منور رانا سے میری پہلی ملاقات تقریباً اٹھائیس سال پہلے 1997 میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے دوران فراغ روہوی اور احمد رئیس صاحب بھی موجود تھے۔ یہ دونوں حضرات کئی سال پہلے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد منور رانا سے اور بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کی اور قیصرشمیم صاحب کی صدارت میں مجھے کئی نششتیں اور مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ میں جب بھی کلکتے کے سفر پر ہوتا تو فراغ روہوی اور دیگر احباب اعزاز یہ نشستوں کی کوئی نہ کوئی سبیل نکال ہی لیتے تھے، جن میں فراغ روہوی، احمد رئیس، نوشاد مومن، ضمیر یوسف، بازغ بہاری اور دیگر شعرا کے علاوہ ابوذرہاشمی اور شبیر احمد سامع کی حیثیت سے شامل ہوتے تھے۔ میرے ساتھ منوررانا کا رویہ دوستانہ نہیں بلکہ برادرانہ تھا۔ وہ ہمیشہ مزاج پرسی کرتے اور مجھے روشن مستقبل کی دعائیں دیتے۔ منوررانا مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے بعد زیادہ تر لکھنؤ میں رہنے لگے اور میرا کلکتے کا سفر بھی کم ہوگیا۔ چنانچہ مل بیٹھنے اور مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال کا جو سلسلہ 1997 سے شروع ہوا تھا، پانچ چھ سالوں کے بعد ختم ہوگیا۔ منوررانا کی مصروفیا ت اور صحت سے متعلق خبریں آتی رہیں، لیکن 15 جنوری 1924 کو جب ان کے سانحۂ ارتحال کی خبر فیس بک کے ذریعے ملی تو یقینی و بے یقینی کے درمیان دل دھک سے رہ گیا اور ذہن کے پردے پر ان کا یہ شعر رقص کرنے لگا:
جتنے بکھرے ہوئے کاغذ ہیں وہ یکجا کرلے
رات چپکے سے کہا آکے ہوا نے ہم سے
منور رانا نے گذشتہ سالوں میں متعدد بار موت سے آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا تھا۔ اس کھیل کے دوران شاید ان پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اب زندگی کے بہت تھوڑے سے دن ہی رہ گئے ہیں،چنانچہ انہیں اپنا اثاثہ سمیٹ لینا چاہیے۔ اس انکشاف کے بعد سانسوں نے زندگی کے ایک طویل عرصے کی شناسائی کا پاس رکھا اور انہیں اتنا موقع دے دیا کہ وہ اپنے سرمایۂ ذات و حیات کو یکجا کرسکیں۔نتیجے کے طور پر گذشتہ دس پندرہ سالوں میں ان کی متعدد شعری و نثری کتابیں منظرِ عام پر آئیں اور صحت کی خرابی کے باوجود وہ ادبی نشستوں اور مشاعروں کی رونق بڑھاتے رہے۔ جب انہیں اپنی تمام عمر کی تخلیقی کاوشوں کے محفوظ ہونے کایقین ہوگیا تو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا:
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہوجائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہوجائیں گے ہم
موت ایک حقیقت اور آخرت پر ایمان لانے کی بنیاد بھی ہے، جس پر منوررانا کو پورا یقین تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ دنیا میدان عمل اور قیامت اس عمل کے بدلہ دینے کا دن ہے۔ موت کا مزہ چکھ کر ہی روزِ قیات تک کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔ جسم پر مٹی ملنے اور زمین کی خوراک بننے کی چاہت دراصل اسی حقیقت کا استعارہ ہے، چنانچہ منور رانا بگولے کی طرح مٹی سے اٹھنے کے باوجود اپنے بدن کو کسی تاج محل میں رکھنے کی خواہش نہیں جتاتے بلکہ اسے مٹی کے حوالے کردیتے ہیں:
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
میں اسی مٹی سے اٹھا تھا بگولے کی طرح
اور پھر اک دن اسی مٹی میں مٹی مل گئی
