میر انیس ،زبانی بیانیہ اور پرنٹ کلچر پر مانو لکھنؤ کیمپس میں توسیعی خطبہ کا انعقاد
لکھنؤ۔ ۲۰،جولائی ۲۰۲۳
میر انیس اپنے تخلیقی جوہر کے سبب مرثیے کے مقبول عام شاعر ہیں اور مرثیہ خوانی کی وجہ سے بھی انھیں غیر معمولی مرتبہ حاصل ہے ۔اس وجہ سے یہ کہنا درست قرار پائے گا کہ میر انیس اپنی پیش کش کی وجہ سے زبانی بیانیہ کے ایک اہم نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔۔ان خیالات کا اظہار نیویارک کی کولمبیایونی ورسٹی میں شعبۂ مشرق وسطی جنوبی ایشائی اور افریقی مطالعات میں درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر تمثال مسعود نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں میر انیس ،زبانی بیانیہ اور پرنٹ کلچر کے موضوع پر توسیعی خطبہ کے دوران کیا ۔
ابتدا میں ڈاکٹرہما یعقوب نے مہمان مقرر کا خیر مقدم کیا اور ان کی ادبی و علمی سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا ۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کے لیکچر دراصل ہماری علمی روایت کا سرگرم حصہ ہیں ۔کیمپس کے اسکالر اور طلبہ کو اس سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے ۔پروگرام کا آغاز کیمپس کے طالب محمد معراج عالم نے قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ سے کیا ۔ڈاکٹر عمیر منظر نے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔اس موقع مسعود حسین رضوی ادیب پرلکھا ہوا ڈاکٹر نور فاطمہ کے مونوگراف کی رسم رونمائی ہوئی ۔واضح رہے کہ یہ مونوگراف غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے ّزیر اہتمام شارحین غالب سیریز کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔
ڈاکٹر تمثال مسعودنے کہا کہ لکھنؤ میں 1819سے پریس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور 1830کے بعد تواس میں بہت تیزی آجاتی ہے مگر اس کے باوجود میر انیس کی زندگی میں ان کا کلام شائع نہیں ہوسکا۔انھوں نے کہاکہ میر انیس اپنی پیش کش کی وجہ سے زبانی بیانیہ کے ایک اہم نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ زبانی بیانیہ میں ہم چھپے ہوئے لفظ کے محتاج نہیں ہوتے لیکن طباعت کے بعد مصنف کا حق اپنے ہی کہے ہوئے لفظ سے ختم ہوجاتا ہے ۔دراصل کسی بھی فن کار کا مرتبہ متعین کرتے وقت اس تضاد کو سامنے رکھنا ہوگا ۔
ڈاکٹر تمثال مسعود نے مزیدکہا کہ ہم ایک خاص انداز میں سوچنے اور غوروفکر کرنے کے عادی ہوگئے ہیں ۔لکھی ہوئی (طباعت )سے مرعوب ہونے کے بجائے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اس موقع پر ڈاکٹر تمثال مسعود نے کہا کہ ہمیں جو اپنے گھر سے کچھ کرنے اور لکھنے کی روایت ملی ہے اس کا تقاضا ہے کہ کلام پر غور کیا جائے اور یہ بھی کہ میر انیس اپنے کلام کو حرف آخر نہیں بنا نا چاہتے تھے غالباً اسی وجہ سے انھوں نے پر نٹ کلچر سے زیادہ زبانی بیانیہ کو ترجیح دی ۔اس پہلو پر غور کرنے کے اور بھی بہت سے پہلو نکلتے ہیں ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |