اردو شاعری میں پرشوتم رام / قرۃ العین – محمد علم اللہ
ڈاکٹر قرۃ العین اردو کے ابھرتے ہوئے اسکالر ہیں، جنھیں نت نئے موضوعات پر تحقیق اور تخلیق کے لیے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اردو زبان و ادب میں گریجویشن، ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کیا ہے۔ وہ ہندی زبان میں بھی لکھتے ہیں اور بہت اچھا لکھتے ہیں، انھوں نے کئی کتابوں کے تراجم بھی کیے ہیں جنھیں اہل علم نے سراہا ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے "اردو شاعری میں پرشوتم رام” کے موضوع پر ایک کتاب ترتیب دی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کتاب انھوں نے مجھے تقریبا ایک سال قبل بھجوائی تھی لیکن کچھ اپنی مصروفیت اور کچھ تساہلی کے سبب میں اسے دیکھ نہیں سکا تھا،کل کاتوں کی الٹ پلٹ میں یہ کتاب ہاتھ آگئی تو سرسری نظر سے ہی معلوم ہوگیا کہ کتاب محنت سے ترتیب دی گئی ہے، پڑھنا شروع کیا تو ختم کرکے ہی دم لیا۔
تقریبا 128 صفحات پر مشتمل چھوٹی سی یہ کتاب ہندوستان کی طلسماتی شخصیت شری رام چندر جی کے اوپر اردو میں لکھے گئے نظموں کا مجموعہ ہے۔ جس میں کم و بیش بیس اساتذہ کے کلام موجود ہیں، جن اساتذہ کے کلام کو شامل کتاب کیا گیا ہے، ان میں ہندو شعراء میں برج موہن دتاتریہ کیفی، نوبت رائے نظر، درگا سہائے سرور جہاں آبادی، مہاراج بہادر برق دہلوی، تلوک چند محروم، جگت موہن لال، پنڈت میلا رام وفا، جگت گرو شنکر اچاریہ جبکہ مسلم شعراء میں علامہ اقبال، ظفر علی خاں، نظیر اکبرآبادی، جوش ملیح آبادی، ساغر نظامی، سردار جعفری، سلام مچھلی شہری، مولوی بادشاہ حسین رعنا لکھنوی، پرویز شہریار اور حبیب الرحمان جیسے اساطین علم و ادب کے شہ پارے شامل ہیں۔
اس حوالے سے وہ اپنی کتاب کے مقدمہ میں کہتے ہیں: "زبان کو کسی بھی مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن مذہب کے فروغ اور اس کی توسیع میں زبان کی اہمیت وافادیت اور حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ادب میں رام چندر جی کا ذکر ملتا ہے۔ اردو ہندوستان کی خوبصورت ترین اور شیریں زبان ہے جو بر صغیر سے نکل کر عرب ، یورپین ممالک اور دیار غیر تک بولی اور سمجھی جاتی ہیں جس کی خمیر میں سیکولرزم ہے جو کسی خاص مذہب ، دھرم، فرقہ،طبقہ،مسلک اور جماعت وغیرہ کی زبان نہیں ہے۔ اس کے پرستار دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور اس کی نشو ونما میں مسلمانوں نے جتنا حصہ لیا اتنا ہی ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں، بودھ اور جین مذاہب کے ماننے والوں نے بھی لیا ہے۔” (مقدمہ کتاب، صفحہ 6)
کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انتہائی عرق ریزی انھوں نے اس کام کو انجام دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ پوری فضا کو مکدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور رام چندر جی جن کے کردار کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک نرم دل، عظیم اور امن پسند انسان تھے ان کی شبیہ کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی آکرامک اور حملے کو آتر، کچھ عناصر کی جانب سے رام چندر جی کی ایسی تصاویر عام کی جاتی ہیں جس میں رام تیر اور دھنش لیے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے میں کسی شخصیت کے بارے میں اس کی دوسری شبیہ کو آشکار کرنے کی کوشش کرنا نہ صرف ہمت اور حوصلے کا کام ہے بلکہ ایسے لوگ ہمت افزائی اور شکریے کے مستحق ہیں کہ وہ سماج میں بھائی چارے کے فروغ کے لیے ایک کاونٹر ڈسکورس کھڑا کر رہے ہیں اور اس ڈسکورس میں ادب اور فن کے ساتھ پیغامِ امن مقدم ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے این ڈی ٹی وی میں مرحوم کمال خان کا ایک پروگرام مجھے یاد آ گیا جس میں انھوں نے رام اور وی ایچ پی پر پورا ایک پروگرام ہی کیا ہے۔ اس چھوٹے سے پروگرام کی ابتدا ایک کیلینڈر سے ہوتی ہے جس میں رام کی ایک تصویر بنی ہے،اور ایک پروقار اور پر امن شخصیت کا عکس جھلکتا ہے۔ وہ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے پی ٹی سی کی ابتدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے گھر میں بھی ایک ایسا ہی کیلنڈر لگا تھا، بالکل ایسی ہی تصویریں تھیں رام دربار کی جھانکی، ہم نے رام کو ایسے ہی جانا تھا، مریادا پروشوتم، سومیہ، شالین، دھیر، گمبھیر، ویر اور تیاگی مگر وی ایچ پی نے انھیں ایسا بنایا ہے آکرامک ، حملے کو آتر، ساتھ میں ہے وی ایچ پی کا بنایا رام مندر کا ماڈل اور اور کیمرا ایک دوسرے رام کی جانب فوکس کرتا ہے جس میں رام کو خوف ناک انداز میں دکھایا گیا ہے۔ پھر وہ بچپن سے لیکر حالات حاضرہ تک کی منظر کشی ایسے دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ صرف آنکھیں ہی نہیں بھر آتیں بلکہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کہاں گیا ہمارے بچپن کا وہ ہندوستان، کہاں گئے وہ خوبصورت اخلاق کا مرقع رام جن کو بھلا دیا گیا، جو کھو گئے۔ کہاں گیا وہ ہندوستان جہاں سب مل جل کر رہتے تھے، دکھ درد ایک ساتھ بانٹتے تھے، پھر تلسی داس سے لیکر علامہ اقبال، کیفی اعظمی تک کے کلام کو اس خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں کہ بار بار سنتے رہیے، نگاہیں نہیں تھکتیں۔
ڈاکٹر قرۃ العین نے اپنی اس کتاب میں اسی مریادا پروشوتم، سومیہ، شالین، دھیر، گمبھیر، ویر اور تیاگی رام کی کہانی کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، جس کو پڑھتے ہوئے کئی جگہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ یہاں پر کتاب میں نظموں کو نقل کرنا یا اس کی تشریح کرنا ممکن نہیں ہے کہ اگر میں اس پر بات کرنے لگا تو یہ مضمون مزید طویل ہوجائے گا اس لیے میں چاہوں گا کہ قارئین خود کتاب کا مطالعہ کریں اور اس سے حظ اٹھائیں۔ تقریبا پندرہ صفحات پر مشتمل کتاب کا مقدمہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جس میں مرتب نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں رام چندر جی کی شخصیت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو تفصیل سے بیان کیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ان اشعار کی تشریح بھی کی ہے اور اساتذہ کے کلام کا تجزیہ اور فنی امور پر گتفتگو کی ہے۔ کتاب کا فلیپ روزنامہ اردو سہارا کے گروپ ایڈیٹر عبدالماجد نظامی نے رقم کیا ہے۔ جبکہ اشاعت کا سہرا روزورڈ بکس کو جاتا ہے۔ کتاب کی قیمت 122 روپئے ہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page