حسبِ روایت منور رانا نے بھی اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری بالخصوص غزل سے کیا اور بہت جلد ہند و پاک کے علاوہ اردو کی دیگر ادبی بستیوں میں مشہور ہوگئے۔ انہوں نے کامیاب نظمیں بھی لکھی ہیں۔ نثر میں کئی اہم خاکے لکھے اور لفظوں کے ذریعے پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں، لیکن اردو کی ادبی بستیوں میں ان کی پہچان ایک غزل گو شاعر ہی کی رہی ہے۔ ان کی غزلیں ایک ایسے انسان کی عکاس ہیں، جس کی نگاہ سے کوئی بھی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ وہ ان چیزوں کا گہرا مشاہدہ کرتا اور اس کے تلخ و شیریں گھونٹ پینے کی کوشش کرتا ہے۔ منوررانا کی غزلیہ شاعری میں عشق و عاشقی اور عیش و نشاط کے ساتھ زندگی کی تلخیاں بھی شامل ہیں۔ ان کی غزلوں میں میں معصوم زندگی کی کراہیں ہیں، شادی کی دہلیز پر بیٹھی پکی عمر کا رونا روتی کنواری لڑکیاں ہیں، کسان ہیں، زمیندار اور سا ہوکار ہیں، بہن اور اس سے بچھڑنے کا المیہ اور بیوی کے ساتھ ان کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ انہوں نے والد کو بھی غزلوں کا کردار بنایا ہے، لیکن ان کی شاعری میں ماں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے ماں کی ممتا کے تمام شیڈس کو اپنے اشعار میں زندہ کردیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی غزلوں میں ایک ایسی محبت کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔ ان کی غزل کے کرداروں کو ڈھونڈنے کے لیے ہمیں دوردراز کا سفر نہیں بلکہ ذرا سی پلکیں اٹھا کر اپنے چاروں طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ منور رانا نے اپنے موضوعات کو کلاسیکی رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے
پھینکی نہ منور نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے
غزل کے عصری منظر نامے پر زیادہ تر شاعر فنی و فکری طور پر چونکانے کا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ پہلی سماعت پر ان کے اشعار توجہ اپنی جانب ضرور ملتفت کراتے ہیں، لیکن غور کرنے پر بہت ہی مضحکہ خیز صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے۔ منوررانا نے تخلیق کے نئے رجحان سے دامن بچاتے ہوئے اپنے موضوعات کی گوناگونی کو کلاسیکی ٹچ دینے کی کوشش کی ہے۔ منوررانا اگرچہ اسٹیج کے شاعر تھے ، لیکن مشاعرے کے دوسرے شاعروں کی طرح انہوں نے محض اسٹیج کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا بلکہ انہوں نے غزل کی تہذیب کی تخلیقی عکاسی کی ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ منور رانا کی غزلوں میں اسٹیج کے تقاضوں اور غزل تہذیب کا حسین امتزاج ہے، چنانچہ ان کے کلام میں فنی پختگی کے ساتھ معنی کی پرتیں تہہ بہ تہہ ہوگئی ہیں۔ ان میں ایمائیت کی دبیز پرتیں نہیں بلکہ اشاروں اور کنایوں کا ہلکاپھلکا رنگ ہے۔ چند اشعار پیش ہیں، جن میں اسٹیشن، بوڑھی آنکھیں، پتے، پھل، ادھ جلی لاشیں، ایک خاص سمت سے اڑتے پرندے، جلی ہوئی بستی، آدمی، سنگ،آنکھ، بھنور، بوجھ اور قلی جیسے الفاظ تلازمے کے طور پر آئے ہیں اور اشعار میں بلاکی کشش پیدا کرنے کے ساتھ معنی کے مختلف شیڈس کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں ہلکی پھلکی علامتوں کے ذریعے شاعر نے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، اس لیے مشاعرے کے سامعین آسانی کے ساتھ اصل معنی تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مشاعرے کے دوسرے شاعروں کے مقابلے میں منوررانا نے غزل کی فنی و فکری خصوصیات کو ملحوظ رکھا ہے، اس لیے منور رانا کی غزلیں آئندہ بھی اسی آب و تاب کے ساتھ سنی اور پڑھی جائیں گی:
اسٹیشن سے باہر آکر بوڑھی آنکھیں سوچ رہی ہیں
پتے دیہاتی رہتے ہیں پھل شہری ہوجاتے ہیں
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے
شاید جلی ہیں پھر کہیں نزدیک بستیاں
گزرے ہیں کچھ پرندے ادھر سے ڈرے ہوئے
وہ آدمی ہے تو احساسِ جرم کافی ہے
وہ سنگ ہے تو اسے سنگسار کیا کرنا
وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا
وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتا نہیں چلتا
بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہوجاتے ہیں
عشق ایک ایسی آگ کا نام جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے علاوہ ہر چیز کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے۔ عشق کی دو صورتیں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی ہیں۔ عشقِ حقیقی ماورائی کیفیت ہے کہ اس میں عاشق محبوب کے وجود کا نہیں بلکہ اس کی ذات کا طالب ہوتا ہے، اس کے برعکس عشقِ مجازی خالص انسانی جذبہ ہے، جس میں ایک انسان اپنے مخالف جنس یا مادی چیزوں کے حسن سے متاثر ہوکر اس کا طالب ہوتا ہے۔ عشقِ مجازی میں محبوب کی ذات نہیں بلکہ اس کا وجود اہمت رکھتا ہے۔ اس مفروضے کی روشنی میں منور رانا کی غزلوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے پیکرِ خاکی کو اپنا محبوب بناکر غزلوں میں رسمِ عاشقی کے تمام رموز و نکات کی تخلیقی عکاسی کی ہے۔ ان کی غزلوں میں محبوب کے مادی وجود، اس کے حسن کی چکاچوند اور غمزہ و ادا کے ساتھ راہِ عشق کے پیچ و خم اور جدائی کے سفر کی داستان رقم ہوگئی ہے:
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا
تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی میں نے
تمام جسم کو آنکھیں بنا کے راہ تکو
تمام کھیل محبت میں انتظار کا ہے
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
یہ سوچ کر کہ ترا انٹطار لازم ہے
تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا
آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب
لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں
کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جایئے
تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہوجانا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں
روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا
میں راہِ عشق کے ہر پیچ و خم سے واقف ہوں
یہ راستہ مرے گھر سے نکل کے جاتا ہے
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آکر نہ پریشان کرو
ان اشعار میں بکھری ہوئی یادیں، کھولے ہوئے بال، رستہ تکنا ،کھڑکی کھولنا، جسم کو آنکھیں بناکر انتظار کرنا، قصے کو ادھورا چھوڑنا، گھڑی کی طرف نہیں دیکھنا، ریل سے کٹنے کا احساس، محبوب کے جاتے ہی بیمار ہوجانا، دیا کو روشن دیکھ کر محبوب کی آنکھوں کا خیال، راہِ عشق کے ہر پیچ و خم سے واقف ہونا اور جدائی کے سفر کو آسان بنانے کے لیے محبوب کو منع کرنا کہ وہ خواب میں نہ آئے عشق کی ایک خاص کیفیت کو واضح کرتے ہیں اور معنی کی کئی پرتوں سے روشناسی کے ساتھ ذہن میں خاص Imageبناتے ہیں۔ منور رانا کی غزلوں میں عشق کے ابتدائی اور ارتقائی مراحل نہیں بلکہ اس کے انجام یعنی جدائی کا بیان ہوا ہے، لیکن کمال یہ ہے کہ انہوں نے جدائی کی کیفیت کو لفظوں میں واضح کرتے ہوئے عشق کے ابتدائی اور ارتقائی مراحل کو Undercurrent کے طور پر محسوس کرایا ہے۔ ان کی غزلوں میں کچھ ایسے اشعار بھی ہیں، جن میں عاشق اور معشوق دوش بدوش باتیں کرتے اور ایک دوسرے سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ یہ مقام بہت ہی نازک ہوتا ہے، اگر شاعر سنبھل کر شعر نہ کہے تو اشعار میں رکاکت و ابتذال کی کیفیت کا پیدا ہونا عین ممکن ہے۔ منوررانا ایسی جہگوں پر جہاں بھٹکنے کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے، بہت ہی سنبھل کر اپنے فکر و خیال کی عکاسی کی ہے:
اب آپ کی مرضی ہے سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ہم ہیں
محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید
سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی
ہندوستان کی اکثریت غریبی پر مشتمل ہے۔ ان میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کو سر چھپانے کے لیے گھر نہیں، پہننے کے لیے کپڑا اور کھانے کے لیے روٹی نہیں ۔ وہ فٹ پاتھ پر رہتے ہیں اور پھٹا پرانا کپڑا پہنے ہاتھ پسارے کسمپرسی کے عالم میں بھیک مانگ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ منوررانا کی غزلوں میں خطِ افلاس کے نیچے زندگی کرنے والے لوگوں کے مسائل اور ان کی محرومیوں کی عکاسی ہوئی ہے۔ ان میں پہلا طبقہ ان بچوں کا ہے، جو ریل کے ڈبوں میں جھاڑو لگاتے ، مختلف چوک چوراہوں اور فٹ پاتھوں پر بھیک مانگتے ہیں۔ ان بچوں کے متعلق منور رانا کہتے ہیںـ :
فرشتے آکر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، انہوں نے اپنی غزلوں میں ایسے بچوں کو بھی موضوع بنایا ہے، جو روز و شب کی تلخ حقیقتوں سے دور والدین کے سائے میںزندگی کرتے ہیں، چنانچہ ان کی آنکھیں کبھی گیلی نہیں ہوتیں۔ یہ بچے یونیفارم میں اسکول جاتے ہیں تو کنول کے پھول سے بھرا تالاب معلوم ہوتے ہیں۔ بچوں کی ضد کے آگے خود سپردگی کا عالم دراصل زندگی کی آسودگی کا بیان ہے۔ ایک ایسی زندگی جو نشیب و فراز سے دور خطِ مستقیم پر یکساں رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ اس قسم کے موضوعات ذہن کے تاروں کو جھنجھوڑنے کا کام نہیں کرتے، البتہ منوررانا کی وسعتِ نظری اور ان کی تخلیقی پختگی کو ضرور ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے کئی موضوعات کو غزل کے سانچے میں پرویا ہے، جن کو دوسرے شعرا منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے موضوعات غزل کو زیب نہیں دیتے:
نکلنے ہی نہیں دیتی ہیں اشکوں کو مری آنکھیں
کہ یہ بچے ہمیشہ ماں کی نگرانی میں رہتیا ہیں
بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے
کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے
کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہوجانا
دوسرا وہ طبقہ ہے، جس پر بارش، گرمی اور ٹھنڈک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ ہر موسم میں بغیر نیند کی دوا کھائے فٹ پاتھ پر گہری نیند سوجاتے ہیں۔ منور رانا نے ایک طرف غریب مزدوروںکی حقیقی تصویر کشی کی ہے، تو دوسری طرف دھنوان قسم کے لوگوں پر طنز بھی کیا ہے کہ دولت کی بہتات کے باوجود انہیں سونے کے لیے گولیاں کھانی پڑتی ہے۔ منور رانا کا یہی طنزیہ لہجہ ان کے اشعار میں معنی کی کئی پرتوں کو روشن کرتا ہے، جس سے ان کے اشعار نہ صرف اپیل کرتے ہیں بلکہ پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے بھی جاتے ہیں:
غریبوں پر تو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں
کبھی بارش، کبھی گرمی، کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے
سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
غریبوں کی آنکھوں میں بھی بہت سارے سپنے ہوتے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔وہ تصور کی دنیا میں اپنے بچوں کو پڑھ لکھ کر بڑے ہوتے دیکھتے ہیں، لیکن انہیں اسکول نہیں بھیج سکتے کہ بچوں کی فیس ان کی کتابیں، قلم اور دوات کے اخراجات اٹھانا ان کے بس میں نہیں۔ والدین کو بچوں کی فرمائش کے آگے جھکنا ہی پڑتا ہے۔ ان سے کوئی بچہ کھلونے کی فرمائش کرتا ہے تو پھر ان کی بے بسی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ ایسے میں سوچنے لگتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی دولت ہوتی اور میں اپنے بچوں کی خواہشوں کو پلک جھپکتے پوری کر دیتے،لیکن مفلسی ہمیشہ ان سے ایک قدم آگے چلتی ہے۔ غریب و نادار لوگوں کی مجبوری انہیں کھلونوں کی دکانوں کے سامنے سے گزرنے نہیں دیتی۔ وہ جب بھی گھر جاتے ہیں تو کھلونوں کے انتظار میں جاگتے بچوں کو کسی طرح بہال پھسلاکر سلا دیتے ہیں:
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
کھلونوں کی دکانوں کی طرف سے آپ کیوں گزرے
یہ بچے کی تمنا ہے یہ سمجھوتا نہیں کرتی
کھلونوں کے لیے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
اردو کی رثائی شاعری میں کربلا کے واقعے کا بیان مذہبی عقیدت کے تحت ہوا ہے، لیکن جدید یا نئے شعرا نے واقعۂ کربلا سے متعلق لفظیات اور تراکیب کا استعمال تلازمات، استعارات اور تمثیلات کے طور پر اپنے تخلیقی عہد کے جبرو استبداد، ظلم و ستم، ناانصافی و حق تلفی، استحصال اور استعمار کے خلاف احتجاج کے طور پر موثر اور توانا انداز میں کیا ہے۔ ان شعرا کی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں وحیداختر، حسن نعیم، شاذ تمکنت، احمدفراز، افتخار عارف، باقر مہدی، عرفان صدیقی، شہرت بخاری، عاشور کاظمی،شہاب جعفری، زاہد مسعود وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ منوررانا نے واقعاتِ کربلا کو موضوع بنایا ہے، لیکن ان کی نظر میں واقعۂ کربلا مذہبِ اسلام خاص طور پر رسول کے نواسے سے تعلق رکھتا ہے، جس کی نظیر آنے والے وقت میں نہیں ملتی۔ اسی فکر کو منور رانا نے مختلف اور متنوع انداز میں اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:
پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا
ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے
مشاعرے کے شعرا اشعار میں زیادہ تر ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، جن پر انہیں خوب داد ملتی ہے۔ منوررانا کی شہرت بھی چونکہ اسٹیج کے ذریعے ہوئی، لہٰذا انہوں نے بھی فوری طور پر متاثر کرنے والے موضوعات کا انتخاب کیا اور انہیں غزل کے تخلیقی تقاضوں کے تحت اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ ان کے اشعار میں ایسے تمام موضوعات محض وقتی طور پر چونکانے یا متاثر کرنے کا کام نہیں کرتے بلکہ ان کی ادبی حیثیت کا تعین بھی کرتے ہیں۔ بعض شعرا نے اسٹیج کی ضرورت کے تحت سیاست کو بھی موضوع بنایا ہے، جس کا اظہار منور رانا کچھ اس انداز میں کرتے ہیں:
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
اسٹیج کے شاعروں نے گاؤں کی معصومت اور شہر کی چکاچوند کو موضوع بناکر بہت سے اشعار کہے ہیں۔ ان کو ایسے اشعار پر خاصی داد ملی اور وہ خاصے مشہور بھی ہوئے۔ منوررانا کی شاعری میں بھی گاؤں کی خوشبو ملتی ہے، لیکن وہ محض شعر کہنے کے لیے گاؤں کو موضوع نہیں بناتے بلکہ گاؤں کی خصوصیات کو تخلیقی سطح پر اجاگر کرتے ہیں اور اس کا مقابلہ طنزیہ انداز میں شہری زندگی کی تنہائیوں، اداسیوں، خوف وہراس، بغض و عناد ، بے بسی اور بے رونقی سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شعر ملاحظہ کریں:
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
اس شعر میں منور رانا نے شہر میں میت کو کاندھا نہیں دینے اور گاؤں میں ساتھ مل کر چھپر اٹھانے کا اظہار تخلیقی انداز میں کیا ہے۔ شہر اور گاؤں کی سچائیوں کو تلازمے کے طور پر پیش کرکے انہوں نے شعر میں معنی کی ایک دنیا آباد کردی ہے۔ چنانچہ اس شعر میں میت کو کاندھا نہیں دینے اور ساتھ مل کر چھپر اٹھانے کا اطلاق یک رخے پن کے بجائے معنی کی کثیر الجہاتی پر ہوتا ہے۔
منور رانا کی شاعری میں ماں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ انہوں نے ماں کی ممتا اور اس کے مختلف اوصاف کو اپنے اشعار کے ذریعے اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے حصے میں ماں کا آنا بے رحم دنیا کی مادہ پرستی کا حصہ ہے۔ وراثت کا بٹوارہ ہوا تو چھوٹے ہونے کے سبب رانا کے حصے میں ماں آگئی، جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں کیا ہے:
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
ماں کا ان کے حصے میں آنا محض ایک واقعہ یا حادثہ نہیں بلکہ وہ بے لوث محبت اور وہ عقیدت ہے جو منور رانا اپنی ماں سے کرتے ہیں۔ یہ محبت و عقیدت کا ہی معاملہ ہے کہ انہیں ستاروں کے مقابلے میں ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگتی ہے۔ وہ ماں کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں تو بوڑھا ہونے کا احساس زائل ہوجاتا ہے۔ منوررانا کو معلوم ہے کہ دولت سے ہرچیز خریدی جاسکتی ہے، لیکن ماں کی ممتا اور ان کے سائے کو خریدنا ممکن نہیں۔ وہ اپنی ماں کا صرف اپنے لیے نہیں بلکہ بچوں کے لیے بھی چاہتے ہیں، چنانچہ جی جان سے ماں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ماں کی ممتا ہی ہے کہ پردیس میں تباہ و برباد ہونے کے باوجود تباہی کا تذکرہ نہیں کرتی بلکہ ان کے مزے میں ہونے کی باتیں کرتی ہے۔ ماں اپنے بچوں کو گھر سے نکلتے وقت نہ صرف دعائیں دیتی ہیں بلکہ گھر واپس آنے تک سجدے کی حالت میں رہتی ہیں۔ ماں غصے میں انہیں ڈانٹنے پھٹکارنے کے بجائے خود ہی رونے لگتی ہے، جس سے ان کا گناہ دُھل جاتا ہے۔ان کے زندگی کی کشتی سیلاب میں پھنسنے لگتی ہے تو ماں پتوار بن کر خوابوں میں آجاتی ہے۔ اس طرح منور رانا نے ماں کی ممتا اور ان کی بے لوث قربانی کا اظہار متعدد اشعار میں کیا ہے، جو ان کی شاعری کی پہچان بن گئی ہے:
تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں ہونے دیتا
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا
برباد کردیا ہمیں پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی ہے بیٹا مزے میں ہے
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آجاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے
منور رانا کی غزلوں میں ماں کے علاوہ والد، بہن، بیوی اور بیٹی کا کردار بھی ہے، جو اسٹیج کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ منور رانا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان کرداروں میں اپنی تخلیقی ہنر مندیوں سے روح پھونک دی ہے۔ یہ دو شعر اسی حقیقیت کا اظہار کرتے ہیں، جو انہوں نے بہنوں اور بیٹیوں کو دھیان میں رکھ کر کہا ہے:
کسی کے زخم پر چاہت سے پٹی کون باندھے گا
اگر بہنیں نہیں ہوں گی تو راکھی کون باندھے گا
گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں
لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں
اردو شاعری میں صحرا کو تلازمے کے طور پر خوب برتا گیا ہے۔ اس لفظ کے ذریعے شعرا نے اپنی پریشانی و بدحالی کا ذکر اور زمانہ و حالات کی بے بسی و کسمپری ،چیرہ دستی اور تباہی و بربادی کو آئینہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ منوررانا کا گھر صحرا سے کم نہیں، اس لیے وہ صحرا پر اپنے گھر کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے دیکھ کر صحرا کی وسعت بھی اپنا منہ چھپا لے گی۔ان کے نزدیک شہر کو صحرا میں بدلنے کا عمل یوں ہی نہیں ہوگیا بلکہ اس کے پیچھے ایک ایسا ہاتھ ہے جو دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ جب شہر ہی جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے تو پھر صحرا نوردی سے اچھا ہے کہ قیس شہر میں واپس آجائے۔ منور رانا نے صحرا کے ساتھ کمرہ، گھر اور شہر جیسے لفظوں کا استعمال تلازمے کے طور پر کیا ہے، جس سے دنیا کی تباہی و بربادی اور اس کے اجاڑ پن کا احساس شدید ہوجاتا ہے:
دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے
کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا
وسعتِ صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی
تم نے جب شہر کو جنگل میں بدل ڈالا ہے
پھر تو اب قیس کو جنگل سے نکل آنے دو
منوررانا نے لکھنؤ میں آنکھیں کھولیں اور ان کی تعلیم و تربیت لکھنؤ کے علاوہ کلکتے میں بھی ہوئی۔ان دونوں جگہوں کی زبان اور اس کے مزاج سے منوررانا خوف واقف تھے، چنانچہ ان کے اسلوب میں اودھ کے علاوہ کلکتوی اردو کا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی زبان اور بیان میں پیچیدگی نہیں بلکہ وہ اپنے فکر و خیال کو سامنے کے آسان لفظوں ، تشبیہوں، استعاروں، کنایوں اور علامتوں کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ان کا اسلوب رواں دواں، آسان اور متاثر کرنے والاہے۔ ان کے اسلوب کے سحر سے نکلنا آسان نہیں۔
میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ منوررانا سے میری پہلی ملاقات تقریباً اٹھائیس سال قبل ہوئی تھی، مگر ان کی شاعری بہت پہلے سے میرے مطالعے میں تھی اور بعد میں بھی ان کا کلام نظروں سے گزرتا رہا ہے۔ میں زیر نظر مضمون میں منوررانا کی شاعری کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منوررانا کی شاعری میں فکر و فن کے کئی ابعاد ہیں اور میرا خیال ہے کہ انہیں تھوڑی اور زندگی مل جاتی تو ان کی شاعری میں فکر کی متعدد روشن سطحیں اور فن کا اچھوتا معیار دکھائی دیتا، لیکن شاید کہ وہ دنیا کے معیار یا دنیا ان کے معیار پر پوری نہیں اتری۔ اس لیے انہوں نے موت کو گلے لگا لیا:
میں دینا کے معیار پہ پورا نہیں اترا
دنیا مرے معیار پہ پوری نہیں اتری
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page