مشاعرے کی اسٹیج پر اپنی مترنم آواز کا جادو جگانے اور انوکھے انداز میں غزل پیش کر کے سامعین کی توجہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے والا شاعر کوئی اور نہیں پرویز عالم قاسمی ہے جس نے اپنی شاعری کا آغاز سن دو ہزار سے کیا اور اب صرف آسنسول نہیں بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں میں منعقد ہ مشاعرے میں شریک ہو کر آسنسول کی نمائندگی کررہا ہے۔ پرویز عالم قاسمی کو زمانہ ئ طالب علمی سے ہی شاعری کا شوق رہا ہے جس کا اعتراف خود پرویز عالم قاسمی نے کیا ہے۔ وہ احوال واقعی میں لکھتے ہیں کہ اشعار سننے، غزلیں پڑھنے اور مشاعرہ سننے کا شوق بچپن سے رہا ہے۔ اسکول میں ان کے اساتذہ ئ کرام غزلیں پڑھواتے اور ڈھیر ساری دعائیں دیتے۔لیکن جب وہ1988میں عظیم درسگاہ دارالعلوم دیوبند سے تعلیم مکمل کرکے اپنے شہر کلٹی لوٹے تو فکر معاش میں الجھنے کے باوجود شاعری کے شوق کو زندہ رکھنے کے ساتھ فرصت کے اوقات میں غزلیں لکھنے کے سلسلہ کوبھی جاری رکھا۔شاعر اپنے دل کی آرزو کو پورا کرنے کے لیے بارگاہ خداوند قدوس میں سر بسجود ہو کر کہنے لگتا ہے
؎ یہ زندگی بھی تو اپنی تری امانت ہے ۔ ترے ہی قبضے میں نخل ِ حیات ہے میرا
؎ ترے کرم کا سوالی ہے تیرا عالمؔ بھی ۔ کبھی نواز دے اس کو اے مرے مولیٰ
اور پھر جب شاعر کامیابی کے زینے کو طئے کرتا ہوا بلندیوں کو پہنچتا ہے تو اپنی شعری مجموعہ ”کہیں اور چلو“ کو خواص و عام کے سامنے کتابی شکل میں پیش کرکے اپنی کامیابی کا اظہار یوں کرتا ہے۔
کامراں ہیں وہ دین ودنیا میں
وہ جو کرتے ہیں اتباع ِرسولؐ
اپنی دنیا بدل گئی عالم ؔ
دل ہوا جب سے آشنائے رسولؐ
پرویز عالم قاسمی سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی بکھیر کر اپنی شعری تخلیق کو ادبی محفلوں میں پیش کرکے اپنے دل کی آواز کو یوں بیان کرتا ہے۔
آنسو پلا، شراب پلا یا پلادے زہر
پی کر ہی شعر کہنے کی عادت ہے کیا کروں
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ دارالعلوم دیو بند سے فارغ ہونے والا طالب علم پینے پلانے سے کافی دور رہتا ہے۔ پرویز عالم قاسمی نیک، صالح، کم گو، تصنع پسند شاعر ہے۔ مشاعرے کی اسٹیج سے اپنے نعتیہ کلام کومترنم آواز میں پیش کرکے سامعین کے دلوں کو منّور ومجلّی کرتا ہے۔ آواز اتنی پیاری کے غزل کے ہر اشعار پر سامعین دادوتحسین دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس ہال یا مشاعرے کی اسٹیج پر پرویز عالم قاسمی اپنی غزل مترنم آوازمیں پیش کرتا ہے تو سامنے بیٹھے سامعین کی واہ۔ واہ۔ دوبارہ ارشاد کی آواز سے سارا ہال گونج اٹھتا ہے۔اور تب شاعر بول پڑتا ہے۔
شعر گوئی کمال ہے عالم ؔ ۔
غیر بھی واہ واہ کر بیٹھے
ٍ پرویز عالم قاسمی کی غزلیات کا مجموعہ ”کہیں اور چلو “ ان کی 22سالہ محنتوں،کاوشوں اور والدین کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔جس کا اظہار شاعر نے اس طرح کیا ہے۔
