کوئی کتاب مرتب (Compile) کرنا کیا بہت آسان کام ہے؟ اور کیا Compilation چوتھے، پانچویں یا چھٹے درجے کا کام ہے؟ اس طرح کے سوالات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب یار دوست کسی مرتبہ کتاب کو جانچے پرکھے اور غور کیے بغیر یہ کَہ کر کتاب ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ مرتب نے اس میں کیا کیا ہے مزید براں اپنے کہے میں یہ اضافہ بھی کر دیا جاتا ہے کہ جب خود کچھ نہیں لکھ سکے تو اِدھر اُدھر سے دوسروں کی تحریریں اکٹھی کر کے کتاب اپنے نام سے شائع کروانے کا آسان راستہ ڈھونڈ لیا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی بات چیت اصل میں کسی بھی مرتبہ کام کے بارے میں ہماری عمومی ذہنیت کی نمائندگی کا اظہاریہ ہے۔ ایسے یار دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اُن کی یہ بات اُن لوگوں پر ضرور صادق آتی ہے جنھوں نے واقعتا اپنے نام کو محض کتاب کے ساتھ ٹانکنے کا کام کیا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورت میں یہ بہت آسان اور انتہائی نچلے درجے کا کام ہے۔ لیکن اگر کسی نے کسی منصوبے اور کسی وژن کے تحت کوئی کتاب مرتب کی ہے تو پھر یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے جو سرانجام دیا گیا ہے اور جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مرتب کی نہ صرف سخت ترین ذہنی اور جسمانی مشقت صرف ہوئی ہے بلکہ ایک عمر کے وسیع مطالعے کا عمل دخل بھی نظر آتا ہے۔ اور یہ کام محض کتاب پر اپنا نام لکھوانے کے لیے نہیں بلکہ کسی نہایت اہم علمی یا فکری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فرض سمجھ کر کیا جاتا ہے جس میں مرتب اپنی پوری استعداد سے کام لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مرتبین کی مرتبہ کتب کئی کئی طبع زاد کتابوں پر انتہائی بھاری ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن بہرحال یہ ضرور ہے کہ ایسی Compilations، روزمرہ کے ہونے والے عمومی مرتبہ کام کے مقابلے میں، بہت کم منظر عام پر آتی ہیں۔
ایک اعلیٰ کتاب مرتب کرنا بلاشبہ ایسی علمی اور تحقیقی سرگرمی ہے جس میں مرتب کی فلسفیانہ اپروچ کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر گہری علمی اور فکری اپروچ اور مقصد کے کتاب مرتب کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کوئی کتاب مرتب کیوں کی جاتی ہے؟ اور مرتب کردہ کتابوں کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں؟
کتاب مرتب کی جاتی ہے کسی اہم مصنف کی بکھری ہوئی اہم تحریروں کو اکٹھا کرنے کے لیے، یا کسی موضوع پر نایاب تحریروں کو یک جا کر کے ایک جگہ پیش کرنے کے لیے، یا کسی فکری یا علمی مسئلے پر اہل علم کی آرا مرتب کرنے کے لیے؛ یعنی جیسا اُوپر کہا گیا کہ کسی علمی اور فکری یا ادبی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے، لہٰذا کوئی بھی صورت ہو، اگر اُس کے پیچھے کسی ذہنی منصوبہ بندی اور وژن کی کارفرمائی دکھائی دے تو مرتبہ کام (Compilation) اپنی اہمیت ہر صورت اہل علم و فکر سے منوا لیتا ہے۔ شرط صرف یہی ہے کہ مرتبہ کتاب کسی علمی یا فکری ضرورت کا لازمی نتیجہ ہو۔ لیکن اس سے اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا مرتبہ کام ہر کسی کے بس کا کام ہے؟ یقینا نہیں۔ یہ صرف اُسی کے بس کا کام ہے جو علم کے سمندر کا ایسا شناور ہو جسے اُس کی وسعتوں کا پورا پورا علم بھی ہو اور احساس بھی، اور اِن وسعتوں کو پاٹنے کا اُس میں نہ صرف حوصلہ ہو بلکہ وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ ہمارا یہاں مؤقف یہ ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا شمار ایسے ہی مرتبین میں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جہاں اعلیٰ پائے کے نقاد، محقق، ماہر لسانیات اور مدون ہیں، وہیں بہترین مرتب (Compiler) بھی ہیں۔ اُن کی مرتب کردہ کتابیں نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ معیار اور ادبی و علمی ضرورت کے پیش نظر بھی بے انتہا اعتبار کی حامل ہیں جس کی اُردو میں کوئی دوسری مثال بہت کم ملے گی۔ اُن کے مرتبہ کاموں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ Compilation محض علمی و فکری یا ادبی سرگرمی ہی نہیں بلکہ ایک فن بھی ہے اور یہ فن نکھرتا تبھی ہے جب مرتب کا ذہن اپنے مقصد میں بالکل صاف (Clear) ہوتا ہے۔
اصل میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے تقریباً تمام مرتبہ کام اُن سیمیناروں پر مبنی ہیں جو وقتاً فوقتاً وہ کسی نہ کسی ادارے میں منعقد کرواتے رہے ہیں۔ ان سیمیناروں کے موضوعات، وہ انتہائی غور و فکر کے بعد اُس وقت کے علمی، فکری اور ادبی مسئلوں کے مطابق طے کرتے ہیں اور اُس میں مقالہ پڑھنے والوں کو بھی سوچ سمجھ کر مدعو کیا جاتا ہے جو اُس مسئلے کا جائزہ مختلف زاویوں سے لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن مقالہ نگار کو اپنے خیالات کے اظہار میں مکمل آزادی فراہم کرتے ہیں تاکہ منتخب کردہ موضوع کی مختلف جہتیں نمایاں ہو سکیں۔ بعد میں سیمینار میں پڑھے گئے مقالاجات اور اُن پر ہونے والی بحث کے ساتھ ساتھ اُس موضوع سے متعلق پہلے سے لکھے گئے ایسے اہم مضامین بھی کتاب میں شامل کر لیتے ہیں جن کا مکرر مطالعہ اُس وقت ضروری ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ بنیادی طریقۂ کار جس کے تحت ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا Compiled Work ہمارے سامنے آتا ہے اور داد پاتا ہے۔
ڈاکٹر نارنگ سیمینار کا بھی ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں جس کی کارفرمائی اُن کے ہر سیمینار میں نظر آتی ہے۔ بلاوجہ کے برائے نام سیمینارز پر نہ وہ اپنا وقت ضائع کرتے ہیں، نہ مقالہ نگاروں کا، نہ اُس میں شریک ہونے والوں کا اور نہ بعد میں کتابی شکل میں اُسے پڑھنے والوں کا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جب تک موضوع کا کوئی Justification نہ ہو سیمینار کا کوئی جواز نہیں ہوا کرتا۔ سیمینار میں اور کسی میلے میں، میلہ جو ہماری رسمیات کا حصہ ہے جس کو انگریزی میں Ritual کہیں گے، سیمینار میں اور Ritual میں بڑا فرق ہے۔ سیمینار کے موضوع کا کچھ نہ کچھ بحث انگیز ہونا ضروری ہے تاکہ اس پر مختلف نقطۂ نظر سے غور کیا جاسکے۔‘‘(’’ولی دکنی: تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۶ئ، ص:۲۰۳) آج کل ہمارے ہاں جو سیمینارز کے نام پر میلے لگانے کا رواج عام ہوچکا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے اس ضمن میں کچھ نہیں سیکھا۔
