تاریخ کا مشہور واقعہ ہے _ ہجرتِ مدینہ کے آٹھویں سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے _ آپ نے پوری کوشش کی کہ قتل و غارت گری بالکل نہ ہو _ ایک فوجی ٹکڑی کے کمانڈر نے جوش میں کہہ دیا : الیَومُ یَومُ المَلحَمَۃ (آج کشت و خون کا دن ہے) آپ کو خبر ملی تو آپ نے انھیں معزول کردیا اور فرمایا : الیَومُ یَومُ المَرحَمَۃ ( آج رحم و کرم کا دن ہے) _ اس موقع پر آپ نے عام معافی کا اعلان کردیا : جو اپنے گھر میں رہے اس کے لیے امن ہے _ جو مسجدِ حرام میں پناہ لے اس کے لیے امن ہے _ جو ہتھیار ڈال دیے اس کے لیے امن ہے _ جو ابو سفیان ( جو اُس وقت تک مسلمانوں کے دشمنوں کے سردار تھے) کے گھر میں پناہ لے اس کے لیے امن ہے _ مکہ میں داخلہ کے وقت کچھ لوگوں نے مزاحمت کی ، صرف ان سے مقابلہ کیا گیا ، باقی تمام لوگوں کو معافی دے دی گئی _ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے مکی عہد کے 13برس اور ہجرتِ مدینہ کے بعد 8 برس مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے اور ستانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی _ لیکن عام معافی میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا گیا _ فتح کے بعد آپ نے اعلانِ عام کردیا :
جَآءَ الۡحَـقُّ وَزَهَقَ الۡبَاطِلُؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ كَانَ زَهُوۡقًا _ ( الإسراء : 81)
” حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے ۔ “
یہ اتنا عظیم الشان واقعہ تھا کہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی _ تمام مؤرخین ، چاہے وہ غیر جانب دار ہوں یا مخالف ، سب نے اس واقعہ کو سراہا ہے اور اس پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے _
رسول اللہ ﷺ کے جانشینوں نے پھر اسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے _ طالبان نے کابل میں فاتحانہ داخلہ سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا ہے _ ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ عوام ، افغان حکومت کے عملہ اور کارندوں ، اتحادی افواج کے لیے کام کرنے والوں ، سب کے لیے معافی ہے _ عوام کے مال و جان کی حفاظت ہماری بنیادی ذمے داری ہے _ ان کا یہ پیغام سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نشر کیا گیا _ انھوں نے کہا کہ مجاہدین خزانہ ، عوامی سہولیات ، سرکاری دفاتر اور آلات ، پارکس ، سڑکوں اور پل وغیرہ پر خاص توجہ دیں گے ۔ یہ عوامی املاک ہیں ، ان کا تحفظ کیا جائے گا اور انہیں برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف افغانستان ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں حملہ آوروں کے لیے کام کیا اور ان کی مدد کی ، یا جو اب بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں _ ہم ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے آگے آئیں ۔
طالبان کے زوال اور عروج میں ہمارے لیے متعدد اسباق موجود ہیں :
(1) ایمان و یقین کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے _ اس کے سامنے تمام طاقتیں ہیچ ہیں _ امریکہ کی سربراہی میں ناٹو کی افواج نے طالبان کی حکومت اکھاڑ پھینکی ، اس کے بعد 20 برس تک ان پر آگ اور بارود کی بارش کی ، زبردست بم باری کی ، طرح طرح کے بھیانک اسلحہ ان پر آزمائے ، لیکن وہ افغانوں کا بال بیکا نہ کرسکیں ، اس لیے کہ وہ اللہ کا سہارا تھامے ہوئے تھے اور اس سے بڑا اور کسی کا سہارا نہیں _
(2) کام یابی قربانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے _ طالبان نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں _ وہ حکومت سے محروم کیے گئے _ ان کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا _ انہیں قید کرکے دردناک سزائیں دی گئیں _ وہ گھر سے بے گھر اور اپنی املاک سے محروم کیے گئے _ لیکن انھوں نے صبر کیا ، ڈٹے رہے اور قربانیاں پیش کرتے رہے ، بالآخر منزل نے ان کے قدم چومے اور کام یابی نے ان کی دست بوسی کی _
(3) اپنا نصب العین درست رکھنا چاہیے اور منزل پر نگاہیں جمانی چاہییں _ راستے جتنے بھی پُر خطر ہوں ، منزل جتنی بھی دور ہو ، کوئی حرج نہیں _ طالبان کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں 20 برس لگ گئے ، لیکن نہ وہ تھکے ، نہ گھبرائے ، نہ انھوں نے سستی اور تن آسانی کا مظاہرہ کیا ، بلکہ دھیرے دھیرے منزل کی طرف بڑھتے رہے ، یہاں تک کہ اسے پالیا _
(4) مشن کی تکمیل کے لیے طاقت کا حصول ضروری ہے _ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے _ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡؕ (الانفال :60)
” اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے ، مگر اللہ جانتا ہے ۔”
طالبان نے اس اصول کو اپنایا _ انھوں نے ایمانی طاقت کے ساتھ مادّی طاقت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی _ اس طرح انھوں نے اپنے دشمنوں پر اپنی دھاک اور ہیبت طاری کردی _
(5) طالبان نے ثابت کردیا کہ امّتِ مسلمہ کو عروج اور غلبہ اسی طریقے سے اور اسی راہ پر چل کر حاصل ہوسکتا ہے جس پر چل کر ابتدائی صدیوں میں حاصل ہوا تھا _ امت کی بھلائی نہ دیگر تہذیبوں کو اختیار کرنے میں ہے نہ دیگر مذہبی گروہوں کے نقشِ قدم پر چلنے میں _ کام یابی ، غلبہ اور عروج آج بھی اللہ کی اطاعت اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے نقشِ قدم کی پیروی کرنے میں ہے _
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |