نیر مسعود اردو دنیامیں ایک ناقد اور محقق کی حیثیت سے معروف ہیں۔ یہ بات ادب کے ایک مخصو ص حلقے کو معلوم ہے کہ انھوں نے افسانے بھی لکھے ہیں اوران کے تین افسانوی مجموعے سیمیا، عطرکافور، اور گنجفہ شائع بھی ہوئے۔سچ تو یہ ہے کہ نیر مسعود کی مقبولیت ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے قائم نہ ہوسکی اس کی وجہ کیاتھی یہ تو ان کے افسانوں کے مطالعے سے ہی معلوم ہوسکے گا مگر ایک شخص جب مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتاہے تو کبھی کبھی اسے اپنی اچھی چیزوں سے نقصان اٹھاناپڑتاہے، نیر مسعود کے افسانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
نیرمسعود کا افسانوی مجموعہ عطرکافور پہلی بار نصرت پبلشرز لکھنو سے 1990ء میں شائع ہوا جس میں سات افسانے مراسلہ،جانوس ، سلطان مظفر کاواقعہ نویس، جرگہ، وقفہ، عطرکافور اورساسان پنجم شامل ہے۔ ان تمام افسانوں کو پڑھتے ہوئے ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم کہانی نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ کسی کوقصہ سنارہے ہیں۔ لیکن ان سے کوئی نتیجہ برآمد کرنا بہت مشکل ہے ۔ نیر مسعود کی ان کہانیوں کی پہلی قرأ ت ہی سے کوئی قاری یہ کہہ سکتاہے کہ یہ کہانیاں اردوکی عام کہانیوں سے بہت مختلف ہیں۔
میں نے پہلی برتبہ نیر مسعود کی ان کہانیوں کو پڑھا ہے اور ایسامحسوس ہوتاہے کہ نیر مسعودکا افسانوی فن ہرقاری کے لیے نہیں ہے۔
نیر مسعود نے عطرکافورکے دوسرے صفحہ پر حضرت علی ابن ابی طالب کا یہ قول نقل کیاہے۔ سننے میں ایک اثر ہے جو جاننے میں نہیں‘‘ یہ قول محض بربنائے بیت نہیں ہے بلکہ اس مجموعہ میں شامل تمام افسانوں کی کلیدہے۔ اس قول سے نیرمسعود یہ بتادیناچاہتے ہیں کہ آنے والے صفحات میں کوئی نئی بات نہیں ہے یاکوئی ایسانکتہ نہیں ہے جس سے عام قاری واقف نہ ہومگر جولذت سننے میں ہے وہ جاننے میں نہیں حضرت علی کے اس قول سے زبانی روایت کو بھی ایک مستحکم دلیل مل جاتی ہے سننے سنانے میں جومزاہے وہ پڑھنے اور لکھنے میں نہیں۔ اس اثر پذیری کی مثالیں ہمیں لوری،لوک گیتون اور پرانے قصوں میں مل جاتی ہیں۔
حضرت علی کے اس قول سے اسلوب اور موادکی بحث کو بھی راہ ملتی ہے۔گرچہ اسلوب اورمواد کی بحث بہت پرانی ہے اورکس کو کس پر تقدم حا صل ہے اس کا فیصلہ ہنوز باقی ہے۔نیر مسعود اس قول کو نقل کرکے اس طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں کہ موضوع پراناہوسکتاہے مگراسلوب کی جدت مضمون کونئی آب وتاب بخشتاہے اور یہی وہ چیز ہے جو قاری یاسامع کواثر انداز کرتی ہے۔
نیرمسعود کے افسانوں میں جو باتیں ہیں وہ ٹھوڑے بہت فرق کے ساتھ انتظار حسین کے افسانوں اور زبیررضوی کی نظموں میں بھی مل جائیں گی۔ مگر اسلوب کی جدت اورندرت نیر مسعود کے افسانوں کو نئی شناخت عطاکرتی ہیں وہ افسانے کو داستان سے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں اور تجسس برقرار رکھنے کے لیے داستانوی عناصر سے بھی مددلیتے ہیں۔ ماحول اورپس منظر اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آگے کیاہوا۔