میرے پیشِ نظر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے منعقد کیے گئے سیمیناروں پر مبنی جو مرتبہ کتابیں ہیں، جن کی بنیاد پر میں مندرجہ بالا نتائج تک پہنچا ہوں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ اُردو افسانہ: روایت اور مسائل ۲۔ نیا اُردو افسانہ: انتخاب، تجزیے اور مباحث
۳۔ اُردو مابعدجدیدیت پر مکالمہ ۴۔ اطلاقی تنقید: نئے تناظر
۵۔ ولی دکنی: تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر ۶۔ اُردو کی نئی بستیاں
اس کے علاوہ ایک مرتب کتاب ’’بیسویں صدی میں اُردو ادب‘‘ ہے جو کسی سیمینار کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص مرتبہ منصوبہ ہے۔ کیوں کہ اس کتاب میں کہیں اس بات کے شواہد موجود نہیں کہ اس موضوع پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کوئی سیمینار منعقد کروایا ہے۔ اور نہ ہی اس کتاب کے مندرجات کی پیش کش سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
بہرحال میرے پاس اس وقت اُن کی یہ متذکرہ بالا سات مرتبہ کتابیں ہیں گو ان کے علاوہ بھی ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے منعقد کیے گئے سیمینارز پر مبنی کتابیں ہیں مگر میں اپنی بات کو اُنہی سات کتابوں تک محدود رکھوں گا جو میرے سامنے موجود ہیں۔
’’اُردو افسانہ: روایت اور مسائل‘‘ اُس سیمینار پر مبنی کتاب ہے جو ۲۹ تا ۳۱ مارچ ۱۹۸۰ئ کو جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا جس میں اُس عہد میں اُردو افسانے اور نئی علامتی/ تجریدی کہانی سے متعلق اُٹھنے والے سوالات کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔ مثلاً نئی علامتی کہانی کیا ہے؟ کیا کہانی پن کے بغیر کسی افسانے کی شناخت ممکن ہے؟ نئی کہانی کا سماج اور معاشرے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ یا نئی کہانی کا زمان و مکان سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس سیمینار میں ایسے سوالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہندوپاک سے معتبر ناقدین کو دعوت دی گئی جنھوں نے یہاں انتہائی پُرمغز اور بحث طلب مقالہ جات پڑھے۔ اس طرح ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بڑی خوبی سے اِس سیمینار میں اُس عہد میں بننے والی اُردو کہانی کی نئی صورت کو نہ صرف واضح کیا بلکہ اُس کی دَین کا بھی اعتراف کیا ہے۔ بہت سے سوالوں کے جوابات دیے بھی گئے لیکن بہت سے مزید نئے سوالات اُٹھائے بھی گئے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا اس ضمن میں یہ کہنا بالکل درست نظر آتا ہے کہ ’’کوئی بھی سیمینار کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا چناں چہ ہم نے بھی نہ فیصلے کیے ہیں، نہ حکم لگائے ہیں، البتہ اگر اس مذاکرے نے سنجیدہ علمی غوروفکر کی فضا تیار کی ہے، سوال اُٹھائے ہیں اور مسائل پر غور و خوض کی دعوت دی ہے تو ہماری سعی کچھ ایسی رائیگاں بھی نہیں گئی۔‘‘(’’اُردو افسانہ: روایت و مسائل‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۶ئ، ص:۱۵) ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا یہی مقصد ہر سیمینار کے پس پشت کارفرما رہا ہے۔
