۔۔۔۔۔۔۔ ” خالد ندیم : نُدرتِ تحقیق کی ایک مثال "۔۔۔۔۔۔۔
___محمد عامر سہیل___
(استاذ محترم ڈاکٹر خالد ندیم آج 8 فروری 2023ء کو سینتیس سالہ تدریسی و انتظامی فرائض انجام دینے کے بعد ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے تازہ مجموعہ مقالات "نُدرتِ خیال” کے مندرجات کا جائزہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق کے دائرہ کار میں حق کی تلاش،معلوم حقائق کی از سر نو چانچ پرکھ اور نامعلوم حقائق کی سنجیدہ جستجو شامل ہے۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ نئے اسالیب کی دریافت،نئی تکنیکوں سے روشناس ہونے کا عمل،نئے رجحانات کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش،ادبی متون کی ازسرنو تفہیم و محاکمہ اور ترتیب و تدوین جیسے علمی،ادبی،تحقیقی،تنقیدی کارنامے بھی تحقیق کے زمرے میں سمجھے جانے چاہئیں۔ڈاکٹر خالد ندیم کی علمی و تحقیقی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ تحقیقی اسالیب ان کی محققانہ کاوشوں میں نظر آتے ہیں۔وہ صرف اقبالیاتی تحقیق و تنقید تک محدود نہیں بلکہ ان کی علمی و تحقیقی خدمات وسیع ہیں۔
_تحقیق و تنقید_ پر مشتمل ان کی کتب میں "میر سے فیض تک(2003ء)”،”اختر حسین رائے پوری:حیات و خدمات(2009ء)”،”جہانِ تلمیحات(2016ء)”،”شبلی شکنی کی روایت(2017ء)”،”عہدِ حاضر کا فکری بحران اور اقبال(2018ء)”،”اردو میں ارمغانِ علمی کی روایت(2020ء)” اور "ندرتِ خیال(2023ء)” شامل ہیں۔
_تحقیق و ترتیب_ کے حوالے انھوں نے تین شخصیات کی آپ بیتیاں ترتیب دی ہیں۔جن میں "شبلی کی آپ بیتی(2014ء)”،”آپ بیتی علامہ اقبال(2015ء) اور ” آپ بیتی مرزا غالب(2019ء)” شامل ہیں۔
_تراجم_ میں علامہ شبلی(2015ء) اور علامہ اقبال کے مکاتیب کے اردو تراجم(زیر طبع)قابل ذکر ہیں۔
_ترتیب و تدوین_میں "انتخابِ ولی دکنی(2002ء)”،”جھوٹا سب سنسار:کلامِ مظفر حسین شمیم(2005ء)”،”مکاتیبِ ڈاکٹر ابنِ فرید(2010ء)”،”رُقعاتِ مشفق خواجہ(2012ء)”،”اقبالیاتی مکاتیب”،”ارمغانِ رفیع الدین ہاشمی(2013ء)”،”نگارشاتِ مظفر حسین شمیم(2014ء)”،”کلیاتِ نثرِ اقبال(2022ء)”،”مطالعاتِ اسرار و رموز(زیر طبع)”،” اور "لفظیاتِ اقبال(زیر طبع)” جیسے علمی کارنامے شامل ہیں۔
اس کے علاؤہ ان کے کئی مقالات مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔وہ تنقید،تحقیق اور تدوین میں نئے موضوعات اور نئے اسالیب کی جانب متوجہ رہتے ہیں۔وہ مرزا غالب،علامہ شبلی اور علامہ اقبال شناسی کا معتبر حوالہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_ڈاکٹر خالد ندیم_ کا مجموعہ مقالات ” نُدرتِ خیال ” کے عنوان سے نشریات لاہور شائع ہو کر سامنے آیا ہے۔176 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا انتساب "سرگودھا یونی ورسٹی کے شعبہ زبان و ادب کے نام ” کیا گیا ہے۔پیش گفتار مصنف نے خود تحریر کیا ہے۔تقدیم کے عنوان سے شاہین عباس نے مجموعہ مقالات پہ رائے کا اظہار کیا ہے۔یہ آٹھ مقالات پر مشتمل مجموعہ ہے۔1.مکتوباتی ناول 2.مکتوباتی افسانہ 3.فرضی مکتوبات 4.منظوم مکتوبات 5.منظوم پہیلی 6.صنعتِ تلمیح 7.خردہ گیری اور 8.علمی خطبات۔
_پیش گفتار_ میں وہ اپنے تحقیقی موقف کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” مجھے ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ تاریخ کے تاریک گوشوں کو منور کیا جائے،ادب کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا جائے،تحقیقی ضروریات کی طرف توجہ دلائی جائے،ادب کےلیے نئی منزلوں کی نشان رہی کی جائے ۔۔۔۔۔ جب تک کوئی موضوع مجھے اپنی علمی،ادبی یا تاریخی ضرورت کا پورا یقین نہ دِلا دے،میں قلم نہیں اٹھا پاتا۔”
"ندرتِ خیال” میں شامل مقالات ان کے تحقیقی موقف کے مطابق گُم شدہ اسالیب کی بازیافت،اصنافِ ادب میں موجود گُم شدہ تکنیکوں کی دریافت اور نئے ادبی رجحانات کو سامنے لاتے ہیں۔پہلے مقالے میں وہ اردو میں "مکتوباتی ناول” میں خط کی تکنیک کو زیر بحث لاتے ہیں۔وہ ناول جن میں خط کی تکنیک استعمال کی گئی؛ان میں مولانا عبد الحلیم شرر کا ناول ‘فردوس بریں’ جس میں خط کی ابتدائی تکنیک ملتی ہے جبکہ ان کا دوسرا ناول ‘جویائے صادقہ’ مطبوعہ1921،1919،1917ء؛ جس کے پلاٹ کا انحصار ہی بقول مصنف مکاتیب پر ہے۔آدھے سے زیادہ ناول مکاتیب پر مشتمل ہے۔ماجرا خطوں کے توسط سے قاری تک پہنچتا ہے۔اس کے علاؤہ قاضی عبد الغفار کے ‘لیلی کے خطوط’،مجنوں گورکھپوری کا مکتوباتی افسانہ ‘محبت کی فریب کاریاں’ دو اقساط میں شائع ہو کر ناول کی صورت ‘سراب’ کے نام سے شائع ہوا۔ایم اسلم کے ناول ‘آشوب زمانہ’،’اشک ندامت’ اور ‘بیتی باتیں’ اور مستنصر حسین تارڑ کا ناول ‘ڈاکیا اور جولاہا'(2012ء) خط کی تکنیک میں لکھے گئے ناول ہیں جنھیں مصنف مکتوباتی ناول قرار دیتے ہیں۔اس مقالے میں وہ مذکورہ ناولوں میں خطوں کی تعداد،اور اس تکنیک کے استعمال کا طریقہ بتاتے ہیں کہ ناول نگار نے اپنے پلاٹ کی تشکیل میں کیسے خطوں کا استعمال کر کے ناول کی کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔وہ خطوں کے اسلوب،ناول کے مجموعی پلاٹ پر مکاتیب کے اثرات اور مکتوباتی ناولوں کی تعین قدر بھی کرتے ہیں،جو بلاشبہ ان کے تنقیدی شعور پر دال ہے۔وہ مکتوباتی ناولوں میں خط کی تکنیک کا بہترین استعمال قاضی عبد الغفار کے ناول ‘لیلی کے خطوط’ میں دیکھتے ہیں۔بحیثیت مجموعی وہ ناول میں خط کی تکنیک کو اب تک کا حوصلہ افزا تجربہ محسوس کرتے نہیں دکھائی دیتے۔ اسی لیے وہ مقالے کے آخر میں آئندہ ناول نگاروں سے اس تکنیک میں بہتر تجربہ دیکھنے کے منتظر نظر آتے ہیں۔
ناول کی طرح "مکتوباتی افسانہ” بھی لکھا گیا۔اردو میں خط کی تکنیک میں پہلا افسانہ ‘ بڑی بہن کا خط ‘ علامہ راشد الخیری نے لکھا ہے،جو مخزن لاہور کے شمارے دسمبر 1903ء میں شائع ہوا۔ان کا مجموعہ "مسلی ہوئی پتّیاں”(1937ء) میں گیارہ افسانے بنیادی طور پر مکتوبات کی شکل میں تحریر کیے گئے ہیں۔سجاد حیدر یلدرم کا افسانہ ‘صحبتِ ناجنس’ دو خطوں پر مشتمل ہے،جس میں عائلی زندگی کی ناہمواریوں جو موضوع بنایا گیا ہے۔سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے ‘ایک خط'(مشمولہ بعد)کا ذکر کیا ہے۔ جس میں خط کی تکنیک استعمال ہوئی ہے(مصنف نے منٹو کے ایک افسانے چچا سام کے نام خط کا ذکر نہیں کیا)۔کرشن چندر کا افسانہ ‘ایک طوائف کے نام خط’ جو تقسیم کے تناظر میں لکھا گیا۔انتظار حسین نے افسانہ ‘ہندوستان سے ایک خط’ بھی تقسیم کے المیہ کو ابھارتا ہے۔اس مقالے میں مصنف نے ایک گم شدہ افسانہ نگار "علی باقر” جس کا ذکر عموما کم کیا جاتا ہے؛کے افسانے ‘ضدی’ کا ذکر کیا ہے جس میں خط کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔بحیثیت مجموعی مصنف اردو افسانے میں خط کی تکنیک سے مطمئن ہیں کہ اس تکنیک سے اچھے افسانے تخلیق پائے ہیں۔تاہم خط کی تکنیک کے فروغ کے باعث وہ اردو افسانے کی مزید بہتری سمجھتے ہیں۔
اردو ادب میں "فرضی مکتوبات” کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔بعض ادبا اور ناول نگاروں نے فرضی مکاتیب لکھ کر اظہار کیا ہے۔ان فرضی مکاتیب کو کوئی مکتوب الیہ نہیں ہوتا۔وہ فرضی مکتوبات کو چار اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:اول وہ خطوط جن میں مکتوب نگار اور مکتوب الیہ معلوم ہوں مگر ارسال نہ کیے گئے ہوں،جیسے ابوالکلام نے کے مکاتیب جو حبیب اللہ خاں شیروانی کو لکھے گئے(غبار خاطر)۔دوم،وہ مکاتیب جو معروف ادیبوں کی پیروڈی میں لکھے گئے ہوں،جیسے غالب کے نئے خطوط،عالمِ بالا سے غالب کے خطوط۔سوم،جن میں مکتوب نگار فرضی مکتوب الیہ کو مخاطب کر کے سوال جواب کی صورت خط تحریر کرتا جیسے غلام احمد پرویز کے سلیم کے نام خطوط۔چہارم،جن میں مکتوب نگار کسی فرضی شخصیت کی طرف سے فرضی مکتوب الیہ کو لکھتا ہے جس کی نوعیت فکشن کی ہوتی جیسے راشد الخیری،سجاد حیدر یلدرم کے تحریر کردہ خط نما افسانے۔
مصنف ان چار فرضی مکتوبات کی اقسام کے بعد اس مقالے میں پہلی قسم کے مکاتیب (جن میں مکتوبات نگار اور مکتوب الیہ دونوں معلوم ہوں مگر ارسال نہ کیے ہوں) کو زیر بحث لاتے ہیں۔اس میں ایم اسلم کی کتاب "خط کا جواب”،”ابوالکلام آزاد کی "غبار خاطر”، مجنوں گورکھپوری کے "پردیسی کے خطوط”، ڈاکٹر محمد باقر کے "لندنی دوست کے نام خطوط”، محمد یونس کے "قیدی کے خط”، سعادت منٹوں کے "اوپر نیچے درمیان” اور کشور ناہید کے "بری عورت کے خطوط” کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ان مکاتیب میں مکتوب نگاروں نے اپنی زندگی کے حالات،واقعات،تاثرات،مشاہدات اور جذبات کو پیش کیا ہے۔یہ ایک طرح سے ان کی آپ بیتی بن گئے ہیں۔بعض خطوط کا اسلوب اس قدر دلچسپ ہے جو قارئین کےلیے خصوصی توجہ کا باعث ہے۔ بعض مکاتیب قارئین کی توجہ حاصل نہیں کر پائے۔مصنف کے مطابق ابوالکلام آزاد اور سعادت حسن منٹو کے فرضی مکاتیب اپنے اسلوب،دلچسپی اور شگفتگی کے باعث زندہ رہ گئے ہیں۔