عطرکافور کا پہلے افسانہ کا عنوان مراسلہ ہے۔افسانے کامتکلم اخبارمیں لکھے ایک خط کے ذریعہ متعلقہ حکام کو کی توجہ ایک ایسے علاقے کی طرف دلانا چاہتا ہے جو تقریبا پچاس برسوں سے ایک ہی حالت میں۔ اور وہاں کسی طرح کاکوئی ترقیاتی کام نہیں ہواہے۔
مراسلہ کے بعد کہانی شروع ہوتی ہے کہ وہ کون سی جگہ اوراس جگہ کی کیاخصوصیت ہے۔ ظاہر ہے مراسلہ نگارنے مراسلہ اس وقت لکھا ہوگاجب وہ اس غیر ترقی یافتہ جگہ سے واپس آیاہوگا۔ لیکن افسانے میں اسے ابتدا میں جگہ دی گئی ہے ۔ قصہ گوئی کایہی وہ فن ہے جیسے ہنرمندی سے تعبیرکیا جانا چاہئے۔ مراسلہ پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں اس جگہ کے بارے میں طرح طرح کی تصویریں بنے اور بگڑنے لگتی ہیں اور ہماری دلچسپی اس کہانی میں قائم ہوجاتی ہے۔ اگر کہانی اس طرح شروع ہوتی کہ’’ شہر کے ایک غیر آباد علاقے میں ایک حکیم صاحب رہتے تھے‘‘ توبات نہیں بنتی۔ کیوں کہ اس طرح کی کہانیاں ہم اپنی دادی اورنانی سے سنتے آئے ہیں جن میں اب ہماری دلچسپی نہیںرہی۔ لیکن اگر آج یہ کہاجائے کہ فلاں شہر کا فلاں علاقہ آج بھی اسی طرح ہے جیساکہ انگریزوں کے زمانے میں تھا توہماری توجہ اس طرف بڑھ جاتی ہے کہ آج تک اس کی طرف توجہ کیوں نہیں کی گئی۔ نیر مسعود کے اس افسانے کی صرف یہ قرأ ت کافی ہوسکتی تھی لیکن کیا ہم اسے صرف ایک سیاسی اورترقیاتی مسئلہ قراردے کر اس فن پارے کے ساتھ انصاف کرسکتے ہیں دراصل یہ کہانی سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ مٹتی ہوئی تہذیب کی کہانی بھی ہے۔ سیاست نے پرانی قدروں سے کس طرح منھ پھیر لیاہے اس کی مثال یہ کہانی ہے ۔ حکیم صاحب ا ٓج بھی لوگوں کا علاج اسی انہماک سے کر رہے جیساکہ وہ پہلے کیاکرتے تھے۔ عوام کا ایک بڑاطبقہ ان کے علاج سے مطمئن ہے ۔حکیم صاحب کے مطب کا راستہ دشوار گزار ہے اور ان کی حویلی بجلی پانی کی جدید سہولیات سے ناآشناہے ۔مریضوںکو حکیم صاحب تک پہنچنے میں کافی مشقتوں کا سامنا کرناپڑتاہے۔ افسانے کا یہ پہلو ہمیں یہ بھی بتاتاہے کہ اقدار کی پاسداری کتنی مشکل ہے۔ جولوگ پرانی وضع اور شرافت کاپاس رکھتے ہیں ان کا حترام کرنا چاہئے کیوں کی ایسے لوگ اب خال خال نظرآتے ہیں۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے:
قبروں کی تعدادمیر ے اندازے سے زیادہ تھی۔ لیکن پتاور کا وہ جھنڈغائب تھاجو ایک پرانے سانپ کا مسکن بتایاجاتا تھا۔ جو لوگ اسے دیکھنے کا دعوی کرتے تھے ان کا کہناتھا کہ اس کے پھن پر بال اگ آئے ہیں۔ بچے پتاور کے جھنڈ کے پاس کھیلتے رہتے تھے ۔بلکہ میں تواس کے اندر جاچھپتاتھا۔ لیکن سانپ سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا شایداسی وجہ سے یہ بات مشہو رتھی کہ وہ کئی پیشوں سے حکیم خاندان کا نگہبان ہے۔ خشک اورسبز پتاورکے اس جھنڈ کانقش مرے ذہن میں بالکل تازہ ہوگیاتھا۔لیکن یہ مجھے یاد نہ آسکا کہ وہ چبوترے پر کس طرف تھا۔ جس جگہ اس کے ہونے کا گمان تھا وہاں پرکئی قبریں تھیں جن پرچونے کی سفیدی چمک رہی تھی‘‘(ص:29-30)
افسانے کو ذراتوجہ سے پڑھیے تو معلوم ہوگاکہ حکیم خاندان میںصرف لڑکیاں تھیں۔لڑکوں کا نام بھی نہیں آتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قبریں اس خاندان کے لڑکوںکی تھیں۔ اور وہ سانپ جو کبھی اس خاندان کا نگہبان ہواکرتاتھا، اپنے مسکن کے ساتھ ختم ہوچکاہے۔ یہاں سانپ سے مراد وہ امرا وسلاطین بھی ہوسکتے ہیں جو حکیم خاندان کی کفالت کرتے تھے ۔ خشک اورسبز پتاورکی ترکیب افسانے کو علامتی طرز کا بنادیتی ہے۔ اور ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ پتاور کون ہوسکتاہے ۔نیر مسعود کے افسانوں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نوآبادیاتی نظام اور اس کے طرز فکر کو بھی سامنے رکھناہوگا۔ بنتی مٹتی اور دھندلی ہوتی تہذیبوںکا عکس ان کے افسانوں میں جابجا نظر آتا ہے۔افسانہ مراسلہ جہاں ختم ہوتاہے اس سے ایک ہی تاثر ذہن میں ابھر تاہے کہ آخر ابھی تک شہر کے اس علاقے میں ترقیاتی کام کیوں نہیں ہوا۔اسی نتیجہ کے زیر اثر متکلم وہ خط لکھتا جو افسانے کی ابتدامیں شامل ہے ۔ اس افسانے کا آخری جملہ پڑھتے ہوئے ہمیں ہمناٹزم کاعمل یاد آتاہے ۔
’’واپسی کاراستہ مشکل نہیں تھا۔ میں بہت آسانی سے اپنے گھر پہنچ گیا‘‘
عطرکا فور میں شامل دوسراافسانہ ‘‘ جانوس‘‘ نیم غنودگی کی کیفیت کا افسانہ ہے ، جب انسان پر نیندغالب آنے لگتی ہے تو اس کے خیالات منتشر اورتصویریں دھندلاجاتی ہیں۔ الفاظ مہمل ہوجاتے ہیں، جملے بے ربط اور خیالات طرح طرح کی مہمل شکلیں اختیار کرنے لگتے ہیں۔انسان غنودگی کی حالت میں جو الفاظ اپنی زبان سے اداکرتاہے اس کے معنی ومطلب بھی ہوتے ہیں۔بساوقات انسان غنودگی کی حالت میں وہ باتیں کہہ جاتاہے جو عام حالت میں کہنابہت مشکل ہے۔ نیر مسعود کا افسانہ جانوس ، انہیں کیفیات پر مبنی ہے، ایک شخص جو پیشے سے ڈاکٹر ہے اپنی خوابگاہ میں آرام کر رہاہے ۔ باہر کا موسم طوفانی ہے۔ ایسی سیاہ رات میں ایک خستہ حال شخص اس کے گھر آتاہے اوراس کی امانت لوٹاکر جانا چاہتا ہے۔ مگر بھوک اور پیاس سے اس کے قدم کی تب وتاب ختم ہوتی نظر آتی ہے ۔ وہ شخص کئی دنوں سے بھوکا پیاساتھا لیکن خیانت نہیںکرتا۔ افسانے میں جس کردار کو پیش کیاگیا اسے ہم ایک سچے انسان سے تعبیر کرسکتے ہیں۔غالبااسی ثابت قدمی کو اقبال نے اپنے اس شعر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
نیر مسعود نے خاندانی شرافت اور وضعداری کو اس افسانے میں جس طرح پیش کیاہے وہ ایک اہم واقعہ ہے۔ نوابوں کا دور ختم ہونے کے بعد ان کے ورثاکی جوحالت ہوئی ان سے ہم سبھی واقف ہیں۔لیکن ان کی شرافت اور وضعداری جوان کے رگ وپے میں سرایت کر چکی تھی، بعد میں بھی قایم رہی ۔ آج عام طورپریہی تصور کیاجاتاہے کہ نوابوں نے کبھی محنت کر نانہیں چاہا اور وہ محنت سے جی چراتے تھے۔ ممکن ہے اس میں صداقت بھی ہو مگر افسانے کا بین السطور ہمیں یہ بھی بتاتاہے کہ نواب خاندان کا ایک فرد ہوٹل میں بھی کام کرتاہے اور فاقہ کرنے سے بھی اس کی وضعداری میں کمی نہیں آتی۔
عناصر سے مرعوب نہ ہونا بہت بڑی بات ہے۔ یہ نعمت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور جنہیں یہ نعمت نصیب ہوتی وہ ہرحال میں خوش رہتاہے اورقناعت پسندی اس کی سرشت کا حصہ بن جاتی ہے۔ نیر مسعود کایہ افسانہ وضعداری اور اقدار کا سبق دیتاہے۔ لیکن افسانہ نگار کسی مبلغ یا واعظ کی طرح کہیں سامنے نظر نہیں آتاہے
عطر کافور میں شامل تیسرا افسانہ سُلطان مظفر کا واقعہ نویس اپنی نوعیت کا منفرد افسانہ ہے۔ اس میں اسلوب بھی انفرادیت رکھتاہے اورموضوع کے اعتبار سے افسانے کی طوالت بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ افسانہ تقریبا50 صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس میں صرف ایک واقعہ نویس کی آپ بیتی نہیں ہے بلکہ اس میں بادشاہ کے طرزعمل اور طرزفکر کا جو عکس نظر آتا ہے وہ کسی ظالم اورڈاکٹر بادشاہ کی تصویر پیش کرتاہے ۔ اس افسانے کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیاہے ۔ اور پھران پانچ حصوں کے کچھ ذیلی حصے ہیں۔ لیکن ہر حصہ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ کہیں سے کوئی ربط ٹوٹتانظر نہیں آتا۔ ایسالگتاہے کہ وہ کہانی سنارہے ہیں۔ جہاںایک حصہ ختم ہوتاہے وہاں ایسالگتاہے کہ آج کی مجلس ختم ہوئی اور اب باقی کہانی دوسری مجلس میں سنائی جائے گی ۔ اورجوذیلی حصے ہیں ان کا درمیانی وقفہ ہمیں یہ احساس دلاتاہے کہ متکلم حلق تر کرنے کے لیے کچھ دیر ٹھہر تاہے پھرقصے کو آگے بڑھاتاہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اس دن کی سب سے خاص با ت یہ تھی کہ میرے لگائے ہوئے دوپودوں میں سے ایک سلطانی گماشتے کے پیروںکے نیچے اکر کچل گیاتھا۔ لیکن دوسراپودا محفوظ تھااور اس کے بڑے ہوجانے کے بعد میں اس کے نیچے آرام کر سکتاتھا‘‘)ص(53
یہاں افسانہ کا پہلاحصہ ختم ہوجاتاہے۔ متکلم اپنے خانہ نشیں ہونے کا واقعہ بیان کررہاہے افسانہ نگار نے اس پہلے حصہ میں ہی افسانے کا نچوڑ پیش کردیاہے۔ سلطان کی صحرائی مہم کا واقعہ نویس اب گوشہ نشیں ہے جس دن واقعہ نویس گوشہ نشیں ہوا اس دن واقعہ نویس نے سلطان کے باغ سے نکالے گئے دوپودے خرید کر اپنے چمن میں لگائے تھے۔ جس میں سے ایک سلطانی گماشتہ کے پیروں تلے آکر ختم ہوگیاتھا اور ایک اب تناوردرخت ہوچکا ہے۔ کہانی کی کلید اسی جملہ میں ہے۔ دو پودوں کا لگایاجانا استعارہ ہے تاریخ نویس اور واقعہ نویس کا۔ایک کا کچل دیا جانا علامت ہے تاریخ نویس کے قتل کی۔ اور ایک کا تناور درخت ہو جانا واقعہ نویس کی زندگی اور اس کی ترقی کا آئینہ ہے۔ کہانی کے اس حصے کوذہن میں رکھیں اور کہانی کا آخری حصہ پڑھیں۔
’’ اس ساری مدت کا حاصل چھتری کی شکل کا یہ درخت ہے جس کے نیچے میں نے بہت آرام کیاہے اس کی جڑسے لے کر پھول تک اور پھل کے چھلکے سے لے کر گٹھلی کے گود ے تک ہر چیزمیں زہر ہی زہر ہے۔ شاید اسی لیے اس کے سایے میں نیند آتی ہے ‘‘(ص:79)