اس سیمینار کی ایک بہت اہم بات راجندر سنگھ بیدی کی بہ طور مہمانِ خصوصی شرکت تھی اور اس میں اُنھوں نے جو مقالہ بہ عنوان ’’افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل‘‘ پڑھا۔ یہ مقالہ آج بھی افسانوی تنقید کا اہم ترین مقالہ مانا جاتا ہے جس کا کریڈٹ بلاشبہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو جاتا ہے جنھوں نے راجندر سنگھ بیدی کو خصوصی طور پر مدعو کیا۔ اس کے بعد جب یہ سیمینار کتابی شکل میں ترتیب دیا گیا تو اس میں اُردو افسانے سے متعلق پہلے کے چند اہم منتخب مضامین بھی شامل کر لیے گئے تاکہ یہ کتاب اُردو افسانے پر ایک مکمل دستاویز بن سکے۔ اور واقعی یہ کتاب آج چالیس سال گزر جانے کے بعد بھی اُردو افسانے کے جدید اور مابعدجدید مباحث کی بنیادی حوالہ جاتی کتاب ہے۔
نئے یا علامتی/ تجریدی افسانے کا مسئلہ گوپی چند نارنگ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا وہ اس سے ایک بار پھر جھوجھنے کے لیے ۱۷ تا ۲۱ مارچ ۱۹۸۵ئ کو اُردو اکادمی دہلی کے تحت ’’نیا اُردو افسانہ: انتخاب، تجزیے، مباحث‘‘ کے عنوان سے پانچ روزہ سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اصل میں اُردو افسانے میں نئی حقیقت نگاری کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو اُن کے بقول ’’کتھا کہانی کے تقاضوں کو بھی پورا کر سکے اور ذاتی سماجی مسائل کو بھی نئی معنویت کے ساتھ پیش کر سکے۔‘‘(’’نیااُردو افسانہ: انتخاب، تجزیے اور مباحث‘‘، کراچی، المسلم پبلشرز، ۱۹۸۹ئ، ص:۵۸۹) اس لیے اُنھوں نے ۱۹۷۰ئ کے بعد کے اُردو افسانے کے معنیاتی ابعاد، فنی ڈھانچے نیز جدید حسیت اور اس کے پہلوؤں پر بھی اس سیمینار پر غور کرنے کا راستہ نکالا۔ اس کے لیے اُنھوں نے اس سیمینار کا جو طریقۂ کار وضع کیا وہ یہ تھا کہ ہر اجلاس میں دو دو افسانے پڑھے جائیں اور اُن پر دو دو نقاد اپنے اپنے تجزیے پیش کریں۔ علاوہ ازیں یہ کہ نئی اور پرانی نسل کے رابطے کو قائم رکھنے اور مباحث کو گہرائی دینے کے لیے ہر اجلاس کی صدارت کسی سینیئر افسانہ نگار یا ادیب کو تفویض کر دی گئی۔ یوں پانچ دنوں میں کل بائیس افسانے اور اُن کے تجزیے پڑھے گئے اور ساتھ ہی ساتھ افسانے کے مسائل پر نئے اور پرانے نظریات کے کھُل کر بحث کرنے کا موقع بھی ہاتھ آیا؛ اور نئے اُردو افسانے کی نہ صرف جہتیں واضح ہوئیں بلکہ اُس کی سمت کا تعین کرنے میں بھی مدد ملی اور بتایا گیا کہ کس طرح نیا افسانہ عہدِ حاضر کے مسائل سے نپٹ سکتا ہے۔
اس کے بعد وہ سیمینار اور اُس سیمینار کے مقالات پر مبنی کتاب ’’ادب کا بدلتا منظرنامہ: اُردو مابعدجدیدیت پر مکالمہ‘‘ ہے جس نے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی اُردو ادب کو ایک نئی بحث دے دی۔ اس سے پہلے ۱۹۹۳ئ میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ جیسی تصنیف کی صورت اُردو میں نئی گفتگو کا در کھول چکے تھے۔ اب وہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور مابعدجدیدت کی بحث کو پوری اُردو دنیا میں موضوعِ بحث بنانے کا ارادہ باندھتے ہیں اور اس میں کامیاب رہتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے وہ اُردو اکادمی دہلی کے پلیٹ فارم سے ۱۴ تا ۱۶ مارچ ۱۹۹۷ئ تین روزہ سیمینار کے انعقاد کا ذمہ لیتے ہیں۔ ان تین دنوں میں نہ صرف مابعدجدیدیت کے نظری مباحث پر مقالات پڑھے گئے بلکہ اُردو کی شعری اور نثری اصناف کے حوالوں سے بھی مابعدجدیدی مطالعوں پر مبنی مقالات پیش کیے گئے۔ دوسرا نیا انداز یہ پیدا کیا گیا کہ اس ضمن میں صرف ناقدین کے مقالات تک سیمینار کو محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اس میں تخلیقی فن کاروں کو بھی شامل کیا گیا کہ وہ بھی اپنے تخلیقی محرکات اور مسائل پر گفتگو کر سکیں اور یوں معاصر صورت حال پر تخلیق اور تنقید کے مابین مابعدجدیدیت پر مکالمہ قائم کیا جا سکے۔ یہ تجربہ بھی بہت کامیاب رہا اور یوں مابعدجدیدی صورت حال کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملی۔
بنیادی طور پر تو یہ اُردو کے حوالے سے مابعدجدیدیت پر مکالمہ پر مبنی سیمینار تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ بہ قول مخمور سعیدی سکریٹری اُردو اکادمی دہلی ’’ہندی اور پنجابی اُردو کی ہم جولی زبانیں ہیں اس لیے ان زبانوں کے قلم کاروں کو بھی سیمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔ پروفیسر ستیندر سنگھ نُور نے پنجابی اور جناب سدھیش پچوری نے ہندی کے موجودہ ادبی منظرنامے کے حوالے سے مابعدجدیدیت کے میلانات اور اُن کے اثرات پر مقالے پڑھے۔‘‘(’’اُردو مابعدجدیدیت پر مکالمہ‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ئ، ص:۱۱) اس ضمن میں ایک بات دھیان میں رکھنا ہوگی کہ ستیندر سنگھ نُور نے بنیادی طور پر مابعدجدیت پر نظری مقالہ پیش کیا، اُس کا پنجابی ادب میں مابعدجدیدیت سے کچھ خاص رشتہ نہیں ہاں یہ مقالہ پڑھا پنجابی زبان میں گیا جسے بعد میں اُردو میں ترجمہ کر کے شامل کتاب کیا گیا۔ جب کہ سدھیش پچوری کا مقالہ پوری طرح ہندی ادب میں مابعدجدیدیت کے حوالے سے ہے، اور پڑھا بھی ہندی زبان میں گیا اور بعد میں اُسے بھی اُردو میں ترجمہ کر کے شامل کیا گیا۔
بہرحال یہ وہ کتاب ہے جس کے بعد اُردو تنقید اور ادب میں مابعدجدیدیت کے مباحث کا سیلاب آگیا۔ یعنی ایک بار پھر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی یہ مرتبہ کتاب بھی باقاعدہ اُردو کی ادبی دنیا میں نئی بحث کا باعث بن گئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور صرف بحث ہی کا باعث نہیں، مابعدجدیدیت پر حوالے کی ایک اہم کتاب بھی بن گئی۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی مرتبہ کتاب ’’اطلاقی تنقید: نئے تناظر‘‘ اُس سیمینار پر مشتمل ہے جو ساہتیہ اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ۲۳ تا ۲۵ دسمبر ۲۰۰۱ئ کو منعقد ہوا۔ اس سیمینار کا بالخصوص اہتمام ادیبوں کی نئی نسل کی اس شکایت کے پیدا ہونے پر کیا گیا جن کا کہنا تھا کہ تنقید اُن کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ اصل میں پچھلی صدی کی بیش تر اُردو تنقید نظری مباحث کی تنقید رہی لیکن انفرادی سطح پر تخلیق کاروں اور اصناف پر بہت کم توجہ دی گئی (اور اگر دی بھی گئی تو میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے آگے نہیں بڑھی) یعنی نئے لکھنے والوں پر اطلاقی تنقید نہ ہونے کے برابر رہی۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے نقاد نظریات بناتے بگاڑتے اور اچھالتے رہے مگر اُن نظریات کے اطلاق سے بالعموم غافل رہے حالاں کہ جب نقاد اطلاقی تنقید کرتا ہے تو غیر محسوس طور پر نظریہ اُس میں سرایت کرتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ تنقید کا اطلاق کس نظریے کی بنیاد پر ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہمارے ناقدین میں اس تنقید کا رجحان پیدا نہ ہوا، شاید اس میں متن پر جس طرح توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے اُس میں محنت زیادہ صرف ہوتی ہے۔ یوں بھی ثقافتی سطح پر ہم عمل سے زیادہ گفتار کے غازی ہیں، تو ایسے میں اطلاقی تنقید کا تناسب بڑھنا مشکل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس تین روزہ سیمینار کا ڈول ڈالا۔
