”کسی قوم کوختم کرنے کاپہلاقدم اس کی یادداشت مٹاناہے۔اس کی کتابیں،اس کی ثقافت،اس کی تاریخ کوتباہ کردیں۔پھر کوئی نئی کتابیں لکھے،نیاکلچر تیارکرے،نئی تاریخ ایجاد کرے جلد ہی وہ قوم بھولناشروع کردے گی وہ کیاتھی۔طاقت کے خلاف انسان کی جد وجہد بھولنے کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔“ میلان کنڈیرا
یہ وہ اقتباس ہے جسے پڑھتے ہوئے میں ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہواتھا۔ہمارے یہاں حافظہ اور اجتماعی حافظہ کاذکر تقسیم کے بعدفکشن کے سلسلے میں آتارہاہے۔لیکن کنڈیراکایہ اقتباس بیک وقت جن حوالوں کوسمیٹ لیتاہے وہ انہی کی انفرادیت ہے۔تاریخ اور سیاست جیسے الفاظ جن دنوں ادب کی دنیامیں غیرادبی حوالے بن گئے تھے کنڈیراکی تحریروں نے یہ احساس دلایاکہ اگراپنے زمانے کوموضوع بناناہے توان کے بغیرکوئی چارہ نہیں۔تاریخ کوکنڈیرا نے ماضی کاقصہ سمجھنے کے بجائے اسے حال کے ساتھ وابستہ کرکے دیکھا۔ہرزمانے کی سیاست اپنے طورپرتاریخ کودیکھتی ہے اوربہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جوباغیانہ روش اختیارکرتے ہیں۔تاریخ کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کے خلاف لکھتے ہیں۔میلان کنڈیرادھیرے دھیرے اردو کی ادبی فضاکاحصہ بننے لگے۔اس سلسلے میں سید کاشف رضانے بجاطور رسالہ آج اورعمرمیمن کی کتاب ’آوارگی‘کاحوالہ دیاہے۔میلان کنڈیراپرخالد جاویدنے بھی ایک کتاب لکھی ہے۔دہلی میں میلان کنڈیراکے تعلق سے میری سب سے زیادہ گفتگو خالد جاوید سے ہوئی۔
سچ یہ ہے کہ اردو میں میلان کنڈیراکومتعارف کرانے میں ان تینوں کاتاریخی کردارہے۔مجھے”آوارگی“بلراج مین راسے ملی۔کاشف رضا کی پوسٹ میں کاشف رضاکی لائبریری میں میلان کنڈیراکی کتابوں کو دیکھ کربڑاحوصلہ ملا۔کتابوں کے درمیان سے عمر میمن کی ’آوارگی‘بھی جھانکتی ہوئی نظرآئی۔یہ خوبصورتی ہے جسے ہم اردو کی ادبی دنیاکہتے ہیں۔اب جب کہ میلان کنڈیرا94سال کی عمر میں ر خصت ہوگئے۔اس کاوقت آگیاہے کہ معروضی طریقے سے کنڈیراسے ہم اپنے رشتے کی نوعیت پر غور کریں۔کنڈیراسے ہمیں کیاملاجوملااس کوکس حدتک تنقیدی نظرسے دیکھااورکتناکچھ ایساہے جس میں ہماری عقیدت مندی اور جذباتیت شامل ہے۔پچھلے دنوں میلان کنڈیراپرایک لمبی گفتگو ناصر عباس نیر صاحب سے ہوئی۔میراموقف یہ تھاناول کے سلسلے میں کنڈیراکے خیالات کو بہت اہمیت دی گئی۔پھر یہ ہواکہ اردو میں ناول کی تنقید کنڈیراکے خیالات کابنیادی حوالہ بن گئی۔کنڈیراکے ناولوں کوکنڈیراکی ناول تنقید کی روشنی میں بھی دیکھاجاناچاہیے۔کنڈیراسے انٹرویوز کابنیادی تعلق ناول کے فن سے ہے۔کئی ایسے موقعے آئے جب کنڈیراکواپنے ہی ناولوں کے حوالے دینے پڑے۔ ناصر عباس نیرنے کنڈیراکے ناول اورناول تنقید کے درمیان فرق اورمماثلت کو دیکھنے کی ضرورت سے انکار تو نہیں کیا لیکن ان کاخیال تھاکہ انہیں الگ الگ دیکھاجاناچاہیے۔بعض لوگوں نے کنڈیراکے تعلق سے وجودی افکار کواپنے ادبی مشاغل کااہم ترین حصہ بنالیا۔پھر یہ ہواکہ کہیں کہیں سے کنڈیراکے اقتباسات کنڈیراشناسی کاحوالہ بن گئے۔میلان کنڈیراکانام کئی بارنوبیل انعام کے لیے منتخب ہوا۔