ہر لمحہ تکتا رہتا ہوں ماں کی نگاہ کو
آنکھوں کی روشنی کی ضرورت ہے کیا کروں
ماں دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔ماں کے بغیر دنیا کی رنگ برنگے مخلوقات کا دیدار ممکن ہی نہیں۔ گویا ماں کو دیکھنا اپنی آنکھوں کی روشنی میں اضافہ کرنا ہے۔
پرویز عالم قاسمی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اسٹیج پر اپنی غزل سامعین کے حوالے کرتا ہے تو اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ وہ نئی غزل پیش کررہا ہے یا پرانی۔اسے صرف اس بات کا خیال رہتا ہے کہ سامنے عمر رسیدہ کے ساتھ ڈیجیٹل دور کا نوجوان بھی موجود ہے۔ اس لئے شاعر کہتا ہے
اچھی ہو بری ہو یا غزل لا جواب ہو
ہم نے چھیڑ دی ہے پرانی بھی نئی بھی
پرویز عالم قاسمی خوش مزاج شاعر ہے اس لیے دشمنوں کی تعداد بھی کم ہے اور اگر کچھ ہیں بھی تو شاعر اسے دوست کی فہرست میں شامل کرنے لیے ہر جتن کرتا ہے اور سب سے پہلے خود اپنا محاسبہ کرنے میں جٹ جاتا ہے۔
عیب غیروں کے جب نظر آئے
اک نظر خو د پہ سرسری کرلی
اور بلآخراسے اپنا دوست بنا ہی لیتا ہے۔
یوں حسیں ہم نے زندگی کرلی
دشمنوں سے بھی دوستی کرلی
ملک کی موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی سے دلبرداشتہ ہو کر شاعر مجبوراََ اپنے قلم کو جنبش دیکر قوم سے مخاطب ہوتا ہے۔
محبت قوم سے کم ہوگئی کیا
جو مسلک کی لڑائی ہو رہی ہے
پرویز عالم قاسمی کو چند گودی میڈیا سے بھی شکایت ہے جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔
یہ نئے دور نئے ڈھنگ کے صحافی ہیں
یہ بنا دام کے کچھ بھی نہیں لکھا کرتے
آج اخبار کے اوراق بتاتے ہیں یہی
بک گیا زور قلم اور صحافت اس کی
ایسے صحافی کے لئے شاعر کا مشورہ ہے کہ
جو سچ لکھنا ہے لے لو خون میرا
اگر روشنائی کم ہو رہی ہے
پختہ عزم کا شاعر پرویز عالم یوں کہتا ہے۔
عزم میرا نہ آزماؤ تم ۔
رخ زمانے کا موڑ آیا ہوں
صرف بنگال ہی نہیں عالمؔ ۔
راجدھانی جھنجھوڑ آیا ہوں
پرویز عالم قاسمی کی126غزلوں پر مشتمل غزلیات کا مجموعہ ”کہیں اور چلو“ میں شاعراپنی بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے کہیں اور چلنے کے لئے یوں رقم طراز ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
کون کرتا ہے یہاں پیار کہیں اور چلو
سب ہیں مطلب کے یہاں یار کہیں اور چلو
بات اس شہر کے لوگوں کی نرالی ہے بہت
ہر کوئی لگتا ہے دلدار کہیں اور چلو
نہ زلیخا ہے نہ یوسف نہ وہ رنگ ِ محفل
یہ نہیں مصر کا بازار کہیں اور چلو
اس کی یادیں ہیں یہیں دفن مجھے لگتا ہے
ڈس رہے ہیں در ودیوار کہیں اور چلو
اب خدا اور بنی، ولیوں کے ناموں سے یہاں
لوگ کرتے ہیں ویاپار کہیں اور چلو
وہ ہے قاتل تو اسے لکھوں گا قاتل ہی سدا
میں نہیں حاشیہ بردار کہیں اور چلو
کثرتِ ظلم، زنا، کذب و ریا اے عالم ؔ
یہ قیامت کے آثار کہیں اور چلو
ریاض اتکلی ۔۔۔ آسنسول
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page