یہاں بھی اسی منصوبہ بندی کے تحت نئے اور پرانے ناقدین سے رابطے کیے گئے اور اُنھیں معاصر ادبی منظرنامے پر اطلاقی تنقید کی ترغیب بھی دی گئی اور متن شناسی کی پوری پوری آزادی بھی۔ نتیجہ حسبِ حال نکلا اور معاصر اُردو غزل، نظم، افسانہ اور ناول پر بہترین مقالاجات کی کہکشاں وجود میں آگئی۔ جن کی بنیاد پر بیسویں صدی کے اختتام کے قریب قریب اُردو ادب کو اطلاقی بنیادوں پر جاننے، پہچاننے اور پرکھنے کا موقع مل گیا۔
۲ مارچ ۲۰۰۲ئ کو گجرات کے فسادات میں ولیؔ دکنی کے مزار کو مسمار کر دیا گیا۔ یہ خبر ادب سے وابستہ ہر زبان کے شخص کے لیے بہت افسوس ناک تھی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بھی بے حد صدمہ پہنچا۔ اُنھوں نے بہ طور ادیب نہ صرف ’’یادگار ولیؔ‘‘ تعمیر کرنے کا بیڑا اُٹھایا بلکہ دو روزہ سیمینار بہ عنوان ’’ولیؔ دکنی: تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر‘‘ منعقد کرنے کا بھی منصوبہ تشکیل دے دیا۔ اُن کی کوششوں سے ساہتیہ اکادمی دہلی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی کے اشتراک سے ۲۲ تا ۲۳ دسمبر ۲۰۰۳ئ کو اس سیمینار کا انعقاد ہوا۔ ابتدائیہ کلمات میں گوپی چند نارنگ نے بہ یک وقت جو نہایت خوب صورت اور دردناک بات کہی وہ یہ تھی کہ ’’اس دو روزہ سیمینار کا مقصد یہ ہے کہ اس آگہی کو عام کیا جائے کہ ایک محبت کے شاعر کو نفرت کا نشانہ بنانا غلط ہے، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ نفرت کا نشانہ اسی کو بنایا جاتا ہے جو محبت کا مظہر ہو۔‘‘(’’ولی دکنی: تصوف، انسانیت اور محبت کا شاعر‘‘، ص:۹) اور آخری کلمات ادا کرتے ہوئے حقیقت پسندانہ اور حکیمانہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’’اس سیمینار کے ذریعے اس جذبے کو عام ہونا چاہئے کہ مشترکہ تہذیب کی یادگاروں کو آپ جتنا مٹائیں گے اُن کی اہمیت اُتنی ہی بڑھے گی، اتنا ہی تہذیب Focus میں آئے گی، اتنا اُن کے لیے تجسس بڑھے گا۔ لوگوں کو اُسے جاننے کے لیے اُتنی ہی تڑپ پیدا ہوگی۔ ہم اپنی روایت سے لوگوں کو آگاہ کریں اس عرفان کو عام کریں جو ہماری روایت کا ہے۔‘‘(ایضاً، ص:۲۲۲)
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اس سیمینار کے ذریعے صرف ولیؔ کی محبت اور انسان دوستی کو ہی اُجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب اور روایت کس طرح امن، محبت، انسانیت اور اہنسا جیسی اقدار سے گرتی ہوئی رفتہ رفتہ نفرت، دہشت، قتل و غارت اور تشدد جیسی غیر انسانی کارروائیوں پر مائل ہوگئی، اس کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اس سیمینار کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