چناں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تجربہ بھی اردو میں خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کر سکا۔
(نوٹ: حال میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے "نوجوان نقاد کے نام خطوط” کا ایک سلسلہ شروع کیا جو جلد کتابی صورت میں چھپ کر سامنے آ جائے گا)
خط بنیادی طور پر نثر میں لکھا جاتا ہے۔تاہم اردو میں "منظوم مکتوبات” بھی لکھے گئے ہیں۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے منظوم خطوط کا مجموعہ ” صحیفہ المؤدۃ” ہے۔فاضل محقق کے مطابق اردو میں منظوم مکتوب نگاری کا آغاز 1761ء میں ہوا۔محقق کی رسائی میں یہ نہیں آ سکے۔اس مقالے میں وہ شیر محمد خاں ایمان،سعادت خان یار رنگین،مومن خاں مومن،نواب مصطفی خاں شیفتہ،مرزا غالب،حکیم سلطان رام پوری،نظم طباطبائی،اکبر آلہ آبادی،علامہ شبلی،علامہ اقبال،مولانا عبدالباری آسی،حکیم احمد شجاع،قمر الہدی فردوسی،فیض احمد فیض اور آخر میں رضا نقوی واہی جیسے شعرا کے ہاں منظوم مکتوبات کا سراغ لگایا ہے۔وہ ہر شاعر کے منظوم مکتوبات میں اشعار کی تعداد اور ان کے شعری حوالوں کا اندراج کرتے ہیں۔مکاتیب کے مکتوب الیہ کا ذکر کرتے ہیں۔خط کا موضوع بھی بیان کر دیتے ہیں۔یقینا یہ مقالہ فاضل محقق کی تحقیقی جستجو کا اظہار ہے۔اردو شعرا کے ہاں منظوم مکتوب نگاری کے رجحان کو قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں،جو دلچسپی کا باعث ہیں۔
ہمارے ہاں جن اصناف سخن کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی یا جو اصناف خود کو نہیں منوا پائیں ان میں "پہیلی” بھی شامل ہے۔پہیلی کی تعریف کر کے وہ اردو میں "منظوم پہیلی” کی روایت کو بیان کرتے ہیں۔ان کے مطابق اردو پہیلی کا سہرا امیر خسرو کے سر ہے۔امیر خسرو کے بعد دکنی ادب میں پہیلی کا سراغ نہیں ملتا۔شمالی ہند میں دکنی دور کے بعد شیخ چاند کے مطابق مرزا سودا نے 109 پہیلیاں کہیں۔اس کے بعد انشا اللہ خان انشا،رنگین،بہادر شاہ ظفر،مومن،منیر شکوہ آبادی،مولانا محمد حسین آزاد،تجمل رسول تجمل،صوفی تبسم اور شان الحق حقی نے پہلیاں کی طرف توجہ دی ہے۔تاہم اس مقالے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو میں اس صنف سخن کی تاریخ حوصلہ افزا ہے،نہ یہ بطور صنف مروج ہو سکی ہے۔اس صنف سخن کا تعلق چوں کہ بچوں کے ادب کے ساتھ ہے،اس لیے سنجیدہ سطح پہ اس کو سامنے نہیں لایا گیا۔ہماری رائے میں مزید تحقیق کے بعد بہت سے اردو شعرا کے ہاں پہیلیوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔تاہم یہ تحقیق ادب اطفال کے محقق کےلیے سودمند رہے گی۔اس مقالے سے ایک روایت سامنے آ گئی ہے جو مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔
جب کسی شعر کے مصارع یا اجزا مختلف زبانوں پر مشتمل ہوں تو اسے "صنعت تلمیع” کہتے ہیں۔مصنف نے اپنے مقالہ "صنعتِ تلمیع” میں اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے بعد اس کے استعمال کے فنی سلیقے کو بیان کیا ہے۔کلام میں تلمیع کئی صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔شعرا کلام میں مختلف دو مختلف زبانوں کو ملا کر اس صنعت کو تخلیقی سطح پہ لاتے ہیں، یعنی تلمیع متن کے اندر بھی ہو سکتی ہے اور باہر بھی۔وہ ظاہرا تاریخی سیاق و پس منظر کے ساتھ بھی موجود ہو سکتی اور نئے تخلیقی معنی و مفہوم کی صورت بھی۔ اس مقالے میں فارسی اردو کے چند شعرا کے تذکرے پہ بات کا اختتام کیا گیا ہے۔تاہم اس مقالے میں صنعت تلمیع کے حوالے سے مذکورہ چند پہلووں کو سامنے رکھا گیا ہے۔یہ مقالہ صنعت تلمیع کے استعمال اور امکانات کو سامنے لاتا ہے۔عموما اس صنعت کا ذکر کم کیا جاتا ہے۔
ان کا ایک وقیع تحقیقی مقالہ "خردہ گیری” کے مفہوم و امکانات کو تلاش کرتا ہے۔اپنی نوعیت میں یہ منفرد تحقیقی و تنقیدی کاوش ہے۔خردہ گیری سے مراد کسی کتاب کو تنقیدی نظر سے گزار کر اس کے جملہ علمی،تحقیقی اور تنقیدی عیوب کو سامنے لانا ہے۔اردو میں ایسی کتب کی تعداد کم نہیں، جن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔خردہ گیر نقاد کسی کتاب کی تحقیقی کمزوریوں،تنقیدی محاکموں کے مغالطوں،اس میں موجود فکری بحران اور علمی نقائص کو دلائل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔ڈاکٹر خالد ندیم نے اس مقالے میں اردو میں خردہ گیر نقادوں کے کام کا جائزہ لیا ہے۔حافظ محمود شیرانی کی کتاب "تنقید شعر العجم”،”آب حیات” اور "دیوان ذوق” پر ان کے مضامین اہم ہیں۔دوسرا اہم خردہ خیر نقاد قاضی عبد الودود ہے۔ان کی دو کتب "غالب بحیثیت محقق” اور ” آزاد بحیثیت محقق” قابل ذکر ہیں۔تیسرے اہم خردہ گیر نقاد رشید حسن خان ہیں جنھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے شائع ہونے والی علی گڑھ تاریخ ادب اردو اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی "تاریخ ادب اردو جلد اول”پر الگ الگ مضامین لکھ کر اس کے تحقیقی و تنقیدی معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا.اسی طرح انھوں نے اردو لغت بورڈ کی پہلی جلد پر تبصرہ لکھ کر لغت کی کمزوریوں کو نشان زد کیا۔مذکورہ خردہ گیری کی مثالوں کے بعد وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان خردہ گیروں کے اثرات کم پڑے اور تنقید کی زد میں آنے والی کتب سوائے علی گڑھ تاریخ کے سب مقبول و معروف رہی ہیں۔اس مقالے میں محققین کی خردہ گیری کی روایت کو سرسری دیکھا گیا ہے اور محض چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔اردو تنقید میں بھی خردہ گیری کی روایت کو دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم یہ مقالہ مزید خردہ گیری کی روایت کو دیکھنے کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔
کتاب میں شامل آخری مقالہ "علمی خطبات” کے نام سے ہے۔اس میں ان خطبات کو موضوع بنایا گیا ہے جن کا اہتمام کسی ایک تنظیم یا اداروں نے اپنے کسی خاص منصوبے یا علمی ضرورت کے تحت کیا ہو۔برصغیر میں علمی خطبات کا رسمی آغاز ‘اسلامی تعلیمی انجمن ‘ کے زیر اہتمام ہوا ،جنھوں نے سید سلیمان ندوی،محمد مارماڈیوک پکتھال اور علامہ اقبال کو خطبات کی دعوت دی۔اردو میں جو خطبات کے مجموعے شائع ہوئے ان میں سید سلیمان ندوی کے "خطبات مدارس” ہیں۔بہاولپور یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے "خطبات بہاولپور” قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر محمود احمد غازی کے خطبات "محاضراتِ قرآنی”،”محاضراتِ حدیث”،”محاضراتِ فقہ”،”محاضراتِ سیرت”،”محاضراتِ شریعت”،”محاضراتِ معیشت و تجارت”،”خطباتِ کراچی” شامل ہیں۔آخر میں ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی یونی ورسٹی اسلام آباد کی جانب سے ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی کے "خطبابِ اسلام آباد” اور سرگودھا یونی ورسٹی کی جانب سے ان کے "خطباتِ سرگودھا” کا ذکر کیا گیا ہے۔
مقالہ کے اختتام پہ مذکورہ خطبات کے تعارف کے بعد ان پہ رائے قائم کرتے ہوئے مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ مذکورہ خطبات میں علمی اور دینی ضروریات کے تحت ان کو پیش کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب دیگر سماجی علوم،سائنسی علوم،فنون لطیفہ اور قومی ضرورتوں کے تحت خطبات کا اہتمام ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے اردو کی اصناف کے اسالیب،تکنیکیں اور ان کے مندرجات پر تحقیقی اسلوب میں لکھا ہے۔ان کا اسلوب نہایت رواں اور شگفتہ ہے۔وہ۔اپنے مقالے کو حصوں میں تقسیم کر کے اس کو ایک ترتیب کے ساتھ لے کر چلتے ہیں،جو قاری کے آسانی کا باعث بنتا ہے۔ہر مقالے کے آخر میں وہ آئندہ اس کے امکانات کا ذکر کرتے ہیں۔انھوں نے گم شدہ صنف سخن پہیلی،اردو تحقیق میں خردہ گیری اور علمی و فکری خطبات کو موضوع بنا کر مزید اس پر تحقیق کی راہ ہموار کی ہے۔ان پہ مزید تحقیق و تنقید کی ضرورت ہے۔گویا نئے تحقیقی و تنقیدی موضوع سامنے لانے کی سعی کرتے ہیں،جنھیں تحقیق و تنقید کے دائرہ میں لا کر مزید مباحث کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔چناں چہ ان کا تحقیقی مقالات پر مشتمل مجموعہ "نُدرتِ خیال” اصل میں اردو میں "نُدرتِ تحقیق” کا پیش خیمہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی علمی و ادبی خدمات کی تحسین کے ساتھ بہترین معلمانہ و منتظمانہ کارکردگی کی بنیاد پر کامیاب ملازمت سے سبکدوشی پہ بہت مبارک باد ❤️??
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عامر سہیل
8 فروری 2023ء
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page