متکلم واقعہ نویس ہے۔ اس نے سلطان کی سزاؤں، مہموں، عمارتوں اور مقبروں کی واقعہ نویسی کی ہے۔ وہ زندگی بھرگنے کاغذات پر واقعات لکھتا رہا اورحاصل عمر کیا ملا ، ایک سایہ دار درخت ،جس میں زہر ہی زہر بھراہے ۔ یعنی اس درخت سے سوائے سایہ حاصل کرنے کے اور کوئی استفادہ ہلاکت کا سبب بن سکتاہے۔ ظالم بادشاہ سے دوست اور دشمن کوئی بھی مامون نہیں رہتا۔ اس کہانی کوبڑھتے ہوئے محمدحسن کا ڈراما صخاک یادآتاہے۔ جس میں شاعر، کیمرہ مین،فلسفی سبھی ظلم کا ساتھ دینے پرمجبور ہوتے ہیں اور جب سچ بولنے کی جرأ ت کرتے ہیں تو مسلوب ہوجاتے ہی۔ اس افسانے میں بھی تاریخ تویس کو سچ لکھنے کے جرم میںزندگی سے ہاتھ دھوناپڑتاہے۔ بادشاہ کے ظلم کا ایک نمونہ دیکھے:
’’صحرائی پرندوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں تھیں۔ اور ان ٹکڑیوں کاہر پرندہ تیر سے چھداہواتھا سلطان نے ان کی اڑان کو حیرت سے دیکھا ۔ مجھے بھی حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ پرندے اپنے لمبے پروں کو پورا پھیلائے ہوئے اطمنان کے ساتھ ہوا میں تیر رہے تھے۔ سلطان نے بظاہر اپنے آپ سے کہا:
ایسامعلوم ہوتاہے یہ تیروںکی قوت سے اڑرہے ہیں۔‘‘(ص:72)
انسان حالات کے ساتھ بہت جلد سمجھوتہ کرلیتاہے۔ یہاں پرندے انسان کا استعارہ بھی ہوسکتے ہیں جوزخم خوردہ ہوکر بھی بظاہر مطمئن نظرآرہے ہیں۔ ظالموں کو ظلم بہت پیاراہوتاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر شخص اس کی برتری تسلیم کرے۔اگر کوئی اس کے ظلم کی تاب لاکر بھی زیست برقرار رکھتاہے تواس میں بھی سلطان کو اپنی کامیابی نظر آتی ہے ۔ سلطان کا مذکورہ جملہ اسی تصورکی طرف اشارہ کرتاہے۔
نیرمسعود نے اس افسانے پر بہت محنت کی ہے۔ ایک طویل موضوع کوجس خوش اسلوبی سے برتاہے وہ قصہ گو ئی کی روایت میں ایک حوالے کی حیثیت رکھتاہے۔ یہ با ت درست ہے کہ ان کی قصہ گوئی کی قصہ گوئی کی اصل شناخت اس کا پر اسرار لہجہ ہے۔ یہاں یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ یہ اسرار اوپر سے اوڑھا ہوا ہے یا پوری کہانی سے ابھرتا ہے۔یہ بات شاید کچھ لوگوں کو معلوم نہیں کہ نیر مسعود غیرضروری طور پر ابہام پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ نیرمسعود نے تجرید سے گریز کرتے ہوئے قصہ گوئی کے فن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔اس عہد میں داستانوی عناصر سے بہت سے افسانہ نگاروں نے کام لیا جن میں سریندرپرکاش، بلراج مین را،انورسجاد اور دیوندر ستیارتھی کے نام قابل ذکر ہیں۔ان لوگوں نے داستانوی عناصر کو علامت کے طور پر برتاہے ۔جبکہ نیر مسعود نے داستانوں سے اسلوب مستعار لیاہے۔ یعنی افسانے کوداستان سے قریب کرنے کی شعور ی کوشش کی ہے۔
عطر کافور نیر مسعود کا اہم افسانہ ہے ۔ غالبااسی لیے انہوں نے اپنے افسانوی مجموعہ کا نام ـ’ عطرکافور‘رکھاہے۔عطر کافور کی ترکیب ہمیں یہ سوچنےپرمجبورکرتی ہےکہ کافورسےعطرکیسے تیار کیاجاسکتاہے۔ افسانے کے واقعات بھی طلسماتی قسم کے معلوم ہوتے ہیں ۔ پراسرار قسم کے کرداروں سے بنی یہ کہانی ایک نئی دنیاکی سیر کراتی ہے۔ اس افسانہ میں ایک ایسے شخص کی رودادہے جو کسی قسم کاہنر کسی سے سیکھتانہیں ہے بلکہ اپنے تجربات اور ریاضت سے ہر کام آسان بنالیتاہے۔ یہی تجر بہ اس کی ہنرمندی کوانفرادیت عطاکرتاہے۔ یہ کردار ایک متجسس ذہن کامالک ہے اسے کوئی بھی چیز پسندآتی ہے تو وہ اس کاماڈل کبھی مٹی سے تو کبھی لکڑی سے تیار کرنے میں منہمک ہوجاتاہے۔ اس کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی ہے جہاں کافور سے مرہم بنایاجاتاہے ۔ اس لیے اس کے نتھونے میں کافور کی بوبسی ہوتی ہے ۔کافور سے عطر بناناشیشہ گری کا عمل ہے اور یہ عمل صرف اسے ہی آتاہے۔ افسانہ کا یہ اقتباس دیکھے:
’’عطر بنانے کا وہ پیچیدہ اورنازک فن جو قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے اور اب ختم ہونے کے قریب ہے،بلکہ شاید ختم ہو چکا،میں نے نہیں سیکھا۔ مصنوعی خوشبوئیں تیار کرنے کے نئے طریقوں سے بھی واقف نہیں اس لیے میرے بتائے ہوئے عطر کسی کی سمجھ میں نہیں آتے اور اسی لیے اس کی نقل تیار کرنے میں بھی ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
میرے تیار کیے ہوئے عطروںمیں کوئی خاص بات نہیں سوائے اس کے کہ میں عام خوشبوؤں کو عطر کافور کی زمین پر قایم کرتا ہوں۔ میرا بنایاہوا ہرعطر اصل میں عطر کافور ہے جوکسی دوسری مانوس خوشبو کے عطر کابھیس بناکر سامنے آتاہے ‘‘ (ص:135)
افسانہ کا پہلاپیراگراف قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ اورقاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ایک شخص جسے عطر بنانے کا ہنر نہیں معلوم ، اس نے عطر بنانے کا روایتی علم نہیں سیکھاپھر اس کی خوشبو سب سے منفر د کیسے ہوجاتی ہے اور لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ اس کے پاس عطربنانے کے نایاب نسخے ہیں۔ افسانے کے اس ابتدائی حصے میںوہ نکتہ پوشیدہ ہے جس سے روایت شکنی اور اجتہاد کی راہ پیداہوتی ہے۔ ہر شخص کی اپنی لیاقت اورسمجھ ہوتی ہے لیکن اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانا کسی کسی کو آتاہے ۔ خاندانی روایت کوبرقرار کھتے ہوئے محبت کے پاکیزہ رشتوں کو فروغ دینا کمال انسانیت ہے۔ ورنہ عام طور سے کسی ایک کا دامن ہاتھ سے پھسل جاتاہے۔ خوشبوانسان کو فرحت اورتازگی عطاکرتی ہے ۔جبکہ کافور کی بوسے ذہن مکدر ہوجاتاہے بلکہ بعض لوگوں کو تومرنے کا خیال بھی آنے لگتاہے۔ اس افسانے کا کمال یہ ہے کہ اس میں زندگی اورموت ، آبادی اورویرانی کو ایک ساتھ پیش کر کے دونوں کے تضاد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ افسانہ پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ گھرکا ایک حصہ با لکل ویران ہے جبکہ دوسرآبادہے گھر کے کچھ افراد خوش وخرم زندگی بسر کررہے ہیں توکچھ لوگ مرمرکر جیے جارہے ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر نظر رکھیں توافسانہ میں موجود متوازن تضاد زندگی کی بھر پور عکاسی کرتی نظرآتی ہے۔
کافور سے عطر بنانے کا فن نئی نسل کی عظمت کا علامیہ ہے۔ ہمارے یہاںروایت میں اسیر ہوکر رہ جانے کا چلن بہت عام ہے لیکن روایت سے بغاوت یاروایت کی تجدید کاری کبھی کبھی نظر آتی ہے۔ یہ کام بہت حوصلے اور جراء ت کا ہے۔ افسانے کا متن ہمیں یہ بھی بتاتاہے کہ روایت سے پیچھاچھڑانا مشکل توہے مگر اس سے پگڈنڈی نکالنابہت مشکل نہیں۔ افسانے کاایک کردار ایسے گھر میں پرورش پاتاہے جہاںکافور سے مرہم تیاکیاجاتاہے۔ دوسراخاندان باہر سے آتاہے اور اس کے گھر کے ایک گوشے میں پناہ لیتاہے۔اس نووارد خاندان کاپیشہ عطربناناہے۔ افسانہ نگار نے دونوں خاندانوں کو مربوط کرنے کے لیے عطرکافور کی راہ نکالی ہے، جس سے جدید اورقدیم کا تضاد مٹتانظر آتاہے۔
عطر کافور میں شامل آخری افسانہ ’ساسان پنجم ‘ بہت دلچسپ ہے۔دلچسپی کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے واقعات دلچسپ ہیں ۔بلکہ اس کے موضوع اوراسلوب کو اردوافسانہ کی روایت میں تلاش کرنامشکل ہے۔یہ ایک مضمون نما افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے میں زبان، الفاظ، معانی، زبان کے موجد، زبان کی تحقیق اور لفظ ومعنی کے رشتوں کے سلسلے جوتحقیق اب تک ہوئی ہے اس کا خلاصہ ہے۔ دنیاکی تمام زبانوں میں اس مسئلہ میں اختلاف موجودہے کہ لفظ کو معنی پربرتری حاصل ہے یامعنی مقدم ہے۔ اورلفظ ومعنی کا کیارشتہ ہے نیزقاری، سامع ا ورمتکلم کی کیااہمیت ہے۔ ایک اقتباس دیکھے:
’’آج کا عالم یہ بتاتاہے کہ گزشتہ زمانے میں کچھ لفظ استعمال ہوتے تھے جن کا حقیقی وجود نہیں تھا۔وہ اس طرح کہ یہ لفظ جن معنوں میں استعمال کیے جاتے تھے دراصل ان کے معنی وہ نہیں تھے۔ دراصل ان کے معنی کچھ بھی نہیں تھے۔ تاہم ان میں کا ہر لفظ ایک مخصوص معنی کے لیے استعمال ہوتاتھا۔یعنی بولنے والا ایک لفظ بولتاتھااور اس کے ایک معنی مراد لیتا تھا اورسننے والا اس کے وہی معنی سمجھتاتھاجو بولنے والامرادلیتاتھا۔ لیکن حقیقۃً اس لفظ کے وہ معنی نہیں ہوتے تھے جوبولنے والا مراد لیتاتھااورسننے والاسمجھتاتھا۔ اس لیے کہ دراصل وہ کوئی لفظ نہیں ہوتاتھا۔ اور چوں کہ وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھااس لیے اس کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے تھے ‘‘ (ص:190 )
مذکورہ اقتباس میں لفظ ومعنی کی ساری بحثیں سمٹ آئی ہیں۔اتنے اہم اورنازک مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے نیرمسعود کی زبان کسی بھی مقام پر لکنت کی شکار نہیں ہوئی ۔ یہ ان کے قدرت بیان کا کمال ہے ورنہ اس مسئلہ پر بقول یگانہ ع
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیاکیا
لفظ معنی کا جسم ہوتاہے اورمعنی جسم کے لیے روح کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرانہیں ایک دوسرے سے الگ کردیاجائے تودونوں کی شناخت ختم ہوجائے گی۔ لفظ ومعنی کی افہام وتفہیم میں متکلم اورمخاطب یکساں طورسے ذمہ دارہوتے ہیں لفظ سے معنی کا ختم کر دینایااسے تجرید کاپیراہن عطاکرنا ایک وقتی ضرورت ہوسکتی ہے مگر اسے خوش کن عمل نہیں کیاجاسکتا۔ یہاں مجھے سلیم اقبال کی نظم نوحہ یاد آتی ہے۔
ہم ؍ ادب کے گائنا کولوجسٹ ہیں؍ہم نے لفظوں سے ؍ معنی کا اسقاط کردیاہے۔ ؍ اسی لیے ؍اب؍ کتاب ؍ قدر؍ اخلاق؍اور تہذیب کو؍ جنم دینے سے قاصر ہے/
لفظ ومعنی کے تنازع کی تاریخ قدہم دور سے ملتی ہے۔ اور یہ تنازع آج بھی بدستور قا یم ہے۔ اگر اس کا قضیہ پاک ہوتاہے تواسی نتیجہ پر جہاں۔ نیر مسعود کا یہ افسانہ ختم ہوتاہے ۔