طریقۂ کار یہاں بھی وہی رہا۔ مقالات پڑھے گئے، اُن پر مباحث بھی ہوئے اور کتابی شکل میں لاتے وقت ولیؔ پر لکھے گئے تین بنیادی نوعیت کے سابقہ مضامین بھی شامل کتاب کیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ سیمینار کی ایک تاثراتی مگر انتہائی مؤثر رپورٹ کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اس سے ولیؔ دکنی پر یہ کتاب بلاشبہ ایک خاصے کی چیز بن گئی ہے اور حوالے کا ایک بڑا ماخذ بھی۔
۱۸ سے ۲۰ مارچ ۲۰۰۵ئ کو ساہتیہ اکادمی دہلی کے زیر اہتمام ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ایک اور انتہائی اہم موضوع ’’اُردو کی نئی بستیاں‘‘ پر تین روزہ سیمینار کا شان دار انعقاد کرتے ہیں۔ اس موضوع پر اس سے پہلے اس قدر وسیع سطح پر کبھی نہیں سوچا گیا تھا۔ اس سیمینار میں بنیادی موضوع تو باہر دیسوں میں بسنے والے اُردو بولنے والوں کے زبان اور رسم الخط سے متعلق پیدا ہونے والے مسائل ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ باہر بسنے والوں اور نئی بستیوں کے بسنے بسانے کے مسائل بھی معرض بحث میں آجاتے ہیں۔ مزید براں باہر کے ممالک میں ہونے والے اُردو کے ادبی کارناموں کا جائزہ بھی لے لیا جاتا ہے۔ اور بین السطور یہ مقصد بھی پیش نظر رہتا ہے کہ بقول گوپی چند نارنگ یہ بتایا جائے کہ ’’شاید کرۂ ارض پر بالخصوص مغرب میں کوئی مقام ایسا نہیں ہے جہاں اُردو کے قدم نہ پہنچے ہوں۔ مختصر یہ کہ یہ سیمینار اگر کسی اور مقصد میں نہ سہی، صرف یہ احساس پیدا کرنے میں ہی کامیاب رہا ہو کہ ہم کسی احساسِ کم تری کا شکار نہ ہوں، تو یہ بڑی کامیابی ہے۔ اُردو کوئی معمولی زبان نہیں ہے۔‘‘(’’اُردو کی نئی بستیاں‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ئ، ص:۵۲۳) بہرحال اس سیمینار میں درپیش بنیادی مسائل کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ان الفاظ سے سمجھا جا سکتا ہے اور اس کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’چوں کہ اُردو کو باہر کے ملکوں میں کاروبار کی جو زبان ہے مثال کے طور پر انگریزی، اُس کے ساتھ نباہ کرنا ہے، اس لیے اگلی نسلیں سب انگریزی بولیں گی اور سیکھیں گی اور کیوں نہ سیکھیں؟ کیا اُن کو ملازمت نہیں کرنی؟ آپ باہر کس لیے گئے ہیں؟ In Search of Green Pastures تاکہ پیسہ کما سکیں، تاکہ روزگار ملے، تاکہ آپ ترقی کر سکیں۔ اُردو آپ سے یہ تو نہیں کہتی کہ آپ انگریزی یا جرمن یا فرانسیسی زبان میں مہارت حاصل نہ کریں۔ ضرور کریں لیکن آپ کی تہذیبی ضرورت، آپ کی جذباتی ضرورت، آپ کی موسیقی کی ضرورت، آپ کی ثقافت کی ضرورت فرانسیسی سے یا جرمن سے یا ڈچ سے یا نارویجین سے یا انگریزی سے پوری نہیں ہوگی۔ غیر ملکی زبان پر آپ کو قدرت ہونا ہی چاہئے اگر آپ اپنے وہاں رہنے کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کے گھر کی زبان، آپ کی تہذیب کی زبان، آپ کی آئندہ نسلوں کی تہذیب کی زبان، آپ کے تہذیبی تشخص کی زبان اُردو ہوگی اور اسی لیے ان پچاس برسوں میں اُردو باہر کے ممالک میں بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ پھل پھُول رہی ہے، باوجود شداید اور مشکلات کے۔ مشکلات سے نباہ کرنا، adjust کرنا، راستہ بنانا اور بناتے چلے جانا اُردو کے مزاج میں ہے۔ یہ مسائل اور ان سے ملتے جلتے بہت سے دوسرے مسائل اُردو کی نئی بستیوں میں اُردو کے چلن اور مستقبل کے حوالے سے غور طلب ہیں۔‘‘(ایضاً، ص:۲۶ تا ۲۷)
ہمارے اس قدرے طویل لیکن بہت اہم اقتباس پیش کرنے سے، اس راز سے پردہ ضرور اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے انتہائی کامیاب سیمیناروں کی اصل وجہ کیا ہے۔ اس اقتباس کا مطالعہ پہلی بات یہ بتاتا ہے کہ گوپی چند نارنگ اپنا بنیادی تھیسز خوابوں خیالوں پر نہیں بلکہ ٹھوس حقائق پر رکھتے ہیں۔ وہ پہلے ساری صورت حال کا منطقی انداز سے جائزہ لیتے ہیں پھر اُس کے مسائل کا انتہائی غور و فکر کی بنیاد پر ادراک کرتے ہیں اور اس کے بعد اُس کے ممکنہ حل کی تجاویز پیش کرتے ہیں اور اِن تجاویز کو پیش کرتے ہوئے ان میں لچک بھی رکھتے ہیں کیوں کہ وہ بہ خوبی جانتے ہیں کہ ’’کوئی بھی سیمینار کسی بھی تاریخ کا یا کسی بھی مسئلے کا سو فی صد نہ تو جائزہ پیش کرتا ہے اور نہ حل پیش کر سکتا ہے۔‘‘(ایضاً، ص:۴۶۷) اسی لیے وہ دیگر ادیبوں کو بھی اپنے منتخب موضوع پر آزادانہ اظہارِ خیال کی دعوت دیتے ہیں تاکہ مختلف نقطہ ہائے نظر سے بہتر نتائج تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے وہ دوسروں کی آرا کی عزت کرنا بھی جانتے ہیں۔ لہٰذا قاضی عبیدالرحمن ہاشمی کا اس ضمن میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’پروفیسر گوپی چند نارنگ جس طرح کا تعمیری ذہن رکھتے ہیں، اب تک اُنھوں نے جو سیمینار کرائے ہیں وہ سیمینار کبھی ہوا میں تحلیل نہیں ہوئے، وہ آوازیں اُن کی گونج آج تک محفوظ ہیں کتابی شکل میں۔۔۔‘‘(ولی دکنی‘‘، ص:۲۱۹)
اب آخر میں اُس مرتبہ کتاب کا ذکر بھی کرتے چلیں جو کسی سیمینار کا نتیجہ نہیں۔ ’’بیسویں صدی میں اُردو ادب‘‘ یہ کتاب پہلے پہل بھارتیہ بھاشا پریشد، کلکتہ کے اصرار اور بعد ازاں ساہتیہ اکادمی، دہلی کے زور دینے پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے مرتب کی۔ اس میں بیسویں صدی کے حوالے سے اُردو کی مختلف اصناف کا مختلف ناقدین کا لیا گیا الگ الگ جائزہ پیش کیا گیا ہے جس سے مجموعی طور پر بیسویں صدی میں اُردو ادب کی صورتِ حال واضح ہوتی ہے۔ ابتدا میں ایک مقالہ ’’بیسویں صدی کی فکریات اور تصورات‘‘ کے عنوان سے نظام صدیقی کا شامل کر دیا گیا ہے اور آخر میں ڈاکٹر گوپی چند کا مقالہ ’’اُردو مابعدجدیدیت: اکیسویں صدی کی دہلیز پر‘‘ ہے۔ یوں بیسویں صدی کی اُردو میں فکری تاریخ بھی مرتب ہوتی ہے اور اُس کے تناظر میں مختلف ادبی اصناف کی ارتقائی صورتِ حال سے آگاہی ہوتی ہے اور پھر اکیسویں صدی میں اُردو زبان و ادب کو درپیش چیلنجز کا پتہ بھی چلتا ہے۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیمینار کی بنیاد پر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی مرتبہ کتابوں کی جو ادبی اور فکری آن بان اور شان نظر آتی ہے وہ یہاں اس کتاب میں نظر نہیں آئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گوپی چند نارنگ کی بہ طور مرتب صلاحیتوں کا بہترین اظہار اُس وقت ہوتا ہے جب اُنھیں ایک بڑا چیلنج درپیش ہو۔ بلاشبہ گوپی چند نارنگ اُردو سیمینارز کا انتظام کرنے، اُنھیں ایک خاص فکری جہت عطا کرنے، مباحث اُٹھانے اور پھر ان سب کو نہایت احسن انداز میں مرتب کرنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں جو اس درجہ پر ابھی تک کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔
٭٭٭
ایم۔ خالد فیاض(پاکستان)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page