نسائیت کی مشرقی آواز: تحسین روزی – کامران غنی صبا
کامران غنی صبا
صدر شعبۂ اردو، نتیشورکالج، مظفرپور
ہر چہار جانب اندھیرا ہے۔ خوف ناک اندھیرا۔ ذات سے کائنات تک تاریکی ہی تاریکی۔ خوف ہی خوف۔ آج کا انسان بڑے کرب میں ہے۔ گھر سے لے کر، سماج تک، مذہب سے لے کر سیاست تک ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔ سکون کا متلاشی انسان جب حصارِ ذات میں آنا چاہتا ہے تو یہاں خاموشیوں کی دلخراش آوازیں اُس کا تعاقب کرتی ہیں۔ کبھی خاموشیاں ماضی کا آئینہ بن کر چیختی ہیں کبھی مستقبل کا اندیشہ۔’’حال ‘‘انسان کی بے بسی پر خندہ زن ہے۔ یہی بے بسی شاید اکیسویں صدی کے انسان کی معراج ہے۔
تاریکیاں شکست کی علامت ہیں۔ خوف کی پیامبر ہیں۔صبح کی شہادت کا اعلان ہیں۔۔۔۔ لیکن یہی تاریکیاں صاحبان جوش و جنوں کے لیے ان کے عشق کا امتحان بھی ہیں۔ صاحبانِ عقل نئی صبح پر نظر رکھتے ہیں تو انہیں یہ ڈر ستاتا رہتا ہے کہ کہیں یہ صبح بھی شام کی دہلیز پر سجدہ ریز نہ ہو جائے ؎
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے
(شکیل بدایونی)
لیکن صاحبان عشق کا یہ یقین ان کے عزم و حوصلے کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیتا کہ ؎
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
(احمد فرازؔ)
ٍ تحسینؔ روزی کی شاعری اسی عزم وحوصلے کی آواز ہے۔ ایک خاتون جسے صنف نازک ہونے کا ’خوب صورت طعنہ‘ دیا جاتا ہے، آج کے پرآشوب اور پر فتن دور میں بھی مایوس نہیں ہے۔ عملی اور فنی دونوں میدانوں میں جس کی زندگی جہد پیہم کی تصویر ہے۔ جو زمانے کے مکر و فریب سے آشنا ہوتے ہوئے بھی محبت کے نغمات سناتی ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ خلوص کے پیرہن میں مکر و ریا کے اجسام اپنی غلاظتیں چھپائے ہوئے ہیں ؎
یہاں لوگوں کی فطرت میں تصنع اور بناوٹ ہے
مگر تن پر دکھاوے کی قبائیں اور ہوتی ہیں
۔۔۔
گزرنہ جائے کسی دل پہ حادثہ کوئی
بڑے خلوص سے پھر دے رہا صدا کوئی
اسے معلوم ہے کہ محبت وہ بھی اکیسویں صدی کی محبت، فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہاں ہر چیز نقلی ہے۔ محبت ایک عبادت ہے اور عبادت کے نام پر جس طرح مذہبی بہروپیے دین وایمان کا سودا کر رہے ہیں، اسی طرح بازار محبت میں محبت کی قیمت لگائی جا رہی ہے ؎
محبت کا حسیں جذبہ بہت کم یاب ہے اب تو
محبت اک عبادت ہے عبادت کیا کروگے تم
تحسین روزی کی شاعری ایک دردمند مشرقی خاتون کا نغمہ ہے۔ جس میں سوز بھی ہے اور طرب بھی۔آتشِ محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے تو کہیں حیرت انگیز سیاسی بصیرت۔ گائوں کی بھینی بھینی خوشبو اور ایمان و یقین کی دبی دبی چنگاریاں ، ان کی شعری کائنات کا حسن ہیں۔چند متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
چمن میں سیر کو آیا ہے کوئی شہزادہ
گلوں میں شور ہے غنچے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
۔۔۔
ہر اک سمت خوشبو کی برسات ہوگی
تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی
۔۔۔
ہاتھ ملنے کے سوا کوئی تو چارہ بھی نہیں
ہم نے فرعون کو مسند پہ بٹھا رکھا ہے
۔۔۔
اس کے چہرے کو پڑھ لیا میں نے
ایک قصہ تھا بے زبانی میں
۔۔۔
اک محبت ہی بس نہیں آتی
اور آتے ہیں اس کو کام بہت
۔۔۔
ابن حوا کی حمایت میں کھڑے ہیں وہ لوگ
بیٹیوں کی جو حفاظت بھی نہیں کر سکتے
۔۔۔
تمہارے شہر میں چہروں پہ انتشار سا ہے
سکون چین ہے ابھی بھی ہے اپنے گائوں میں
۔۔۔
امیرِ شہر تو سکے دکھا رہا تھا مجھے
’’میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آئی‘‘
۔۔۔
سنا رہا تھا شبِ ہجر کی کہانی وہ
میں اس کی بزم سے آنسو بہا کے لوٹ آئی
ان اشعار کی قرأت سے شاعرہ کی عصری حسیت، سیاسی بصیرت، جمالیاتی شعور اور نسوانی طرزِ ادا کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔تحسین روزی کی شاعری میں کہیں کوئی بے ہنگم شور نہیں ہے۔ ’’فیمنزم‘‘ کا مغربی افیون نہیں ہے۔ مشاعرہ پڑھنے والی شاعرات جیسے سطحی رومانی انداز سے ان کی شاعری محفوظ ہے۔یہی خوبیاں تحسین روزی کی شاعری کو اپنی ہم عصر شاعرات سے منفرد کرتی ہیں۔ تحسین روزی نے اگر اپنی شاعری کو زودگوئی اور واٹس ایپ گروپس کی ہنگامہ خیزاور عجلت پسند شاعری سے بچا لیا تو یقینا ایک دن انہیں بھی سنجیدہ ادبی حلقوں میں حوالے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔
’’صداؤں کا سفر‘‘ کرنے والی شاعرہ اس بار آمدِ صبح کی نوید لے کر آ ئی ہے۔’’نوید سحر‘‘ تحسین روزی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں ان کی شاعری پہلے سے زیادہ نکھری ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے۔ امید ہے کہ شعری و ادبی حلقے میں ان کے اس مجموعہ کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page