آج یہ لکھتے ہوئے کتناعجیب لگتاہے کہ نوبیل انعام کی عزت اورسیاست دونوں کاچہراسامنے آجاتاہے۔اس کے باوجود کنڈیراکوزیادہ پڑھاگیا۔کئی برسوں سے کنڈیراکی کوئی خبر نہیں آرہی تھی۔A kidnaped westشائع ہونے والی ان کی زندگی کی آخری کتاب ہے۔یہ سوال پریشان کرتارہاکہ ادھر کنڈیراکی طرف سے کوئی بڑی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔چند ترجموں کے علاوہ چھوٹی سرگرمی بھی نظرنہیں آئی۔کنڈیراانٹرویوزدینے کے سلسلے میں بھی حساس رہے۔لہذاکنڈیرا کی خاموشی اوروں کوبھی محسوس ہو رہی ہوگی۔میلان کنڈیراکاذہنی سفرچیکوسلوواکیہ سے شروع ہوتاہے۔چیکوسلوواکیہ سے پیرس منتقل ہونے کی کہانی کتنی صبر آزماہے۔چیکوسلوواکیہ میں کنڈیراایک اہم موضوع ہے جو ان کی ادبی سوانح سے متعلق ہے۔اس سلسلے میں کنڈیراکی ایک سوانح بھی لکھی گئی جو انٹرویوز پر مشتمل ہے۔سوانح عمری کولکھنے والے چیک ادیب جان موواک ہیں۔ان کاخیال ہے کہ جوکچھ انہوں نے دریافت کیاہے اس پر انہیں حیرانی ہے۔یہ خبر بھی پھیلی کہ کنڈیرانے 1950میں مغربی انٹلیجنس کے چیک ایجنٹ کی مخالفت کی۔کنڈیراجن حالات میں اپنے وطن کوچھوڑتے ہیں اس کی تفصیل میں جانے کایہ موقع نہیں ہے۔کمیونسٹ پارٹی سے ان کاتعلق اور پھر اس سے علاحدگی،دوبارہ کمیونسٹ پارٹی جوائن کرنایہ سب کچھ نظریے کاوہ کھیل اور سفر ہے جس کاذکربنیاد کے تازہ شمارے کے اداریے میں ناصر عباس نیر نے ایڈورڈ سعید کے حوالے سے کیاہے۔کنڈیراکاجو زمانہ چیکوسلوواکیہ میں قیام کاہے اس پر توجہ کیے بغیر کنڈیراکے افکارکوبہتر طور پر نہیں سمجھاجاسکتا۔موسیقی سے کنڈیراکی دلچسپی ان کے والدکی وجہ سے پیداہوئی۔
ادب،فلم،اسکرپٹ رائٹنگ،شاعری،سیاست،تدریس یہ تمام باتیں کنڈیراکے حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔1993کے بعد فرانسیسی زبان میں لکھناشروع کیا۔80کی دہائی میں ان کی تمام تر توجہ فرانسیسی ترجمے پر رہی۔وہ خود کو فرانسیسی زبان کاادیب کہنے اور کہلانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے تھے۔دی جوک 1967میں شائع ہوئی۔اس کاتعلق اس دور کی کمیونسٹ پارٹی کی زیادتیوں سے ہے۔سوویت یونین پران کی تنقید کی وجہ سے ان کی کتابوں پر پابندی لگادی گئی۔1اپریل 2023کو کنڈیرا94سال کے ہوئے توان کے آبائی وطن میں نیومیلان کنڈیرالائبریری کاافتتاح ہوا۔اس کااعلان توکئی سال پہلے ہو چکاتھامگراس سال کنڈیراکی کتابیں،تحریریں اور کاغذات لائبریری میں منتقل کر دیے گئے۔یہ خیال پہلی مرتبہ ان کی بیوی کوآیاتھااور پھر کنڈیرانے اپنی آمادگی کااظہار کیا۔ یہ ایک ایساواقعہ ہے جسے بھلایانہیں جاسکے گا۔ایک ادیب جن حالات میں اپنے ملک کوچھوڑتاہے اور اپنے ملک سے جوغیرجذباتی رویہ اختیارکرتاہے وہیں اس کی چارہزار کتابیں اور دوسری تحریریں جیتے جی منتقل ہوجاتی ہیں۔کنڈیراسے یہ سوال کیاجاناچاہیے تھاکہ کتابوں کی منتقلی کے بعد اب آپ اپنے وطن کے سلسلے میں کیامحسوس کرتے ہیں۔1985کے لڑریری رویو میں الوگاکارلیسل نے لکھاتھا۔
”کنڈیرانے اپنے آبائی ملک چیکوسلوواکیہ کے لیے وہی کیا جو مارکیز نے1960لاطینی امریکہ کے لیے کیاتھااورسولر سین نے 1970کی دہائی میں روس کے لیے کیاتھا۔“
12/07/2023
(یہ مضمون پروفیسر سرورالہدیٰ صاحب کے فیس بک پیج سے لیا گیا ہے، ہم ان کے شکر گزار ہیں)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page