عرق ریزی اور انہماک سے ہی ممکن ہے میرا روزانہ کا معمول ہے کہ میں خود کو کم سے کم چار گھنٹہ لکھنے پڑھنے کے کاموں مصروف رکھتا ہوں
عائشہ: اردو زبان کو لے کر کوئی پیغام:
ڈاکٹر ثاقب: اردو ایک عالمگیر زبان ہے مگر اسکی آفاقیت اور عالمگیریت کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ عالمی کوششیں ناکافی ہیں اجتماعی اور انفرادی طور پر ہمیں آگے بڑھنے اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے
عائشہ : آخر میں ایکبار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت چاہتی ہوں
ڈاکٹر ثاقب: میں بھی آپ کا تہ دل سے ممنون ہوں کہ آپ نے اس انٹرویو کے لئے اہل سمجھا
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page