’’عالموں کی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ کوئی ساسان پنجم تھا۔ نہ اس کی پیش کی ہوئی کوئی زبان تھی ، نہ اس زبان کا کوئی لفظ تھااور نہ اس لفظ کے کچھ معنی تھے۔
لیکن اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں کچھ معنی تھے جو بعض لفظوں سے اداہوتے تھے، اور یہ لفظ ایک زبان سے منسوب تھے، او راس زبان کا تعارف ایک شخص نے کرایاتھا، اوروہ شخص خودکو ساسان پنجم بتاتاتھا‘‘(ص191-190)
نیر مسعودکے افسانوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کاآغازوانجام ایک جیسا نہیں ہوتاہے، یعنی آغازاگر بہت واضح ہے تو انجام بہت الجھاہوا نظرآتاہے۔ بعض اوقات تو سمجھ نہیں آتا کہ افسانہ یہاں کیوں کر ختم ہوسکتاہے اورکبھی کھبی آخر کے کچھ جملے زائد معلوم ہوتے ہیں۔ اس قسم کے افسانوں میں جانوس، جرگہ اوروقفہ کو شامل کیاجاسکتاہے ۔ ممکن ہے نیر مسعود کی نظر میں تخلیق کا منطقی انجام وہاں نظرآتاہو مگر ایک قاری کی حیثیت سے مجھے ان افسانوں کے اختتامیے پسند نہیں آئے۔ ناپسندیدگی کی وجہ ترسیل کا مسئلہ بھی ہوسکتاہے اور عدم تفہیم بھی ۔ لیکن اتنی بات ضرورہے کہ اس الجھاؤ سے قاری کا ذہن پریشان ہوتاہے اوراسے محسوس ہوتاہے کہ اس کی ذہنی سطح اتنی بلند نہیں کہ ان افسانوں کو سمجھ سکے اگر نیر مسعود کے افسانوںکو قاری بہت کم ملے تواس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ان کے افسانوں کی تفہیم واقعی مشکل ہے ۔ عام قاری فن پارے سے مسرت اور بصیرت کی توقع رکھتاہے لیکن اس کے حصول کے لیے دل سوزی اورذہن کو حرکت دینابھی نہیں چاہتا۔ اسی لیے وہ عام روش سے الگ فن پارے کی تفہیم پروقت صرف کرناکار عبث تصورکرتاہے۔نیر مسعود کے افسانے عام روش سے الگ ہیںاسی لیے ان کی ویسی پذیرائی نہ ہوسکی جوان کے معاصریں افسانہ نگاروں کے حصے میں آئی۔
عطرکافور کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ افسانہ شروع ہونے سے پہلے ایک صفحہ پر انگریزی میں کسی عالم کا کوئی معنی خیز قول منقول ہے اوراس کے نیچے فارسی کے کسی شاعر کا کوئی شعر یا مصرع درج ہے۔ یہ اقوال واشعار یوںہی نہیں آئے ہیں بلکہ افسانے سے ان کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے مثال کے طور پر افسانہ مراسلہ سے پہلے کا یہ اقتباس دیکھے ۔
My days among the dead are past
Robert Southey
اور نیچے خیام کا یہ مصرعہ مندرج ہے
آنہاکہ کہن شدندوا ینہاکہ نوند
(خیام)
آپ افسانہ مراسلہ پڑھیے توان دونوں اقتباسات سے افسانے کی معنویت اور ربط اپنے آپ واضح ہوجائے گا۔
نیرمسعود کا افسانوی متن کئی مرتبہ پڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کوئی اس تقاضے کو نہ سمجھنا چاہے تو نقصان متن کا نہیں بلکہ قاری ہی کا ہوتا ہے۔میں نے پہلی مرتبہ یہ کہانیاں پڑھیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی قرأت ابھی باقی ہے۔ایک ایسے دور میں جبکہ قصہ گوئی کی بازیافت کے نام پر اردو کہانی سپاٹ بیانیہ کی نذر ہوچکی ہے، نیر مسعود نے اردو کہانی کو ایک پراسرار لہجہ عطا کیا ہے۔ جو قاری کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |